جولائی ۲۰۱۸

فہرست مضامین

فلسطین میں ۱۴مئی کا قتلِ عام

ڈاکٹر حمید دباشی | جولائی ۲۰۱۸ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

غزہ میں ۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینی مظلوموں کے قتلِ عام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اسی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایونیکا کی قیادت میں غاصب صہیونیوں نے یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کی رسم ادا کی۔

درندگی کی بھی ایک تاریخ ہے:۲۹دسمبر ۱۸۹۰ء کو امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مقامی   سرخ ہندی باشندوں (ریڈ انڈینز) کا ’لکوٹا میں  قتلِ عام‘ ، ۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں برطانوی فوجیوں کے زیراقتدار قتلِ عام، پھر ۱۶مارچ ۱۹۶۸ء کو ویت نام میں امریکی   حملہ آوروں کے ہاتھوں مائی لائی کے مقام پر مظلوم ویت نامی باشندوں کے قتلِ عام کی مثالوں کے ساتھ آیندہ ۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو اسرائیلیوں کی اس وحشت ناکی کو بھی یاد رکھا جائے گا۔

اس دن کے اختتام پر غزہ میں وزارتِ صحت نے رپورٹ پیش کی کہ اسرائیلی فوج نے ۶۰فلسطینیوں کو قتل اور ۲۷۷۱ کو زخمی کیا، اور یہ سب ۲۴گھنٹوں سے کم عرصے میں کیا گیا۔ اسرائیلی ماہر نشانہ باز فوجیوں نے اپنے افسران کی براہِ راست کمان کے تحت اس وحشت کا ارتکاب کیا، جنھیں اسرائیلی وزیردفاع ایوگڈرلبرمین اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ وہی نیتن یاہو جسے انسانوں سے نہیں، آبادکار اور غاصب یہودیوں سے دل چسپی ہے۔

روزنامہ نیویارک ٹائمز نے اپنی تفصیلی رپورٹ ’غیرمسلح فلسطینیوں کا غزہ میں قتلِ عام‘ میں بڑی تفصیل سے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے کس قدر بڑے پیمانے پر اور بے دریغ نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیلی بے صبر ہوگئے کہ وہ نہتے مظاہرین، جو اپنےہی علاقے میں احتجاج کر رہے تھے، یہ ان نہتوں پر حملہ آور ہوکر انھیں سبق سکھانے پر تل گئے؟ ان فوجیوں کے نزدیک نیتن یاہو، اسرائیل ہے اور اسرائیل نیتن یاہو۔  نیتن یاہو اور جبری طور پر یہودی آبادکار ہی سامراجیت کے پردے میں زندگی کا حق رکھتے ہیں، اور یہاں سیکڑوں برسوں سے آباد فلسطینیوں کا مقدر تباہی ہے۔ وہ تباہی جسے ۱۴مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل کے قیام کے روز سے آج تک روا رکھا جا رہا ہے۔

فلسطینی مظاہرین، جو غزہ میں اپنی ہی بستی میں مظاہرہ کر رہے تھے، اسرائیلیوں نے آتشیں اسلحے، آنسو گیس اور آگ لگانے والے بموں سے ان مظاہرین پر بے دریغ حملہ کر دیا   جس سے ۶۰فلسطینی موقع پر شہید ہوگئے اور ۲۷۰۰ سے زائد زخمی ہوگئے۔

۱۴مئی ۲۰۱۸ء کو ۱۳۰۰ فلسطینی براہِ راست فائرنگ کا نشانہ بنے۔ اس قتل و غارت کا نشانہ بنانے والا کچھ اسلحہ یقینی طور پر امریکی ساختہ تھا۔ جب امریکی صدر بارک اوباما کی سوانح عمری میں درج ہے کہ: ’’ہم نے ۳۸؍ارب ڈالر اسرائیل کو فوجی معاونت کے لیے دیے ہیں‘‘ تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ امریکا نے اسرائیلی فوج کو یہ اجازت نامہ عطا کیا ہے کہ وہ نہتے فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنائیں۔

۳۰مارچ سے ۱۶مئی ۲۰۱۸ءکے درمیان اسرائیلی فوجیوں نے خون سرد کردینے والی  بے رحمی سے ۱۱۰ سے زیادہ فلسطینی قتل کیے، جن میں ۱۲ بچے تھے اور دو صحافی،پھر علاج معالجے میں متحرک ایک ڈاکٹر بھی تھا کہ جسے موت کا نشانہ بنایا گیا۔ اس عرصے میں مظاہرہ کرنے والے ۱۲۷۰۰ فلسطینی زخمی اور شدید مجروح کیے گئے۔ان زخمیوں کو طبّی امداد کی شدید ضرورت تھی، مگر اسرائیلی پابندیوں کے باعث بنیادی ادویات اور جراحی کی سہولیات تاحال ناپید ہیں۔

اسرائیلیوں کی جانب سے پُرامن مظاہرین کے اس قتل عام کے جرم میں نیتن یاہو اور ہراسرائیلی لیڈر، جنگی ملزم کے طور پر عالمِ انسانیت کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسی طرح ۱۹۴۸ء سے لے کر آج تک، منتخب ہونے والا ہر امریکی صدر، چاہے وہ مقبولِ عام ہے یا سخت ترین نفرت کا نشانہ، زندہ ہے یا مُردہ، یقینی طور پر وہ بھی اسرائیلی جارحیت، ظلم اور انسانیت سوز جرائم کے لیے دنیا کے سامنے جواب دہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سب کے سب، عشروں پر پھیلے درندگی کے اس کھیل کی مناسبت سے جنگی جرائم کی پاداش میں عبرت ناک سزا کے مستحق ہیں۔

پھر دُنیا بھر کے ممالک کے سفیروں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے مقابلے میں امریکی نمایندے نکی ہیلی کا اسرائیل نواز رویہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ مغربی میڈیا کے وسیع منظرنامے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سے فلسطینیوں کے خلاف یک طرفہ طور پر حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے، بُرا بھلا کہنے، بلکہ گالیاں تک دینے کی روایت برقرار ہے، جب کہ غاصب یہودی آبادکاروں کی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے جیسی کارروائیوں کو درست، قانونی اور ناگزیر قرار دینے کا رویہ، ہر ذی شعور کو ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ پھر فلسطینیوں کی لاشوں پر گانے اور ناچنے والے اسرائیلیوں کے لیے تو یہ سب رنگ و نشاط کا بہانہ ہے۔

ہم یاد رکھیں گے!

فلسطین کی قیادت جو ’حماس‘ اور ’الفتح‘ تنظیموں کی ستّرسالہ جدوجہد کا ثمر ہے، اس قیادت نے سات عشروں پر پھیلی شجاعت، ذہانت، والہانہ جذبوں سے سرشار اپنی اس جدوجہد میں لمحے بھر کے لیے شک، تھڑدلی اور مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے ارضِ فلسطین کو غاصبوں کے قبضے سے چھڑانے کے اس مرحلے کو’واپسی کا عظیم سفر‘ کا نام دیا۔ حُریت کی اس لہر اور جوش کے دور میں صہیونیت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ایک عرب شہزادے نے فلسطینی سرفروشوں سے کہا: ’خاموش رہو‘ ، مگر انھوں نے اپنی جدوجہد سے اس مشورے کو مسترد کرنے کا پیغام دیا۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے نزدیک اسرائیل اور اسرائیل کے پرچم کا مطلب کوئی ریاست یا ریاست کی علامت نہیں ہے، بلکہ ان کا مطلب ہے: مظلوم انسانوں کے لہو سے رنگی وحشت انگیزی، قتلِ عام، زمینوں پر غاصبانہ قبضہ، بسنے والوں کی ظالمانہ بے دخلی، اور جنگی جرائم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ اسی لیے تمام فلسطینی مظاہرین اپنے مادرِ وطن کی واپسی، زندگی کی بحالی اور اختیار چاہتے ہیں، جب کہ اسرائیلی فوجی جواب میں بے دریغ گولیوں کی بوچھاڑ کرتے اور وحشیانہ انداز سے انھیں کچلتے ہیں۔

۳۰مارچ ۲۰۱۸ء سے فلسطینیوں نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے پُرامن سول نافرمانی کی تحریک شروع کی، تو اسرائیل اور اس کے عالمی سیاسی سرپرستوں اور مغربی مددگاروں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا ۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد کو سننے اور سمجھنے کے بجاے، اس پوری تحریک ہی کو بے وقار اور بدنام کرنا شروع کر دیا۔ روزنامہ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریوں میں نفرت انگیز خیالات کا اظہار کیا۔ اسی طرح ان مؤثر اخبارات کے صفحے  مغربی حکومتوں کے شدید مخالفانہ بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ امریکا میں لبرل اور ترقی پسندانہ خیالات رکھنے والے سیاسی رہنما برنی سینڈرز تک نے اہلِ فلسطین کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔مراد یہ ہے کہ امریکا اور مغرب میں اخلاقی اور انسانی قدریں موت کا شکار ہیں۔ یعنی برنی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر ہیلری کلنٹن تک ایک ہی جیسے خیالات کے حامل ہیں کہ: ’’فلسطینیوں کے لیے موت اور صہیونیوں کے لیے شادمانی کے ہم طرف دار ہیں‘‘۔

فلسطینیوں کے خلاف نفرت، بدنہادی اور بدخواہی پر مبنی ان تمام امریکی اور مغربی کوششوں کے باوجود، اہلِ فلسطین کے موقف کی سچائی روشن اور سربلند ہے۔ ان کی انقلابی جدوجہد نے مہذب انسانوں اور دُنیا کے تمام ملکوں کو احترامِ آدمیت،بنیادی انسانی حقوق کے احترام اور سامراجیت کے خلاف بے زاری و نفرت کا پیغام دیا ہے، اور یہ یاد دلایا ہے کہ مادرِ وطن کی آزادی اور خود اختیاری ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔

فلسطینیوں کے ۳۰مارچ ۲۰۱۸ء کی تحریک جیسے غیرمعمولی بہادرانہ اور جرأت آمیز سیاسی اقدام نے، اسرائیلیوں کے غیرانسانی، غیرقانونی ، غاصبانہ اور نوآبادیاتی جبر کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔

۱۴مئی ۲۰۱۸ء کے قتلِ عام نے یہ سوال پیش کیا ہے کہ، دنیا بھر کے انسانو!یاد رکھو!  شرفِ انسانیت، غزہ کے مظلوموں کی قسمت میں لکھا ہے۔ دُنیا کے ہرفرد کے سامنے یہی سوال ہے کہ تم اگر انسان ہو، اور تم اگر ضمیر رکھتے ہو، تو تم لازمی طور پر فلسطینیوں کے ہم قدم اور طرف دار ہو۔ اگر تم ضمیر سے محروم اور انسانیت سے تہی دامن ہو تو تم دوسری جانب درندگی کے ساتھ کھڑے ہو۔

۱۴مئی کے قتل عام کے بعد کیا کرنا چاہیے؟ جیسے سوال کا جواب ہے: ’سب کچھ کرنا چاہیے‘۔ اس خون آلود دن کو فلسطینیوں نے ایک نہایت قیمتی سبق سکھایا ہے اور وہ ہے: ’مقابلے اور وقار کی طاقت‘۔ اس غیرمعمولی انقلابی تحریک کے ایک مربوط اور پُرامن عمل نے بتا دیا ہے کہ: اندھی،  بہری قوت کے رکھوالو! فلسطینی کہیں نہیں جارہے۔ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور وہی اپنی تقدیر اور اختیار کے مالک ہیں۔ نہ وہ کسی بددیانت قیادت کو قبول کریںگے اور نہ غاصب صہیونیت کی حاکمیت کو تسلیم کریں گے۔

۱۴مئی کو فلسطینی حُریت پسندوں نے انسانیت کا وہ سبق یادداشت میں تازہ کر دیا، جسے  ہم نے زمانہ طالب علمی میں ولیم ارنسٹ ہینلی (م: ۱۹۰۳ء) کی سدابہار نظم Invictus (شکست ِناپذیر) میں پڑھا تھا:

اس رات، جس نے مجھے ڈھانپ رکھا ہے

اُفق تا اُفق پھیلی اندھی گہری تاریک سرنگ میں،

میں دیوتائوں کا شکرگزار ہوں، وہ جیسے بھی ہوں،

میری روح ناقابلِ تسخیر ہے۔

حالات کی بے رحم گرفت

اور درد و کرب کی ناقابلِ برداشت شدت کے باوجود

نہ میں جھرجھرایا ہوں، نہ میرے ہونٹوں سے کوئی آہ بلند ہوئی ہے

اتفاقات و حوادث کے عصا کی بھاری ضربوں سے

میرا زخموں سے چُور اور لہولہان سر

ہرگز جھکنے کو تیار نہیں

غیظ و غضب کی تپش اور آنسوئوں کی برکھا سے پرے

زندگی یا موت کی سرحدوں کے پار، خو ف کے سایے منڈلا رہے ہیں

برسوں پر محیط موج دَر موج خطرات نے

مجھے بے خوف پایا ہے، اور بے خوف ہی پائیں گے!

وہ ناترسیدہ اور ناکام ہی رہیں گے۔

یہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا کہ زندگی کا دروازہ کتنا سیدھا ہے

نہ یہ کوئی اہم ہے کہ زندگی کا طومار کتنی سزائوں سے بھرا پڑا ہے

تف، الزام و اتہام کی فردِ جرم پر،میری بلاسے!

میں اپنی قسمت کا خود مالک ہوں!

میں خود اپنی روح کا سالار ہوں!

[الجزیرہ، ٹیلی ویژن چینل،ویب،۲۲مئی ۲۰۱۸ء، انگریزی سے ترجمہ: س   م     خ ]

 

زخمیوں اور مقتولین پر گولیوں کے نشانے