مدینہ منورہ کی ریاست کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان بار بار یہ کہتے ہیں کہ ان کا آئیڈیل مدینہ کی ریاست اور حکومت ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے یقینا ان کا دل بھی یہی چاہتا ہوگا کہ وہ یہ کام کریں اور اس کی عملی تشکیل کی سمت میں بامعنی قدم بڑھائیں۔ ہمیں اس خواہش کو محض سیاسی بیان سمجھنے کے بجاے ان کے قول کواقبال، قائداعظم اور تحریک ِ پاکستان کے تصورِ پاکستان کا اعادہ سمجھنا چاہیے اور حکومت اور قوم دونوں کی ذمہ داری ہے کہ عملاً اس سمت میں پوری یکسوئی کے ساتھ پیش قدمی کریں۔
یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم متعین کرکے بتائیں کہ یہ ماڈل کیا ہے؟ پھر اس بات کو واضح کیا جائے کہ اس ماڈل کو حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ ہم نے جو نکات نومبر۲۰۱۸ء کے ترجمان میں بیان کیے تھے ،وہ اس باب میں معاون ہوسکتے ہیں ۔
ریاست مدینہ کے ماڈل کے حوالے سے بنیادی طور پر غورطلب باتیں حسب ِذیل ہیں:
مدینہ کے ماڈل میں خود حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مرکزیت حاصل ہے، یعنی آپؐ کے فرمودات (جو وحی پر مبنی ہوتے تھے)، آپؐ کا کردار،آپؐ کے فیصلے اور بحیثیت مجموعی آپؐ کا قائم کردہ طرزِ حکمرانی ہی اصل ماڈل ہے۔ چنانچہ حضوؐر کی ذات سے تعلق، ان سے رہنمائی لینا اور سنت کو معیار (criteria) بنانا، یہ اس ریاست کی پہلی ضرورت ہے۔
مدینہ ، مکّہ کا تسلسل:دوسری بات یہ ہے کہ مدینہ دراصل مکّہ میں پیش کی جانے والی دعوت، جدوجہد، کش مکش اور تربیت کا تسلسل اور تکمیل ہے۔ مدینہ کا معنی صرف مدینہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد مکّہ اور مدینہ کا رسالت ِمحمدیؐ کا پورا دور ہے۔ گویا کہ مکّہ اور مدینہ میں دوئی نہیں یک رنگی اور یک جائی ہے۔
میثاق:تیسری چیز یہ ہے کہ مدینہ کی سیاسی تنظیم اور بنیاد دو میثاق ہیں۔ یہ دونوں اہم تاریخی دستاویزات ہیں جن کا ازسرِنو مطالعہ اور تجزیہ کرنے اور ان سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ ان کی اشاعت بھی اس کے لیے مفید اور ضروری ہے۔
پہلا میثاق وہ ہے جو حضوؐر اور اہلِ مدینہ میں سے قبولِ اسلام کرنے والوں کے درمیان ہوا، خاص طور سے ’بیعت عقبۂ ثانی‘۔ اس بیعت میں جس چیز پر لوگوں نے بیعت کی وہ حضوؐر کو صرف نبی ماننا ہی نہیںتھا بلکہ انھیں قائد، سربراہِ مملکت اور مدینہ کا سربراہ تسلیم کرنا تھا۔ بیعت عقبۂ ثانی کے موقعے پر پوری بحث کو پڑھیں تو وہاں یہ الفاظ بیان ہوئے تھے کہ مدینہ سے آنے والے ایک یا ایک سے زیادہ لوگوں نے یہ کہا کہ سوچ لو تم کیا بات تسلیم کرنے جا رہے ہو؟ یہ ماننے کے بعد ساری دنیا تمھارے خلاف اُٹھ کھڑی ہوگی اور تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے اور ان کے دفاع اور دین کے لیے جان دینے کا عہد کر رہے ہو۔ یہ اُن کا وژن تھا۔انھوں نے کہا کہ ہاں، ہم سمجھتے ہیں کہ کیا عہد کر رہے ہیں اور ہمیں یہ قبول ہے۔ گویا یہ حضوؐر کو نبی ماننا، ان کو پولٹیکل اتھارٹی ماننا اور ان کی بنیاد پر ایک مملکت قائم کرنا ہے۔ یہ پہلے میثاق کی بنیاد تھی۔ یہ حضوؐر کے اور حضوؐر کے ماننے والوں کے درمیان میثاق ہوا تھا۔
دوسرا ’میثاقِ مدینہ‘ ہے جو پہلی ہجری میں غیرمسلموں کے ساتھ ہوا تھا، جس میں خصوصیت سے بنی اسرائیل، مدینہ کے قبائل اور قبائل کے سردار شامل تھے۔ اس معاہدے کی روح یہ ہے کہ حضوؐر نے غیرمسلموں کو غیرمسلم رہتے ہوئے اسلامی ریاست کا شہری مانا، ان کے حقوق طے کیے اور یہ اہداف طے کیے کہ کس طرح سے مل کر دفاع کریںگے۔ طے ہوا کہ یہود اپنے دفاعی اخراجات خود برداشت کریں گے اور مسلمان اپنے دفاعی اخراجات خود برداشت کریں گے۔
معلوم ہوا کہ شہریت، حقوق اور ذمہ داریاں ان دونوں میثاقوں کی بنیاد ہیں۔ اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ مختلف عقائد کے حامل افراد ایک ریاست کے شہری ہوسکتے ہیں اور اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے مشترک تعلقات (joint relationship) کے ساتھ ریاست کا نظام چلایا جاسکتا ہے، یعنی ایک یہ کہ مسلمانوں کا حضوؐر کو بحیثیت نبی ماننا اورریاست کا سربراہ ماننا، اور غیرمسلموں کا حضوؐر کو نبی تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی انھیں ریاست کا سربراہ ماننا، آخری سیاسی اتھارٹی تسلیم کرنا۔ پھر یہ کہ ایک اسلامی قیادت اور اسلامی مملکت کا غیرمسلموں کے حقوق اور ان کے مقام کا تعین کرنا۔ مدینہ کا ماڈل سمجھنے کے لیے یہ دونوں معاہدے بنیاد ہیں۔
مسجد :حضوؐر نے مدینہ میں آتے ہی پہلا کام یہ کیا ہے کہ جہاں آپؐ کی اُونٹنی بیٹھی، آپؐ نے وہ زمین حاصل کرکے وہاں مسجد کی تعمیر فرمائی۔ ہمارےوزیراعظم صاحب کو جاننا چاہیے کہ یہ مسجد عبادت گاہ بھی تھی اور مشاورت کے لیے آج کی اصطلاح میں پارلیمنٹ بھی، مقامِ عدل و قضا بھی تھا اور اُمورِخارجہ و اُمورِ دفاع کا مرکز بھی۔ یہ تمام اُمور اللہ کے گھر میں، اللہ کی رہنمائی اور رسولؐ کی قیادت میں، آخرت کی جواب دہی اور انسانیت کی فلاح کے لیے انجام پاتے تھے۔
مدرسہ : پھر اس مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ قائم کیا اور تعلیم کاسلسلہ شروع کیا جس کا مطلب ہے کہ ریاست مدینہ میں جتنی اہمیت مسجد کی ہے، اسی قدر اہمیت قرآن و سنت کی تعلیم و تدریس اور علم کی بھی ہے۔
ماں : اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کا دین میں بڑا بنیادی کردار ہے۔ انھوں نے حضوؐر کی تسکین، مالی معاونت، وفاداری،اولاد کی تربیت کی اورصحابیات نے مکّی دور میں بے پناہ قربانیاں دیں۔ تاہم، ماں کا کردار مدینہ میں آکر ایک اور شان کے ساتھ نمایاں ہوتا ہے۔ خاندان کی تشکیل ، مذکورہ تمام قربانیوں سے بڑی قربانی یہ کہ اُمت کی اصلاح اور تربیت کے لیے اُم المومنین کا اپنی نجی زندگی کوعام کر دینا ہے۔ یہ مرحلہ مدینہ منورہ میں پیش آیا، جس نے رسولؐ کی نجی زندگی کو پبلک زندگی میں تبدیل کر دیا اور نجی اور مجلسی زندگی کا ہرپہلو اُمت کے لیے سنت اور نمونہ قرار پایا۔
مواخات :اس کے بعد آپؐ نے اسلامی معاشرت اور مواخات کے فروغ کے لیے معاہدئہ مواخات کیا، یعنی مدینہ کی نئی آبادی مہاجروانصار کے درمیان نئے تعلقات قائم کیے۔ فنی طور پر دیکھیں تو دو مختلف قومیں، مختلف روایات کی علَم بردار ہیں۔ قریش عرب میں ایک اُونچا مقام رکھتے تھے مگر یہاں وہ ایک مجبور اور مہاجر کی حیثیت سے آئے تھے ۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا کہ کیسے سوسائٹی کے اندر ایک نیا بھائی چارہ، نئی اخوت قائم کی جائے اور معاشرتی تعلقات قائم کیے جائیں؟ اس کو مواخات کہا جاتا ہے اور یہی مواخات اسلامی وحدت اور اُمت بنانے کی بنیاد بن گئی اور مدینہ کو صحیح معنوں میں مدینہ بنا دیا۔ پھر مدینہ محض انصار اور مہاجروں کا مسکن نہیں رہا بلکہ اُمت مسلمہ کا مرکز و محور بن گیااور ہمیشہ رہے گا۔
مساوات:یہاں سے مساوات کا تصور اُبھرتا ہے۔ ایسی مساوات کہ جس میں: مسلم و غیرمسلم کے درمیان، امیر اورغریب کے درمیان،اعلیٰ نسب اور کم نسب کے درمیان اور غلام اور آقا کے درمیان انصاف کرنا ہے بلکہ انصاف سے آگے بڑھ کر اپنا حق دوسرے کے لیے قربان کرنا، یعنی احسان کا رویہ اپنانا۔
مفادِ عامہ:یہاں سے مفادِ عامہ سامنے آتا ہے۔ اسلام میں جہاں اللہ سے تعلق اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، وہیں ہماری اجتماعی زندگی اور معاشرت کا مرکز مفادِ عامہ ہے، یعنی فلاحی ریاست میں فلاحی معاشرے کا قیام ضروری ہے۔ قرآنِ پاک میں جس طرح نماز اور زکوٰۃ کی تلقین ہے، اسی طرح حقوق العباد کی ادایگی کا حکم بھی ہے۔ خون کے رشتوں کے احترام اور ان کو نفقہ اور میراث کے قوانین کے ذریعے ایک سوشل سیکورٹی کے نظام میں مربوط کرنا ضروری ہے۔ پھر سوسائٹی کے مظلوم اور محروم طبقات، خصوصیت سے یتامٰی، مساکین اور بیوائوں کی کفالت کے لیے فکرمندی اور زکوٰۃ اور زکوٰۃ سے بھی زیادہ انفرادی اور اجتماعی ایثار کے ذریعے وسائل فراہم کرنے کی ہدایت۔ اسلام کا یہ فلاحی نظام اخلاق اور قانون دونوں کو مؤثر طور پر استعمال کرتا ہے اور یتیم اور مسکین کے حق سے لاپروائی کو دین اور یومِ آخرت کے انکار سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ عمل مدینہ کے فلاحی نظام کو تاریخ کا ایک منفرد نظام بنا دیتا ہے۔
مجاہدہ اور جہاد: پھر تمام غزوات اور سرایا اسی زمانے میں ہوتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ، دعوت، ہجرت براے دعوت۔ نیز ہجرت دعوت بھی تھی اور ظلم سے بچنے کا ذریعہ بھی ۔ حضوؐر کے دور میں اور حضوؐر کے بعد دنیا کےگوشے گوشے میں لوگوں کو دعوت کے لیے بھیجا گیا۔ اس مجاہدے کا آغاز دعوت اور اس کا فطری نتیجہ ، حق و باطل کی کش مکش اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی کوشش ہے۔ اس کا ایک مرحلہ مقابلہ اور تصادم بھی ہے۔ جہادفی سبیل اللہ ان تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ شرک اور نفاق، بیرونی اور اندرونی چیلنجوں سے نبٹنے کے مراحل میں جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے۔
مذاکرات : حضوؐر نے مدینہ کے دورِ حکمرانی میں، اس زمانے کے تمام حکمرانوں کے نام خطوط لکھ کر سفیروں کو روانہ کیا۔ اسی طرح قریش کے ساتھ مذاکرات کیے اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ حق کی آبیاری کے لیے دعوت، دفاع اور مذاکرات سب چیزیں ضروری ہیں۔
معبود حقیقی کا قرب: ان سب چیزوں کا ہدف اور مقصود معبودِ حقیقی کا قرب ہے، اس کی رضا کا حصول ہے اور اس کے حصول پر کامیابی ہے۔
یہ ۱۲کے ۱۲ نکات ’میم‘ سے شروع ہوتے ہیں: محمدؐ، مدینہ، میثاق، مسجد، مدرسہ، ماں، مواخات، مساوات، مفادِ عامہ، مجاہدہ اور جہاد، مذاکرات اور معبودِ حقیقی کا قرب۔
یہ ہے مدینہ کا ماڈل اور یہ ہیں اس ماڈل کے بنیادی اجزا۔ آج کے زمان و مکان (Time and Space) میں آپ جتنا بھی رنگ بھرلیں اوراس کو وسعت دے لیں، آپ کے لیے، اُمت کے لیے اور انسانیت کے لیے سعادت مندی کا راستہ آں حضوؐر کی قائم کردہ ریاست ِ مدینہ کے اتباع ہی میں مضمر ہے۔
(سفرِ برطانیہ کے دوران یہ نکات برادرِ عزیز سلیم منصور خالد کو اِملا کرا دیے تھے)