کتاب بے گناہ قیدی کیوں لکھی گئی ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کے مصنف قانونی عدالت کے علاوہ عوامی عدالت میں بھی اپنا اور اپنے جیل کے ساتھی قیدیوں کا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ لوگ یہ دیکھ لیں کہ بھارت کی حکومتیں، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں اور قانونی نظام کیسے دہشت گردی کے معاملات میں بے قصور ملوث کیے جانے والوں سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔یا بالفاظِ دیگر یہ نظام کیسے بے قصوروں کو جھوٹے معاملات ومقدمات میں ملوث کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔
ممبئی کے سلسلہ وار لوکل ٹرین بم دھماکوں ۱۱جولائی ۲۰۰۶ء کے مقدمے سے بَری ’بے گناہ قیدی‘ عبدالواحد شیخ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں؛’’ہم یہ بات شرح صدر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ۱۱جولائی بم بلاسٹ کیس میں گرفتار تمام قیدی بے گناہ ہیں۔ گذشتہ ۱۰ برسوں سے زائد عرصہ سے وہ قید و بند کی صعوبتیں بلا سبب برداشت کر رہے ہیں۔ ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں‘‘ (ص ۸)۔ اس ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ عبدالواحد شیخ کی اس بات کو تسلیم کرتا ہے، جن میں مسلمان ہی نہیں غیرمتعصب غیرمسلم بھی شامل ہیں۔ عبدالواحد شیخ تو ’۱۱جولائی مقدمے‘ سے بَری ہوگئے لیکن مکوکا (MCOCA) کورٹ نے ستمبر۲۰۱۵ء میں مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ان ۱۲؍افراد کو ’ذمہ دار‘ قرار دیا ہے، جنھیں ان کے اعزہ و اقارب اور دوست احباب ہی نہیں، بلکہ ملک کی کئی غیر سرکاری تنظیمیں بشمول جمعیۃ العلماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) بھی بے گناہ سمجھتی ہیں۔ واضح رہے کہ جمعیۃ العلماء مہاراشٹر کا ’شعبہ قانونی اُمور‘ گلزار اعظمی کی زیرقیادت دہشت گردی کے کئی بے معنی مقدمات میں قانونی جنگ کے محاذ پر ہے۔ ان بارہ ’بے گناہوں‘ میں سے پانچ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور سات کو عمر قید۔
عبدالواحد شیخ کی ۴۵۹صفحات پر مشتمل کتاب ’ بے گناہ قیدی‘ حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے۔ اسے نئی دہلی کے اسی اشاعتی ادارے[books@pharasmedia.com] نے شائع کیا ہے، جس نے مہاراشٹر کے مستعفی انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کی محققانہ کتاب کرکرے کے قاتل کون؟ شائع کرکے اے ٹی ایس (اینٹی ٹیررازم اسکواڈ)کے سربراہ آنجہانی ہیمنت کرکرے کی موت میں سنگھی دہشت گردوں کو ملوث بتایا تھا۔ اسی طرح ۲۶نومبر کے ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کو ایک نیا تناظر فراہم کیا تھا۔
مصنف نے ’تمہید ‘کے عنوان سے تحریر کیا ہے:’’دل میں یہ بات تھی کہ ’۱۱جولائی کیس‘ میں جس طرح ہمیں پھنسایا گیا، اس بارے میں تفصیل سے لکھ کر عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے،تاکہ خدانخواستہ اگر مستقبل میں پولیس کسی بے گناہ پر بم بلاسٹ کا کیس ڈالے، تو وہ کس طرح ذہنی طور پر تیار ہوکر کورٹ کچہری کا مقابلہ کرے، تاکہ پولیس کے شر سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رہے اور پہلے روز سے بے خوف ہوکر کورٹ میں اپنا دفاع کرسکے ۔ یہ کتاب اس مقصد سے لکھی گئی ہے‘‘۔ کتاب چھے ابواب میں منقسم ہے۔
پہلا باب ’پولیس کا افسانہ‘ کے عنوان سے ہے۔ اس باب میں ضمنی عنوانات کے تحت کھارسب وے (باندرہ )بلاسٹ ،جوگیشوری بلاسٹ ، بوریولی بلاسٹ اور میرا روڈ بلاسٹ کے حقائق اُجاگر کیے گئے ہیں۔ ’سرکاری دہشت گردی‘ کے ضمنی عنوان کے تحت اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کے مطابق ’جھوٹی کہانی‘ کے ضمنی عنوان سے چارج شیٹ کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔ چارج شیٹ میں ملزمان پر منصوبہ بند سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان پراسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI) اور لشکرطیبہ اور پاکستان میں دہشت گردوں سے روابط کا الزام عائد کرکے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کو فرار کرانے میں ملزمان کا کردار رہا ہے‘ ۔ چارج شیٹ سے منسلک ۱۲ ہزار سے زائد صفحات کو جوڑا گیا ہے۔ دوہزار سے زائد گواہوں کی فہرست شامل کی گئی ہے ۔ عبدالواحد شیخ تحریر کرتے ہیں ’’اے ٹی ایس پولیس کی یہ چارج شیٹ اور اس میں بیان کردہ کہانی سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘(ص ۱۹)۔ وہ سفید جھوٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کئی سوال اٹھاتے ہیں،مثلاً یہ کہ پولیس کسی ایک بھی پاکستانی کو زندہ گرفتار کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئی؟
چارج شیٹ میں بارہ پاکستانیوں کے نام دیے گئے ہیں، جو دومہینے تک ملزمان کے ساتھ رہے اور بم بلاسٹ کرکے چلے گئے لیکن پولیس کسی کو نہیں پکڑسکی۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمام تیرہ ملزمان نے عدالت کوزبانی اور تحریری طور پر یہ بتایا ہے کہ ہم سب بے گناہ ہیں اور اس کیس میں غلط طریقے سے پھنسائے گئے ہیں۔ پھر ان ملزموں نے اپنا کال ڈیٹا ریکارڈ اور اس کی لوکیشن کورٹ میں پیش کرکے بھی اپنی بے گناہی ثابت کی اور یہ بتایا ہے کہ بلاسٹ کے وقت وہ ممبئی میں نہیں بلکہ دوسرے شہروں میں تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے مصدقہ کال ڈیٹا ریکارڈ اور لوکیشن پر کیوں اعتبار نہیں کیا گیا ؟ اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ پھر پُراسرار طریقے سے ملزموں کے موبائل فون کے کال ڈیٹا ریکارڈ کیوں غائب کردیے گئے ؟
بہت سے سوالات کے ساتھ عبدالواحد نے جھوٹی گواہیاں گھڑنے اور پولیس کے ذریعے جھوٹے شواہد اور ثبوتوں کو جمع کرنے کے طریق کار پر بھی روشنی ڈالی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ اے ٹی ایس نے ان گواہوں کو، جن کی گواہی سے اے ٹی ایس کے افسانے کی قلعی کھل جاتی، کورٹ میں گواہی کے لیے بلایا ہی نہیں! پھر پولیس آج تک عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکی ہے کہ گرفتار ملزمان پابندی (ban) سے پہلے ایس آئی ایم (اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ)کے ممبر تھے۔ اس باب میں ملزمان پر ٹارچر، دباؤ اور زوروجبر اور دھمکیاں دینے کا بھی ذکر ہے، اور ان حلف ناموں کا بھی، جو ملزمان نے دیے ہیں اور جن سے پولیس کا اصل چہرہ عیاں ہوکر سامنے آتا ہے ۔
دوسرے باب کا عنوان ’اقبالیہ بیان کی حقیقت‘ ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ ’اعترافِ جرم‘ خود پولیس کے ہاتھوں تیار کیے جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ڈی سی پی نے کچھ لکھے ہوئے، کچھ ٹائپ کیے ہوئے کاغذات ملزم کے سامنے بڑھادیے کہ دستخط کرو۔ کسی ملزم نے کہا کہ مجھے پڑھنے دیا جائے تو ڈی سی پی نے انکار کردیا ور اے ٹی ایس والوں کو اشارہ کرکے کہنے لگا کہ تم لوگوں نے اس کو ’برابر گرم‘ (ٹارچر) نہیں کیا ہے۔ پھر ملزم نے احتجاج کیا تو اسے بلیک میل کیا گیا: ’’تیرے بھائی کو اور تیری بیوی کو اٹھاکر لائے ہیں۔ اگر تم نے دستخط نہیں کیے تو تیرے گھر والوں کو بم بلاسٹ کے کیس میں گرفتار کرلیں گے ، یہ ہمارے لیے کچھ مشکل نہیں ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتی ‘‘۔ اس باب میں اس وقت کے ’اینٹی ٹیررازم اسکواڈ‘ کے سربراہ پی رگھوونشی کی مذموم سرگرمیوں کا بھی ذکر ہے۔
تیسرے باب کا عنوان ہے ’نان فکشن(حقیقی)‘۔ اس میں ’۱۱جولائی کیس‘ کے ملزمان کے وہ حلف نامے اور بیانات پیش کیے گئے ہیں، جن میں انھوں نے خود کو بے گناہ کہا ہے اور بتایا ہے کہ پولیس نے انھیں جھوٹے کیس میں پھنسایا ہے۔ ان حلف ناموں کا مطالعہ رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ کمال احمد انصاری کو کورٹ نے ’مجرم‘ قرار دیا ہے۔ کورٹ میں اس کا ۱۷جولائی ۲۰۱۲ء کا پیش کردہ حلف نامہ چونکانے والا ہے۔ ایک جگہ تحریر ہے؛’’مجھے اے ٹی ایس والوں نے تھرڈ ڈگری ٹارچر کرنے کے بعد لالچ دینا شروع کیا کہ ’تو اس جھوٹی کہانی کے لیے ہاں کردے، ’تجھے ہم چارلاکھ روپے دیں گے ، تو سرکاری گواہ بن جا۔‘ میں نے ان کو منع کیا تو اے ٹی ایس والوں نے میرے ساتھی ملزموں کو روپے اور فلیٹ کا لالچ دیا اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی نے ڈرانا شروع کیا کہ ہم لوگ تمھارے گھروالوں کو بھی پھنسائیں گے‘‘۔(ص۱۲۶)
مصنف ایک ملزم ڈاکٹر تنویر انصاری کا بیان پیش کرتے ہیں:’’۲۱نومبر۲۰۰۶ء کو جیل افسر گووند پاٹل مجھے انڈابیرک سے نکال کر جیل سپرنٹنڈنٹ شریمتی سواتی ساٹھے کے آفس میں لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد رگھوونشی وہاں آیا تو مجھے اس کے سامنے زبردستی بٹھایا گیا۔ رگھوونشی غصّے میں تھا، کیوںکہ میں نے اس کے بتائے ہوئے طریقے پر نہ چل کر کنفیشن [اعترافی بیان]کا انکار کردیا تھا۔ وہ مجھے سرکاری گواہ بناکر جلد جیل سے نکلنے کا مشورہ دیتا رہا۔ اس نے مجھے اور میرے گھر والوں کو گالیاں دیں۔ ’سوچ لو اور اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرلو‘۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا‘‘۔ (ص۱۴۵)
احتشام قطب الدین کے بیان میں حیرت انگیز طور پر ڈی جی ونجارا کا ذکر ملاحظہ کریں: ’’ایک افسر نے مجھ سے پوچھ تاچھ کی اور کہا: ’’ہم کسی مسلمان کو پکڑتے ہیں تو اس کو گولی سے اڑادیتے ہیں‘‘۔ مئی ۲۰۰۷ء میں اس افسر کا فوٹو میں نے اخبار میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ افسر گجرات اے ٹی ایس کا چیف ڈی جی ونجارا ہے، جو سہراب الدین کے فرضی انکاؤنٹر کیس میں گرفتار ہوا‘‘۔(ص۱۶۶)
اس باب میں اے سی پی ونود بھٹ کی سنسنی خیز خودکشی کا بھی ذکر ہے۔ ونود بھٹ نے احتشام سے یوں گفتگو کی: اگست ۲۰۰۶ء کے آخری ہفتے میں مجھے بھوئی واڑہ اے ٹی ایس لاک اَپ کی دوسری منزل پر، اے سی پی ونود بھٹ کے سامنے لے گئے۔ جو بات چیت ہوئی وہ اس طرح ہے:
ونود بھٹ: میں نے اس کیس کے سارے کاغذات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ پایا ہے کہ تم اور دیگر گرفتار ملزم ’۱۱جولائی بم بلاسٹ‘ میں ملوث نہیں ہو۔
احتشام: ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم بے گناہ ہیں ۔ پھر ہمیں اس کیس میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
بھٹ: اصل مجرم نہیں ملے اس لیے ۔
احتشام: یہ سب کس کے اشارے پر ہورہا ہے ؟
بھٹ: پولیس کمشنر اے این رائے اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی مجھ پر سخت دباؤ ڈال رہے ہیں کہ تمھارے خلاف بم بلاسٹ کیس کی جھوٹی چارج شیٹ تیار کرکے کورٹ میں داخل کروں۔
احتشام: کیا آپ ایسا کریں گے؟
بھٹ: نہیں ،حالانکہ وہ میری بیوی کو ایک کیس میں پھنسانے کی بات کررہے ہیں۔
احتشام: کیا ہم چھوٹ جائیں گے ؟
بھٹ: اللہ پر بھروسا رکھو۔ مرجاؤں گا لیکن بے گناہوں کو اس کیس میں نہیں پھنساؤں گا۔
اس واقعے کے کچھ دن بعد ونود بھٹ نے خودکشی کرلی ۔
چوتھا باب ’پولیس ٹارچر(تعذیب)‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس باب میں ’چکّی کا پٹّہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے، کہ جسمانی ٹارچر کے لیے پولیس سب سے زیادہ ’چکّی کے پٹّے‘ کا استعمال کرتی ہے۔ ہم نے اے ٹی ایس پولیس اسٹیشن میں جتنے ’پٹّے‘ دیکھے ہیں، ان پر یہ جملے ہندی زبان میں صاف طو رپر لکھے ہوئے تھے: (۱) سچ بول پٹّہ (۲) میری آواز سنو (۳) اندھا قانون (۴) یہاں پتھر بولتا ہے (۵) بولنے والا پٹّہ (بحوالہ ص۳۶۷)۔ ۱۸۰ڈگری ٹارچر، ننگا کرنا ، مخصوص اعضا پر بجلی کے جھٹکے، مقعد میں ٹارچر، آگ اور پانی کا عذاب، بالوں کا ٹارچر، سردی کا ٹارچر، نیند سے محروم کرنا، اکیلے بند کرنا، قتل کرنے کا ناٹک، حسیاتی بمباری اور گالیاں وغیرہ ٹارچر کے مختلف طریقے ہیں، جن پر کتاب میں بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے (ص ۳۶۹ تا ۳۷۴)۔ ’جھوٹ بتانے والے ٹیسٹ‘ کے حقائق بھی اُجاگر کیے گئے ہیں۔
پانچواں باب ’انڈین مجاہدین‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ’انڈین مجاہدین‘ نامی ایک پُراسرار تنظیم کا تذکرہ ہے۔ عبدالواحد شیخ نے جگہ جگہ کورٹ کے رویّے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:’’ کورٹ میں بال کی کھال اُتاری جاتی ہے اور ہر دستاویز کو باریکی سے جانچ پرکھ کر قبول کیا جاتا ہے، تو پھر (دفاعی گواہ) صادق (اسرار احمد شیخ)کے نام کے حلفیہ بیان کو اس کے دستخط کے بغیر کورٹ نے کیسے قبول کیا؟ کورٹ نے صادق کو عدالت میں بلاکر یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ یہ بیان تمھارا ہے یا نہیں؟ اور تم نے اس بیان پر دستخط کیوں نہیں کیے ؟‘‘ (ص۴۰۰)
چھٹا باب ’پولیس اسٹیٹ‘ انتہائی اہم باب ہے۔اس باب میں جرمن بیکری بلاسٹ سے لے کر صحافی آشیش کھیتان کے اسٹنگ آپریشن، مالیگاؤں بم بلاسٹ ۲۰۰۶ء، اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کیس، اورنگ آباد میں سابق فوجی کے گھر سے ہتھیار کی برآمدگی اور اکثردھام مندر حملہ تک، الگ ضمنی عنوانات سے مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’پولیس کی غیر قانونی حراست کے دوران کئی پولیس افسران نے ہم سے بار بار کہا کہ مسلمان ملک کے غدار ہیں‘‘۔ ’’پاکستان کے خالق، دہشت گردی کے جنم داتا اور وطن پر بوجھ ہیں‘‘۔ انسپکٹر کھانولکر ، ورپے اور دھامنکر اکثر کہتے تھے کہ: ’’ہمیں اتنی پاور حاصل ہے کہ ہم کسی بھی مسلمان کو کسی بھی وقت انکاونٹر میں مارسکتے ہیں، بم بلاسٹ میں گرفتار کرکے پھانسی دلاسکتے ہیں، زندگی برباد کرسکتے ہیں اور کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ اور یہی کام ’۱۱جولائی کیس‘ میں ہوا ہے‘‘۔
یہ کتاب ان مسلمانوں کا، جو دہشت گردی میں گرفتار کیے گئے مگرجو خود کو بے گناہ قرار دیتے ہیں ،اور حقائق بھی ان کی بے گناہی کی توثیق کرتے ہیں، مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کرتی ہے۔ کیا لوگ جاگیں گے اور انصاف کی فراہمی کے لیے آواز بلند کریں گے؟
کتاب کے مصنف ’آخری بات‘ کے زیرعنوان ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ملک کی موجودہ صورت حال میں اس کتاب میں لکھی ہوئی اکثر باتوں سے انکار یا اختلاف مشکل ہے۔ ہم بس اتنا چاہتے ہیں کہ اس جھوٹے کیس میں پھنسائے جانے کی وجہ سے ہم جس کرب سے گزرے ہیں، ملت کا دوسرا فرد اس سے نہ گزرے اور ملت کے علما و دانش وَر اس سلسلے کو روکنے کے لیے کوئی لائحۂ عمل تیار کریں۔ خدارا ،کچھ کیجیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے‘‘۔ (ص۴۵۹)