اکتوبر ۱۹۴۷ء کی صبح کو نواب افتخار حسین ممدوٹ نے مجھے اپنے دفتر بلایا۔ اس وقت ان کی عمر ۴۵سال کے لگ بھگ تھی۔ درازقد، صحت مند، خاموش طبع اور صاف ستھرے ذہن کے مالک اور تقسیمِ ہند سے قبل وہ ایک چھوٹی سی ریاست یا بالفاظ دیگر جاگیر کے کرتا دھرتا تھے۔ یہ جاگیر سترھویں صدی عیسوی میں [ان کے آبا کو] ایک مغل حکمران نے دی تھی۔ نواب صاحب تحریکِ پاکستان کے اکابرین میں شامل رہے اور اپنی ذاتی دولت کا بڑا حصہ اس تحریک کی نذر کر دیا۔ یہ جاگیر مشرقی پنجاب میں واقع تھی، چنانچہ تقسیم کے وقت اسے ہندستان ہی میں چھوڑ آئے اور لاہور آکر یہاں ایک متوسط درجے کے گھر میں سکونت پذیر ہوگئے۔ ان کی وفاداری اور راست بازی کے پیش نظر محمدعلی جناح نے پاکستان کے قائم ہوتے ہی انھیں مغربی پنجاب کا پہلا وزیراعلیٰ مقرر کردیا۔ اس بنا پر انھیں قائداعظم کے قریب ترین رفقا میں شمار کیا جانے لگا۔
جونہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا، ممدوٹ صاحب رسمی تکلفات کی پروا کیے بغیر کہنے لگے: ’’اسد صاحب، میرے خیال میں اب ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اُٹھانے چاہییں۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کیا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟ کیا ہمیں وزیراعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟‘‘
کئی روز سے مجھے ایسے سوال کاانتظار تھا، چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا:’’ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا، اس لیے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیے۔ میری رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے، جو ان نظریاتی مسائل کو زیربحث لاسکے، جن کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خدا نے چاہا تو آیندہ حکومتِ کراچی بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم اِدھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں‘‘۔
نواب صاحب فوری قوتِ فیصلہ کی صلاحیت کے مالک تھے، چنانچہ انھوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا: ’’آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہیے؟‘‘
میں نے جواباً عرض کیا: ’’اس کا نام ’محکمہ احیائے ملّت اسلامیہ‘ مناسب رہے گا، کیونکہ اس سے ہمارے مقصد کی بھرپور ترجمانی ہوگی، یعنی صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی معاشرتی زندگی اور فکر کی تعمیرنو‘‘۔ ممدوٹ صاحب نے بلاتوقف کہا: ’’بالکل درست، ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اس کے اخراجات کا ایک تخمینہ تیار کیجیے۔ آپ کو سرکاری طور پر اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبۂ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی۔ مجھے اُمید ہے، آپ اسے قبول کرلیں گے‘‘۔
مجھے امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی فیصلہ ہوجائے گا، لیکن نواب آف ممدوٹ کے فیصلوں کا یہی انداز تھا۔ چند دنوں کے اندر اندر اس ادارے کا رسمی میمورنڈم تیار ہوگیا۔ اس کے اخراجات کے تخمینے پر بحث ہوئی۔ شعبۂ مالیات کے سربراہ کے صلاح مشورے سے یہ منظور ہوگیا، اور سرکاری اطلاع نامہ بھی جاری کر دیا گیا۔ یوں دیکھتے دیکھتے محکمہ احیائے ملّت اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا۔ پوری اسلامی دنیا میں یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا ادارہ تھا۔
میں نے لاہور کے بعض معروف علمائے دین بالخصوص مولانا داؤد غزنوی امیرجماعت اہلِ حدیث سے رابطہ قائم کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ایسے دو اصحاب کے نام بتائیں جو ادارے میں کام کرسکیں، عربی اچھی جانتے ہوں اور میری آیندہ کی تجاویز کو عملی شکل دینے میں جن ضروری حوالوں کی ضرورت پڑے، انھیں احادیث کے ضخیم مجموعوں میں سے تلاش کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ جلد ہی ایسے دو نوجوان اور باصلاحیت علما دستیاب ہوگئے اور انھیں یہ کام تفویض کردیا گیا۔ علاوہ ازیں مجھے پنجاب یونی ورسٹی کے ایک پُرجوش طالب علم کی جزوقتی خدمات بھی حاصل ہوگئیں۔ دفتر کے دیگر انتظامی اور مالیاتی امور کو بحسن و خوبی نبٹانے کے لیے مجھے اپنے قریبی دوست ممتاز حسن کا تعاون حاصل تھا، جو مغربی پنجاب کے شعبہ مالیات کے ایک اہم عہدے پر فائز تھے اور بعد میں اس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔
اب میں باقاعدہ طور پر سرکاری ملازم تھا، اس لیے مجھے دو رویہ درختوں کے ایک خوب صورت علاقے چمبہ ہاؤس میں بلاکرایہ گھر بھی مل گیا (یہ لین مہاراجا آف چمبہ کے نام سے موسوم تھی۔ یہ ریاست کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع تھی اور تقسیم ہند سے پہلے مہاراجا کا یہاں محل تھا)۔ اس گھر کے اردگرد چاروں طرف چھوٹا سا باغ تھا۔ یہ ایک تجارت پیشہ ہندو کی ملکیت تھا، جو ہندستان نقل مکانی کر گیا تھا۔ ممکن ہے،وہاں اسے کسی ایسے مسلمان کا گھر مل گیا ہو، جو اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پاکستان آگیا ہو۔ نظربندی کیمپ سے میری رہائی کے بعد میرا بیٹا طلال کیتھولک اسکول میں بطور اقامتی طالب علم زیرتعلیم تھا۔ یہ لاہور کا اعلیٰ ترین ادارہ تھا جس کو آئرلینڈ کے ڈومینیکن چلا رہے تھے۔ اب میں اپنی بیوی کے ساتھ لاہور ہی میں مستقلاً رہایش پذیر تھا،اس لیے طلال اس گھر میں منتقل ہوگیا اور یہیں سے ہر روز اسکول جانے لگا۔ اب میرے لیے یہ نئی صورت حال خاصی اطمینان بخش تھی۔
۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء کی صبح کو میں دفتر جانے کے لیے بذریعہ کار گھر سے نکل ہی رہا تھا (میں نے ایک متروکہ کار اپنے نام الاٹ کرا لی تھی) کہ اپنے ہمسائے اور دوست سرسکندر حیات خاں کے بھتیجے سردار شوکت حیات خاں سے میری ملاقات ہوگئی۔ وہ اس وقت خاصے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ انھوںنے بتایا: ’’میں نے ابھی ریڈیو پر یہ خبر سنی ہے کہ گاندھی کو قتل کردیا گیا ہے۔ خدا کاشکر ہے کہ قاتل کوئی مسلمان نہیں ہے‘‘ ___ میں اس کی پریشانی میں برابر کا شریک تھا۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ اگر قتل کرنے والا مسلمان ہوتا، تو ہندستانی حکومت اپنی مسلمان رعایا کے ساتھ کیا سلوک کرتی۔ بہرحال چند گھنٹوں بعد آل انڈیا ریڈیو نے واضح بیان جاری کردیا کہ گاندھی کا قاتل راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ کا رکن ہے۔ یہ انھی متعصب ہندوؤں کی جماعت تھی، جس نے ڈلہوزی کے مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا تھا۔
محکمہ احیائے ملّت اسلامیہ کا کام آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ ہم زکوٰۃ اور عشر کے اہم موضوع پر پورے انہماک سے تحقیق کر رہے تھے، کیونکہ کسی بھی اسلامی مملکت میں شرعی اعتبار سے محصولیات کی بنیاد انھی دو پر ہے۔ ابھی تلاش و تحقیق کا یہ مرحلہ طے ہو رہا تھا کہ ممدوٹ صاحب نے دوبارہ اپنے دفتر بلایا۔ میرے داخل ہوتے ہی وہ حسب معمول کسی تکلف کے بغیر گویا ہوئے: ’’میں نے ابھی ابھی آپ کا مضمون ’اسلامی دستورسازی کی جانب‘ پڑھا ہے، جو عرفات کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔ آپ انھی خطوط پر قدرے شرح و بسط کے ساتھ ایک میمورنڈم تیار کیجیے۔ میں اسے مغربی پنجاب کی حکومت کی جانب سے شائع کراؤں گا اور اس کو دیکھ کر ممکن ہے، مرکزی حکومت بھی اس جانب متوجہ ہو‘‘۔ چنانچہ ۱۹۴۸ء میں میرا یہی انگریزی مضمون مع اُردو ترجمہ مغربی پنجاب کی حکومت کی زیرنگرانی طبع ہوا۔ کچھ ہفتوں بعد وزیراعظم کی جانب سے مجھے کراچی آنے کا پیغام موصول ہوا۔
لیاقت علی خاں سے یہ میری پہلی ملاقات نہیں تھی۔ میں قیامِ پاکستان سے قبل ان سے گاہے گاہے ملتا رہتا تھا۔ ان سے جب بھی گفتگو کا موقع ملتا، وہ کھلے ذہن اور پوری توجہ سے میری باتیں سنتے اور ساتھ ساتھ متواتر سگریٹ نوشی کرتے رہتے (میں نے جب بھی انھیں دیکھا، انھوں نے اسٹیٹ ایکسپریس کے ۵۰ سگریٹوں کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑا ہوتا یا ان کے میز پر پڑا رہتا)۔ اس ملاقات میں بھی وہ سگریٹ سے سگریٹ سلگائے جا رہے تھے۔ انھوں نے مجھے بھی سگریٹ پیش کیا، چائے منگوائی اور مجھے اسلامی دستور پر قدرے تفصیل سے لکھنے کا مشورہ دیا۔ ہماری ابتدائی دو ملاقاتوں میں بھی وہ اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے گفتگو کرتے تھے۔ انھوں نے سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’لیکن ہم ابھی اس موقع پر خود دستورسازی کا عمل شروع نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ کشمیر پر ہندستان نے قبضہ کرلیا ہے اور ہمارے پٹھان بھائیوں کی سری نگر پر قبضہ کرنے کی کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ یہ بھی امرمسلّمہ ہے کہ فوجی اعتبار سے ہندستان ہم سے بہت مضبوط ہے۔ ہم تو ابھی حکومتی مشینری کے کل پرزے درست کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے لیے وقت اور سعی پیہم کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ساتھ سارے کام شروع نہیں کرسکتے۔ میں مانتا ہوں کہ دستور سازی کا عمل اہم اور دور رس نتائج کا حامل ہے، لیکن اسے بھی فی الحال مؤخر کرنا پڑے گا‘‘۔
میں وزیراعظم کی اس گفتگو سے متاثر ہوا، کیونکہ انھوں نے بلاتکلف حکومت کو درپیش تمام مسائل پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ میں جانتا تھا کہ میری طرح وہ بھی پاکستان کے اسلامی تشخص کو اُجاگر کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن ابھی حالاتِ حاضرہ کے دباؤ کے تحت اِدھر توجہ دینے سے گریز کرر ہے تھے۔ میں نے ان کے مؤقف سے اتفاق کیا اور رخصت ہوتے وقت انھوں نے مجھے کہا: ’’فی الحال ہمیں خود کو اس مسئلے پر سوچ بچار کرتے رہنا چاہیے‘‘۔
اس کے بعد کابینہ کے سیکرٹری چودھری محمدعلی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور مجھے اندازہ ہوا کہ حکومت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی استحکام کا ہے۔ انھوں نے بتایا: ’’قائداعظم نے امیرترین مسلمان حکمران نظام حیدرآباد دکن سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان کو سونے چاندی کی شکل میں چند لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ اُدھار دیں اور انھیں اپنے نام پر ہی بنک میں جمع کرا دیں، تاکہ پاکستانی کرنسی کو تحفظ مل سکے۔ لیکن نظام، دولت کے انبار کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے قائداعظم کی درخواست کو رد کر دیا ہے‘‘۔ چند ماہ بعد ہی ہندستان نے حیدرآباد ریاست کی خودمختار حیثیت ختم کر کے اسے اپنے ملک کا حصہ بنا لیا اور نظام کے سونے چاندی کے تمام ذخیرے بھی ہندوستانی حکومت کے تصرف میں چلے گئے۔ نظام کے ساتھ ساتھ خود ان کی آل اولاد اور پاکستان بھی ہمیشہ کے لیے ان خزانوں سے محروم ہوگئے۔
جب میں چودھری محمدعلی سے گفتگو کر رہا تھا، معاً مجھے نظام کے ذاتی خزانوں کی یاد آگئی۔ ۱۹۳۹ء میں، مَیں دوسری بار حیدرآباد گیا تھا اور اس وقت ریاست کے وزیرمالیات نے مجھے اس خزانے کا صرف ایک حصہ دکھایا تھا۔ متعدد کمروں میں قطار اندر قطار صندوق رکھے تھے اور یہ سب سونے اور قیمتی پتھروں سے بھرے پڑے تھے۔ ہیرے جواہرات سے بھرے لوہے کے تھال فرش پر رکھے تھے۔ مال و دولت کا ایک ناقابلِ یقین اور مُردہ ڈھیر، جو ایک فانی شخص کی مریضانہ اور عجیب وغریب حرص کا نمونہ تھا۔
لیاقت علی خاں نے اپنی گفتگو میں آزادیِ کشمیر کی جس جدوجہد کا ذکر کیا تھا، وہ ہمیشہ میری اور ہرپاکستانی کی سوچ پر غالب رہی ہے۔ اس کی جغرافیائی، نسلی اور مذہبی وضع قطع کے باعث اس حسین و جمیل سرزمین کو لازماً پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ تمام بڑے دریا (سندھ، جہلم، چناب اور راوی) مغربی پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں اور یہاں کی معیشت کا انحصار مکمل طور پر انھی دریاؤں پر ہے۔ ہندستانی حکومت اور مہاراجا کے مابین اقرارنامہ کی وجہ سے ریڈکلف نے صریحاً دھوکے بازی سے مسلمانوں کی اکثریت کا ضلع گورداسپور ہندستان کے حوالے کر دیا۔ ریڈکلف کی یہ ’خصوصی نوازش‘ تقسیم ہند کے طے شدہ بنیادی اصول کی خلاف ورزی تھی اور اسے کوئی پاکستانی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت پاکستان اپنی کٹی پھٹی فوج کے سبب ہندستان سے جنگ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا، اس لیے قائداعظم نے کسی فوجی مداخلت کے امکان کو بالکل رد کر دیا۔ حکومت پاکستان کی اس واضح پالیسی کے بعد صوبہ سرحد اور افغانستان کے ملحقہ علاقوں کے پٹھانوں کے قبائل پاکستان کے نام پر کشمیر کو فتح کرنے چل پڑے۔
اکتوبر ۱۹۴۷ء میں محسود، وزیری اور آفریدی قبیلوں کے بڑے بڑے جتھوں نے کشمیر کی سرحد عبور کرکے بارہ مولا اور مظفرآباد پر بلامقابلہ قبضہ کرلیا۔ سری نگر کے اردگرد جو فوج تعینات تھی، اس میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ انھوں نے بھی بغاوت کردی اور پٹھان بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنے کو تیار ہوگئے۔ قبائلیوں کی پیش قدمی جاری تھی اور سری نگر تک پہنچنا انھیں آسان دکھائی دے رہا تھا، لیکن اس دوران میں ایک تکلیف دہ واقعہ رُوپذیر ہوگیا۔ یہ قبائل اپنی صدیوںپرانی غارت گری کی جبلت پر قابو نہ پاسکے اور سری نگر کی جانب قدم بڑھانے کے بجائے انھوں نے مظفرآباد کے شہریوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ دو دن تک لوٹ مار کا یہ بازار گرم رہا۔ یہ بڑا نازک وقت تھا، جسے ان قبائلیوںنے ضائع کر دیا۔ چنانچہ اسی عرصے میں ماؤنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کی ملی بھگت سے جوابی حملے کے انتظامات مکمل کرلیے گئے۔ نئی دہلی میں برطانوی فوج کے تعاون سے ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل فوجی دستوں کو جلدی جلدی منظم کیا گیا۔ انھیں ہتھیار فراہم کیے گئے اور ایک ہلکے توپ خانہ کا بھی انتظام کر دیا گیا، تاکہ وہ سری نگر پر قبضہ کرکے وہاں کے ہوائی اڈے کو بھی اپنے دائرۂ اختیار میں لے آئیں۔ اس طرح فوجی اور غیرفوجی جہازوں کے ذریعے ہندستانی فوج کی خاصی بڑی تعداد کو سری نگر پہنچا دیا گیا، جہاں سے وہ ریاست کشمیر کے دوسرے حصوں پر بھی اپنا تسلط جما لیں۔ آہستہ آہستہ پٹھانوں کو نکال باہر کیا گیا اور پھر ان کا جذبۂ جہاد مدہم پڑتے پڑتے ختم ہوگیا۔
تاہم، کشمیر کی جنگ ختم نہیں ہوئی۔ اسی اثنا میں نئے قبائلی مجاہد اور ناگزیر طور پر پاکستانی فوج کے دستے بھی اس جنگ میں شامل ہوگئے۔ ہندستان نے وادیِ کشمیر پر قبضہ جمائے رکھا اور سرحد کے ساتھ ساتھ دُور تک پناہ گاہیں اور خندقیں بنالیں۔ آج تک ہندستان، کشمیر کے اس حصے پر قابض ہے، جو گلگت سے لداخ اور کارگل کے برفانی پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ بالآخر [بھارت] مسئلہ کشمیر کو مجلس اقوام متحدہ میں لے گیا، جہاں استصواب رائے کی قرارداد منظور کی گئی، جو اس علاقے کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔ حکومت ہندستان نے اس قرارداد کو بڑی بے دلی سے قبول کیا، کیونکہ یہ کھلی ہوئی حقیقت تھی کہ اس قرارداد پر عمل درآمد کا نتیجہ پاکستان کی فتح کی صورت میں نکلے گا۔ چنانچہ ہندستان حیلے بہانے سے بار بار اس مسئلے کو ملتوی کرتا رہا۔ اب یہی مسئلہ کشمیر، پاکستان اور ہندستان کے اچھے ہمسایہ ممالک جیسے تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے سپاہی خندقوں میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
ستمبر ۱۹۴۸ء میں مون سون کی بارشیں رُکتے ہی میں نے کشمیر محاذ پر جانے کا فیصلہ کرلیا۔
مغربی پنجاب کے فوجی افسران نے مجھے ایک جیپ اور دو سپاہی بطور محافظ مہیا کردیے اور میں کوہِ ہمالیہ کی جانب روانہ ہوگیا۔ مری کے بعد سڑک تنگ اور ڈھلوانی ہوتی گئی۔ کہیں کہیں اسے تھوڑا سا چوڑا کیاگیا تھا،تاکہ وہاں سے مقابل سمتوں سے آنے والی دو گاڑیاں گزر سکیں۔ اس سڑک پر ہندستان کے جنگی جہازاچانک یلغار کرتے اور مشین گنوں سے گولیاں بھی برساتے چلے جاتے تھے، اس لیے ہم رات کو روشنی کے بغیر سفر کرتے تھے۔ ہماری رفتار سُست تھی۔ پہاڑ اور ڈھلوان کے درمیان سرکتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے اور کبھی کبھی چند لمحات کے لیے جیپ کی بڑی بتیاں جلا لیتے تھے۔
ہم مظفرآباد کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے سورج طلوع ہونے سے پہلے بلندوبالا برف پوش چوٹیوں میں واقع پہلی فوجی چوکی تک پہنچ گئے۔ وہاں سے ہم پیدل چلتے ہوئے فوج کے ایک سپاہی کی رہنمائی میں اُونچی نیچی ڈھلوانوں سے گزرتے ہوئے خاصی بلندی پر آگئے۔ یہاں ایک چرواہے کی پرانی سی جھونپڑی تھی، جو اب فوجیوں کو اسلحہ بھجوانے کے لیے بطور ڈاک چوکی استعمال کی جارہی تھی اور محاذ پر لڑتے ہوئے جو فوجی زخمی ہوجاتے تھے، انھیں ابتدائی طبی امداد بھی یہیں فراہم کی جاتی تھی۔
یہ جھونپڑی پتھروں سے بنائی گئی تھی۔ اس کی چھت پتھریلے ٹکڑوں اور درختوں کی ٹہنیوں سے تیار کی گئی تھی اور یہ چٹان کی دو عمودی دیواروں کے درمیان شگاف میں واقع تھی۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو یہ جھونپڑی سپاہیوں سے بھری پڑی تھی۔ کچھ ابھی اگلے محاذ کے مورچوں سے واپس آئے تھے اور کچھ وہاں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ نچلی چھت کے وسط میں پیرافن کا ایک لیمپ لٹک رہا تھا اور اس کی مدھم سی روشنی کئی چارپائیوں پر پڑ رہی تھی۔ چارپائی مخصوص پاکستانی بستر ہے، جو لکڑی اور انترچھال کی رسیوں سے بنایا جاتا ہے۔ ان چارپائیوں پر زخمی سپاہی آرام کررہے تھے۔ کمپنی کا طبی عملہ یہاں ان کا عارضی علاج معالجہ کر رہا تھا اور جونہی گاڑی پہنچتی، انھیں نیچے وادی میں قائم کردہ ہسپتال پہنچا دیا جاتا۔
یہاں دو آدمیوں نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ ساتھ ساتھ پڑی ہوئی دو چارپائیوں پر لیٹے تھے۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ شدید زخمی تھے اور ان کے بچنے کی اُمید بہت کم تھی۔ اس کے باوجود وہ ہشاش بشاش اور ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ میرے جیسے کمزور دل شخص کے لیے یہ عجیب و غریب منظر تھا۔ ان میں ایک کہنے لگا: ’’یار! میں تمھیں بہت جلد دوزخ میں ملوں گا‘‘۔ اور دوسرے نے جواب دیا: ’’نہیں، ہم دوزخ میں نہیں جائیں گے۔ اگر ہم مرگئے تو یہ شہید کی موت ہوگی، کیونکہ ہم نے اللہ کی راہ میں جان قربان کی ہے‘‘۔ اسی لمحے سیکٹر کمانڈر کا بھیجا ہوا ایک ماتحت افسر آیا اور ہمیں مورچوں کی طرف لے گیا۔
میری سمجھ سے باہر ہے کہ کس طرح برف سے ڈھکی زمین پر دستی بیلچوں سے یہ مورچے بنائے گئے۔ یہ اتنے گہرے تھے کہ میرے جیسا درازقد شخص سر اور کندھوں کو جھکائے بغیر بآسانی ان میں چل پھر سکتا تھا۔ وہاں جگہ جگہ جال کے نیچے مشین گنیں نصب تھیں، جن کے بیرل عمودی پوزیشن میں تھے اور وہ اس لیے کہ دشمن کے جہاز نچلی پرواز کرتے ہوئے جو حملے کرتے تھے، اُن سے اِن مورچوں کو محفوظ کیا جائے۔ اس وقت یہاں بالکل خاموشی تھی، البتہ فوجی جوان تیار کھڑے تھے۔ بیش تر سپاہی آرام سے بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے یا سگریٹ نوشی کر رہے تھے، جب کہ کچھ اپنی بندوقوں کی نالیاں صاف کرنے میں مصروف تھے یا کارتوس لگانے والی پیٹیوں کی مرمت کر رہے تھے۔ اس سیکٹر کے تمام فوجی پنجابی تھے اور ان کا تعلق جہلم اور راولپنڈی سے تھا۔ یہ اعلیٰ قسم کے انسان ہیں۔ درازقد، دبلے پتلے، بعض چہرے مہرے یونانی دکھائی دیتے ہیں۔ فوراً مجھے یاد آیا کہ سکندراعظم اور اس کے وارثوں کی کئی نسلیں پنجاب کے اسی علاقے میں مستقلاً اقامت پذیر رہیں۔ ممکن ہے یہ لوگ انھی سے نسلی تعلق رکھتے ہوں۔
میں تقریباً ایک گھنٹہ سیکٹر کمانڈر سے گفتگو کرتا رہا۔ وہ ایک نوجوان میجر تھا۔ میں نے اس کے ساتھ چائے پی۔ وہ اور اس کے فوجی ساتھی مجھ جیسے ایک ایسے مہمان سے مل کر بہت خوش ہوئے جو ان کے بلند حوصلوں کا معترف تھا اور ان کے اس جذبے کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا، جس کے تحت وہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کر رہے تھے۔ میں نے انھیں مغربی پنجاب کے وزیراعلیٰ [افتخار حسین ممدوٹ] اور ان کے توسط سے پاکستانی لیڈروں کی نیک خواہشات پہنچائیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں بلکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ دنیا میں پنجابی فوجیوں کا کوئی ثانی نہیں اور وہ اپنے فوجی اوصاف جن سے وہ خود کماحقہٗ آگاہ نہیں، کی اس قدر افزائی کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔ میں پہلی بار ان اگلے مورچوں تک آیا تھا اور یہاں کے ماحول نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے خود سے یہاں دوبارہ آنے کا وعدہ کرلیا۔
اب مجھے صحیح تاریخ کا تو علم نہیں، لیکن غالباً دسمبر ۱۹۴۸ء یا ۱۹۴۹ء کے اوائل میں مجھے غیرمتوقع طور پر یہاں آنے کی دعوت موصول ہوئی۔ایک روز لاہور کے سب سے بڑے کتب فروش کی دکان میں نئی مطبوعات کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا کہ میری نظر میجر جنرل حمید پر پڑی۔ وہ بھی میری طرح ایسی کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ لاہور کی بیش تر نام وَر شخصیات کی طرح میں انھیں بھی جانتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے (اس وقت ان کی عمر ۴۰سے کچھ زیادہ تھی)، لیکن وہ کشمیر کے محاذ پر ایک اہم عہدے پر فائز تھے۔ میں نے انھیں پوچھا کہ وہ لاہور میں کیا کر رہے ہیں؟ تو انھوں نے بتایا: ’’محاذجنگ کی گھن گرج سے دُور چند روز کے لیے تعطیلات گزارنے یہاں آیا ہوں اور کل صبح واپس جا رہا ہوں‘‘۔ انھوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی جو میرے لیے خاصی پُرکشش تھی، لیکن میں اتنی جلدی اپنے محکمہ احیائے ملّت اسلامیہ کے کاموں کو یک لخت چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔ میں نے جواباً عرض کیا: ’’ابھی نہیں، لیکن ہفتے عشرے میں ایسا ممکن ہے‘‘۔
جنرل حمید کہنے لگے: ’’ٹھیک ہے اگلے ہفتے ضرور آجایئے۔ میں روانگی سے قبل جہلم سے محاذِ کشمیر تک آپ کے لیے گاڑی اور حفاظتی دستے کا انتظام کروں گا۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کی آمد کے وقت میں کہاں ہوں گا۔ میں سیکٹر کمانڈروں میں کسی ایک کے نام آپ کو خط دے دوں گا اور وہ آپ کو ہرطرح کی سہولت مہیا کر دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اسے پسند کریں گے‘‘۔
ایک ہفتے بعد میں جیپ میں سوار جہلم سے مشرق کی جانب جا رہا تھا، اور ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا تھا۔ وہ پنجاب کی آٹھویں رجمنٹ میں دفع دار تھا۔ دوسرا فوجی پیچھے جیپ کے فرش پر تختوں پر مشین گن جمائے بیٹھا تھا۔ اس سفر کے دوران ہمارا رُخ پہاڑوں کی جانب نہیں تھا۔ ہماری سڑک آہستہ آہستہ دل کش مناظر سے گزرتی ہوئی کشمیر کے صوبہ پونچھ تک جاتی تھی، اور موصولہ اطلاعات کے مطابق وہاں تقریباً ایک لاکھ ہندستانی فوجی قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔
پنجاب اور کشمیر کی برائے نام سرحد عبور کرتے ہی ہم پاکستانی فوج کے پڑاؤ پر جاپہنچے۔ یہاں سیکڑوں خیمے نصب تھے اور پیدل فوج کی خاصی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ یہ لشکرگاہ صوبہ پونچھ ہی کا حصہ تھی اور بھاری مشین گنیں اور چھوٹی توپیں اس کی حفاظت کے لیے لگائی گئی تھیں۔ بظاہر ہندستانی فوج کوئی بڑا حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، اسی لیے یہاں کا عمومی ماحول قدرے پُرسکون تھا۔ کیمپ میں فوجیوں اور اسلحہ کی نقل و حرکت میں ڈسپلن کی کمی کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ یہاں میں نے پٹھان اسکاؤٹوں کے کچھ گروہ بھی دیکھے، جو اپنی پوشاک، یعنی ڈھیلی شلوارکُرتہ اور پگڑی سے بالکل الگ تھلگ نظر آتے تھے۔ سینوں پر کارتوسوں سے بھری ہوئی چمڑے کی پیٹیاں، کندھوں پر لٹکتی ہوئی بندوقیں اور کمربند میں خنجر۔ ان ہتھیاروں سے لیس جان کی پروا نہ کرنے والے یہ جنگجو، اب حقیقی فوجی ضابطوں کے آہستہ آہستہ پابند ہوتے جا رہے تھے (درحقیقت اس وقت پاکستان کے سرحدی محافظ یہی قبائل پٹھان تھے، جنھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں کے دوران میں انتہائی مؤثر کردارادا کیا)۔
مجھے سیدھے سیکٹر کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل یعقوب خاں کے خیمے میں لے جایا گیا۔ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے۔ غالباً اس وقت ان کی عمر ۳۵سال ہوگی۔ انھوں نے میرا پُرتپاک طریقے سے استقبال کرتے ہوئے کہا: ’’آپ میرے خیمے ہی میں رہیں گے۔ مجھے امید ہے آپ یہاں خوش رہیں گے‘‘۔ یعقوب خاں ہندستان کی امیرترین اور انتہائی اہم شمال مغربی مسلم ریاست رام پور (جو اَب ہندستان میں ضم ہوچکی ہے) کے موروثی وزیراعظم کے فرزند ہیں۔ وہ بڑے مہذب، دل کش اور خوش مزاج شخص ہیں، اس لیے ہم جلد ہی ایک دوسرے سے بے تکلف ہوگئے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ برسوں گزر جانے اور فاصلوں کے باوجود ابھی تک ہماری دوستی میں فرق نہیں آیا۔ کئی سال بعد وہ جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ پھر وہ سفیرپاکستان کی حیثیت سے واشنگٹن میں تعینات ہوئے اور بالآخر صدر ضیاء الحق نے انھیں حکومت ِ پاکستان کے وزیرخارجہ کا قلم دان سونپا۔
لیفٹیننٹ کرنل یعقوب خاں نے بتایا: ’’میجر جنرل حمید آپ سے فوری ملنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو میں آپ کو کل صبح سویرے ان کے ہیڈکوارٹر روانہ کردوں گا‘‘۔ میں نے ان کی تجویز سے اتفاق کیا، کیونکہ اس طرح میں یہاں کے محاذ کی صورت حال کا بھی سرسری جائزہ لے لوں گا۔
رات کا کھانا سادہ، لذیذ اور پُرتکلف تھا۔ دیر تک سگریٹ نوشی اور چائے کے دور چلتے رہے۔ اس کے بعد میں سونے چلاگیا۔ اگلے روز علی الصبح میں تیار ہوگیا۔ سیکڑوں فوجیوں کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی۔ یعقوب خاں کے ساتھ ڈبل روٹی، نمکین پنیر اور چائے کا ناشتہ کیااور ان سے عارضی رخصت لے کر اسی جیپ پر اور انھی محافظوں کے ساتھ ہیڈکوارٹر کی جانب روانہ ہوگئے۔
ایک گھنٹہ بعد وہاں پہنچے۔ اس وقت میجر جنرل حمید اپنے افسروں سمیت صوبہ پونچھ کے ایک بڑے نقشے کا جائزہ لے رہے تھے۔ میں نے ان کی محویت دیکھ کر ذرا پیچھے ہٹنا چاہا تو انھوں نے مجھے روکتے ہوئے کہا: ’’نہیں، آپ مت جایئے، آپ سے ہماری کوئی رازداری نہیں۔ درحقیقت آج میں آپ کو کچھ اور رازوں سے مطلع کروں گا‘‘۔
اس کے بعد میجر جنرل حمید صاحب نے مجھے اپنی جیپ میں بٹھا لیا اور ہم پونچھ اور ہندستان سے ملحقہ سرحدی علاقے کی طرف چل پڑے۔ کچھ دیر ہماری جیپ شمال کی طرف چلتی رہی۔ چند کلومیٹر کے بعد مغرب کی جانب مڑ گئی اور پھر بڑے سے نصف دائرے میں ذیلی سڑکوں سے ہوتی ہوئی، دوبارہ بڑی سڑک پر آگئی۔ پونچھ کا شہر پیچھے رہ گیا۔ اب نظروں سے بھی اوجھل ہوچکا تھا۔ شاید اس نصف دائرے کے درمیان میں کہیں تھا۔ سڑک پر آمدورفت کم تھی۔ اِدھر اُدھر فوجی ٹولیوں میں سڑک کے کنارے بیٹھے وقت گزار رہے تھے۔ ایک بار مخالف سمت سے آتی ہوئی ایک فوجی گاڑی ہمارے پاس سے گزری۔ دائیں جانب دُور فاصلے پر میں نے ایک گھنا جنگل دیکھا، لیکن وہاں بھی کوئی چلتا پھرتا نظر نہیں آتا تھا۔
یہاں سے آگے بڑھے تو میجر جنرل صاحب نے میری طرف منہ پھیرا اور پوچھا: ’’کیا آپ نے اس جنگل میں کوئی دل چسپ چیز دیکھی؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’کچھ خاص نہیں، صرف درخت ہی تو ہیں‘‘۔
میجر جنرل حمید مسکرائے: ’’آپ کو دیکھنا چاہیے تھا۔ اس چھوٹے سے جنگل میں پاکستان کے توپ خانے کا نصف حصہ چھپا بیٹھا ہے۔ جو سڑک پونچھ اور اس سے آگے جاتی ہے، وہ مکمل طور پر ہماری زد میں ہے اور جب ہم کل حملہ کریں گے، پونچھ میں مقیم ہندستانی فوجوں کا دونوں اطراف سے رابطہ منقطع ہوجائے گا۔ چونکہ ہمارا توپ خانہ ان سے بدرجہا بہتر ہے، اس لیے وہ مزاحمت نہیں کرسکیں گے۔ وقت کی کمی کے باعث انھیں کمک بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ ہم نے اب اپنے تمام فوجی دستوں کو یہاں تعینات کر دیا ہے۔ ان حالات میں ہندستانی فوج ہتھیار ڈال دے گی یا تہس نہس ہوجائے گی۔ اس کے بعد ہم سری نگر کی طرف پیش قدمی کریں گے، ان شاء اللہ۔ ہمارے لیے اب یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘۔
میجر جنرل حمید کی اس پُرامید گفتگو میں کوئی مبالغہ بھی نہیں تھا۔ جوں ہی ہم واپس ہیڈکوارٹر پہنچے، انھیں ایک شدید دھچکا محسوس ہوا۔ اسی شام افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف کے توسط سے انھیں وزیراعظم لیاقت علی خاں کا بذریعہ تار ایک خفیہ پیغام موصول ہوا:
’’اگلے روز حملے کا پروگرام منسوخ کردیا جائے‘‘۔
کئی ہفتوں بعد مجھے اصل صورت حال کا علم ہوا۔ ہندستان کی اعلیٰ فوجی کمان کو جونہی پاکستانی فوج کے اس متوقع حملے کا پتا چلا، اس نے فوراً اپنے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو تمام صورتِ حال اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کردیا۔ پنڈت صاحب نے اسی وقت برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ اٹیلی سے فون پر رابطہ قائم کیا اور ان پر زور دیا: ’’پاکستان کو ہرقیمت پر اس حملے سے روکنا ہوگا، کیونکہ اتنے مختصر وقت میں ہندستان کے لیے بذریعہ جہاز پونچھ کمک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔ اگر انھیں پاکستانی افواج سے ہزیمت اُٹھانا پڑی تو وہ احتجاجاً دولت مشترکہ کی رکنیت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے (کہیں اور کا اشارہ اشتراکی روس کی جانب تھا)۔ اگر پاکستان کو اپنا حملہ منسوخ کرنے پر آمادہ کرلیا جائے اور ضلع پونچھ ہندستان ہی کا حصہ رہے تو وہ، یعنی پنڈت صاحب اگلے سال کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دے دیںگے‘‘۔
تمام رات نئی دہلی اور لندن کے درمیان ٹیلی فون کی تاریں بجتی رہیں۔ وزیراعظم اٹیلی کو ہندستان جیسا بڑا ملک ہاتھ سے نکلتا دکھائی دینے لگا۔ اس نے فوراً لارڈ ماؤنٹ بیٹن (جو ۱۹۴۸ء کے آخر میں ہندستان کے گورنر جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوکر اب انگلستان میں اپنی گذشتہ کامیابیوں پر شاداں و فرحاں زندگی گزار رہے تھے) سے مشورہ کیا اور کہا کہ برصغیر کے امورمختلفہ کے تجربہ کار ماہر کی حیثیت سے وہ نہرو کی تشویش دُور کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ چند گھنٹوں بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان کے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خاں کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ پنڈت صاحب نے کشمیری عوام کو حق رائے دہی کا یقین دلایا ہے اور برطانوی وزیراعظم اٹیلی نے بھی اس حملے کی منسوخی کے لیے ذاتی طور پر درخواست کی ہے۔ اس وقت وزیراعظم لیاقت علی خاں سوئے تھے۔ ظفراللہ نے انھیں جگاکر یہ پیغام پہنچایا اور انھیں اٹیلی کی معروضات پر خصوصی توجہ دینے کی استدعا کی۔
اثر و رسوخ کے ان الجھیڑوں میں وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں نے جو کردار ادا کیا، اس کی تفہیم کے لیے ان کی مخصوص وفاداریوں کا مختصراً تذکرہ ضروری ہے۔ وہ جماعت احمدیہ کے سرگرم رکن تھے۔ تمام مسلمان اس جماعت کو دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ اس جماعت کے بانی قادیان کے مرزا غلام احمد تھے، جو پہلے پہل ایک عالمِ دین کی حیثیت سے مشہور تھے، لیکن بعد میں ان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا: وہ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ یہ ایسا دعویٰ ہے جس کو ہندستان کے تمام مسلمانوں نے چاہے وہ سُنّی ہیں یا شیعہ، قطعی طور پر مسترد کردیا۔ نصِ قرآنی سے یہ بالکل واضح ہے کہ حضور اکرمؐ خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی پیغمبر کرئہ ارض پر مبعوث نہیں ہوا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اسلام کے بنیادی عقیدے کی نفی ہے، اس لیے وہ اور ان کے پیروکار اسلام کی حدود سے باہر ہیں۔ ہندستان کے برطانوی حکمران، تحریکِ احمدیت کو بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے، کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ برسرِاقتدار اسلامی یا غیراسلامی حکومت کی اطاعت اور فرماں برداری کی سخت تاکید کررکھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ برطانوی حکومت کے مقتدر اصحاب، جماعت احمدیہ کے اراکین کی ہرطرح سے حمایت کرتے تھے۔ سر ظفراللہ خاں بھی ایک بااثر شخص تھے اور غلام احمد قادیانی سے گہری عقیدت رکھتے تھے، اس لیے وہ تمام عمر انگریزوں سے زیادہ برطانیہ کے خدمت گزار رہے۔
سرظفراللہ خاں باصلاحیت وزیرخارجہ تھے۔ مزید یہ کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے بارے میں نہرو کے وعدہ پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ جس مسئلے نے عرصۂ دراز تک پاکستان کی توانائیوں کو ضائع کردیا ہے، اس کا کوئی مستقل اور پائے دار حل تلاش کیا جاناچاہیے۔ یہی سوچ کر انھوں نے پاکستانی افواج کو پونچھ سے ہٹاکر بین الاقوامی سرحد پر بھجوانے کا حکم دے دیا۔ لیکن یہ خطرہ ٹلتے ہی بھارتی وزیراعظم نہرو فوری استصواب رائے کرانے کے وعدے سے منحرف ہوگیا اور یہ مسئلہ کشمیر غیرمعینہ عرصہ کے لیے معرض التوا میں ڈال دیا گیا۔
یہ اتنا بڑا قومی المیہ تھا کہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی تھی۔ پونچھ میں ہندستانی افواج نے خود کو مضبوط کرلیا، جب کہ پاکستان نے ایک نادر موقع کھو دیا، جو قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار آتا ہے۔
وزیراعظم لیاقت علی خاں کا حکم نامہ پونچھ کے گردونواح محاذِ جنگ پر تعینات پاکستانی فوجیوں پہ بم بن کر گرا۔ جب انھیں علم ہوا کہ حملہ منسوخ کردیا گیا ہے، تو وہاں موجود بہت سے افسر اور جوان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ کشمیر کو ہندوؤں کے تسلط سے آزاد کرانے اور اسے پاکستان کا حصہ بنانے کا انھوں نے جو خواب دیکھا تھا، وہ چکنا چُور ہوگیا۔ کوئی سنجیدہ شخص یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہاں مستقبل بعید میں بھی کبھی کشمیریوں کو موعودہ حق رائے دہی مل جائے گا۔
[اس صدمے کے بعد] میجر جنرل حمید نے خود کو ہیڈ کوارٹر میں بند کرلیا۔ پھر کئی مہینے تک ان سے میری ملاقات نہ ہوسکی۔ اس کے بعد وہ فوج سے مستعفی ہوگئے۔ (مآخذ: محمد اسد، بندۂ صحرائی (خود نوشت سوانح عمری)، مرتب: پولااسد، محمداکرام چغتائی، ناشر: دی ٹروتھ سوسائٹی، ۲-اے،۸۱، گلبرگ III، لاہور۔ فون: 0333-9807767)
موسمِ گرما کی چلچلاتی دھوپ سے بچنے کے لیے میں نے ڈلہوزی کے مقام پر ایک بنگلہ کرایے پر لیا۔ یہ ضلع گورداسپور میں ایک پہاڑی صحت افزا مقام اور جمال پور سے قریب واقع ہے۔ مئی ۱۹۴۷ء کے آغاز میں مَیں عارضی طور پر یہاں منتقل ہوگیا۔
چند ماہ پیش تر حکومت برطانیہ نے وائسراے لارڈ مائونٹ بیٹن [م: ۱۹۷۹ء]کی مشاورت سے مشہور قانون دان سرسائرل ریڈکلف [م: ۱۹۷۷ء]کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ برطانوی ہند کو ہندو اور مسلم آبادی کی ہیئت کے مطابق تقسیم کرنے کی تجویز پیش کرے۔ بالفاظِ دیگر مغرب میں پنجاب اور مشرق میں بنگال کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں پاکستان میں شامل کر دیا جائے اور ہندوئوں کے اکثریتی علاقوں کو ہندستان میں رہنے دیا جائے۔ بنگال میں ایسی تقسیم نسبتاً آسان تھی، لیکن پنجاب میں سائرل ریڈکلف نے علاقے کے تمام فرقہ وارانہ حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے تقسیم کا من مانا فیصلہ مسلط کر دیا۔ یہ علاقہ گورداسپور کے ضلعے میں تھا،جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اگر یہ پورا ضلع پاکستان کو دے دیا جاتا تو ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ہندستان کے تمام زمینی رابطے منقطع ہوجاتے۔ تاہم، جموں و کشمیر کا ہندو حکمران ہری سنگھ، ہندستان سے الحاق کا فیصلہ کرچکا تھا، حالاں کہ یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل تھا، اور ۱۶فی صد ہندو جموں اور صرف ۷فی صد کشمیر میں رہتے تھے۔ اس وقت یہ خبر عام تھی کہ ریڈکلف کو انڈین نیشنل کانگرس نے مہاراجا کی خواہش کے مطابق ایک خطیر رقم بطور رشوت پیش کی تھی۔
ان تمام سازشوں کا ہمیں علم نہیں تھا۔ ڈلہوزی کی مسلمان آبادی اور گرمیوں کے موسم میں یہاں آئے ہوئے سیاحوں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ضلع گورداسپور (جس میں ڈلہوزی شہر واقع تھا) لازماً پاکستان کی حدود میں شامل ہوگا۔ مگر ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ءکی شام کو حتمی تقسیم سے چند گھنٹے پہلے ، ہم یہ دیکھ کر ہکّا بکا رہ گئے کہ پولیس کا ایک ہندو سپرنٹنڈنٹ، ڈلہوزی کی میونسپل بلڈنگ پر ترنگا لہرا رہا ہے۔ یہ دیکھنے کے باوجود ہم میں سے بہتوں کا خیال تھا کہ سپرنٹنڈنٹ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا یومِ آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی یہ کسی ہندو کی محض ذاتی خواہشات کا اظہار ہے۔ بہرحال، ہمیں اس وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ سرسائرل ریڈکلف کتنے بڑے جرم کا مرتکب ہوچکا ہے۔
اسی شام میں حسب معمول اپنے ۱۵سالہ بیٹے طلال کو لے کر ڈلہوزی کی پہاڑیوں پر سیر کو نکلا۔ جب ہم رات گئے واپس آرہے تھے، تو ہم نے اچانک بازار کی جانب سے گولی کی سنسناتی ہوئی آواز سنی اور پھر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ بلاشبہہ یہ فساد شروع ہونے کی علامت تھی۔
یہ بات واضح تھی کہ کوئی مسلمان اس طرح گولیاں نہیں برسا سکتا، کیوںکہ ان میں کسی کے پاس کوئی بندوق وغیرہ نہیں تھی۔ چند روز پہلے یہاں جن لوگوں کے پاس قانونی اسلحہ تھا، ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ: ’’آپ رجسٹریشن تازہ کرانے کے لیے تھانوں میں جمع کرا دیں، ایک دو روز میں یہ اسلحہ آپ کو لوٹا دیا جائے گا‘‘۔ لیکن کم از کم یہاں کے مسلمانوں کو ان کا اسلحہ واپس نہیں کیا گیا۔
مَیں اور طلال ڈلہوزی کے بالائی علاقے کی تاریک او رسنسان گلیوں سے گزرتے ہوئے جلداز جلد اپنے بنگلہ کی طرف جارہے تھے، تاکہ ان بلوائیوں سے محفوظ رہ سکیں کہ اچانک ہماری نظر سڑک کے بیچ میں خون سے لت پت ایک شخص پر پڑی۔ ہم قریب پہنچے اور اسی وقت دو اور آدمی بھی وہاں آگئے، جو کینیڈا سے تعلق رکھتے تھے اور خدمت ِ خلق کی بین الاقوامی تنظیم سے وابستہ تھے۔ ہم سب خون میں لتھڑے ہوئے اس شخص کو دیکھ رہے تھے۔ اسے بڑی بے رحمی سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور وہ گوشت،خون اور ہڈیوں کا ایک ڈھیر سا دکھائی دیتا تھا۔اس کے جسم کے آخری بار غیرمعمولی طور پر پٹھوں کے اکڑنے اور ڈھیلے پڑنے کے منظر پر نظر پڑی اور پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ کینڈین نے بیٹری کی روشنی مقتول کے چہرے پر ڈالی تو مَیں نے اسے فوراً پہچان لیا۔ وہ مسلمان تھا اور موسمِ گرما میں آنے والے سیاح جن گھروں میں ٹھیرتے، وہ ان میں ایک گھر کا باورچی تھا۔ سمجھ میں نہ آیا کہ اس سیدھے سادے، بے ضرر انسان کو کیوں قتل کیا گیا؟
مَیں اپنے بنگلے کی جانب سرپٹ دوڑا ۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ طلال کی والدہ اور ہمارا مخلص کشمیری ملازم بیٹھک میں دبکے اور سہمے سہمے بیٹھے ہیں۔ میں نے بیوی کو اپنے کمرے میں بٹھایا، جب کہ ہم تینوں، یعنی طلال ، ملازم اور میں نے اپنے کمرے میں رات بھر پہرہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پاس سواے ایک پرانی فوجی تلوار کے اور کچھ نہیں تھا، جو یہاں کا کوئی سابقہ رہایشی چھوڑ گیا تھا۔ تلوار کے علاوہ لکڑیاں کاٹنے کی ایک کلہاڑی بھی تھی۔ لیکن ان دستی ہتھیاروں سے بڑھ کر جو خطرے کی بات تھی، وہ اس کمرے کی بیرونی دیوار تھی۔ اس کے بیش تر حصے پر شیشہ لگاہوا تھا۔ قد آدم کھڑکیاں ، برآمدے کی طرف کھلتی تھیں ، ان کے اُوپر سے نیچے تک شیشہ لگا ہوا تھا ، تا کہ سورج کی روشنی اندر آ سکے اور ان پر کوئی پردہ بھی نہیں تھا۔
باہر سے ہمیں کوئی بھی دیکھ سکتا تھا۔ اس لیے تمام روشنیاں بجھاکر ہم سب اندھیرے میں چوکنا بیٹھے رہے۔ گولیوں کی آوازیں قریب سے قریب تر آتی جا رہی تھیں اور ان کے ساتھ ہذیانی چیخیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ کسی وقت بھی حملے کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا، تا ہم کسی نے ہم پر حملہ نہیں کیا۔ گولیوں کی آوازیں اور چیخیں بھی آہستہ آہستہ کم ہو گئیں۔
صبح ہوئی تو ہم بے خوابی اور رات بھر ذہنی تنائو میں مبتلا رہنے کے باعث تھک کر چُور ہوچکے تھے۔ ہمیں کچھ کھانے کا ہوش تک نہیں رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص دوڑتا ہوا ہمارے گھر آیا۔ یہ میرے ایک لاہوری دوست کا گھریلو ملازم تھااور وہ ہمارے پڑوس ہی میں رہتا تھا۔ وہ ایک ضروری پیغام لے کر آیا کہ ہم اپنا ضروری سامان باندھ کر اس کے مالک کے گھر چلے آئیں۔ یہ ڈلہوزی کا سب سے بڑا گھر تھا، جہاں بہت سے مسلمان گھرانے اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے جمع ہو چکے تھے۔
چنانچہ ہم نے فوراً اس پیغام پر عمل شروع کر دیا۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکا ، سامان سوٹ کیسوں میں بند کیا اور ویران گلیوں سے ہوتے ہوئے اپنے دوست کے گھر پہنچے، جو مردوں ، عورتوں اور بچوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ گھر میں کھانے پینے کی جو چیزیں میسر تھیں، عورتوں نے ان سے جلدی جلدی ناشتہ تیار کیا۔ مگر یہ سب کے لیے ناکافی تھا، لیکن فاقہ زدہ انسان کے لیے ایک نوالہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔
ہمارے میزبان رحیم اللہ نے تھانے فون کرنے کی کوشش کی، لیکن اُدھر سے کوئی اٹھا نہیں رہا تھا، شاید تاریں کاٹ دی گئی تھیں۔ کسی نے کہا: ’’یہ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کی کارستانی ہے‘‘۔ یہ ہندو انتہا پسندوں کا ایک متعصب گروہ تھا، جنھوں نے ہر قیمت پر ’بھارت ماتا‘ کی تقسیم کو روکنے کی دھمکی دے رکھی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ تقسیم ہند سے پہلے بھی انھوں نے لاہور اور امر تسر کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔ اس بہیمانہ عمل میں ان کے ساتھ یہاں کے سکھوں نے پورا پورا تعاون کیا تھا اور وہ اب پھر کرپانوں سے مسلمانوں کا خون بہانے میں مشغول تھے۔ اسی طرح جہاں ممکن ہوا جوابی طور پر مسلمانوں نے بھی ہندوئوں اور سکھوں کو قتل کرنا شروع کر دیا اور پھر مغربی اور مشرقی پنجاب کے سرحدی علاقے تباہی اور موت کے خونیں بادلوں کے نیچے چھپ گئے۔
رحیم اللہ کے گھر میں جو ہتھیار تھے ، وہ پناہ لینے والوں نے اٹھا لیے ، لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔ صرف دو پستولیں تھی، ایک چھوٹی خود کار اور دوسرا اعشاریہ بائیس فلو برٹ پستول اور اس کے علاوہ ایک پرانی وضع کی بندوق تھی۔وہ ہمارے میزبان کے دادا کی ملکیت تھی اور اس کی رجسٹریشن بھی نہیں کرائی گئی تھی۔ یہ بندوق کار آمد ضرور تھی، لیکن اس کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی۔ صرف پانچ یا چھے کارتوس باقی رہ گئے تھے۔ مجھے شک تھا کہ یہ پرانی بندوق فائرنگ کا دھچکا برداشت کر بھی سکے گی یا ٹریگر دباتے ہی خود پھٹ جائے گی؟ تا ہم، ایک پرانی ضرب المثل کے مطابق ’فقیر انتخاب نہیں کر سکتے‘ مجبوراً اسی پرانی بندوق سے مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔
اس دن کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا، سوائے دور سے بندوق چلنے کی اِکاّ دُکاّ آوازوں اور زیریں ڈلہوزی کے بازار سے گاہے شوروغل کے۔ لیکن جوںہی رات کا اندھیرا چھایا، ہم نے بعض انسانی سایوں کو حرکت کرتے دیکھا، جو باغ کے نیچے ڈھلوان پر جھاڑیوں میں دبے قدموں چلے جارہے تھے۔ کبھی کبھار دبی آواز میں کسی کے رونے کی بھی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ بلاشبہہ ہم چاروں طرف سے محاصرے میں تھے۔
ہم تینوں آتشیں اسلحہ لیے رات کا بیش تر حصہ کھڑکیوں کے قریب بیٹھے رہے۔ رات کے تین بجے میں نے باغ کے نچلے حصے سے ایک اکھڑ اور دبی دبی سی آواز سنی۔ گھر کے قریب بلند پہاڑی سے فوراً بآواز بلند جواب دیا گیا۔ اس خدشے کے باوجود کہ میری بندوق کہیں پھٹ نہ جائے، میں نے نشانہ باندھا اور ٹریگر دبا دیا۔ توپ کے گولے کی طرح ایک دھڑا کے کی آواز گونجی، پھر پُراسرار خاموشی۔ کیا میرا نشانہ ٹھیک ٹھیک لگایا چوک گیا؟ میں نہیں جانتا، لیکن اس کے بعد رات کے بقیہ حصے میں ہمیں نہ کوئی متحرک چیز دکھائی دی اور نہ کوئی آواز سنائی دی۔ جب مجھے یقین ہوگیا کہ محاصرہ اٹھا لیا گیا ہے تو میں نے اپنے ساتھی سے خود کار پستول لیا، اپنے سفید قمیص کے اوپر کوٹ پہنا اور خاموشی سے صحن کا ایک چکر لگانے کے لیے باہر نکلا۔ باہر نہ کوئی حملہ آور نظر آیا، اور نہ اس کی آواز سنائی دی۔
سورج طلوع ہوتے ہی باغ کے نشیبی علاقے سے گرج دار آواز سنائی دی۔ یہ آواز ایک نوجوان برطانوی افسر کی تھی۔ اس نے پوچھا: ’’ کیا سب ٹھیک ٹھاک ہے ؟‘‘ وہ گور کھا سپاہیوں کے ایک فوجی دستے کا افسر تھا۔ یہ فوجی اب جھاڑیوں میں کھڑے نظر آ رہے تھے۔ وہ ہمیں رہا کرانے یہاں آئے تھے اور انھی سے ہمیں پتا چلا کہ رات کے وقت ڈلہوزی کے نچلے علاقے میں اکثر مسلمانوں کو ذبح کر دیا گیا ہے۔
آٹھ یا دس بسیں ہمیں اور ڈلہوزی کے دوسرے مسلمانوں کو لاہور لے جانے کے لیے تیار کھڑی تھیں۔ ہماری جان ومال کی حفاظت کی غرض سے گور کھا سارجنٹ اور اس کے ساتھ چند افراد دو جیپوں پر سوار تھے۔ ہمارا تمام منقولہ سامان کھلے ٹرکوں پر رکھ دیا گیا اور اس کے اوپر ہم سب، یعنی مرد، عورتیں اور بچے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے سمٹے سمٹائے بیٹھے تھے۔ اس طرح یہ قافلہ (convoy) گورکھوں کی دو جیپوں کی نگرانی میں آہستہ آہستہ پہاڑی سڑک کے موڑ کاٹتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ اس سڑک کے دونوں طرف اُونچے نیچے پہاڑی سلسلے اور ڈھلوانوں پر گہری کھائیاں تھیں۔
ہمارا قافلہ چھوٹے بڑے تمام نہری پُلوں (culvert)پر رُک جاتا اور گورکھا سپاہی اس کے گردونواح اور پُل کے نیچے کا بغور جائزہ لیتے۔ ہمارے قافلے کی اگلی بسیں سڑک کا ایک موڑ کاٹ رہی تھیں کہ اچانک دو بڑے بڑے پتھر اُوپر تلے لڑھک کر نیچے آ رہے۔ الحمدللہ، ہم ان کی زد میں نہیں آئے ۔ امرواقعہ ہے کہ ہم پر یہ حملہ گھات لگا کر کیا گیا تھا۔ ہمیں بہت سے لوگ پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے نظر آ رہے تھے، جو ایسے ہی پتھر لڑھکانے کو تیار بیٹھے تھے۔ پھر ایسے ہی مزید پتھر لڑھکتے ہوئے نیچے آنے لگے۔یقینی طور پر گورکھا سپاہیوں کو ہدف بنایا گیا تھا، تاہم ان کا زندہ سلامت رہنا کسی کرشمۂ قدرت سے کم نہیں تھا۔ وہ اپنی طرف آ نے والے پتھر کے اُوپر سے اُچھل گئے اور وہ پتھر ہماری بسوں کی چھتوں کے اُوپر سے ہوتے ہوئے نیچے کھائی میں جاگرے۔ یہ دیکھ کر ہمارے ساتھی گورکھوں کا سر گھوم گیا اور وہ اپنی رائفلوں سے اوپر کھڑے حملہ آوروں پر گولیاں برسانے لگے۔ اس کے بعد پتھر لڑھکانے کا یہ سلسلہ رک گیا اور یہ خطر ناک حملہ ناکام ہو گیا۔ ہمارا قافلہ رواں دواں رہا اور راستے میں کوئی اور حملہ نہیں ہوا۔ سہ پہر کو ہم لاہور پہنچ گئے۔
لاہور میں ہر جانب افراتفری کا عالم تھا۔ لٹے پٹے مسلمان مہاجرین بہت بڑی تعداد میں ہر روز نہیں بلکہ ہر ایک گھنٹے بعد ہندستان سے پہنچ رہے تھے۔ ان میں سے بیش تر مفلوک الحال اور بیماریوں سے نڈھال تھے۔ ا ن میں وہ زخمی لوگ بھی تھے جو ان مسلم کش فسادات کا نشانہ بنے اور زخموں سے کراہتے ہوئے یہاںتک پہنچے تھے۔ ڈاکٹروں ، ہسپتالوں کی نرسوں اور عملہ صفائی کے علاوہ سیکڑوں کارکنوں نے رضا کارانہ طور پر دن رات ان بیماروں کی تیمارداری کی اور جو چل پھر سکتے تھے، ان کے لیے خوراک اور رہایش کا بندوبست کیا۔
مغربی [یعنی پاکستانی]پنجاب کی حکومت ابھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کر پارہی تھی۔ فوج بھی اتنی نہیں تھی کہ وہ نئی سرحدوں کی حفاظت کر سکتی اور پنجاب کی پولیس اور کانسٹیبلری کے کاموں میں ہاتھ بٹا سکتی۔ امن وامان کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ تقسیم ہند سے ذرا پہلے ہندستان کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو (جن کے پاس محکمہ دفاع بھی تھا) نے خاص مقصد کے تحت مسلمان فوجی یونٹوں کو ان علاقوں سے ، جنھیں پاکستان کا حصہ بننا تھا ، تبدیل کر کے جنوبی ہند کے صوبہ مدراس اور ریاست ٹراونکور بھجوا دیا تھا۔ اس لیے اب پاکستان میں فوجیوں کی تعداد محض ایک ہزار کے قریب رہ گئی تھی ۔ مزید یہ کہ مہاجرین کے جتھے دونوں جگہوں سے آ جا رہے تھے، اور سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں بھی کم پڑ گئی تھیں۔ ہندستان سے آنے والے تھکے ہارے اور پریشان حال مسلمان کئی کئی میل پیدل چل کر پہنچ رہے تھے۔
میں نے لاہور پہنچ کر چودھری نیاز علی خاں [۲۸ جون ۱۸۸۰ء- ۲۴فروری ۱۹۷۶ء] اور ان کے خاندان کا پتا لگانے کی بہت کوشش کی۔ آخری بار میں نے انھیں ڈلہوزی جاتے ہوئے جمال پور میں دیکھا تھا۔ ان کی خیریت کے بارے میں سخت مضطرب تھا۔ میری تمام تر پوچھ کچھ بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ تاہم، میرا دل گواہی دیتا تھا کہ وہ ابھی جمال پور میں گھرے ہوئے ہیں اور یہ علاقہ اب مشرقی [یعنی بھارتی]پنجاب کا حصہ بن چکا ہے۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ ان کے وسیع رقبے میں دیگر مسلمان بھی رہتے تھے۔ حیدر آباد دکن کے نوجوان عالم دین مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی [۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء- ۲۳ستمبر ۱۹۷۹ء]اور ان کے ساتھی بھی وہیں تھے، جنھوں نے تحریک احیاے دین کے فروغ کے لیے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی۔ میں نے سوچا کہ اگر انھیں پاکستان نہیں لایا گیا تو وہ یقینا فسادات کی نذر ہو جائیں گے۔
اسی نوعیت کے خدشات کے ساتھ میں ایک ایسے شخص سے ملنے گیا، جو لاہور کی بے ہنگم ٹریفک کے نظام کو سنبھالنے کا مدار المہام تھا۔ میری طرح وہ شخص بھی علامہ محمداقبال [۱۸۷۷ء- ۱۹۳۸ء] کے بے تکلف احباب میں شامل تھا اور مجھ سے ان صاحب کے گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ ان کا نام خواجہ عبدالرحیم [م:۵نومبر ۱۹۷۴ء]تھا۔ مجھے وہ ایک سرکاری دفتر میں مل گئے، جہاں پر مشتعل لوگوں کے ہجوم میں وہ بُری طرح گھرے پھنسے بیٹھے تھے۔ وہ لوگ ان سے کاریا بس یا بیل گاڑی مہیا کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ خواجہ عبدالرحیم ان کے مطالبات کو پورا کرنے کا یقین دلا رہے تھے۔
اس بے قابو ہجوم کی دھکم پیل میں سے گزرتے ہوئے خواجہ عبدالرحیم کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا اور دوسروں کو چپ کراتے ہوئے میں نے انھیں چند بسیں اور فوجی حفاطتی دستہ مہیا کرنے کی درخواست کی، تا کہ جمال پور میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بچایا جا سکے۔ میری طرح خواجہ عبدالرحیم بھی ان اصحاب کو اچھی طرح جانتے پہچانتے تھے۔ تاہم، انھوں نے مایوسی بھرے لہجے میں گرجتے ہوئے جواب دیا: ’’ اگر میرے پاس کوئی ٹرانسپورٹ نہ ہو تو میں آپ کو کہاں سے دے سکتا ہوں؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ میں کسی کی بھی مدد کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔
میں نے اصرار کیا: ’’مجھے ہر صورت میں یہ مطلوبہ چیزیں چاہییں۔ میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جائوں گا ، جب تک میری ضرورت پوری نہیں ہوتی ‘‘۔
ہم میں یہ تو تکار جاری رہی۔ دونوں اِدھر اُدھر چلتے رہے، میز پر مکّے مارتے رہے اور تلخی میں ایک دوسرے کو بُرا بھلا بھی کہتے رہے۔ اس سے پہلے کہ ہم دست بہ گریباں ہوتے، اچانک خواجہ عبدالرحیم بولے: ’’ تھوڑی دیر انتظار کرو، میں کچھ انتظام کرتا ہوں‘‘۔ انھوں نے ٹیلی فون اٹھایا اور کسی سے بات کی۔ خدا کا شکر ہے کہ میں کامیاب رہا۔ مجھے میونسپل کمیٹی کی بسیں لے جانے کا تحریری حکم نامہ مل گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ سہ پہر تک حفاظتی دستے کا بھی انتظام ہو جا ئے گا۔ اگلے روز صبح سویرے میں جمال پور روانہ ہو گیا۔ میرے ہمراہ تین بسیں اور چار مسلح پنجابی فوجی بھی تھے، جو اعلیٰ پیشہ ورانہ مقام رکھتے ہیں، میری بچائو مہم میں آگے بڑھ رہے تھے۔
اب ایک دفعہ پھر میں دشمنوں کے علاقے میں داخل ہورہا تھا۔ گورداس پور کے نزدیک سرحدی چوکی پر ہمیں دوسری طرف جاتے وقت کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ کچھ ہی دیر پہلے پاکستان اور ہندستان کے متعلقہ افسران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تھا، جس کے تحت مہاجرین ایک دوسرے کے ملک میں بغیر روک ٹوک آ جا سکتے تھے۔لیکن، اس کے باوجود ہندستان کے سرحدی محافظ دستے ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتے رہے۔ انھیں یقین دلا دیا گیا تھا کہ ہمارے محافظ فوجی دستے کے قانونی اسلحے کے علاوہ ہمارے پاس کسی قسم کا ممنوعہ اسلحہ نہیں ہے۔
جب ہم چودھری نیاز علی خاں کے علاقے جما ل پور میں پہنچے، تو ہم نے دیکھا کہ کم از کم ایک ہزار مسلمان مردوں ، عورتوں اور بچوں نے ان کے قلعہ نما صحن میں پڑائو ڈال رکھا تھا۔ جو اپنا سب کچھ لٹا کر گردونواح کے دیہات سے یہاں پر یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ اللہ کا کوئی بندہ انھیں پاکستان لے جائے گا۔ میں جو تین بسیں ساتھ لایا تھا ، وہ اتنی بڑی تعداد کے لیے ناکافی تھیں، لیکن میں نے ان کے ترجمان سے وعدہ کیا کہ لاہور پہنچتے ہی میں ان کی محفوظ نقل مکانی کا انتظام کردوں گا۔بعد میں یہ تمام لوگ پاکستانی فوجی دستے کے ساتھ بحفاظت لاہور پہنچ گئے تھے ۔
مجھے یہ جان کر گہرا اطمینان اور خوشی ہوئی کہ چودھری نیاز علی خاں ، ان کے خاندانی افراد اور ان کے رفیق سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مع اپنے ساتھیوں کے، ان خوں ریز ہنگاموں سے محفوظ رہے۔ میری تین بسوں میں انھیں لے جانے کے لیے جگہ بن سکتی تھی، بشرطیکہ وہ صرف اپنا ضروری سامان ساتھ لے جائیں۔ بعض افراد تو بسوں کی چھت پر بھی بیٹھنے کو تیار تھے ۔ میں نے روانگی سے قبل واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ وہ اپنے پاس کوئی اسلحہ نہیں رکھیں گے کیوںکہ ہندستان کا سرحدی عملہ بسوں کے کونے کونے کی تلاشی لیتا تھا۔
سورج ڈھلنے سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہم نے اپنی لاہور واپسی کا سفر شروع کیا۔ یہ تینوں بسیں آدمیوں اور ان کے سامان سے اوپر تک لدی پھندی تھیں۔ ہر بس کی چھت پر بھی خاصی تعداد میں لوگ بیٹھے تھے۔ میں اگلی بس میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا اور ہمارے محافظ سپاہی مہاجرین ہی میں سمٹے سمٹائے بیٹھے تھے۔ سرحد عبور کرنے سے ذرا پہلے ایک شخص نے ہمیں روکا۔ وہ سڑک کے بیچ میں کھڑااشاروں سے کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سفیدداڑھی والا یہ ایک بوڑھا سکھ اپنا بازو اوپر اٹھائے بآواز بلند ہمیں رکنے کے لیے منت سماجت کر رہا تھا۔
میرے ساتھ بیٹھے ڈرائیور نے کہا: ’’ نہیں ،ہمیں رکنا نہیں چاہیے۔ ممکن ہے یہ شخص اچانک حملہ کرنے کے لیے گھات میں بیٹھا ہو‘‘۔ لیکن میں نے کچھ اندازہ لگالیا کہ اس کا خدشہ درست نہیں، کیوںکہ اس بوڑھے سکھ کے ارادے خطرناک دکھائی نہیں دیتے تھے اور یہ اندازہ درست تھا۔
جوں ہی تین بسوں پر مشتمل ہمارا یہ قافلہ رکا، تو وہ بوڑھا قریب آیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا: ’’سنو، میرے گھر میں ایک مسلمان خاندان چھپا بیٹھا ہے‘‘۔ اور پھر اس نے ہمیں ذرا تفصیل بتائی کہ ’’وہ مسلمان اسی گائوں کے رہنے والے تھے اور تقسیم سے ایک روز قبل مار دھاڑ اور قتل وغارت گری شروع ہوئی تو وہ اپنی جانیں بچانے میرے ہاں آ گئے۔ میں نے انھیں اپنے گھر میں پناہ دی اور میرے چاروں بیٹے گھر کے سامنے تلوار یں سونتے پہرہ دیتے رہے، لیکن اب ہمارے لیے انھیں زیادہ دیر تک محفوظ رکھنا ممکن نہیں ، کیونکہ اس گائوں کے دوسرے سکھ غصّے سے بے قابو ہوتے جارہے ہیں کہ میںنے دشمنوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔ ان کے ارادوں کو بھانپ کر میں نے اس مسلمان خاندان کو اپنے گنے کے کھیت میں چھپا رکھا ہے۔ ترس کیجیے اور انھیں اپنے ساتھ لے جائیے۔ میرے لیے انھیں مزید چھپائے رکھنا ممکن نہیں رہا ہے ‘‘۔
ڈرائیور نے پس وپیش کرتے ہوئے کہا: ’’ہم انھیں کیسے لے جا سکتے ہیں ؟ تمام بسیں تو پہلے ہی چھتوں تک بھری پڑی ہیں‘‘۔ لیکن میں نے اس کے احتجاج کی پروا نہ کرتے ہوئے عمررسیدہ نیک خصلت سکھ سے اس مسلمان خاندان کو لانے کے لیے کہا۔ چند منٹوں بعد وہ سب لوگ پہنچ گئے۔ تین آدمیوں کے علاوہ ایک عورت کے ہمراہ، جس نے ایک بچے کو اٹھا یا ہوا تھا۔ وہ اس قدر خوف زدہ تھے کہ ان سے بولا بھی نہیں جاتا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ ہماری تین بسوں میں ان کے لیے کیسے جگہ بنائی گئی۔ میں نے اس نیک دل بوڑھے سکھ کا شکریہ ادا کیا اور اس کے لیے دیر تک دعا کرتا رہا۔ اس کے بعد ہم پھر ہم اپنی منزلِ مقصود کی جانب چل پڑے۔
ہندستان کی سرحدی چوکی پر پہنچتے ہی مولانا مودودی کے ایک رفیق کا رنے مجھے اعتماد میں لیتے ہوئے یہ ایک چونکا دینے والی اطلاع دی کہ منع کرنے کے باوجود بعض ساتھی (راستے میں ممکنہ حملوں سے نبٹنے کے لیے) ایک دو چھوٹی بندوقیں قالین میں چھپا کر لے آئے ہیں اور یہ قالین ایک بس میں منوں سامان کے نیچے دبی پڑی ہے‘‘۔
یہ سن کر مَیں سخت پریشان ہوگیا۔ اگر تلاشی لی گئی اور یہ اسلحہ مل گیا تو یہ سار ی دوڑ دھوپ بیکار ہو جائے گی۔ اس صورت میں سرحدی گارڈ ہم سب کو روک لیں گے اور مہاجرین کو پاکستان جانے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ اس وقت ہم سرحدی چوکی کے بالکل سامنے کھڑے تھے، اس لیے بندوقوں کو کہیں باہر بھی نہیں پھینک سکتے تھے۔
مجھے سخت گھبراہٹ ہو رہی تھی کہ اسی دوران اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا ۔ میں نے سر پر دھوپ سے بچنے والا ہیٹ مضبوطی سے جمایا اور ہندستانی چوکی کے سامنے پڑی ہوئی میز کی جانب تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا چلنے لگا۔ میرا چہرہ مہرہ، سر اور داڑھی کے بالوں کا رنگ ایسا تھا کہ کسی کو میرے یورپین نہ ہونے کا شک نہیں ہو سکتا تھا۔
میں ہندستانی سپاہیوں سے خوش اخلاقی سے ملا اور بڑے نرم لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے انھیں اپنے بارے میں انجمن ہلا ل احمر (ریڈکراس سوسائٹی) سوئٹر ز لینڈ کے نمایندے کا تاثر دیا۔ جس پر کسی بھی ہندستانی نے مجھ سے میرے شناختی کاغذات کا مطالبہ نہیں کیا۔ میں نے پھوٹ پڑنے والے انسانیت سوز مظالم پر غم وغصّے کا اظہار کیا، لٹے پٹے زاروقطار روتے ہوئے مہاجرین کی شکایات کا بھی ذکر کیا اور ان کے ظالمانہ طرزِ سلوک کی سرزنش بھی کی۔
ہندستانی سارجنٹ اور اس کے ساتھیوں نے جوابی طور پر ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے چائے کی دعوت دی۔ ہم کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ میں نے شدید بے چینی کی حالت میں جلدی جلدی چائے پی لی تو انھوں نے فوراً مجھے دوسراکپ پیش کر دیا۔ اس مشق میں کسی نے بسوں کی تلاشی کے بارے میں سوچا تک نہیں، اور تھوڑی دیر بعد مجھے سرحد پار کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور چند منٹوں میں سرحد پار کرکے پاکستان کی سرحد میں داخل ہو گئے اور ہندستان ہمارے بہت پیچھے رہ گیا۔ یوں میری زندگی کا ایک باب ختم ہوا، لیکن بڑی تلخ یادوں کے ساتھ۔
اسی دوران میں مجھے پتا چلا کہ لُوٹ مار کرنے والے سکھوں نے جمال پور میں میرے کتب خانے کو تباہ وبرباد کر دیا۔ میری تمام عربی کتب (جنھیں غالباً لوٹ مار کرنے والوں نے ’ناپاک ‘ سمجھا ہو )، اور صحیح بخاری کے مسودات (تقریباً دو تہائی حصہ ابھی غیر مطبوعہ تھا) اس احمقانہ غم وغصے اور غارت گری کا شکار ہو گئے، یوں میری برسوں کی محنت ضائع ہو گئی۔
لاہور واپس آنے کے چند روز بعد میں دریائے راوی کے کنارے کنارے چہل قدمی کر رہا تھا۔ مون سون کی بارشیں ختم ہو چکی تھیں، لیکن اس کی لہروں میں تلاطم موجود تھا۔ ہرطرح کا کاٹھ کباڑ بھارت کی جانب سے پانی میں بہتا چلاآرہا تھا۔ درختوں کی ٹوٹی شاخیں ، لکڑی کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑے، کپڑوں کے چیتھڑے اور کاغذات ۔ مجھے خیال آیا کہ اگر کسی بہتے ہوئے کوڑے کرکٹ میں مسودے کا کوئی حصہ محفوظ رہ گیا ہو تو اس کے ہلکے نیلے رنگ سے پہچان لوں گا، کیوںکہ میں لکھتے ہوئے ایسا ہی کاغذ استعمال کرتا تھا۔ چنانچہ اسی دوران میں ہلکے نیلے رنگ کے بہت سے بکھرے ہوئے کاغذ نظر آئے ، جو دریاے راوی کی سطح آب پر تیزی سے بہتے چلے جا رہے تھے۔
لاہور اس سے پہلے اتنے انتشار اور بدنظمی کا کبھی شکار نہیں ہوا تھا۔ کچھ لوگ خوشیاں منارہے تھے، جب کہ بیش تر خوف ناک اندیشوںمیں مبتلا تھے۔ خوشی، خوف اور لالچ حیران کن حد تک آپس میں گڈمڈ ہوگئے تھے۔ ان دنوں پاکستان کے پاس کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی۔ بلوچ رجمنٹ کی ایک بٹالین اور آٹھویں پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی کے علاوہ باقی تمام مسلمان فوجی ابھی تک جنوبی ہند میں پھنسے ہوئے تھے۔
ایک روز ہمیں مشرقی پنجاب [ہندستان] کے سرحدی شہر فیروزپور سے ریلوے اسٹیشن ماسٹر کا ٹیلی فون موصول ہوا کہ: ’’مقررہ پروگرام سےہٹ کر ابھی ابھی مسلمان مہاجر عورتوں کی ایک گاڑی روانہ ہوئی ہے اور چند گھنٹوں بعد قصور کی سرحد پر پہنچ جائے گی‘‘۔ میں نے جلدی جلدی بسوں کا انتظام کیا اور رضاکاروں کو ساتھ لے کر قصور کی طرف روانہ ہوگیا۔
قصور پہنچ کر اپنے انتہائی مخلص اور پرانے دوست مولانا عبداللہ قصوری [م:۱۹۴۹ء]اور ان کے بیٹے محمدعلی قصوری [م: ۱۹۵۶ء] کو لے کر ریلوے اسٹیشن پر پہنچا۔ ایک گھنٹے بعد وہ گاڑی بھی پہنچ گئی۔ اس میں ہرعمر کی کم از کم دو سو عورتیں تھیں اور یہ دیکھ کر ہم سب کے اوسان خطا ہوگئے کہ یہ تمام عورتیں مادرزاد برہنہ تھیں۔ وہ سب مسلمان خواتین ہی تھیں جو زیادہ تر خود کو سر سے پائوں تک برقعہ میں چھپائے رکھتی تھیں۔ کچھ خواتین برقعہ نہیں اوڑھتی تھیں ، لیکن انھوں نے شرم و حیا اور ضبط ِ نفس کے نسوانی ماحول میں پرورش پائی تھی، اور اب انھیں گاڑی سے اسی برہنہ حالت میں نیچے اُتارا جارہا تھا، جس طرح کہ ولادت کے وقت انسان ہوتا ہے۔ ریل گاڑی کے ان ڈبوں میں نوجوان، ادھیڑعمر، عمر رسیدہ عورتیں اور نابالغ لڑکیوں کی لاشیں بھی بھری پڑی تھیں۔
ہمارے پاس ان کا تن ڈھانپنے کے لیے اتنی تعداد میں کمبل بھی نہیں تھے۔ رضاکاروں نے اپنے قمیص اور کوٹ اُتار کر ہندوئوں کی درندگی اور وحشی پن کا نشانہ بننے والی سسکیاں بھرتی ہوئی ان عورتوں کی برہنگی کو چھپانے کی کوشش کی، لیکن ان کپڑوں کی تعداد بھی اتنی نہیں تھی کہ تمام عورتوں کے تن ڈھانپ سکتے۔ مجبوراً ہم نے ان مصیبت زدہ عورتوں کو ممکن حد تک جلدی سے لاہور کے ہسپتالوں اور عارضی پناہ گاہوں میں پہنچایا۔
یہ میری زندگی کے انتہائی کربناک تجربات میں سے ایک تھا۔
(کتاب: Home - coming of the Heart)
یہ سوچ ہماری روحانی ژولیدگی [الجھائو] کی علامت ہے، اور اس کی بڑی وجہ صدیوں سے چلے آنے والا ہمارا زوال ہے کہ کوئی سیاسی تحریک جو بیک وقت اسلامی تجدید و احیا کا بھی دعویٰ کرے، وہ اپنے اصل مقصد سے منحرف ہونے کے باعث ضرور ناکام ہوجاتی ہے اور گھٹ گھٹا کر مصر، ترکی، اور شام جیسے ملکوں کی ’قومی تحریک‘ بن جاتی ہے۔ ہمارے اکثرو بیش تر لیڈروں کا غالب رجحانِ طبع یہ ہے کہ وہ ہماری جدوجہد کے روحانی اسلامی پس منظر کو تو (غالباً دانستہ) نظراندازکردیتے ہیں، اور مسلمانوں کے مطالبۂ آزادی کے جواز میں ہندو اکثریت کے ساتھ ان کے تلخ تجربات پیش کرنے کے پہلو بہ پہلو ہندوئوں کے سماجی رسوم و روایات اور ثقافتی مظاہر سے مسلمانوں کے اختلافات بیان کر کے ایک ’جداگانہ قوم‘ ثابت کرنے پر زورِ بیان صرف کردیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جداگانہ مسلم قومیت کی حقیقت پر (اور بلاشبہہ یہ حقیقت ہی ہے) لفظ ’قومیت‘ کے مغربی مفہوم میں باتیں کرنے کا رجحان بڑھتا چلاجارہا ہے، بجاے اس کے کہ لفظ اُمت یا ملت کے اسلامی مفہوم میں ’جداگانہ مسلم قومیت‘ کے مفہوم کی تشریح کی جائے۔ ہمیں بلاخوف و خطر،ببانگ دہل، ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے کہ لفظ ’قوم‘ کے رواجی مفہوم سے ہمیں کوئی نسبت نہیں ہے۔ ہاں، ہم ایک قوم ہیں لیکن محض اس لیے نہیں کہ ہماری عادات، ہمارے رسوم و رواج، ہمارے ثقافتی مظاہر اس ملک میں بسنے والی دوسری قوموں سے مختلف ہیں، بلکہ ہم اس مفہوم میں ایک قوم ہیں کہ ہم اپنے ایک خاص نصب العین کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنا چاہتے ہیں۔
اسلام سے وابستہ ہونا ہی ہمارے جداگانہ تشخص کا واحد جواز ہے۔ ہم کوئی نسلی وحدت نہیں ہیں۔ ہم لسانی وحدت بھی نہیں ہیں، حالانکہ اُردو مسلمانانِ ہند کی زبان کی حیثیت سے بڑی ترقی یافتہ زبان ہے۔ ہم انگریزوں یا عربوں یا چینیوں کی طرح ’قوم‘ نہیں ہیں، اور نہ کبھی اس مفہوم میں قوم بن سکتے ہیں اور یہی ایک حقیقت کہ ہم لفظ ’قوم‘ کے روایتی و رواجی مفہوم میں نہ تو قوم ہیں اور نہ قوم بن سکتے ہیں ، ہماری اندرونی قوت کا بہت بڑا سرچشمہ ہے۔ کیونکہ اس حقیقت کی بنیاد پر ہمیں یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ پورے کرئہ ارض پر، پوری دنیا میں، ہم، فقط ہم، بشرطیکہ ہم ایسا چاہیں، اُس شان دار منظر میں حیاتِ نو پیدا کرسکتے ہیں جو چودہ سوسال پہلے عرب کے صحرائوں سے اُٹھا تھا۔ ایسے آزاد مردوں اور عورتوں کی ایک اُمت کا شان دار منظر جو نسل، زبان اور وطن کے اتفاقی و حادثاتی بندھنوں کے باعث متحد و یک جان نہیں ہوئے تھے، بلکہ ایک مشترکہ نصب العین سے اپنی باشعور اور آزادانہ وفاشعاری کے باعث متحد و متفق ہوئے تھے۔
بدقسمتی سے ہمارے صفِ اوّل کے اکثر رہنما مسلمانوں کے اس گم کردہ راہ اور تشکیک پسند طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے نزدیک اسلام ’ثقافتی روایت‘ کے سوا کچھ نہیں اور یوں پاکستان بھی ان کے خیال میں محض اس راہ کا ایک نشان ہے۔ پہلا قدم سہی، جس پر نام نہاد ’ترقی یافتہ‘ مسلم اقوام دیر سے چلتی آرہی ہیں، یعنی بہ تمام و کمال قومیت کی راہ۔ ہماری جدوجہد کے اسلامی پہلو پر یہ رہنما کبھی کبھار، زبانی کلامی کچھ کہہ بھی لیتے ہیں۔ لیکن فی الحقیقت اسلام کے مذہبی اصولوں کے مطابق مسلمانوں کی ذاتی و اجتماعی زندگی ڈھالنے کی طرف اشارے کنایے میں بھی بات نہ کرنے کو ’جدیدیت‘خیال کرتے ہیں۔ پاکستان کے مطالبے کو بھی اسلامی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے میں انھیں عار محسوس ہوتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ نیم دلانہ رویہ تحریکِ پاکستان کے بدن سے، سب سے متحرک اور فعال عنصر، یعنی روحانی عنصر کو نکال لیتا ہے۔ اور یہ چیز پاکستان کے مستقبل کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ باہر کی کوئی مخالفت اس خطرے کی پاسنگ بھی نہیں ہے۔
عظیم اقوام کے مقدر کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ ان کی پڑوسی اقوام اصولاً ان کے اغراض و مقاصد سے اتفاق یا اختلاف کرتی ہیں۔ ان کے مقدر کا انحصار ان کے اغراض و مقاصد کی روحانی طاقت (یا کمزوری) پر ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے لیے ہماری آرزو نتیجہ ہے ہماری تخلیقی قوت اور ہمارے قلبی خلوص کا، اگر منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی اس کے منظر کے بارے میں ہماری بصارت واضح اور ہماری بصیرت پاکیزہ ہے، اگر مقصد کو مقصد بالذات جان کر اس سے محبت کرنے کا سلیقہ سیکھ لیں، اس عقیدے کے ساتھ کہ اپنے مطلقہ مفہوم میں یہ خیراعلیٰ ہے (یا یوں کہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں خیراعلیٰ ہے) اور محض اس لیے خیر نہیں ہے کہ بہ نظر ظاہر ہمارے لیے اور ہماری قوم کے لیے معاشی طور پر فائدہ رساں ہے۔ تب دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پاکستان بنانے سے نہیں روک سکتی جو دنیا بھر میں تجدید و احیاے اسلام کا دروازہ کھول دے گا۔
اس کے برعکس اگر خوداختیاری کے لیے ہمارا مطالبہ نتیجہ ہے غیرمسلم اکثریت کے تسلط کے خوف کا، اگر ہمارے ذہن پر مستقبل کی تصویر کا محض نیگیٹو ثبت ہے، اگر یہ کسی بلندوبالا چیز کی خاطر آزاد ہونے کی آزادانہ آرزو نہیں ہے، اگر یہ صرف کسی چیز سے آزاد ہوجانے کی گداگرانہ خواہش ہے، اگر اسلام ہمارے لیے مقصود بالذات اور ایک اخلاقی داعیہ نہیں ہے، اگر اسلام ہمارے لیے محض ایک عادت ایک رسم اور ایک ثقافتی ٹھپا بن کر رہ گیا ہے، تب ایسی صورت میں یہ تو ممکن ہے کہ ہم اپنی عددی طاقت کے بل پر پاکستان کی قسم کی کوئی چیز حاصل کرلیں، لیکن ایسا پاکستان اُس پاکستان کے برابر نہ ہوگا، جسے حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے حد و شمار امکانات سے نوازا ہے۔ ایسا پاکستان بے شمار قومی ریاستوں کے منقسم ہجوم میں ایک اور ’قومی ریاست‘ سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔ بہت سی ریاستوں سے اچھا، بہت سی ریاستوں سے بُرا۔ مسلم عوام کے تحت الشعور میں بساہوا خواب، اور ان لوگوں کے شعور میں آیا ہوا خواب جنھوں نے پہلے پہل پاکستان کی باتیں اس وقت کیں، جب یہ نام بھی پردئہ شہود میں نہ آیا تھا۔ وہ خواب کیا تھا؟ ایک ایسی ہیئت حاکمہ کا قیام جس میں رسول کریمؐ کے اسوئہ حسنہ اورسنت کو ہرقدم پر، ہرپہلو سے عملی حقیقت کا جامہ پہنایا جاسکے۔
اگر ہمارے موجودہ رہنما ہمارے عوام کی دل کی دھڑکنیں سن سکیں، تو انھیں یقینا احساس ہوجائے گا کہ عام مسلمان محض ایک ایسی نئی ریاست کا خواب نہیں دیکھتا، جس میں مسلمانوں کو موجودہ معاشی مراعات سے کچھ زیادہ حاصل ہوسکیں۔ وہ تو ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھ رہا ہے جس میں احکامِ الٰہی کی فرماں روائی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ عام آدمی معاشی مراعات و سہولیات کی پروا نہیں کرتا۔ وہ یقینا پروا کرتا ہے، بہت زیادہ کرتا ہے۔ معاش ہرشخص کی بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن وہ محسوس کرتا ہے، اور بجا طور پر محسوس کرتا ہے کہ ایک سچی اسلامی ریاست میں اسے نہ صرف معاشی انصاف اور مادی ترقی کا مساوی موقع ملے گا، جو فی الوقت اسے حاصل نہیں ہے، بلکہ اس کے انسانی وقار اوراس کے روحانی استحکام میں بھی قابلِ قدر اضافہ ہوگا۔
ہمارے عام آدمی کا یہ احساس، یہ اُمید، یہ آرزو، یہ خواب، جیساکہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں، منتشر ہے، بکھرا ہوا ہے، اُلجھا ہوا ہے۔ یہ عقلی نہیں، جبلی ہے۔ ہمارے عوام کے ذہن صاف نہیں ہیں کہ نئی اسلامی ریاست، جس کے لیے وہ جدوجہد کر رہے ہیں، اپنے قیام کے بعد کیسی اورکس شکل و صورت کی ہوگی۔ وہ پوری طرح نہیں جانتے کہ اس ریاست کے قیام کے لیے انھیں کیا ایثار کرنا ہوگا، اور کیا قیمت ادا کرنی ہوگی اور کیا قربانیاں کس کس شکل میں دینی پڑیں گی۔ وہ صاف دل اور صاف ذہن ہو بھی کیسے سکتے ہیں؟ صدیوں سے ان کا رشتہ اسلامی تعلیمات سے کٹا ہوا ہے۔ صدیوں سے وہ جہالت، ضعیف الاعتقادی اور سیاسی تذلیل کے ڈونگے کنوئیں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ وہ صرف نعروں اور زبانی کلامی وعدوں پر تکیہ کرتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ وہ اپنے باطن میں چھپی ہوئی خواہشوں، اپنے دل میں پوشیدہ ارمانوں اور اپنے ذہن کے لاشعوری خوابوں کے درمیان کوئی ربط پیدا نہیں کرسکتے اور انھیں ان کے اظہار پر قدرت حاصل نہیں ہے۔ وہ محسوس تو کرتے ہیں، لیکن انھیں اپنے محسوسات کے اظہار کا سلیقہ نہیں آتا۔ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ انھیں ان کی خواہشات، محسوسات اور خواب سمیت آتش فشانی جہنم میں جلنے کو ڈال دیا گیا ہے، لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس جہنم سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ یہ راستہ جاننے کے لیے روحانی قیادت کی ضرورت ہے، جس کی اہمیت سیاسی قیادت سے کم نہیں۔
ہمارے رہنمائوں کے سامنے اصل کرنے کا کام کیا ہے؟ ہمارے عوام کے خوابوں اور خواہشوں کو ایک تخلیقی اور مثبت رُخ پر منظم کرنا، ان میں اسلام کی روح سمونا۔ ان کی تنظیم صرف سیاسی طور پر نہیں، بلکہ پاکستان کے عظیم تر مقصد کی خاطر روحانی اور نظریاتی طور پر بھی کی جائے۔ انھیں صرف اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کہ انھیں ایک جماعت میں منظم کردیا جائے اور ان کے سیاسی مطالبات کو زبان دے دی جائے۔ ملت ان سے کچھ اور بھی تقاضا کرتی ہے۔ بلاشبہہ تنظیم کی سخت ضرورت ہے۔ سیاسی احتجاج بھی ایک ضرورت ہے۔ لیکن یہ تمام ضرورتیں ہمارے نظریاتی مقصد کے حصول کی خاطر ہونی چاہییں، نہ کہ جیساکہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے، یہ دوسرے تیسرے درجے کی چیزیں بن کر رہ گئی ہیں۔ ایک مسلمان کے نزدیک ، جس کے لیے اسلام ہی اس کا جینا مرنا ہے، ہر سیاسی تحریک کو اپنی سندِجواز مذہب سے حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ مذہب سیاست سے الگ نہیں ہوسکتا، اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، وہ یہ کہ اسلام صرف ہمارے روحانی ارتقا سے غرض نہیں رکھتا، بلکہ ہماری جسمانی، معاشرتی اور اقتصادی زندگی سے بھی پورا پورا تعلق رکھتا ہے۔ اسلام ہمارا مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے لیے، پاکستان کی حمایت میں، پاکستان کی خاطر مسلم عوام سے مسلم رہنما جو پُرزور اپیلیں کرتے رہتے ہیں، ان کا پہلا حوالہ پاکستان میں اسلام کا دینی و مذہبی پہلو ہونا چاہیے۔ اگر اس اندرونی آواز اور مطالبے کو نظرانداز کیا گیا، تو ہماری جدوجہد اپنے تاریخی مشن کو پورا نہ کرسکے گی۔
ہمارے لیڈروں کے لیے اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر سب رہنما نہیں تو گنتی کے چند رہنما ایسے ضرور موجود ہیں جو وقت کی اس اہم ضرورت سے پوری طرح باخبر بھی ہیں اور اس ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ بھی ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر چند ماہ قبل مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے شان دار جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر قائداعظم کے دست راست لیاقت علی خان صاحب نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا، انھوں نے بڑے زوردار طریقے سے اس حقیقت کو اُجاگر کیا کہ تحریکِ پاکستان کے محرکات کا اصل سرچشمہ قرآنِ مجید ہے، لہٰذا ہم جس اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ اپنی سند اختیار و مجاز صرف شریعت سے حاصل کرے گی۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے بھی متعدد موقعوں پر ایسے ہی اندازِ فکر میں خطاب کیا ہے۔ ایسے بیانات و خطبات چونکہ مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے آتے ہیں، اس لیے مسلم لیگ کے مقاصد و اغراض کی تشریح و ترجمانی ہوجاتی ہے، لیکن محض تشریح و ترجمانی کافی نہیں۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پر عملاً اثرانداز ہونا ہے تو مسلم لیگ کی ہائی کمان کو زیادہ ٹھوس بنیاد پر وضاحت و تشریح کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کام کی خاطر اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس بنانی چاہیے جو اُن اصولوں کی مناسب وضاحت و تشریح کرنے کا فریضہ انجام دے جن پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔
چند سال پہلے تک اس کام کی ضرورت اتنی شدید نہ تھی کیونکہ اس وقت ہماری منزلِ مقصود بھی واضح نہ تھی، لیکن جیساکہ آج کل کے حالات کا تقاضا ہے، ملک میں ایسی زبردست تبدیلیاں پے بہ پے آرہی ہیں جن کے سبب مستقبل قریب میں پاکستان کا حصول و قیام ایک ممکن العمل چیز نظرآرہا ہے۔ اب یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ جون ۱۹۴۸ء سے پہلے پہلے پاکستان نام کی ایک نئی آزاد اور خودمختار ریاست کسی نہ کسی شکل میں وجود میں آجائے گی۔ یہی ہے وہ نکتہ جو میں آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ہے: ’کسی نہ کسی شکل میں‘‘ ___ اب یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے اور یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ پاکستان کی شکل کیسی ہو۔ اسی لیے مَیں کہا کرتا ہوں کہ یہ سوال کہ ’’کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟‘‘ اب محض نرے غوروفکر کے صاف ستھرے شعبے سے نکل کر فوری نوعیت کی عملی سیاست میں داخل ہوگیا ہے اور پوری شدت سے پوچھ رہا ہے: ’’کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟‘‘
یہ عین ممکن ہے کہ اس مضمون کے شائع ہونے سے پہلے ہی قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا مژدہ مسلمانانِ ہند کو دے دیا ہو، اور اگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا تو بہت جلد اس کا اعلان منظرعام پر آجائے گا۔ لہٰذا مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیا ہوگا، کس نوعیت کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا، اور قومی مقاصد کیا ہوں گے۔ ان کے سامنے جو مسئلہ درپیش ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے: ’’کیا ہماری ریاست مذہب سے عالمی دُوری کی ایک اور علامت ہوگی، ان مسلم ریاستوں میں ایک اور مسلم ریاست کا اضافہ، جن میں اسلام کا کوئی اثر اور عمل دخل نہیں ہے، نہ سیاسی نظام کی تشکیل میں، نہ معاشرتی طرزِعمل میں۔ یا پھر یہ جدید تاریخ میں ایک نہایت پُرجوش اور انتہائی شان دار تجربہ ہوگا، اُس شاہراہ پر پہلا قدم جو انسانِ کاملؐ نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟ کیا پاکستان برعظیم ہندستان کے چند خاص علاقوں میں مسلمانوں کی قومی ترقی کا ایک ذریعہ ہوگا، یا پھر پاکستان ایک عملی سیاسی نظریے کے طور پر پوری دنیا میں اسلام کی تجدید و احیا کی علَم برداری کرے گا؟
اگر کبھی کسی قوم کے سامنے فیصلے کی گھڑی آیا کرتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں شعوری فیصلہ کرے، تو مسلمانانِ ہند کے لیے فیصلے کی گھڑی آگئی ہے۔ اب یہ ذمہ داری ہمارے رہنمائوں کے کندھوں پر ہے کہ وہ فیصلہ کریں اور صحیح فیصلہ کریں۔
اس سے پہلے کبھی مسلم رہنمائوں کو ایسا اختیار تفویض نہیں ہوا کہ وہ ملت کی تقدیر کا فیصلہ صحیح (یا غلط) سمت میں کریں۔ یہ ان کے اختیار و طاقت میں ہے کہ وہ جلد از جلد اپنا فیصلہ سنائیں کہ ہندی مسلمان صحیح معنی میں مسلمان اور حیاتِ نو پانے والے اسلام کے پشت پناہ بن جائیں گے، یا پھر نام نہاد مسلمان گروپوں اور ریاستوں کے ہجوم میں ایک اور مسلمان گروپ اور ریاست کا اضافہ ہوجائے گا، جہاں اسلام کی حیثیت ایک ثقافتی ٹھپے سے زیادہ نہیں، جہاں اسلام اور اس کے اصول و احکام اُمت المسلمین کے معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی وجود کے لیے ناگزیر خیال نہیں کیے جاتے۔ مسلم لیگ کی موجودہ قیادت، مَیں پھر دہراتا ہوں، مسلم لیگ کی موجودہ قیادت کے ہاتھ میں ہے فیصلہ کرنا، صحیح فیصلہ کرنا، کیونکہ حصولِ پاکستان کے لیے جوش و خروش کی جو زبردست لہر اُٹھی ہے وہ مسلم لیگ نے اُٹھائی ہے، اور اس نے اس ملک کے تمام مسلم عوام کو اُٹھا دیا ہے، انھیں متحد کردیا ہے، اور ایسا متحد کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی ماضی کی تاریخ میں اتحاد کا ایسا شان دار مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ اور جوش و خروش کی اس لاثانی لہر نے ہمارے رہنمائوں کو مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایسی باوقار طاقت تفویض کی ہے ، جو گذشتہ کئی صدیوں کے دوران میں کسی قوم نے اپنے رہنمائوں کو کبھی تفویض نہ کی تھی۔ گو، اسی بااختیار وقار و طاقت کی بنا پر ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہے۔ انھیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی ذمہ داری ’سیاسی تدبر‘ سے شروع اور ’سیاسی تدبیر‘ پر ختم ہوجاتی ہے۔ سیاسی تدبیریں خواہ کتنی بھی ضروری اور ناگزیر ہوں، یہ محض ثانوی نوعیت کی ہوتی ہیں اور لیڈروں کے فرائض میں ایک عبوری اور عارضی مرحلے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیڈروں کا اصل منصب و فریضہ ’قوم سازی‘ ہے۔ چونکہ ہماری قومیت کی بنیاد اسلام ہے،اس لیے ہمارے لیڈروں کو فوراً اسلام کی اصطلاحوں میں سوچنا شروع کردینا چاہیے، کیونکہ مستقبل کے لیے افکار تازہ کی نمود کو ملتوی کیے جانا اب کسی اعتبار سے مناسب نہیں (یہ سوچنا اور کہنا اب غلط اندیشی ہے کہ ’’ایسے امور و معاملات پر اُس وقت غور کیا جائے گا جب پاکستان قائم ہوجائے گا‘‘)۔ ہمارے لیڈروں کو اسلام کے تقاضوں اور مسلم قوم کے عارضی مفادات کے درمیان خیالی خط نہیں کھینچنا چاہیے کیونکہ اسلام کے تقاضے جامع اور ہمہ گیر ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے روحانی معاملات بھی شامل ہیں اور معاشی مفادات بھی۔اسلام کے تقاضوں کے آگے مکمل ، رضاکارانہ اور باشعور دست برداری واحد حل ہے۔
مختصر یہ کہ اب یہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بار بار تلقین کریں کہ حصولِ پاکستان کا مقصد ایک سچی اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام ہے،اور یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک تحریکِ پاکستان کا ہرکارکن، وہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، دیانت داری سے اپنی زندگی کو ہر گھنٹے اور ہرمنٹ اسلام کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش نہ کرے گا، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔
یہ بات جہاں عامۃ المسلمین پر صادق آتی ہے، وہاں ہمارے لیڈروں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ انھیں اپنے معاشرتی رویے سے یہ ظاہر و ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پوری سنجیدگی سے اسلام کو ایک سچا اصول و نظریہ قرار دیتے ہیں اور اسے محض ایک نعرہ نہیں سمجھتے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ وہ اسلام کے عین تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینا ہمارے لیڈروں میں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک اسلام ایک زندہ محرک ہے،اور ان کے لیے اظہار خلوص و عقیدت ہم پر واجب ہے۔ لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جن کی صرف زبان پر اسلام کا نام آتا ہے، اور وہ بھی اس وقت جب وہ کسی عوامی جلسے سے خطاب کر رہے ہوں یا کوئی اخباری بیان ان کی طرف سے جاری ہوتا ہو۔ حالانکہ ان کا شخصی و ظاہری رویہ اسلام سے اسی طرح خارج ہوتا ہے جس طرح یورپ اور امریکا کے کسی عام سیاسی لیڈر کا شخصی و ظاہری رویہ عیسائیت سے خارج ہوتا ہے۔ اگر حصولِ پاکستان کی خاطر ہماری جدوجہد کو اس مرض ’قومیت‘ کی قابلِ رحم حالت میں ضائع نہیں ہونا ہے، جس میں پوری دنیاے اسلام مبتلا ہے، تو ہمارے لیڈروں کا رویہ فوراً بدل جانا چاہیے۔ اگرچہ یہ ہمارا کام نہیں ہونا چاہیے کہ کسی شخص کے ذاتی عقائد کے نگران و منصف بن جائیں، کیونکہ یہ صرف اللہ کا کام ہے، تاہم ملت کو اپنے رہنمائوں سے یہ توقع کرنے کا حق حاصل ہے کہ ان کا طرزِ زندگی اس نظریے کے عین مطابق ہو، جس کے تحفظ کا وہ اپنی زبان سے دعویٰ کرتے ہیں۔
آخر میں ایک اور بات___ اگر ہمارے لیڈر اسلامی شعورو آگہی کی اعلیٰ ترین بلندیوں پر پہنچ جائیں، تب بھی صرف ان کی مثال ہمارے روحانی مقصد کے حصول و تحفظ کے لیے ناکافی ہوگی۔ ہماری قوم کو اخلاقی و معاشرتی زوال کے اس گڑھے سے نکل کر اُٹھنا ہوگا، جس میں وہ گری پڑی ہے۔ ہمارا موجودہ اخلاقی قدوقامت اس معیار سے بہت نیچے ہے جس کا تقاضا اسلام ہم مسلمانوں سے کرتا ہے۔ تہذیب کی روح کا ہم میں فقدان ہے۔ آرام طلبی اور تن آسانی سے ہمیں محبت ہے۔ جب ذاتی مفاد کی کوئی بات سامنے آئے تو ہمیں جھوٹ بولنے سے عار نہیں۔ ہمیں اپنے وعدے وعید توڑنے میں مزا آتاہے۔ جب بدعنوانی، خودغرضی، چال بازی، فریب کاری کے واقعات ہماری روزمرہ کی زندگی کے مشاہدے میں آتے ہیں، ہم بڑی معنویت سے مسکراتے یا بڑی ڈھٹائی سے ہنستے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے بیش تر افراد کو کسی چیز سے کوئی سچی لگن ہے، تو وہ چیز وہ ہے جسے عرفِ عام میں ’کیریئر‘کہتے ہیں۔ اپنے لیے اور اپنے رشتہ داروں کے لیے چھوٹے سے چھوٹے فائدے کے لیے وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں، جو ان سے ہوسکتا ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کے پیٹھ پیچھے غیبت کرنا اور بہتان لگانا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ مختصر یہ کہ ہم نے اپنے وجود کے اصل سرچشمے، یعنی اسلامی تعلیمات سے فیض یاب نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے۔
ایسے حالات میں ہم کیوں کر ایک سچے اسلامی ملک پاکستان کے شایانِ شان سچے شہری بن سکتے ہیں؟ ایسے حالات میں ہم کیوں کر ایسا سچا اسلامی ملک پاکستان حاصل کرسکتے ہیں، جس کے حصول کی خاطر ہم اپنی موجودہ اخلاقی پستی سے اُوپر اُٹھنے کی ذرا بھی کوشش نہ کریں؟ جب ہمارے دل میں حُب ِ الٰہی اور خوفِ خدا ہی موجود نہ ہو، تو ہم کیوں کر حکمِ الٰہی کو اپنے معاشرتی نظام کا مقتدر بنا سکتے ہیں؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان سوالوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اگر مسلمان اپنے طور طریق اور اپنے اخلاقی معیار فوری طور پر تبدیل نہیں کریں گے اور ہرقدم پر شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کی روش ترک نہیں کریں گے ، تو یقین جانیے کہ نظریۂ پاکستان میں سے اس کی روح غائب ہوجائے گی اور یوں پاکستان کو اسلام کی جدید تاریخ میں جو منفرد پوزیشن حاصل ہونے والی ہے،و ہ حاصل نہ ہوسکے گی۔
جیساکہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اور اب پھر کہتا ہوں کہ عامۃ المسلمین جبلی طور پر پاکستان کی اسلامی روح کا احساس رکھتے ہیں، اور دل و جان سے چاہتے ہیں کہ لاالٰہ الا اللہ پاکستانی قوم کی ترقی و تعمیر کے لیے نقطۂ آغاز بن جائے، لیکن ان کے خیالات میں ابہام اور ژولیدگی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ جانا کدھر کو ہے۔ انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ رہنمائی رہنما کا منصب ہے۔ سوال گھوم پھر کر پھر قیادت کے سامنے آگیا ہے۔
مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ عصرحاضر کی مسلم قیادت کا بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کی رہنمائی صرف سیاست و معیشت کے میدان میں نہ کریں، بلکہ روحانی اور اخلاقی میدان میں بھی کریں اور مسلمانوںکو باور کرائیں کہ:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط(الرعد ۱۳:۱۱)، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی قوم کی سیاسی و معاشی حالت بہتر نہیں ہوسکتی جب تک اس کی مجموعی اخلاقی حالت بھی بلند نہ ہو۔
علامہ محمد اسد نے قیام پاکستان سے چار ماہ قبل اپنے رسالے Arafatمیںمئی ۱۹۴۷ء میںایک فکرانگیز مقالہ لکھا تھا ۔ اس مقالے میں اس وقت قیامِ پاکستان کے لیے جو جدوجہد ہورہی تھی، اس پرکچھ اہم سوالات اٹھائے گئے تھے۔ آج ہمارے ملک میں قیام پاکستان پھر موضوع بحث بناہواہے، اورہرطرح کی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اِس پس منظر میںاُس وقت کی اِس تحریر کا مطالعہ چشم کشا ہے۔علامہ محمد اسد ان چند نو مسلموںمیں سے ہیںجنھوںنے اسلام کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ گہرائی میں جاکر اس کا مطالعہ کیا اورپھر اس کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی ان تھک کوششیں کی۔ تحریک پاکستان میں انھوںنے دل و جان سے شرکت کی۔تحریک کی قیادت سے ان کاقریبی ذاتی تعلق تھا۔ انھوں نے پاکستان کی تحریک کواس کے صحیح پس منظر میں سمجھا اوراپنے قلم سے اس کی گراں قدر خدمت کی۔ ان کی یہ تحریر ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے کہ تحریک کے عروج کے وقت انھوں نے اس تحریک کے اصل ہدف اورملت اسلامیہ ہند کے مقصد، عزائم اوراحساسات کی بھرپورترجمانی کی ہے۔
قائد اعظم، لیاقت علی خان اورنواب ممدوٹ نے ان کو پاکستان کے اسلامی دستورکا خاکہ مرتب کرنے کا کام سونپا، جسے انھوں نے ایک گراں قدر مقالے کی شکل میں تیار کیا جو پاکستان بننے کے بعد Arafat کے پہلے اور آخری شمارے میں شائع ہوا اورآج بھی کتابی شکل میں موجود ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کو اقوام متحدہ میںپاکستان کانمایندہ مقرر کیا لیکن پھر حالات نے ایک دوسرا رخ اختیار کرنا شروع کردیااورزمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں آگئی جو نہ شریک سفر تھے اورنہ تحریک پاکستان کے اصل پیغام کے امین۔ جہاں ان ۶۵برسوں میں پاکستان کی نظریاتی شناخت کو پراگندہ کرنے کی کوششیں زور و شور سے ہوررہی ہیں، وہیں پاکستان کی اصل اساس اس کی حفاظت اوراس کو اس کی اصل منزل کی طرف گامزن کرنے کی جدوجہد بھی روزافزوں ہے۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری اور ۱۹۵۶ء کا دستور ہو یا۱۹۶۲ء یا ۱۹۷۳ء کا، پاکستان کی اسلامی شناخت ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اصل مقاصد کی بار بار یاددہانی ہو، نئی نسلوں کو اس تاریخی جدوجہد اوراس کے اصل اہداف سے روشناس کیا جائے۔ مسجداور تعلیمی اداروں سے لے کر میڈیا اورپارلیمنٹ تک سب نہ صرف اس تاریخی سفر کو پوری دیانت سے پیش کریں بلکہ اس کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی اورجہادی ریاست بنانے کے لیے سرگرم ہوں۔ ہمیں توقع ہے کہ تعلیم،تذکیر اورتبدیلی کے لیے تیاری اورجدوجہد کے اس عمل میں علامہ محمد اسد کے اس مقالے کی اشاعت ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرلے گی۔ اس جذبے، خواہش اوردعاکے ساتھ ہم اس تحریر کو پرانی اورنئی دونوں نسلوں کو رمضان کے تحفے کے طور پر پیش کررہے ہیں۔٭ مدیر
تین چار ماہ پہلے کی بات ہے، میں نے عرفات کے شمارہ فروری میں ایک سوال اُٹھایا تھا: ’’کیا واقعی ہم اسلام چاہتے ہیں؟‘‘۔ یہ کوئی خطیبانہ سوال نہیں تھا کہ قارئین کی دینی اصلاح کے لیے ذہن میں آیا ہو۔ فی الحقیقت یہ ایسا سوال تھا جو ہمیں اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیے۔ یہ کہ ’’کیا واقعی ہم اسلام چاہتے ہیں؟‘‘ وقت آگیا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپنے حال اور مستقبل کے حوالے سے اس سوال کے تمام نتائج و عواقب کا پورا پورا تجزیہ کرنا ہوگا اور اپنے اندر اخلاقی جرأت پیدا کرنی ہوگی کہ اس سوال کے جواب میں ایمان داری سے ’ہاں‘ یا ایمان داری سے ’نہ‘کہہ سکیں۔ فی زمانہ، جیسے حالات ہمارے مشاہدے میں آرہے ہیں، ان کی کیفیت یہ ہے کہ بے شمار مسلمان زبان سے تو کہتے ہیں ’ہاں‘ اور عمل سے کہتے ہیں ’نہ‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کی باتیں تو بہت کرتے ہیں اور بلندبانگ ادعا کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلام بہترین ضابطۂ حیات ہے، اسلام واحد ضابطۂ حیات ہے جو انسانیت کو تباہی کے راستے سے بچا سکتا ہے، اس لیے اسلام واحد منزلِ مقصود ہے جس کے نفاذ کے لیے کوشش کی جانی چاہیے۔ یہ لوگ کہتے تو یہی ہیں، لیکن اپنے اعمال اور سماجی رویوں سے وہ اسلام سے زیادہ سے زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں۔ ہماری جدید تاریخ میں اسلام کے بارے میں اتنی باتیں کبھی نہیں ہوئی تھیں، جتنی آج کے ہندستان میں ہورہی ہیں۔ ہر طرف اسلام، اسلام کا غلغلہ ہے اور اس کا برعکس بھی درست ہے کہ اسلام کی سچی روح کے مطابق عملاً اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کی طرف اتنی بے توجہی کبھی نہیں برتی گئی، جتنی آج کے ہندستان میں برتی جارہی ہے۔
اس مقام پر شاید میرے اس دعوے کے خلاف آپ کے دل میں شکایت یا احتجاج پیدا ہو اور آپ اس زبردست جوش و خروش کی طرف توجہ دلائیں جو نظریۂ پاکستان نے مسلمانانِ ہند میں برپا کررکھا ہے۔ آپ کہیں گے اور ایسا کہنے میں آپ حق بجانب ہوں گے کہ مسلمانانِ ہند بالآخر اپنی طویل گراں خوبی سے بیدار ہوگئے ہیں، انھوں نے ایک عظیم مقصد کے لیے اتنا زبردست اتفاق و اتحاد حاصل کرلیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ یہ کہ مسلمان ہونے کی بنا پر انھوں نے اپنا جداگانہ ثقافتی تشخص قائم کرنے کا شعور حاصل کرلیا ہے۔ یہ کہ تحریکِ پاکستان کا پہلا نعرہ ہی ’لااِلٰہ الا اللہ‘ مقرر ہوا ہے۔ یہ کہ انھوں نے ایسی سیاست حاکمہ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس میں مسلم تصورِ کائنات، مسلم اخلاقیات اور مسلم معاشرتی افکار مکمل اظہار کی راہ پاسکیں۔ اور شاید آپ کسی قدر رنجیدگی سے مجھ سے دریافت کریں گے کہ کیا میں ان سب باتوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے بے وقعت اور غیراہم خیال کرتا ہوں؟
بات یہ ہے کہ میں ہرگز ہرگز ان کو بے وقعت اور غیراہم خیال نہیں کرتا۔ میری نظر میں یہ بہت وقیع اور اہم ہیں۔ میرا عقیدہ ہے (اور گذشتہ چودہ سال سے مَیں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں، ماسوا اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کر قائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے تو پورے عالمِ اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی، اسلامی ہیئت حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا۔ کیا تحریکِ پاکستان کے تمام قائدین اور اہلِ دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعوئوں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اوّلین محرک ہے؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں؟ پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے، یا مختلف و متفرق ہے؟
یہ سوالات معمولی نہیں ہیں۔ یہ بڑے سوال ہیں، اتنے بڑے کہ ہمارے موجودہ مصائب سے بھی بڑے ہیں، اور اُن انفرادی تکالیف سے بھی بڑھ کر ہیں جو اس ملک میں ہزاروں مسلمان مرد وزن سردست برداشت کر رہے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب ہی سے فیصلہ ہوگا اس امر کا کہ یہ تکالیف اور قربانیاں مستقبل کے ایک نئے تناظر ،یعنی اسلام کے مکمل اثبات و نفاذ کی نوید لائیں گی یا ایک قومی مسلم ریاست کی تشکیل کے ذریعے مسلمانانِ ہند کی محض اقتصادی صورت حال کی اصلاح و ترقی کی ضامن ہوں گی۔
یہاں میں جریدہ عرفات کے شمارہ فروری ۱۹۴۷ء میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرنے کی جسارت چاہتا ہوں۔ میں نے لکھا تھا: ’’تحریکِ پاکستان ایک نئے اسلامی نظام کا نقطۂ آغاز بن سکتی ہے، بشرطیکہ ہم مسلمان محسوس کریں اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی برابر محسوس کرتے رہیں کہ اس تحریک کی حقیقی اور تاریخی وجۂ جواز یہ نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے دوسرے باشندوں سے مختلف لباس پہنتے، مختلف زبان بولتے یا مختلف انداز میں علیک سلیک کرتے ہیں، یا یہ کہ ہمیں دوسری قوموں سے کچھ شکایات ہیں، یا یہ کہ ہمیں زیادہ معاشی مواقع کی خواہش ہے یا یہ کہ ان لوگوں کے لیے جو خود کو محض عادت کے طور پر ’مسلمان‘ کہلواتے ہیں، زیادہ کشادہ جگہ کی طلب ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مطالبۂ پاکستان کا اگر کوئی جواز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ایک سچی اسلامی مملکت قائم کی جائے، دوسرے لفظوں میں یہ کہ عملی زندگی میں اسلامی احکام و شعائر رائج کیے جائیں‘‘۔
’’پاکستان کے بارے میں میرا تصور یہی ہے ، اور میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں کا بھی یہی تصور ہے۔ میں نے ’بہت سے‘ کہا ہے، ’سب‘ نہیں کہا، اور نہ ’بیش تر‘ کہا۔ اس احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر و بیش تر تعلیم یافتہ طبقے کا تصور پاکستان یہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا مطلب فقط یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کو ہندو غلبے سے نجات دلائی جائے اور ایک ایسی ہیئت حاکمہ قائم کی جائے جہاں مسلمانوں کو اقتصادی مفہوم میں اپنی ایک خودمختار جگہ مل جائے۔ ان کے نزدیک اسلام کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ متعلقہ لوگوں کا مذہب اتفاق سے اسلام ہے، جیسے کہ آئرلینڈ کی جدوجہد آزادی میں کیتھولکیت کو بھی اس لیے کچھ اہمیت حاصل ہوگئی تھی کہ آئرلینڈ کے بیش تر باشندوں کا یہی مذہبی تھا، اور جس طرح کہ آئرستانی قومیت کی تحریک میں کیتھولکیت کو محض ایک اضافی، جذباتی عنصر کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، اسی طرح خدشہ ہے کہ تحریکِ پاکستان میں اسلام کے نام پر نعرے بازی بھی کہیں قومی خوداختیاری کی جدوجہد میں محض ایک اضافی، جذباتی عنصر بن کر نہ رہ جائے‘‘۔
میں صاف صاف اور واشگاف لفظوں میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے بہت سے بھائی اور بہنیں پاکستان کے روحانی و اسلامی مقاصد پر یقین تو کیا رکھیں گے ، وہ ان کی مطلق پروا بھی نہیں کرتے، اوروہ ایسے جذبات کے بہائو میں بہے چلے جارہے ہیں جو قوم پرستی کے جذبات سے ملتے جلتے ہیں۔ اور یہ بات خاص طور پر اُن مسلمانوں پر لاگو ہوتی ہے جنھوں نے مغربی خطوط پر تعلیم پائی ہے۔ دین اسلام سے اُن کی بے اعتنائی گذشتہ چند عشروں میں پختہ ہوئی ہے۔ شرعی احکام کی پابندی ایسے لوگوں کے لیے خاصی پریشان کن اور تکلیف دہ بن گئی ہے۔ مغربی طرزِفکر کے سوا کسی اور انداز میں سوچنے سمجھنے کی قابلیت ان میں مفقود ہوچکی ہے۔ چنانچہ ان کے قلوب میں یہ عقیدہ پیدا ہی نہیں ہوتا کہ دنیا کے معاشرتی اور سیاسی مسائل خالص مذہبی اصولوں کے تحت حل پذیر ہوسکتے ہیں۔ اسلام کا نام ان کی زبان پر آتا ہے تو محض رسماً آتا ہے، کسی اصول و نظریے کے تابع ہوکر نہیں آتا۔ انھیں اسلام سے کوئی دل چسپی ہوتی ہے، تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ اپنی قوم کی روایات میں ثقافتی اقدار کا بھرم رکھا جائے۔ اس قسم کی ذہنیت والے لوگوں کے لیے پاکستان کا مطالبہ ویسا ہی قومی مطالبہ ہے، جیسے مصر مصریوں کے لیے، چیکوسلواکیہ چیک لوگوں کے لیے، یعنی لوگوں کے ایک گروہ کی جانب سے، چند مخصوص اقتصادی مفادات اور چند مشترکہ ثقافتی خصائص (اور مسلمانانِ ہند کی صورت میں اسلام سے وابستہ ثقافتی خصائص) کی اساس پر خوداختیاری کا مطالبہ۔ نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔
یقینا آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ یہ پاکستان کا بہت کمزور تصور ہے۔ یہ تصور اس اسلامی جوش و خروش سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا، جس کا مظاہرہ ہمارے عوام کی بہت بڑی اکثریت بڑے واضح، لیکن بڑے بے ہنگم طریقے سے کر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اکثر نام نہاد اربابِ دانش اسلام سے صرف اس حد تک غرض رکھتے ہیں، جس حد تک کہ وہ ان کی سیاسی خوداختیاری کی جدوجہد کے لیے مفیدمطلب ہوسکتا ہے، جب کہ ہمارے عوام خوداختیاری کا مطالبہ صرف احیاے اسلام کی آرزو کے تحت کررہے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کی آرزوئیں واضح نہیں ہیں اوروہ نہیں جانتے کہ انھیں حاصل کیوں کر کیا جاتا ہے، اس لیے وہ قدرتاً اہلِ قیادت پر بھروسا کرتے ہیں۔ پس قیادت کے روحانی اوصاف ہی سے بالآخر یہ طے ہوگا کہ پاکستان کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد کی روحانی کیفیت کیا ہوگی، اور پاکستان اپنے قیام کے بعد کیسا رنگ روپ اختیار کرے گا؟
جہاں تک مسلمانانِ ہند کا تعلق ہے، تحریکِ پاکستان کی جڑیں ان کے اس جبلی احساس میں پیوست ہیں کہ وہ ایک ’نظریاتی قوم‘ ہیں، اور اسی لیے وہ خودمختار، جداگانہ سیاسی وجود کے حق دار ہیں۔ بالفاظِ دیگر وہ محسوس کرتے اور جانتے ہیں کہ ان کا جداگانہ تشخص، دوسری اقوام کی طرح، مشترکہ نسلی مشابہتوں اور قرابتوں یا مشترکہ ثقافتی اقدار و روایات کے شعور کی بنیاد پر قرار نہیں پاتا، بلکہ اسلامی نظریہ و اعتقاد سے مشترکہ وابستگی کی اساس پر قرار پاتا ہے۔ پس ان پر لازم آجاتا ہے کہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کے جواز کی خاطر ایسا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کریں جس میں اسلامی نظریہ و اعتقاد (یعنی شریعت) ان کی قومیت کے ہرپہلو اور ہرمظہر میں سب کو دکھائی دے۔
یہ ہے تحریکِ پاکستان کا حقیقی و تاریخی نصب العین۔ یہ ہرگز ہندستان میں مسلم اقلیت کے اجتماعی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ غیرمسلم اقلیتیں رہیں گی، جس طرح کہ ہندستان میں مسلم اقلیتیں رہیں گی، اس لیے اقلیتوں کے مسئلے کے سراسر حل کی ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں ہوتی۔ یہی ہے وہ نکتہ جس پر ہمیں اور ہمارے نکتہ چینوں کو ذرا رُک کر غوروفکر کرلینا چاہیے۔ اقلیتوں کا مسئلہ بے شک ہرلحاظ سے ہندستان کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے، لیکن یہ مسئلہ بنیادی طور پر تحریکِ پاکستان کا ذمہ دار نہیں ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اقلیتوں کا مسئلہ تحریکِ پاکستان کے اصلی نصب العین کا ایک اتفاقی لازمہ ہے۔ تحریکِ پاکستان کا اصلی نصب العین کیا ہے؟ ایک اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام، جس میں ہمارا نظریہ حقیقت کا رنگ روپ اختیار کرسکے۔ صرف اسی نصب العین کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ممبئی یا مدراس کے مسلمان، جن کو خوب معلوم ہے کہ ان کے صوبے پاکستان کا حصہ نہیں بنیں گے، حصولِ پاکستان کے اتنے ہی متمنی ہیں جتنے پنجاب یا بنگال کے مسلمان۔ ممبئی اور مدراس کے مسلمان یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے صوبے جغرافیائی و علاقائی اعتبار سے پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے، اگر ’مسلم اکثریت‘ کے صوبوں کے بھائیوں کی مانند پوری شدت و توانائی سے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ اس دعوے کا ٹھوس ثبوت ہوگا کہ اسلام ایک عملی مذہب اور مکمل ضابطۂ حیات ہے، اور یہ کہ مسلمان، محض مسلمان ہونے کی بنا پر ایک ملت ہیں، خواہ وہ جغرافیائی لحاظ سے کسی بھی علاقے میں آباد ہوں۔ اور اگر غیرمسلم ہمارے اس دعوے پر اس بنیاد پر نکتہ چینی کرتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی، حتیٰ کہ دنیاے اسلام میں بھی، کسی ملک یا علاقے میں محض مذہبی عقائد کی اساس پر جداگانہ قومیت کا مطالبہ نہیں کیاجاتا، تو ہمارا جواب یہ ہے کہ یہی تو تحریکِ پاکستان کی خاص انفرادیت ہے۔
کیا دوسروں کو یہ طے کرنے کا حق دے دیا جائے کہ ہماری قومیت کے عناصر کیا ہونے چاہییں اور کیا نہیں؟ کیا ہمیں اس حقیقت کے اعتراف میں شرمساری محسوس کرنی چاہیے کہ ہمارا سیاسی نصب العین ترکوں، مصریوں، افغانیوں، شامیوں یا ایرانیوں کے موجودہ سیاسی نصب العین سے بالکل مختلف ہے؟ کیا ہمیں یہ سوچ کر فخر نہیں کرنا چاہیے کہ تمام مسلم اقوام میں، یہ ہم اور صرف ہم مسلمانانِ ہند ہیں جو گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف لوٹاکر اُمت واحدہ کے اُس تصور کی جستجو میں نکل کھڑے ہیں جس کی ہدایت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لیے روشن کردی تھی۔
پس دنیاے اسلام میں جہاں کہیں بھی سیاسی عوامی تحریکیں چل رہی ہیں ، ان سب کے مقابلے میں تحریکِ پاکستان فی الحقیقت منفرد و یکتا ہے۔ اس جیسی اور کوئی تحریک نہیں۔ بلاشبہہ وسیع و عریض دنیاے اسلام میں اور بھی لوگ ہیں جو اسلام کے سچے شیدائی ہیں، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے فروغ کے لیے اور اپنی قوم کی اخلاقی سربلندی کے لیے بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن پوری دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے، سواے تحریکِ پاکستان کے، کہ پوری کی پوری مسلم قوم منزلِ اسلام کی جانب گامزن ہوگئی ہو۔ پوری دنیاے اسلام میں کوئی عوامی تحریک ایسی نہیں ہے، جس کی اساس اسلامی جذبے پر رکھی گئی ہو، سواے تحریکِ پاکستان کے۔ کسی بھی موجودہ اسلامی ملک میں ایسی تحریک نہیں چلی جس کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ ہو، سواے تحریک پاکستان کے۔ بعض اسلامی ممالک، مثلاً ترکی اور ایران، اپنے سرکاری و حکومتی مقاصد میں علانیہ غیراسلامی ہیں، اور انھوں نے کھلم کھلا اعلان کررکھا ہے کہ اسلام کو سیاست اور عوام کی معاشرتی زندگی سے الگ رکھنا چاہیے۔ حتیٰ کہ اُن اسلامی ملکوں میں بھی، جہاں مذہب کی تھوڑی بہت قدر باقی ہے، اور جہاں مختلف مدارج میں اس کی روحانی میراث برقرار ہے، وہ بھی یوں سمجھیے کہ صرف ان معنوں میں ’اسلامی‘ ہیں کہ وہاں کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے، جب کہ ان کے سیاسی مقاصد و عزائم اسلامی اصول و نظائر کے تابع نہیں ہیں، بلکہ ان کے حکمران یا مقتدر گروہ جس چیز کو ’قومی مفادات‘ کہتے ہیں، مغرب کے مفہوم ہی میں ’قومی مفادات‘ ہیں۔ اس لیے ان ملکوں کی سیاسی تنظیمات سے، خواہ وہ سعودی عرب یا افغانستان کی طرح مطلق العنان سلطنت ہوں یا شام کی طرح ری پبلک ہوں یا مصر اور عراق کی طرح آئینی بادشاہت ہوں، اسلام کی طرف جھکائو رکھنے کی توقع نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ملکوں کے عوام یا حکمران اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مختلف تاریخی وجوہ سے ان کی حکومتوں یا سیاسی نظاموں کا اسلام سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔
تحریکِ پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بلاشبہہ اس تحریک میں اسلام سے جذباتی وابستگی اور اسلامی سیاسی نظام میں آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس تحریک کی عملی کامیابی کا سبب ہمارے عوام کی یہ جذباتی خواہش (اگرچہ مبہم) ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کی جائے، جہاں حکومت کی اشکال و اغراض اسلام کے اصول و احکام کے مطابق ہوں، ایک ایسی ریاست جہاں اسلام عوام کے مذہبی و ثقافتی روایات کا محض ٹھپہ نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی تشکیل و تاسیس کا بنیادی مقصد ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک ایسی نئی اسلامی ریاست جو جدید دنیا میں پہلی ریاست ہوگی___ تمام اسلامی ملکوں کے سیای افکار میں انقلاب برپا کردے گی اور دوسرے اسلامی ملکوں کے عوام میں بھی تحریک پیدا کرے گی کہ وہ ایسے ہی نصب العین کے لیے جدوجہد کریں، اور یوں یہ ریاست (پاکستان) دنیا کے اکثر حصوں میں تجدید و احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ بن جائے گی۔
اس لیے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تحریکِ پاکستان احیاے اسلام کے لیے زبردست امکان کا درجہ رکھتی ہے اور جہاں تک میری نظر جاتی ہے، تحریکِ پاکستان ایک ایسی دنیا میں تجدید و احیا کی ’واحد اُمید‘ ہے جو بڑی تیزی سے اسلامی مقاصد سے دُور ہٹتی جارہی ہے۔ لیکن یہ ’واحد اُمید‘ بھی اس اعتبار پر قائم ہے کہ ہمارے قائدین اور عوام قیامِ پاکستان کا اصل مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور اپنی تحریک کو ان نام نہاد ’قومی‘ تحریکوں میں شامل کرنے کی ترغیب میں نہ آئیں جو آئے دن جدید دنیاے اسلام میں اُبھرتی رہتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور مجھے کبھی کبھی اس کے رونما ہونے کا خدشہ صاف نظر آتا ہے۔ میری مراد نسلی خطوط پر قوم پرستی سے نہیں ہے، جس کی مثالیں دوسرے ملکوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ مسلمانانِ ہند میں نسلی بنیاد پر قوم پرستی ناممکن ہے، کیونکہ یہاں مسلم قوم انتہائی متنوع نسلی عناصر سے ترکیب پائی ہے۔ لیکن تحریکِ پاکستان کے اپنے اصلی نظریاتی راستے سے منحرف ہونے کا خطرہ مجھے ایک اور سبب سے نظرآرہا ہے۔ وہ سبب یہ ہے کہ ’ثقافتی قومیت‘ پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے، یعنی مشترکہ نظریاتی اساس کے بجاے چند مخصوص ثقافتی رجحانات، سماجی عادات و رسوم کا تحفظ، اور اس گروہ کے معاشی مفادات کا تحفظ جو بربناے پیدایش ’مسلمان‘ واقع ہوئے ہیں۔ اس میں شک و شبہے کی گنجایش نہیں کہ اسلامی خطوط پر مسلمانوں کے مستقبل کی منصوبہ سازی میں ثقافتی روایات و اقدار اور فوری معاشی تقاضوں کی پاسداری انتہائی اہمیت کے حامل عوامل ہیں، لیکن جو نکتہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ ان انتہائی اہم عوامل کو ہمارے نظریاتی نصب العین سے الگ جداگانہ حیثیت نہیں دی جاسکتی۔
لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ ہمارے اکثروبیش تر اربابِ دانش سے یہ غلطی سرزد ہوکر رہے گی۔ جب وہ پاکستان کی بات کرتے ہیں توو ہ اکثر یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے مسلم دنیا کے ’حقیقی‘ مفادات اسلام کے خالص نظریاتی مفادات سے جدا کوئی چیز ہوں۔ بالفاظِ دیگر اسلام کے بنیادی نظائر و شعائر سے کوئی تعلق رکھے بغیر بھی ’اچھا پاکستانی‘ بننا ممکن ہے۔
میرا خیال ہے کہ قارئین محترم میری اس راے سے اتفاق کریں گے کہ ’مسلم مفادات‘ اور ’اسلامی مفادات‘ میں تفریق کرنا بے عقلی کی بات ہے۔اسلام مسلمانوں کے وجود و تشخص کے چند عوامل و خصائص میں سے محض ایک نہیں ہے، بلکہ اسلام تو ان کے وجود کی تاریخی علت اور بنیادی جواز ہے۔ مسلم مفادات کو اسلام سے جدا کوئی چیز خیال کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی ’زندہ چیز‘ کو زندہ بھی کہنا اور زندگی سے عاری بھی سمجھنا۔ ایک سوچنے سمجھنے والے آدمی کے نزدیک یہ کیسی بھی بے عقلی کی بات ہو، یہ امر بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بیش تر لوگ (اور ان میںہمارے بیش تر اربابِ دانش بھی شامل ہیں) غوروفکر نہ کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں۔
جب ہمارے قائدین اور ہمارے اربابِ دانش حصولِ پاکستان کی خاطر مسلمانوں سے اتحاد، اخوت، ایثار اور ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کی اپیلیں کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ’اسلامی ہیئت حاکمہ‘ کا نقشہ کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریکِ پاکستان کے منفی پہلو سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ یہ منفی پہلو ناممکنات سے ہے، یہ کہ غیرمسلم غلبے کے تحت مسلمانوں کا آزادانہ زندگی گزارنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریکِ پاکستان کے مثبت پہلو سے تعلق کم کم رکھتے ہیں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ اسلام کی خاطر، اسلام کے مطابق اپنا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کرنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ اکثر و بیش تر تعلیم یافتہ مسلمانوں اور ہمارے اکثر سیاسی لیڈروں کے نزدیک اسلام محض غیرمسلموں سے فرقہ وارانہ جدوجہد میں ایک جنگی تدبیر ہے، بجاے اس کے کہ اسلام مقصود بالذات ہوتا۔ گویا اسلام ہماری منزلِ مقصود نہیں، ایک منطقی استدلال ہے۔ ایک اُمنگ نہیں، ایک نعرہ ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہمارے اکثر رہنما نام نہاد مسلم قوم کے لیے زیادہ سیاسی قوت اور زیادہ معاشی مراعات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، بجاے اس کے کہ وہ نام نہاد مسلم قوم کو ایک سچی اسلامی قوم بنانے کی کوشش کرتے؟
ہمارے رہنمائوں نے اب تک جو اچھے کام انجام دیے ہیں، میں انھیں کم کرکے نہیں دکھانا چاہتا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بعض اعتبار سے ان کے کارنامے بہت زیادہ ہیں اور انتہائی تعریف و توصیف کے مستحق ہیں۔ انھوں نے ایک خوابِ خرگوش میں ڈوبی ہوئی قوم کو بیدار کیا ہے، یہی کارنامہ بہت بڑا ہے۔ پھر یہ کہ انھوں نے قوم میں ایسا زبردست اتحاد پیدا کیا ہے، جو دنیاے اسلام میں اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آیا۔ ہر ذی ہوش آدمی اس کا اعتراف کرے گا اور کرنا چاہیے۔ میں جو اپنے بعض رہنمائوں پر الزام تراشی کرتا رہتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے مسلم عوام کی تقدیر بدل دینے والی اس فیصلہ کن گھڑی میں انھیں روحانی عظمت کی راہ پر گامزن کرنے کے بجاے دیدہ دانستہ اس راہ پر لگا دیا جو بنیادی طور پر ہمارے موجودہ بحران کی ذمہ دار ہے۔ اس بات کو مَیں سادہ لفظوں میں یوں کہوں گا کہ ہمارے رہنمائوں نے یہ بتانے اور دکھانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ اسلام ہی ہماری موجودہ جدوجہد اور تحریک کا اصل اور بنیادی مقصد و منتہا ہے۔ اس میں شک نہیں، جب وہ اخباری بیان جاری کرتے ہیں یا عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہیں تو اسلام کا نام ضرور لیتے ہیں، لیکن لفظ اسلام کا استعمال وہ صیغہ مستقبل میں کرتے ہیں، کہ جب پاکستان وجود میں آجائے گا تو اسلام بھی آجائے گا۔ انھوں نے کبھی مسلمانوں کے موجودہ طرزِفکر اور طرزِحیات کو اسلامی اصول و احکام سے زیادہ ہم آہنگ اور مطابق کرنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی۔ میرے خیال میں، یہ بہت بڑی فروگذاشت ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مستقبل حال کا بچہ ہے، اٹل ہے، غیرمتبدل ہے۔ جیسا ہم آج سوچیں اور کریں گے، اس کااثر ہماری کل کی زندگی پر ضرور پڑے گا۔ اگر پاکستان کا مطلب فی الواقعی لا اِلٰہ الا اللہ کے کلمے میں پوشیدہ ہے، تو ہمارا عمل بھی اس کلمے کے مطلب کے قریب سے قریب تر ہونا چاہیے۔ گویا ہمیں صرف اپنے قول کا سچا مسلمان نہیں، بلکہ اپنے عمل کا بھی پکا مسلمان ہونا چاہیے۔
یہ فریضہ اور منصب ہمارے رہنمائوں کا ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو تلقین کریں کہ آج وہ پکّے مسلمان بنیں تاکہ کل سچے پاکستانی بن سکیں۔ حالانکہ وہ ہمیں صرف اس امر کا یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کے بنتے ہی ہم پکّے مسلمان بن جائیں گے۔
یہ آسان اور لفظی یقین دہانی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ پرلے درجے کی خود فریبی ہے۔ اگر ہم اسلامی زندگی کا بیج آج نہیں بوئیں گے ، جب کہ اسلام کے لیے ہمارا تحریکی جوش و خروش اپنے عروج پر ہے، تو کوئی بھی معقول آدمی اس یقین دہانی پر اعتبار نہیں کرے گا کہ جب تحریک ختم ہوجائے گی اور سیاسی آزادی مل جائے گی، تو ہم یکایک اور خودبخود سچے اور پکّے مسلمان بن جائیں گے۔
’’بھائی صاحب، تم قنوطی ہو، خواہ مخواہ تشویش میں مبتلا رہتے ہو۔ ہم سب سچی اسلامی زندگی کے آرزو مند ہیں لیکن ابھی، اسی وقت اس پر اصرار خلافِ مصلحت ہوگا۔ ہماری صفوں میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو سیاسی میدان میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن غلط تربیت کے باعث مذہب کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنی تحریک کے آغاز ہی میں اپنی جدوجہد کے مذہبی پہلو پر زیادہ زور دیں گے تو ان قیمتی کارکنوں کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا، جس کا ہماری جدوجہد پر بہت بُرا اثر پڑے گا اور یہ سراسر نقصان کی بات ہوگی۔ ہمارے نصب العین کو ضعف پہنچے گا۔ ہم اپنے رضاکاروں کو کھونا نہیں چاہتے۔ ان کی خدمات سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ ہماری اپنی اسلامی مملکت حاصل ہونے تک ہم اپنے عوام کی مذہبی اصلاح کا کام ملتوی کرنے پر مجبور ہیں۔ فی الحال ہمیں اپنی پوری توانائیاں اس چھوٹے مقصد کے حصول کے لیے وقف کردینی چاہییں، یعنی غیرمسلم تسلط سے مسلمانوں کی آزادی اور اپنی توانائیاں خالص مذہبی معاملات پر فی الحال خرچ نہیں کرنی چاہییں۔ ایک سچی ہیئت حاکمہ کا قیام اور مسلمانوں میں سچا مذہبی شعور بہت اہم کام ہے، لیکن یہ قیامِ پاکستان کے بعد شروع ہوگا۔ فی الحال مغرب زدہ بھائیوں اور بہنوں کو اپنے نصب العین سے الگ کردینے سے نقصان ہوگا، بلکہ مذہب پر زیادہ زور دینے سے پاکستان کے علاقے میں رہنے والی غیرمسلم اقلیتوں کو بھی تشویش پیدا ہوگی‘‘۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ طرزِ استدلال بالکل غلط ہے، اور عقلی لحاظ سے بددیانتی۔ آیئے ان حضرات کی ایک ایک دلیل پر نکتہ بہ نکتہ غور کرتے ہیں۔ پہلے غیرمسلم اقلیتوں والی بات لیتے ہیں۔
جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اسلامی طرزِ فکر و حیات پر زور دینے سے ہماری غیرمسلم اقلیتوں میں تشویش پیدا ہوگی، تو میں آپ سے پوچھتا ہوں: ’’وہ کیا چیز ہے جس نے غیرمسلموں کو نظریۂ پاکستان کا سخت مخالف بنا رکھا ہے؟‘‘ ظاہر ہے، فرقہ وارانہ راج کا خوف، اس بات کا خوف کہ مسلم اکثریتی علاقے بھارت ماتا سے کٹ جائیں گے۔ یہ مسئلہ غیرمسلموں کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوتا کہ مسلمان اسلامی اصول و احکام کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ وہ اگر خائف ہیں تو اس بات سے کہ بعض علاقوں میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہوجائے گا۔ انھیں بہ نظر ظاہر اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مسلمان اپنے مذہب پر چلنے کی کتنی اُمنگ رکھتے ہیں اور اس پر چلنے کے کیسے عزائم رکھتے ہیں۔ بعض علاقوں میں مسلم سیاسی اقتدار کے خلاف وہ ہرحالت میں اور ہرصورت میں مخالفت کریں گے اور اسے رکوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔
ہمارے حریفوں کے مخالفانہ رویے کے باوجود اگر انھیں یہ باور کرایا جائے کہ ہم مسلمانوں کا مقصد ’سب کے لیے عدل و انصاف‘ کا قیام ہے تو وہ کسی حد تک اس خیال سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ وہ ضرور متاثر ہوجائیں گے، صرف یہ کہا ہے کہ متاثر ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ ہم انھیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں کہ ہم مسلمانوں کے مفاد کی خاطر غیرمسلموں کا استحصال نہیں کرنا چاہتے، بلکہ ہم انسانی اخلاق کے بنیادی اصولوں کی بالادستی قائم کرنے کے متمنی ہیں۔ لہٰذا یہ ہمارا فرض عین ہے کہ ہم پوری دنیا پر ثابت کردیں کہ ہم فی الواقعی قرآن مجید کے ان الفاظ کے معنی و منشا و معیار کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ، اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہمارا بہترین اُمت ہونے کا انحصار اس امر پر موقوف ہے کہ ہم ہمیشہ اور ہرحالت میں انصاف کی بالادستی اور بے انصافی کے انسداد کے لیے، جدوجہد کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ غیرمسلموں کو اپنی عدل گستری کا یقین دلانے سے پہلے ہمیں ایک سچی مسلم قوم بننا پڑے گا۔ ہم بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک غیرمسلم کو ایک ایسی ریاست میں رہتے ہوئے تشویش ضرور لاحق ہوگی، جو اس کی نظر میں معاشی حقوق و مفادات میں مسلمانوں کو غیرمسلموں پر ترجیح دے گی۔ لیکن اگر اسے یقین دلایا جائے کہ وہاں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا تو اس کی تشویش اگر دُور نہیں ہوگی، تو اس میں کمی ضرور ہوجائے گی۔ اب یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہم اپنے حریفوں کو اپنی اصلی سچائیاں نہیں دکھا سکتے، جب تک ہم ان پر ثابت نہ کریں: اوّل یہ کہ اسلامی حکومت کا مطلب ہے عدل سب کے لیے۔ دوم یہ کہ ہم مسلمان واقعی اپنے دین کے احکامات پر قول و فعل میں سچے پیروکار ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں عدل سب کے لیے ہوتا ہے، تو ایسا ہی ہوگا۔ اس لیے یہ سمجھنا انتہائی غلط ہے کہ اگر ہم اپنے مذہبی مقاصد پر زور نہیں دیں گے اور حتی الوسع براہِ راست مذہبی حوالے دینے سے احتراز کریں گے، تو اس طرح غیرمسلم اقلیتوں کی تشویش دُور ہوجائے گی، بلکہ ہمارے اس رویے سے تو انھیں یہ شبہہ ہوگا کہ ہم منافقت سے کام لے رہے ہیں۔ ان کی تشویش دُور یا کم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم صاف دلی سے، اور پوری تفصیلات کے ساتھ بتا دیں کہ ہمارے اخلاقی مقاصد کیا ہیں جن کے لیے ہم جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن صاف دلی سے دیے گئے بیانات سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، تاوقتیکہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں انھیں یہ مشاہدہ نہ کرادیں کہ ہمارے اخلاقی مقاصد محض نعرے نہیں ہیں، بلکہ ہمارے اخلاقی اعمال ہیں۔
عارضی قسم کے ’خلافِ مصلحت‘ یا ’سیاسی تدبر‘ کے نام پر (غلط فہمی سے) اپنے اصل مستقل اسلامی مقاصد سے گریز پائی ایک ایسی عاقبت نااندیشی ہے، جس سے غیرمسلموں پر تو بُرا اثر پڑتا ہی ہے، ہم مسلمانوں کے اخلاقی مزاج پر بھی نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ ہم اسلام کے بتائے ہوئے راستے سے مزید دُور ہوجائیں، ہم مسلمانوں کے سامنے احیاے اسلام کا جو اصل نصب العین ہے، اس کے زیادہ سے زیادہ شعورو آگہی کے بجاے، ہم دوبارہ مصلحت اندیشی اور فوری آسایش کی اصطلاحوں میں سوچنے کے عادی ہوجائیں گے، جیساکہ ہم صدیوں سے اس کے عادی چلے آرہے ہیں، اور یوں پاکستان کا اسلامی نصب العین یقینا گھٹ کر صرف نظریہ پرستی بن کر رہ جائے گا، جیساکہ مغرب کی نام نہاد مسیحی اقوام میں مسیحیت کے سچے مقاصد گھٹ کر اپنی اصلیت کھو چکے ہیں۔ ہم ہرگز ایسا نہیں چاہتے۔
ہم پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ اسلام کو اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں ’حقیقت‘ بنادیں۔ ہم پاکستان اس لیے بناناچاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہرایک شخص، مرد وزن، سچی اسلامی زندگی گزار سکے۔ اور کسی فرد کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر زندگی بسر کرنا ممکن نہیں، تاوقتیکہ پورے کا پورا معاشرہ شعوری طور پر اسلام کو ملک کا قانون و دستور نہ بنائے اور کتاب و سنت کے احکام پر صدق دل سے عمل نہ کرے۔
لیکن اس قسم کا اصلی پاکستان کبھی حقیقت کا جامہ نہ پہن سکے گا، تاوقتیکہ ہم اسلامی قانون کو اپنے ’غیر واضح اور مبہم‘ مستقبل کے لیے اصل اصول نہ بنائیں اور ابھی اسی گھڑی، اسی گھنٹے، اسی منٹ ، اسی سیکنڈ سے اسلام اور اس کے احکام کو اپنے تمام شخصی اور معاشرتی طرزِعمل کی اساس نہ بنائیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری صفوں میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو مذہب کو اس حد تک غیراہم خیال کرتے ہیں، کہ ہم جو تحریکِ پاکستان کے مذہبی رُخ پر اس قدر اصرار کررہے ہیں تو ہم سے ناراض ہوجائیں گے۔ اگرچہ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ اگر انھیں یہ احساس دلایا جائے کہ مسلم قوم بہ حیثیت مجموعی اسلام کی جانب پیش قدمی کرنے کا عزمِ صمیم کرچکی ہے تو مذہب سے بے زار یہ لوگ بہت جلد جماعت کے آگے سرتسلیم خم کردیں گے۔ بہرصورت ان کی ذاتی ترجیحات کی زیادہ پروا نہیں کرنی چاہیے اور ہمارے عزم کی راہ میں ان کی بے عزمی کو راہ نہیں ملنی چاہیے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ رسول کریمؐ کفارِ قریش کی ناراضی سے بچنے کے لیے اور اس انتظار میں کہ ایک روز وہ اسلامی ریاست کی تشکیل و تعمیر میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے، ایک دن کے لیے بھی اسلامی مقاصد کی تحصیل و تکمیل کو ملتوی کردیتے؟
آپ اس کے جواب میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’رسولؐ تو آخر رسولؐ تھے، ان کے لیے مصلحت کوشی کو نظرانداز کرنا ممکن تھا۔ ہم تو عام سے فانی بندے ہیں‘‘۔ اس کے جواب میں، مَیں آپ سے پوچھوں گا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر یقین رکھتے ہیں:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب ۳۳:۲۱)، درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
کیا یہ حکمِ ربانی آپ کی سیاست اور آپ کی دعائوں، آپ کے ذاتی حالات و تفکرات اور آپ کی اجتماعی و معاشرتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا؟ (جاری)
محمد اسد اُمت مسلمہ کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھی جس نے علمی اور فکری میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور پاکستان کے قیام اور تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس جرمن نومسلم نے جب اسلام کے دائرے میں قدم رکھا تو پھر اس کی زندگی کا مقصد اسلام اور اُمت مسلمہ کی خدمت ہوگیا۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں شریک تھا اور تقسیم ملک کے بعد اس نے بھی دوسرے لٹے پٹے مہاجرین کی طرح اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف مراجعت کی۔ پاکستان ایک حقیقی اسلامی ریاست بنے، اس کے دل کی آرزو تھی۔ اس نے اس وقت کی حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر کی حیثیت سے پاکستان کی نظریاتی تعمیر کے لیے ایک روشن کردار ادا کیا، اور پھر سفارت کے محاذ پر پاکستان کی ترجمانی کرتا رہا۔ افسوس کہ بعد کی پاکستانی قیادت نے اسے مایوس کیا۔
محمداسد کی خودنوشت داستان شاہراہِ مکّہ فکرودانش اور علم و ادب کا ایک شاہکار ہے۔ بدقسمتی سے اس کی دوسری جِلد نامکمل رہی اور ان کے نوٹس کی مدد سے موصوف کی بیوہ نے مرتب کی ہے، جو انگریزی سے بھی پہلے اُردو میں جناب محمد اکرام چغتائی کی محنت سے بندہ صحرائی کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا ایک حصہ ہم قارئین ترجمان القرآن کی نذر کر رہے ہیں۔ اس سے ایک طرف ان جذبات اور مقاصد کا صحیح صحیح ادراک کیا جاسکتا ہے جو قیامِ پاکستان کا اصل محرک تھے تو دوسری طرف قیادت کی نااہلی اور دشمنوں کی عیاری کی ایک کرب ناک داستان بھی سامنے آتی ہے۔ تیسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بھارت کی غلامی کو کبھی بھی قبول نہیں کیا اور آج بھی وہ اس کے تسلط سے نجات پانے کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کس طرح ۴۹-۱۹۴۸ء میں ہماری سیاسی قیادت نے دھوکا کھایا اور جیتی ہوئی بازی ہار گئی اور کس طرح آج کے حکمران طبقے پھر انھی دشمن قوتوں کے چکمے میں آنے کے لیے بے تاب ہیں۔. خورشیداحمد
اکتوبر ۱۹۴۷ء کی صبح کو نواب افتخار حسین ممدوٹ نے مجھے اپنے دفتر بلایا۔ اس وقت ان کی عمر ۴۵سال کے لگ بھگ تھی۔ درازقد، صحت مند، خاموش طبع اور صاف ستھرے ذہن کے مالک اور تقسیمِ ہند سے قبل وہ ایک چھوٹی سی ریاست یا بالفاظ دیگر جاگیر کے کرتا دھرتا تھے۔ یہ جاگیر سترھویں صدی عیسوی [ان کے آبا کو] میں ایک مغل حکمران نے دی تھی۔ نواب صاحب تحریکِ پاکستان کے اکابرین میں شامل رہے اور اپنی ذاتی دولت کا بڑا حصہ اس تحریک کی نذر کر دیا۔ یہ جاگیر مشرقی پنجاب میں واقع تھی، چنانچہ تقسیم کے وقت اسے ہندستان ہی میں چھوڑ آئے اور لاہور آکر یہاں ایک متوسط درجے کے گھر میں سکونت پذیر ہوگئے۔ ان کی وفاداری اور راست بازی کے پیش نظر محمدعلی جناح نے پاکستان کے قائم ہوتے ہی انھیں مغربی پنجاب کا پہلا وزیراعلیٰ مقرر کر دیا۔ اس بنا پر انھیں قائداعظم کے قریب ترین رفقا میں شمار کیا جانے لگا۔
جونہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا، ممدوٹ صاحب رسمی تکلفات کی پروا کیے بغیر کہنے لگے: ’’اسد صاحب! میرے خیال میں اب ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اُٹھانے چاہییں۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کیا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟ کیا ہمیں وزیراعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟‘‘
کئی روز سے مجھے ایسے سوال کاانتظار تھا، چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا:’’ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا، اس لیے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیے۔ میری راے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے، جو ان نظریاتی مسائل کو زیربحث لاسکے، جن کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خدا نے چاہا تو آیندہ حکومتِ کراچی بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم اِدھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں‘‘۔
نواب صاحب فوری قوتِ فیصلہ کی صلاحیت کے مالک تھے، چنانچہ انھوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا: ’’آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہیے؟‘‘
میں نے جواباً عرض کیا: ’’اس کا نام ’محکمہ احیاے ملّت اسلامیہ‘ مناسب رہے گا، کیونکہ اس سے ہمارے مقصد کی بھرپور ترجمانی ہوگی، یعنی صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی معاشرتی زندگی اور فکر کی تعمیرنو‘‘۔
ممدوٹ صاحب نے بلاتوقف کہا: ’’بالکل درست، ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اس کے اخراجات کا ایک تخمینہ تیار کیجیے۔ آپ کو سرکاری طور پر اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبۂ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی۔ مجھے امید ہے، آپ اسے قبول کرلیں گے‘‘۔
مجھے امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی فیصلہ ہوجائے گا، لیکن نواب آف ممدوٹ کے فیصلوں کا یہی انداز تھا۔ چند دنوں کے اندر اندر اس ادارے کا رسمی میمورنڈم تیار ہوگیا۔ اس کے اخراجات کے تخمینے پر بحث ہوئی۔ شعبۂ مالیات کے سربراہ کے صلاح مشورے سے یہ منظور ہوگیا، اور سرکاری اطلاع نامہ بھی جاری کر دیا گیا۔ یوں دیکھتے دیکھتے محکمہ احیا ملّت اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا۔ پوری اسلامی دنیا میں یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا ادارہ تھا۔
میں نے لاہور کے بعض معروف علماے دین بالخصوص مولانا دائود غزنوی امیرجماعت اہلِ حدیث سے رابطہ قائم کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ایسے دو اصحاب کے نام بتائیں جو میرے تحت کام کرسکیں، عربی اچھی جانتے ہوں اور میری آیندہ کی تجاویز کو عملی شکل دینے میں جن ضروری حوالوں کی ضرورت پڑے، انھیں احادیث کے ضخیم مجموعوں میں سے تلاش کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ جلد ہی ایسے دو نوجوان اور باصلاحیت علما دستیاب ہوگئے اور انھیں یہ کام تفویض کردیا گیا۔ علاوہ ازیں مجھے پنجاب یونی ورسٹی کے ایک پُرجوش طالب علم کی جزوقتی خدمات بھی حاصل ہوگئیں۔ دفتر کے دیگر انتظامی اور مالیاتی امور کو بحسن و خوبی نبٹانے کے لیے مجھے اپنے قریبی دوست ممتاز حسن کا تعاون حاصل تھا، جو مغربی پنجاب کے شعبہ مالیات کے ایک اہم عہدے پر فائز تھے اور بعد میں اس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔
اب میں باقاعدہ طور پر سرکاری ملازم تھا، اس لیے مجھے دو رویہ درختوں کے ایک خوب صورت علاقے چمبہ ہائوس میں بلاکرایہ گھر بھی مل گیا (یہ لین مہاراجا آف چمبہ کے نام سے موسوم تھی۔ یہ ریاست کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع تھی اور تقسیم ہند سے پہلے مہاراج کا یہاں محل تھا)۔ اس گھر کے اردگرد چاروں طرف چھوٹا سا باغ تھا۔ یہ ایک تجارت پیشہ ہندو کی ملکیت تھا، جو ہندستان نقل مکانی کر گیا تھا۔ ممکن ہے،وہاں اسے کسی ایسے مسلمان کا گھر مل گیا ہو، جو اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پاکستان آگیا ہو۔ نظربندی کیمپ سے میری رہائی کے بعد میرا بیٹا طلال کیتھولک اسکول میں بطور اقامتی طالب علم زیرتعلیم تھا۔ یہ لاہور کا اعلیٰ ترین ادارہ تھا جس کو آئرلینڈ کے ڈومینیکن چلا رہے تھے۔ اب میں اپنی بیوی کے ساتھ لاہور ہی میں مستقلاً رہایش پذیر تھا،اس لیے طلال اس گھر میں منتقل ہوگیا اور یہیں سے ہر روز اسکول جانے لگا۔ اب میرے لیے یہ نئی صورت حال خاصی اطمینان بخش تھی۔
۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء کی صبح کو میں دفتر جانے کے لیے بذریعہ کار گھر سے نکل ہی رہا تھا (میں نے ایک متروکہ کار اپنے نام الاٹ کرا لی تھی) کہ اپنے ہمسائے اور دوست سرسکندر حیات خاں کے بھتیجے سردار شوکت حیات خاں سے میری ملاقات ہوگئی۔ وہ اس وقت خاصے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ انھوںنے بتایا: ’’میں نے ابھی ریڈیو پر یہ خبر سنی ہے کہ گاندھی کو قتل کردیا گیا ہے۔ خدا کاشکر ہے کہ قاتل کوئی مسلمان نہیں ہے‘‘___ میں اس کی پریشانی میں برابر کا شریک تھا۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ اگر قتل کرنے والا مسلمان ہوتا، تو ہندستانی حکومت اپنی مسلمان رعایا کے ساتھ کیا سلوک کرتی۔ بہرحال چند گھنٹوں بعد آل انڈیا ریڈیو نے واضح بیان جاری کردیا کہ گاندھی کا قاتل راشٹریہ سیوک سنگھ کا رکن ہے۔ یہ انھی متعصب ہندوئوں کی جماعت تھی، جس نے ڈلہوزی کے مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا تھا۔
محکمہ احیاے ملّت اسلامیہ کا کام آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ ہم زکوٰۃ اور عشر کے اہم موضوع پر پورے انہماک سے تحقیق کر رہے تھے، کیونکہ کسی بھی اسلامی مملکت میں شرعی اعتبار سے محصولیات کی بنیاد انھی دو پر ہے۔ ابھی تلاش و تفحص کا یہ مرحلہ طے ہو رہا تھا کہ ممدوٹ صاحب نے دوبارہ اپنے دفتر بلایا۔ میرے داخل ہوتے ہی وہ حسب معمول کسی تکلف کے بغیر گویا ہوئے: ’’میں نے ابھی ابھی آپ کا مضمون ’اسلامی دستورسازی کی جانب‘ پڑھا ہے، جو عرفات کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔ آپ انھی خطوط پر قدرے شرح و بسط کے ساتھ ایک میمورنڈم تیار کیجیے۔ میں اسے مغربی پنجاب کی حکومت کی جانب سے شائع کرائوں گا اور اس کو دیکھ کر ممکن ہے، مرکزی حکومت بھی اس جانب متوجہ ہو‘‘۔ چنانچہ ۱۹۴۸ء میں میرا یہی انگریزی مضمون مع اُردو ترجمہ مغربی پنجاب کی حکومت کی زیرنگرانی طبع ہوا۔ کچھ ہفتوں بعد وزیراعظم کی جانب سے مجھے کراچی آنے کا پیغام موصول ہوا۔
لیاقت علی خاں سے یہ میری پہلی ملاقات نہیں تھی۔ میں قیامِ پاکستان سے قبل ان سے گاہے گاہے ملتا رہتا تھا۔ ان سے جب بھی گفتگو کا موقع ملتا، وہ کھلے ذہن اور پوری توجہ سے میری باتیں سنتے اور ساتھ ساتھ متواتر سگریٹ نوشی کرتے رہتے (میں نے جب بھی انھیں دیکھا، انھوں نے اسٹیٹ ایکسپریس کے ۵۰ سگریٹوں کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑا ہوتا یا ان کے میز پر پڑا رہتا)۔ اس ملاقات میں بھی وہ سگریٹ سے سگریٹ سلگائے جا رہے تھے۔ انھوں نے مجھے بھی سگریٹ پیش کیا، چائے منگوائی اور مجھے اسلامی دستور پر قدرے تفصیل سے لکھنے کا مشورہ دیا۔ ہماری ابتدائی دو ملاقاتوں میں بھی وہ اس اہم مسئلہ پر سنجیدگی سے گفتگو کرتے تھے۔ انھوں نے سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’لیکن ہم اس موقع پر خود دستورسازی کا عمل شروع نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ کشمیر پر ہندستان نے قبضہ کرلیا ہے اور ہمارے پٹھان بھائیوں کی سری نگر پر قبضہ کرنے کی کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ یہ بھی امرمسلّمہ ہے کہ فوجی اعتبار سے ہندستان ہم سے بہت مضبوط ہے۔ ہم تو ابھی حکومتی مشینری کے کُل پرزے درست کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے لیے وقت اور سعی پیہم کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ساتھ سارے کام شروع نہیں کرسکتے۔ میں مانتا ہوں کہ دستور سازی کا عمل اہم اور دور رس نتائج کا حامل ہے، لیکن اسے بھی فی الحال مؤخر کرنا پڑے گا‘‘۔
میں وزیراعظم کی اس گفتگو سے متاثر ہوا، کیونکہ انھوں نے بلاتکلف حکومت کو درپیش تمام مسائل کا کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ میں جانتا تھا کہ میری طرح وہ بھی پاکستان کے اسلامی تشخص کو اُجاگر کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن ابھی حالاتِ حاضرہ کے دبائو کے تحت اِدھر توجہ دینے سے گریز کرر ہے تھے۔ میں نے ان کے مؤقف سے اتفاق کیا اور رخصت ہوتے وقت انھوں نے مجھے کہا: ’’فی الحال ہمیں خود کو اس مسئلے پر سوچ بچار کرتے رہنا چاہیے‘‘۔
اس کے بعد کابینہ کے سیکرٹری چودھری محمدعلی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور مجھے اندازہ ہوا کہ حکومت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی استحکام کا ہے۔ انھوں نے بتایا: قائداعظم نے امیرترین مسلمان حکمران نظام حیدرآباد دکن سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان کو سونے چاندی کی شکل میں چند لاکھ پائونڈ سٹرلنگ اُدھار دیں اور انھیں اپنے نام پر ہی بنک میں جمع کرا دیں، تاکہ پاکستانی کرنسی کو تحفظ مل سکے۔ لیکن نظام دولت کے انبار کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے قائداعظم کی درخواست کو رد کر دیا ہے۔ چند ماہ بعد ہی ہندستان نے حیدرآباد ریاست کی خودمختار حیثیت ختم کر کے اسے اپنے ملک کا حصہ بنا لیا اور نظام کے سونے چاندی کے تمام ذخیرے بھی ہندوستانی حکومت کے تصرف میں چلے گئے۔ نظام کے ساتھ ساتھ خود ان کی آل اولاد اور پاکستان بھی ہمیشہ کے لیے ان خزانوں سے محروم ہوگئے۔
جب میں چودھری محمدعلی سے گفتگو کر رہا تھا، معاً مجھے نظام کے ذاتی خزینوں کی یاد آگئی۔ ۱۹۳۹ء میں، مَیں دوسری بار حیدرآباد گیا تھا اور اس وقت ریاست کے وزیرمالیات نے مجھے اس خزانے کا صرف ایک حصہ دکھایا تھا۔ متعدد کمروں میں قطار اندر قطار صندوق رکھے تھے اور یہ سب سونے اور قیمتی پتھروں سے بھرے پڑے تھے۔ ہیرے جواہرات سے بھرے لوہے کے تھال فرش پر رکھے تھے۔ مال و دولت کا ایک ناقابلِ یقین اور مُردہ ڈھیر، جو ایک فانی شخص کی مریضانہ اور عجیب وغریب حرص کا نمونہ تھا۔
لیاقت علی خاں نے اپنی گفتگو میں آزادیِ کشمیر کی جس جدوجہد کا ذکر کیا تھا، وہ ہمیشہ میری اور ہرپاکستانی کی سوچ پر غالب رہی ہے۔ اس کی جغرافیائی، نسلی اور مذہبی وضع قطع کے باعث اس حسین و جمیل سرزمین کو لازماً پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ تمام بڑے دریا (سندھ، جہلم، چناب اور راوی) مغربی پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں اور یہاں کی معیشت کا انحصار مکمل طور پر انھی دریائوں پر ہے۔ ہندستانی حکومت اور مہاراجا کے مابین اقرارنامہ کی وجہ سے ریڈکلف نے صریحاً دھوکے بازی سے مسلمانوں کی اکثریت کا ضلع گورداسپور ہندستان کے حوالے کر دیا۔ ریڈکلف کی یہ ’نوازش‘ تقسیم ہند کے طے شدہ بنیادی اصول کی خلاف ورزی تھی اور اسے کوئی پاکستانی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت پاکستان اپنی سربریدہ فوج کے سبب ہندستان سے جنگ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا، اس لیے قائداعظم نے کسی فوجی مداخلت کے امکان کو بالکل رد کر دیا۔ حکومت پاکستان کی اس واضح پالیسی کے بعد صوبہ سرحد اور افغانستان کے ملحقہ علاقوں کے پٹھانوں کے قبائل پاکستان کے نام پر کشمیر کو فتح کرنے چل پڑے۔
اکتوبر ۱۹۴۷ء میں محسود، وزیری اور آفریدی قبیلوں کے بڑے بڑے جتھوں نے کشمیر کی سرحد عبور کرکے بارہ مولا اور مظفرآباد پر بلامقابلہ قبضہ کرلیا۔ سری نگر کے اردگرد جو فوج تعینات تھی، اس میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ انھوں نے بھی بغاوت کردی اور پٹھان بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنے کو تیار ہوگئے۔ قبائلیوں کی پیش قدمی جاری تھی اور سری نگر تک پہنچنا انھیں آسان دکھائی دے رہا تھا، لیکن اس دوران میں ایک تکلیف دہ واقعہ رُوپذیر ہوگیا۔ یہ قبائل اپنی صدیوںپرانی غارت گری کی جبلت پر قابو نہ پاسکے اور سری نگر کی جانب قدم بڑھانے کے بجاے انھوں نے مظفرآباد کے شہریوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ دو دن تک لوٹ مار کا یہ بازار گرم رہا۔ یہ بڑا نازک وقت تھا، جسے ان قبائلیوںنے ضائع کر دیا۔ چنانچہ اس عرصے میں مائونٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کی ملی بھگت سے جوابی حملے کے انتظامات مکمل کرلیے گئے۔ نئی دہلی میں برطانوی فوج کے تعاون سے ہندوئوں اور سکھوں پر مشتمل فوجی دستوں کو جلدی جلدی منظم کیا گیا۔ انھیں ہتھیار فراہم کیے گئے اور ایک ہلکے توپ خانہ کا بھی انتظام کر دیا گیا، تاکہ وہ سری نگر پر قبضہ کرکے وہاں کے ہوائی اڈے کو بھی اپنے دائرۂ اختیار میں لے آئیں۔ اس طرح فوجی اور غیرفوجی جہازوں کے ذریعے ہندستانی فوج کی خاصی بڑی تعداد کو سری نگر پہنچا دیا گیا، جہاں سے وہ ریاست کشمیر کے دوسرے حصوں پر بھی اپنا تسلط جما لیں۔ آہستہ آہستہ پٹھانوں کو نکال باہر کیا گیا اور پھر ان کا جذبۂ جہاد مدہم پڑتے پڑتے ختم ہوگیا۔
تاہم کشمیر کی جنگ ختم نہیں ہوئی۔ اسی اثنا میں نئے قبائلی مجاہد اور ناگزیر طور پر پاکستانی فوج کے دستے بھی اس جنگ میں شامل ہوگئے۔ ہندستان نے وادیِ کشمیر پر قبضہ جمائے رکھا اور سرحد کے ساتھ ساتھ دُور تک پناہ گاہیں اور خندقیں بنالیں۔ آج تک ہندستان کشمیر کے اس حصے پر قابض ہے، جو گلگت سے لداخ اور کارگل کے برفانی پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ بالآخر پاکستان مسئلہ کشمیر کو مجلس اقوام متحدہ میں لے گیا،۱؎ جہاں استصواب راے کی قرارداد منظور کی گئی، جو اس علاقے کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔ حکومت ہندستان نے اس قرارداد کو بڑی بے دلی سے قبول کیا، کیونکہ
۱- یہاں مضمون نگار کو اشتباہ ہوا ہے، اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ بھارت لے کر گیا تھا۔ مدیر
یہ کھلی ہوئی حقیقت تھی کہ اس قرارداد پر عمل درآمد کا نتیجہ پاکستان کی فتح کی صورت میں نکلے گا۔ چنانچہ ہندستان حیلے بہانے سے بار بار اس مسئلے کو ملتوی کرتا رہا۔ اب یہی مسئلہ کشمیر، پاکستان اور ہندستان کے اچھے ہمسایہ ممالک جیسے تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے سپاہی خندقوں میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
ستمبر ۱۹۴۸ء میں مون سون کی بارشیں رُکتے ہی میں نے کشمیر محاذ پر جانے کا فیصلہ کرلیا۔
مغربی پنجاب کے فوجی افسران نے مجھے ایک جیپ اور دو سپاہی بطور محافظ مہیا کردیے اور میں کوہِ ہمالیہ کی جانب روانہ ہوگیا۔ مری کے بعد سڑک تنگ اور ڈھلوانی ہوتی گئی۔ کہیں کہیں اسے تھوڑا سا چوڑا کیاگیا تھا،تاکہ وہاں سے مقابل سمتوں سے آنے والی دو گاڑیاں گزر سکیں۔ اس سڑک پر ہندستان کے جنگی جہازاچانک یلغار کرتے اور مشین گنوں سے گولیاں بھی برساتے چلے جاتے تھے، اس لیے ہم رات کو روشنی کے بغیر سفر کرتے تھے۔ ہماری رفتار سُست تھی۔ پہاڑ اور ڈھلوان کے درمیان سرکتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے اور کبھی کبھی چند لمحات کے لیے جیپ کی بڑی بتیاں جلا لیتے تھے۔
ہم مظفرآباد کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے سورج طلوع ہونے سے پہلے بلندوبالا برف پوش چوٹیوں میں واقع پہلی فوجی چوکی تک پہنچ گئے۔ وہاں سے ہم پیدل چلتے ہوئے فوج کے ایک سپاہی کی رہنمائی میں اُونچی نیچی ڈھلوانوں سے گزرتے ہوئے خاصی بلندی پر آگئے۔ یہاں ایک چرواہے کی پرانی سی جھونپڑی تھی، جو اب فوجیوں کو اسلحہ بھجوانے کے لیے بطور ڈاک چوکی استعمال کی جارہی تھی اور محاذ پر لڑتے ہوئے جو فوجی زخمی ہوجاتے تھے، انھیں ابتدائی طبی امداد بھی یہیں فراہم کی جاتی تھی۔
یہ جھونپڑی پتھروں سے بنائی گئی تھی۔ اس کی چھت پتھریلے ٹکڑوں اور درختوں کی ٹہنیوں سے تیار کی گئی تھی اور یہ چٹان کی دو عمودی دیواروں کے درمیان شگاف میں واقع تھی۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو یہ جھونپڑی سپاہیوں سے بھری پڑی تھی۔ کچھ ابھی اگلے محاذ کے مورچوں سے واپس آئے تھے اور کچھ وہاں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ نچلی چھت کے وسط میں پیرافن کا ایک لیمپ لٹک رہا تھا اور اس کی مدھم سی روشنی کئی چارپائیوں پر پڑ رہی تھی۔ چارپائی مخصوص پاکستانی بستر ہے، جو لکڑی اور انترچھال کی رسیوں سے بنایا جاتا ہے۔ ان چارپائیوں پر زخمی سپاہی آرام کررہے تھے۔ کمپنی کا طبی عملہ یہاں ان کا عارضی علاج معالجہ کر رہا تھا اور یونہی گاڑی پہنچتی، انھیں نیچے وادی میں قائم کردہ ہسپتال پہنچا دیا جاتا۔
یہاں دو آدمیوں نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ ساتھ ساتھ پڑی ہوئی دو چارپائیوں پر لیٹے تھے۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ شدید زخمی تھے اور ان کے بچنے کی اُمید بہت کم تھی۔ اس کے باوجود وہ ہشاش بشاش اور ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ میرے جیسے کمزور دل شخص کے لیے یہ عجیب و غریب منظر تھا۔ ان میں ایک کہنے لگا: ’’یار! میں تمھیں بہت جلد دوزخ میں ملوں گا‘‘۔ اور دوسرے نے جواب دیا: ’’نہیں، ہم دوزخ میں نہیں جائیں گے۔ اگر ہم مرگئے تو یہ شہید کی موت ہوگی، کیونکہ ہم نے اللہ کی راہ میں جان قربان کی ہے‘‘۔ اسی لمحے سیکٹر کمانڈر کا بھیجا ہوا ایک ماتحت افسر آیا اور ہمیں مورچوں کی طرف لے گیا۔
میری سمجھ سے باہر ہے کہ کس طرح برف سے ڈھکی زمین پر دستی بیلچوں سے یہ مورچے بنائے گئے۔ یہ اتنے گہرے تھے کہ میرے جیسا درازقد شخص سر اور کندھوں کو جھکائے بغیر بآسانی ان میں چل پھر سکتا تھا۔ وہاں جگہ جگہ جال کے نیچے مشین گنیں نصب تھیں، جن کے بیرل عمودی پوزیشن میں تھے اور وہ اس لیے کہ دشمن کے جہاز نچلی پرواز کرتے ہوئے جو حملے کرتے تھے، اُن سے اِن مورچوں کو محفوظ کیا جائے۔ اس وقت یہاں بالکل خاموشی تھی، البتہ فوجی جوان تیار کھڑے تھے۔ بیش تر سپاہی آرام سے بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے یا سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔ جب کہ کچھ اپنی بندوقوں کی نالیاں صاف کرنے میں مصروف تھے یا کارتوس لگانے والی پیٹیوں کی مرمت کر رہے تھے۔ اس سیکٹر کے تمام فوجی پنجابی تھے اور ان کا تعلق جہلم اور راولپنڈی سے تھا۔ یہ اعلیٰ قسم کے انسان ہیں۔ درازقد، دبلے پتلے، بعض چہرے مہرے یونانی دکھائی دیتے ہیں۔ فوراً مجھے یاد آیا کہ سکندراعظم اور اس کے وارثوں کی کئی نسلیں پنجاب کے اسی علاقے میں مستقلاً اقامت پذیر رہیں۔ ممکن ہے یہ لوگ انھی سے نسلی تعلق رکھتے ہوں۔
میں تقریباً ایک گھنٹہ سیکٹر کمانڈر سے گفتگو کرتا رہا۔ وہ ایک نوجوان میجر تھا۔ میں نے اس کے ساتھ چائے پی۔ وہ اور اس کے فوجی ساتھی مجھ جیسے ایک ایسے مہمان سے مل کر بہت خوش ہوئے جو ان کے بلند حوصلوں کا معترف تھا اور ان کے اس جذبے کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا، جس کے تحت وہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کر رہے تھے۔ میں نے انھیں مغربی پنجاب کے وزیراعلیٰ [افتخار حسین ممدوٹ] اور ان کے توسط سے پاکستانی لیڈروں کی نیک خواہشات پہنچائیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں بلکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ دنیا میں پنجابی فوجیوں کا کوئی ثانی نہیں اور وہ اپنے فوجی اوصاف جن سے وہ خود کماحقہٗ آگاہ نہیں، کی اس قدر افزائی کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔ میں پہلی بار ان اگلے مورچوں تک آیا تھا اور یہاں کے ماحول نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے خود سے یہاں دوبارہ آنے کا وعدہ کرلیا۔
اب مجھے صحیح تاریخ کا تو علم نہیں، لیکن غالباً دسمبر ۱۹۴۸ء یا ۱۹۴۹ء کے اوائل میں مجھے غیرمتوقع طور پر یہاں آنے کی دعوت موصول ہوئی۔ایک روز لاہور کے سب سے بڑے کتب فروش کی دکان میں نئی مطبوعات کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا کہ میری نظر میجر جنرل حمید پر پڑی۔ وہ بھی میری طرح ایسی کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ لاہور کی بیش تر نام وَر شخصیات کی طرح میں انھیں بھی جانتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے (اس وقت ان کی عمر ۴۰ سے کچھ زیادہ تھی)، لیکن وہ کشمیر کے محاذ پر ایک اہم عہدے پر فائز تھے۔ میں نے انھیں پوچھا کہ وہ لاہور میں کیا کر رہے ہیں؟ تو انھوں نے بتایا: ’’محاذجنگ کی گھن گرج سے دُور چند روز کے لیے تعطیلات گزارنے یہاں آیا ہوں اور کل صبح واپس جا رہا ہوں‘‘۔ انھوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی جو میرے لیے خاصی پُرکشش تھی، لیکن میں اتنی جلدی اپنے محکمہ احیا ملّت اسلامیہ کے کاموں کو یک لخت چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔ میں نے جواباً عرض کیا: ’’ابھی نہیں، لیکن ہفتے عشرے میں ایسا ممکن ہے‘‘۔
جنرل حمید کہنے لگے: ’’ٹھیک ہے اگلے ہفتے ضرور آجایئے۔ میں روانگی سے قبل جہلم سے محاذِ کشمیر تک آپ کے لیے گاڑی اور حفاظتی دستے کا انتظام کروں گا۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کی آمد کے وقت میں کہاں ہوں گا۔ میں سیکٹر کمانڈروں میں کسی ایک کے نام آپ کو خط دے دوں گا اور وہ آپ کو ہرطرح کی سہولت مہیا کر دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اسے پسند کریں گے‘‘۔
ایک ہفتے بعد میں جیپ میں سوار جہلم سے مشرق کی جانب جا رہا تھا، اور ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا تھا۔ وہ پنجاب کی آٹھویں رجمنٹ میں دفع دار تھا۔ دوسرا فوجی پیچھے جیپ کے فرش پر تختوں پر مشین گن جمائے بیٹھا تھا۔ اس سفر کے دوران ہمارا رُخ پہاڑوں کی جانب نہیں تھا۔ ہماری سڑک آہستہ آہستہ دل کش مناظر سے گزرتی ہوئی کشمیر کے صوبہ پونچھ تک جاتی تھی، اور موصولہ اطلاعات کے مطابق وہاں تقریباً ایک لاکھ ہندستانی فوجی قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔
پنجاب اور کشمیر کی براے نام سرحد عبور کرتے ہی ہم پاکستانی فوج کے پڑائو پر جاپہنچے۔ یہاں سیکڑوں خیمے نصب تھے اور پیدل فوج کی خاصی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ یہ لشکرگاہ صوبہ پونچھ ہی کا حصہ تھی اور بھاری مشین گنیں اور چھوٹی توپیں اس کی حفاظت کے لیے لگائی تھیں۔ بظاہر ہندستانی فوج کوئی بڑا حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، اسی لیے یہاں کا عمومی ماحول قدرے پُرسکون تھا۔ کیمپ میں فوجیوں اور اسلحہ کی نقل و حرکت میں ڈسپلن کی کمی کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ یہاں میں نے پٹھان اسکائوٹوں کے کچھ گروہ بھی دیکھے، جو اپنی پوشاک یعنی ڈھیلی شلوارکُرتہ اور پگڑی سے بالکل الگ تھلگ نظر آتے تھے۔ سینوں پر کارتوسوں سے بھری ہوئی چمڑے کی پیٹیاں، کندھوں پر لٹکتی ہوئی بندوقیں اور کمربند میں خنجر۔ ان ہتھیاروں سے لیس جان کی پروا نہ کرنے والے یہ جنگجو، اب حقیقی فوجی ضابطوں کے آہستہ آہستہ پابند ہوتے جا رہے تھے۔ (درحقیقت اس وقت پاکستان کے سرحدی محافظ یہی قبائل پٹھان تھے، جنھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں کے دوران میں انتہائی مؤثر کردارادا کیا)۔
مجھے سیدھے سیکٹر کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل یعقوب خاں کے خیمے میں لے جایا گیا۔ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے۔ غالباً اس وقت ان کی عمر ۳۵سال ہوگی۔ انھوں نے میرا پُرتپاک طریقے سے استقبال کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ میرے خیمے ہی میں رہیں گے۔ مجھے امید ہے آپ یہاں خوش رہیں گے‘‘۔ یعقوب خاں ہندستان کی امیرترین اور انتہائی اہم شمال مغربی مسلم ریاست رام پور (جو اَب ہندستان میں ضم ہوچکی ہے) کے موروثی وزیراعظم کے فرزند ہیں۔ وہ بڑے مہذب، دل کش اور خوش مزاج شخص ہیں، اس لیے ہم جلد ہی ایک دوسرے سے بے تکلف ہوگئے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ برسوں گزر جانے اور فاصلوں کے باوجود ابھی تک ہماری دوستی میں فرق نہیں آیا۔ کئی سال بعد وہ جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ پھر وہ سفیرپاکستان کی حیثیت سے واشنگٹن میں تعینات ہوئے اور بالآخر صدر ضیاء الحق نے انھیں حکومت ِ پاکستان کے وزیرخارجہ کا قلم دان سونپا۔
لیفٹیننٹ کرنل یعقوب خاں نے بتایا: ’’میجر جنرل حمید آپ سے فوری ملنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو میں آپ کو کل صبح سویرے ان کے ہیڈکوارٹر روانہ کردوں گا‘‘۔ میں نے ان کی تجویز سے اتفاق کیا، کیونکہ اس طرح میں یہاں کے محاذ کی صورت حال کا بھی سرسری جائزہ لے لوں گا۔
رات کا کھانا سادہ، لذیذ اور پُرتکلف تھا۔ دیر تک سگریٹ نوشی اور چائے کے دور چلتے رہے۔ اس کے بعد میں سونے چلاگیا۔ اگلے روز علی الصبح میں تیار ہوگیا۔ سیکڑوں فوجیوں کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی۔ یعقوب خاں کے ساتھ ڈبل روٹی، نمکین پنیر اور چائے کا ناشتہ کیااور ان سے عارضی رخصت لے کر اسی جیپ پر اور انھی محافظوں کے ساتھ ہیڈکوارٹر کی جانب روانہ ہوگئے۔
ایک گھنٹہ بعد وہاں پہنچے۔ اس وقت میجر جنرل حمید اپنے افسروں سمیت صوبہ پونچھ کے ایک بڑے نقشے کا جائزہ لے رہے تھے۔ میں نے ان کی محویت دیکھ کر ذرا پیچھے ہٹنا چاہا تو انھوں نے مجھے روکتے ہوئے کہا: ’’نہیں، آپ مت جایئے، آپ سے ہماری کوئی رازداری نہیں۔ درحقیقت آج میں آپ کو کچھ اور رازوں سے مطلع کروں گا‘‘۔
اس کے بعد میجر جنرل حمید صاحب نے مجھے اپنی جیپ میں بٹھا لیا اور ہم پونچھ اور ہندستان سے ملحقہ سرحدی علاقے کی طرف چل پڑے۔ کچھ دیر ہماری جیپ شمال کی طرف چلتی رہی۔ چند کلومیٹر کے بعد مغرب کی جانب مڑ گئی اور پھر بڑے سے نصف دائرے میں ذیلی سڑکوں سے ہوتی ہوئی، دوبارہ بڑی سڑک پر آگئی۔ پونچھ کا شہر پیچھے رہ گیا۔ اب نظروں سے بھی اوجھل ہوچکا تھا شاید اس نصف دائرے کے درمیان میں کہیں تھا۔ سڑک پر آمدورفت کم تھی۔ اِدھر اُدھر فوجی ٹولیوں میں سڑک کے کنارے بیٹھے وقت گزار رہے تھے۔ ایک بار مخالف سمت سے آتی ہوئی ایک فوجی گاڑی ہمارے پاس سے گزری۔ دائیں جانب دُور فاصلے پر میں نے ایک گھنا جنگل دیکھا، لیکن وہاں بھی کوئی چلتا پھرتا نظر نہیں آتا تھا۔
یہاں سے آگے بڑھے تو میجر جنرل صاحب نے میری طرف منہ پھیرا اور پوچھا: ’’کیا آپ نے اس جنگل میں کوئی دل چسپ چیز دیکھی؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’کچھ خاص نہیں، صرف درخت ہی تو ہیں‘‘۔
میجر جنرل صاحب مسکرائے: ’’آپ کو دیکھنا چاہیے تھا۔ اس چھوٹے سے جنگل میں پاکستان کے توپ خانے کا نصف حصہ چھپا بیٹھا ہے۔ جو سڑک پونچھ اور اس سے آگے جاتی ہے، وہ مکمل طور پر ہماری زد میں ہے اور جب ہم کل حملہ کریں گے، پونچھ میں مقیم ہندستانی فوجوں کا دونوں اطراف سے رابطہ منقطع ہوجائے گا۔ چونکہ ہمارا توپ خانہ ان سے بدرجہا بہتر ہے، اس لیے وہ مزاحمت نہیں کرسکیں گے۔ وقت کی کمی کے باعث انھیں کمک بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ ہم نے اب اپنے تمام فوجی دستوں کو یہاں تعینات کر دیا ہے۔ ان حالات میں ہندستانی فوج ہتھیار ڈال دے گی یا تہس نہس ہوجائے گی۔ اس کے بعد ہم سری نگر کی طرف پیش قدمی کریں گے، ان شاء اللہ۔ ہمارے لیے اب یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘۔
میجر جنرل حمید کی اس پُرامید گفتگو میں کوئی مبالغہ بھی نہیں تھا۔ جوں ہی ہم واپس ہیڈکوارٹر پہنچے، انھیں ایک شدید دھچکا محسوس ہوا۔ اسی شام افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف کے توسط سے انھیں وزیراعظم لیاقت علی خاں کا بذریعہ تار ایک خفیہ پیغام موصول ہوا کہ: ’’اگلے روز حملے کا پروگرام منسوخ کردیا جائے‘‘۔
کئی ہفتوں بعد مجھے اصل صورت حال کا علم ہوا۔ ہندستان کی اعلیٰ فوجی کمان کو جونہی پاکستانی فوج کے اس متوقع حملے کا پتا چلا، اس نے فوراً اپنے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو تمام صورتِ حال اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کردیا۔ پنڈت صاحب نے اسی وقت برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ اٹیلی سے فون پر رابطہ قائم کیا اور ان پر زور دیا: ’’پاکستان کو ہرقیمت پر اس حملے سے روکنا ہوگا، کیونکہ اتنے مختصر وقت میں ہندستان کے لیے بذریعہ جہاز پونچھ کمک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔ اگر انھیں پاکستانی افواج سے ہزیمت اُٹھانا پڑی تو وہ احتجاجاً دولت مشترکہ کی رکنیت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے (کہیں اور کا اشارہ اشتراکی روس کی جانب تھا)۔ اگر پاکستان کو اپنا حملہ منسوخ کرنے پر آمادہ کرلیا جائے اور ضلع پونچھ ہندستان ہی کا حصہ رہے تو وہ یعنی پنڈت صاحب اگلے سال کشمیری عوام کو استصواب راے کا حق دے دیںگے‘‘۔
تمام رات نئی دہلی اور لندن کے درمیان ٹیلی فون کی تاریں بجتی رہیں۔ وزیراعظم اٹیلی کو ہندستان جیسا بڑا ملک ہاتھ سے نکلتا دکھائی دینے لگا۔ اس نے فوراً لارڈ مائونٹ بیٹن (جو ۱۹۴۸ء کے آخر میں ہندستان کے گورنر جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوکر اب انگلستان میں اپنی گذشتہ کامیابیوں پر شاداں و فرحاں زندگی گزار رہے تھے) سے مشورہ کیا اور کہا کہ برصغیر کے امورمختلفہ کے تجربہ کار ماہر کی حیثیت سے وہ نہرو کی تشویش دُور کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ چند گھنٹوں بعد لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستان کے وزیرخارجہ محمد ظفراللہ خاں کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ پنڈت صاحب نے کشمیری عوام کو حق راے دہی کا یقین دلایا ہے اور برطانوی وزیراعظم اٹیلی نے بھی اس حملے کی منسوخی کے لیے ذاتی طور پر درخواست کی ہے۔ اس وقت وزیراعظم لیاقت علی خاں سوئے تھے۔ ظفراللہ نے انھیں جگاکر یہ پیغام پہنچایا اور انھیں اٹیلی کی معروضات پر خصوصی توجہ دینے کی استدعا کی۔
اثر و رسوخ کے ان الجھیڑوں میں وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں نے جو کردار ادا کیا، اس کی تفہیم کے لیے ان کے سابقہ واقعات اور مخصوص وفاداریوں کا مختصراً تذکرہ ضروری ہے۔ وہ جماعت احمدیہ کے سرگرم رکن تھے۔ تمام مسلمان اس جماعت کو دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ اس جماعت کے بانی قادیان کے مرزا غلام احمد تھے، جو پہلے پہل ایک عالمِ دین کی حیثیت سے مشہور تھے، لیکن بعد میں ان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا: وہ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں اور جس کام کو حضوراکرمؐ نامکمل چھوڑ گئے ہیں، اس کی ’تکمیل‘ کے لیے انھیں مبعوث کیا گیا ہے۔ یہ ایک دعویٰ ہے جس کو ہندستان کے تمام مسلمانوں نے چاہے وہ سُنّی ہیں یا شیعہ، قطعی طور پر مسترد کردیا۔ نصِ قرآنی سے یہ بالکل واضح ہے کہ حضور اکرمؐ خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی پیغمبر کرئہ ارض پر مبعوث نہیں ہوا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اسلام کے بنیادی عقیدے کی نفی ہے، اس لیے وہ اور ان کے پیروکار اسلام کی حدود سے باہر ہیں۔ ہندستان کے برطانوی حکمران، تحریکِ احمدیت کو بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے، کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ برسرِاقتدار اسلامی یا غیراسلامی حکومت کی اطاعت اور فرماں برداری کی سخت تاکید کررکھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ برطانوی حکومت کے مقتدر اصحاب، جماعت احمدیہ کے اراکین کی ہرطرح سے حمایت کرتے تھے۔ سر محمدظفراللہ خاں بھی ایک بااثر شخص تھے اور غلام احمد قادیانی سے گہری عقیدت رکھتے تھے، اس لیے وہ تمام عمر انگریزوں سے زیادہ برطانیہ کے خدمت گزار رہے۔
ظفراللہ خاں باصلاحیت وزیرخارجہ تھے اور وزیراعظم لیاقت علی خاں بھی ان کی خوبیوں کے معترف تھے۔ مزید یہ کہ وہ کشمیر میں استصواب راے کرانے کے بارے میں نہرو کے وعدہ پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ جس مسئلے نے عرصۂ دراز تک پاکستان کی توانائیوں کو ضائع کردیا ہے، اس کا کوئی مستقل اور پاے دار حل تلاش کیا جاناچاہیے۔ یہی سوچ کر انھوں نے پاکستانی افواج کو پونچھ سے ہٹاکر بین الاقوامی سرحد پر بھجوانے کا حکم دے دیا۔ یہ خطرہ ٹلتے ہی بھارتی وزیراعظم نہرو فوری استصواب راے کرانے کے وعدے سے منحرف ہوگیا اور یہ مسئلہ کشمیر غیرمعینہ عرصہ کے لیے معرض التوا میں ڈال دیا گیا۔
یہ اتنا بڑا قومی المیہ تھا کہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی تھی۔ پونچھ میں ہندستانی افواج نے خود کو مضبوط کرلیا، جب کہ پاکستان نے ایک نادر موقع کھو دیا، جو قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار آتا ہے۔
وزیراعظم لیاقت علی خاں کا حکم نامہ پونچھ کے گردونواح محاذِ جنگ پر تعینات پاکستانی فوجیوں پہ بم بن کر گرا۔ جب انھیں علم ہوا کہ حملہ منسوخ کردیا گیا ہے، تو وہاں موجود بہت سے افسر اور جوان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ کشمیر کو ہندوئوں کے تسلط سے آزاد کرانے اور اسے پاکستان کا حصہ بنانے کا انھوں نے جو خواب دیکھا تھا، وہ چکنا چُور ہوگیا۔ کوئی سنجیدہ شخص یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہاں مستقبل بعید میں بھی کبھی کشمیریوں کو موعودہ حق راے دہی مل جائے گا۔
[اس صدمے کے بعد] میجر جنرل حمید نے خود کو ہیڈ کوارٹر میں بند کرلیا۔ پھر کئی مہینے تک ان سے میری ملاقات نہ ہوسکی۔ اس کے بعد وہ فوج سے مستعفی ہوگئے۔ (ماخوذ: محمد اسد، بندۂ صحرائی (خودنوشت سوانح عمری)، مرتب: پولااسد، محمداکرام چغتائی، ناشر: دی ٹروتھ سوسائٹی، ۲-اے،۸۱، گلبرگ III، لاہور)
ترجمہ: ذوالقرنین
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کی اتباع کے کم از کم تین اہم پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:
اس کا ایک پہلو فرد کی باضابطہ تربیت ہے تاکہ وہ ہمہ وقت شعور اور بیداری کی حالت میں رہے اور ضبطِ نفس (discipline) کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرے۔
انسان کی روحانی ترقی کے نقطۂ نظر سے الل ٹپ سرزد ہونے والے افعال اور ان افعال سے جنم لینے والی عادات اُن رکاوٹوں کی مانند ہیں، جو رکاوٹوں والی دوڑ میں شریک گھوڑوں کی راہ میں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ایسے افعال اور عادات کو کم سے کم اختیار کیا جائے جو طبیعت کے روحانی ارتکاز کو منتشر کرنے کا باعث بنتے ہوں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہم جو کچھ بھی کریں، وہ ہمارے اپنے ارادے اور ضابطۂ اخلاق کے تابع ہو۔ لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمہ وقت اپنی ذات کا مشاہدہ و محاسبہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت محاسبۂ نفس کا ذریعہ ہیں، جن سے پوری طرح استفادہ کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو‘‘۔(بخاری)
ضبط ِنفس کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تم خود اپنا محاسبہ کرو، قبل اس سے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت کا اسلامی تصور صرف مذہبی فرائض تک محدود نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت وہ ساری انسانی زندگی پر محیط ہے اور اس کا ہدف ہمارے روحانی وجود کو ہمارے مادی وجود سے جوڑ کر ایک وحدت میں سمونا ہے۔ لہٰذ ا،ہماری کوششوں کا حتی الامکان ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سے خود فراموشی کی کیفیت اور ایسے عوامل کو جڑ سے اکھاڑ دیں جو انسان کے روحانی و مادی وجود میں یک جہتی پیدا نہیں ہونے دیتے۔ مشاہدۂ نفس اس راہ میں پہلا قدم ہے… یہ وہ انتہائی یقینی طریقہ ہے جس کی مدد سے فرد اپنے نفس کے مشاہدے اور احتساب کی تربیت کر سکتا ہے اور اپنی عادات اور اپنی روزمرہ زندگی کے بظاہر غیر اہم افعال کو اپنے شعور کے تابع کر سکتا ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں اور بظاہر غیر اہم افعال اور عادات ذہنی تربیت کے سیاق و سباق میں فی الحقیقت ہماری زندگی کے بڑے کاموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ’بڑی بڑی باتیں‘ اور ’عظیم کام‘ اپنی بڑائی کی وجہ سے ہمیشہ واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، لہٰذا وہ کم و بیش ہمیشہ ہمارے شعور میں رہتے ہیں۔ لیکن ’چھوٹی چھوٹی‘ باتیں بہ آسانی نظر انداز ہو جاتی ہیں اور ہمارے کنٹرول سے بچ نکلتی ہیں، حالانکہ فی الحقیقت یہ کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، اور ان کی مدد سے ہم ضبط ِنفس کی صلاحیتوں کو کہیں زیادہ نتیجہ خیز اور اثر انگیز بنا سکتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ یہ بات بجاے خود اہم نہ ہو کہ کس ہاتھ کے ساتھ کھانا کھایا جانا چاہیے یا یہ کہ داڑھی کی کیا اہمیت ہے؟ لیکن نفسیاتی اعتبار سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ زندگی کے معاملات کو محض الل ٹپ عادت کے طور پر نہیںبلکہ باقاعدہ ارادے کے تحت انجام دیا جائے۔ اس لیے کہ اس طرح ہم اپنے آپ کو محاسبۂ نفس اور اخلاقی پابندیوں پر عمل کرنے کے لیے تیار رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ دیکھا جائے تو بظاہر یہ کوئی آسان کام دکھائی نہیں دیتا۔ ذہنی طور پر سست ہونا، جسمانی طور پر سست ہونے سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک ایسے شخص کو لمبی سیر کے لیے لے جائیں، جو اکثر بیٹھے رہنے کا عادی ہو، تو وہ جلدی تھک جائے گا اور پیدل چلنے کے قابل نہیں رہے گا۔ لیکن اس کے برعکس وہ شخص نہیں تھکے گا جو عمر بھر پیدل چلنے کا عادی رہا ہو۔ اس کے لیے یہ سیر تھکن کا باعث نہیں ہو گی اور وہ اسے ایک خوش گوار جسمانی ورزش کے طور پر لے گا۔ اس سے یہ حکمت اور (مومنانہ) طرزِ زندگی کی یہ رمز مزید واضح ہو جاتی ہے کہ سنت کے دائرے میں انسانی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو کس لیے شامل رکھا گیا ہے۔ اگر ہم سے مسلسل اپنے تمام اعمال اور خطاؤں کو جانچنے پرکھنے کا تقاضا کیا جاتا رہے تو ہماری محاسبۂ نفس کی استعداد بھی مسلسل بڑھتی رہے گی، اور ایک خاص مدت کے بعد ہماری فطرتِ ثانیہ بن جائے گی۔ جب تک یہ تربیت جاری رہے گی، ہمارا اخلاقی تساہل بھی کم سے کم تر ہو تا چلا جائے گا۔
لفظ ’تربیت‘ کے استعمال سے قدرتی طور پر یہ مراد ہے کہ اس کا نتیجہ تربیتی عمل کے مقصد پر منحصر ہو گا۔ اگر سنت پر عمل زوال پذیر ہو کر محض حرکات و سکنات کا ایک معمول بن جائے تو اس کی تعلیمی و تربیتی قدرو قیمت بھی ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ گذشتہ صدیوں میں مسلمانوں کا طرزِ عمل بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ جب رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین اور ان کے بعد آنے والی نسلوں نے اپنی زندگی کے ہر معاملے کو اپنے آقا ؐکے اسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی تو انھوں نے مکمل فہم و شعور کے ساتھ، ہدایت پر مبنی ہر اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا، جو روحِ قرآن کے مطابق ان کی زندگیوں کی تشکیل میں معاون ہو سکتا تھا۔ اسی شعور اور ارادے کی بدولت وہ اتباعِ سنت سے پوری طرح فیض یاب ہو سکے۔ اگر بعد کے زمانوں میں آنے والے مسلمان ان نفسیاتی امکانات سے بھر پور فائدہ نہ اٹھا سکے، جن کا دروازہ کھلتا ہی سنت کی پیروی سے ہے تو یہ نعوذ باللہ ’سنت‘ کی خامی نہیں تھی۔
اس پورے گذشتہ عہد میں، مسلمانوں کے انحطاط اور اضمحلال کا ایک سبب کسی نہ کسی حد تک تصوف بھی ثابت ہوا ہے، جو انسان کی فعّال توانائیوں کو غیراہم قرار دیتا ہے اور ان توانائیوں پر زیادہ زور دیتا ہے جو محض تاثرات و تصورات کے ادراک میں معاون ہو سکتی ہیں۔ چونکہ سنتِ نبویؐ پر عمل اسلام کے ابتدائی ایام ہی سے مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا، اس لیے دور اوّل سے متصل زمانے میں تشکیل پانے والا صوفی ازم دین کی اس بنیاد کو زائل کرنے میں کامیاب تو نہ ہوسکا، لیکن وہ اس کی فعّال قوت کا اثر کسی حد تک کم کرنے کا سبب ضرور بنا رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ صوفیوں کے نقطۂ نظر سے سنت ایک ایسی مجرد علامت بن کر رہ گئی، جس کی اہمیت نظریاتی و تصوراتی تو تھی، مگر عملی نہیں تھی۔ وہ اسے محض روحانی اور صوفیانہ تناظر میں دیکھتے تھے۔ دوسری جانب مذہبی علما اور فقہا کے نزدیک اسلام محض ایک فقہی یا قانونی نظام تھا۔
نتیجتاً عامتہ المسلمین کے لیے سنت اپنے حقیقی معانی کھو چکی تھی۔ اس کے باوجود کہ مسلمان قرآنی تعلیمات سے استفادہ کرنے اور سنت نبویؐ کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی تعبیر اور ان کی تفہیم کے عمل سے محروم ہو چکے تھے، لیکن تعلیماتِ نبویؐ کے سیاق و سباق اور ان کی تعبیر کے پیچھے کارفرما تصور میں قطعاً کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ آج بھی پوری طرح قابلِ اطلاق ہیں۔ چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک بار پھر سنتِ نبویؐ کو عملی زندگی کا حصہ نہ بنایا جاسکے۔
دوسری جانب ناقدین کہتے ہیں کہ سنت کا مقصد محض علامتوں پہ اصرار، ظواہر پرستی اور رسوم کے پابند زاہد خشک تیار کرنا ہے۔ ان نقادوں [اور سنت کے منکروں] کا یہ تبصرہ جھوٹ پر مبنی طعن سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ فی الحقیقت اتباعِ سنت کا مقصد با شعور، صاحبِ عزیمت اور حوصلہ مند مردانِ کار تیار کرنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ و صحابیاتؓ اسی طرح کے انسان تھے۔ وہ قلب ِبیدا رکے مالک ہمہ دم متحرک اور احساسِ ذمہ داری سے ہر قدم اٹھانے والے لوگ تھے۔ کردار کی یہی وہ خوبیاں ہیں، جن میں ان کی کرشماتی صلاحیت و استعداد کا راز پوشیدہ ہے اور انھی خوبیوں کی بدولت انھوں نے اپنی انسانیت ساز تاریخی کامیابیوں سے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ بلاشبہہ یہ اتباعِ سنت ہی کا اولین اور منفرد پہلو ہے۔
اتباعِ سنت کا دوسرا پہلو اس کی معاشرتی اہمیت و افادیت ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ بالعموم معاشرتی کش مکش ایک دوسرے کے افعال و عزائم کے بارے میں غلط فہمیوں سے جنم لیتی ہے۔ معاشرے کے افراد کا بے شمار مزاجوں اور ذہنی رجحانات میں تقسیم ہونا ایسی غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔ مختلف مزاجوں سے مختلف عادات اور رویے پروان چڑھتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ پختہ تر ہو جاتے اور پھر وہ مختلف افراد کے درمیان دیوار بن کر حائل ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے برعکس معاشرہ ایک ہی جیسی اقدار پر مبنی عادات کا حامل رہے تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ افراد ایک دوسرے کے ہمدرد و غم خوار ہوں گے اور ذہنی طور پر ایک دوسرے کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔ لہٰذا اسلام، جو معاشرے اور فرد دونوں کی یکساں بھلائی اور بہبود کا خواہاں ہے، اس نکتے پر زور دیتا ہے کہ معاشرے میں شامل افراد کو منظم انداز میں یکساں عادات اور مجلسی آداب کی تربیت دی جائے، خواہ ان کا معاشرتی و معاشی مرتبہ ایک دوسرے سے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی اس سے بڑھ کر معاشرے کی تشکیل و تعمیر کرتی ہے۔ یہ معاشرے کو باہم مربوط اور مستحکم بناتی ہے اور ایسی باہمی منافرتوں کا سدباب کرتی ہے جو مغربی معاشرے میں ’معاشرتی سوالات و اعتراضات‘ کے نام پر پیدا کی گئیں، اور جن کی وجہ سے مغربی معاشرہ، فکر، نظر اور عمل کے بہت بڑے تضاد و فساد کا شکار ہوا۔ ایسے معاشرتی سوالات اس وقت سر اٹھاتے ہیں جب یہ محسوس کیا جانے لگے کہ بعض ادارے، روایات اور رسم و رواج بے بنیاد، خام اور ناقص ہیں، لہٰذا ان پر تنقید کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ ’مثبت‘ تبدیلیوں کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔ اہلِ مغرب کے اس المیے کے برعکس جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ اپنے آپ کو احکامِ قرآن کا پابند اور اس پابندی کے نتیجے میں رسولؐ اللہ کے احکام کا بھی پابند سمجھتے ہیں۔
مسلم معاشرے کی ظاہری شکل و صورت کے برقرار رہنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے کو تشکیل دینے والے عوامل کو الہامی اور ابدی سمجھتے ہیں۔ جب تک یہ عقیدہ قائم ہے معاشرتی تشکیل کے بنیادی عوامل کو تبدیل کرنے کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کی کوئی خواہش سر اٹھائے گی۔ انھی حقائق کی روشنی میں ہم قرآن کریم کے اس حکم کی حکمت اور منشا کو سمجھ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کو ’بنیانِ مرصوص‘ یعنی سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہونا چاہیے۔ اگر ہم اس اصول کا اطلاق اپنی اجتماعی زندگی پر کریں تو معلوم ہو گا کہ معاشرے کو ذیلی مسائل اور جزوی ’اصلاحات‘ کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کہ ان کی جو بھی قدرو قیمت ہے وہ محض وقتی و عارضی ہے۔ اسلامی معاشرے کو فکری و طبقاتی کش مکش کے الجھاؤ سے نکل کر قانونِ الٰہی اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے مادی و فکری مسائل کے حل کے لیے توانائیاں بروے کار لانا چاہیے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے فرد کے روحانی ارتقا کے لیے کوششوں کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یہی اسلامی معاشرتی تنظیم کا حقیقی نصب العین ہے۔
آئیے، اب اتباعِ سنت کے تیسرے پہلو کا جائزہ لیتے او ردیکھتے ہیں کہ اس پر پابندی سے عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ اس نظامِ حیات میں، ہماری روزمرہ زندگی کی متعدد جزئیات نبی کریمؐ کے اسوۂ حسنہ پر مبنی ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کریں، ہمیں ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ اس معاملے میں نبی کریمؐ کا عمل کیا تھا یا انھوں نے اس بارے میں کیا فرمایا۔ یوں بنی نوع انسان کی عظیم ترین شخصیت ہماری روزمرہ زندگی کے معمول میں رچ بس جاتی ہے، اس کا روحانی فیض حقیقی زندگی میں جاری و ساری رہتا اور ہمارے وجود کا مستقل اور فعال حصہ بن جاتا ہے۔ اس راستے کو منتخب کرنے کے بعد ہم شعوری طور پر زندگی کے ہر معاملے میں یہ معلوم کرتے رہتے ہیں کہ کس کس معاملے میں نبی کریمؐ کا طرز عمل کیا تھا۔ یہی ہے وہ صراطِ مستقیم جس پر چلتے ہوئے ہم بتدریج یہ جان لیتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ صرف وحی لانے والے ہی نہیں بلکہ وہ ساری زندگی کے لیے ہمارے رہبر بھی ہیں۔
اس مرحلے پر ہمیں لازماً یہ ایک فیصلہ کر لینا چاہیے کہ: آیا ہمیں حضرت محمدؐؐ کو دنیا کے دوسرے حکیم و دانا انسانوں کی طرح محض ایک حکیم و دانا انسان کے طور پر لینا چاہیے یا نوعِ انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور رسول ماننا چاہیے جن کا ہر ہر فعل وحیِ الٰہی کے تابع تھا؟
اس بارے میں قرآن مجید کا نقطۂ نظر بالکل صاف، واضح اور ہر شک و شبہے سے بالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں خاتم الانبیا اور رحمت للعالمینؐ بنا کر بھیجا۔ ان کی رہنمائی اور احکام کے کسی حصے سے منہ موڑنا خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے منہ موڑنے یا اسے کم تر سمجھنے کے مترادف ہو گا۔ مزید برآں سنت پر عمل سے انحراف یا ایسا خیال رکھنے والا شخص اس سوچ کا حامل قرار پائے گا کہ اسلام کا پیغام کوئی حتمی پیغام نہیں، بلکہ انسانی مسائل کے جو متعدد مختلف حل پیش کیے گئے، ان میں سے وہ بھی ایک حل ہے، اور یہ فیصلہ اب فرد کی صوابدید پر ہے کہ ہم پیغامِ اسلام کو اختیار کریں یا کسی دوسرے حل کو جو غالباً یکساں طور پر سچا اور کارآمد حل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بظاہر ایک آسان راستہ ہے، کیونکہ اس پر چلتے ہوئے اخلاقی اور عملی طور پر کسی حکم یا ہدایت کی پابندی لازم نہیں رہتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ راستہ ہمیں کہیں بھی لے جا سکتا ہے مگر روح اسلام کی طرف ہرگز نہیں لے جاسکتا۔ اس بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) آج کے دن میں نے تمھارے لیے تمھارا دین (نظام حیات) مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت (ہدایت) تمام کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین چن لیا۔
ہم اسلام کو تمام دینی نظاموں کے مقابلے میں برتر سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ساری کی ساری زندگی کو اپنے دامنِ رحمت میں سمیٹ لیتا ہے۔ اسلام بیک وقت دنیا اور آخرت، روح اور بدن اور فرد اور معاشرے کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ وہ نہ صرف انسانی فطرت کے ارفع امکانات کو نگاہ میں رکھتا ہے بلکہ اس میں مضمر مجبوریوں اور کمزوریوں کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ اسلام ہم پر کسی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا جسے ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہ ہو۔ وہ ہمیں اپنے ذاتی امکانات اور صلاحیتوں کو پوری طرح بروے کار لانے کے لیے رہنمائی عطا کرتا ہے اور فہم حق اور مشاہدۂ حق کے اس اعلیٰ مقام پر لے جاتا ہے جہاں نظریے اور عمل میں کوئی تضاد اور خلیج حائل نہیں رہتی۔
لاریب اسلام دوسرے راستوں کی طرح ایک راستہ نہیں بلکہ واحد راستہ (الصراط المستقیم) ہے، اور وہ برتر انسانؐ جس نے اس کی تعلیمات سے ہمیں روشناس کرایا، وہ انسانی تاریخ کے عظیم رہنماؤں میں سے محض ایک رہنما نہیں ہیں بلکہ ہادیِ خاص (The Guide) ہیں۔ اس ہادیِ برحقؐ کے ہر حکم پر عمل کرنا اور انؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنا ہی اسلام ہے۔ اسی لیے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روگردانی یا اسے ترک کرنا فی الواقع حقیقت ِاسلام سے روگردانی ہوگی۔