موسمِ گرما کی چلچلاتی دھوپ سے بچنے کے لیے میں نے ڈلہوزی کے مقام پر ایک بنگلہ کرایے پر لیا۔ یہ ضلع گورداسپور میں ایک پہاڑی صحت افزا مقام اور جمال پور سے قریب واقع ہے۔ مئی ۱۹۴۷ء کے آغاز میں مَیں عارضی طور پر یہاں منتقل ہوگیا۔
چند ماہ پیش تر حکومت برطانیہ نے وائسراے لارڈ مائونٹ بیٹن [م: ۱۹۷۹ء]کی مشاورت سے مشہور قانون دان سرسائرل ریڈکلف [م: ۱۹۷۷ء]کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ برطانوی ہند کو ہندو اور مسلم آبادی کی ہیئت کے مطابق تقسیم کرنے کی تجویز پیش کرے۔ بالفاظِ دیگر مغرب میں پنجاب اور مشرق میں بنگال کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں پاکستان میں شامل کر دیا جائے اور ہندوئوں کے اکثریتی علاقوں کو ہندستان میں رہنے دیا جائے۔ بنگال میں ایسی تقسیم نسبتاً آسان تھی، لیکن پنجاب میں سائرل ریڈکلف نے علاقے کے تمام فرقہ وارانہ حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے تقسیم کا من مانا فیصلہ مسلط کر دیا۔ یہ علاقہ گورداسپور کے ضلعے میں تھا،جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اگر یہ پورا ضلع پاکستان کو دے دیا جاتا تو ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ہندستان کے تمام زمینی رابطے منقطع ہوجاتے۔ تاہم، جموں و کشمیر کا ہندو حکمران ہری سنگھ، ہندستان سے الحاق کا فیصلہ کرچکا تھا، حالاں کہ یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل تھا، اور ۱۶فی صد ہندو جموں اور صرف ۷فی صد کشمیر میں رہتے تھے۔ اس وقت یہ خبر عام تھی کہ ریڈکلف کو انڈین نیشنل کانگرس نے مہاراجا کی خواہش کے مطابق ایک خطیر رقم بطور رشوت پیش کی تھی۔
ان تمام سازشوں کا ہمیں علم نہیں تھا۔ ڈلہوزی کی مسلمان آبادی اور گرمیوں کے موسم میں یہاں آئے ہوئے سیاحوں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ضلع گورداسپور (جس میں ڈلہوزی شہر واقع تھا) لازماً پاکستان کی حدود میں شامل ہوگا۔ مگر ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ءکی شام کو حتمی تقسیم سے چند گھنٹے پہلے ، ہم یہ دیکھ کر ہکّا بکا رہ گئے کہ پولیس کا ایک ہندو سپرنٹنڈنٹ، ڈلہوزی کی میونسپل بلڈنگ پر ترنگا لہرا رہا ہے۔ یہ دیکھنے کے باوجود ہم میں سے بہتوں کا خیال تھا کہ سپرنٹنڈنٹ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا یومِ آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی یہ کسی ہندو کی محض ذاتی خواہشات کا اظہار ہے۔ بہرحال، ہمیں اس وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ سرسائرل ریڈکلف کتنے بڑے جرم کا مرتکب ہوچکا ہے۔
اسی شام میں حسب معمول اپنے ۱۵سالہ بیٹے طلال کو لے کر ڈلہوزی کی پہاڑیوں پر سیر کو نکلا۔ جب ہم رات گئے واپس آرہے تھے، تو ہم نے اچانک بازار کی جانب سے گولی کی سنسناتی ہوئی آواز سنی اور پھر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ بلاشبہہ یہ فساد شروع ہونے کی علامت تھی۔
یہ بات واضح تھی کہ کوئی مسلمان اس طرح گولیاں نہیں برسا سکتا، کیوںکہ ان میں کسی کے پاس کوئی بندوق وغیرہ نہیں تھی۔ چند روز پہلے یہاں جن لوگوں کے پاس قانونی اسلحہ تھا، ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ: ’’آپ رجسٹریشن تازہ کرانے کے لیے تھانوں میں جمع کرا دیں، ایک دو روز میں یہ اسلحہ آپ کو لوٹا دیا جائے گا‘‘۔ لیکن کم از کم یہاں کے مسلمانوں کو ان کا اسلحہ واپس نہیں کیا گیا۔
مَیں اور طلال ڈلہوزی کے بالائی علاقے کی تاریک او رسنسان گلیوں سے گزرتے ہوئے جلداز جلد اپنے بنگلہ کی طرف جارہے تھے، تاکہ ان بلوائیوں سے محفوظ رہ سکیں کہ اچانک ہماری نظر سڑک کے بیچ میں خون سے لت پت ایک شخص پر پڑی۔ ہم قریب پہنچے اور اسی وقت دو اور آدمی بھی وہاں آگئے، جو کینیڈا سے تعلق رکھتے تھے اور خدمت ِ خلق کی بین الاقوامی تنظیم سے وابستہ تھے۔ ہم سب خون میں لتھڑے ہوئے اس شخص کو دیکھ رہے تھے۔ اسے بڑی بے رحمی سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور وہ گوشت،خون اور ہڈیوں کا ایک ڈھیر سا دکھائی دیتا تھا۔اس کے جسم کے آخری بار غیرمعمولی طور پر پٹھوں کے اکڑنے اور ڈھیلے پڑنے کے منظر پر نظر پڑی اور پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ کینڈین نے بیٹری کی روشنی مقتول کے چہرے پر ڈالی تو مَیں نے اسے فوراً پہچان لیا۔ وہ مسلمان تھا اور موسمِ گرما میں آنے والے سیاح جن گھروں میں ٹھیرتے، وہ ان میں ایک گھر کا باورچی تھا۔ سمجھ میں نہ آیا کہ اس سیدھے سادے، بے ضرر انسان کو کیوں قتل کیا گیا؟
مَیں اپنے بنگلے کی جانب سرپٹ دوڑا ۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ طلال کی والدہ اور ہمارا مخلص کشمیری ملازم بیٹھک میں دبکے اور سہمے سہمے بیٹھے ہیں۔ میں نے بیوی کو اپنے کمرے میں بٹھایا، جب کہ ہم تینوں، یعنی طلال ، ملازم اور میں نے اپنے کمرے میں رات بھر پہرہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پاس سواے ایک پرانی فوجی تلوار کے اور کچھ نہیں تھا، جو یہاں کا کوئی سابقہ رہایشی چھوڑ گیا تھا۔ تلوار کے علاوہ لکڑیاں کاٹنے کی ایک کلہاڑی بھی تھی۔ لیکن ان دستی ہتھیاروں سے بڑھ کر جو خطرے کی بات تھی، وہ اس کمرے کی بیرونی دیوار تھی۔ اس کے بیش تر حصے پر شیشہ لگاہوا تھا۔ قد آدم کھڑکیاں ، برآمدے کی طرف کھلتی تھیں ، ان کے اُوپر سے نیچے تک شیشہ لگا ہوا تھا ، تا کہ سورج کی روشنی اندر آ سکے اور ان پر کوئی پردہ بھی نہیں تھا۔
باہر سے ہمیں کوئی بھی دیکھ سکتا تھا۔ اس لیے تمام روشنیاں بجھاکر ہم سب اندھیرے میں چوکنا بیٹھے رہے۔ گولیوں کی آوازیں قریب سے قریب تر آتی جا رہی تھیں اور ان کے ساتھ ہذیانی چیخیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ کسی وقت بھی حملے کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا، تا ہم کسی نے ہم پر حملہ نہیں کیا۔ گولیوں کی آوازیں اور چیخیں بھی آہستہ آہستہ کم ہو گئیں۔
صبح ہوئی تو ہم بے خوابی اور رات بھر ذہنی تنائو میں مبتلا رہنے کے باعث تھک کر چُور ہوچکے تھے۔ ہمیں کچھ کھانے کا ہوش تک نہیں رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص دوڑتا ہوا ہمارے گھر آیا۔ یہ میرے ایک لاہوری دوست کا گھریلو ملازم تھااور وہ ہمارے پڑوس ہی میں رہتا تھا۔ وہ ایک ضروری پیغام لے کر آیا کہ ہم اپنا ضروری سامان باندھ کر اس کے مالک کے گھر چلے آئیں۔ یہ ڈلہوزی کا سب سے بڑا گھر تھا، جہاں بہت سے مسلمان گھرانے اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے جمع ہو چکے تھے۔
چنانچہ ہم نے فوراً اس پیغام پر عمل شروع کر دیا۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکا ، سامان سوٹ کیسوں میں بند کیا اور ویران گلیوں سے ہوتے ہوئے اپنے دوست کے گھر پہنچے، جو مردوں ، عورتوں اور بچوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ گھر میں کھانے پینے کی جو چیزیں میسر تھیں، عورتوں نے ان سے جلدی جلدی ناشتہ تیار کیا۔ مگر یہ سب کے لیے ناکافی تھا، لیکن فاقہ زدہ انسان کے لیے ایک نوالہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔
ہمارے میزبان رحیم اللہ نے تھانے فون کرنے کی کوشش کی، لیکن اُدھر سے کوئی اٹھا نہیں رہا تھا، شاید تاریں کاٹ دی گئی تھیں۔ کسی نے کہا: ’’یہ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کی کارستانی ہے‘‘۔ یہ ہندو انتہا پسندوں کا ایک متعصب گروہ تھا، جنھوں نے ہر قیمت پر ’بھارت ماتا‘ کی تقسیم کو روکنے کی دھمکی دے رکھی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ تقسیم ہند سے پہلے بھی انھوں نے لاہور اور امر تسر کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔ اس بہیمانہ عمل میں ان کے ساتھ یہاں کے سکھوں نے پورا پورا تعاون کیا تھا اور وہ اب پھر کرپانوں سے مسلمانوں کا خون بہانے میں مشغول تھے۔ اسی طرح جہاں ممکن ہوا جوابی طور پر مسلمانوں نے بھی ہندوئوں اور سکھوں کو قتل کرنا شروع کر دیا اور پھر مغربی اور مشرقی پنجاب کے سرحدی علاقے تباہی اور موت کے خونیں بادلوں کے نیچے چھپ گئے۔
رحیم اللہ کے گھر میں جو ہتھیار تھے ، وہ پناہ لینے والوں نے اٹھا لیے ، لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔ صرف دو پستولیں تھی، ایک چھوٹی خود کار اور دوسرا اعشاریہ بائیس فلو برٹ پستول اور اس کے علاوہ ایک پرانی وضع کی بندوق تھی۔وہ ہمارے میزبان کے دادا کی ملکیت تھی اور اس کی رجسٹریشن بھی نہیں کرائی گئی تھی۔ یہ بندوق کار آمد ضرور تھی، لیکن اس کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی۔ صرف پانچ یا چھے کارتوس باقی رہ گئے تھے۔ مجھے شک تھا کہ یہ پرانی بندوق فائرنگ کا دھچکا برداشت کر بھی سکے گی یا ٹریگر دباتے ہی خود پھٹ جائے گی؟ تا ہم، ایک پرانی ضرب المثل کے مطابق ’فقیر انتخاب نہیں کر سکتے‘ مجبوراً اسی پرانی بندوق سے مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔
اس دن کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا، سوائے دور سے بندوق چلنے کی اِکاّ دُکاّ آوازوں اور زیریں ڈلہوزی کے بازار سے گاہے شوروغل کے۔ لیکن جوںہی رات کا اندھیرا چھایا، ہم نے بعض انسانی سایوں کو حرکت کرتے دیکھا، جو باغ کے نیچے ڈھلوان پر جھاڑیوں میں دبے قدموں چلے جارہے تھے۔ کبھی کبھار دبی آواز میں کسی کے رونے کی بھی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ بلاشبہہ ہم چاروں طرف سے محاصرے میں تھے۔
ہم تینوں آتشیں اسلحہ لیے رات کا بیش تر حصہ کھڑکیوں کے قریب بیٹھے رہے۔ رات کے تین بجے میں نے باغ کے نچلے حصے سے ایک اکھڑ اور دبی دبی سی آواز سنی۔ گھر کے قریب بلند پہاڑی سے فوراً بآواز بلند جواب دیا گیا۔ اس خدشے کے باوجود کہ میری بندوق کہیں پھٹ نہ جائے، میں نے نشانہ باندھا اور ٹریگر دبا دیا۔ توپ کے گولے کی طرح ایک دھڑا کے کی آواز گونجی، پھر پُراسرار خاموشی۔ کیا میرا نشانہ ٹھیک ٹھیک لگایا چوک گیا؟ میں نہیں جانتا، لیکن اس کے بعد رات کے بقیہ حصے میں ہمیں نہ کوئی متحرک چیز دکھائی دی اور نہ کوئی آواز سنائی دی۔ جب مجھے یقین ہوگیا کہ محاصرہ اٹھا لیا گیا ہے تو میں نے اپنے ساتھی سے خود کار پستول لیا، اپنے سفید قمیص کے اوپر کوٹ پہنا اور خاموشی سے صحن کا ایک چکر لگانے کے لیے باہر نکلا۔ باہر نہ کوئی حملہ آور نظر آیا، اور نہ اس کی آواز سنائی دی۔
سورج طلوع ہوتے ہی باغ کے نشیبی علاقے سے گرج دار آواز سنائی دی۔ یہ آواز ایک نوجوان برطانوی افسر کی تھی۔ اس نے پوچھا: ’’ کیا سب ٹھیک ٹھاک ہے ؟‘‘ وہ گور کھا سپاہیوں کے ایک فوجی دستے کا افسر تھا۔ یہ فوجی اب جھاڑیوں میں کھڑے نظر آ رہے تھے۔ وہ ہمیں رہا کرانے یہاں آئے تھے اور انھی سے ہمیں پتا چلا کہ رات کے وقت ڈلہوزی کے نچلے علاقے میں اکثر مسلمانوں کو ذبح کر دیا گیا ہے۔
آٹھ یا دس بسیں ہمیں اور ڈلہوزی کے دوسرے مسلمانوں کو لاہور لے جانے کے لیے تیار کھڑی تھیں۔ ہماری جان ومال کی حفاظت کی غرض سے گور کھا سارجنٹ اور اس کے ساتھ چند افراد دو جیپوں پر سوار تھے۔ ہمارا تمام منقولہ سامان کھلے ٹرکوں پر رکھ دیا گیا اور اس کے اوپر ہم سب، یعنی مرد، عورتیں اور بچے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے سمٹے سمٹائے بیٹھے تھے۔ اس طرح یہ قافلہ (convoy) گورکھوں کی دو جیپوں کی نگرانی میں آہستہ آہستہ پہاڑی سڑک کے موڑ کاٹتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ اس سڑک کے دونوں طرف اُونچے نیچے پہاڑی سلسلے اور ڈھلوانوں پر گہری کھائیاں تھیں۔
ہمارا قافلہ چھوٹے بڑے تمام نہری پُلوں (culvert)پر رُک جاتا اور گورکھا سپاہی اس کے گردونواح اور پُل کے نیچے کا بغور جائزہ لیتے۔ ہمارے قافلے کی اگلی بسیں سڑک کا ایک موڑ کاٹ رہی تھیں کہ اچانک دو بڑے بڑے پتھر اُوپر تلے لڑھک کر نیچے آ رہے۔ الحمدللہ، ہم ان کی زد میں نہیں آئے ۔ امرواقعہ ہے کہ ہم پر یہ حملہ گھات لگا کر کیا گیا تھا۔ ہمیں بہت سے لوگ پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے نظر آ رہے تھے، جو ایسے ہی پتھر لڑھکانے کو تیار بیٹھے تھے۔ پھر ایسے ہی مزید پتھر لڑھکتے ہوئے نیچے آنے لگے۔یقینی طور پر گورکھا سپاہیوں کو ہدف بنایا گیا تھا، تاہم ان کا زندہ سلامت رہنا کسی کرشمۂ قدرت سے کم نہیں تھا۔ وہ اپنی طرف آ نے والے پتھر کے اُوپر سے اُچھل گئے اور وہ پتھر ہماری بسوں کی چھتوں کے اُوپر سے ہوتے ہوئے نیچے کھائی میں جاگرے۔ یہ دیکھ کر ہمارے ساتھی گورکھوں کا سر گھوم گیا اور وہ اپنی رائفلوں سے اوپر کھڑے حملہ آوروں پر گولیاں برسانے لگے۔ اس کے بعد پتھر لڑھکانے کا یہ سلسلہ رک گیا اور یہ خطر ناک حملہ ناکام ہو گیا۔ ہمارا قافلہ رواں دواں رہا اور راستے میں کوئی اور حملہ نہیں ہوا۔ سہ پہر کو ہم لاہور پہنچ گئے۔
لاہور میں ہر جانب افراتفری کا عالم تھا۔ لٹے پٹے مسلمان مہاجرین بہت بڑی تعداد میں ہر روز نہیں بلکہ ہر ایک گھنٹے بعد ہندستان سے پہنچ رہے تھے۔ ان میں سے بیش تر مفلوک الحال اور بیماریوں سے نڈھال تھے۔ ا ن میں وہ زخمی لوگ بھی تھے جو ان مسلم کش فسادات کا نشانہ بنے اور زخموں سے کراہتے ہوئے یہاںتک پہنچے تھے۔ ڈاکٹروں ، ہسپتالوں کی نرسوں اور عملہ صفائی کے علاوہ سیکڑوں کارکنوں نے رضا کارانہ طور پر دن رات ان بیماروں کی تیمارداری کی اور جو چل پھر سکتے تھے، ان کے لیے خوراک اور رہایش کا بندوبست کیا۔
مغربی [یعنی پاکستانی]پنجاب کی حکومت ابھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کر پارہی تھی۔ فوج بھی اتنی نہیں تھی کہ وہ نئی سرحدوں کی حفاظت کر سکتی اور پنجاب کی پولیس اور کانسٹیبلری کے کاموں میں ہاتھ بٹا سکتی۔ امن وامان کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ تقسیم ہند سے ذرا پہلے ہندستان کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو (جن کے پاس محکمہ دفاع بھی تھا) نے خاص مقصد کے تحت مسلمان فوجی یونٹوں کو ان علاقوں سے ، جنھیں پاکستان کا حصہ بننا تھا ، تبدیل کر کے جنوبی ہند کے صوبہ مدراس اور ریاست ٹراونکور بھجوا دیا تھا۔ اس لیے اب پاکستان میں فوجیوں کی تعداد محض ایک ہزار کے قریب رہ گئی تھی ۔ مزید یہ کہ مہاجرین کے جتھے دونوں جگہوں سے آ جا رہے تھے، اور سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں بھی کم پڑ گئی تھیں۔ ہندستان سے آنے والے تھکے ہارے اور پریشان حال مسلمان کئی کئی میل پیدل چل کر پہنچ رہے تھے۔
میں نے لاہور پہنچ کر چودھری نیاز علی خاں [۲۸ جون ۱۸۸۰ء- ۲۴فروری ۱۹۷۶ء] اور ان کے خاندان کا پتا لگانے کی بہت کوشش کی۔ آخری بار میں نے انھیں ڈلہوزی جاتے ہوئے جمال پور میں دیکھا تھا۔ ان کی خیریت کے بارے میں سخت مضطرب تھا۔ میری تمام تر پوچھ کچھ بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ تاہم، میرا دل گواہی دیتا تھا کہ وہ ابھی جمال پور میں گھرے ہوئے ہیں اور یہ علاقہ اب مشرقی [یعنی بھارتی]پنجاب کا حصہ بن چکا ہے۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ ان کے وسیع رقبے میں دیگر مسلمان بھی رہتے تھے۔ حیدر آباد دکن کے نوجوان عالم دین مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی [۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء- ۲۳ستمبر ۱۹۷۹ء]اور ان کے ساتھی بھی وہیں تھے، جنھوں نے تحریک احیاے دین کے فروغ کے لیے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی۔ میں نے سوچا کہ اگر انھیں پاکستان نہیں لایا گیا تو وہ یقینا فسادات کی نذر ہو جائیں گے۔
اسی نوعیت کے خدشات کے ساتھ میں ایک ایسے شخص سے ملنے گیا، جو لاہور کی بے ہنگم ٹریفک کے نظام کو سنبھالنے کا مدار المہام تھا۔ میری طرح وہ شخص بھی علامہ محمداقبال [۱۸۷۷ء- ۱۹۳۸ء] کے بے تکلف احباب میں شامل تھا اور مجھ سے ان صاحب کے گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ ان کا نام خواجہ عبدالرحیم [م:۵نومبر ۱۹۷۴ء]تھا۔ مجھے وہ ایک سرکاری دفتر میں مل گئے، جہاں پر مشتعل لوگوں کے ہجوم میں وہ بُری طرح گھرے پھنسے بیٹھے تھے۔ وہ لوگ ان سے کاریا بس یا بیل گاڑی مہیا کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ خواجہ عبدالرحیم ان کے مطالبات کو پورا کرنے کا یقین دلا رہے تھے۔
اس بے قابو ہجوم کی دھکم پیل میں سے گزرتے ہوئے خواجہ عبدالرحیم کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا اور دوسروں کو چپ کراتے ہوئے میں نے انھیں چند بسیں اور فوجی حفاطتی دستہ مہیا کرنے کی درخواست کی، تا کہ جمال پور میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بچایا جا سکے۔ میری طرح خواجہ عبدالرحیم بھی ان اصحاب کو اچھی طرح جانتے پہچانتے تھے۔ تاہم، انھوں نے مایوسی بھرے لہجے میں گرجتے ہوئے جواب دیا: ’’ اگر میرے پاس کوئی ٹرانسپورٹ نہ ہو تو میں آپ کو کہاں سے دے سکتا ہوں؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ میں کسی کی بھی مدد کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔
میں نے اصرار کیا: ’’مجھے ہر صورت میں یہ مطلوبہ چیزیں چاہییں۔ میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جائوں گا ، جب تک میری ضرورت پوری نہیں ہوتی ‘‘۔
ہم میں یہ تو تکار جاری رہی۔ دونوں اِدھر اُدھر چلتے رہے، میز پر مکّے مارتے رہے اور تلخی میں ایک دوسرے کو بُرا بھلا بھی کہتے رہے۔ اس سے پہلے کہ ہم دست بہ گریباں ہوتے، اچانک خواجہ عبدالرحیم بولے: ’’ تھوڑی دیر انتظار کرو، میں کچھ انتظام کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے ٹیلی فون اٹھایا اور کسی سے بات کی۔ خدا کا شکر ہے کہ میں کامیاب رہا۔ مجھے میونسپل کمیٹی کی بسیں لے جانے کا تحریری حکم نامہ مل گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ سہ پہر تک حفاظتی دستے کا بھی انتظام ہو جا ئے گا۔ اگلے روز صبح سویرے میں جمال پور روانہ ہو گیا۔ میرے ہمراہ تین بسیں اور چار مسلح پنجابی فوجی بھی تھے، جو اعلیٰ پیشہ ورانہ مقام رکھتے ہیں، میری بچائو مہم میں آگے بڑھ رہے تھے۔
اب ایک دفعہ پھر میں دشمنوں کے علاقے میں داخل ہورہا تھا۔ گورداس پور کے نزدیک سرحدی چوکی پر ہمیں دوسری طرف جاتے وقت کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ کچھ ہی دیر پہلے پاکستان اور ہندستان کے متعلقہ افسران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تھا، جس کے تحت مہاجرین ایک دوسرے کے ملک میں بغیر روک ٹوک آ جا سکتے تھے۔لیکن، اس کے باوجود ہندستان کے سرحدی محافظ دستے ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتے رہے۔ انھیں یقین دلا دیا گیا تھا کہ ہمارے محافظ فوجی دستے کے قانونی اسلحے کے علاوہ ہمارے پاس کسی قسم کا ممنوعہ اسلحہ نہیں ہے۔
جب ہم چودھری نیاز علی خاں کے علاقے جما ل پور میں پہنچے، تو ہم نے دیکھا کہ کم از کم ایک ہزار مسلمان مردوں ، عورتوں اور بچوں نے ان کے قلعہ نما صحن میں پڑائو ڈال رکھا تھا۔ جو اپنا سب کچھ لٹا کر گردونواح کے دیہات سے یہاں پر یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ اللہ کا کوئی بندہ انھیں پاکستان لے جائے گا۔ میں جو تین بسیں ساتھ لایا تھا ، وہ اتنی بڑی تعداد کے لیے ناکافی تھیں، لیکن میں نے ان کے ترجمان سے وعدہ کیا کہ لاہور پہنچتے ہی میں ان کی محفوظ نقل مکانی کا انتظام کردوں گا۔بعد میں یہ تمام لوگ پاکستانی فوجی دستے کے ساتھ بحفاظت لاہور پہنچ گئے تھے ۔
مجھے یہ جان کر گہرا اطمینان اور خوشی ہوئی کہ چودھری نیاز علی خاں ، ان کے خاندانی افراد اور ان کے رفیق سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مع اپنے ساتھیوں کے، ان خوں ریز ہنگاموں سے محفوظ رہے۔ میری تین بسوں میں انھیں لے جانے کے لیے جگہ بن سکتی تھی، بشرطیکہ وہ صرف اپنا ضروری سامان ساتھ لے جائیں۔ بعض افراد تو بسوں کی چھت پر بھی بیٹھنے کو تیار تھے ۔ میں نے روانگی سے قبل واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ وہ اپنے پاس کوئی اسلحہ نہیں رکھیں گے کیوںکہ ہندستان کا سرحدی عملہ بسوں کے کونے کونے کی تلاشی لیتا تھا۔
سورج ڈھلنے سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہم نے اپنی لاہور واپسی کا سفر شروع کیا۔ یہ تینوں بسیں آدمیوں اور ان کے سامان سے اوپر تک لدی پھندی تھیں۔ ہر بس کی چھت پر بھی خاصی تعداد میں لوگ بیٹھے تھے۔ میں اگلی بس میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا اور ہمارے محافظ سپاہی مہاجرین ہی میں سمٹے سمٹائے بیٹھے تھے۔ سرحد عبور کرنے سے ذرا پہلے ایک شخص نے ہمیں روکا۔ وہ سڑک کے بیچ میں کھڑااشاروں سے کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سفیدداڑھی والا یہ ایک بوڑھا سکھ اپنا بازو اوپر اٹھائے بآواز بلند ہمیں رکنے کے لیے منت سماجت کر رہا تھا۔
میرے ساتھ بیٹھے ڈرائیور نے کہا: ’’ نہیں ،ہمیں رکنا نہیں چاہیے۔ ممکن ہے یہ شخص اچانک حملہ کرنے کے لیے گھات میں بیٹھا ہو‘‘۔ لیکن میں نے کچھ اندازہ لگالیا کہ اس کا خدشہ درست نہیں، کیوںکہ اس بوڑھے سکھ کے ارادے خطرناک دکھائی نہیں دیتے تھے اور یہ اندازہ درست تھا۔
جوں ہی تین بسوں پر مشتمل ہمارا یہ قافلہ رکا، تو وہ بوڑھا قریب آیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا: ’’سنو، میرے گھر میں ایک مسلمان خاندان چھپا بیٹھا ہے‘‘۔ اور پھر اس نے ہمیں ذرا تفصیل بتائی کہ ’’وہ مسلمان اسی گائوں کے رہنے والے تھے اور تقسیم سے ایک روز قبل مار دھاڑ اور قتل وغارت گری شروع ہوئی تو وہ اپنی جانیں بچانے میرے ہاں آ گئے۔ میں نے انھیں اپنے گھر میں پناہ دی اور میرے چاروں بیٹے گھر کے سامنے تلوار یں سونتے پہرہ دیتے رہے، لیکن اب ہمارے لیے انھیں زیادہ دیر تک محفوظ رکھنا ممکن نہیں ، کیونکہ اس گائوں کے دوسرے سکھ غصّے سے بے قابو ہوتے جارہے ہیں کہ میںنے دشمنوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔ ان کے ارادوں کو بھانپ کر میں نے اس مسلمان خاندان کو اپنے گنے کے کھیت میں چھپا رکھا ہے۔ ترس کیجیے اور انھیں اپنے ساتھ لے جائیے۔ میرے لیے انھیں مزید چھپائے رکھنا ممکن نہیں رہا ہے ‘‘۔
ڈرائیور نے پس وپیش کرتے ہوئے کہا: ’’ہم انھیں کیسے لے جا سکتے ہیں ؟ تمام بسیں تو پہلے ہی چھتوں تک بھری پڑی ہیں‘‘۔ لیکن میں نے اس کے احتجاج کی پروا نہ کرتے ہوئے عمررسیدہ نیک خصلت سکھ سے اس مسلمان خاندان کو لانے کے لیے کہا۔ چند منٹوں بعد وہ سب لوگ پہنچ گئے۔ تین آدمیوں کے علاوہ ایک عورت کے ہمراہ، جس نے ایک بچے کو اٹھا یا ہوا تھا۔ وہ اس قدر خوف زدہ تھے کہ ان سے بولا بھی نہیں جاتا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ ہماری تین بسوں میں ان کے لیے کیسے جگہ بنائی گئی۔ میں نے اس نیک دل بوڑھے سکھ کا شکریہ ادا کیا اور اس کے لیے دیر تک دعا کرتا رہا۔ اس کے بعد ہم پھر ہم اپنی منزلِ مقصود کی جانب چل پڑے۔
ہندستان کی سرحدی چوکی پر پہنچتے ہی مولانا مودودی کے ایک رفیق کا رنے مجھے اعتماد میں لیتے ہوئے یہ ایک چونکا دینے والی اطلاع دی کہ منع کرنے کے باوجود بعض ساتھی (راستے میں ممکنہ حملوں سے نبٹنے کے لیے) ایک دو چھوٹی بندوقیں قالین میں چھپا کر لے آئے ہیں اور یہ قالین ایک بس میں منوں سامان کے نیچے دبی پڑی ہے‘‘۔
یہ سن کر مَیں سخت پریشان ہوگیا۔ اگر تلاشی لی گئی اور یہ اسلحہ مل گیا تو یہ سار ی دوڑ دھوپ بیکار ہو جائے گی۔ اس صورت میں سرحدی گارڈ ہم سب کو روک لیں گے اور مہاجرین کو پاکستان جانے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ اس وقت ہم سرحدی چوکی کے بالکل سامنے کھڑے تھے، اس لیے بندوقوں کو کہیں باہر بھی نہیں پھینک سکتے تھے۔
مجھے سخت گھبراہٹ ہو رہی تھی کہ اسی دوران اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا ۔ میں نے سر پر دھوپ سے بچنے والا ہیٹ مضبوطی سے جمایا اور ہندستانی چوکی کے سامنے پڑی ہوئی میز کی جانب تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا چلنے لگا۔ میرا چہرہ مہرہ، سر اور داڑھی کے بالوں کا رنگ ایسا تھا کہ کسی کو میرے یورپین نہ ہونے کا شک نہیں ہو سکتا تھا۔
میں ہندستانی سپاہیوں سے خوش اخلاقی سے ملا اور بڑے نرم لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے انھیں اپنے بارے میں انجمن ہلا ل احمر (ریڈکراس سوسائٹی) سوئٹر ز لینڈ کے نمایندے کا تاثر دیا۔ جس پر کسی بھی ہندستانی نے مجھ سے میرے شناختی کاغذات کا مطالبہ نہیں کیا۔ میں نے پھوٹ پڑنے والے انسانیت سوز مظالم پر غم وغصّے کا اظہار کیا، لٹے پٹے زاروقطار روتے ہوئے مہاجرین کی شکایات کا بھی ذکر کیا اور ان کے ظالمانہ طرزِ سلوک کی سرزنش بھی کی۔
ہندستانی سارجنٹ اور اس کے ساتھیوں نے جوابی طور پر ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے چائے کی دعوت دی۔ ہم کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ میں نے شدید بے چینی کی حالت میں جلدی جلدی چائے پی لی تو انھوں نے فوراً مجھے دوسراکپ پیش کر دیا۔ اس مشق میں کسی نے بسوں کی تلاشی کے بارے میں سوچا تک نہیں، اور تھوڑی دیر بعد مجھے سرحد پار کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور چند منٹوں میں سرحد پار کرکے پاکستان کی سرحد میں داخل ہو گئے اور ہندستان ہمارے بہت پیچھے رہ گیا۔ یوں میری زندگی کا ایک باب ختم ہوا، لیکن بڑی تلخ یادوں کے ساتھ۔
اسی دوران میں مجھے پتا چلا کہ لُوٹ مار کرنے والے سکھوں نے جمال پور میں میرے کتب خانے کو تباہ وبرباد کر دیا۔ میری تمام عربی کتب (جنھیں غالباً لوٹ مار کرنے والوں نے ’ناپاک ‘ سمجھا ہو )، اور صحیح بخاری کے مسودات (تقریباً دو تہائی حصہ ابھی غیر مطبوعہ تھا) اس احمقانہ غم وغصے اور غارت گری کا شکار ہو گئے، یوں میری برسوں کی محنت ضائع ہو گئی۔
لاہور واپس آنے کے چند روز بعد میں دریائے راوی کے کنارے کنارے چہل قدمی کر رہا تھا۔ مون سون کی بارشیں ختم ہو چکی تھیں، لیکن اس کی لہروں میں تلاطم موجود تھا۔ ہرطرح کا کاٹھ کباڑ بھارت کی جانب سے پانی میں بہتا چلاآرہا تھا۔ درختوں کی ٹوٹی شاخیں ، لکڑی کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑے، کپڑوں کے چیتھڑے اور کاغذات ۔ مجھے خیال آیا کہ اگر کسی بہتے ہوئے کوڑے کرکٹ میں مسودے کا کوئی حصہ محفوظ رہ گیا ہو تو اس کے ہلکے نیلے رنگ سے پہچان لوں گا، کیوںکہ میں لکھتے ہوئے ایسا ہی کاغذ استعمال کرتا تھا۔ چنانچہ اسی دوران میں ہلکے نیلے رنگ کے بہت سے بکھرے ہوئے کاغذ نظر آئے ، جو دریاے راوی کی سطح آب پر تیزی سے بہتے چلے جا رہے تھے۔
لاہور اس سے پہلے اتنے انتشار اور بدنظمی کا کبھی شکار نہیں ہوا تھا۔ کچھ لوگ خوشیاں منارہے تھے، جب کہ بیش تر خوف ناک اندیشوںمیں مبتلا تھے۔ خوشی، خوف اور لالچ حیران کن حد تک آپس میں گڈمڈ ہوگئے تھے۔ ان دنوں پاکستان کے پاس کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی۔ بلوچ رجمنٹ کی ایک بٹالین اور آٹھویں پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی کے علاوہ باقی تمام مسلمان فوجی ابھی تک جنوبی ہند میں پھنسے ہوئے تھے۔
ایک روز ہمیں مشرقی پنجاب [ہندستان] کے سرحدی شہر فیروزپور سے ریلوے اسٹیشن ماسٹر کا ٹیلی فون موصول ہوا کہ: ’’مقررہ پروگرام سےہٹ کر ابھی ابھی مسلمان مہاجر عورتوں کی ایک گاڑی روانہ ہوئی ہے اور چند گھنٹوں بعد قصور کی سرحد پر پہنچ جائے گی‘‘۔ میں نے جلدی جلدی بسوں کا انتظام کیا اور رضاکاروں کو ساتھ لے کر قصور کی طرف روانہ ہوگیا۔
قصور پہنچ کر اپنے انتہائی مخلص اور پرانے دوست مولانا عبداللہ قصوری [م:۱۹۴۹ء]اور ان کے بیٹے محمدعلی قصوری [م: ۱۹۵۶ء] کو لے کر ریلوے اسٹیشن پر پہنچا۔ ایک گھنٹے بعد وہ گاڑی بھی پہنچ گئی۔ اس میں ہرعمر کی کم از کم دو سو عورتیں تھیں اور یہ دیکھ کر ہم سب کے اوسان خطا ہوگئے کہ یہ تمام عورتیں مادرزاد برہنہ تھیں۔ وہ سب مسلمان خواتین ہی تھیں جو زیادہ تر خود کو سر سے پائوں تک برقعہ میں چھپائے رکھتی تھیں۔ کچھ خواتین برقعہ نہیں اوڑھتی تھیں ، لیکن انھوں نے شرم و حیا اور ضبط ِ نفس کے نسوانی ماحول میں پرورش پائی تھی، اور اب انھیں گاڑی سے اسی برہنہ حالت میں نیچے اُتارا جارہا تھا، جس طرح کہ ولادت کے وقت انسان ہوتا ہے۔ ریل گاڑی کے ان ڈبوں میں نوجوان، ادھیڑعمر، عمر رسیدہ عورتیں اور نابالغ لڑکیوں کی لاشیں بھی بھری پڑی تھیں۔
ہمارے پاس ان کا تن ڈھانپنے کے لیے اتنی تعداد میں کمبل بھی نہیں تھے۔ رضاکاروں نے اپنے قمیص اور کوٹ اُتار کر ہندوئوں کی درندگی اور وحشی پن کا نشانہ بننے والی سسکیاں بھرتی ہوئی ان عورتوں کی برہنگی کو چھپانے کی کوشش کی، لیکن ان کپڑوں کی تعداد بھی اتنی نہیں تھی کہ تمام عورتوں کے تن ڈھانپ سکتے۔ مجبوراً ہم نے ان مصیبت زدہ عورتوں کو ممکن حد تک جلدی سے لاہور کے ہسپتالوں اور عارضی پناہ گاہوں میں پہنچایا۔
یہ میری زندگی کے انتہائی کربناک تجربات میں سے ایک تھا۔
(کتاب: Home - coming of the Heart)