سوال:فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر اجتماعی دعا مانگنے کا رواج ہوگیا ہے، جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔ عہد نبویؐ میں اس کا رواج نہیں تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ شریعت کی رُوسے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:فرض نمازوں کے بعد دعا کے معاملے میں شدت پسندی کا مظاہرہ کیاجاتا ہے ۔ بعض حضرات ہیں جو اسے غیر مسنون اور غیر شرعی قرار دیتے ہیں، چنانچہ وہ نماز باجماعت سے فارغ ہوتے ہی اس طرح اُٹھ جاتے ہیں، گویا تپتی ہوئی زمین پر بیٹھے ہوں۔ دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جو اس کا اتنی پابندی سے التزام کرتے ہیں گویا دعا نماز کا جز ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دعا میں شریک نہیں ہوتا اور پہلے ہی اٹھ جاتا ہے تو اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
یہ بات صحیح ہے کہ فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے نہیں ملتا۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے: صحاح، سنن اور مسانید میں درج معروف احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے دعا مانگا کرتے تھے اور اپنے اصحاب کرامؓ کو بھی اسی کی ہدایت اور تعلیم دیتے تھے ۔ کسی نے بھی یہ بات نقل نہیں کی ہے کہ آپؐ جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپؐاور سارے مقتدی مل کر اجتماعی دعا مانگتے تھے۔ نہ فجر میں یہ معمول تھا، نہ عصر میں، نہ دیگر نمازوں میں، بلکہ آپؐ کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ آپؐ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کرامؓ کی طرف رخ کرلیتے اور اللہ کا ذکر کرتے اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تلقین کرتے۔(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، طبع سعودی عرب، ۲۲/۴۹۲)
جَوْفُ اللَّیْلِ الآخِرِ وَدُبُرَالصَّلَوٰتِ الْخَمْسِ (ترمذی:۳۴۹۹)
خود آپؐکے جو معمولات منقول ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐفرض نمازوں کے بعد کبھی جلد اُٹھ جاتے تھے اور کبھی کچھ دیر بیٹھ کر ذکر ودعا میں مشغول رہتے تھے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگر فرض نمازوں کے بعد کی دعا کو نماز کا جز نہ سمجھا جائے اور امام کی دعا میں مقتدی بھی شریک ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اسے بدعت قرار دینا اور ترک کردینے پر زور دینا درست نہیں معلوم ہوتا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا ہے: اس میں شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ طریقہ رائج نہ تھا جو اب رائج ہے کہ نماز باجماعت کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگتے ہیں۔ اس بنا پر بعض علما نے اس طریقے کو بدعت ٹھیرایا ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر اس کو لازم نہ سمجھ لیا جائے اور اگر نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے اور اگر کبھی کبھی قصداً اس کو ترک بھی کردیا جائے، تو پھر اسے بدعت قرار دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ خدا سے دعا مانگنا بہ جائے خود تو کسی حال میں برا فعل نہیں ہوسکتا۔(رسائل ومسائل، جلد اوّل، ص ۱۳۹)
ایک صاحب نے ایک تفصیلی مقالہ تحریر کیا، جس میں اس موضوع پر مختلف پہلوؤں سے بحث کرنے کے بعد اجتماعی دعا بعد نماز کو بدعت قرار دیا۔ مولانا سید احمد عروج قادریؒ نے اس مقالے کو ماہ نامہ زندگی رام پور میں شائع تو کردیا ، مگر ساتھ ہی اس پر یہ نوٹ بھی لگایا: میں اپنے مطالعے کی روشنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس عمل کو بدعت قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ اگراس اجتماعی دعا کو فرض نمازوں کا جز نہ سمجھا جائے تو اس کے بدعت ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل فرض نمازوں کے بعد مختلف اوقات اور مختلف حالات میں مختلف رہا ہے۔ فرض نمازوں کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذکار، استغفار اور دعاؤں کے جو کلمات ارشاد فرمائے ہیں ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک مقالہ تیار ہوجائے۔ کبھی آپؐفرض نمازوں کے بعد اپنی جگہ سے فوراً ہٹ جاتے، کبھی اذکار اور دعاؤں کے اچھے خاصے طویل کلمات ارشاد فرماتے، اس کے بعد اپنی جگہ سے ہٹتے۔ کبھی نماز سے فارغ ہوکر صحابہ کرامؓ کی طرف رخ کرکے بیٹھ جاتے۔ بیٹھ کر آپؐ کیا کچھ کرتے یا کہتے تھے، اس کی تمام تفصیلات احادیث میں نہیں ہیں۔ اگر ان تمام چیزوں کو ایک اصل مان کر امام اور مقتدی دونوں مل کر اجتماعی دعا کرلیں تو اس عمل کو بدعت قرار دینا صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ (ماہ نامہ زندگی ، رام پور، جلد۶۰، شمارہ ۶، رجب ۱۳۹۸ھ،جون ۱۹۷۸ئ، ص۴۹)
صاحب ِمقالہ نے اس موضوع پر بھی تفصیل سے بحث کی تھی کہ جن احادیث میں فی دبر کل صلوٰۃ دعا کا ذکر آیا ہے اس سے مراد نماز کا آخری حصہ (سلام پھیرنے سے پہلے)ہے ،نہ کہ نماز کے بعد۔ اس کا رد کرتے ہوئے مولانا عروج قادریؒ نے لکھا ہے: قُبل اور دُبر ایک دوسرے کی ضد اور نقیض ہیں۔ جس طرح قبل کے اصل معنی مقدم (آگے)کے ہیں، اسی طرح دُبر کے اصل معنی موخر(پیچھے)کے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے جسم کے آگے کے حصے کو قُبل اور پیچھے کے حصے کو دُبر کہتے ہیں اور اسی لحاظ سے اس لفظ کے معنی آخر اور بعد دونوں صحیح ہیں۔ مُدَبَّر اس غلام کو کہتے ہیں جس کو اس کے آقا نے اپنی موت کے بعد آزاد کردیا ہو۔ قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی اس لفظ کو بعد کے معنی میں استعمال کیاگیا ہے۔
سورۂ ق میں ہے: وَاَدْبَارَالسُّجُوْدِ(۵۰:۴۰)۔ اس کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے یہ کیا ہے:’’اور فرض نمازوں کے بعد بھی‘‘۔ دُبرالصلوٰۃ کے الفاظ بہت سی حدیثوں میں آئے ہیں۔ ان میں سے بعض احادیث میں وضاحت اور صراحت کے ساتھ دبر کے معنی بعد کے ہیں۔ مثلاً بعض احادیث میں فی دبرالصلوٰۃ مخصوص تعداد میں تسبیحات پڑھنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے ، فرض نمازوں کے سجدے میں یا تشہد ودرود کے بعد نماز کے اندر ان تسبیحات کو گن کر پڑھنے کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ تمام محدثین ان کو فرض نمازوں کے بعد ہی کا ذکر قرار دیتے ہیں۔ بعض محدثین نے اس طرح کی احادیث پر تراجم یا عنوانات مقرر کرکے واضح کردیا ہے کہ دبرالصلٰوۃ کے معنی بعدنماز کے ہیں، نہ کہ نماز کے آخر میں۔ امام نسائی نے اس طرح کے متعدد عنوانات قائم کیے ہیں، مثلاً ان کا ایک عنوان ہے: التہلیل والذکر بعد التسلیم۔ اس کے تحت جو حدیث انھوں نے نقل کی ہے اس میں دبرالصلٰوۃ کا استعمال ہوا ہے۔ امام بخاری نے بھی کتاب الدعوات میں الدعاء بعد الصلٰوۃ کا باب باندھا ہے اور اس میں دبر کل صلٰوۃ والی حدیث نقل کی ہے۔ (ایضاً، ص ۴۹-۵۰)
مولانا سید احمد عروج قادریؒ نے مزید لکھا ہے:اس سے آگے کی ایک اور بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ احادیث نبویؐ میں نماز کے اندر کی دعاؤں اور اذکار کے لیے فی صلوٰتہ ، فی سجودہ، فی السجود، فی صلوٰتی یا بعد التشہدکے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور نماز کے بعد کی دعاؤں اور اذکار کے لیے دبرالصلوٰۃ ، فی دبرالصلوٰۃ، حین ینصرف، اذاسلّم، حین فرغ من الصلوٰۃ یا اثرالصلوٰۃ کے الفاظ لائے گئے ہیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دبرالصلٰوۃ یا فی دبرالصلٰوۃ کاترجمہ نماز کے بعد ہی صحیح ہے۔(ایضاً، ص۵۲)۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)