بہت سے مسلمان ایسے ہیں، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے ساری دل چسپی محض حصولِ ثواب کے لیے رکھتے ہیں (اس سعادت سے انکار نہیں کہ حضوؐر سے قربت کی ہرکوشش اللہ کی بارگاہ میں پسندیدہ ہے اور اجر کا باعث ہے۔ لیکن ایسی کوشش کا اوّلین مدعا اپنی زندگی کو سنوارنا بھی تو ہو )۔ دھوم دھام سے میلاد کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور اس اعتقاد سے کی جاتی ہیں کہ ان مجالس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر نور جلوہ گر ہوتی ہے اور اپنے پیروئوں کی محبت کے مظاہر کو دیکھ کر خوشنود ہوتی ہے۔ شیر ینی کے طشت ، پھولوں کے گجرے اور ہار، قوالی اور نعت خوانی کے اہتمام، اگر بتیوں اور لوبانوں کی خوشبوئوں کے مرغولے ، قمقموں اور فانوس کی لمعہ پاشیاں یہ سب کچھ اسی جذبے کے ترجمان ہیں۔
سیرت نبویؐ سے اس انداز کی عقیدت جو نقشہ سامنے لاتی ہے، اس سے ہم کسی آدم زاد شخصیت سے نہیں بلکہ ایک فوق الانسان ہستی سے متعارف ہوتے ہیں، جس کا پیکر نور سے ڈھلا ہے۔ جس کے کارنامے میں سارا کردار صرف معجزوں کا ہے، جو عالم اسباب کے قوانین سے بالا تر ہے، جس کے سارے کام فرشتے انجام دیتے ہیں اور جس کی ہر بات ہر چیز انسانی فہم کے دائرے سے باہر ہے۔
اس بنیادی حقیقت سے کوئی صاحب ِ ایمان انکار نہیں کرسکتا کہ ابناے نوع کے مقابلے میں حضوؐر کاروحانی اور اخلاقی پایۂ مرتبت ان انتہائوں پر ہے کہ وہاں بہت سی فوق العادت چیزیں بھی ملتی ہیں، وہاں معجزے بھی ہیں اور وہاں فرشتے بھی حرکت کرتے نظر آتے ہیں مگر بہرحال وہ پاک زندگی ایک انسان کی ہے جو افضل البشر ہیں اور ان کی عظمت کا اساس ہی یہ ہے کہ ایسی لامثال زندگی ایک انسان نے پیش کی۔ وہاں قوانین فطرت اور نو امیسی تاریخ وحدیث ہی کے دائرے میں سارا کام ہوتا ہے اور کامیابی کی راہ کے ایک ایک چپے پر انسانوں کو سبق دینے کے لیے انسانوں ہی کی طرح قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔
وہ ایک انسان کی زندگی ہو کر ہمارے لیے اسوہ بنتی ہے اور اسی کے تصور کے ساتھ ہم اس حیاتِ مقدسہ سے اکتساب کر سکتے ہیں۔ اس سے عزم وہمت کا درس لے سکتے ہیں۔ اس کے اصول کی پابندی اور فرض شناسی کا سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اس سے انسانیت کی خدمت کا جذبہ اخذ کر سکتے ہیں اور اس سے بدی کی طاقتوں کے خلاف معرکہ آرا ہونے کے لیے اپنے اندر ایک تڑپ پید ا کرسکتے ہیں۔
اور اگر سیرت نبوی ؐ کو محض معجزہ بناکر اسے فوق الانسان کے طور پر ہی دیکھا جائے تو پھر مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کے لیے اس میں نمونہ کیا رہے گا۔ ایسی ہستی کے سامنے ہم مرعوب اور حیرت زدہ تو ہو سکتے ہیں، اس سے ہم عقیدت تو رکھ سکتے ہیں، مگر اس کا اتباع نہیں کرسکتے ۔ چنانچہ جہاں عقیدت مندی کا ایسا خاص رنگ پہنچتا اور گہرا ہوتا جاتا ہے، عملی زندگیاں اتباع نبوت سے اتنی ہی آزاد ہوتی جاتی ہیں، بلکہ الٹی حالت یہ ہے کہ گھنائونے معاشی اور معاشرتی جرائم کے میکدے میں جو لوگ خم لنڈھاتے ہیں، وہ بھی اس سستے مظاہر ۂ عقیدت سے اپنے مضطرب ضمیر کو اطمینان دلاتے ہیں ع
کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کے امت میں ہیں
دوسری طرف ایک مغربی رجحان اعاظم پرستی یا Hero Worship کی صورت میں حاوی نظر آتا ہے۔ یہ رجحان اپنی روح کے اعتبار سے قوم پرستانہ جذبات کا آئینہ دار ہے۔ ایک طرح کا قومی تفاخر ہے جو دوسروں کے سامنے گویا یہ کہتا ہے کہ دیکھو ہمارے پاس ایسی اور ایسی ہستیاں ہیں۔ ہماری تاریخ میں اتنے اتنے بڑے پائے کے بزرگ ہو گزرے ہیں اوران کے یہ یاد گار کارنامے ہیں، جن کے ہم وارث ہیں اور جو ہمارے لیے سرمایۂ افتخار ہیں۔ اس رجحان کی علامت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ کھوکھلا ہوتا ہے اور اس کے تحت ہر قوم متعدد شخصیات کے ایام پیدایش اور دوسرے یادگاری دن بڑے ٹھاٹ باٹ سے مناتی ہے مگر یہ ایام کہیں بھی ان شخصیتوں سے استفادے کا ذریعہ نہیں بنتے۔ انسانیت کے جن نمونوں کو بصد تفاخر دوسروں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ان کا کوئی پرتو، انھیں پیش کرنے والوں کی اپنی زندگی میں دکھائی نہیں دیتا اور نہ کبھی اس پر تو کو اخذ کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس رجحان کے تحت حضوؐر کی یاد تازہ کرنے کے لیے جو تقاریب منعقد ہوتی ہیں، کہنے کو تو ایک خاص طرح کی باتیں کہی جاتی ہیں مگر زندگی پر ان کا کوئی اثر نمودار نہیں ہوتا۔
تیسراغلط نقطۂ نظر وہ ہے جو حضوؐر کے پیغام کو ایک نظام حیات کا پیغام نہیں سمجھتا بلکہ ایک مذہب کا پیغام قرار دیتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے جو لوگ متاثر ہیں ان کا تصور یہ ہے کہ حضوؐر بس چند اعتقادات، چند رسوم، چند عبادات، چند اورادووظائف، چند اخلاقی سفارشیں اور چند فقہی احکام پہنچانے آئے تھے۔ ایسا عنصر حضوؐر سے بس طہارت ، نماز روزے ، نوافل واذکار اور انفرادی اخلاق کی حد تک اکتسابِ فیض کرتا ہے، لیکن تمدنی زندگی کے وسیع تر معاملات میں وہ پوری شانِ بے حسی کے ساتھ ہر باطل کے کام آتا ہے اور ہر جاہلیت کے ساتھ سازگاری کرلیتا ہے۔ اس عنصر نے گویا سیرت نبوی ؐ کی مقدس کتاب کے بے شمار زریں ابواب کو فراموشی کی سرزمین میں دفن کر دیا ہے اور بس ایک مقدمے کی نقل کو لے کر اسی میں کھو گئے ہیں۔ اس عنصر نے اب تک حضوؐر کی جو ترجمانی کی ہے، اس سے متاثر ہو کر دورِ حاضر کی کوئی غیر قوم تو کجا خود تعلیم یافتہ نوجوان مسلم تک یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ حضوؐر ان کے لیے قافلۂ سالار تمدن بھی ہوسکتے ہیں اور ان کی بار گاہ سے تازہ ترین کٹھن مسائل کا کوئی حل بھی مل سکتا ہے۔
یہ غلط نقطۂ ہاے نظر پنپ اس لیے رہے ہیں کہ فضا ان کے لیے سازگار ہے۔ فضا یوں سازگار ہے کہ جس نظام سیاست وتمدن اور جس ہیئت معیشت ومعاشرت سے ہم دوچار ہیں اسے خاص نقشے کا انسان درکار ہے۔ وہ بالکل دوسری ہی سیرت افراد میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کا کام ایک اور ہی طرز کے ذہن وکردار سے چلتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہاں عملی زندگی کو سرے سے اُس نمونۂ زندگی کی ضرورت ہی نہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پیش کرتی ہے۔ اس منڈی میں اُس متاع فکرو عمل کی مانگ ہی نہیں ہے جو آںحضوؐر کی زندگی سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ زندگی کا اجتماعی نظام جس طرز کے وزیر، افسر، جج، وکیل ، لیڈر، صحافی ، سپہ سالار، سپاہی اور پٹواری، زمین دار ، ادیب، عام مزودر اور سرمایہ دار مانگتا ہے، ان کا نقشۂ انسانیت اس سے بالکل متضاد قسم کا ہے جس کا مظاہرہ سرور عالمؐ نے تاریخ کےاوراق پر پیش فرمایا۔
چھائے ہوئے نظام کی مانگ کے مطابق گھر گھر میں مائوں کی محبت کی گودیں اور باپوں کی شفقت کی نگاہیں اولادوں کو پال رہی ہیں۔ اس نظام کی ضروریات کا لحاظ رکھ کر ادارہ ہاے تعلیم وتربیت بیس بیس سال ایک ایک فرد پر صرف کرکے کام کے پُرزے بنا رہے ہیں اور اسی کے تقاضوں کے تحت ہر صاحب ِشعور خود اپنے ذہن وکردار کو ایک خاص شکل دینے میں ساری عمر مصروف رہتا ہے۔ یہ نظام جن جن چیزوں کو حقارت اور کراہت سے دیکھتا ہے، ماحول کی پوری طاقت ان کو مٹانے کے در پے رہتی ہے۔ یہ نظام جس بولی کو پسند کرتا ہے، زبانیں آپ سے آپ اسی بولی کو بولنے لگتی ہیں۔ یہ جس لباس کو پسند کرتا ہے، وہ لباس از خود زیب بدن ہونے لگتے ہیں۔ یہ ایک اشارہ کرتا ہے اور قدیمی حیادار گھرانوں کی بہوبیٹیوں کے چہروں سے نقابیں اُلٹ جاتی ہیں۔ عزت کی روش وہ ٹھیرتی ہے جسے مروجہ نظام رائج کرنا چاہے اور ذلت کا طرز وہ قرار پاتا ہے جسے چلتا ہوا تمدن نا پسند کرے۔ جن فنون کو یہ پسند کرتا ہے وہ ذریعۂ مقبولیت بنتے ہیں اور جن جن مشاغل کو یہ مسترد کرتا ہے وہ نذر تغافل ہو جاتے ہیں۔ یہ اپنی اقدار خود بناتا ہے اور تمام افراد سے منواتا ہے اور دوسری تمام روایات، اقدار اور شعائر کو مر جانا پڑتا ہے۔
کچھ حمیت دار افراد اور خاندان، اس ماحول کے جبری دھارے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں مگر معاشی محرومی، ثقافتی پس ماندگی اور احساس برتری کا دبائو اتنا سخت ہوتا ہے کہ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ یہ سب اپنے آپ کو ماحول کے حوالے کرتے جاتے ہیں۔اس ماحول میں سرور عالم ؐ کی سیرت پر کتابیں اگر کوئی لکھے اور پڑھے بھی اور وعظ سنے اور سنائے بھی تو اسوۂ حسنہ کا ذوق لوگوں کے اندر آئے کہاں سے ؟
سچی بات یہ ہے کہ سیرت نبوی ؐ میں ان لوگوں کے لیے پیغام ہے ہی نہیں جو کسی غیراسلامی نظام سے بھی یہ بات بنائے رکھنا چاہتے ہوں اور جن کے مفاد کے سودے کسی باطل سے چمک رہے ہوں۔ یہ لوگ سیرت پڑ ھ کر سر دھنتے ہوں گے، ان کو ذہنی لطف و سرور ملتا ہوگا ،ان کی معلومات میں بھی کچھ اضافہ ہوتا ہوگا، لیکن ان میں یہ تحریک کہاں سے آئے گی کہ وہ اس سیرت کے سانچے میں زندگی کو ڈھالیں؟
لیکن ہم کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی داستانِ حیات کوئی خیالی کردار نہیں۔ اس کا مقام ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسے ہم علم وادب کے تفریحی چوپال کا محض ایک سرمایۂ رونق بنائیں۔ اس کی قدر وقیمت اجازت نہیں دیتی کہ اسے ہم محض ذہنی لذت حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں۔ اس کا احترام روکتا ہے کہ ہم اسے محض قومی فخر کے جذبے کی تسکین کا سامان بنائیں۔
افسوس کہ یہ غلط نقطہ ہاے نظر ہمارے ہاں مل جل کر کام کر رہے ہیں اور یہی اصل مقصد میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ کون شمار کرسکتا ہے کہ ہرسال کتنی مجالس میلاد اور جلسہ ہاے سیرت، ہمارے ملک میں منعقد ہوتے ہوں گے؟ ایک ربیع الاوّل کے مہینے میں کتنے وعظ اور کتنی تقریریں ہوا میں لہریں اُٹھا دیتی ہوں گی؟ کتنے مقالے اور کتابیں لکھی جاتی ہوں گی؟ کتنے رسالوں کے خاص نمبر اس موضوع پر شائع ہوتے ہوں گے؟ شعرا کتنی نعتیں لکھتے ہوں گے؟ اور قوال ان کو کہاں کہاں گاتے پھرتے ہوں گے؟ دعوتوں اور ضیافتوں کی کیسی کچھ بہاریںدسترخوانوں پر آتی ہوں گی؟ بازاروں کو سجانے، پہاڑیوں کو کھڑا کرنے اور محرابیں بنانے میں کتنا روپیہ کھپا دیا جاتا ہوگا؟
لیکن دوسری طرف ذرا یہ بھی سوچیے کہ ایک اچھے مقصد پر قوتوں اور روپے کے اس صرف کا واقعی نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جائزے کی ترازو کے ایک پلڑے میں اپنی ایک سال کی ان سرگرمیوں کو رکھیے اور دوسرے پلڑے میں حاصل شدہ نتائج کو رکھ کر جانچ کر دیکھیے کہ کیا وز ن نکلتا ہے؟کتنے افراد ہوں گے جو ان نیک مساعی کی بدولت سیرتِ نبویؐ کے سانچے میں اپنی زندگیاں ڈھالنے کی مہم میں ہرسال لگ جاتے ہوں گے؟ اگر ایک جلسے اور ایک مقالے اور ایک نعت کے ذریعے صرف ایک ہی آدمی بدلا ہوتا تو اندازہ کیجیے کہ گذشتہ دو سو سال کا کیا حاصل ہونا چاہیے تھا، اور اگر عملاً وہ حاصل نہیں ہے تو کہیں ہماری مساعی میں کوئی کوتاہی تو موجود نہیں ہے؟
رونا اس کا نہیں کہ وہ کچھ حاصل نہیں ہوا جو مطلوب ہے ،بلکہ اس سے بڑھ کر ماتم اس کا ہے کہ ہمارے پلّے وہ کچھ پڑ رہا ہے، جو محسنِ انسانیت کے پیغام اور کارنامے سے کھلم کھلا ٹکراتا ہے۔ ہمارے اندر آج ایسے عناصر پروان چڑ ھ رہے ہیں جو حضوؐر کے عطا کردہ نظامِ زندگی کو ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں۔ ایسے عناصر جو حضوؐر کی تعلیمات کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ ایسے عناصر جو سیرت اور سنت اور حدیث کا سارا ریکارڈ دریابرد کردینا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر جو قرآن کو قرآن پیش کرنے والی ہستی کی ۲۳سالہ جدوجہد سے بے تعلق کر دینا چاہتے ہیں،اور حضوؐر کی ہستی کو بطور عملی نمونہ انسانیت کی نگاہوں سے گم کردینے کی خاطر کوشاں ہیں۔ پھر ستم بالاے ستم یہ کہ تعبیر و تاویل کے نام پر حضوؐر کی شخصیت، پیغام اور کارنامے کو موجودہ فاسد تہذیب کے فکری سانچے میں ڈھال کر پیش کرنے کی کوششیں بھی ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں کہ جس میں محسنِ انسانیتؐ کی بالکل نئی تصویر عالمی طاقتوں کے ذوق کے مطابق تیار کر دی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت کے بے شمار مظاہر موجود ہونے کے باوجود اور سیرت پر دماغی کاوشیں صرف ہونے کے باوجود ہماری تاریخ کے اُفق سے وہ نیا انسان طلوع نہیں ہو رہا جس کا نمونۂ کامل حضوؐر نے پیش فرمایا تھا۔ حضوؐر کی سیرت ہمارے اندر بجز اس کے کسی طرح جلوہ گر نہیں ہوسکتی کہ ہم اُس نصب العین کے لیے ویسی ہی جدوجہد کرنے اُٹھیں، جس کے لیے حضوؐر کی پوری زندگی کو ہم وقف پاتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایک فرد کی سیرت نہیں ہے بلکہ وہ ایک تاریخی طاقت کی داستان ہے، جو انسانی پیکر میں جلوہ گر ہوئی۔ وہ زندگی سے کٹے ہوئے ایک درویش کی سرگزشت نہیں ہے جو کنارے بیٹھ کر محض اپنی انفرادی تعمیر میں مصرو ف رہا ہو، بلکہ وہ ایک ایسی ہستی کی آپ بیتی ہے جو ایک اجتماعی تحریک کی روح رواں تھی۔ وہ محض ایک انسان کی نہیں بلکہ ایک انسان ساز کی آواز ہے۔ وہ عالمِ نو کے معمار کے کارنامے پر مشتمل ہے۔ ایک پوری جماعت، ایک انقلابی تحریک اور ایک ہیئت اجتماعیہ اس کارنامے کی تفصیل اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
سرورعالمؐ کی سیرت غارِحرا سے غارِثور تک، حرمِ کعبہ سے لے کر طائف کے بازاروں تک، اُمہات المومنینؓ کےحجروں سے لے کر میدان ہاے جنگ تک چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے نقوش بے شمار افراد کی کتابِ حیات کے اَوراق کی زینت ہیں۔ ابوبکر و عمر، عثمان و علی، عماریاسرو خالد و خویلد اور بلال و صہیب رضوان اللہ علیہم اجمعین، سب کے سب ایک ہی کتابِ سیرت کے چمکتے دمکتے زندہ اوراق ہیں۔ ایک چمن کا چمن ہے کہ جس کے لالہ و گل اور نرگس و نسترن کی ایک ایک پتی پر اس چمن کے مالیؐ کی مقدس زندگی مرقوم ہے۔ وہ قافلۂ بہاراں وقت کی جس سرزمین سے گزرا ہے ، اس کے ذرّے ذرّے پر نگہت کی مہریں ثبت کرگیاہے۔ دنیا کی اس بلند ترین شخصیت کو اگر سیرت نگاری میں محض ایک فرد بنا کر پیش کیا جائے اور سوانح نگاری کے مروّجہ طرز پر اس کی زندگی کے بڑے بڑے کاموں، اس کی نمایاں مہمات اور اس کے اخلاق و عادات کو بیان کر دیا جائے، کچھ تاریخوں کی چھان بین اور واقعات کی کھوج کرید کر دی جائے، تو ایسی سیرت نگاری سے صحیح منشاء ہرگز پورا نہ ہوگا۔
پھر سرورعالمؐ کی زندگی کی مثال کسی ایک تالاب میں کھڑے پانی کی سی نہیں کہ جس کے ایک کنارے کھڑے ہوکر ہم بیک نظر اس کا جائزہ لے ڈالیں۔ وہ تو ایک بہتا ہوا دریا ہے کہ جس میں حرکت ہے، روانی ہے، کش مکش ہے، موج و حباب ہیں، سیپیاں اور موتی ہیں، اور جس کے پانی سے مُردہ کھیتیاں مسلسل زندگی پا رہی ہیں۔ اس دریا کا رمز آشنا ہونے کے لیے، اس کے ساتھ ساتھ رواں ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے سیرت کی بہت سی کتابیں پڑھ کر نادر معلومات تو ملتی ہیں، لیکن ہمارے اندر تحریک پیدا نہیں ہوتی۔ جذبے انگڑائی نہیں لیتے، عزم و ہمت کی رگوں میں نیا خون نہیں دوڑتا، ذوقِ عمل میں نئی حرارت نہیں آتی،ہماری زندگیوں کا جمود نہیں ٹوٹتا، وہ شرارِ آرزو ہم اخذ نہیں کرپاتے کہ جس کی گرمی نے ایک یکہ و تنہا اور بے سروسامان فرد کو قرنوں کے جمے ہوئے فاسد نظام کے خلاف معرکہ آرا کر دیا۔
اصل میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم معروف اصطلاح کے محدود تصور کے مطابق فقط ایک ’بڑے آدمی‘ نہ تھے۔ آپؐ کی سیرت ایک ایسے’بڑے‘ یا مشہور آدمی کی داستانِ زندگی نہیں ہے، جسے لوگوں کو مشاہیر کے سوانحی سلسلوں میں گنوایا جاتا ہے۔ یہ ہستی ’بڑے‘ اور ’مشہور‘ آدمیوں کی سوانح سے بہت اُوپر کی نعمت ِ الٰہی ہے۔
دنیا میں بڑے آدمی بہت پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ بڑے لوگ وہ بھی ہیں جنھوں نے کوئی اچھی تعلیم اور کوئی تعمیری فکر پیش کر دی۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے اخلاق و قانون کے نظام سوچے۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے اصلاحِ معاشرہ کے کام کیے۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے ملک فتح کیے اور بہادری سے منسوب کاموں کی میراث چھوڑی۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے عظیم الشان سلطنتیں چلائیںاور وہ بھی ہیں جنھوں نے فقرودرویشی کے حیرت انگیز نمونے ہمارے سامنے پیش کیے۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے دنیا کے سامنے انفرادی اخلاق کا اُونچے سے اُونچا معیار قائم کر دکھایا___ مگر ایسے بڑے آدمیوں کی زندگی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو بالعموم یہی دیکھتے ہیں کہ ان کی قوتوں کا سارا رس اُس زندگی کی کسی ایک شاخ نے چُوس لیا اور باقی ٹہنیاں سوکھی رہ گئیں۔ ایک پہلو اگر بہت زیادہ روشن ملتا ہے تو کوئی دوسرا پہلو تاریک دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف افراط ہے تو دوسری طرف تفریط۔
لیکن، ان سب کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے گوشوں کے ساتھ پوری طرح متوازن بھی ہے اور پھر ہرگوشہ ایک ہی طرح کے کمال کا نمونہ ہے۔ جلال ہے تو جمال بھی ہے، روحانیت ہے تو مادیت بھی ہے،معاد ہے تو معاش بھی ہے، دین ہے تو دنیا بھی ہے، اک گونہ بے خودی بھی ہے مگر اس کے اندر خودی بھی کارفرما ہے۔ اللہ کی عبادت ہے تو اس کے بندوں کے لیے محبت و شفقت بھی ہے۔ کڑا اجتماعی نظم ہے تو فرد کے حقوق کا احترام بھی ہے۔ گہری مذہبیت ہے تو دوسری طرف ہمہ گیر سیاست اور کارِ ریاست بھی ہے۔ قوم کی قیادت میں انہماک ہے مگر ساتھ ساتھ اَزدواجی زندگی کا دھارا بھی خوب صورتی سے چل رہا ہے۔ مظلوموں کی داد رسی ہے تو ظالموں کا ہاتھ پکڑنے کا اہتمام بھی ہے۔
آپؐ کی سیرت کے مدرسے سے ایک حاکم، ایک امیر، ایک وزیر، ایک افسر،ایک ملازم، ایک آقا، ایک سپاہی، ایک تاجر، ایک مزدور، ایک جج، ایک معلّم، ایک واعظ، ایک لیڈر، ایک ریفارمر، ایک فلسفی، ایک ادیب، یعنی ہر کوئی یکساں درس عمل لے سکتا ہے۔ وہاں ایک باپ کے لیے، ایک ہم سفر کے لیے اور ایک پڑوسی کے لیے یکساں مثالی نمونہ موجود ہے۔ ایک بار جو اس درس گاہ تک آپہنچاہے پھر اسے کسی دوسرے دروازے کو کھٹکھٹانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ انسانیت جس آخری کمال تک پہنچ سکتی تھی وہ اس ایک ہستی میں جلوہ گر ہے۔ اس لیے دنیا کے منصف مزاج لوگوں کے نزدیک اس ہستی کو ’انسانِ اعظم‘ کے لقب سے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ تاریخ کے پاس ’انسان اعظم‘ صرف یہی ایک ہے جس کو چراغ بناکر ہردور میں ہم ایوانِ حیات روشن کرسکتے ہیں۔ کروڑوں افراد نے اس سے روشنی لی، لاکھوں بزرگوں نے اپنے علم و عمل کے دیئے اسی کی لو سے جلائے، دنیا کے گوشے گوشے میں اس کا پیغام گونج رہا ہے اور دیس دیس کے تمدن پر گہرے اثرات اس کی دی ہوئی تعلیم کے پڑے ہیں۔ کوئی انسان نہیں جو اس ’انسانِ اعظم‘ کا کسی نہ کسی پہلو سے زیراحسان نہ ہو۔ لیکن کتنے رنج و اَلم کا مقام ہے کہ اس کے احسان مند اس کو جانتے نہیں، اس سے تعارف نہیں رکھتے۔
اس کی ہستی کے تعارف اور اس کے پیغام کے فروغ کی ذمہ داری اس کی قائم کردہ اُمت پر تھی، لیکن وہ اُمت خود ہی اُس سے اور اُس کے پیغام سے دُور جاپڑی ہے۔ اس کے پاس کتابوں کے اَوراق میں کیا کچھ موجود نہیں ہے، لیکن اس کی کھلی ہوئی کتابِ عمل کے اَوراق پر ’انسانِ اعظم‘ کی سیرت کی کوئی تصویر دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی اُمت اور قوم کی مذہبیت ، اس کی سیاست، اس کی معاشرت، اس کے اخلاق، اس کے قانونی نظام اور اس کے کلچر پر اس سیرت کے بہت ہی دھندلے نشانات باقی رہ گئے ہیں، اور و ہ بھی بے شمار نت نئے نقوش میں خلط ملط ہوکر مسخ ہورہے ہیں۔ اس اُمت یا قوم کا اجتماعی ماحول زمین کے کسی ایک چپے پر بھی یہ گواہی نہیں دیتا کہ میں محمدؐ کے دیے ہوئے اصولوں اور اس کی قائم کردہ روایات و اقدار کا آئینہ دار ہوں، بلکہ اُلٹا یہ اُمت اور یہ قوم دنیا کے مختلف فاسد نظاموں کے دروازوں پر بھیک مانگتی بھٹکتی پھرتی ہے اور ہرقائم شدہ طاقت سے مرعوب ہوکر اپنے سرمایۂ افتخار پر شرمسار دکھائی دیتی ہے۔ اس نے قرآن کو غلافوں میں لپیٹ دیا ہے اور ’انسانِ اعظم‘ کی سیرت کا گلدستہ بنا کر طاق نسیاں پر رکھ دیا۔
دوسرا غضب یہ ڈھایا کہ اپنے آپ کو ایک مذہبی اور قومی جتھے میں بدل کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو محض اپنے قومی و مذہبی رہنما کی حیثیت دے دی اور اس بین الاقوامی ہستی کے پیغام اور نمونۂ حیات کو گروہی اجارہ دار بنالیا۔ حالاں کہ آپؐ ساری انسانیت کے رہنما بن کر آئے اور ساری انسانیت کے لیے پیغام اور نمونہ لائے تھے۔ سیرت کو اس انداز سے پیش کرنے کی ضرورت تھی کہ انسانیت کا یہ ایک نمونہ ہے کہ جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان اپنے اور ابناے نوع کی فلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے اور مسائل کے گوناگوں خارزاروں سے نجات پاکر ایک پاکیزہ نظامِ زندگی حاصل کرسکتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اور اسوہ درحقیقت سورج کی روشنی اور بارش کے پانی اور ہوا کے جھونکوں کی طرح کا فیضان عام تھا، لیکن اسے ہم نے اپنی نااہلی سے گروہی خول میں بند کر دیا۔ آج سقراط و افلاطون، ڈارون و میکیاولی ، مارکس و فرائڈ اور آئن سٹائن سے تو ہر ملک و مذہب کے لوگ تھوڑا یا بہت استفادہ کرتے نظرآتے ہیں، اور ان میں سے کسی کے خلاف کسی گروہ میں اندھا تعصب کا رونا نہیں ہے، لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نوادرِ علم اور رہنمائی سے استفادہ کرنے میں بے شمار تعصبات حائل ہوجاتے ہیں۔ لوگ یوں سوچتے ہیں کہ: ’’محمدؐ تو مسلمانوں کے ہیں اور مسلمان ہم سے الگ اور ہم مسلمانوں سے الگ ہیں۔ لہٰذا، مسلمانوں کے ہادی اور رہبر سے ہمارا کیا واسطہ!‘‘ افسوس ہے کہ اس تاثر کے پیدا ہونے اور غیرمعمولی حد تک جاپہنچنے میں ہم مسلمانوں کے طرزِعمل کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ خود ہم ہی ہیں کہ جنھوں نے اپنے قول اور عمل سے، محسنِ انسانیتؐ کی نہایت غلط نمایندگی کی ہے۔