قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۱ۚ اَللہُ الصَّمَدُ۲ۚ لَمْ يَلِدْ۰ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ۳ۙ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۴ۧ (اخلاص۱۱۲:۱-۴ ) کہو وہ اللہ ہے یکتا، اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں، نہ اس کو کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ رکھنا، اسلام میں داخل ہونے، اور اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق جوڑنے کے لیے ضروری ہے۔ اسے ایمان لانا اور عقیدہ کہتے ہیں۔ عقیدہ کا لفظ ’عقد‘ (گرہ) لگانے اور تعلق جوڑنے کو کہتے ہیں۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا!آپ ؐ نے فرمایا: قُلْ اٰمَنْتُ بِاللہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ (مسلم، کتاب الایمان، حدیث: ۱۳)’’کہو کہ میں ایمان لایا اللہ پر، پھر اس پر جم جائو‘‘، یعنی اس پر یکسو ہو کر کھڑے ہو جائو اور دوسروں کی طرف نہ دیکھو۔
حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جس بندے نے بھی کہا کہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے۔ پھر اس پر موت آنے تک قائم رہا، تو وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘(مسلم)۔یعنی اپنے اس اقرار اور عہد پر قائم رہا اور اللہ کی بندگی اور غلامی میں زندگی گزاردی تو وہ پکا مومن ہے اور آخرت میں جنت کا حق دار ہوگا۔توحید پر صحیح عقیدے کا اہم اور بڑا فائدہ آخرت میں اجر اور اللہ کی رضا اور رضا مندی سے جنّت میں داخل ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے مومن اللہ کی ناراضی اوردوزخ سے بچ جائے گا۔ یہ دراصل بڑی کامیابی اور فلاح ہے، جو ایک مومن کو نصیب ہو گی۔
دنیا میں توحید اختیار کرنے اور صحیح عقیدے پر رہنے سے کئی فائدے اور بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں۔ اتنی بھلائیاں اور فائدے ملتے ہیں کہ بندہ ان کا شمار نہیں کر سکتا۔ایسی چند باتیں یہ ہیں:
لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ۷ (ابراھیم ۱۴:۷) اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
شکر کرنا صرف زبان سے شکر شکر کا اظہار نہیں ہے، بلکہ دل اور اپنے عمل سے شکر کرنا احسن تر ہے۔ انسان تھوڑا سا غور کرے تو اس کے وجود پر اللہ کے لاکھوں احسانات ہیں۔ ایک ایک عضو پر ایک ایک بال پر اللہ کے احسانات ہیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ انسان سانس لیتا ہے، اس کا سانس لینا بھی اللہ کا احسان ہے کہ وہ اسے سانس لینے کی توفیق اور سہولت دیتا ہے۔ اگر وہ سانس کو روک دے تو چند سیکنڈوں میں انسان کا دم گھٹ کر دمِ آخر ہو جائے۔
l اللہ کی نعمت کی قدرشناسی : تھوڑی دیر کے لیے غور کیجیے کہ کسی غریب آدمی سے کوئی مال دار آدمی کہے کہ: ’’اپنے ایک ہاتھ کی انگلی مجھے دے دو، میں اسے علیحدہ کرا کے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں لگا لوں گا کیوںکہ میرے بیٹے کی ایک انگلی ضائع ہو گئی ہے‘‘، تو وہ کسی صورت میں بھی اسے بیچنے پر تیار نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ کہ انسان کا ہاتھ اَنمول ہے جسے روپوں میں نہیں تولا جاسکتا۔
اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتاہے، وہی جانتا ہے کہ مائوں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے، اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔(لقمٰن ۳۱:۳۴)
قیامت کس وقت اور کب واقع ہوگی؟ جِنّ وانس کو خبر نہیں ہوتی کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟ وہ پیدا ہونے والا عالم ہو گا یا جاہل ، سائنس دان ہو گا یا اَن پڑھ، کتنا وقت زندہ رہے گا یا پیدا ہوتے ہی مرجائے گا، بیمار ہوگا یا تندرست ہو گا؟ اسی طرح کسی کو خبر نہیں کہ اس کی موت کہاں آئے گی؟___ یہ سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں اور وہی ان کی پوری حقیقت کو جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہزاروں لاکھوں برسوں سے انسانوں کو پیدا کیے جا رہا ہے۔ البتہ اس تناسب میں کبھی کبھار معمولی سی کمی کر دیتا ہے کہ کسی صدی میں لڑکیاں معمول سے زیادہ پیدا ہوجائیں ۔ یہ کون ہے جو انسانوں کے تناسب میں کمی بیشی کر رہا ہے؟ سب کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے بس میں ہے جو وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان سے یہ پوچھا جائے کہ موت اور حیات کس کے اختیار میں ہے؟تو یہی کہے گا کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جب کائنات میں سب کچھ وہی پیدا کرتا ہے تو پھر حکم اور امر بھی اس کا چلنا چاہیے:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (اعراف ۷:۵۴) خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۵۶ مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۵۷ (الذاریات ۵۱:۵۶-۵۷) میں نے جِنّ اور انسانوں کو پیدا ہی اسی لیے کیا ہے کہ وہ میری (اللہ کی ) بندگی کریں ۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ کہ وہ مجھے (اللہ کو ) کھلائیں پلائیں۔
آئیے ! اللہ پر صحیح عقیدہ رکھیں اور اس سے تعلق جوڑیں تا کہ دونوں جہانوں کی خیر و بھلائی نصیب ہو، اور اللہ کے نیک بندوں کی طرح زندگی گزار کر اس جہان سے رخصت ہوں۔