ستمبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

حاکموں کے لیے استثنا ، غیراسلامی قانون

مولانا امین احسن اصلاحی | ستمبر ۲۰۱۲ | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

ایک اسلامی دستور کی ضروری خصوصیت یہ ہے کہ، اس کے اندر ایگزیکٹو (executive)  [انتظامیہ] کی ساری مطلق العنانیوں کا پوری طرح سدباب کردیا جائے۔ عام رعایا جس قانون کی تابع ہو، ایگزیکٹو کے ارکان بھی اُسی قانون کے تابع ہوں۔ جس طرح عام رعایا کو اُن کی بدکرداریوں پر عدالتوں میں مقدمہ چلاکر سزا دلائی جاسکتی ہے، اُسی طرح ایگزیکٹو کے بڑے سے بڑے ارکان کو بھی اُن کی بدکرداریوں پر عام عدالتوں میں، عام قانون کے ماتحت مقدمہ چلا کر سزا دلائی جاسکتی ہو۔ اسلامی شریعت میں ایگزیکٹو کا منصب صرف خدا کی شریعت کی تنفیذ اور اس کا اجرا ہے۔ اُن کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خدا کی شریعت میں کوئی تغیر کرسکیں، یا اس کے کسی جزو کو منسوخ کرسکیں، یا اُس کے کسی حصے کو من مانے قوانین سے بدل سکیں۔

اسلامی شریعت کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُسی طرح اللہ کے قوانین کے تابع ہیں، جس طرح ایک عام مسلمان اِن قوانین کے تابع ہے۔ اِس وجہ سے اسلامی نظام کے اندر ایگزیکٹو کا کوئی اُونچا سے اُونچا فرد بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنے لیے قانون سے بالاتر کوئی مقام مخصوص کرانے کی کوشش کرے، یا قانون کو معطل یا ملتوی کرنے کی جرأت کرے۔ اسلامی قانون خدا اور اس کے رسولؐ کا بنایا ہوا ہے۔ اور خدا اور خدا کے رسولؐ کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اُس کے اندر ترمیم یا تغیر کرسکیں۔ کسی دوسرے کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ اس کے اندر سرِمُو تغیر کرسکے۔

اگر آپ نے اپنے دستور کے اندر کوئی ایسا خلا چھوڑا، جو آپ کے ایگزیکٹو کے ارکان کو اس بات کا موقع دیتا ہو، کہ وہ کسی پہلو سے اپنے آپ کو عام قانون سے بالاتر بنا سکیں، تو آپ  اس ملک میں قیصروکسریٰ کا نظام ہی لائیں گے، وہ نظام نہیں لائیں گے جو حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ نے قائم کیا تھا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے جو نظام قائم کیا تھا، اُس کی سب سے بڑی خصوصیت کا اظہار خود حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اس طرح فرما دیا تھا کہ: ’’میں تمھارے اندر خدا کی شریعت کو جاری کرنے والا ہوں، اپنی طرف سے کوئی نئی بات کرنے والا نہیں ہوں۔ اور اگر مَیں اس شریعت سے سرِمُو انحراف کروں تو تم مجھے ٹھیک کردینا‘‘۔

اسی طرح عدلیہ سے متعلق بھی دستور میں چند باتوں کی تصریح نہایت ضروری ہے، جو عدلیہ کے مزاج کو اسلامی بنانے کے لیے ضروری ہیں:

  • آزاد ہو: پہلی چیز یہ ہے کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو کی ہرقسم کی مداخلت کے امکانات سے بالکل محفوظ کیا جائے، تاکہ بے لاگ انصاف، جو ہر عدلیہ کے قیام کا اصلی مقصد ہے، ہرشخص کو حاصل ہوسکے۔
  •  مفت انصاف مھیا ہو: دوسری چیز یہ ہے کہ ہر باشندۂ ملک کے لیے مفت عدل و انصاف مہیا کرنے کی ذمہ داری لی جائے، تاکہ ہرمظلوم بغیر کوئی قیمت ادا کیے انصاف حاصل کرسکے۔ اسلامی نظام میں ہرمظلوم کا حکومت پر یہ حق ہوجاتا ہے کہ اُس کی داد رسی ہو، اُس کو اُس کا چِھنا ہوا حق ملے، اور اُس کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ یہ بات نہایت ہی شرمناک ہے کہ ایک شخص کو اپنا واجبی حق حاصل کرنے کے لیے قیمت ادا کرنی پڑے۔ جس نظام میں لوگوں کو اپنے واجبی حقوق حاصل کرنے کے لیے بھی قیمت ادا کرنی پڑتی ہو، وہ نظام ہرگز اسلامی نظام نہیں ہوسکتا۔ خلافت ِ راشدہ میں کسی شخص کو بھی اپنی مظلومیت کی داد حاصل کرنے کے لیے کوئی قیمت نہیں اداکرنی پڑتی تھی۔ جو شخص مظلوم ہوتا حکومت پر اُس کا یہ ناقابلِ انکار حق قائم ہوجاتا کہ وہ اُس کے لیے انصاف مہیا کرے۔
  •  یکساں قانون و نظامِ عدالت:تیسری چیز یہ ہے کہ ہمارے دستور میں اس بات کی ضمانت دی جائے کہ راعی اور رعایا، حاکم اور محکوم، امیر اور مامور، ہر ایک کے لیے ایک ہی قانون اور ایک ہی نظامِ عدالت ہوگا۔

اسلامی شریعت میں اس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ قانون اور نظامِ عدالت میں کسی قسم کی تفریق کی جاسکے۔ جاہلی نظاموں میں قانونی مساوات کا دعویٰ تو بڑی بلند آہنگی سے کیا جاتا ہے اور ہرملک کے دستور میں قولاً اس بات کی ضمانت دی جاتی ہے کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہوں گے، لیکن عملاً نہ صرف ایگزیکٹو کے ارکان، نہ صرف جمہوریتوں کے صدر، نہ صرف ملک کے بادشاہ، بلکہ بعض حالات میں پارلیمنٹوں کے ارکان اور ملک کے دوسرے شرفا و اعیان کو بھی عام قانون اور عدالتوں کی داروگیر سے بالکل بالاتر کردیا جاتا ہے۔

یہ صورت حال ایک خالص جاہلی صورتِ حال ہے، جس کواسلام سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں۔ اسلام میں غریب اور امیر، امیر اور مامور، سب کے لیے ہرحالت میں ایک ہی قانون اور ایک ہی نظامِ عدالت ہے۔ اور اسلام نے اِس بات کو کسی حال میں رَوا نہیں رکھا ہے کہ قانون اور عدالت کے نظام میں سرِمُو کوئی تفریق کی جائے۔

یہ مسئلہ کوئی استنباطی اور اجتہادی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کے بارے میں قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تصریحات بھی موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین  کے عہد کی متعدد عملی اور واقعاتی شہادتیں بھی موجود ہیں۔ حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں بعض   ترفع پسند سرکاری حکام نے حضرت عمرؓ کے سامنے حکومت کی ساکھ قائم رکھنے کے لیے یہ خیال پیش کیا تھا کہ ایگزیکٹو کے ارکان کو عام قانون اور عام عدالتوں کی داروگیر سے ایک حد تک بالاتر کردیا جائے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اُن کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور صاف صاف یہ فرمایا کہ: اسلامی شریعت میں جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قانون سے بالاتر کوئی جگہ حاصل نہیں تھی تو میں کسی دوسرے کو قانون اور عدالت کی داروگیر سے، کسی درجے میں بھی سہی، کس طرح بالاتر قرار دے سکتا ہوں۔ حضرت عمرؓ کے اس اعلان نے اس حقیقت کو بالکل غیرمشتبہ طور پر واضح کردیا کہ اسلام نے ہرشخص کے لیے قانونی مساوات کا جو حق تسلیم کیا ہے، وہ حق ایسا نہیں ہے جو ایک طرف قانونی مساوات کے بلندبانگ دعوے کے ساتھ لوگوں کو دیا جائے اور دوسری طرف انتظامی قوانین (Administrative Laws) کے ہتھکنڈوں کے ذریعے اِس حق کو بالکل سلب کرلیا جائے اور معاشرے کے اکابر مجرمین کو قانون اور عدالت سب کی گرفت سے بالکل آزاد کردیا جائے، تاکہ  وہ خدا کی زمین کو ظلم اور فساد سے بے روک ٹوک بھرتے رہیں۔

اسلام نے جس قانونی مساوات سے دنیا کو آشنا کیا ہے اُس کی میزان میں فاطمہؓ بنت محمدؐ اور ایک معمولی بدوی عورت بالکل مساوی درجے پر ہیں۔ حضرت عمرؓ ایک معمولی بدوی کی پشت پر جس طرح کوڑے لگوا دیتے تھے اُسی طرح ایک بڑے سے بڑے گورنر اور بڑے سے بڑے فاتح کو بھی، اگر کسی جرم کا مرتکب پاتے تو بے تکلف عام قانون کے تحت اُس کو سزا دلوا دیتے۔ وہ جس قانون کو دوسروں پر جاری کرتے تھے اپنے آپ کو بھی اسی قانون کے ماتحت سمجھتے تھے، اور برابر یہ کہا کرتے تھے کہ جس طرح میں دوسروں کو انصاف کے آگے جھکائوں گا اسی طرح خود اپنے آپ کو بھی انصاف کے آگے جھکائوں گا۔

  • کتاب و سنت - ماخذِ قانون سازی: مقننہ سے متعلق ہمارے دستور کو اس بات کی تصریح کرنی چاہیے کہ وہ قانون سازی کے معاملے میں اوّل تو کتاب و سنت کو اصل ماخذتسلیم کرے گی۔ ثانیاً، وہ کتاب و سنت اور اجماعِ صحابہؓ کے حدود کے خلاف کبھی کوئی قدم نہ اُٹھائے گی۔ عام تدابیر اور مصالح کے لیے اُس کو قانون سازی کا حق حاصل ہے، لیکن یہ حق اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ کوئی قانونِ خدا اور رسولؐ اور اجماعِ صحابہؓ کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ جو قانون خدا، اس کے رسولؐ اور اجماعِ صحابہؓ کے خلاف ہو، وہ اسلام میں باطل ہے۔

اسی طرح ہمارے ائمہ اور فقہا نے جو اجتہادات فرمائے ہیں، وہ بڑی قدروقیمت رکھتے ہیں۔ ہمارے ائمہ اجتہاد کی تمام شرائط کے حامل تھے اس لیے، اگرچہ ان کے اجتہادات اور استنباطات کو غلطی سے مبرا نہ قرار دیا جاسکے، تاہم یہ کہنا کچھ بے جا نہیں ہے کہ بحیثیت ِ مجموعی حق و صواب سے جس قدر اقرب ان کا اجتہاد ہے دوسروں کا اجتہاد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کوئی ایسا اجتہاد جو تمام ائمہ کے اجتہاد سے مختلف ہو، نہ عامۃ المسلمین کو مطمئن کرسکے گا، نہ اہلِ علم کو۔ پس، حق سے قریب تر راہ اس معاملے میں یہ ہے کہ کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے جو تمام اہلِ سنت کے اجتہاد کے خلاف ہو۔(روداد جماعت اسلامی ، ششم، ص ۳۳۲-۳۳۷)