مؤ لف نے اپنے حرمین شریفین کے دو اسفار کی اس رُوداد ( ’عقیدت ومحبت کا سفر ‘)کو غیر معمولی اہتمام اور کاوش کے ساتھ نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیا ہے۔
سرکاری ملازمت سے سبک دوشی(۲۰۰۵ء ) کے بعد سفر عمرہ (۲۰۱۱ء) اور سفر حج وعمرہ (۲۰۱۳ء) کی یہ رُوداد ،بہاول پور سے شروع ہوتی ہے ۔ لکھتے ہیںـ: ’’حج کے لیے رقم نہیں تھی زادِ راہ تو ایک طرف، درخواست جمع کرانے کے لیے لاکھوں روپے کہاں سے آئیں گے، لیکن انسان جب نیت کر لے تو اللہ رحمان ہے، رحیم ہے، وہی اسباب اور راستے کھول دیتا ہے‘‘۔ (ص۱۱)
مؤلف کا اسلوب رُوداد نویسی عام سفر ناموں سے خاصا مختلف ہے۔ مثلاً: مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرے کی رُوداد مختصراً بیان کرنے کے بعد، وہ حال سے ماضی کی طرف پلٹتے ہیں ۔وادی بے آب وگیاہ میں حضرت ہاجرہ ؓ کی آمد ، آب زم زم ، بیت اللہ پر اَبرہہ کے حملے، مختلف زمانوں میں خانہ کعبہ کی تخریب وتعمیر ، اس کے ساتھ خانہ کعبہ کا مفصل تعارف (حطیم، میزاب ِ رحمت، اندرونی منظر اور چھت، رکنِ یمانی ، ملتزم، غلافِ کعبہ، حجرِ اسود ) میقات، دارِارقم ، نہر زبیدہ، دارالندوہ، جنت المعلّٰی ___ ان سب کی تفصیل بیان کرنے کے بعد، وہ مختلف ممالک کے حجاج کرام سے ملاقاتوں اور تبادلۂ خیال کی رُوداد بیان کرتے ہیں۔ یہ تاثرات بھی بہت دل چسپ ہیں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر پھر اسی طرح حرم نبویؐ، مدینہ کے قابلِ ذکر مقامات ومساجد کی رُوداد ِ زیارت۔
سفر نامے میں نئی پرانی نادرونایاب تصاویر دی گئی ہیں اور مختلف مواقع اور مقامات کی دعائیں بھی۔ آیاتِ قرآنی اور ان کے ترجمے کا بھی اہتمام ہے۔ یہ ایک اچھی رہنما کتاب بھی ہے ۔ مؤلف کا ذوق جمال قابلِ داد ہے ۔ اسلوب سیدھا سادہ اور دل نشین ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
زیرتبصرہ مجلے پر کوئی راے دینے سے پہلے ایک اقتباس پیش خدمت ہے، جو ادارہ معارف اسلامی کراچی کے مؤسس سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے خطبے سے لیا گیا ہے۔ یہ خطبہ انھوں نے اس ادارے کی تاسیس کے وقت بیان فرمایا تھا:
اس سلسلے میں یہ بات وضاحت طلب ہے کہ علمی تحقیقات کس نوعیت کی ہمیں مطلوب ہیں؟ ایک تو وہ ریسرچ ہے جومغربی محققین ہم کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ایک بے مقصد اور بے رنگ ریسرچ، محض ریسرچ براے ریسرچ ہے۔ مثلاً کتابوں کو ایڈٹ کرنا، ان کے مختلف نسخوں کا مقابلہ کرکے ان کی عبارتوں کے فرق کو پرکھنا اور مصنّفین کی سنینِ وفات و پیدایش کو جمع کرنا اور اسی قبیل کی جو ریسرچ ہے، وہ بے مقصد اور بے معنی ریسرچ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ علوم و فنون میں مددگار ہوتی ہے، لیکن بجاے خود یہ وہ ریسرچ نہیں ہے جو کسی قوم کو زندگی کی حرارت عطا کرے، اور حیات کی حرکت پیدا کرے۔ یہ ٹھنڈی اور بے معنی ریسرچ ہے۔ اہلِ مغرب ایک ریسرچ اور کرتے ہیں۔ وہ محرک قسم کی ریسرچ ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے ہے کہ اُن کے پاس وہ طاقتیں فراہم ہوں، کہ جوان کو دُنیا پر غالب کرسکیں۔(ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، جون ۱۹۶۷ء، ص ۹)
اس اقتباس کی روشنی میں، ۳۱۴صفحات پر مشتمل زیرنظر مجلہ تحصیل کو دیکھیں تو کم و بیش مذکورہ ہدایت کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ جو چیز اس ادارے کی جانب سے پیش کرنا تھی، وہ اس مجلّے میں موجود نہیں، اور اگر موجود ہے تو اس کی سطح توقعات سے مناسبت نہیں رکھتی۔
یہ مجلہ ادبیات و سماجیات سے متعلق یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ کے ’فارمولا ٹائپ‘ مقالات پر مشتمل ہے۔ مضامین کے عنوانات سے بلاتبصرہ مجلے کا رُخ سمجھنا آسان تر ہے: lگنجینۂ معنی کا طلسم، رنگا رنگ معنویت کی دریافت l سیّد علی رضا نقوی: لائق فارسی تذکرہ شناس اور فائق لُغت نگار lانیسویں صدی میں اُردو تاریخ گوئی l عبدالرحیم خان خاناں، ہندوتوا کا پرچار l گیان چند جین کی اَشک شناسی اور ناول گرتی دیواریں l یاقوت l فہرست نویسی نسخہ ہاے خطی فارسی l جامعات میں اُردو تحقیق، کچھ تسامحات، کچھ استدراکات l انیسویں صدی کا ہندستان ، جدید مؤثر اسلامی تحریکات l تحفۃ الہند___ انگریزی میں: مسلم تہذیب کے زوال کے اسباب l داؤ رہبر، ترکی میں اُردو کا پہلااستادl شہدا بالقسط l انگریزی اور پاکستانی کلچر lکیٹلاگ ، فارسی، عربی، سنسکرت۔
ادارہ معارف اسلامی، جو عالمِ اسلامی میں اقامت دین کی جدوجہد سے منسوب ادارہ ہے، اس کا ایک وقیع مجلہ اگر ایسے ہی مندرجات پر زورآزمائی کرے گا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مطلوب اور منسوب موضوعات پر تحقیق و تجزیہ کہاں ہوگا؟
زیرنظر مجلّے میں براہِ راست اسلامی تحریکات سے متعلق واحد مضمون کی سطح کو سمجھنا یا پرکھنا چاہیں تو دو مثالیں، پیمایش کے لیے کافی ہوں گی۔ لکھا ہے:’’جمال الدین [افغانی] کے دانش ور تلامذہ میں سے ایک حسن البنا بھی تھے، جنھوں نے ’اخوان الصفا‘ کی بنیاد رکھی‘‘ (ص ۱۸۳)۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ جمال الدین افغانی کا انتقال ۱۸۹۷ء میں ہوا، اور حسن البنا کی پیدایش ۱۹۰۶ء میں۔ سوال یہ ہے کہ البنا، افغانی کے شاگردوںمیں کیسے شمار ہوئے؟ اسی طرح ’اخوان الصفا‘ جیسی تصوف و فلسفہ سے منسوب جماعت کی تاسیس پانچویں صدی ہجری/۱۰ویں، ۱۱ویں صدی عیسوی میں ہوئی، جب کہ الاخوان المسلمون کا قیام ۱۹۲۸ء میں عمل میں آیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ حسن البنا ۲۰ویں صدی عیسوی میں ہوش سنبھال کر، ۱۱ویں صدی میں کوئی تحریک قائم کرلیں؟ ظاہر ہے کہ یہ ادارتی تسامح ہے، مگر مقالہ نگار نے بھی ’دادِ تحقیق‘ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اگر واقعی ’فارمولا تحقیق‘ کی اشاعت کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، تو اعتراض کی گنجایش نہیں۔ بہرحال، مولانا مودودی نے اس ادارے کی تاسیس مختلف کام کے لیے کی تھی۔اور پھر پروفیسر خورشیداحمد نے بھی تاسیس کے وقت وضاحت فرمائی تھی: ’’ادارہ معارفِ اسلامی، علم و فکر کے میدان میں اسلام کے دفاع اور اس کی ترجمانی کی کوشش کرے گا‘‘۔(ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۳ء، ص۴۷)
مجلے کا کاغذ سفید ، پیش کش خوب صورت اور اشاعت توجہ طلب ہے۔ (سلیم منصور خالد)