یہ سوچ ہماری روحانی ژولیدگی [الجھائو] کی علامت ہے، اور اس کی بڑی وجہ صدیوں سے چلے آنے والا ہمارا زوال ہے کہ کوئی سیاسی تحریک جو بیک وقت اسلامی تجدید و احیا کا بھی دعویٰ کرے، وہ اپنے اصل مقصد سے منحرف ہونے کے باعث ضرور ناکام ہوجاتی ہے اور گھٹ گھٹا کر مصر، ترکی، اور شام جیسے ملکوں کی ’قومی تحریک‘ بن جاتی ہے۔ ہمارے اکثرو بیش تر لیڈروں کا غالب رجحانِ طبع یہ ہے کہ وہ ہماری جدوجہد کے روحانی اسلامی پس منظر کو تو (غالباً دانستہ) نظراندازکردیتے ہیں، اور مسلمانوں کے مطالبۂ آزادی کے جواز میں ہندو اکثریت کے ساتھ ان کے تلخ تجربات پیش کرنے کے پہلو بہ پہلو ہندوئوں کے سماجی رسوم و روایات اور ثقافتی مظاہر سے مسلمانوں کے اختلافات بیان کر کے ایک ’جداگانہ قوم‘ ثابت کرنے پر زورِ بیان صرف کردیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جداگانہ مسلم قومیت کی حقیقت پر (اور بلاشبہہ یہ حقیقت ہی ہے) لفظ ’قومیت‘ کے مغربی مفہوم میں باتیں کرنے کا رجحان بڑھتا چلاجارہا ہے، بجاے اس کے کہ لفظ اُمت یا ملت کے اسلامی مفہوم میں ’جداگانہ مسلم قومیت‘ کے مفہوم کی تشریح کی جائے۔ ہمیں بلاخوف و خطر،ببانگ دہل، ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے کہ لفظ ’قوم‘ کے رواجی مفہوم سے ہمیں کوئی نسبت نہیں ہے۔ ہاں، ہم ایک قوم ہیں لیکن محض اس لیے نہیں کہ ہماری عادات، ہمارے رسوم و رواج، ہمارے ثقافتی مظاہر اس ملک میں بسنے والی دوسری قوموں سے مختلف ہیں، بلکہ ہم اس مفہوم میں ایک قوم ہیں کہ ہم اپنے ایک خاص نصب العین کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنا چاہتے ہیں۔
اسلام سے وابستہ ہونا ہی ہمارے جداگانہ تشخص کا واحد جواز ہے۔ ہم کوئی نسلی وحدت نہیں ہیں۔ ہم لسانی وحدت بھی نہیں ہیں، حالانکہ اُردو مسلمانانِ ہند کی زبان کی حیثیت سے بڑی ترقی یافتہ زبان ہے۔ ہم انگریزوں یا عربوں یا چینیوں کی طرح ’قوم‘ نہیں ہیں، اور نہ کبھی اس مفہوم میں قوم بن سکتے ہیں اور یہی ایک حقیقت کہ ہم لفظ ’قوم‘ کے روایتی و رواجی مفہوم میں نہ تو قوم ہیں اور نہ قوم بن سکتے ہیں ، ہماری اندرونی قوت کا بہت بڑا سرچشمہ ہے۔ کیونکہ اس حقیقت کی بنیاد پر ہمیں یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ پورے کرئہ ارض پر، پوری دنیا میں، ہم، فقط ہم، بشرطیکہ ہم ایسا چاہیں، اُس شان دار منظر میں حیاتِ نو پیدا کرسکتے ہیں جو چودہ سوسال پہلے عرب کے صحرائوں سے اُٹھا تھا۔ ایسے آزاد مردوں اور عورتوں کی ایک اُمت کا شان دار منظر جو نسل، زبان اور وطن کے اتفاقی و حادثاتی بندھنوں کے باعث متحد و یک جان نہیں ہوئے تھے، بلکہ ایک مشترکہ نصب العین سے اپنی باشعور اور آزادانہ وفاشعاری کے باعث متحد و متفق ہوئے تھے۔
بدقسمتی سے ہمارے صفِ اوّل کے اکثر رہنما مسلمانوں کے اس گم کردہ راہ اور تشکیک پسند طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے نزدیک اسلام ’ثقافتی روایت‘ کے سوا کچھ نہیں اور یوں پاکستان بھی ان کے خیال میں محض اس راہ کا ایک نشان ہے۔ پہلا قدم سہی، جس پر نام نہاد ’ترقی یافتہ‘ مسلم اقوام دیر سے چلتی آرہی ہیں، یعنی بہ تمام و کمال قومیت کی راہ۔ ہماری جدوجہد کے اسلامی پہلو پر یہ رہنما کبھی کبھار، زبانی کلامی کچھ کہہ بھی لیتے ہیں۔ لیکن فی الحقیقت اسلام کے مذہبی اصولوں کے مطابق مسلمانوں کی ذاتی و اجتماعی زندگی ڈھالنے کی طرف اشارے کنایے میں بھی بات نہ کرنے کو ’جدیدیت‘خیال کرتے ہیں۔ پاکستان کے مطالبے کو بھی اسلامی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے میں انھیں عار محسوس ہوتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ نیم دلانہ رویہ تحریکِ پاکستان کے بدن سے، سب سے متحرک اور فعال عنصر، یعنی روحانی عنصر کو نکال لیتا ہے۔ اور یہ چیز پاکستان کے مستقبل کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ باہر کی کوئی مخالفت اس خطرے کی پاسنگ بھی نہیں ہے۔
عظیم اقوام کے مقدر کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ ان کی پڑوسی اقوام اصولاً ان کے اغراض و مقاصد سے اتفاق یا اختلاف کرتی ہیں۔ ان کے مقدر کا انحصار ان کے اغراض و مقاصد کی روحانی طاقت (یا کمزوری) پر ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے لیے ہماری آرزو نتیجہ ہے ہماری تخلیقی قوت اور ہمارے قلبی خلوص کا، اگر منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی اس کے منظر کے بارے میں ہماری بصارت واضح اور ہماری بصیرت پاکیزہ ہے، اگر مقصد کو مقصد بالذات جان کر اس سے محبت کرنے کا سلیقہ سیکھ لیں، اس عقیدے کے ساتھ کہ اپنے مطلقہ مفہوم میں یہ خیراعلیٰ ہے (یا یوں کہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں خیراعلیٰ ہے) اور محض اس لیے خیر نہیں ہے کہ بہ نظر ظاہر ہمارے لیے اور ہماری قوم کے لیے معاشی طور پر فائدہ رساں ہے۔ تب دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پاکستان بنانے سے نہیں روک سکتی جو دنیا بھر میں تجدید و احیاے اسلام کا دروازہ کھول دے گا۔
اس کے برعکس اگر خوداختیاری کے لیے ہمارا مطالبہ نتیجہ ہے غیرمسلم اکثریت کے تسلط کے خوف کا، اگر ہمارے ذہن پر مستقبل کی تصویر کا محض نیگیٹو ثبت ہے، اگر یہ کسی بلندوبالا چیز کی خاطر آزاد ہونے کی آزادانہ آرزو نہیں ہے، اگر یہ صرف کسی چیز سے آزاد ہوجانے کی گداگرانہ خواہش ہے، اگر اسلام ہمارے لیے مقصود بالذات اور ایک اخلاقی داعیہ نہیں ہے، اگر اسلام ہمارے لیے محض ایک عادت ایک رسم اور ایک ثقافتی ٹھپا بن کر رہ گیا ہے، تب ایسی صورت میں یہ تو ممکن ہے کہ ہم اپنی عددی طاقت کے بل پر پاکستان کی قسم کی کوئی چیز حاصل کرلیں، لیکن ایسا پاکستان اُس پاکستان کے برابر نہ ہوگا، جسے حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے حد و شمار امکانات سے نوازا ہے۔ ایسا پاکستان بے شمار قومی ریاستوں کے منقسم ہجوم میں ایک اور ’قومی ریاست‘ سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔ بہت سی ریاستوں سے اچھا، بہت سی ریاستوں سے بُرا۔ مسلم عوام کے تحت الشعور میں بساہوا خواب، اور ان لوگوں کے شعور میں آیا ہوا خواب جنھوں نے پہلے پہل پاکستان کی باتیں اس وقت کیں، جب یہ نام بھی پردئہ شہود میں نہ آیا تھا۔ وہ خواب کیا تھا؟ ایک ایسی ہیئت حاکمہ کا قیام جس میں رسول کریمؐ کے اسوئہ حسنہ اورسنت کو ہرقدم پر، ہرپہلو سے عملی حقیقت کا جامہ پہنایا جاسکے۔
اگر ہمارے موجودہ رہنما ہمارے عوام کی دل کی دھڑکنیں سن سکیں، تو انھیں یقینا احساس ہوجائے گا کہ عام مسلمان محض ایک ایسی نئی ریاست کا خواب نہیں دیکھتا، جس میں مسلمانوں کو موجودہ معاشی مراعات سے کچھ زیادہ حاصل ہوسکیں۔ وہ تو ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھ رہا ہے جس میں احکامِ الٰہی کی فرماں روائی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ عام آدمی معاشی مراعات و سہولیات کی پروا نہیں کرتا۔ وہ یقینا پروا کرتا ہے، بہت زیادہ کرتا ہے۔ معاش ہرشخص کی بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن وہ محسوس کرتا ہے، اور بجا طور پر محسوس کرتا ہے کہ ایک سچی اسلامی ریاست میں اسے نہ صرف معاشی انصاف اور مادی ترقی کا مساوی موقع ملے گا، جو فی الوقت اسے حاصل نہیں ہے، بلکہ اس کے انسانی وقار اوراس کے روحانی استحکام میں بھی قابلِ قدر اضافہ ہوگا۔
ہمارے عام آدمی کا یہ احساس، یہ اُمید، یہ آرزو، یہ خواب، جیساکہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں، منتشر ہے، بکھرا ہوا ہے، اُلجھا ہوا ہے۔ یہ عقلی نہیں، جبلی ہے۔ ہمارے عوام کے ذہن صاف نہیں ہیں کہ نئی اسلامی ریاست، جس کے لیے وہ جدوجہد کر رہے ہیں، اپنے قیام کے بعد کیسی اورکس شکل و صورت کی ہوگی۔ وہ پوری طرح نہیں جانتے کہ اس ریاست کے قیام کے لیے انھیں کیا ایثار کرنا ہوگا، اور کیا قیمت ادا کرنی ہوگی اور کیا قربانیاں کس کس شکل میں دینی پڑیں گی۔ وہ صاف دل اور صاف ذہن ہو بھی کیسے سکتے ہیں؟ صدیوں سے ان کا رشتہ اسلامی تعلیمات سے کٹا ہوا ہے۔ صدیوں سے وہ جہالت، ضعیف الاعتقادی اور سیاسی تذلیل کے ڈونگے کنوئیں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ وہ صرف نعروں اور زبانی کلامی وعدوں پر تکیہ کرتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ وہ اپنے باطن میں چھپی ہوئی خواہشوں، اپنے دل میں پوشیدہ ارمانوں اور اپنے ذہن کے لاشعوری خوابوں کے درمیان کوئی ربط پیدا نہیں کرسکتے اور انھیں ان کے اظہار پر قدرت حاصل نہیں ہے۔ وہ محسوس تو کرتے ہیں، لیکن انھیں اپنے محسوسات کے اظہار کا سلیقہ نہیں آتا۔ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ انھیں ان کی خواہشات، محسوسات اور خواب سمیت آتش فشانی جہنم میں جلنے کو ڈال دیا گیا ہے، لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس جہنم سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ یہ راستہ جاننے کے لیے روحانی قیادت کی ضرورت ہے، جس کی اہمیت سیاسی قیادت سے کم نہیں۔
ہمارے رہنمائوں کے سامنے اصل کرنے کا کام کیا ہے؟ ہمارے عوام کے خوابوں اور خواہشوں کو ایک تخلیقی اور مثبت رُخ پر منظم کرنا، ان میں اسلام کی روح سمونا۔ ان کی تنظیم صرف سیاسی طور پر نہیں، بلکہ پاکستان کے عظیم تر مقصد کی خاطر روحانی اور نظریاتی طور پر بھی کی جائے۔ انھیں صرف اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کہ انھیں ایک جماعت میں منظم کردیا جائے اور ان کے سیاسی مطالبات کو زبان دے دی جائے۔ ملت ان سے کچھ اور بھی تقاضا کرتی ہے۔ بلاشبہہ تنظیم کی سخت ضرورت ہے۔ سیاسی احتجاج بھی ایک ضرورت ہے۔ لیکن یہ تمام ضرورتیں ہمارے نظریاتی مقصد کے حصول کی خاطر ہونی چاہییں، نہ کہ جیساکہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے، یہ دوسرے تیسرے درجے کی چیزیں بن کر رہ گئی ہیں۔ ایک مسلمان کے نزدیک ، جس کے لیے اسلام ہی اس کا جینا مرنا ہے، ہر سیاسی تحریک کو اپنی سندِجواز مذہب سے حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ مذہب سیاست سے الگ نہیں ہوسکتا، اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، وہ یہ کہ اسلام صرف ہمارے روحانی ارتقا سے غرض نہیں رکھتا، بلکہ ہماری جسمانی، معاشرتی اور اقتصادی زندگی سے بھی پورا پورا تعلق رکھتا ہے۔ اسلام ہمارا مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے لیے، پاکستان کی حمایت میں، پاکستان کی خاطر مسلم عوام سے مسلم رہنما جو پُرزور اپیلیں کرتے رہتے ہیں، ان کا پہلا حوالہ پاکستان میں اسلام کا دینی و مذہبی پہلو ہونا چاہیے۔ اگر اس اندرونی آواز اور مطالبے کو نظرانداز کیا گیا، تو ہماری جدوجہد اپنے تاریخی مشن کو پورا نہ کرسکے گی۔
ہمارے لیڈروں کے لیے اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر سب رہنما نہیں تو گنتی کے چند رہنما ایسے ضرور موجود ہیں جو وقت کی اس اہم ضرورت سے پوری طرح باخبر بھی ہیں اور اس ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ بھی ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر چند ماہ قبل مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے شان دار جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر قائداعظم کے دست راست لیاقت علی خان صاحب نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا، انھوں نے بڑے زوردار طریقے سے اس حقیقت کو اُجاگر کیا کہ تحریکِ پاکستان کے محرکات کا اصل سرچشمہ قرآنِ مجید ہے، لہٰذا ہم جس اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ اپنی سند اختیار و مجاز صرف شریعت سے حاصل کرے گی۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے بھی متعدد موقعوں پر ایسے ہی اندازِ فکر میں خطاب کیا ہے۔ ایسے بیانات و خطبات چونکہ مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے آتے ہیں، اس لیے مسلم لیگ کے مقاصد و اغراض کی تشریح و ترجمانی ہوجاتی ہے، لیکن محض تشریح و ترجمانی کافی نہیں۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پر عملاً اثرانداز ہونا ہے تو مسلم لیگ کی ہائی کمان کو زیادہ ٹھوس بنیاد پر وضاحت و تشریح کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کام کی خاطر اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس بنانی چاہیے جو اُن اصولوں کی مناسب وضاحت و تشریح کرنے کا فریضہ انجام دے جن پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔
چند سال پہلے تک اس کام کی ضرورت اتنی شدید نہ تھی کیونکہ اس وقت ہماری منزلِ مقصود بھی واضح نہ تھی، لیکن جیساکہ آج کل کے حالات کا تقاضا ہے، ملک میں ایسی زبردست تبدیلیاں پے بہ پے آرہی ہیں جن کے سبب مستقبل قریب میں پاکستان کا حصول و قیام ایک ممکن العمل چیز نظرآرہا ہے۔ اب یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ جون ۱۹۴۸ء سے پہلے پہلے پاکستان نام کی ایک نئی آزاد اور خودمختار ریاست کسی نہ کسی شکل میں وجود میں آجائے گی۔ یہی ہے وہ نکتہ جو میں آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ہے: ’کسی نہ کسی شکل میں‘‘ ___ اب یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے اور یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ پاکستان کی شکل کیسی ہو۔ اسی لیے مَیں کہا کرتا ہوں کہ یہ سوال کہ ’’کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟‘‘ اب محض نرے غوروفکر کے صاف ستھرے شعبے سے نکل کر فوری نوعیت کی عملی سیاست میں داخل ہوگیا ہے اور پوری شدت سے پوچھ رہا ہے: ’’کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟‘‘
یہ عین ممکن ہے کہ اس مضمون کے شائع ہونے سے پہلے ہی قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا مژدہ مسلمانانِ ہند کو دے دیا ہو، اور اگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا تو بہت جلد اس کا اعلان منظرعام پر آجائے گا۔ لہٰذا مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیا ہوگا، کس نوعیت کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا، اور قومی مقاصد کیا ہوں گے۔ ان کے سامنے جو مسئلہ درپیش ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے: ’’کیا ہماری ریاست مذہب سے عالمی دُوری کی ایک اور علامت ہوگی، ان مسلم ریاستوں میں ایک اور مسلم ریاست کا اضافہ، جن میں اسلام کا کوئی اثر اور عمل دخل نہیں ہے، نہ سیاسی نظام کی تشکیل میں، نہ معاشرتی طرزِعمل میں۔ یا پھر یہ جدید تاریخ میں ایک نہایت پُرجوش اور انتہائی شان دار تجربہ ہوگا، اُس شاہراہ پر پہلا قدم جو انسانِ کاملؐ نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟ کیا پاکستان برعظیم ہندستان کے چند خاص علاقوں میں مسلمانوں کی قومی ترقی کا ایک ذریعہ ہوگا، یا پھر پاکستان ایک عملی سیاسی نظریے کے طور پر پوری دنیا میں اسلام کی تجدید و احیا کی علَم برداری کرے گا؟
اگر کبھی کسی قوم کے سامنے فیصلے کی گھڑی آیا کرتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں شعوری فیصلہ کرے، تو مسلمانانِ ہند کے لیے فیصلے کی گھڑی آگئی ہے۔ اب یہ ذمہ داری ہمارے رہنمائوں کے کندھوں پر ہے کہ وہ فیصلہ کریں اور صحیح فیصلہ کریں۔
اس سے پہلے کبھی مسلم رہنمائوں کو ایسا اختیار تفویض نہیں ہوا کہ وہ ملت کی تقدیر کا فیصلہ صحیح (یا غلط) سمت میں کریں۔ یہ ان کے اختیار و طاقت میں ہے کہ وہ جلد از جلد اپنا فیصلہ سنائیں کہ ہندی مسلمان صحیح معنی میں مسلمان اور حیاتِ نو پانے والے اسلام کے پشت پناہ بن جائیں گے، یا پھر نام نہاد مسلمان گروپوں اور ریاستوں کے ہجوم میں ایک اور مسلمان گروپ اور ریاست کا اضافہ ہوجائے گا، جہاں اسلام کی حیثیت ایک ثقافتی ٹھپے سے زیادہ نہیں، جہاں اسلام اور اس کے اصول و احکام اُمت المسلمین کے معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی وجود کے لیے ناگزیر خیال نہیں کیے جاتے۔ مسلم لیگ کی موجودہ قیادت، مَیں پھر دہراتا ہوں، مسلم لیگ کی موجودہ قیادت کے ہاتھ میں ہے فیصلہ کرنا، صحیح فیصلہ کرنا، کیونکہ حصولِ پاکستان کے لیے جوش و خروش کی جو زبردست لہر اُٹھی ہے وہ مسلم لیگ نے اُٹھائی ہے، اور اس نے اس ملک کے تمام مسلم عوام کو اُٹھا دیا ہے، انھیں متحد کردیا ہے، اور ایسا متحد کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی ماضی کی تاریخ میں اتحاد کا ایسا شان دار مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ اور جوش و خروش کی اس لاثانی لہر نے ہمارے رہنمائوں کو مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایسی باوقار طاقت تفویض کی ہے ، جو گذشتہ کئی صدیوں کے دوران میں کسی قوم نے اپنے رہنمائوں کو کبھی تفویض نہ کی تھی۔ گو، اسی بااختیار وقار و طاقت کی بنا پر ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہے۔ انھیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی ذمہ داری ’سیاسی تدبر‘ سے شروع اور ’سیاسی تدبیر‘ پر ختم ہوجاتی ہے۔ سیاسی تدبیریں خواہ کتنی بھی ضروری اور ناگزیر ہوں، یہ محض ثانوی نوعیت کی ہوتی ہیں اور لیڈروں کے فرائض میں ایک عبوری اور عارضی مرحلے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیڈروں کا اصل منصب و فریضہ ’قوم سازی‘ ہے۔ چونکہ ہماری قومیت کی بنیاد اسلام ہے،اس لیے ہمارے لیڈروں کو فوراً اسلام کی اصطلاحوں میں سوچنا شروع کردینا چاہیے، کیونکہ مستقبل کے لیے افکار تازہ کی نمود کو ملتوی کیے جانا اب کسی اعتبار سے مناسب نہیں (یہ سوچنا اور کہنا اب غلط اندیشی ہے کہ ’’ایسے امور و معاملات پر اُس وقت غور کیا جائے گا جب پاکستان قائم ہوجائے گا‘‘)۔ ہمارے لیڈروں کو اسلام کے تقاضوں اور مسلم قوم کے عارضی مفادات کے درمیان خیالی خط نہیں کھینچنا چاہیے کیونکہ اسلام کے تقاضے جامع اور ہمہ گیر ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے روحانی معاملات بھی شامل ہیں اور معاشی مفادات بھی۔اسلام کے تقاضوں کے آگے مکمل ، رضاکارانہ اور باشعور دست برداری واحد حل ہے۔
مختصر یہ کہ اب یہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بار بار تلقین کریں کہ حصولِ پاکستان کا مقصد ایک سچی اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام ہے،اور یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک تحریکِ پاکستان کا ہرکارکن، وہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، دیانت داری سے اپنی زندگی کو ہر گھنٹے اور ہرمنٹ اسلام کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش نہ کرے گا، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔
یہ بات جہاں عامۃ المسلمین پر صادق آتی ہے، وہاں ہمارے لیڈروں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ انھیں اپنے معاشرتی رویے سے یہ ظاہر و ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پوری سنجیدگی سے اسلام کو ایک سچا اصول و نظریہ قرار دیتے ہیں اور اسے محض ایک نعرہ نہیں سمجھتے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ وہ اسلام کے عین تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینا ہمارے لیڈروں میں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک اسلام ایک زندہ محرک ہے،اور ان کے لیے اظہار خلوص و عقیدت ہم پر واجب ہے۔ لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جن کی صرف زبان پر اسلام کا نام آتا ہے، اور وہ بھی اس وقت جب وہ کسی عوامی جلسے سے خطاب کر رہے ہوں یا کوئی اخباری بیان ان کی طرف سے جاری ہوتا ہو۔ حالانکہ ان کا شخصی و ظاہری رویہ اسلام سے اسی طرح خارج ہوتا ہے جس طرح یورپ اور امریکا کے کسی عام سیاسی لیڈر کا شخصی و ظاہری رویہ عیسائیت سے خارج ہوتا ہے۔ اگر حصولِ پاکستان کی خاطر ہماری جدوجہد کو اس مرض ’قومیت‘ کی قابلِ رحم حالت میں ضائع نہیں ہونا ہے، جس میں پوری دنیاے اسلام مبتلا ہے، تو ہمارے لیڈروں کا رویہ فوراً بدل جانا چاہیے۔ اگرچہ یہ ہمارا کام نہیں ہونا چاہیے کہ کسی شخص کے ذاتی عقائد کے نگران و منصف بن جائیں، کیونکہ یہ صرف اللہ کا کام ہے، تاہم ملت کو اپنے رہنمائوں سے یہ توقع کرنے کا حق حاصل ہے کہ ان کا طرزِ زندگی اس نظریے کے عین مطابق ہو، جس کے تحفظ کا وہ اپنی زبان سے دعویٰ کرتے ہیں۔
آخر میں ایک اور بات___ اگر ہمارے لیڈر اسلامی شعورو آگہی کی اعلیٰ ترین بلندیوں پر پہنچ جائیں، تب بھی صرف ان کی مثال ہمارے روحانی مقصد کے حصول و تحفظ کے لیے ناکافی ہوگی۔ ہماری قوم کو اخلاقی و معاشرتی زوال کے اس گڑھے سے نکل کر اُٹھنا ہوگا، جس میں وہ گری پڑی ہے۔ ہمارا موجودہ اخلاقی قدوقامت اس معیار سے بہت نیچے ہے جس کا تقاضا اسلام ہم مسلمانوں سے کرتا ہے۔ تہذیب کی روح کا ہم میں فقدان ہے۔ آرام طلبی اور تن آسانی سے ہمیں محبت ہے۔ جب ذاتی مفاد کی کوئی بات سامنے آئے تو ہمیں جھوٹ بولنے سے عار نہیں۔ ہمیں اپنے وعدے وعید توڑنے میں مزا آتاہے۔ جب بدعنوانی، خودغرضی، چال بازی، فریب کاری کے واقعات ہماری روزمرہ کی زندگی کے مشاہدے میں آتے ہیں، ہم بڑی معنویت سے مسکراتے یا بڑی ڈھٹائی سے ہنستے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے بیش تر افراد کو کسی چیز سے کوئی سچی لگن ہے، تو وہ چیز وہ ہے جسے عرفِ عام میں ’کیریئر‘کہتے ہیں۔ اپنے لیے اور اپنے رشتہ داروں کے لیے چھوٹے سے چھوٹے فائدے کے لیے وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں، جو ان سے ہوسکتا ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کے پیٹھ پیچھے غیبت کرنا اور بہتان لگانا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ مختصر یہ کہ ہم نے اپنے وجود کے اصل سرچشمے، یعنی اسلامی تعلیمات سے فیض یاب نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے۔
ایسے حالات میں ہم کیوں کر ایک سچے اسلامی ملک پاکستان کے شایانِ شان سچے شہری بن سکتے ہیں؟ ایسے حالات میں ہم کیوں کر ایسا سچا اسلامی ملک پاکستان حاصل کرسکتے ہیں، جس کے حصول کی خاطر ہم اپنی موجودہ اخلاقی پستی سے اُوپر اُٹھنے کی ذرا بھی کوشش نہ کریں؟ جب ہمارے دل میں حُب ِ الٰہی اور خوفِ خدا ہی موجود نہ ہو، تو ہم کیوں کر حکمِ الٰہی کو اپنے معاشرتی نظام کا مقتدر بنا سکتے ہیں؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان سوالوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اگر مسلمان اپنے طور طریق اور اپنے اخلاقی معیار فوری طور پر تبدیل نہیں کریں گے اور ہرقدم پر شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کی روش ترک نہیں کریں گے ، تو یقین جانیے کہ نظریۂ پاکستان میں سے اس کی روح غائب ہوجائے گی اور یوں پاکستان کو اسلام کی جدید تاریخ میں جو منفرد پوزیشن حاصل ہونے والی ہے،و ہ حاصل نہ ہوسکے گی۔
جیساکہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اور اب پھر کہتا ہوں کہ عامۃ المسلمین جبلی طور پر پاکستان کی اسلامی روح کا احساس رکھتے ہیں، اور دل و جان سے چاہتے ہیں کہ لاالٰہ الا اللہ پاکستانی قوم کی ترقی و تعمیر کے لیے نقطۂ آغاز بن جائے، لیکن ان کے خیالات میں ابہام اور ژولیدگی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ جانا کدھر کو ہے۔ انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ رہنمائی رہنما کا منصب ہے۔ سوال گھوم پھر کر پھر قیادت کے سامنے آگیا ہے۔
مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ عصرحاضر کی مسلم قیادت کا بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کی رہنمائی صرف سیاست و معیشت کے میدان میں نہ کریں، بلکہ روحانی اور اخلاقی میدان میں بھی کریں اور مسلمانوںکو باور کرائیں کہ:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط(الرعد ۱۳:۱۱)، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی قوم کی سیاسی و معاشی حالت بہتر نہیں ہوسکتی جب تک اس کی مجموعی اخلاقی حالت بھی بلند نہ ہو۔