ایک اعلیٰ بھارتی پولیس افسر وبھوتی نارائن رائے (Vibhuti Narain Ray) کی تحریر کردہ یہ کتاب Hashimpura 22 May فرقہ وارانہ فسادات کی داستان ہی نہیں ہندستانی مسلمانوں کی مظلومیت ، بے چارگی اور انصاف سے محرومی کا نوحہ بھی ہے ۔ یہ کتاب تحریر کرنے میں وبھوتی نارائن رائے کو ،جو ہندی کے ایک اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہیں،۲۹ سال لگے !اور کتاب ہاشم پورہ قتل عام کی ۳۰ویں برسی پر شائع ہوئی ۔ تین عشروں پر پھیلے عرصے کو مختصر نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم، اس طویل مدت کے دوران میں بھی نہ تو میرٹھ، ملیانہ اور ہاشم پورہ قتل عام کے متاثرین کو انصاف مل سکا ہے اور نہ ان قصورواروں کو کہ جنھیں میرٹھ کے مسلمان ’مجرم‘ قرار دیتے ہیں،کوئی سزا ہی دی جاسکی ہے ۔پھر یہ ’قصوروار‘ یا ’ مجرم‘ کوئی اور نہیں پولیس والے ہی ہیں ، یوپی کی بدنام زمانہ پی اے سی (پراونشل آرمڈ کانسٹیبلری ) کے جوان۔ یہ کتاب اس لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے کہ پولیس والوں کی درندگی اور مسلمانوں کی مظلومیت کو، ایک پولیس والے نے ہی اُجاگر کیا ہے ۔
یہ کتاب ابتدائیے اور نو ابواب پر مشتمل ہے۔ ہاشم پورہ کے قتل عام کی داستان انتہائی دل دہلانے والے انداز میں تحریر کی گئی ہے ۔حقائق اور سچائی سے کہیں رُوگردانی نہیں کی گئی ہے۔ میرٹھ کے فسادات کا دور، شدیدقسم کی فرقہ پرستی کا دور تھا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک زوروں پر تھی، تب بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی (م: ۲۱مئی ۱۹۹۱ء)نے مسجد کا بند دروازہ کھلوا دیا تھا۔فرقہ وارانہ کشیدگی کا عالم یہ تھا کہ پی اے سی نے اپنے ہی ایک مسلم افسر کی اس وقت جان لے لی تھی، جب اس نے مسلمانوں کو ہراساں کیے جانے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ انھی حالات میں۲۲ مئی۱۹۸۷ء کو وہ واردات ہوئی جسے وبھوتی رائے نے ’ہندستان میں حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات‘ قرار دیا ہے ۔ اس رات جو کچھ ہوا رائے نے پہلے باب میں اسے بڑی تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ انھوں نے یہ پتا لگانے کی بھی کوشش کی ہے کہ ہاشم پورہ قتل عام کی بنیادی ’وجہ ‘ کیا تھی؟
بات ۲۱مئی ۱۹۸۷ءسے شروع ہوتی ہے جب ایک فوجی افسر میجر ستیش چندرکوشک کےبھائی پربھات کوشک کو ، جو مکان کی چھت پر تھا ایک گولی آکر لگی اور اس کی موت واقع ہوگئی۔ یاد رہے کہ ستیش اور پربھات کی خالہ شکنتلا شرما اس زمانے میں بھارتیہ جنتاپارٹی میں ایک شعلہ بیان لیڈرتھیں۔ ۲۱مئی کو پربھات کی موت ہوئی اور۲۲مئی کو پی اے سی کی ۴۱ویں بٹالین کمانڈر سریندر پال سنگھ کی قیادت میں ہاشم پورہ پہنچی ۔ موقعے کے گواہ بتاتے ہیں کہ پی اے سی کی ٹکڑی کے ساتھ میجر ستیش چندر کوشک بھی تھے۔ ۴۲مسلم نوجوانوں کو بندوق کی نوک پر گھروں سے نکال کر ٹرک میں بھرا گیا ۔ ٹرک پہلے مرادنگر پہنچا پھر مکن پور، جہاں اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے کنارے پرمسلم نوجوانوں کو ٹرک سے اُترنے کے لیے کہا گیا ، وہ جیسے جیسے اترتے گئے ویسے ویسے پی اے سی والے انھیں گولی مارکر ندی میں پھینکتے گئے ۔ ’ ہاشم پورہ ۲۲مئی‘ ان ہی مقتولین کی داستان ہے ۔ دوایسے افراد کی زبانی یہ رُودادِ الم رائے نےجمع کی ہے، جو گولی باری سے اللہ کی مشیت سے اس لیے بچ نکلے تھے کہ دنیا کے سامنے پی اے سی کی درندگی کو افشا کرسکیں۔ رائےلکھتے ہیں:
رات کے کوئی ساڑھے دس بجے ہوں گے ، ہاپوڑ سے میں بس ابھی واپس لوٹا ہی تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی کو ان کی سرکاری رہایش گاہ پرچھوڑ کر میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے طور پر اپنے گھر کے قریب پہنچا تو میری کار کی ہیڈلائٹس ڈرے سہمے وہاں کھڑے سب انسپکٹر وی بی سنگھ پر پڑیں، جو لنک روڈ پولیس اسٹیشن کے انچارج تھے۔ مجھے احساس سا ہوا کہ اس کے حلقے میں کوئی خوف ناک بات ہوگئی ہے ۔ میں نے ڈرائیور سے کارروکنے کو کہا اور باہر نکل آیا ۔
اس کے بعد وبھوتی رائے نے وی بی سنگھ کی زبانی یہ خبر سننے کی تفصیل بیان کی ہے کہ ’’پی اے سی نے چند مسلمانوں کو قتل کردیا ہے‘‘۔رائے کے دماغ میں سوالات اٹھنے لگے ، انھیں کیوں قتل کیا گیا ہے؟ کتنوں کو قتل کیا گیا ہے؟ انھیں کہاں سے اٹھایا گیا تھا؟ رائے نے ان سوالات پر صرف غور ہی نہیں کیا بلکہ وہ مرادنگر کی سمت روانہ ہوئے ۔ اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے قریب ہونے والے قتل عام سے تین افراد بابودین، ذوالفقار اور قمرالدین بچ نکلے تھے ۔ بابودین کورائے نے ندی سے نکالا تھا، اس کو دوگولیاں لگی تھیں ۔دوسرے دو افراد بھی زخمی مگر زندہ تھے۔
آج ۳۰سال بعد لوگوں کے ذہنوں سے ہاشم پورہ قتل عام کے نقوش محو ہوچکے ہیں، جنھیں دوبارہ اُجاگر کرنے کا کام رائے نے اس کتاب سے کیا ہے۔۔ رائے نے اسے ’آزاد ہندستان میں حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات‘ کہا ہے۔ وہ اسے ’ریاست کی بہت بڑی ناکامی‘ قرار دیتے ہیں‘۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسی واردات ہے جس میں ریاست کے ایجنٹ، قاتلوں کے ساتھی بنے ہوئے تھے اور یہ ناقابلِ معافی جرم ہے ‘۔
جب ہاشم پورہ کی واردات ہوئی تھی تب رائے پڑوسی ضلع غازی آباد میں پولیس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے ۔انھوں نے ذکر کیا ہے کہ وہ پی اے سی کی چھاؤنی بھی گئے اور اس ٹرک کو بھی دیکھا جس میں مسلمانوں کو بھر کرلے جایا گیا تھا، ٹرک کو پانی سے دھویا جارہا تھا۔رائے نے اعلیٰ پولیس افسران تک ’قتل عام‘ کی خبر پہنچائی۔ قتل عام کا معاملہ درج کرانے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی۔ انھوں نے تفتیشی ایجنسیوں کی چھان بین پر نگاہ رکھی۔ پراونشل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کی نقل وحرکت پر نظر رکھی۔ انھوں نے دیکھا کہ ’ ریاست اور پولیس نے مل کر قتل عام کی ایک المناک واردات پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ ‘
رائے نے ۲۲مئی کے روزہی اعلیٰ پولیس افسران کے سامنے پی اے سی کی چھاؤنی پر ’چھاپہ مارنے‘ کی تجویز پیش کی تھی جو ٹھکرادی گئی تھی۔ یہ تجویز انھوں نے صرف اعلیٰ پولیس افسران کو نہیں اس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے سامنے بھی رکھی تھی اور انھیں ’قتل عام‘ کی واردات سے بھی باخبر کیا تھا۔ پھر یہ تجویزبھی سامنے رکھی تھی کہ پی اے سی کی چھاؤنی پر چھاپہ مارا جانا چاہیے تاکہ ثبوت اکٹھے کیے جاسکیں‘‘۔ مگر کانگریس نے ہمیشہ کی طرح میرٹھ فسادات اور ہاشم پورہ قتل عام کو بھی نہ صرف دبانے کی بلکہ ساری واردات کو ’ من گھڑت‘ قرار دینے کی کوشش کی اور اس میں وہ اعلیٰ پولیس افسر بھی شریک تھے، جنھیں یہ خبر رائے نے خود دی تھی کہ قتل عام ہوا ہے۔ رائے کہتے ہیں کہ: ’’ہاشم پورہ کے مقتولین اور متاثرین کیسے جمہوریت کے تینوں ستونوں کی طرف سے نظرانداز کیے گئے، بلکہ تینوں ہی ستونوں، یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ نے ان سے ’ ناانصافی‘ کی‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ہاشم پورہ قتل عام کی کہا نی ہندستانی ریاست اور اقلیتوں کے درمیان گھناؤنے غیرمتوازن تعلقات، پولیس کے اخلاقی رویّے اور پریشان کن سست رفتار عدالتی نظام کی کہانی ہے‘‘۔ رائے کے مطابق: ’’ ہاشم پورہ آج بھی بہیمانہ ریاستی جبر اور ایک بے ریڑھ کی ایسی ریاست و حکومت کی علامت بنا ہوا ہے ،جو اپنے ہی لوگوں ۔۔۔قاتلوں کے آگے سرنگوں ہوگئی تھی‘‘۔
ایک پولیس اور انٹیلی جینس افسر کے طور پر رائے نے تفصیل سے بتا یا ہے کہ کیسے ’ تفتیش‘ کا رخ موڑا گیا ۔وہ بہت سارے چہروں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور بہت سارے کرداروں کے ’رویّے‘ کو اُجاگر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کیسے اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے قریب ہوئے قتل عام سے بچنے والے نوجوانوں کو وہ محفوظ ٹھکانے تک لے گئے ۔ وہ بھارتی سیاست دان اور دانش ور سیّدشہاب الدین (م: ۴مارچ ۲۰۱۷ء) سے ملاقات اور بابودین کو ان کے سامنے پیش کرنے کے ساتھ، ان کی ڈاکٹر صاحبزادی کی جاںفشانی اور انھی کے ذریعے ہاشم پورہ قتل عام کو اُجاگر کرنے کا ذکر بھی بڑی وضاحت سے کرتے ہیں ۔
راجیوگاندھی، پی چدمبرم (اُن دنوں وزیر داخلہ تھے)، ایل کے اڈوانی وغیرہ کا ذکر بھی کتاب میں موجود ہے ۔راجیوگاندھی نے پہلے ’ دل چسپی‘ دکھائی تھی اور پھر ’بے رخی‘۔ اس زمانے کی میرٹھ کی کانگریسی مسلمان رکن پارلیمنٹ محسنہ قدوائی (پ:۱۹۳۲ء)ان کے قلم کی کاٹ سے نہیں بچ پاتیں کہ جنھوں نے دوٹوک انداز میں، پارلیمانی اور عوامی سطح پر وبھوتی رائے کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ اپنی تحریر میں مسلم قائدین پر بھی برملا تنقید کرتے ہیں ۔ ان کے قلم کی دھار کے سامنے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، سی آئی ڈی سیّد خالد رضوی اور اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی پردے کے پیچھے چھپ نہیں پاتے۔
وبھوتی نارائن رائے نے جس کتاب کو تحریر کرنے کا آغاز۱۹۸۷ء سے کیا تھا اس کی تکمیل وہ ہاشم پورہ قتل عام کے مقدمے کے فیصلے کے بعد کرنا چاہتے تھے ۔ فیصلہ ۲۱مارچ ۲۰۱۵ءکو آیا ، اس سے قبل ۲۱جنوری ۲۰۱۵ءکو فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلےمیں تمام ملزم پولیس والوں کو بری کردیا ۔ رائے اس فیصلے پر کہتے ہیں کہ’ فیصلہ افسوس ناک ضرور ہے مگر اُمید کے برخلاف نہیں‘۔ رائے نے تسلیم کیا ہے کہ تفتیش کو دانستہ غلط رخ دیا گیا ۔ آخرکار ۳۱؍اکتوبر ۲۰۱۸ء کو، ۳۱برس بعد دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر اور جسٹس ونود گویل نے فیصلہ سناتے ہوئے، ہاشم پورہ قتل عام کے جرم میں پولیس کے ۱۶سابق افسروں کو عمرقید کی سزا سنا دی ہے۔
وبھوتی نارائن رائے (پ: ۲۸نومبر۱۹۵۱ء ، اعظم گڑھ، اور الٰہ آباد یونی ورسٹی سے ایم اے انگریزی) کی یہ کتاب Hashimpura 22 May: The Forgotten Story of Indian's Biggest Custodial Killing ۳۰۴صفحات پر مشتمل ہے، جسے پینگوین ،انڈیا نے جولائی ۲۰۱۶ء میں شائع کیا ہے۔ بھارتی ۳۹۹ روپے یا ۱۵؍ڈالر اس کی قیمت ہے۔ جو شخص ’عظیم جمہوری ہندستان‘ کے غیرجمہوری چہرے کو دیکھنا چاہتا ہے، اسے یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ انگریزی کے علاوہ یہ ہندی میں بھی دستیاب ہے، مگر اب تک اُردو ترجمہ شائع نہیں ہوا۔ممکن ہے کوئی صاحب یہ خدمت انجام دے رہے ہوں۔