جولائی ۲۰۱۸

فہرست مضامین

کشمیر: اقوامِ متحدہ کی رپورٹ

ڈاکٹر غلام نبی فائی | جولائی ۲۰۱۸ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

ایک طویل عرصے بعد اقوام متحدہ کے ایک باوقار ادارے ’انسانی حقوق کونسل‘ نے جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے دکھ درداوران پر ڈھائے جانے والے مظالم پر گہرائی میں جا کر یہ رپورٹ ترتیب دی ہے، جو دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑنے اور کوتاہیوں کی تلافی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ زیرنظررپورٹ کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں گذشتہ  دو برسوں کے دوران کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بے حرمتی کی روح فرسا تصور پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ یہاں پر اس سے پہلے بھی یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ دوسرا یہ کہ بھارت اور پاکستان پر زور دے کر کہا گیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارایت کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے انتظام و اہتمام کریں، تا کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں ۔ تیسرا یہ کہ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی قرار دادیں جو حل تجویز کرتی ہیں، وہی درست اور منصفانہ راہ عمل ہے، جس سے کسی کے لیے مفر ممکن نہیں ۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ عالمی برادری، بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے علاقوں میں انسانی اور سیاسی حقوق کی صورتِ حال کو جاننے کے لیے وفود بھیجے ، جو غیر جانب دارانہ طور پر دُنیا کے سامنے حقائق کو پیش کریں۔

اس مناسبت سے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو دنیا کے سامنے مثبت طور پر حقائق پیش کرنے کے لیے سفارتی، ابلاغی سطح پر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے لمحے بھر کی بھی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ اور دنیا بھر کے اہل الراے کو دعوت دینی چاہیے کہ وہ پہلے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں آ ئیں اور پھر بھارتی کنٹرول میں جموں و کشمیر جاکر حقائق کودیکھیں اور عالمی اداروں کے سامنے موازنہ پیش کرکے ڈیڑھ کروڑ عوام کے مستقبل کو محفوظ کریں، اور پونے دو ارب انسانوں کے خطّے جنوب مشرقی ایشیا کو جنگ کے خطرات سے بچائیں۔مدیر 

o

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے جون ۲۰۱۶ء سے اپریل ۲۰۱۸ء کے دوران ’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر مبنی رپورٹ‘ ۱۴جون ۲۰۱۸ء کو جاری کی ہے۔      اس رپورٹ میں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گرافک دستاویزات شامل ہیں۔ یہ دستاویز بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے خلاف سنگین مظالم پر بین الاقوامی ردعمل اور افسوس ناک حقائق کو تسلیم کرنے اور   دُنیا کے سامنے پیش کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس رپورٹ میں انسانیت کے خلاف بھارتی جرائم پر رازداری کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ اب عالمی برادری کشمیر کے عوام کا دُکھ درد محسوس کرےگی۔

اس رپورٹ میں مخصوص واقعات کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے، جن میں بھارتی حکومت، کشمیر کے عوام کے خلاف، انسانیت کے بہت سارے اصولوں اور جمہوری آزادی کے تسلیم شدہ ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ:’’جولائی۲۰۱۶ء میں شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کے جواب میں، بھارتی مسلح افواج نے انتہائی طاقت کا استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور بہت زیادہ لوگوں کو زخمی کیا گیا۔ اس وحشیانہ پن کی وجہ مظاہرین کے خلاف استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ہتھیار وہ شاٹ گن ہے، جس نے ہزاروں افراد اور بچوں کی آنکھیں ، جستی چھروں (pellets) سے ہمیشہ کے لیے ضائع کر ڈالیں۔

رپورٹ میں درج بہت سی مثالیں بتاتی ہیں کہ ظالمانہ قوانین کے استعمال نے بھارتی فوج کی انسانی حس کو ختم کرکے رکھ دیا ہے: ’’بھارتی حکومت نے ۱۹۹۰ء میں جموں و کشمیر کے مضطرب علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے قانون بنایا، جس میں بھارتی فوجی اور نیم فوجی فورسز کو غیرمعمولی قوت اور اختیار فراہم کیا گیا ہے‘‘۔ ان قوانین کا تشکیل پانا اور ان کا نفاذ، قانون کی   عمل داری اور احتساب کو روکتا ہے اور انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف ورزیوں کو پروان چڑھاتا ہے اور متاثرین کے لیے علاج اور حق انسانیت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

رپورٹ نے متوجہ کیا ہے کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور حصولِ انصاف تک مظلوموں کی رسائی کے راستے میں رکاوٹوں نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کو زبردست چیلنج بنا دیا ہے‘‘۔ ​​اور یہ کہ ’’کشمیر میں ان ضابطوں کے نفاذ کے باوجود تحریک چل رہی ہے۔ وادیِ کشمیر اور جموں میں بڑے پیمانے پر اجتماعی قبروں سے متعلق شکایات کی تحقیقات کی ضرورت ہے‘‘۔

بہت سی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے تجویز کیا ہے کہ کشمیر، پوری دنیا میں سب سے بڑے فوجی ارتکاز کی حراست میں جکڑا ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ:’’سول سوسائٹی اور میڈیا اکثر ۵لاکھ سے ۷لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے آئے ہیں، جس نے کشمیرکو  دنیا کا سب سے بڑا جنگی زون بنا ڈالا ہے‘‘۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بغاوت کے اس تازہ ترین اُبھار (uprising)کے دوران، عملی طور پر کشمیر کی پوری آبادی سڑکوں اور گلیوں میں سر ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج کر رہی ہے، تاکہ علاقے کے عوام کے حق خوداختیاری کے مطالبے کو منوا سکیں۔ رپورٹ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے؛ ہندستانی زیر انتظام کشمیر نے ۱۹۸۰ء کے عشرے کے آخر میں،۲۰۰۸ء اور پھر۲۰۱۰ء کے آغاز میں احتجاج کی زبردست لہروں کا نظارہ کیا ہے۔ ان مظاہروں میں دورِ ماضی سے کہیں زیادہ لوگ شامل رہے ہیں، اور پھر مظاہرین کی صف بندی (پروفائل) بھی بدل گئی ہے۔ ان میں زیادہ نوجوان، درمیانی طبقے کے کشمیری شامل ہیں۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر خواتین بھی احتجاجی تحریک میں شامل ہیں، جو ماضی میں شرکت نہیں کیا کرتی تھیں‘‘۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مذاکرات ناکام رہے ہیں کیوںکہ وہ مذاکرات کشمیرکی عوامی قیادت کو جو تنازعے کا بنیادی کردار ہیں، نظرانداز کرکے ہوتے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرکے کہا گیا ہے کہ: ماضی میں اور پھر موجودہ زمانے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرقابو پانےاور کشمیر میں تمام لوگوں کے لیے انصاف فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے، جو سات عشروں پر پھیلے تنازعے میں کچلے جارہے ہیں۔ کشمیر میں سیاسی حل کو،  تشدد کے آرے سے کاٹا اور احتساب کے خاتمے سے انجام دیا گیا ہے۔ گذشتہ طویل عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل و غارت گری کا نشانہ بننے والے افراد کو بچانے کے لیے ایک مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا ایک حل صرف اُس وقت بامعنی بن سکتا ہے کہ جب کشمیر کے لوگوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔

بھارتی انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی پی سمیت ’پیپلز یونین آف سول لبرٹیز‘ وغیرہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے افراد کو جموں و کشمیر میں بھیجا۔ بہت سی رپورٹوں میں تشدد اور ظلم کی تفصیلات شائع کیں، جو اکثر بھارتی سرکاری حکام کی زیادتیوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ، ان رپورٹوں کے مندرجات کی توثیق اور تائید کرتی ہے۔ جیساکہ سول اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے پر ایک دستخط کنندہ ملک کے طور پر بھارت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی بھی حالت میں آرٹیکل ۷کے تحت بھارت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کسی شخص کو’تشدد‘ پر مبنی ظالمانہ، غیر انسانی یا انتہائی سزا نہ دے، جب کہ  کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا مستقل ہتھکنڈا ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔

رپورٹ میں کالجوں کے اساتذہ اور مزدوری کرنے والے غریب اور نادار مزدوروں کو مارڈالنے کی متعدد مثالیں پیش کرنے کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ طبی خدمات کے مراکز اور ایمبولینس واضح طور پر نشانہ بنائی جارہی ہیں۔ ایمبولینسوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مظاہرین کو لاتی ہیں،حالاں کہ وہ زخمیوں کی مدد کرتی ہیں، انھیں طبی مدد دینے کی کوشش کرتی ہیں، مگر فوجیوں کی فائرنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ واضح طور پر یہ ان نوجوانوں اور شہری آبادیوں کو جسمانی طور پر غیرفعال اور اپاہج بنانے کا ایک مقصد ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ:’’سرینگر میں ڈاکٹروں نے سکیورٹی فورسز پر ہسپتالوں کے قریب آنسو گیس پھینکنے اور فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے اور بعض صورتوں میں، ہسپتال کے اندر گھس کر بھی وہ یہ زیادتی کرتی ہیں، جس نے ڈاکٹروں میں ذمہ داری ادا کرنے کی صلاحیت کو زبردست متاثر کیا اور مریضوں کی صحت اور زندگی کو مزید خطرات سے دوچار کیا ہے‘‘۔

اس دوران بین الاقوامی کمیونٹی کی توجہ حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ عالمی قوتوں نے بھارت سے اس زیادتی کے بارے میں پوچھنے کی زحمت سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔  دوسری طرف، بھارت، کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنان کو بین الاقوامی فورموں پر انسانی حقوق کے موضوع پر بات کرنے کے لیے نہیں جانے دیتا۔

 رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں نے جب بھی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بین الاقوامی توجہ دلانے کی کوشش کی تو انھیں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کچھ صحافیوں کی رسائی تک روک دی گئی ہے۔

 انسانی حقوق کے ایک محافظ خرم پرویز کو ۱۵ ستمبر۲۰۱۶ء کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کے لیے پی ایس اے کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ پھر انسانی حقوق کے علَم بردار وکیل کارٹک مرکوٹلا، جو خرم پرویز کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں، انھیں ۲۴ستمبر ۲۰۱۶ء کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرلیا کہ وہ جنیوا کیوں گئے تھے؟ اسی طرح فرانسیسی صحافیوں اور دستاویزی فلم ساز پولس کمیٹی کو ۹ دسمبر۲۰۱۷ء کو سرینگر میں گرفتار کیا گیا۔

اس چیز کے اچھے خاصے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کے خونیں قبضے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دوران، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات سخت تکلیف دہ ، شرم ناک اور ناقابلِ قبول ہے کہ خواتین کی عزّت و حُرمت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ:۲۰۱۳ء میں بھارت کے مشن پر خصوصی رپورٹر نے، خواتین کے خلاف تشدد اور اس کی وجوہ اور نتائج کے بارے میں کہا تھا:’’جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں سخت محاصرے اور مسلسل نگرانی کی حالت میں رہتی ہیں، چاہے یہ لوگ گھروں میں ہوں یا باہر۔ تحریری اور زبانی ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ریاستی سیکورٹی فورسز نے افراد کو لاپتا کرنے والی کارروائیوں، قتل اور تشدد اور اجتماعی عصمت دری جیسے عمل کو  مقامی باشندوں کو دھمکانے اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘‘۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل نے سفارش کی ہے:’’کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جامع بین الاقوامی تحقیقات کرنے کے لیے انکوائری کمیشن کا قیام اور اس رپورٹ کے نتائج پر غور کیا جائے‘‘۔

رپورٹ میں بھارتی حکومت کو۱۷ سفارشات دی ہیں، تاکہ ان مظالم کو ختم کیا جاسکے۔  جس کے مطابق: l فوری طور پر مسلح افواج (جموں و کشمیر) کے خصوصی اختیارات کے ایکٹ، ۱۹۹۰ کو منسوخ کیا جائے۔ lجولائی۲۰۱۶ء سے لے کر تمام شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے آزاد، غیر جانب دار اور قابل اعتماد تحقیقات کی جائیں۔lبین الاقوامی قانون کے تحت کشمیر کے لوگوں کو حق خود اختیاریت دیا جائے۔

رپورٹ میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ: ’اقوام متحدہ کی رپورٹ‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے ارکان اور پالیسی سازوں کو متحرک کرے گی، جو کشمیر میں بہیمانہ قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے اپنی قانونی طاقت سے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ رکن ممالک کے پالیسی سازوں کو مسئلے کی بنیادی وجہ کو سمجھنے کے لیے حقائق کو دیکھنا چاہیے۔ حق خود اختیاری کے ناقابلِ تنسیخ وعدے کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ضمانت فراہم کرتی ہیں‘۔

ہمیں یقین ہے کہ ہم کشمیری، کشمیر میں اس کی تقدیر کے تحفظ کے لیے، جو کہ ایک شان دار تاریخ رکھتی ہے، اسے صدمات کے منجدھار سے نکالنے کے لیے اپنی تمام توانائی، حکمت اور عزم و ہمت سے کام لیں گے۔[انگریزی سے ترجمہ: س    م     خ] ٭

 

٭ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر (۲۰۰۲ء-۲۰۰۸ء) اور سلامتی کونسل کے سابق صدر منیراکرم صاحب نے، اس رپورٹ کی مناسبت سے لکھتے ہوئے متوجہ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک مشترکہ کمیشن مقرر کر کے کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لیں، اور اگر بھارت اس سے انکار کرے تو پھر حسب ذیل اقدامات کیے جائیں:lبھارت کی سیکورٹی فورسزکے انفرادی ارکان کی شناخت کرتے ہوئے، انھیں انسانیت کے خلاف متعدد جرائم میں نامزد کیا جا سکتا ہے کہ جنھوں نے غیر مسلح مظاہرین کو روکنے کے لیے وحشیانہ فائرنگ کی اور بے بس خواتین کو جنسی تشدد اور بے حرمتی کا نشانہ بنایا ۔ انھیں جنیوا کنونشن اور [قتل عام ] سے متعلق معاہدات کے تحت مقدمات میں ماخوذ کیا جانا چاہیے۔ lبھارتی مقبوضہ کشمیر میں بہت سے بھارتی ہنگامی قوانین کے نفاذ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔ lاقوام متحدہ کے معاہدات میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پُر امن مظاہرین کو فائرنگ اور پیلٹ گنوں کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اس لیے ایسے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ l  بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی (ICRC) اور دیگر فلاحی تنظیمیں کشمیری قیدیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد اور ان سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ lبھارتی سماجی کارکنوں کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جا کر برسرِ زمین حالات دیکھنے، اور کشمیری شہریوں کو بھارت سے باہر دنیا میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کی اجازت دی جائے۔ lبھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ، جنسی تشدد اور بے حرمتی کی شکار بے بس کشمیری خواتین کے لیے انصاف کے حصول اور ایسے گھنائونے جرائم کی روک تھام کے لیے پوری قوت سے آواز اُٹھانی چاہیے، خاص طور پر کنن پوش پور کے شرمناک واقعے (جس میں بھارتی فوجیوں نے ۲۳ عورتوں اور بچیوں کی اجتماعی بے حُرمتی کی تھی)کو عبرت ناک مثال بنانا چاہیے۔ lحکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی عدالت انصاف  (ICJ) اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرے کہ وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی مناسبت سے بھارت کو انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے۔

اگر پاکستان: انسانی حقوق کی علم بردار قوتوں کو متحرک کر کے بھارت کو اس کا اصل چہرہ دکھا سکے اور    دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکے تو اس سے کشمیری عوام پر مظالم کی یلغار کم اور تشدد کے واقعات میں کمی آ سکے گی۔  اس طرح مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے طے شدہ اصول کے تحت حق خود ارادیت کے انعقاد کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ (روزنامہ Dawn، کراچی، ۲۴جون ۲۰۱۸ء)