شکیل رشید


نصابی کتابوں سے ’مغل اور مسلم تاریخ کا صفایا‘ کردیاگیا!

مودی اور بی جے پی کی حکومت کے اس عمل کو محض’ تاریخ کا بھگوا کرن‘ کہنا درست نہیں ہے اور نہ اسے ’تعلیمی پروپیگنڈا‘ کہنا، مکمل سچ ہے ۔ یہ عمل ’ صفائی‘ (cleansing) کا عمل ہے ، ’تطہیر‘ کا عمل ہے۔ اسے ایک مذہب اور ایک فرقے کی ’ نسل کشی ‘ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس کی تاریخ کا صفایا کردیا جائے گا ، اس کی نسل کہاں باقی رہ سکے گی؟

ابھی یہ خبر آئی ہے کہ بھارت کے’سینٹرل بورڈآف سیکنڈری ایجوکیشن‘ (CBSE) نے نصاب کی کتابوں سے افریقی، ایشیائی خطوں میں اسلامی مملکتوں کے پھلنے پھولنے اور قیام سے متعلق ابواب ہٹادیئے ہیں ، ساتھ ہی ساتھ بھارت میں مغل حکومت کے ابواب بھی نکال دیئے ہیں۔ مزید جو ابواب ہٹائے گئے ہیں ، وہ ’ناوابستہ تحریک‘ ’ سرد جنگ‘ اور ’ صنعتی انقلاب‘ سے متعلق ہیں۔  ایک حصہ مذہب ، فرقہ پرستی، سیاست اور سیکولر ریاست کا تھا ، اس حصے سے اردو کے مشہور شاعر فیض احمد فیض [م:۲۰نومبر ۱۹۸۴ء]کی نظموں تک کو ہٹادیاگیا ہے ۔

یہ ابواب ’تاریخ‘ اور ’ سیاست‘ کی نصابی کتابوں میں شامل تھے ۔ یہ تبدیلیاں مبینہ طور پر ’نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ‘ (NCERT) کی تجاویز پر کی گئی ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف سی بی ایس ای کی نصابی کتابوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں ، صوبائی تعلیمی بورڈوں نے بھی نصابی کتابوں میں تبدیلیاں کی ہیں۔ ’مہاراشٹر اسٹیٹ ایجوکیشن بورڈ‘ نے ساتویں اور نویں جماعتوں کی ’تاریخ‘ کی نصابی کتابوں سے مغل دور کو حذف کیا اور درسی کتابوں میں ’ مراٹھا دور، بالخصوص شیواجی کے دور‘ کو مکمل طور پرشامل کیا ہے۔ مہاراشٹر کی تاریخ کی درسی کتابوں سے تاج محل ، قطب مینار اور لال قلعے کا تذکرہ مکمل طور پر غائب ہے ۔

 سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں کس لیے ہیں ؟

 اس سوال کا جواب مودی کی مرکزی اور بی جے پی کی صوبائی حکومتوں کے ’ اعمال ناموں‘ پر ایک نظر ڈال کر بخوبی ہوجاتا ہے ۔ اترپردیش کی مثال لے لیں ، وہاں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ وزیراعلیٰ بنے ہیں، انھوں نے اُن تمام شہروں کے ناموں کو ، جو مسلم شناخت کو ظاہر کرتے تھے ، تبدیل کرنا ، یا حرفِ غلط کی طرح مٹانا شروع کردیا ہے ۔

اس ضمن میں مثال کے طور پر دیکھیے: ’فیض آباد‘ ضلع کا نام ’ایودھیا‘ کردیا گیا ہے ، ’الٰہ آباد‘ کا نام ’پریاگ راج‘ رکھ دیا گیا ہے ، ’مغل سرائے‘ ریلوے اسٹیشن کو ’دین دیال اپادھیائے‘ جنکشن کردیاگیا ہے ۔ ’علی گڑھ‘ کا نام ’ہری گڑھ‘ کرنے کی تیاری ہے، تاکہ اس طرح ’اکبرالٰہ آبادی‘ کو ’اکبر پریاگ راجی‘ پڑھا جائے، یا اسی طرح ’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی‘ کو ’ہری گڑھ مسلم یونی ورسٹی‘ کردیا جائے گا۔ بی جے پی کے کئی لیڈروں نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ دہلی کے اطراف کے ۴۰دیہات کے نام تبدیل کردیئے جائیں۔ حال ہی میں جنوبی دہلی کے ’محمدپور‘نام کے ایک گاؤں کا نام تبدیل کرکے ’مادھو پورم‘ رکھا گیا ہے۔ اس کو بی جے پی اور سنگھی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں اور یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ مزید ۴۰ گاؤں کے نام تبدیل کردیے جائیں۔ فہرست تیار کرلی گئی ہے اور جلد ہی ناموں کی تبدیلی کی تجویز، دہلی حکومت کو بھیج دی جائے گی ۔

دہلی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا کا کہنا ہے کہ ’’یہ نام ’غلامی کی علامت ہیں‘ اور یہ کہ ’لوگ خود ان ناموں کی تبدیلی کے خواہاں ہیں‘‘ ۔ حالانکہ دہلی کی کیجری وال حکومت نے بی جے پی پر یہ کہہ کر تنقید کی ہے کہ ’’جب بی جے پی کارپوریشن پر خود حکومت کررہی تھی، تو اس وقت یہ نام کیوں تبدیل نہیں کیے گئے؟‘‘ لیکن اندازہ یہی ہے کہ ناموں کو تبدیل کردیا جائے گا ۔ ناموں کی تبدیلی کا یہ عمل ہراس ریاست میں ہورہا ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ مہاراشٹر میں اگرچہ بی جے پی کی حکومت نہیں ہے،مگر شیوسینا ، جس کے سربراہ وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے ہیں ،عرصۂ دراز سے ’اورنگ آباد‘ کا نام ’سمبھاجی نگر‘ کرنے کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ مطالبہ پھر شدت اختیار کرے ، اور اس بار اسے مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے اور بی جے پی کے لیڈران اٹھائیں ۔

 مسلم ناموں کی تبدیلی کے اس عمل کا مقصد کیا ہے ؟

ا س سوال کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ اس سچ کو کہ اس ملک پر مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی اور مغلوں کی حکومت تین سوسال رہی، لوگوں کے حافظے سے نکال دیا جائے۔  لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات کھرچ کر پھینک دی جائے کہ مسلم حکمرانوں نے:

  • اس ملک کو  سونے کی چڑیا بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا
  • یہاں تعمیرات کے فن کو عروج پر پہنچایا تھا lملک کو لال قلعہ وتاج محل جیسی عالی شان عمارتیں دی تھیں 
  • ادب وثقافت کو مالا مال کیا تھا 
  • اور ان کے دورِحکومت میں مذہبی جبر کے واقعات شاذونادر ہی ہوتے تھے۔ مغل تاریخ مٹانے کا مقصد اس بات پر زور دینا بھی ہے کہ ’اس ملک کی ترقی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے‘ ۔ اور یہ بھی بتانا ہے کہ ’ملک کی آزادی میں نہ ان بادشاہوں کا کوئی حصہ ہے اور نہ مسلمانوں کا ‘۔

خیر ، مسلم مجاہدین آزادی کے ناموں کا ، درسی ونصابی کتابوں سے ، نکالے جانے کا عمل تو بہت پہلے شروع ہوگیا تھا، اتنا پہلے کہ آج مسلمانوں کی جو نئی نسل ہے، اسے بھی یہ پتہ نہیں ہے کہ اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں کی قربانیاں کیا ہیں! انھیں یہ نہیں پتہ کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر [م: ۷نومبر ۱۸۶۲ء]کو اس لیے رنگون میں قید کیا گیا تھا کہ وہ مجاہد آزادی تھے اور صرف قیدہی نہیں کیاگیا تھا ان کے دوبیٹوں کے سروں کو کاٹ کر طشت میں سجاکر ان کے سامنے پیش کیاگیا تھا۔ سچ یہی ہے کہ ہندستان کی آزادی کی کہانی اور تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔

دہلی کے ’انڈیا گیٹ‘ پر ۹۵ہزار ۳۰۰  آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے حُریت پسندوں کے نام تحریر ہیں، جن میں سے۹۴ہزار ۵سو ۶۲ نام مسلم مجاہدین آزادی کے ہیں ۔ آزادی کی جدوجہد تو ۱۷۸۰ء میں ہی شروع ہوگئی تھی جب عظیم مجاہد آزادی ٹیپوسلطان [شہادت: ۴مئی ۱۷۹۹ء]نے انگریزوں سے ٹکر لی تھی۔ اب تو درسی اور نصابی کتابوں سے ٹیپو سلطان کا نام ہٹانے کی بھی تجویز آگئی ہے ، بلکہ کرناٹک میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ، اس پر عمل شروع ہوچکا ہے ۔ہماری آج کی نسل نہ تو اشفاق اللہ [شہادت:۱۹دسمبر ۱۹۲۷ء]کو جانتی ہے ، نہ امیر حمزہ ، مولانا محمود حسن [م:۳۰نومبر ۱۹۲۰ء]، مولانا برکت اللہ بھوپالی [م: ۲۰ستمبر ۱۹۲۷ء]، مولانا کفایت اللہ [م:۳۱دسمبر ۱۹۵۲ء]کو ۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا محمد علی جوہر [م:۴جنوری ۱۹۳۱ء]،مولانا حسرت موہانی [م:۱۳مئی ۱۹۵۱ء] اور مولانا ابوالکلام آزاد [م:۲۲فروری ۱۹۵۸ء]تک کو بھلا دیاگیا ہے۔ آنے والے دنوں میں تو یہ نام لوگوں کو قطعی یاد نہیں رہیں گے۔گویا جن کی ایک روشن تاریخ ہے، انھیں تاریخ سے حذف کیا جارہا ہے ، اور جن کی کوئی تاریخ نہیں ہے ، جیسے کہ ’سنگھ پریوار‘ ، جو نہ آزادی کی لڑائی میں شامل تھا اور نہ آزادی کی تحریک میں ، انھیں تاریخ میں شامل کیا جا رہاہے۔

 ظاہر ہے کہ جس قوم کی تاریخ مٹادی جائے گی وہ قوم ازخود مٹ جائے گی ۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی مرکزی وصوبائی حکومتوں کے توسط سے یہی کوشش ہے کہ اس ملک کی مسلم تاریخ کو مٹادیا جائے ، تاکہ اس ملک کے مسلمان بغیر کسی تاریخ کے رہ جائیں ۔ یہ بھی ’ نسل کشی‘ (genocide) کا ہی ایک طریقہ ہے ۔ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے گذشتہ ۹ برسوں سے تیز تر کوششیں جاری ہیں، اور آیندہ دو برسوں میں اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کا منصوبہ ہے ۔ دوسال بعد ۲۷ستمبر ۲۰۲۵ء کو آر ایس ایس کے قیام کو پورے سوسال مکمل ہوجائیں گے۔ اس کے لیڈروں نے آزاد ، جمہوری، سیکولر بھارت کو ’ ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنے کے لیے سوسال کی مدت طے کی تھی، لہٰذا سوسال ہوتے ہی اُن کے نزدیک یہ ملک مکمل’ ہندوراشٹر‘ میں تبدیل ہوجائے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہوسکے، لیکن ان کی پوری کوشش یہی ہے۔

۲۰۱۹ء میں ایک کتاب آئی تھی: The RSS Roadmaps for The 21st Century (اکیسویں صدی کے لیے آر ایس ایس کا منصوبہ) جسے روپا پبلی کیشنز نے شائع کیا۔ یہ کتاب سنیل امبیکر نے لکھی ہے ، جو سنگھ کے مرکزی ’ پرچارک‘ اور ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘(ABVP) ، بی جے پی کی طلبہ تنظیم کے آرگنائزنگ سکریٹری ہیں۔ اس کتاب میں ایک باب ’ بھارت کی تاریخ‘ کے عنوان سے ہے ۔ جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’یہ جو تاریخ آج پڑھائی جاتی ہے، اس میں نہ ’سوتنترا‘ ( آزادی) ہے اور نہ ’سوادھرما‘ ( اپنا خود کا دھرم)۔ یہ تاریخ ’بھارتیتا‘ کے خلاف اور مسخ شدہ ہے ، لہٰذا اسے درست کرناہے۔اور’سنگھ پریوار‘ تاریخ کو ’ درست‘ کرنے کا مشن لے کر آگے بڑھ رہا ہے ‘‘۔ مزید یہ کہ : ’’ہندستانی تاریخ کو تحریر کرنے کا منصوبہ بڑا اہم ہے ، اور اس سوال پر غور ضروری ہے کہ ہماری اقدار کیا تھیں ؟‘‘ وہ سوشل ہسٹری‘ یعنی ’ سماجی تاریخ‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آر ایس ایس ’اکھل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا‘ کے تحت ، من پسند تاریخ کے سوال بنانے اور جواب دینے کے لیے مخصوص تاریخی منصوبوں پر کام کررہا ہے۔

یہ کام کیا ہے ؟’’مسخ شدہ بھارتی تاریخ کو درست کرنا‘‘ ہی ہے۔ اسے اگر میں ’’مسخ شدہ تاریخ کو مزید مسخ کرنا‘‘ کہوں تو شاید زیادہ درست ہوگا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’تعلیم کا بھارتیہ کرن کیا جائے گا‘ ‘۔ اس میں ’’پرواسی بیانیہ کی شمولیت ہوگی‘‘ اور ’’متعصبانہ تعبیرات کو حذف کردیا جائے گا‘‘۔ وہ رام مندر کی بھی بات کرتے ہیں اور نئے عجائب گھروں کی بھی، تاکہ ’’گم شدہ تاریخ کی بازیافت کی جاسکے ‘‘ ۔ تو یہ ہے منصوبہ ، اور سال۲۳-۲۰۲۲ء سے اس منصوبے پر عمل شروع ہورہا ہے ۔ ابھی تو درسی کتابوں سے مسلم اور مغل نام ہٹاکر فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ خلیج کو مزید وسیع کرنے کا خطرناک کھیل شروع ہوا ہے ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

 

ساورکر کے عقیدے کے مطابق: ’’ شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جائے‘‘۔ اور اسی بنیادپر سی اے اے سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔ شہریت کے متنازعہ قانون: سی اے اے، این آر سی اور این پی آر، آر ایس ایس کا وہ ایجنڈا ہے، جسے سنگھ کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار نے عملی شکل دی اور اس کے بعد سنگھ کے دیگر بانیان اس ایجنڈے کو نہ صرف سنوارتے رہے بلکہ اسے عملی شکل دینے کے لیے کوشاں بھی رہے۔

آج ’سَنگھ‘ اور بی جے پی کا وہ حکمران ٹولہ جو سی اے اے، این آر سی، این پی آر کو لاگو کرنے کے لیے حرکت میں ہے، وہ دراصل اسی ایجنڈے کو بھارتی شہریوں پر تھونپنے کی ایک کوشش ہے۔ مودی اور امیت شا تو بس آر ایس ایس کے بانیان کا ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے تمام تر سرکاری وسائل و ذرائع کا بشمول مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت کا اندھادھند استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بانیان کون ہیں؟ بھارت کی آزادی کے لیے ان کا کوئی کردار ہے بھی یا نہیں؟ ان سوالات کے جوابات سینیر صحافی نیلانجن مکھوپادھیائے کی کتاب The RSS: Icons of The Indian Right  [صفحات: ۴۹۹، پبلشرز ٹرنکوبار] میں تفصیل سے دیے ہیں۔مصنف نے جو کچھ لکھا ہے، اسے مضبوط شہادتوں اور مسکت دلائل سے ثابت بھی کیا ہے۔ کتاب میں ہیڈگیوار کے علاوہ آرایس ایس کے جن بانیان اور لیڈروں کا تذکرہ شامل ہے، وہ وی ڈی ساورکر، ایم ایس گولوالکر، شیاما پرساد مکھرجی، دین دیال اپادھیائے، بالا صاحب دیورس، وجئے راجے سندھیا، اٹل بہاری واجپائی، ایل کے اڈوانی، اشوک سنگھل اور بال ٹھاکرے ہیں۔

آر ایس ایس کے بانیان کی اس فہرست میں آخرالذکر نام دیکھ کر ابتدا میں کچھ حیرت ہوئی تھی، کیونکہ ٹھاکر ے نہ کبھی آر ایس ایس کے رکن رہے اور نہ عہدے دار۔ مگر اس فہرست میں ان کا نام اس لیے درست ہے کہ اپنی حمایت سے سنگھی نظریات کو انھوں نے زبردست تقویت دی۔

بات سی اے اے، این آر سی اور این پی آر سے شروع ہوئی تھی، لہٰذا اسی بات کا اعادہ کرتے ہیں ۔کیشوبلی رام ہیڈگیوار کے باب میں مصنف نے پہلے سرسنگھ چالک کی اس بات پر کہ تمام ہندستانی بلالحاظ مذہب ’ہندو‘ ہی ہیں، زور دیتے ہوئے اسے ’ گھرواپسی‘ تحریک کی بنیاد قرار دیا ہے۔ یہ تحریک لوگوں کو ’ہندو دھرم‘ میں داخل کراتی ہے، اور جو داخل نہ ہو، وہ ’غیر‘ کہلاتا ہے۔ ہیڈگیوار کا یہی فلسفہ تقسیم ہند کے بعد ’ملکی‘ اور ’غیرملکی‘ میں بدل دیا گیا۔ ونایک دامودر ساورکر کے باب میں اس پر تفصیل سے بات کی گئی ہے: ’’ساورکر کا یہ عقیدہ تھا کہ نظریاتی طور پر، قومیت اور شہریت کو صرف شہری ہونے کی نہیں بلکہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر طے کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اور اسی بنیادپر سی اے اے سے مسلمانوںکو باہر رکھا گیا ہے۔

آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک مادھو سداشیو گولوالکر کے باب میں اس پر مزید بحث کی گئی ہے۔ جس کے مطابق تقسیم ہند کے بعد جو مسلمان بھارت میں رہ گئے تھے، گولوالکر انھیں ’بچے کھچے‘ کہتے اوراس بات پر زور دیتے تھے کہ ہندوپاک کے درمیان ہندوؤں اور مسلمانوں کے تبادلے کا منصوبہ بنایا جائے تاکہ جو ’بچے کھچے‘ مسلمان ہیں، انھیں بھارت سے نکالا جاسکے۔  سنگھی نظریہ ساز شیاما پرشاد مکھرجی کے باب میں بھارتیہ جن سنگھ کے جنرل سیکرٹری آشوتوش لہری کو ان کی طرف سے دی گئی اس ہدایت کا ذکر ہے: ’’اب ان مسلمانوں کو جو ’ہندو استھان‘ میں رہتے ہیں ہم یہاں سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر وہ رہے تو غداری، تخریب کاری اور وطن دشمنی کریں گے‘‘۔

دین دیال اپادھیائے چوٹی کے سنگھی قائد نے بھی ’’بلاتفریق مذہب سب ہندو ہیں‘‘پر زور دے کر ’’ان پر جو خود کو ’ہندو‘ نہیں کہتے، ہندستان کے دروازے بند‘‘ کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔

کتاب میں آر ایس ایس کے تیسرے سر سنگھ چالک بالاصاحب دیورس پر سب سے طویل اور ایک ہوش ربا باب ہے، جس میں دیورس کے بقول: ’’مہاجر اور گھس بیٹھئے برابر نہیں ہوسکتے، ہندوجو بنگلہ دیش سے آتے ہیں وہ الگ ہیں کیونکہ وہ مہاجر ہیں، جو اپنے گھر سے اسلامی حکومت کے ہاتھوں ستائے جانے کی وجہ سے بھاگے، اس لیے آسام کے ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ ان کا خیرمقدم کریں۔ لیکن بنگلہ دیشی مسلمانوں کا بالکل نہیں کیونکہ ان کی آمد سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا‘‘۔ یہی وہ ’دلیل‘ ہے، جو آج مودی اور امیت شا کی جوڑی سی اے اے کے حق میں دےرہی ہے۔

نیلانجن لکھتے ہیں کہ بال ٹھاکرے نے تو باقاعدہ ’بھیونڈی کو مِنی پاکستان‘ کانام دے دیا تھا۔ بعد میں وہ بنگلہ دیشیوں کی بات بھی کرنے لگے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی جیسی سیکولر پارٹیوں کی مدد سے وزیراعلیٰ بننے والے شیوسینا پرمکھ ادھو ٹھاکرے سی اے اے کےحامی ہیں اور ان کے چچا زاد بھائی راج ٹھاکرے، مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ تو خم ٹھونک کر پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کو بھگانے کے لیے میدان میں آچکے ہیں۔ یہ دراصل ملک کو ’ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنے کی تحریک ہے۔ نیلانجن نے کتاب میں سنگھ اور جرمنی کے نازی، اٹلی کے فاشسٹ اوردیگر ’قوم پرست جماعتوں‘ کے درمیان روابط کو غیرجانب داری کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب کے مطابق ہیڈگیوار کے دست راست ڈاکٹر مونجے کی ڈائری میں اس تعلق سے بہت ساری باتیں تحریر ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں: ’’ہندوؤں کومنظم کرنے کی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی، جب تک کہ ماضی کے شیواجی یا مسولینی یا ہٹلر جیسا ہمارا ہندو ڈکٹیٹر نہ ہو‘‘۔ برطانیہ کے محکمۂ خفیہ کی رپورٹ کابھی مصنف نے حوالہ دیا ہے کہ ’’سنگھ کو یہ یقین ہے کہ مستقبل کے ہندستان میں یہ وہی بن جائیں گے جو ’فاشسٹ‘ اٹلی میں اور ’نازی‘ جرمنی میں ہیں‘‘۔

نیلانجن نے کتاب کے ابتدائیے میں تحریر کیا ہے:’’اس کتاب میں، مَیں نے ’’آر ایس ایس کے بانیان کے نظریے ہی نہیں ان کے باطن کو ٹٹولنے کی بھی کوشش کی ہے‘‘ اور وہ اس میں یقینا کامیاب ہیں۔ چاہے ساورکر کی شخصیت کا ظاہروباطن ہو یا ٹھاکرے اور دیورس اور واجپائی کی شخصیت کا، نیلانجن بغیر کسی جانب داری کے سب واضح کردیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’دیورس ایک طرح سے ’غیرمذہبی‘ تھے۔ لیکن آر ایس ایس کا سر سنگھ چالک بننے کے بعدانھوں نے ’پوجاپاٹ‘ شروع کردی تھی۔ واجپائی نے بی جے پی کے قیام کے بعد کچھ عرصے کے لیے بطور حکمت عملی گاندھی جی کی فکر کواپنایا، مگر پھر دین دیال اپادھیائے کے سنگھی فلسفے پر واپس آگئے‘‘۔

مصنف نے گیارہ کی گیارہ شخصیات کی ’مفاد پرستی‘ اور ’خودغرضی‘ کو اُجاگر کیا ہے۔ ہیڈگیوار کم عمری میں انگریز مخالف تھے، مگر حیرت انگیز بات ہے کہ آرایس ایس کے قیام کے بعد آزادی کی تحریک سے مسلسل غائب رہے۔ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی تاکہ سیاسی زندگی کو آگے بڑھاسکیں۔ ٹھاکرے نے علاقائیت کے نام پر اپنی دکان چمکائی، واجپائی مکھوٹا بنے رہے، اور اسی کے نتیجے میں ملک کے وزیراعظم بنے۔

نیلانجن کی یہ کتاب آرایس ایس کے گیارہ بانیان کے ظاہروباطن کو عیاں کرنے کے ساتھ آر ایس ایس کے قیام کی تاریخ کو بھی سامنے لاتی ہے اور آر ایس ایس اور کانگریس کے ’پیچیدہ‘ مگر حیران کردینے والے رشتے اور رابطے بھی ظاہر کرتی ہے۔ یہ رشتہ، محبت اور نفرت کا رہا ہے۔ پنڈت نہرو اور گاندھی جی آر ایس ایس کے سخت مخالف تھے۔مگر سردار پٹیل کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں ایسےبھی کانگریسی تھے، جو آر ایس ایس اور کانگریس کے ’رشتے‘ کو مضبوط کرنے کے منصوبے بنارہے تھے۔ یہ کتاب ملک کی آزادی کی تاریخ میں آر ایس ایس اور ہندو ’توادیوں‘ کے منفی کردار کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔ اور ۱۹۴۷ء سے پہلے اور بعد میں نفرت کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔

یہ کتاب گاندھی جی کے قتل اور اس میں آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے کردار کی تفصیلات پیش کرتی ہے اور مسئلہ کشمیر، بالخصوص آرٹیکل ۳۷۰ کابھی ذکر کرتی ہے جس کی مخالفت شیاماپرساد مکھرجی نے کی تھی اور کشمیر کی جیل میں ’مُردہ‘ پائے گئے تھے۔ یہ ایک دل چسپ، معلوماتی اور عبرت ناک کتاب ہے جو کمال درجے غیرجانب داری سے لکھی گئی ہے۔ اسے بھارت میں انگریزی کے ایک بڑے اشاعتی ادارے Tranquebar نے اہتمام سے شائع کیا ہے۔

نہ اسے’جھڑپیں‘ کہا جاسکتا ہے نہ ’ احتجاج‘ ___یہ ایک منظم قتل عام تھا!

دہلی کے فسادات پر یہ جملہ برطانوی خاتون رکن پارلیمان ناڈیا وہٹّوم کا ہے ۔ برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز (ایوانِ نمایندگان) میں دہلی فسادات پر جو بحث ہوئی اور جس طرح فسادات پر تشویش کا اظہار کیا گیا، وہ ہندستان کی مودی حکومت کا سرشرم سے جھکانے کے لیے کافی ہے۔ بالخصوص اس لیے کہ برطانیہ نے تو اپنے ایوان میں دہلی فسادات پر بحث کروائی ہے، لیکن جہاں یہ فسادات ہوئے ہیں، ہندستان کی راجدھانی دہلی ، وہاں سے پورے بھارت پر حکومت کرنے والی مودی حکومت دہلی تشدد کے موضوع پر اپنےایوان میں بحث کرانے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ بہیمانہ تشدد کی وارداتوں پر بحث کی اجازت نہ دے کر شاید ان کی ’ شدت‘ اور ان کی ’ بہیمیت‘ کو بے اثر کرنے کی کوشش اس لیے ہے کہ یہ فسادات اب ساری دنیا میں ’ مسلم کش فسادات‘ مانے جارہے ہیں۔ ناڈیا وہٹّوم ایک پنجابی سکھ پارلیمنٹیرین ہیں اور ۲۰۱۹ء میں جب انھوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی، تب وہ ۱۹برس کی تھیں ، سب سے کم عمر رکن پارلیمان۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ دہلی کے تشدد یا فسادات کو ’جھڑپیں‘ اور ’ احتجاج‘ ماننے سے انکار کیا، بلکہ صاف لفظوں میں وہ بات کہہ دی، جسے کہنے سے بہت سی زبانیں ہچکچا رہی ہیں۔ انھوں نے کہا ’’ اسے وہی کہیں جو یہ ہے : ہندستانی مسلمانوں کے خلاف مسلسل اور منظم طور پر ’ہندوتوا تشدد‘ اوروہ بھی بی جے پی کی منظوری سے‘‘۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد سے ’ہندوتوادیوں‘ نے مسلمانوں کے خلاف مسلسل اور منظم پرتشدد سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں؟ نریندر مودی کے  پہلی بار وزیراعظم بننے کے چند روز بعد ہی ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اخلاق سے لے کر پہلو خان تک نہ جانے کتنے لوگوں کو ’گؤکشی‘ کے الزام میں بڑی ہی بے رحمی سے قتل کیاگیا۔ ننھے حافظ جنید کو مار مار کر موت کی نیند سُلادینا بھی کیا منظم حملہ نہیں تھا؟  بلند شہر میں ابھی بس چند روز پہلے دو مسلمانوں کو ، اس شبہے میں کہ وہ گؤکشی کے مرتکب ہوئے ہیں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر لہولہان کردیا گیا ۔ دونوں ہی نازک حالت میں اسپتال میں داخل کیے گئے تھے۔ یہ تمام واقعات بی جے پی کی ’ منظوری‘ کے بغیر نہ گزرے ہوئے کل میں ہوئے تھے ،اور نہ آج اس کے بغیر ممکن ہیں ۔

 ہم جو کہیں وہی ’ کھانا‘ ہے ، وہی ’ پینا‘ ہے ۔ہم جو پڑھائیں وہی پڑھنا پڑے گا ، چاہے وہ گیتا کا پاٹھ ہو کہ سوریۂ نمسکار میں ’ اوم ‘ کی جاپ ہو ۔ ابھی عدالت سے طلاقِ ثلاثہ پر پابندی لگوائیں گے ۔  ابھی تو بابری مسجد کی زمین بھی لیں گے اور یہ سب کام ہو بھی گئے۔ پھر بھی یہ مسلمان  ہندستان چھوڑنے کو تیار نہیں ، کیوں نہ ان کی ’شہریت‘ پر ہی سوالات کھڑے کردیے جائیں ؟ ان سے وہ دستاویزات مانگی جائیں، جو اگر مودی سے بھی مانگی جائیں تو وہ نہ دےسکیں، مگر اس طرح وہ ملک جہاں ان کے آباواجداد بسے اور مرے ، جہاں انھوں نے محنت کی ، گھر بسائے ، تعلیمی ادارے بنائے ، مسجدیں بنائیں ، انھیں کھدیڑنے کی سبیل نکالی جائے ۔ اسی لیے این آرسی ، این پی آر اور  سی اے اے لے آئے ہیں ۔ اب کیسے بچو گے؟ لیکن مسلمان تو آج بھی اسی سرزمین پر کھڑا ہے،  اپنے حق کے لیے آوازیں اٹھا رہا ہے۔

 مسلم خواتین نے دہلی سے لے کر یوپی، راجستھان، کرناٹک ، بہار، مغربی بنگال، آسام اور ممبئی وغیرہ تک نہ جانے کتنے شاہین باغ بنالیے ہیں ۔ یہ ’شاہین باغ‘ مودی حکومت کو دہلائے ہوئے ہیں اور سی اے اے کے پیچھے اپنا تخریبی دماغ لگانے والے امیت شا کی بھی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں___  لہٰذا، کیوں نہ انھیں ڈرایا جائے اور ڈرانے کا یہ کام آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں نے کرتے ہوئے نفرت کی ساری باتیں ، ساری زہریلی تقریریں ،’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ جیسے سارے نفرت سے بھرے ہوئے نعرے مسلسل منظم، منصوبہ بند انداز سے دُہرائے گئےاورعام کیے گئے۔ ان کا مقصد تشدد کی وہ لہر اُبھارنا ہے، جس کی زد میں دہلی آجائے اور نقصان اقلیت کا ہو ، مسلم اقلیت کا ہو___  یہاں ہمارا مقصد لاشوں کو ہندوؤں، مسلمانوں ، دلتوں وغیرہ میں تقسیم کرنا نہیں ہے ۔ تشدد پھوٹے گا تو سب کو لپیٹ میں لے گا ، مگر تشدد کا یہ ’رقص ابلیس ‘ مسلمانوں کے ہی خلاف تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ’ شاہین باغ‘ اور بھارت بھر کے دوسرے احتجاجی مظاہروں کو ایک جھٹکے میں ’ لپیٹ‘ دینا تھا، مگر یہ نہیں ہوسکا ۔

بی بی سی پر سوتک بسواس کی رپورٹ کا عنوان ہے: ’’ دلی فسادات کے دوران مسلمانوں کے گھروں کو چُن چُن کر آگ لگائی گئی۔‘‘ محمد منظر اور ان کے خاندان کے لٹنے پٹنے اور برباد ہونے کی داستان بڑی ہی المناک ہے ۔ بی بی سی نے ایک ویڈیو رپورٹ جاری کی ہے، جس میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ تشدد پر آمادہ ہندو ہجوم کو پولیس اہلکار پتھر چن چن کر دے رہے ہیں کہ وہ مخالف پر پتھراؤ کرسکیں ۔ خود پولیس والے ساتھ ساتھ پتھراؤ کررہے ہیں ۔ بی بی سی نے جب یہ دریافت کیا کہ کیا پولیس والے بھی پتھراؤ کررہے تھے؟ تب کیمرے کے سامنے لوگوں نے اعتراف کیا کہ ہاں پولیس اہلکار انھیں پتھر اٹھا اٹھا کر مسلمانوں پر پھینکنے کے لیے دے رہے تھے اور خود بھی پتھراؤ کررہے تھے۔ ہمانشوراٹھور نام کے ایک شخص کا بیان ہے : ’’ہمارے پاس یہاں پتھر کم تھے، لہٰذا پولیس والے پتھرلے کر آئے تاکہ ہم پتھراؤ کرسکیں‘‘۔ اس ویڈیو میں پولیس کے ذریعے مسلمانوں پر تشدد ڈھانے کی مکمل منصوبہ بندی عیاں ہے ۔ لاٹھی ڈنڈوں سے نوجوانوں کی پٹائی اور ایسی شدید کہ فیضان نامی نوجوان نے دم توڑ دیا۔ لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹتے ہوئے قومی ترانہ پڑھوانا، گویا پولیس کی ساری سرگرمیوں کا محور یہ تھاکہ مسلمان ’ قوم پرست‘ یا ’نیشنلسٹ‘ نہیں ہیں ۔ دہلی اقلیتی کمیشن کا یہ تسلیم کرنا ہے کہ ’ تشد د یک طرفہ تھا اور اس کے لیے بہترین منصوبہ بندی کی گئی تھی، بیرونی غنڈے، شرپسند لوٹ مارمیں شریک تھے لیکن انھیں بہرحال مقامی مدد بھی حاصل تھی‘‘۔

ساری دنیا میں ’د ہلی فسادات‘ کی گونج ہے ۔ کئی مسلم ممالک نے ، البتہ سعودی عرب    ان میں شامل نہیں ہے ، دہلی کے فسادات کو ’ مسلم کش‘ قرار دیا ہے ۔ ایران نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ وزارت خارجہ کے سابق سکریٹری کے سی سنگھ ’ سفارتی قیمت‘ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں کہ مودی سرکار کے علاقائی ایجنڈے نے ہندستان کی خارجہ پالیسی کو مسخ کرنا شروع کردیا ہے ۔ انھوں نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اور ایران کے روحانی رہنما علی خامنہ ای کے دہلی فسادات کی مذمت میں دیے گئے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے، کہ اسلامی دنیا سے ہندستان کے رشتے کٹ سکتے ہیں ۔ ایران سے قبل ملایشیا اور ترکی نے بھی دہلی فسادات پر ناراضی کا اظہارکیا تھا۔

ویسے ’ دہلی فسادات‘ نے صرف مسلم دنیا ہی کو بے چین اور مضطرب نہیں کیا ہے ، ابتدا ہی میں برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں ’ دہلی فسادات‘ پر ہوئی بحث کا ذکر آچکا ہے ۔ امریکا میں ایک صدارتی امیدوار سینڈرس نے پہلے ہی دہلی کے تشدد کو مسلم کش قرار دے دیا ہے ۔ انھوں نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورۂ ہند پر بھی سخت نکتہ چینی کی ہے ۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے کمیشن نے صرف تشویش ہی ظاہر نہیں کی، اس نے سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست تک دے دی ہے۔ بی جے پی کے وہ تمام لیڈر جو ’زہر‘ بو رہے تھے ، آزاد ہیں ، ایف آئی آر تک  ان کے خلاف درج نہیں ہوئی ہے۔ لیکن بڑی تعداد میں اُلٹا متاثرین ہی کو ملزم قرار دے دیا گیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا انھی کے خلاف کارروائی پر مصر ہے۔ سی اے اے کو لاگو کرنے پر پورا زور لگایا جارہا ہے، اور این پی آر میں والدین کی شہریت ثابت کرنے کو ابھی بھی لازمی کہا جارہا ہے ___ اور یہ جو شاہین باغ میں بہادر خواتین بیٹھی ہیں، ان کے خلاف ابھی بھی نعرے لگ رہے ہیں :’گولی مارو…‘

اعلٰی عدالتیں اور بی جے پی حکمرانی

عجب تماشا ہے کہ دہلی کو خون میں نہلانے والی زہریلی تقریروں کا معاملہ اعلیٰ عدالت سے کسی طرح سلجھائے نہیں سلجھ رہا، حالانکہ حقائق سب کے سامنے ہیں ۔ زہریلی تقریریں کرنے والے بی جے پی کے لیڈران بھی ،ان کی زہریلی تقریروں کے آڈیو اور ویڈیو بھی اور ان تقریروں کے نتیجے میں دہلی کی تباہی و بربادی اور تقریباً ۵۰؍ افراد کی اموات بھی ۔ جب اتنے سارے ثبوتوں کے بعد بھی دہلی ہائی کورٹ کپل مشرا، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر کے خلاف کارروائی کے لیے دہلی پولیس کو حکم دینے سے لاچار اور مجبور ہے، تو اندازہ کرلیجیے کہ یہ عدالت فسادات میں مارے گئے ، لوٹے اور برباد کیے گئے لوگوں کے ساتھ کیا انصاف کرے گی!

دہلی کی عدالتیں ، ہائی کورٹ بھی اور سپریم کورٹ بھی، دہلی فسادات کے معاملے میں کس قدر ’سنجیدہ ‘ ہیں؟ اس کا اندازہ تو اسی سے ہو جاتا ہے کہ جب ایک جج جسٹس ایس مرلی دھرنے بی جے پی کے زہریلے لیڈروں کی زہریلی تقریروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنےکا سخت حکم دیا، تو انھیں راتوں رات چلتا کردیا گیا ۔ اور اس چلتا کرنے میں بھارت کے چیف جسٹس بوبڑے پیش پیش تھے ۔ انصاف کے مکھیا وہی تو ہیں اور اس پر غضب یہ کہ جب وہی مقدمہ دوبارہ دہلی ہائی کورٹ میں پیش ہوا، تو جسٹس ایس مرلی دھر کے بعد سماعت کرنے والے بینچ نے ، جو دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس سی ہری پر مشتمل تھا،اس کے حکم کے باوجود ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی؟ یہ سوال دریافت کرنے کے بجاے ، سماعت کی تاریخ ۱۳؍ اپریل مقرر کردی!

کیا یہ بھارت کی عدلیہ کا کام نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے زخموں پرمرہم رکھے ، شرپسندوں اورظالموں کو فوری طور پر کٹہرے میں کھڑا کرے،اور عوام تک یہ پیغام پہنچائے کہ ملک کی عدالتیں سارے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور لوگ اطمینان رکھیں کہ انصاف کیا جائے گا، قصور واروں کو بخشا نہیں جائے گا چاہے وہ کتنے ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں؟ اگر ہم سارے معاملے کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ ، مرکز کی بی جے پی کی حکومت ، یہ نہیں چاہتی کہ کپل مشرا، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر جیسے آگ اُگلنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو۔

عدالت کے اندر، ہائی کورٹ میں بھی اور سپریم کورٹ میں بھی سالیسٹر جنرل تشار مہتا بس ایک ہی جملہ رٹتے رہے ’’ابھی ایف آئی درج کرانے کے لیے حالات ٹھیک نہیں ہیں‘‘۔ مطلب یہ کہ اگر بی جے پی کے لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی تو تشدد کا دور پھر سے شروع ہوسکتا ہے ۔ کیا اس کا ایک مطلب یہ نہیں نکلتا کہ دہلی کے مسلم کش فسادات کے ذمے دار بی جے پی کے لیڈر ہی ہیں ؟

 کیا یہ اپنے آپ میں اقرار کرنا نہیںہے کہ اگر بی جے پی کے کسی لیڈر کے خلاف معاملہ درج ہوا تو دہلی کو اسی طرح سے پھر پھونک دیا جائے گا، جس طرح سے کہ پھونکا گیا ہے؟ اسے اقرار کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مراد یہ ہے کہ عدالت کو تو بی جے پی لیڈران کے تشدد میں ملوث ہونے کا مزید ثبوت مل گیا ہے ، اوراس کے باوجود وہ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے !!

بھارت میں مسلمان، دیگر مذاہب کے ماننے والے اور پسی ہوئی اقوام برہمنی فسطائیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ۹دسمبر ۲۰۱۹ء کو بھارتی لوک سبھا اور پھر ۱۱دسمبر کو راجیہ سبھا نے ایک نسل پرستانہ قانون منظور کیا۔ یہاں اسی مناسبت سے چھے مختصر مضامین پیش ہیں، جن سے وہاں موجودہ عوامی اُبھار کے خدوخال کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کے رہنے والے، بھارت کے مظلوموں اور مسلمانوں کی مدد اسی صورت میں کرسکتے ہیں کہ وہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں مضبوط پاکستان بنائیں، خالق اور خلق سے جو عہد کیا تھا اس کے تقاضے پورے کریں۔(ادارہ)

بھارتی مسلمانوں کے لیے، پاکستان یا قبرستان؟
افتخار گیلانی

بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں ۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخابات کی کوریج کے دوران، میں دربھنگہ ضلع سے نیپال کی سرحد سے ملحق علاقے مدھوبنی کی طرف رواں تھا کہ راستے میں ایک پولیس ناکہ پر گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا۔پولیس جب تک گاڑی کی تلاشی لے رہی تھی، میں سڑک کنارے چائے کے ایک کھوکھے کی طرف چل پڑا۔ چند لمحوں کے بعد پولیس سب انسپکٹر ، جو نیم پلیٹ سے مسلمان معلوم ہوتا تھا، میرے پاس آیا، اور پوچھا کہ ’’کیا دہلی میں ایسی کوئی بات ہورہی ہے کہ انتخابات کے بعد مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان جانا ہوگا؟‘‘ اس سوال پر میں چکّرا گیا، اور پوچھا کہ ’’ایسا آپ کیوں سمجھتے ہیں اور کس نے یہ افواہ پھیلائی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیاکہ ’’میں پاس ہی ملاحوں کے گاؤں میں چند آسودہ حال مسلم گھرانوں کے محلے میں رہتا ہوں، اور حال ہی میں ایک تین منزلہ مکان تعمیر کیا ہے۔ چند روز سے گاؤں کا نمبردار مسلسل گھر آکربتا رہا ہے کہ اپنا مکان جلد فروخت کرو، انتخابا ت کے بعد کوئی دام نہیں دے گا، کیونکہ ہم کو بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جلد ہی پاکستان بھگا دیا جائے گا‘‘۔ پوچھاکہ ’’آپ کا گاؤں کتنا دُور ہے؟‘‘ مجھے اب ایک بڑی اسٹوری کی بُو آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گاؤں قومی شاہراہ سے ہٹ کر چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی معیت میں گاؤ ں کی طرف چل پڑا۔
نمبردار سے ملا تو اس نے بتایا کہ ’’ایک ہفتہ قبل مجھ کو سمستی پور شہر میں بلایا گیا تھا، جہاں پٹنہ سے ایک لیڈر آئے تھے۔ انھوں نے ایک بند کمرے کی میٹنگ میں تمام نمبرداروں کو بتایا کہ انتخابات کے بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی صوبے میں اقتدار میں آئے گی، تو مسلمان پاکستان جائیں گے اور ان کی جایدادیں گاؤں والوں میں بانٹی جائیں گی‘‘۔ اس سے یہ گرہ کھلی کہ نمبردار اب اپنے طور پر ان مسلم گھرانوں کے ساتھ احسان کرکے یہ یقینی بنارہا تھا، کہ ان کی جایداد انتخابات سے پہلے فروخت ہو، تاکہ پاکستان جانے سے قبل ان کو ’مناسب دام‘ مل سکیں۔
میں نے اپنا صحافت کا چوغہ اتار کر گاؤ ں والوں کو بھارتی آئین، اور اس میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق، بھائی چارہ وغیرہ پر تفصیلی لیکچر دیا۔ اور یہ بھی بتایا کہ دہلی میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، بس کوئی آپ کو ورغلا کر اپنا سیاسی اُلو سیدھا کر رہا ہے۔ ان کو یہ بھی بتایا کہ۱۹۴۷ء میں جن لوگوں کو پاکستان اور بنگلہ دیش جانا تھا وہ چلے گئے اور اب جو مسلمان یہاں ہیں، و ہ تو بھارتی شہری ہیں اور ان کو ملک سے باہر نکالنے کا کوئی سوال ہی پید ا نہیں ہوسکتا۔
مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس واقعے کے محض چار سال بعد اتر پردیش کے مظفر نگر قصبے میں ۷۲سالہ حاجی حامد حسین کو پولیس کی لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ کے وار سہتے ہوئے یہ سنناپڑے گا کہ ’’پاکستان ورنہ قبرستان جاؤ‘‘۔ کلکتہ کے ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق حاجی صاحب قصبے کی ایک معتبر شخصیت ہیں، اور انھی کی وجہ سے علاقے میں ایک روز قبل متنازعہ شہریت قانون کے خلاف ہونے والا مظاہر ہ پُرامن طور پر ختم ہو گیا تھا۔ ان کے گھر کا فرنیچر، باتھ روم ، کچن اور عنقریب بچوںکی شادی کے لیے خریدا ہو ا سامان توڑ پھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی طرح میرٹھ شہر میں سینیر پولیس آفیسر اکھلیش سنگھ نے مظاہر ہ کرنے والے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ’’پاکستان چلے جاؤ‘‘۔
اترپردیش کے متعدد شہروں، قصبوں اور دُور دراز دیہات سے آنے والی خبریں نہایت ہی پریشان کن ہیں۔ ان خبروں میں پولیس تشدد کی جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ انتہائی متعصبانہ اور ہولناک ہے۔صوبے میں ۲۵ مسلمانوں کی جانیں چلی گئیں [اور ان اموات کا سبب اس طرح رپورٹ کیا گیا ہے: سینے میں گولی لگنے سے ۶، سر میں لگنے سے ۸، کمر میں لگنے سے ایک، ماتھے پر لگنے سے ایک، گردن پر لگنے سے ۲، اور پیٹ میں گولیاں لگنے سے ۴؍افراد جان سے گئے]۔  اس کے ساتھ ہی سول انتظامیہ مسلمانوں کو نوٹس جاری کر رہی ہے کہ احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کریں۔ صوبہ اترپردیش کے متعصب وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم مظاہرین سے بدلہ لیں گے‘‘۔
عہد رفتہ کے نوابوں کے شہر رام پور میں پتنگ بنانے والے محمد عابد دن بھر گھرپر اپنے کام میں مصروف تھے۔ شام کو گھر سے نکلتے ہی گرفتار کر لیے گئے۔ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ دن بھر شہر میں کیا ہو رہا تھا۔ اگلے دن ان کے گھر پرنوٹس آیا کہ پولیس کی لاٹھی، ڈنڈے اور ہلمٹ کو جو نقصان پہنچا ہے، اس کے لیے خزانہ میں ۱۴ہزار روپے جمع کروائیں۔ سو روپے سے بھی کم یومیہ کمانے والے اور وہ بھی جب کمانے والا ہی جیل میں ہو، ۱۴ہزار روپے کہاں سے لائیں گے؟ اسی طرح ۳۶سالہ یومیہ مزدور اسلام الدین ۲۱دسمبر کو اپنے گھر کے باہر دوستوں کے ہمراہ گھاس پھونس جلا کر آگ تاپ رہا تھا کہ پولیس نے گرفتار کرلیا، اور کہا کہ شہر میں پولیس کی گاڑیوں اور بسوں کی جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے اس کا جرمانہ ادا کریں، ورنہ ان کی جایداد ضبط کرکے نیلام کی جائے گی۔
سکرول انڈیا کے مطابق نہٹور کے نیزا سرائے میں  ۵۵ سالہ رفیق احمدنے پولیس کے کہنے پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے عوام سے امن برقرار رکھنے اور گھر جانے کی اپیل کی۔ پُرامن لوگ واپس گھر جانے لگے تو آنسو گیس کے گولے اور لاٹھیاں ان کے سر سے ٹکرانی شروع ہوگئیں۔ حالانکہ کسی نے کوئی پتھر نہیں پھینکا تھا، اس کے باوجود پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ کیرانہ سے کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ سعید الزماں صدیقی کے بیٹے نے بتایا کہ ’’پولیس نے ہماری چارکاریں بلاجواز نذر آتش کر دیں۔ ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی ہندی کے سوربھ شکلا کا کہنا ہے کہ مظفر نگر میں پولیس نے توڑ پھوڑ کرنے سے قبل سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے۔ مگر اس کے باوجود بہت سی ویڈیوز ایسی بھی منظر عام پر آ رہی ہیں، جن میں نظرآرہا ہے کہ لوگ پُرسکون انداز میں   چل رہے ہیں اور پولیس اچانک پیچھے سے لاٹھی چارج کرنے لگتی ہے۔ کہیں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں اور پولیس انھیں پکڑ کر زدوکوب کررہی ہے۔ دو پولیس اہلکار ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں، اور پولیس کے دو افراد اسے لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔پولیس کی ایسی درندگی کی ویڈیوز واٹس ایپ میں گشت کر رہی ہیں، جنھوں نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے ۔ لکھنؤ سے گرفتار ہونے والوں میں دیپک کبیر تھیٹر اداکار بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے بارے میں پتا کرنے کے لیے تھانے گئے تو انھیں بھی گرفتار کرکے ان پر قتل اور فساد بھڑکانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سابق سینیر پولیس افسر ایس آر داراپوری اور ۷۶سالہ انسانی حقوق کے کارکن محمد شعیب کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ کانگرسی رہنما صدف جعفرکو بھی پتھراؤ کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ، لکھنؤ ایسٹ کے بقول: ’’ہم نے انھیں فساد کرتے ہوئے موقع سے گرفتار کیا ہے ‘‘۔
لکھنؤ میں انگریزی اخبار دی ہندو  کے صحافی عمر راشد کو پولیس نے ایک ریسٹورنٹ سے حراست میں لیا۔ نئے شہریت قانون کے خلاف مسلمانوں کے علاوہ شمال مشرق کے سبھی صوبے سراپا احتجا ج ہیں۔ وہاں کئی جگہوں پر حکمران بی جے پی کے دفاتر اور لیڈروں کے گھر بھی جلائے گئے، مگر سزا صرف مسلمانوں کو ہی دی گئی ہے۔ چند سال قبل دہلی کے متصل ہریانہ میںنوکریوں میں کوٹہ کے مسئلے پر جاٹوں نے ریلوے اسٹیشن، شاپنگ مال، پولیس اسٹیشن اور ایک وزیر کے گھر تک کو آگ لگاکر راکھ کر دیا۔ مگر کس کی ہمت تھی کہ ان کو گرفتار کرے، یا پیلٹ گن سے ہی ان کے ہجوم کو منشر کرے، یا ان سے معاوضہ طلب کرے ؟ تاہم، مسلمان کے لیے یہ سب تعزیریں موجود ہیں۔

شاہین صفت مسلم خواتین، فسطائی حکومت کے مدِ مقابل
شکیل رشید

آج بھارت کی شاہین صفت گھریلو اور پڑھی لکھی مسلم خواتین حجاب کی پاس داری کے ساتھ کچلی پسی قوم کا ہراول دستہ ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ سے لے کر پٹنہ، ارریہ ، مدھوبنی، الٰہ آباد کے روشن باغ، سیلم پور، خوریجی، ذاکر نگر، کولکاتہ، کوٹہ، پونے، یعنی پورے بھارت میں مسلم خواتین سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک میں وہ تاریخی کردار اداکررہی ہیں، جس نے حکمران پارٹی کے کیمپ میں کھلبلی مچا دی ۔
یوں تو ان باہمت اور بہادر خواتین میں تمام ہی مذاہب کی خواتین شامل ہیں ، مگر سچی بات یہ ہے کہ مسلم خواتین کا حوالہ اس لیے زبان زدعام ہوا ہے کہ اس تحریک کی ابتدا انھوں نے ہی کی ہے۔ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پیٹا گیا، مظفرنگر، کانپور، فیروز آباد، بجنور میں ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں اور داخلِ زنداں کیاگیا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ ایک ایسے کالے قانون کے خلاف میدان میں ڈٹ گئیں، جو ان سے اور ان کی اولاد سے اس ملک میں، اور جہاں وہ پیدا ہوئے، شہریت چھیننے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ _یہ شاہین صفت مسلم خواتین آج اسی مودی کے خلاف ہیں، جس نے ’طلاق ثلاثہ‘ کے معاملے پر کہا تھا: ’’مسلم خواتین کا استحصال بند ہونا چاہیے اور انھیں انصاف ملنا چاہیے‘‘۔ یہ مسلم خواتین آج مودی سے سوال کررہی ہیں کہ کیا ’استحصال‘ سے ’نجات‘ اور ’انصاف‘ دلانے کا مقصد ان پر اس ملک کے دروازے بند کرنا، انھیں یہاں سے دربدر کرنا تھا؟ اور وہ جواب بھی دے رہی ہیں کہ ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘۔
شاہین باغ دہلی سے شروع ہونے والی خواتین کی اس تحریک کا تاریخ میں ذکر سنہرے حروف میں کیا جائے گا۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تحریک طلبہ نے شروع کی، پھر خواتین سامنے آئیں، اور آج یہ تحریک جسے جمہوریت اور آئین کے تحفظ کی تحریک بھی کہاجاسکتا ہے، سارے ملک میں طلبہ اور خواتین ہی کے دم سے جاری ہے۔ مودی بوکھلائے ہوئے ہیں، اس لیے کہ انھوںنے اس سے پہلے خواتین کی طاقت نہیں دیکھی ہے۔ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین نے جو تحریک شروع کی ہے، اس نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ شاہین باغ کی تحریک نے مودی کے فسطائی ایجنڈے کو اس طرح عیاں کردیا ہے کہ ساری دنیا اس پر نفرت بھیج رہی ہے۔
اب کوشش یہ ہے کہ شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کی تحریک کو کسی طرح سے کمزور کیا جائے بلکہ ختم کردیاجائے۔ اس کےلیے مسلمانوں میں جو نفاق پرور ہیں ان کی بھی مدد لی جارہی ہے۔ میناکشی لیکھی نے کھلے طو رپر دھمکی دی ہے، اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جارہا ہے۔   آج ۱۴جنوری کو دہلی ہائی کورٹ نے پولیس سے کہہ دیا ہے کہ یہ قانون کا معاملہ ہے۔ وہ اپنے طورپر شاہین باغ کی خواتین کو ہٹائے۔ پولیس اس کی تیاری کررہی ہے۔ ممکن ہے کہ ان بہادر خواتین پر لاٹھی ڈنڈے برسائے جائیں۔ اب جو بھی ہو، یہ وہ باہمت خواتین ہیں، بقول اسرارالحق مجاز: جنھوں نے ’آنچل کو پرچم‘ بنالیا ہے اور مودی کے ’استحصال‘ اور ’انصاف‘ کے ’جھوٹ‘ کو ان کے منہ پر دے مارا ہے۔ اگر وہ جبراً ہٹائی گئیں تو بھی ’فاتح‘ وہی رہیں گی اور یہ زعفرانی سرکار ہمیشہ ہمیشہ تاریخ میں ظالم اور جابر کے طو رپر ہی جانی جائے گی۔

بھارتی مسلمان ، مودی کا نشانہ؟
سنجیو سبھلوک

ہمارے ہاں کہا جارہا ہے کہ ابتدا میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل رہنے والے محمدعلی جناح پر ہندوؤں سے متعلق ایک بلاجواز خوف غالب ہوا۔ اس لیے ۱۹۲۸ء کے کل جماعتی اجلاس میں انھوں نے چودہ مطالبات پیش کیے۔ لیکن اب [۹۱برس گزرنے کے بعد] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ خوف بڑی حد تک صحیح ثابت ہوا ہے۔ پھر گذشتہ ۷۲برسوں کے دوران بھارت میں ان مسلمانوں پر جو ۱۹۴۷ء سے یہیں پر مقیم ہیں، مسلسل دباؤ ڈالا گیا۔ بجاے اس کے کہ تحریک ِ آزادی میں انڈین نیشنل کانگریس کے وعدے کے مطابق مذہب کو ملک کے نظام سے علیحدہ رکھا جاتا، تاریخ کے اوراق پر بھارت قطعی طورمسلمانوں کے خلاف رہا۔
بھارتی دستور مملکت کی دفعہ ۴۸ میں ’’گائے، بچھڑے یا دودھ دینے والے دیگر جانوروں کے ذبیحے پر پابندی عائدہے‘‘ اور یہ پابندی جو بزعم خود ’جدید سائنس‘ کےمفاد میں قرار دی گئی تھی، لیکن اسے ہندو راشٹر کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا۔ اس آئینی اختیار کی بنیاد پر کئی ریاستوں میں گائے کا گوشت (beef) بیچنے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح سے بیف کھانے والے لاکھوں بھارتیوں پر ان کے پسند کے کھانے پینے کی آزادی پر قدغن لگادی گئی ہے۔
وزیراعظم نہرو نے ایک اور قدم آگےبڑھایا۔ بجاے اس کےکہ شہریوں کے لیے  ایک معیاری قانون لاگو کیا جاتا، انھوں نےہندو ایکٹ قائم کیا۔ مزیدیہ کہ مندروں کو حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا جو ان کی دیکھ بھال کرتی اور بعض اوقات انھیں فنڈز بھی فراہم کرتی۔  اسی طرح بابری مسجد کا انہدام ممکن نہیں ہوتا اگر اس کے پس پردہ بالخصوص کانگریسی حکومتوں کی چشم پوشی نہ ہوتی۔ اس انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد کوئی شبہہ باقی نہیں رہا کہ ہندو راشٹر کے اہداف کو جواز بخشنے کے لیے املاک کے حقوق کو بدلا بھی جاسکتا ہے۔ سب سے زیادہ چشم کشا حقیقت تو بھارتی مسلمانوں کی معاشی ومعاشرتی صورت حال ہے۔ گویا کہ یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ’’ تمام ہوشیار اور ذہین مسلمان تو پاکستان چلے گئے ہیں، اس لیے ہمارے ملک کے  تمام اہم عہدوں کے لیے یہاں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔ گویا بھارتی مسلمان غیر معیاری قرار دے دیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ ملک کے بڑے عہدوں کے اہل نہیں ہیں۔ سچر کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ انڈین افسر شاہی میں محض۲ اعشاریہ ۵ فی صد مسلمان ہیں۔ اسی طرح اگر جموں و کشمیر لائٹ انفنٹری کو الگ رکھا جائے تو دفاعی فورسز میں بھارتی مسلمانوں کی شمولیت محض ۲ فی صد ہے، جب کہ دفاعی فورس میں اعلیٰ مسلم افسران کی شرح تو اس سے بھی کم ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ’اکنامک ٹائمز انٹیلی جنس گروپ‘(ETIG) کے ایک جائزے کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی ۵۰۰کمپنیوں میں ڈائریکٹروں اور سینئر ایگزیکٹوز کے عہدوں پر محض ۲ء۶ فی صد مسلمان فائز ہیں۔
اس ضمن میں مجھے وہ چار روزہ نیشنل ریفارم کانفرنس یاد آرہی ہے، جو میں نے بابا رام دیو  کے پتن جالی ہیڈ کوارٹرز پر اپریل۲۰۱۳ ء میں منعقد کی تھی۔ اُس وقت ہم ایک نئی سیاسی جماعت (سورنا بھارت پارٹی) بنانے کے لیے مشترکہ طور کام کر رہے تھے۔ اس کانگریس میں ملک بھر کی ۱۰۰ معروف شخصیات بشمول سابق وائس چانسلر اورسابق جرنیل موجود تھے۔ اس کانگریس کے حوالے سے میرا مقصد مجوزہ پارٹی کے منشور کو پیش کرنا اور کچھ نئے تصورات حاصل کرنا تھا۔ اجلاس میں کئی آر ایس ایس اراکین اور حمایتی بھی موجود تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں سے نکال باہر کیا جائے۔ کیونکہ ان کاخیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں دفاعی شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلمان دغا کریں گے۔
میں نے اس خوف ناک تجویز کو مسترد کر دیا اور یہ اچھا ہی ہوا کہ رام دیو اور میں نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ مگر یہ صرف آرایس ایس نہیں بلکہ کئی ممتاز بھارتی ہندو اُن مسلمانوں کے حوالے سے جانب دار ہیں، جن کے زندگی میں آگے بڑھنے کے ذرا سے بھی امکانات ہیں۔ ویسے بھی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی شرح ہمیشہ مسلم آبادیوں کے تناسب سے بہت کم رہی ہے۔ لیکن بی جے پی نے نیا ریکارڈ قائم کرلیا کہ اس کے ۳۰۳ ممبران پارلیمنٹ میں صرف ایک مسلم رکن ہے۔
یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجوزہ ہندو راشٹرمیں مسلمان واقعی دوسرے درجے کے شہری ہوں گے، لیکن ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ پاس کر کے اس کے لیے قانونی راہ ہموار کرلی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’شہریت ترمیمی ایکٹ‘ بھارت کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم واقعہ بن گیا ہے اور یہ ایکٹ کئی لحاظ سے پریشان کن ہے۔ اس میں سماجی مہاجرین اور معاشی مہاجرین میں فرق ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس ایکٹ میں فوری شہریت کے حصول کے لیے مذہب کو اہمیت دی گئی ہے۔ شہریت دینے سے انکار کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ’’آپ مسلمان ہیں‘‘۔ بھارت کے قانون میں اسلام کو سرکاری طور پر تنزل یافتہ قرار دیا گیاہے۔ مسلمانوں کو سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ ان کا مذہب بھارت میں قابل قبول نہیں ہے۔ پولیس انھیں احتجاج کے لیے جمع ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ظاہر ہے کہ دوسرے درجے کے شہری جمہوری حقوق کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اتر پردیش میں جب وہ صداے احتجاج بلند کرتے ہیں تو ان پر گولی چلائی جاتی ہے اور ان کی املاک ضبط کی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم مودی تو مظاہرین کے کپڑوں کو دیکھ کر ان کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے یہی طے پایا گیا ہے کہ انھیں پہلے زخم دو   اور پھر ان کی تذلیل بھی کرو۔ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں مودی کا کھیل کیا ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں بی جے پی کے منشور سے تو کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں۔ لیکن ہمیں مسٹرمودی کی مادری تنظیم (آر ایس ایس) اور ان کے گورو گولوالکر سے صاف صاف جوابات ملتے ہیں، اور وہ مسلمانوں کو ملک دشمن تصور کرتے ہیں: ’’انھوں نے نہ صرف ہماری زمین کے دوبڑے ٹکڑے حاصل کیے ہیں جہاں وہ مکمل طور پر حکومت کر رہے ہیں اور ہمارے باقی ماندہ ملک کو فتح کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، بلکہ وہ یہاں اچھی خاصی تعداد میں بطور چھپے دشمن کے رہ رہے ہیں‘‘۔
یہی گولوالکرجب جوان تھے تو وہ نازی طرزِ عمل کے گرویدہ تھے۔ ان کا کہنا ہے:’’اپنی نسل کی پاکیزگی اور اس کے کلچر کو برقرارکھتے ہوئے ملک کو سامی نسل، یعنی یہودیوں سے پاک کرکے جرمنی نے پوری دنیا کو جھٹکا دیا، تو ہندستان کے لیے اس سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کا ایک اچھا سبق ہے‘‘۔ تاہم، جب انھیں احساس ہوا کہ نسل کشی کرنا آسان نہیں ہوگا، ان کے لیے دوسرے درجے کی شہریت کو قابل عمل سمجھا اور کہا: ’’ہندستان میں غیر ملکی نسل کو یا توہندو مذہب کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا، یا ہندو نسل میں ضم ہو جانا ہوگا، یا پھر ملک میں ہندو قوم کا مکمل طور پر تابع دار بن کر رہنا ہوگا۔ وہ کسی چیزکا مطالبہ نہ کریں اور نہ کسی قسم کی مراعات کے مستحق ہوں گے۔ یہاں تک کہ انھیں شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گے‘‘۔ مسلمانوں کے لیے گولوالکر کی ہدایات واضح تھیں: ’’واپس آجاؤ پہناوے اور رسومات کے حوالے سے اپنے اجداد کی شناخت اپناؤ‘‘۔ گویا مسلمان اگر بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے مذہب کو ترک کرنا ہوگا۔
مودی حکومت کے لیے اب صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو دبانا بند کر دے، ان کے مذہب میں ہر قسم کی مداخلت کو ختم کر دے (بشمول شہریت ترمیمی ایکٹ، مندر کے مالکانہ حقوق اور حج سبسڈی)، اور تمام بھارتیوں کوقانون کے مطابق یکساں حقوق فراہم کرے۔(ٹائمز آف انڈیا، ۲جنوری ۲۰۲۰ء)

آسام: دستاویزات کے باوجود کیمپوں میں رہنے پر مجبور
افروز عالم ساحل

۴۵ برس کے محمد ابراہیم علی کی آنکھیں نم ہیں۔ وہ بار بار اپنے ٹوٹے ہوئے مکان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میں یہاں تیج پور سے ایک مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے بطور امام آیا تھا اور یہیں بس گیا۔ میں یہاں کی مسجد میں نماز پڑھاتا ہوں۔ پچھلے سات، آٹھ برسوں سے مسلسل تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرکے زمین خریدی اور یہ مکان تعمیر کیا۔ لیکن ۵ دسمبر۲۰۱۹ءکو میرے اس آشیانے کو یہ کہتے ہوئے کہ مسمار کر دیا گیا کہ ’’میں بنگلہ دیشی ہوں‘‘۔
یہ کہانی صرف ابراہیم علی کی نہیں ہے بلکہ کم و بیش یہی کہانی آسام کے سونت پور ضلع کے  ۴۲۶ خاندانوں کی ہے، جن کے مکان یہی کہتے ہوئے زمیں بوس کر دیے گئے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ اب ان خاندانوں کے تقریباً ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد شدید سردی کے  موسم میں کھلے آسمان تلے بنے عارضی کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سونت پور کے مکوا، سیرووانی اور  بیہیا گاؤں کے کیمپ اس بے بسی اور تباہی کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں زیادہ تر لوگ ڈیگولی چپوری، بالی چپوری، لالٹوپ، باٹی ماری بھیروی اور لنگی بازار گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ان کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیے گئے شہریوں کا دعویٰ ہے کہ ’’ہمارے پاس اپنی اپنی زمینوں اور ہندستانی شہریت کو ثابت کرنے والی تمام دستاویزات موجود ہیں۔ اس کے باوجود مقامی بی جے پی کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا نے ہمارے گھروں کو اس لیے منہدم کروا دیا کہ اس بستی کے مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں ڈالے تھے‘‘۔ ڈیگولی چپوری کے محمدابراہیم علی آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ان لوگوں نے ہمارے کچّے مکانوں پر ہاتھی چلوا دیا، اور پکے مکانوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ ساتھ میں پولیس فورس کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ ہمیں کچھ بھی بولنے یا کاغذ دکھانے کا موقع نہیں دیا گیا‘‘۔ ابراہیم علی کہتے ہیں: ’’میں اور میرے باپ دادا سب یہیں آسام میں پیدا ہوئے ہیں۔ این آر سی لسٹ میں ہمارا نام تو پہلی مردم شماری۹۵۱ ۱ میں بھی تھا، اور اس بار کے بھی این آرسی میں موجود ہے۔ میرے پاس تمام دستاویز ہیں، پھر بھی نہ جانے کس بنیاد پر مجھے بنگلہ دیشی بتا رہے ہیں‘‘۔
۶۵ سالہ کسان اکاس علی نے گاؤں میں چھوٹے سے مکان کی تعمیر میں اپنی پوری زندگی کا سرمایہ لگا دیا۔ وہ اس پیرانہ سالی میں ایک عارضی کیمپ میں اپنے ساتھ ایک لال پوٹلی لیے پریشان پھر رہے ہیں۔ اس پوٹلی میں ان کے ہندستانی شہری ہونے کے تمام کاغذات موجود ہیں۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم ایک بار چل کر ان کا بھی گھر دیکھ لیں۔ چنانچہ ہم اپنے دورۂ آسام کے بیچ ان کے ساتھ ان کے باٹی ماری بھیروی گاؤں پہنچے۔ جیسے ہی انھوں نے اپنا تباہ شدہ گھر دیکھا تو ڈبڈبائی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے بولے: ’’میرا آبائی گاؤں سیلاب میں بہہ جانے کے بعد ۱۵سال سے زیادہ عرصہ ہوا، میں یہاں رہ رہا ہوں۔ میں آسام کا ایک حقیقی شہری ہوں اور این آر سی میں بھی میرا نام شامل ہے۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں سوتیا اسمبلی حلقہ میں جہاں میرا گاؤں پڑتا ہے وہاں ایک ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوں۔ میرے ووٹ کا اندراج پڑوسی انتخابی حلقے میں ہے۔ ایم ایل اے پدما ہزاریکا نے انتظامیہ کی ملی بھگت سے مجھے اور ہم جیسے ۴۰۰ سے زیادہ خاندانوں کو صرف اس وجہ سے علاقے سے باہر نکال دیا کہ ہم نے انھیں ووٹ نہیں دیا۔ اس کارروائی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ بی جے پی یہاں ہندو بنگالیوں کو آباد کرنا چاہتی ہے‘‘۔
طہورہ خاتون کی بھی یہی کہانی ہے۔ وہ چپ چاپ خاموشی سے اپنے تباہ کردہ گھر کی طرف نظریں ٹکائے ہوئی ہیں۔ کئی بار سوال کرنے کے بعد وہ آسامی زبان میں بتاتی ہیں کہ ’’میرا ووٹ سونت پور میں درج ہے۔ بی جے پی اُمیدوار کو ووٹ نہیں دیا تو اس نے میرا گھر اُجاڑ دیا‘‘۔ اسی کیمپ میں ۶۰ سالہ واحد علی نے بتایا کہ ان کا گھر اس سے قبل نوگاؤں میں تھا اور میں ۱۲ سال پہلے یہاں آیا تھا۔ اسمبلی حلقہ سے بی جے پی اُمیدوار نے میرا مکان گرا دیا ہے کیونکہ میں نے اس کو ووٹ نہیں دیا تھا‘‘۔ کھلے آسمان تلے کیمپ میں مقیم خواتین اور بچوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خواتین کا کہنا ہے کہ: ’’ہمیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ریاستی اسمبلی کے لوگ ان کیمپوں میں گھس کر ان کی عزت پر بھی حملہ نہ کردیں‘‘۔
ضیاء الرحمان سے جب پڑھائی کا پوچھا تو اس نوجوان نے سخت غصّے میں کہا: ’’ہم کیمپ میں کیسے تعلیم حاصل کریں گے؟ ہمیں بنگلہ دیشی کا ٹھپہ لگا کر بے گھر اور بے زمین کر دیا گیا ہے، ہم اسکول جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہاں تو یہ بھی نہیں پتا کہ زندگی کیسے گزرے گی؟ ہم میں زیادہ تر لوگ خود کشی کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ ہمارے گھر ہم سے چھین لیے گئے۔ پہلے قریب کے گاؤں میں کام مل جاتا تھا، لیکن جب سے حکومت این آر سی اور نیا قانون (شہریت ترمیمی ایکٹ) لے کر آئی ہے، ہم سب بیکار پڑے ہیں‘‘۔
آٹھویں میں پڑھتی سمون نشا ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن اب اس کے لیے اسکول کی تعلیم ختم ہوگئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’اسکول کیمپ سے بہت دور ہے۔ اب کیسے جا سکیں گے؟‘‘ اسی طرح نیہا آٹھویں جماعت میں پڑھتی ہے ، اس نے بتایا کہ: ’’اسکول میں سب مجھے بنگلہ دیشی سمجھتے ہیں‘‘۔ یوں ان بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب ان بچوں کے والدین کو وہاں سے بے گھر کر دیا گیا ہے، اگرچہ ان تمام لوگوں کے پاس اس زمین سے متعلق دستاویزات موجود ہیں۔ اس کی طرف متوجہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر منویندر پرتاپ سنگھ کہتے ہیں: ’’اگر ان کے پاس دستاویز ہے تو انھوں نے یہ زمین غیر قانونی قبضہ کار سے خریدی ہے، کیونکہ یہ ایک سرکاری اراضی ہے‘‘۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وجہ ہے کہ: ’’صرف چند منتخب مکانات کو چُن چُن کر منہدم کیا گیا ہے، جب کہ ان کے بالکل بازو کے مکانات محفوظ ہیں۔ کیا یہ سرکاری اراضی نہیں ہے؟‘‘ اس سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ سماجی کارکن اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ ’’پہلے تو یہ بیچارے قدرتی آفات کا شکار ہوئے۔ جیا بھرولی ندی نے ان کی زمین اپنے اندر سمو لی اور اب حکومت کے کارندے ان سے ان کی زمینیں چھین رہے ہیں۔ کسی کے ساتھ اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہاں کا ہر فرد جانتا ہے کہ یہ جیا بھرولی ندی لوگوں کی زمین کس طرح چھینتی ہے‘‘۔ اشفاق حسین نے مزید بتایا کہ ’’اگر یہ لوگ واقعی بنگلہ دیشی ہیں تو حکومت کو فوری طور پر انھیں پکڑ کر بنگلہ دیش بھیجنا چاہیے۔ اور اگر وہ نہیں بھیج رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہندستانی ہیں۔ ایسے میں حکومت کو ان کے لیے رہایش کا بندوبست کرنا چاہیے۔ جبری پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ وہ کب تک کیمپ میں قیام پذیر رہیں گے؟ ایک بار بارش شروع ہونے کے بعد تو وہ کیمپ میں رہنے کے لائق بھی نہیں رہیں گے‘‘۔
جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ادارے یہاں کے تین کیمپوں میں لوگوں کو ریلیف کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔سماجی کارکن عبدالقادر کہتے ہیں، ’’سونت پور ضلع کا سوتیا اسمبلی حلقہ ایک مثال ہے کہ کس طرح سے آسام میں مسلمانوں کو حکومت کے ذریعے دبایا جا رہا ہے؟ کس طرح سے مسلمانوں کے انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں اور کس طرح سے حکومت ہندوتوا ذہنیت کو بڑھاوا دے رہی ہے؟‘‘ ۲۶ برس کے شاہ جمال کہتے ہیں: ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے۔ اس علاقے کے کچھ مسلمان یہاں کے رکن اسمبلی پدما ہزاریکا کے ساتھ بی جے پی میں ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ آج ان کے گھروں کو گرایا گیا ہے، کل ان کا نمبر بھی آئے گا‘‘۔
مسلم بستیوں کو اجاڑنے کی اطلاع ملنے پر ۲۲ دسمبر کو جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری محمد احمد نے آسام کے ان علاقوں کا دورہ کیا، اور بے دخل کیے گئے سبھی خاندانوں سے ملاقات کی اور متاثرین کو ہرممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ جماعت اسلامی ہند اَپر آسام ڈویژن کے اشفاق اللہ حسین اور بذل الباسط چودھری بھی ان کے ساتھ تھے۔ جماعت کی ٹیم نے ان علاقوں کا بھی دورہ کیا جہاں متاثرہ خاندان کے گھر تھے اور جنھیں منہدم کر دیا گیا ہے۔ ٹیم کی جمع کردہ معلومات سے پتا چلا کہ یہ لوگ آسام ہی کے شہری ہیں اور ان کے نام بھی این آر سی میں شامل ہیں۔ متاثرین نے بتایا کہ’’ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ متعصبانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے اور ہر طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔
یہ غریب مسلمان قدرتی آفات اور نفرت کی مار ایک ساتھ جھیل رہے ہیں۔ یہ مجبور و بے کس کھلے آسمان تلے اپنے دن کاٹ رہے ہیں۔ سرپر منڈلاتے خطرات اور مستقبل کے اندیشے ان کی زندگیوں پر مہیب سایے بن کر چھائے ہوئے ہیں۔

اعلیٰ تعلیمی ادارے اور بھارت کا بدلتا سیاسی منظرنامہ
ڈاکٹر سلیم خان

این آر سی کے خلاف اور حمایت میں فی الحال پورے بھارت میں مہمات چل رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) میں دہشت گردی اور اس میں آر ایس ایس کی فسطائی طلبہ تنظیم اے بی وی پی (ABVP:اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) کے ملوث ہونے کے ثبوت ذرائع ابلاغ کی زینت بننےلگے ہیں۔ ان دونوں واقعات کے زیر اثر ملک میں سیاسی رجحان ایک خاص انداز میں بدل رہا ہے۔ اس کو وارانسی کی سنسکرت یونی ورسٹی کے انتخابات اور ممبئی میں گیٹ آف انڈیا پر ہونے والے غیر معمولی مظاہرے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
اترپردیش میں بی جے پی کا جلاد صفت یوگی اقتدار پر قابض ہے۔ جس نے ابھی حال میں مظاہروں کو کچلنے کی نا کام کوشش کی اور ہار گیا۔ ساتھ ہی ساتھ مودی، یوگی اور امیت شا ایسی قانون سازی سے ہندو عوام کا دل جیتنے میں جٹے ہوئے تھے۔ مہم اپنے شباب پر پہنچی تو وارانسی میںواقع سنسکرت یونی ورسٹی کے اندر طلبہ یونین کا انتخاب ہوا، جس میں اے بی وی پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا نے اے بی وی پی کو چاروںشانے چت کر دیا۔ ان انتخابات میں خود ہندو طلبہ نے سنگھیوں کی چتا جلائی کیونکہ سنسکرت تو شاید ہی کوئی مسلمان پڑھتا ہے۔
بنارس ہندو یونی ورسٹی میں پروفیسر فیروز خان کا تقرر زعفرانی طلبہ کو اس قدر ناگوار گزرا کہ  وہ ہنگامے کرنے لگے۔ حالانکہ یونی ورسٹی انتظامیہ نے ضروری ٹیسٹ اور انٹرویو لینے کے بعدہی پروفیسر صاحب کو یہ عہدہ دیا تھا، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں سنسکرت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔سنگھی طلبہ کا الزام تھا کہ ہماری تہذیب سے بیگانہ شخص ہمیں اور ہمارے مذہب کو کیسے سمجھے گا؟ راجستھان کے پروفیسر فیروز خان نے بتایا ’’جب میں نے سنسکرت کی تعلیم لینی شروع کی تو کسی نے اس پر انگلی نہیں اٹھائی۔ میرے محلے میں ۳۰ فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ خودمسلم مذہبی پیشواؤں نے بھی میری سنسکرت کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ مسلم سماج نے بھی مجھے کبھی سنسکرت سے دُور رہنے کے لیے کہا‘‘۔ یعنی اپنی رواداری کا ڈھول پیٹنے والے ہندو سماج کے مقابلے میں کہیں زیا دہ مسلمان معاشرہ کشادہ دل، روشن خیال اور روادار ہے۔
سنسکرت یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابی نتائج میں اترپردیش کے اندر ٹھاکروں کی دادا گیری کے خلاف بیزاری کا اظہار ہے۔ اترپردیش کے یوگی راج میں خوف و دہشت کے ماحول کو سمجھنے کے لیے یہ بات کا فی ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد یونی ورسٹی  وائس چانسلر نے منتخب طلبہ کو کامیابی کا جلوس نکالنے سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا۔ یہی کامیابی اگر اے بی وی پی کے حصے میں آتی تو کیا وائس چانسلر یہ مشورہ دینے کی جرأت کرتے؟ اور اگر اعلان ہو بھی جاتا، تو کیا سنگھی طلبہ ان کی بات پر کان دھرتے؟
ہندستان کے اندر برہمنوں کی سب سے بڑی آبادی اترپردیش میں رہتی ہے۔ صوبے کے ۲۰ کروڑ باشندوں میں ۱۰ فی صد یعنی ۲ کروڑ برہمن ہیں۔ ایک عرصے تک یہ لوگ کانگریس میں رہ کر اقتدار میں رہے۔ بی جے پی بنیادی طور پر شہروں کی پارٹی ہے۔ گذشتہ انتخاب میں اس نے ممبئی، پونے، ناگپور، احمدآباد، سورت، بڑودہ اور دہلی کی ساری سیٹیں جیت لی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ ان شہروں کا نوجوان طبقہ ہے جو مودی کے پیچھے ہلکان ہوا جا رہا تھا لیکن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور دہلی کی جے این یو اور جامعہ ملیہ نے نقشہ بدل دیا۔ اس تشدد کے خلاف ملک بھر کے دیگر مقامات کے ساتھ ان شہروں میں بھی احتجاج ہوا ۔ ممبئی میں اگست کرانتی میدان پر ہونے والے مظاہرے کو غیرمعمولی کامیابی ملی۔ اس میں غیر مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس کے بعد آزاد میدان پر بھی نوجوانوں کا احتجاج بہت کامیاب ہوا۔ گیٹ آف انڈیا کا ۴۰گھنٹوں تک گھیراؤ تو ایک ناقابلِ تصور واقعہ تھا، اور اسی طرح باندرہ کے کارٹر روڈ پر ہزاروں لوگوں کا سڑک پر آجانا حیرت انگیز تھا۔ ان تمام مظاہروں کی قیادت نوجوان کر رہے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ طبقہ بی جے پی کے نسل پرستانہ سحر سے نکل رہا ہے اور اس کو سبق بھی سکھانا چاہتا ہے۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کے خلاف پس ماندہ طبقات میں بڑھتا اضطراب ایک بڑی لہر کا پتا دے رہا ہے۔ بی جے پی والوں نے پہلے مسلمانوں پر ہجومی تشدد کیا اور اس کے بعد یہ معاملہ دلتوں تک جاپہنچا ہے۔ آگے چل کر اشتراکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اب یہ لڑائی پارٹی کے اندر پس ماندہ ذاتوں تک پہنچ گئی ہے۔ مہاراشٹر کے دیہات میں یہی طبقات بی جے پی کی قوت کا سرچشمہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فسطائی جماعت نے بیک وقت پورے سماج کے خلاف نسلی جنگ چھیڑ دی ہے۔

بھارت میں موجو دہ لہر اور بنیادی تقاضا
پروفیسر محسن عثمانی ندوی

یہ ۱۹۷۸ء کی بات ہے کہ ایران میں اور پھر ۲۳برس بعد ۲۰۱۱ء میں عرب ملکوں، تیونس، مصر اور لیبیا کے عوام اپنے ہاں جابر حکومتوں کے خلاف انقلاب کے پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا۔ کہیں یہ انقلاب کامیاب ہوا اور کہیں دنیا کی بڑی طاقتوں کی سازش اور خلیجی ملکوں کی پشت پناہی سے یہ انقلاب اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا۔ جو منظر ان عرب ممالک میں چند سال پہلے دیکھنے میں آیا تھا، وہی منظر اب بھارت میں دیکھنے میں آرہا ہے ، جس کے طول وعرض میں احتجاج کی لہر اُٹھ رہی ہے۔ یونی ورسٹیوں کے طلبہ اور خواتین کا اس میں قائدانہ کردار ہے۔
حدیث نبویؐ کی روشنی میں انسان کو نہ تو ظالم ہونا چاہیے اور نہ مظلوم۔ ظلم کا مقابلہ کرنا ایک دینی قدر ہے۔ جو نوجوان حکومت کے ظلم کو روکنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، وہ قابل قدر ہیں۔ ہرخاص و عام میں یہ احساس پختہ تر ہے کہ اگر اس وقت مزاحمت نہ کی گئی، تو اس ملک میں اقلیتوں کو لوحِ ایام سے مٹا دیا جائے گا ۔ پھر نہ مسجدیں رہیں گی، نہ گرجے اور نہ مدرسوں کا وجود باقی رہے گا۔ ہجومی تشدد، جے شری رام کے نعرے، تین طلاق کا قانون ،دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی منسوخی، بابری مسجد، اور اب شہریت کے قانون میں ترمیم کا ایکٹ، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتاجارہا ہے۔ اگر ظلم کی اس سیاہ رات کے خلاف پوری طاقت سے عوام نہیں کھڑے ہوں گے تو اس ملک کو ایک نیا اسپین اور ہندو راشٹر بنانے کا خواب پورا ہو گا ۔
اس منظر نامے کی ایک قابلِ ذکر خاص بات یہ ہے کہ معروف علما یا مذہبی قیادت کا کردار اس میں قائدانہ نہیں ہے۔ جب پورا ملک احتجاج کے نعروں سے گونجنے لگا تو پھر کچھ علما جو پہلے بی جے پی کی بولی بول رہے تھے، وہ بھی نئے قوانین کے خلاف لب کشا ہوئے۔ حالانکہ ظلم اور ناانصافی کی مخالفت میں پہلی آواز تو انھی کی بلند ہونی چاہیے تھی۔ جیساکہ شاہ بانوکیس میں احتجاج منظم کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے تحریک خلافت اور بھارت چھوڑو تحریک میں علما نے بڑے بڑے احتجاج منظم کیے تھے۔ ایران اور پھر بہار عرب کی قیادت دینی شخصیات نے کی تھی۔ بعدازاں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ،جو اپنے ملکوں میںاستبدادی نظام کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں کو پسند نہیں تھا کہ عرب اور مسلم ملکوں میں جمہوریت آئے ،شریعت کا نفاذ ہو، اور استبدادی نظام کا خاتمہ ہو ۔ دولت مند خلیجی ملک بھی اپنی اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے ردِ انقلاب کی کوششوں کے ساتھی بن گئے۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا اور انقلاب کی کوشش ناکام ہوگئی ۔
بھارت کی موجودہ احتجاجی تحریک یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات جرأت مندانہ اور سرفروشانہ انداز میں چلارہے ہیں۔  اس سے حکومت کو اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ بھی حکومت کا ہم نوا نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ افسوس ناک آثار موجود ہیں کہ کچھ مؤثر علما اس احتجاج کو بھی محض ایک سیاسی کام سمجھتے ہیں۔یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ طبقۂ علما میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو بصیرت اور اندیشۂ فردا سے محروم ہے۔ ظلم کے خلاف کھڑاہونا ایک دینی قدر ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے:  اِنَّ النَّاسَ ا ِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَم یَأْخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ اَوْشَکَ اَن یَّعُمَّہُمُ اللہُ  بِعِقَابٍ مِنْہُ  [الترمذی، ابواب الفتن، حدیث:۲۱۴۵] ’’ لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں، توقریب ہے کہ اللہ ان سب کو اپنے عذاب میں لپیٹ لے‘‘۔  
بھارت میں ۷۰ ہزار کروڑخرچ کرکے این آر سی، یعنی رجسٹریشن کا قومی ترمیمی قانون لایا گیاہے۔ جس کے ذریعے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ۵ لاکھ ہندووں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمانوں کو نظربند کیمپوں میں رکھا جائے گا یا ان کو ملک بدر کردیا جائے گا ۔ شہریت ثابت کرنے کے لیے وہ دستاویز طلب کی جائیں گے، جن کا مہیا کرنا تقریباً ۲۵ فی صدی آبادی کے لیے مشکل ہوگا۔ اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو ان کو شہریت مل جائے گی، اور مسلمان ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ جب قانون کا یہ طبلِ جنگ بجا تو کم نظر مسلم قیادت اپیل کرتی رہی،’’ مسلمان شہریت کا دستاویزی ثبوت تیار رکھیں‘‘۔ایسی تیرہ و تار فضا میں سب سے پہلے جامعہ ملیہ، پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ساتھ ہی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی (جے این یو) اور دیگر یونی ورسٹیوں کے طلبہ نے بیداری اورزندگی کا ثبوت دیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا ’’ جوانوں کو پیروں کا استادکر‘‘۔ ان شاہین صفت بچوںنے سال خورد عقابوں کو جینے کا سلیقہ سکھایا ہے، جن کو اپنا اور مسلمانوں کا مستقبل عزیز ہے ۔شاہین باغ کی مسلم خواتین نے بھی فسطائیت کے خلاف اس جنگ میں حصہ لیا ہے ۔  
 مسلمان نوجوان طلبہ، غیر مسلم قائدین کو بھی ساتھ لے کر میدان میں آگئے کہ اُمید کے چراغ بجھنے لگے تھے۔ انھوں نے نوجوانوںکی شیرازہ بندی کی، اور انصاف پسند ہم وطنوں کو ساتھ لیا۔ ایک طرف نوجوانوں کا عزم جواں ہے، دوسری طرف ظلم وستم کا کوہ گراں ہے۔ اس صورتِ حال میں ایمان، تقویٰ اور صبر، تینوں سے مل کر کامیابی کا راستہ نکلتا ہے۔
قرآن کریم سے اور سیرت نبویؐ کے مطالعے سے دین کا جومزاج سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’صرف مسلمانوں کی اصلاح کی فکر نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی عاقبت بخیر ہونے کی فکر کی جانی چاہیے‘‘۔ مسلمانوں کو خیر امت اس لیے کہا گیا تھا کہ ان کو تمام بنی نوع انسان کے لیے مبعوث کیا گیا تھا: اُخْرِجَتْ لِلْنَّاسِ۔ لیکن بیش تر علما نے اپنے خطبات میں معنوی اور عملی تحریف کرڈالی اور اسے اُخْرِجَتْ لِلْمُسْلِمِیْنَ  کا مترادف سمجھ لیا ۔تمام انبیاے کرامؑ کے بارے میں آیا ہے:  وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ۝۰ۭ [ابراہیم ۱۴:۴، ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے ، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ قوم کے سامنے حق واضح کریں]۔
آج، جب کہ ہزاروں مدارس سے بڑی تعداد میں علما تیار ہوتے ہیں، اور وہ صرف مسلمانوں کو خطاب کرنے کے لائق ہیں۔ مسلمانوں کی جماعتیں بھی صرف مسلمانوں کے درمیان کام کرتی ہیں اور ملک کے دوسرے لوگوں سے ان کا رابطہ ٹوٹا ہوا ہے ۔علما کو بھارت کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کی بہت فکر ہے مگر ۱۰۰کروڑ سے زیادہ اللہ کی مخلوق کی کچھ فکر نہیں۔ ایک شخص کے تین بیٹے ہوں: ایک صحت مند ہو (مسلمان کی تمثیل)،دو بیمار ہوں ( کافر اور مشرک)، تو کیا اس کے لیے درست ہوگا کہ وہ بیمار بیٹوں کے علاج کی فکر نہ کرے اور ان سے لاپروا ہوجائے۔ یقین کرنا چاہیے کہ آج جو حالات پیش آرہے ہیں، وہ ہماری صدیوں کی غلطیوں کاشاخسانہ ہیں۔ ہمارا انداز اور طرزِ فکر مزاج نبویؐ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ علماے دین کی بڑی تعداد اس بنیادی طرزِ فکر سے دُور ہے۔اس وقت عام بھارتیوں تک دین کی دعوت پہنچانے سے پہلے ان کو خدمت خلق یا کسی اور عنوان سے اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیے عمومی رابطے اور حُسنِ سلوک کے ذریعے اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ [المؤمنون ۲۳:۹۶] کا تصور جاگزیںکرنا چاہیے کہ مسلمان اچھا شہری ،  اچھا پڑوسی، ایک اچھا انسان ہوتا ہے، شریف، خوش اخلاق اور مہذب۔ ہم نے یہ کام صدیوں سے نہیں کیا ہے۔ اس لیے دشمن عناصر کو یہ موقع مل گیا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کازہر لوگوں کے رگ وپے میں اتار دے۔
شہریت ترمیم ایکٹ کے خلاف احتجاج بہت خوش آیند ہے۔ البتہ سب سے اہم کام یہی ہے کہ عام لوگوں کی غلط فہمیاں دُور کی جائیں۔ ہرمسلمان تنظیم کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے اپنے یہاں شعبہ قائم کرے۔ اگر یہ طویل مدتی منصوبہ دوسرے مختصر مدتی منصوبوں کے ساتھ اختیار نہیں کیا گیا، تو بھارت میں مسلمان دوسروںکے ظلم وستم ہی کا ماتم کرتے ر ہیں گے۔ جن ملکوں میں مسلمان ۸۰،۹۰ فی صدی اکثریت میں ہوں وہاں اس ناقابلِ فہم غفلت کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے، لیکن جہاں چاروں طرف غیر مسلموں کا عددی غلبہ ہو، وہاں غیرمسلموں کو نظرانداز کرنا انبیائی طریقۂ دعوت نہیں ہے ۔اگر یہ ضروری کام نہیں انجام پایا تو منزلِ مقصود حاصل نہ کی جاسکے گی ۔

ہمارے اُردو کے ادیب اور دانش ور حالات حاضرہ پر زبان کھولنے کےلیے تیار نہیں۔ یہ بات افسوس کی ہے اور شرم کی بھی۔ افسوس اور شرم اس لیے کہ ادیبوں اور دانش وروں کی حیثیت ایک ’تھنک ٹینک‘ کی ہوتی ہے۔ منہ کھولے مسائل سے نمٹنے کےلیے یہ قوم کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ ان کا سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ یہ ’ضمیر‘ کو ’زندہ‘ رکھتے ہیں: اپنے ’ضمیر‘ کو بھی اور قوم کے ’ضمیر‘ کو بھی ___مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ادیب اور ہمارے دانش ور یہ کام جو اپنی نوعیت میں بہت ہی اہم بلکہ اہم ترین ہے، کررہے ہیں؟ 
کچھ عرصہ پہلے شہر ممبئی میں اردو کے ایک بہت بڑے، شہرت یافتہ اور رجحان ساز ادیب آئے تھے، ان سے ملاقات کےلیے پہنچے اور عرض کیا: ’’’ادب‘ پر نہیں ’حالاتِ حاضرہ‘ پر آپ سے بات چیت کرنی ہے‘‘۔ انھوں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا ’ہم تو ادب کے آدمی ہیں۔ ہم سیاست وغیرہ پر کیا بات کریں گے؟‘ ان کے غصّے پر حیرت بھی ہوئی اور تعجب بھی کہ اتنا بڑا ادیب ، دانش ور بھلا حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرنے سے کیو ںکترا رہا ہے؟ بہت منت سماجت پر انھو ںنے بات توکی، مگر سوالوں کے جواب بے دلی سے دیے اور جواب بھی ایسے، جو کسی مسئلے کو حل کرنے میں مفید ثابت نہ ہوسکیں۔ 

عام طور پر ہمارے ادیبوں کا یہی حال ہے۔ 

آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ ہوگیا، کشمیر میں کرفیو لگا ہوا ہے، انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہیں، اس خطے کا رابطہ ساری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیاگیا ہے، مگر ہمارے ادیب اور دانش ور ہیں کہ اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ اتنا بڑا واقعہ ہوا، ساری دنیا میں اس کی گونج ہے مگر انھیں کوئی فکر نہیں۔ ان کے مقابلے میں انگریزی ، ہندی، تمل، تیلگو ، گجراتی اور بنگالی و مراٹھی زبانوں کے ادیب اور دانش ور حالت حاضرہ پر نہ صرف غور کرتے ہیں بلکہ پوری قوم کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ یہ کشمیر پر بھی لکھ رہے اور بات کررہے ہیں۔ 
ٹھیک ہے ، افسانے ، شاعری، تنقید اور تحقیق اپنی جگہ درست ہے، مگر ادب تو آنکھیں کھولنا سکھاتا ہے او راپنے اطراف میں جو ہورہا ہے اسے ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی، جانچنے او رپرکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ اگر ہم عالمی ادب کا جائزہ لیں ، یا عالمی سطح کے دانش وروں کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ظلم وجبر کے خلاف آواز اُٹھانے سے وہ نہیں گھبراتے، بلکہ وہ عوام کی آواز کو بھی اپنی آواز میں شامل کرلیتے ہیں اور سب کی آواز وں سے مل کر جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ اس قدر پُراثر ہوتی ہے کہ حکمران حالات کو بہتر بنانے پر غور کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ 
اردو کے ادیبوں اور دانش وروں کو کیا کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان میں چند ہی لوگوں نے ۲۰۰۲ء میں گجرات فسادات کو اپنا موضوع بنایا ہے؟ ۲۰۱۳ء میں مظفر نگر کے فسادات اور ’ہجومی تشدد‘ اور فاشزم پر لکھا؟ بھارت میں ’زعفرانی لہر‘ کے بعد اقلیتوں کی سماجی، معاشی، تہذیبی اور تعلیمی اقدار کی شکست وریخت کو موضوع بنایا؟ عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی اور کشمیر کہ جہاں پیلٹ گنوں سے نکلنے والے چھرّوں سے لوگ نابینا ہوگئے ہیں، ان پر لکھا اور بات کی ہے؟ کتنے ہی موضوعات ہیں جن پر لکھنا،بولنا اور قوم کو راہ دکھانی ہے۔ فاشزم یا فسطائیت کے خلاف وہ لڑائی جو بھارت کی دوسری زبانوں کے ادیبوں اور دانش وروں نے شروع کررکھی ہے، اس میں شامل ہوکر ایک متحدہ جدوجہد کرنی ہے۔
کیوں اُردو میں کوئی اروندھتی راے، شیکھر گپتا ، پنکج مشرا ، یا چندراگوہا پیدا نہیں ہوتے؟ جب بات حق کہنے کی آتی ہے، تب اُردو خواں اہلِ دانش کی زبانوں پر تالے کیوں پڑجاتے ہیں ؟ اب سے سوپچاس سال پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا! پہلے، جب انگریز اس ملک پر قابض تھے تب ہم میں ایسے لوگ موجود تھے، جو سب کچھ سہہ کر بھی حق بولتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد ، ظفرعلی خاں، حسرت موہانی، کتنے ہی جگمگاتے نام ہیں، مگر آج ’کشمیر ‘ پر ہم میں سے کوئی نہ اروندھتی راے کی طرح زبان کھولنے پر آمادہ ہے اور نہ کوئی رویش کمار ہی کی طرح جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کو تیار!

آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے اب تک، جب کہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کو ٹھپ ہوئے ۵۰ واں دن شروع ہوچکا ہے۔ کرفیو ہے کہ مسلسل جاری ہے۔ لوگ ہیں کہ جیلوں کے اندر اس طرح سے ڈال دیے گئے ہیں کہ ان کے گھر والوں کو بھی خبر نہیں ہے۔ پیلٹ گنیں ہیں کہ  رہ رہ کی چلتی اور لوگوں کے چہروں اور بدن کو بدنما بنارہی اور بینائی چھین رہی ہیں، اور ہر جانب  فوجی وردیوں کا ایک سیلاب نظر آرہا ہے ۔ کشمیر کے حالات پر رپورٹوں ، تجزیوں ، اور روزمرہ کی خبروں کا جائزہ لیں تو خوب اندازہ ہوجائے گا کہ سچ کو جس طرح سے اجاگر کرنا چاہیے تھا ’ہم‘ نے تو نہیں کیا ہے، مگر ’اُنھوں‘ نے کیا ہے ، اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے کیا ہے ۔

اروندھتی راے بھی تو ایک ادیبہ ہیں۔ صرف ایک ناول نگار نہیں بلکہ وہ انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ رہنما بھی ہیں ۔کشمیر پر ان کا ناول The Ministry of Utmost Happiness  ۲۰۱۷ء میں شائع ہوچکا ہے۔ ’مسئلہ کشمیر‘ پر وہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے بہت پہلے سے بولتی چلی آرہی ہیں۔ ان کے ایک مضمون’آزادی‘ نے حکمراں جماعتوں کی نیندیں اڑادی تھیں۔ انگریزی ماہنامہ کارواں میں کشمیر کے تازہ ترین حالات پر ان کا ایک تجزیہ شائع ہوا، جس میں انھوں نے ۵؍ اگست کے روزمرکز کا مودی سرکار کے ہاتھوں آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنے کو ’یک طرفہ فیصلہ‘ قرار دیا اور واضح لفظوں میں کہا ہے: ’’مودی حکومت نے اپنے فیصلے سے ان بنیادی شرطوں کو تار تار کردیا جن کی بنیاد پر جموں وکشمیر کی سابق ریاست ہندستان کے ساتھ ملی تھی‘‘۔ محترمہ راے تحریر کرتی ہیں: ’’۴؍ اگست کو پورے کشمیر کو ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ، ۷۰ لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں بند کردیے گئے ، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون خدمات بھی بند کردی گئیں‘‘۔
وہ لکھتی ہیں:’’ اطلاعات کے اس زمانے میں کوئی حکومت کتنی آسانی سے ایک پوری آبادی کو باقی دنیا سے کیسے کاٹ سکتی ہے ، اس سے پتا لگتا ہے کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں ۔ کشمیر کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ ’تقسیم‘ کے ادھورے کاموں میں سے ایک ہے ۔ ’ تقسیم‘ جس کے ذریعے انگریزوں نے برصغیر کے بیچ میں لاپروائی سے ایک لکیر کھینچ دی اور یہ مان لیا گیا کہ انھوں نے ’ مکمل‘ کو تقسیم کردیا ہے۔ برطانیہ کے تحت ہندستان کے سیکڑوں رجواڑے تھے، جن سے الگ الگ  مول تول کیا گیا، اور جوریاستیں اس کے لیے تیار نہیں تھیں ان سے زبردستی منوا لیا گیا‘‘ ۔
معروف مؤرخ رام چندرگوہا کا کہنا ہے کہ: ’’صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کا آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنا بالکل ۱۹۷۵ء میں [اندرگاندھی کے] ایمرجنسی کے نفاذ کی مانند ہے۔ یہ جمہوریت نہیں، یہ آمریت ہے۔ ایسے حواس باختہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے حکمرانوں کی کاریگری، جو پارلیمنٹ کے اندر یا باہر مناسب مباحثے کی جرأت بھی نہیں رکھتے‘‘۔
اسی طرح پنکج مشرا بھی تو ادیب ہیں۔ وہ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور دانش ور بھی ہیں۔  انھوں نے فاشزم کے خلاف ایک بلندپایہ کتاب Age of Anger لکھی ہے۔ کارواں ہی میں  وہ ایک مضمون: ’’کشمیر میں ہندستان اپنے ہی پیروں پر گولی ماررہا ہے ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہرگزرتے ہفتے کے ساتھ کشمیر پر ہندستان کا کریک ڈاؤن بڑھتا جارہا ہے ۔ انٹرنیٹ اور فون کی لائنوں کو کاٹ دینے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کو حراست میں لے کر، کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار نے اطلاعات کے مطابق ہزاروں کشمیریوں، طالب علموں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو بھی قیدخانوں میں ڈال دیا ہے‘‘۔ پنکج مشرانے کشمیر میں کیے جانے والے اقدام کو سربیا کی نسل پرستی اور وہاں کے نسل پرست لیڈر راتکو ملادیچ کے اقدامات سے تعبیر کیا ہے___ وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ہندستانی میڈیا کی جانب سےملنے والی تقریباً اجتماعی حمایت نے مودی سرکار کو بے خوف کردیا ہے ۔ تاہم، غیرملکی میڈیا کے صفحۂ اول پر، کشمیر کی خالی گلیوں میں پوری طرح سے مسلح فوجیوں کی ، چھپنے والی تصویریں یہ ظاہر کردیتی ہیں کہ یہ خطّہ پوری طرح سے فوجی تسلط میں ہے، اور اب عالمی میڈیا کھل کر مودی سرکار کو ’نسل پرست‘ اور ’ فاشسٹ‘ لکھ رہا ہے ‘‘۔
 سدھارتھ بھاٹیہ کا کہنا ہے: ’’ کشمیر میں جو ہوا اس کا مقصد کشمیریوں پر کنٹرول کرنا ہی نہیں، ان کو ذلیل کرنا بھی ہے ‘‘___  دی وائر اردو میں وہ صاف صاف لکھتے ہیں: ’’ابلاغ کے سارے ذرائع کو کاٹ کر، ان کو قابو میں رکھنے کے لیے سیکورٹی اہل کاروں کا استعمال ، اور روز روز کی توڑپھوڑ کا مقصد کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے ۔ ان کا ہر قدم اور وجود اقتدار کے ہاتھ میں ہے ، وہ اقتدار کہ جس کی نمایندگی ایک بڑی اور ہرجگہ موجود فوج کررہی ہے ، جو ان کی روزمرہ کی زندگی میں دخل دیتی ہے‘‘۔
انگریزی پورٹل (ویب) The Wire نے سواگتا یادوار کی کشمیر سے ایک دل دہلانے والی رپورٹ شائع کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے: ’ کشمیر‘ کے محاصرے سے وہاں ’ ذہنی بیماریاں‘ پھوٹ پڑی ہیں ۔ رپورٹ کے دواقتباسات ملاحظہ کریں۔ ’’ وہ ایک کونے میں بیٹھی ہوئی ہے ، ڈاکٹر کے کمرے کے دروازے کے بغل میں ، کمپاؤنڈر کی میز پر پھیلے کاغذات اور بکسوں سے چھپی ہوئی۔ میں مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر مایوس ہورہی ہوں ، مجھے لگتا ہے کہ ہمارا کوئی مستقبل ہے ہی نہیں‘‘۔ ۲۴ سالہ زہرا جس نے قانون کی ڈگری لی ہے اور اب ریاستی سول سروسز (جوڈیشل) کے امتحان کی تیاری کررہی ہے۔ وہ اب ڈپریشن (مایوسی) کی مریضہ ہے۔ تین برسوں سے اسے دواؤں کی ضرورت نہیں پڑی تھی، لیکن آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد اس کا اضطراب پھر لوٹ آیا ہے:’’ اب میں اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں مرکوز کرپاتی ‘‘۔ زہرا ان ۱۵ مریضوں میں سے ایک ہے، جو اعصابی امراض کے ماہر آکاش یوسف خان کے پاس بارہمولہ اس کے کلینک میں بغرض علاج آئے ہیں ‘‘۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے حالات دشوار ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق علاج ومعالجے کے لیے لوگوں کا آنا کم سے کم ہوگیا ہے اور ۵؍ اگست کے بعد ذہنی مریضوں میں سے بس چند ہی ڈاکٹروں سے مل سکے ہیں۔ نتیجے میں کشمیر میں ذہنی بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں ۔ لوگوں کو مایوسی ، بے چینی اور اضطراب نے گھیر لیا ہے جسے ’ ڈپریشن‘ کا نام دیا جاتا ہے ‘‘۔
 The Quint میں آدتیہ مینن نے کشمیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا ذکر کرتے ہوئے ’سورہ‘ علاقے کو کشمیر کا ’ غزہ‘ قرار دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’سورہ میں اسی روز سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے، جس روز حکومت نے جموں اور کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا، مگر ۹؍ اگست کا بڑے پیمانے کا احتجاج سب سے زیادہ اہم تھا۔ اس احتجاج نے حکومت ہند کے بہت سارے دعوؤں کو ہوا میں اُڑا دیا:

  •  حکومت کے دعوے کے برعکس اس مظاہرے نے یہ دکھادیا کہ کشمیری آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے خوش نہیں ہیں ۔ 
  • بڑے پیمانے پر مظاہروں میں خواتین کی شرکت حکومت کے اس دعوے کے برعکس تھی کہ کشمیری خواتین نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے ۔
  • سیکورٹی اہل کاروں کی مظاہرین پر فائرنگ کی ویڈیو کو ثبوت مانا جارہا ہے کہ ، حکومت اپنی بات منوانے کے لیےطاقت کے استعمال کےلیے بھی تیار ہے ‘‘ ۔

رویش کمار بھی تو ایک ادیب اور دانش وَر ہیں۔ تہذیب، قوم اور جمہوریت کے موضوع پر ان کی کتاب بولنا ہی ہے نے دھوم مچا رکھی ہے۔
پھر اس مستعفی اعلیٰ پولیس افسر کے چند جملے پیش ہیں، جو کبھی پنجاب میں ’ انتہا پسندی‘ کے خاتمے کے لیے سرگرم تھا۔ ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ، صدارتی ایوارڈ یافتہ پدم بھوشن جولیوایف ریبریو نے کاروان میں شائع شدہ انٹرویو میں کہا :’’فوج کو کبھی اپنے ہی لوگوں سے لڑنے کی تربیت نہیں دی گئی۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ کشمیری مسلمان ہندستان کا اٹوٹ اَنگ ہے،تو آپ کو چاہیے کہ   ان سے اسی طرح سےپیش آئیں‘‘۔ کیا نریندر مودی ، امیت شا وغیرہ جولیو ایف ریبریو کے مشورے پر عمل کرکے کشمیری مسلمانوں کے بارے میں ان کی بات سنیں گے، یا ایک کان سے  سن کر دوسرے کان سے اڑادیں گے ؟
یہ تو بس چندمضامین اور تجزیوں اور احوال سے لی گئی کچھ مثالیں ہیں، ایسے دانش وروں، سیاست دانوں اور صحافیوں کی، جو ’ ہم‘ اُردو لکھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اُن کی ایک بڑی تعداد ’مسئلہ کشمیر‘ پر زبان کھول رہی ہے، اور کشمیریوں پر جو کچھ ان دنوں بیت رہی ہے اس کا احوال پیش کررہی ہے ۔ جھوٹ کو جھوٹ کہہ رہی ہے اور حق کو حق___  نہ جانے کیوں ’ ہم‘ اُردو لکھنے والوں میں ایسے لوگ نہیں ہیں ، اور اگر ’مسئلہ کشمیر‘ پر ہماری زبانیں کھلتی بھی ہیں، تو بڑی ہی احتیاط سے الفاظ نکلتے ہیں۔ حکومت کے موقف کی تائید تو کی ہی جاتی ہے ، مگر کشمیری عوام پر جو ان دنوں بیت رہی ہے اس کا ذکر سرسری کیا جاتا ہے ___ کیا کوئی ’ ہم ‘ میں سے کھل کر بات کرے گا؟
اُردو کے قلم کارو! آپ کا قلم کب بولے گا؟ آپ کی زبان کب کھلے گی؟ آپ کب افسانوں اور غزلوں اور نظموںکی دنیاسے باہر نکل کر حالاتِ حاضرہ پر بھی کچھ لکھیں او ربولیں گے؟

ایک اعلیٰ بھارتی پولیس افسر وبھوتی نارائن رائے (Vibhuti Narain Ray) کی تحریر کردہ یہ کتاب Hashimpura 22 May فرقہ وارانہ فسادات کی داستان ہی نہیں ہندستانی مسلمانوں  کی مظلومیت ، بے چارگی اور انصاف سے محرومی کا نوحہ بھی ہے ۔ یہ کتاب تحریر کرنے میں    وبھوتی نارائن رائے کو ،جو ہندی کے ایک اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہیں،۲۹ سال لگے !اور کتاب ہاشم پورہ قتل عام کی ۳۰ویں برسی پر شائع ہوئی ۔ تین عشروں پر پھیلے عرصے کو مختصر نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم، اس طویل مدت کے دوران میں بھی نہ تو میرٹھ، ملیانہ اور ہاشم پورہ قتل عام کے متاثرین کو انصاف مل سکا ہے اور نہ ان قصورواروں کو کہ جنھیں میرٹھ کے مسلمان ’مجرم‘ قرار دیتے ہیں،کوئی سزا ہی دی جاسکی ہے ۔پھر یہ ’قصوروار‘ یا ’ مجرم‘ کوئی اور نہیں پولیس والے ہی ہیں ، یوپی کی بدنام زمانہ پی اے سی (پراونشل آرمڈ کانسٹیبلری ) کے جوان۔ یہ کتاب اس لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے کہ پولیس والوں کی درندگی اور مسلمانوں کی مظلومیت کو، ایک پولیس والے نے ہی اُجاگر کیا ہے ۔

یہ کتاب ابتدائیے اور نو ابواب پر مشتمل ہے۔ ہاشم پورہ کے قتل عام کی داستان انتہائی  دل دہلانے والے انداز میں تحریر کی گئی ہے ۔حقائق اور سچائی سے کہیں رُوگردانی نہیں کی گئی ہے۔ میرٹھ کے فسادات کا دور، شدیدقسم کی فرقہ پرستی کا دور تھا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک زوروں پر تھی، تب بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی (م: ۲۱مئی ۱۹۹۱ء)نے مسجد کا بند دروازہ کھلوا دیا تھا۔فرقہ وارانہ کشیدگی کا عالم یہ تھا کہ پی اے سی نے اپنے ہی ایک مسلم افسر کی اس وقت جان لے لی تھی، جب اس نے مسلمانوں کو ہراساں کیے جانے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ انھی حالات میں۲۲ مئی۱۹۸۷ء کو وہ واردات ہوئی جسے وبھوتی رائے نے ’ہندستان میں حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات‘ قرار دیا ہے ۔ اس رات جو کچھ ہوا رائے نے پہلے باب میں اسے بڑی تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ انھوں نے یہ پتا لگانے کی بھی کوشش کی ہے کہ ہاشم پورہ قتل عام کی بنیادی ’وجہ ‘ کیا تھی؟

بات ۲۱مئی ۱۹۸۷ءسے شروع ہوتی ہے جب ایک فوجی افسر میجر ستیش چندرکوشک کےبھائی پربھات کوشک کو ، جو مکان کی چھت پر تھا ایک گولی آکر لگی اور اس کی موت واقع ہوگئی۔ یاد رہے کہ ستیش اور پربھات کی خالہ شکنتلا شرما اس زمانے میں بھارتیہ جنتاپارٹی میں ایک شعلہ بیان لیڈرتھیں۔ ۲۱مئی کو پربھات کی موت ہوئی اور۲۲مئی کو پی اے سی کی ۴۱ویں بٹالین کمانڈر سریندر پال سنگھ کی قیادت میں ہاشم پورہ پہنچی ۔ موقعے کے گواہ بتاتے ہیں کہ پی اے سی کی ٹکڑی کے ساتھ میجر ستیش چندر کوشک بھی تھے۔ ۴۲مسلم نوجوانوں کو بندوق کی نوک پر گھروں سے نکال کر ٹرک میں بھرا گیا ۔ ٹرک پہلے مرادنگر پہنچا پھر مکن پور، جہاں اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے کنارے پرمسلم نوجوانوں کو ٹرک سے اُترنے کے لیے کہا گیا ، وہ جیسے جیسے اترتے گئے ویسے ویسے پی اے سی والے انھیں گولی مارکر ندی میں پھینکتے گئے ۔ ’ ہاشم پورہ ۲۲مئی‘ ان ہی مقتولین کی داستان ہے ۔ دوایسے افراد کی زبانی یہ رُودادِ الم رائے نےجمع کی ہے، جو گولی باری سے اللہ کی مشیت سے اس لیے بچ نکلے تھے کہ دنیا کے سامنے پی اے سی کی درندگی کو افشا کرسکیں۔ رائےلکھتے ہیں:

رات کے کوئی ساڑھے دس بجے ہوں گے ، ہاپوڑ سے میں بس ابھی واپس لوٹا ہی تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی کو ان کی سرکاری رہایش گاہ پرچھوڑ کر میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے طور پر اپنے گھر کے قریب پہنچا تو میری کار کی ہیڈلائٹس ڈرے سہمے وہاں کھڑے سب انسپکٹر وی بی سنگھ پر پڑیں، جو لنک روڈ پولیس اسٹیشن کے انچارج تھے۔ مجھے احساس سا ہوا کہ اس کے حلقے میں کوئی خوف ناک بات ہوگئی ہے ۔ میں نے ڈرائیور سے کارروکنے کو کہا اور باہر نکل آیا ۔

اس کے بعد وبھوتی رائے نے وی بی سنگھ کی زبانی یہ خبر سننے کی تفصیل بیان کی ہے کہ ’’پی اے سی نے چند مسلمانوں کو قتل کردیا ہے‘‘۔رائے کے دماغ میں سوالات اٹھنے لگے ، انھیں کیوں قتل کیا گیا ہے؟ کتنوں کو قتل کیا گیا ہے؟ انھیں کہاں سے اٹھایا گیا تھا؟ رائے نے ان سوالات پر صرف غور ہی نہیں کیا بلکہ وہ مرادنگر کی سمت روانہ ہوئے ۔ اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے قریب ہونے والے قتل عام سے تین افراد بابودین، ذوالفقار اور قمرالدین بچ نکلے تھے ۔ بابودین کورائے نے ندی سے نکالا تھا، اس کو دوگولیاں لگی تھیں ۔دوسرے دو افراد بھی زخمی مگر زندہ تھے۔

آج ۳۰سال بعد لوگوں کے ذہنوں سے ہاشم پورہ قتل عام کے نقوش محو ہوچکے ہیں، جنھیں دوبارہ اُجاگر کرنے کا کام رائے نے اس کتاب سے کیا ہے۔۔ رائے نے اسے ’آزاد ہندستان میں حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات‘ کہا ہے۔ وہ اسے ’ریاست کی بہت بڑی ناکامی‘ قرار دیتے ہیں‘۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسی واردات ہے جس میں ریاست کے ایجنٹ، قاتلوں کے ساتھی بنے ہوئے تھے اور یہ ناقابلِ معافی جرم ہے ‘۔

جب ہاشم پورہ کی واردات ہوئی تھی تب رائے پڑوسی ضلع غازی آباد میں پولیس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے ۔انھوں نے ذکر کیا ہے کہ وہ پی اے سی کی چھاؤنی بھی گئے اور اس ٹرک کو بھی دیکھا جس میں مسلمانوں کو بھر کرلے جایا گیا تھا، ٹرک کو پانی سے دھویا جارہا تھا۔رائے نے اعلیٰ پولیس افسران تک ’قتل عام‘ کی خبر پہنچائی۔ قتل عام کا معاملہ درج کرانے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی۔ انھوں نے تفتیشی ایجنسیوں کی چھان بین پر نگاہ رکھی۔ پراونشل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کی نقل وحرکت پر نظر رکھی۔ انھوں نے دیکھا کہ ’ ریاست اور پولیس نے مل کر قتل عام کی ایک المناک واردات پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ ‘

 رائے نے ۲۲مئی کے روزہی اعلیٰ پولیس افسران کے سامنے پی اے سی کی چھاؤنی پر ’چھاپہ مارنے‘ کی تجویز پیش کی تھی جو ٹھکرادی گئی تھی۔ یہ تجویز انھوں نے صرف اعلیٰ  پولیس افسران کو نہیں اس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے سامنے بھی رکھی تھی اور انھیں ’قتل عام‘ کی واردات سے بھی باخبر کیا تھا۔ پھر یہ تجویزبھی سامنے رکھی تھی کہ پی اے سی کی چھاؤنی پر چھاپہ مارا جانا چاہیے تاکہ ثبوت اکٹھے کیے جاسکیں‘‘۔ مگر کانگریس نے ہمیشہ کی طرح میرٹھ فسادات اور ہاشم پورہ قتل عام کو بھی نہ صرف دبانے کی بلکہ ساری واردات کو ’ من گھڑت‘ قرار دینے کی کوشش کی اور اس میں وہ اعلیٰ پولیس افسر بھی شریک تھے، جنھیں یہ خبر رائے نے خود دی تھی کہ قتل عام ہوا ہے۔ رائے کہتے ہیں کہ: ’’ہاشم پورہ کے مقتولین اور متاثرین کیسے جمہوریت کے تینوں ستونوں کی طرف سے نظرانداز کیے گئے، بلکہ تینوں ہی ستونوں، یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ نے ان سے ’ ناانصافی‘ کی‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ہاشم پورہ قتل عام کی کہا نی ہندستانی ریاست اور اقلیتوں کے درمیان گھناؤنے غیرمتوازن تعلقات، پولیس کے اخلاقی رویّے اور پریشان کن سست رفتار عدالتی نظام کی کہانی ہے‘‘۔ رائے کے مطابق: ’’ ہاشم پورہ آج بھی بہیمانہ ریاستی جبر اور ایک بے ریڑھ کی ایسی ریاست و حکومت کی علامت بنا ہوا ہے ،جو اپنے ہی لوگوں ۔۔۔قاتلوں کے آگے سرنگوں ہوگئی تھی‘‘۔

ایک پولیس اور انٹیلی جینس افسر کے طور پر رائے نے تفصیل سے بتا یا ہے کہ کیسے ’ تفتیش‘ کا رخ موڑا گیا ۔وہ بہت سارے چہروں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور بہت سارے کرداروں کے ’رویّے‘ کو اُجاگر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کیسے اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے قریب ہوئے قتل عام سے بچنے والے نوجوانوں کو وہ محفوظ ٹھکانے تک لے گئے ۔ وہ بھارتی سیاست دان اور دانش ور سیّدشہاب الدین (م: ۴مارچ ۲۰۱۷ء) سے ملاقات اور بابودین کو ان کے سامنے پیش کرنے کے ساتھ، ان کی ڈاکٹر صاحبزادی کی جاںفشانی اور انھی کے ذریعے ہاشم پورہ قتل عام کو اُجاگر کرنے کا ذکر بھی بڑی وضاحت سے کرتے ہیں ۔

راجیوگاندھی، پی چدمبرم (اُن دنوں وزیر داخلہ تھے)، ایل کے اڈوانی وغیرہ کا ذکر بھی کتاب میں موجود ہے ۔راجیوگاندھی نے پہلے ’ دل چسپی‘ دکھائی تھی اور پھر ’بے رخی‘۔ اس زمانے کی میرٹھ کی کانگریسی مسلمان رکن پارلیمنٹ محسنہ قدوائی (پ:۱۹۳۲ء)ان کے قلم کی کاٹ سے نہیں بچ پاتیں کہ جنھوں نے دوٹوک انداز میں، پارلیمانی اور عوامی سطح پر وبھوتی رائے کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ اپنی تحریر میں مسلم قائدین پر بھی برملا تنقید کرتے ہیں ۔ ان کے قلم کی دھار کے سامنے  سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، سی آئی ڈی سیّد خالد رضوی اور اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی پردے کے پیچھے چھپ نہیں پاتے۔

وبھوتی نارائن رائے نے جس کتاب کو تحریر کرنے کا آغاز۱۹۸۷ء سے کیا تھا اس کی تکمیل وہ ہاشم پورہ قتل عام کے مقدمے کے فیصلے کے بعد کرنا چاہتے تھے ۔ فیصلہ ۲۱مارچ ۲۰۱۵ءکو آیا ، اس سے قبل ۲۱جنوری ۲۰۱۵ءکو فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلےمیں تمام ملزم پولیس والوں کو بری کردیا ۔ رائے اس فیصلے پر کہتے ہیں کہ’ فیصلہ افسوس ناک ضرور ہے مگر اُمید کے برخلاف نہیں‘۔ رائے نے تسلیم کیا ہے کہ تفتیش کو دانستہ غلط رخ دیا گیا ۔ آخرکار ۳۱؍اکتوبر ۲۰۱۸ء کو، ۳۱برس بعد دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر اور جسٹس ونود گویل نے فیصلہ سناتے ہوئے، ہاشم پورہ قتل عام کے جرم میں پولیس کے ۱۶سابق افسروں کو عمرقید کی سزا سنا دی ہے۔

وبھوتی نارائن رائے (پ: ۲۸نومبر۱۹۵۱ء ، اعظم گڑھ، اور الٰہ آباد یونی ورسٹی سے ایم اے انگریزی) کی یہ کتاب Hashimpura 22 May: The Forgotten Story of Indian's Biggest Custodial Killing  ۳۰۴صفحات پر مشتمل ہے، جسے پینگوین ،انڈیا نے جولائی ۲۰۱۶ء میں شائع کیا ہے۔ بھارتی ۳۹۹ روپے یا ۱۵؍ڈالر اس کی قیمت ہے۔ جو شخص ’عظیم جمہوری ہندستان‘ کے غیرجمہوری چہرے کو دیکھنا چاہتا ہے، اسے یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ انگریزی کے علاوہ   یہ ہندی میں بھی دستیاب ہے، مگر اب تک اُردو ترجمہ شائع نہیں ہوا۔ممکن ہے کوئی صاحب یہ خدمت انجام دے رہے ہوں۔

کتاب بے گناہ قیدی کیوں لکھی گئی ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کے مصنف قانونی عدالت کے علاوہ عوامی عدالت میں بھی اپنا اور اپنے جیل کے ساتھی قیدیوں کا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ لوگ یہ دیکھ لیں کہ بھارت کی حکومتیں، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں اور قانونی نظام کیسے دہشت گردی کے معاملات میں بے قصور ملوث کیے جانے والوں سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔یا بالفاظِ دیگر یہ نظام کیسے بے قصوروں کو جھوٹے معاملات ومقدمات میں ملوث کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔

ممبئی کے سلسلہ وار لوکل ٹرین بم دھماکوں ۱۱جولائی ۲۰۰۶ء کے مقدمے سے بَری ’بے گناہ قیدی‘ عبدالواحد شیخ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں؛’’ہم یہ بات شرح صدر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ۱۱جولائی   بم بلاسٹ کیس میں گرفتار تمام قیدی بے گناہ ہیں۔ گذشتہ ۱۰ برسوں سے زائد عرصہ سے وہ قید و بند کی صعوبتیں بلا سبب برداشت کر رہے ہیں۔ ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں‘‘ (ص ۸)۔ اس ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ عبدالواحد شیخ کی اس بات کو تسلیم کرتا ہے، جن میں مسلمان ہی نہیں غیرمتعصب غیرمسلم بھی شامل ہیں۔ عبدالواحد شیخ تو ’۱۱جولائی مقدمے‘ سے بَری ہوگئے لیکن مکوکا (MCOCA) کورٹ نے ستمبر۲۰۱۵ء میں مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ان ۱۲؍افراد کو ’ذمہ دار‘ قرار دیا ہے، جنھیں ان کے اعزہ و اقارب اور دوست احباب ہی نہیں، بلکہ ملک کی کئی غیر سرکاری تنظیمیں بشمول جمعیۃ العلماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) بھی بے گناہ سمجھتی ہیں۔ واضح رہے کہ جمعیۃ العلماء مہاراشٹر کا ’شعبہ قانونی اُمور‘ گلزار اعظمی کی زیرقیادت دہشت گردی کے کئی بے معنی مقدمات میں قانونی جنگ کے محاذ پر ہے۔ ان بارہ ’بے گناہوں‘ میں سے پانچ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور سات کو عمر قید۔

عبدالواحد شیخ کی ۴۵۹صفحات پر مشتمل کتاب ’ بے گناہ قیدی‘ حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے۔ اسے نئی دہلی کے اسی اشاعتی ادارے[books@pharasmedia.com] نے شائع کیا ہے، جس نے مہاراشٹر کے مستعفی انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کی محققانہ کتاب کرکرے کے قاتل کون؟ شائع کرکے اے ٹی ایس (اینٹی ٹیررازم اسکواڈ)کے سربراہ آنجہانی ہیمنت کرکرے کی موت میں سنگھی دہشت گردوں کو ملوث بتایا تھا۔ اسی طرح ۲۶نومبر کے ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کو ایک نیا تناظر فراہم کیا تھا۔

مصنف نے ’تمہید ‘کے عنوان سے تحریر کیا ہے:’’دل میں یہ بات تھی کہ ’۱۱جولائی کیس‘ میں جس طرح ہمیں پھنسایا گیا، اس بارے میں تفصیل سے لکھ کر عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے،تاکہ خدانخواستہ اگر مستقبل میں پولیس کسی بے گناہ پر بم بلاسٹ کا کیس ڈالے، تو وہ کس طرح ذہنی طور پر تیار ہوکر کورٹ کچہری کا مقابلہ کرے، تاکہ پولیس کے شر سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رہے اور پہلے روز سے بے خوف ہوکر کورٹ میں اپنا دفاع کرسکے ۔ یہ کتاب اس مقصد سے لکھی گئی ہے‘‘۔ کتاب چھے ابواب میں منقسم ہے۔

پہلا باب ’پولیس کا افسانہ‘ کے عنوان سے ہے۔ اس باب میں ضمنی عنوانات کے تحت کھارسب وے (باندرہ )بلاسٹ ،جوگیشوری بلاسٹ ، بوریولی بلاسٹ اور میرا روڈ بلاسٹ کے حقائق اُجاگر کیے گئے ہیں۔ ’سرکاری دہشت گردی‘ کے ضمنی عنوان کے تحت اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کے مطابق ’جھوٹی کہانی‘ کے  ضمنی عنوان سے چارج شیٹ کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔ چارج شیٹ میں ملزمان پر منصوبہ بند سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان پراسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI) اور لشکرطیبہ اور پاکستان میں دہشت گردوں سے روابط کا الزام عائد کرکے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کو فرار کرانے میں ملزمان کا کردار رہا ہے‘ ۔ چارج شیٹ سے منسلک ۱۲ ہزار سے زائد صفحات کو جوڑا گیا ہے۔ دوہزار سے زائد گواہوں کی فہرست شامل کی گئی ہے ۔ عبدالواحد شیخ تحریر کرتے ہیں ’’اے ٹی ایس پولیس کی یہ چارج شیٹ اور اس میں بیان کردہ کہانی سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘(ص ۱۹)۔ وہ سفید جھوٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کئی سوال اٹھاتے ہیں،مثلاً یہ کہ پولیس کسی ایک بھی پاکستانی کو زندہ گرفتار کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئی؟

چارج شیٹ میں بارہ پاکستانیوں کے نام دیے گئے ہیں، جو دومہینے تک ملزمان کے ساتھ رہے اور بم بلاسٹ کرکے چلے گئے لیکن پولیس کسی کو نہیں پکڑسکی۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمام تیرہ ملزمان نے عدالت کوزبانی اور تحریری طور پر یہ بتایا ہے کہ ہم سب بے گناہ ہیں اور اس کیس میں غلط طریقے سے پھنسائے گئے ہیں۔ پھر ان ملزموں نے اپنا کال ڈیٹا ریکارڈ اور اس کی لوکیشن کورٹ میں پیش کرکے بھی اپنی بے گناہی ثابت کی اور یہ بتایا ہے کہ بلاسٹ کے وقت وہ ممبئی میں نہیں بلکہ دوسرے شہروں میں تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے مصدقہ کال ڈیٹا ریکارڈ اور لوکیشن پر کیوں اعتبار نہیں کیا گیا ؟ اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ پھر پُراسرار طریقے سے ملزموں کے موبائل فون کے کال ڈیٹا ریکارڈ کیوں غائب کردیے گئے ؟

 بہت سے سوالات کے ساتھ عبدالواحد نے جھوٹی گواہیاں گھڑنے اور پولیس کے ذریعے جھوٹے شواہد اور ثبوتوں کو جمع کرنے کے طریق کار پر بھی روشنی ڈالی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ اے ٹی ایس نے ان گواہوں کو، جن کی گواہی سے اے ٹی ایس کے افسانے کی قلعی کھل جاتی،  کورٹ میں گواہی کے لیے بلایا ہی نہیں! پھر پولیس آج تک عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکی ہے کہ گرفتار ملزمان پابندی (ban) سے پہلے ایس آئی ایم (اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ)کے ممبر تھے۔ اس باب میں ملزمان پر ٹارچر، دباؤ اور زوروجبر اور دھمکیاں دینے کا بھی ذکر ہے، اور ان حلف ناموں کا بھی، جو ملزمان نے دیے ہیں اور جن سے پولیس کا اصل چہرہ عیاں ہوکر سامنے آتا ہے ۔

دوسرے باب کا عنوان ’اقبالیہ بیان کی حقیقت‘ ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ ’اعترافِ جرم‘ خود پولیس کے ہاتھوں تیار کیے جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ڈی سی پی نے کچھ لکھے ہوئے، کچھ ٹائپ کیے ہوئے کاغذات ملزم کے سامنے بڑھادیے کہ دستخط کرو۔ کسی ملزم نے کہا کہ مجھے   پڑھنے دیا جائے تو ڈی سی پی نے انکار کردیا ور اے ٹی ایس والوں کو اشارہ کرکے کہنے لگا کہ     تم لوگوں نے اس کو ’برابر گرم‘ (ٹارچر) نہیں کیا ہے۔ پھر ملزم نے احتجاج کیا تو اسے بلیک میل کیا گیا: ’’تیرے بھائی کو اور تیری بیوی کو اٹھاکر لائے ہیں۔ اگر تم نے دستخط نہیں کیے تو تیرے گھر والوں کو بم بلاسٹ کے کیس میں گرفتار کرلیں گے ، یہ ہمارے لیے کچھ مشکل نہیں ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتی ‘‘۔ اس باب میں اس وقت کے ’اینٹی ٹیررازم اسکواڈ‘ کے سربراہ پی رگھوونشی کی مذموم سرگرمیوں کا بھی ذکر ہے۔

تیسرے باب کا عنوان ہے ’نان فکشن(حقیقی)‘۔ اس میں ’۱۱جولائی کیس‘ کے ملزمان کے وہ حلف نامے اور بیانات پیش کیے گئے ہیں، جن میں انھوں نے خود کو بے گناہ کہا ہے اور بتایا ہے کہ پولیس نے انھیں جھوٹے کیس میں پھنسایا ہے۔ ان حلف ناموں کا مطالعہ رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ کمال احمد انصاری کو کورٹ نے ’مجرم‘ قرار دیا ہے۔ کورٹ میں اس کا ۱۷جولائی ۲۰۱۲ء کا پیش کردہ حلف نامہ چونکانے والا ہے۔ ایک جگہ تحریر ہے؛’’مجھے اے ٹی ایس والوں نے تھرڈ ڈگری ٹارچر کرنے کے بعد لالچ دینا شروع کیا کہ ’تو اس جھوٹی کہانی کے لیے ہاں کردے، ’تجھے ہم چارلاکھ روپے دیں گے ، تو سرکاری گواہ بن جا۔‘ میں نے ان کو منع کیا تو   اے ٹی ایس والوں نے میرے ساتھی ملزموں کو روپے اور فلیٹ کا لالچ دیا اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی نے ڈرانا شروع کیا کہ ہم لوگ تمھارے گھروالوں کو بھی پھنسائیں گے‘‘۔(ص۱۲۶)

مصنف ایک ملزم ڈاکٹر تنویر انصاری کا بیان پیش کرتے ہیں:’’۲۱نومبر۲۰۰۶ء کو جیل افسر گووند پاٹل مجھے انڈابیرک سے نکال کر جیل سپرنٹنڈنٹ شریمتی سواتی ساٹھے کے آفس میں لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد رگھوونشی وہاں آیا تو مجھے اس کے سامنے زبردستی بٹھایا گیا۔ رگھوونشی غصّے میں تھا، کیوںکہ میں نے اس کے بتائے ہوئے طریقے پر نہ چل کر کنفیشن [اعترافی بیان]کا انکار کردیا تھا۔ وہ مجھے سرکاری گواہ بناکر جلد جیل سے نکلنے کا مشورہ دیتا رہا۔ اس نے مجھے اور میرے گھر والوں کو گالیاں دیں۔ ’سوچ لو اور اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرلو‘۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا‘‘۔ (ص۱۴۵)

احتشام قطب الدین کے بیان میں حیرت انگیز طور پر ڈی جی ونجارا کا ذکر ملاحظہ کریں: ’’ایک افسر نے مجھ سے پوچھ تاچھ کی اور کہا: ’’ہم کسی مسلمان کو پکڑتے ہیں تو اس کو گولی سے اڑادیتے ہیں‘‘۔ مئی ۲۰۰۷ء میں اس افسر کا فوٹو میں نے اخبار میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ افسر گجرات اے ٹی ایس کا چیف ڈی جی ونجارا ہے، جو سہراب الدین کے فرضی انکاؤنٹر کیس میں گرفتار ہوا‘‘۔(ص۱۶۶)

اس باب میں اے سی پی ونود بھٹ کی سنسنی خیز خودکشی کا بھی ذکر ہے۔ ونود بھٹ نے احتشام سے یوں گفتگو کی: اگست ۲۰۰۶ء کے آخری ہفتے میں مجھے بھوئی واڑہ اے ٹی ایس لاک اَپ کی دوسری منزل پر، اے سی پی ونود بھٹ کے سامنے لے گئے۔ جو بات چیت ہوئی وہ اس طرح ہے:

ونود بھٹ: میں نے اس کیس کے سارے کاغذات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ پایا ہے کہ تم اور دیگر گرفتار ملزم ’۱۱جولائی بم بلاسٹ‘ میں ملوث نہیں ہو۔

احتشام: ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم بے گناہ ہیں ۔ پھر ہمیں اس کیس میں کیوں گرفتار کیا گیا؟

بھٹ: اصل مجرم نہیں ملے اس لیے ۔

احتشام: یہ سب کس کے اشارے پر ہورہا ہے ؟

بھٹ: پولیس کمشنر اے این رائے اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی مجھ پر سخت دباؤ ڈال رہے ہیں کہ تمھارے خلاف بم بلاسٹ کیس کی جھوٹی چارج شیٹ تیار کرکے کورٹ میں داخل کروں۔

احتشام: کیا آپ ایسا کریں گے؟

بھٹ: نہیں ،حالانکہ وہ میری بیوی کو ایک کیس میں پھنسانے کی بات کررہے ہیں۔

احتشام: کیا ہم چھوٹ جائیں گے ؟

بھٹ: اللہ پر بھروسا رکھو۔ مرجاؤں گا لیکن بے گناہوں کو اس کیس میں نہیں پھنساؤں گا۔

اس واقعے کے کچھ دن بعد ونود بھٹ نے خودکشی کرلی ۔

چوتھا باب ’پولیس ٹارچر(تعذیب)‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس باب میں ’چکّی کا پٹّہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے، کہ جسمانی ٹارچر کے لیے پولیس سب سے زیادہ ’چکّی کے پٹّے‘ کا استعمال کرتی ہے۔ ہم نے اے ٹی ایس پولیس اسٹیشن میں جتنے ’پٹّے‘ دیکھے ہیں، ان پر یہ جملے ہندی زبان میں صاف طو رپر لکھے ہوئے تھے: (۱) سچ بول پٹّہ (۲) میری آواز سنو (۳) اندھا قانون (۴) یہاں پتھر بولتا ہے (۵) بولنے والا پٹّہ (بحوالہ ص۳۶۷)۔ ۱۸۰ڈگری ٹارچر، ننگا کرنا ، مخصوص اعضا پر بجلی کے جھٹکے، مقعد میں ٹارچر، آگ اور پانی کا عذاب، بالوں کا ٹارچر، سردی کا ٹارچر، نیند سے محروم کرنا، اکیلے بند کرنا، قتل کرنے کا ناٹک، حسیاتی بمباری اور گالیاں وغیرہ ٹارچر کے مختلف طریقے ہیں، جن پر کتاب میں بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے (ص ۳۶۹ تا ۳۷۴)۔ ’جھوٹ بتانے والے ٹیسٹ‘ کے حقائق بھی اُجاگر کیے گئے ہیں۔

پانچواں باب ’انڈین مجاہدین‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ’انڈین مجاہدین‘ نامی ایک پُراسرار تنظیم کا تذکرہ ہے۔ عبدالواحد شیخ نے جگہ جگہ کورٹ کے رویّے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:’’ کورٹ میں بال کی کھال اُتاری جاتی ہے اور ہر دستاویز کو باریکی سے جانچ پرکھ کر قبول کیا جاتا ہے، تو پھر (دفاعی گواہ) صادق (اسرار احمد شیخ)کے نام کے حلفیہ بیان کو اس کے دستخط کے بغیر کورٹ نے کیسے قبول کیا؟ کورٹ نے صادق کو عدالت میں بلاکر یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ یہ بیان تمھارا ہے یا نہیں؟ اور تم نے اس بیان پر دستخط کیوں نہیں کیے ؟‘‘ (ص۴۰۰)

چھٹا باب ’پولیس اسٹیٹ‘ انتہائی اہم باب ہے۔اس باب میں جرمن بیکری بلاسٹ سے لے کر صحافی آشیش کھیتان کے اسٹنگ آپریشن، مالیگاؤں بم بلاسٹ ۲۰۰۶ء، اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کیس، اورنگ آباد میں سابق فوجی کے گھر سے ہتھیار کی برآمدگی اور اکثردھام مندر حملہ تک، الگ ضمنی عنوانات سے مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوگیا ہے۔   وہ لکھتے ہیں: ’’پولیس کی غیر قانونی حراست کے دوران کئی پولیس افسران نے ہم سے بار بار کہا کہ مسلمان ملک کے غدار ہیں‘‘۔ ’’پاکستان کے خالق، دہشت گردی کے جنم داتا اور وطن پر بوجھ ہیں‘‘۔ انسپکٹر کھانولکر ، ورپے اور دھامنکر اکثر کہتے تھے کہ: ’’ہمیں اتنی پاور حاصل ہے کہ ہم کسی بھی مسلمان کو کسی بھی وقت انکاونٹر میں مارسکتے ہیں، بم بلاسٹ میں گرفتار کرکے پھانسی دلاسکتے ہیں، زندگی برباد کرسکتے ہیں اور کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ اور یہی کام ’۱۱جولائی کیس‘ میں ہوا ہے‘‘۔

یہ کتاب ان مسلمانوں کا، جو دہشت گردی میں گرفتار کیے گئے مگرجو خود کو بے گناہ قرار دیتے ہیں ،اور حقائق بھی ان کی بے گناہی کی توثیق کرتے ہیں، مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کرتی ہے۔ کیا لوگ جاگیں گے اور انصاف کی فراہمی کے لیے آواز بلند کریں گے؟

کتاب کے مصنف ’آخری بات‘ کے زیرعنوان ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ملک کی موجودہ صورت حال میں اس کتاب میں لکھی ہوئی اکثر باتوں سے انکار یا اختلاف مشکل ہے۔ ہم بس اتنا چاہتے ہیں کہ اس جھوٹے کیس میں پھنسائے جانے کی وجہ سے ہم جس کرب سے گزرے ہیں، ملت کا دوسرا فرد اس سے نہ گزرے اور ملت کے علما و دانش وَر اس سلسلے کو روکنے کے لیے کوئی   لائحۂ عمل تیار کریں۔ خدارا ،کچھ کیجیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے‘‘۔ (ص۴۵۹)

۱۶برس بیت چکےہیں مگربھارتی ریاست گجرات میں ۲۰۰۲ء کے مسلمان متاثرین کے لیے ’فسادات‘ جیسے کہ ابھی تھمے نہیں ہیں۔کتنی ہی قانونی لڑائیاں لڑی جاچکی ہیں،کتنے ہی برباد شدہ مظلومین انصاف کی تلاش میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھاکر خاموش بیٹھ گئے ہیں۔جنھیں فسادات میں ملوث ہونے پر سزائیں دی گئی تھیں، ان میں سے کتنے ہی اب ’آزاد ‘فضا میں سانس لے رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں نروڈا پاٹیا (Naroda Patiya) میں ہولناک قتل عام کی مجرمہ گجرات کی سابق وزیر براے ترقی اطفال و نسواں، ڈاکٹر مایاکوڈنانی کو رہائی ملی ہے۔سیشن کورٹ نے کوڈنانی کو ۹۶مسلمانوں کے قتل عام کے لیے مجرم قرار دیاتھا، مگر گجرات ہائی کورٹ کو کوڈنانی کے ہاتھوں پرکسی مسلمان کے خون کے دھبے نظرہی نہیں آئے۔ رہے وہ بڑے سیاست دان، اعلیٰ پولیس افسراور  اُونچے عہدوں پر فائز نوکرشاہی، جو گجرات میں ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء کے مسلم کش فسادات کے منصوبہ ساز اورسازشی تھے،تووہ بھی تمام الزامات سے بچ نکلے ہیں۔

ان بنیادی سوالات کے جواب گجرات سے انڈین پولیس سروس (IPS) کے ایک اعلیٰ سابق افسر آربی سری کمار کی کتاب Gujrat Behind The Curtain (پس پردۂ گجرات) میں بڑی وضاحت کے ساتھ دیے گئے ہیں۔سری کمار کاکہنا ہے کہ مجرموں اورفسادیوں کو بچانے کے لیے قانون سے کھلواڑکیاگیا ، قانون کو توڑا مروڑا گیا اورجن ہاتھوں میں نظم ونسق کی ذمہ داری تھی، سیاسی آقاؤں نے انھی ہاتھوں کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ مجرموں اورفسادیوں کو بچانے کے لیے وہ جیسے بھی چاہیں قانون کی دھجیاں اڑائیں۔

آربی سری کمارفسادات کے ایام میں گجرات میں ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے منصب پر فائز تھے۔وہ محکمہ خفیہ کے سربراہ تھے۔جب انھوں نے یہ دیکھا کہ فسادات دانستہ کرائے جا رہے ہیں،منصوبہ بند ہیں اورساری سرکاری مشینری کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کیا جارہاہے اور اس میں سرکاری افسر اور پولیس افسر سبھی، نریندر مودی کی حکومت کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں، تب انھوں نے آواز اٹھائی۔ اُس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی کو للکارا، اور بلاخوف و خطر فسادیوں کو بے نقاب کرنے کی مہم شروع کی۔ نتیجہ یہ کہ انھیں سرکاری عتاب جھیلنا پڑا،انتقامی تبادلے کے عذاب سے وہ گزرے، مقدمہ ہوا، مگرانھوں نے سچ سے منہ نہیں موڑا اور آج تک وہ ’گجرات۲۰۰۲ء‘ کی لڑائی لڑرہے ہیں۔

سری کمار نے انگریزی کتاب میں Gujrat Behind The Curtain لکھی۔ ہندی کے علاوہ اس کا اُردوترجمہ پس پردۂ گجرات کے نام سے ۱۳؍اپریل ۲۰۱۸ء کو ’فاروس میڈیا‘   نئی دہلی (ترجمہ: سیّد منصورآغا)نے شائع کیا ہے۔ ۲۵۰صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۲۵۰بھارتی روپوں میں دستیاب ہے [برقی پتا:books@pharosmedia.com ]۔ کتاب کی بنیادان دوحقائق پر رکھی گئی ہے جسے سنگھی ٹولہ ابتدا ہی سے جھٹلاتا آرہاہے۔ایک تویہ کہ ’فسادات منصوبہ بند تھے ‘اور دوسرا یہ کہ’فسادیوں اورمجرموں کو بچانے کے لیے سرکاری مشنری کاغیر قانونی اورغیرآئینی استعمال کیاگیاـ‘۔

کتاب ۱۳؍ ابواب پر مشتمل ہے۔دوضمیمے اورایک’پیش لفظ‘ہے، جس میں آربی سری کمار نے کتاب لکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے لکھاہے:’’ نہایت سفاکانہ، اقلیت کش تشددکی دل خراش وارداتوں کے مناظردیکھنے کے بعد میں نے تہیہ کرلیاتھا کہ میں اس تشددکے بارے میں ریاستی حکومت اوراس کے پیروکاربی جے پی کیمپ کی اس گمراہ کن تشہیر کو بے نقاب کروں گا کہ یہ سنگ دلانہ واقعات ہندوؤں کے ’اچانک بھڑک اٹھنے والے جذبات اورغیرمربوط واقعات‘ کانتیجہ تھے۔

’پیش لفظ‘ میں مصنّف سپریم کورٹ کی قائم کردہ ایس آئی ٹی (خصوصی تحقیقاتی ٹیم) اور کانگریس کاذکر کرتے ہیں: ایس آئی ٹی نے گجرات پولیس کی بی ٹیم کی طرح کام کیا اورذکیہ جعفری کی شکایت میں نامزد تمام ۶۲ ملزمان کو اپنی طویل رپورٹ میں پروانۂ بے گناہی عطا کردیا… کانگریس پارٹی اوراس کی سربراہی میں مرکزی حکومت کم سے کم ان امیدوں اورتوقعات کو بالکل بھی پورا نہیں کر سکیں جو  فساد زدگان اورحقوقِ انسانی کے کارکنوں کو ان سے تھیں… سماج وادی حکومت نے بھی یوپی پولیس کے ان اہلکاروں سے شہادتیں حاصل کرنے کےلیے کچھ نہیں کیا، جو فروری ۲۰۰۲ء میں گجرات سے آنے والے رام بھگتوں اورکارسیوکوں کے جتھوں کی ایودھیا سے واپسی کے دوران ان کے ساتھ بھیجے گئے تھے اورگودھرا میں ٹرین آتشزدگی کے چشم دیدگواہ تھے‘‘۔

کتاب کے پہلے باب میں آربی سری کمار نے فسادات کی منصوبہ بندی کی تفصیلات پیش کی ہیں کہ: کیسے مشترکہ آبادیوں میں ہندوؤں کے مکانات اوردیگر املاک کی شناخت کے لیے ان پر کسی دیوی دیوتا کی تصویر بنا دی گئی، یامورتی نصب کردی گئی یا’اوم‘اور’سواستیکا‘کا نشان بنادیاگیا،تاکہ ’سنگھ پریوار‘ کے فسادی آسانی سے مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنا سکیں۔

دوسرے باب میں گودھرا ٹرین سانحے اورفسادات کاتفصیلی ذکر کیا ہے کہ: ’’۲۸فروری ۲۰۰۲ء کو وہ محافظ دستے کے ساتھ احمدآباد کی اپنی رہایش گاہ سے گاندھی نگر اپنے دفتر جا رہے تھے، تب مسلح ہجوم مسلم مخالف نعرے لگا رہاتھا اورپولیس غیر فعال اورخاموش تماشائی بنی ہوئی تھی‘‘۔   اس باب کاایک اہم حصہ ڈی جی پی کے چکرورتی سے ملاقات کی تفصیل پر مشتمل ہے: ’’ڈی جی پی مسٹر چکرورتی نے یہ ذکر بھی کیاکہ گودھرا سے واپس لوٹ کر ۲۷فروری کی دیر شام وزیر اعلیٰ (نریندرمودی)نے اپنی رہایش گاہ پر اعلیٰ افسران کی ایک میٹنگ طلب کی، جس میں انھوں نے کہا کہ عام طور سے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران پولیس ہندوؤں اورمسلمانو ں کے خلاف برابر کارروائی کرتی ہے،اب یہ نہیں چلے گا،ہندوؤں کوغصہ نکالنے کاموقع دیا جائے‘‘۔

آربی سری کمار فسادات روکنے،مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے اورمجرموں وفسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق اپنی ان تدابیر وتجاویز کابھی ذکر کرتے ہیں، جن پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ چوتھے باب’گمراہ کن اطلاعات پر حق کی فتح‘میں چیف الیکشن کمشنر کے سامنے سرکاری دباؤمیں آئے بغیر، گجرات کی حقیقی صورتِ حال کی تفصیلات اورا س کے نتیجے میں اپنے خلاف سرکار کی انتقامی کارروائی کابھی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’۲۰۰۲ء کے فسادات میں حکام کے مجرمانہ کردار کی شہادت، جن تین آئی پی ایس افسران راقم، راہل شرمااورسنجیو بھٹ نے کھل کر دی تھی، وہ ابھی تک انتقامی عتاب جھیل رہے ہیں، جب کہ دوانسپکٹروں کے علاوہ کسی کے خلاف فسادات میں مجرمانہ کردار ادا کرنے کے معاملے میں نہ توجرمانہ عائد کیا گیا اورنہ کوئی محکمہ جاتی کارروائی ہوئی‘۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر ڈاکٹرآرکے راگھون کی سربراہی میں بنائی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی)کو وہ ’خصوصی مدافعتی ٹیم‘کہہ کر اس کی کارکردگی اور غیرجانب داری پر سوالیہ نشان اُٹھاتے ہیں: ’’ذکیہ جعفری کی شکایت پر ایس آئی ٹی کلووزر رپورٹ ۲۶دسمبر ۲۰۱۳ءکو منظور کی گئی۔   یہ رپورٹ نہایت ناقص اورکھوکھلی ہے‘‘۔ سری کمار کے مطابق: ’’ذکیہ جعفری کی شکایت میں وزیر اعلیٰ (نریندرمودی) اور۶۲ دیگر ملزمان کو نسل کشی کے جرائم اورفساد زدگان کے لیے انصاف کی راہ روکنے کی غرض سے کریمنل جسٹس سسٹم میں ہیرا پھیری کے الزام اوراپنی انتظامی اورقانونی ذمہ داری ادا   نہ کرنے کی بابت جواب دہی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایس آئی ٹی نے دلائل کا جو حصار کھڑا کیا ہے،وہ انتہائی بودا ہے‘‘۔یہاں پر مصنّف نے کلووزررپورٹ کی خامیوں کو بھی فرداً فرداً گنوایا ہے۔

کتاب میں آربی سری کمار نے ایک بہت اہم اور بنیادی سوال اٹھایاہے؟’’۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کے چشم دید گواہ سکھ افسران نے، اور پھر۲۰۰۲ء کے گجرا ت قتل عام کے بعدمسلم افسروں واہل کاروں نے تفتیش کنندگان کے سامنے فساد کی سازش رچانے والے اور اس کا نفاذکرنے اورکرانے والے اعلیٰ سیاسی،انتظامی اورپولیس اہل کاروں کے خلاف سچی اور حقائق پر مبنی گواہی کیوں نہیں دی؟ وہ بتاتے ہیں: ’’چھے مسلم آئی اے ایس اورسات آئی پی ایس افسران دہلی کے سکھ افسران کی طرح اجتماعی کارپردازوں کے بارے میں قطعی خاموش رہے‘‘۔

ایک واقعہ،جو نروڈاپاٹیاقتل عام کاہے، اس کاسری کمار نے بڑا دل گداز ذکر کیاہے۔اسے پڑھ کر یہ سوال اٹھتاہے کہ صرف مایاکوڈنانی ہی کیوں، کیا وہ مسلم افسران بھی مجرم نہیں ہیں، جنھوں نے ’قتل عام‘کو ممکن ہونے دیا؟سری کمار تحریر کرتے ہیں: ۲۸فروری کی شام کے وقت جب میں آفس میں تھا، خورشید احمد(آئی پی ایس بیج نمبر۱۹۹۱)نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ تقریباً ۴۰۰مسلم خاندان جو فسادیوں کی زدپرہیں، سیجاپورکے محفوظ کمانڈہیڈکوارٹر میں پناہ مانگ رہے ہیں۔مسٹر خورشید اس کمانڈہیڈکوارٹر کے کمانڈنٹ تھے جو کہ نروڈاپاٹیا سے متصل ہے، جہاں اس روز شام تک ۹۶مسلمانوںکو قتل کیاگیا۔کمانڈہیڈکوارٹرمحفوظ چار دیواری کے اندرہے اورمحافظ اس کی حفاظت پر تعینات رہتے ہیں۔وہ ان عام باشندوں کو ایس آرپی بٹالین ہیڈکوارٹر میں داخل ہونے کے لیے واضح اجازت چاہتے تھے۔میں نے ان کو فوراًفیکس پر یہ ہدایت بھیج دی تھی کہ جو لوگ حفاظت کی خاطر اندرآناچاہتے ہیں انھیں آنے دیا جائے اوران کو خالی بیرکوں میں جگہ دے دی جائے۔ درحقیقت کمانڈنٹ مسٹرخورشید اوران کے نائب ڈی وائی ایس پی مسٹرقریشی ان مسلمانوں کو، جن کی جانیں یقینی طور سے خطرے میں تھیں کیمپ کے اندرداخل ہونے کی اجازت دینے کے جوکھم سے گھبرائے ہوئے تھے۔میں نے ان کو یقین واطمینان دلایا کہ: ’’میرے تحریری حکم پر عمل کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں آئے گا‘‘۔بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میرے تحریری حکم نامے کے باوجود کمانڈنٹ مسٹر خورشید احمد نے پناہ کے لیے منت سماجت کرتے بے سہارا، مظلوم اور نہتے مسلمانوں کو کیمپ میں داخلے کی اجازت نہیں دی تھی۔اطلاع یہ ہے کہ اس دن شام کو نروڈاپاٹیا میں جن ۹۶مسلمانوں کابہیمانہ قتل ہوا، یہ انھی میں سے تھے، جن کو کیمپ کے اندرپناہ دینے سے منع کردیاگیاتھا۔

بعد میں خورشید احمد سورت کے ڈپٹی کمشنر بنے۔ان کی اہلیہ شمیمہ(آئی اے ایس)ولساڈکی ضلع ڈویلپمنٹ افسراورسریندرنگرکی ضلع کلکٹربنیں۔اورڈپٹی کمانڈنٹ قریشی کو’امتیازی خدمات کے لیے صدرجمہوریہ ہند کا’پولس میڈل‘ملا۔اسی طرح دوسرے آئی پی ایس ،آئی اے سیداے ڈی جی پی بنائے گئے۔انھوں نے نریندر مودی کے لیے خوب کام کیا تھا اور پھر یہ بعد میں بی جے پی میں بھی شامل ہوئے۔ایک اورمسلم افسربعد میں مودی کے دفتر میں مشیر کے عہدے پر متمکن ہوئے۔

سری کمار نے ایسے ہی کئی اعلیٰ افسروں کے نام گنوائے ہیں، جنھیں فسادات کے دوران خون سے رنگے ہاتھوں ملزمان کو بچانے کے لیے ’انعام‘دیاگیا۔مزید ان افسران کے نام بھی گنوائے ہیں، جنھیں سچ بولنے پر سزا دی گئی۔ مصنف اپنے ذاتی مشاہدات اورسرکاری دستاویزات کو بطورثبوت استعمال کرکے ان چہروں کو بے نقاب کرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہوئے ہیں جو ’گجرات ۲۰۰۲ء‘ کے فسادات کے منصوبہ ساز بھی تھے اورسازشی بھی۔ان میں اعلیٰ سرکاری افسران ہیں،پولیس افسران ہیں اورچوٹی کے سیاست دان ہیں۔سری کمار کی یہ دستاویزی کتاب مقننہ اور عاملہ کے شرمناک گٹھ جوڑ کو اُجاگرکرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہے۔