اِنقلابِ مصر کا سفر ابھی جاری ہے۔ سیاسی استبداد اور جمہوری قوت کے درمیان برپا معرکہ نئی سے نئی صورت اختیار کر رہا ہے۔ فوج اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ صاف بتاتا ہے کہ انھیں یہ عوامی انقلاب کسی صورت برداشت نہیں۔ اُن کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے ہرحربہ آزما دیکھیں۔
صدارتی انتخاب کے دوران میڈیا کا اسلامی قوتوں کے خلاف زہر اُگلنا اور اُن کی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے شرم ناک ہتھکنڈے استعمال کرنا روزانہ کا معمول تھا۔ فوج عدلیہ کی اور عدلیہ فوج کی معاون و مددگار ہے اور دونوں مل کر حسنی مبارک کے ۳۰سالہ دورِاستبداد کو واپس لوٹانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ مبارک کے کارندے اور ایجنٹ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ہرجگہ اور ہرفورم پر جھوٹے دعووں اور بے بنیاد نعروں کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان جھوٹے نعروں میں ایک نعرہ قانون کی حکمرانی کا تحفظ اور عدلیہ کے احکام کا نفاذ ہے۔ وہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اُن کا ہدف محض پارلیمنٹ کی تحلیل اور صدر کا محاصرہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس انقلاب کو مکمل طور پر ناکام کرکے حسنی مبارک کا دور واپس لانا چاہتے ہیں جس میں نظام وہی ہو، مگر چہروں کی تبدیلی کے ذریعے فریب اور مکاری کو حق ثابت کیا جاسکے۔ ان عناصر کی کوششوں سے یوں لگتا ہے کہ انھیں اسلام پسندوں کی ’جنت‘ سے زیادہ مبارک کی ’جہنم ‘پسند ہے۔ انھیں عدلیہ کے احکام کے احترام کی آڑ میں پوری قوم کو مسل کر رکھ دینا، قطعاً بُرا محسوس نہیں ہوگا۔ عدلیہ کے انھی احکام نے تو کروڑوں عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کا خون کیا ہے۔ ایک کروڑ ۳۰لاکھ انسانوں کے منتخب صدر کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ وہ آزادیِ راے کی آڑ میں ہرنقص اور کمزوری صدر کے سر تھوپنے سے گریز نہیں کرتے۔
اس انقلاب نے تمام فرقوں اور مستقبل کے دشمنوں کو ایک کیمپ میں یک جا کردیا ہے۔ ان سب کا مشترکہ مفاد اسلامی قوت کا راستہ روکنا اور اسے منظر عام پر آنے سے روکنا ہے۔انھیں اس بات کی ذرا پروا نہیں کہ اس پارلیمنٹ اور صدر کو بھرپور عوامی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ انھیں تو صرف اسلامی قوت کی لہر کو روکنا ہے اور اس قوت میں بھی سب سے زیادہ انھیں اخوان المسلمون سے خطرہ ہے۔
اس صورت حال میں ماضی کے حکمران ٹولے میں شامل بعض اہم شخصیات کا باہم متحد ہوجانا اُن کی ’مبارک دوستی‘ کی مثال ہے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے ایک ’تیسری قوت‘ کے نام سے میڈیا میں پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ اس تیسری قوت کی رہنمائی کل تک منتشر رہنے والے لبرل افراد، نجیب ساویرس، سیکولر شناخت رکھنے والا رفعت سعید، اسامہ غزالی حرب، محمدابوحامد جو لبنان میں صہیونیت کے ایجنٹ سمیرجعجع کا شاگرد ہے، کر رہے ہیں۔ اس گروہ میں لبرل امریکی سعدالدین ابراہیم اور حمدین صباحی بھی شامل ہیں جنھوں نے ناصر کے استبداد کو عوام پر مسلط کیے رکھا۔ حمدین صباحی کے علاوہ یہ سب لوگ صدارتی انتخاب میں احمد شفیق کے حمایتی تھے جو حسنی مبارک کا نمایندہ تھا۔
حسنی مبارک کے دو بیٹوں علا اور جمال کے خلاف قومی خزانے کی لُوٹ مار کے جرم میں ایک مقدمہ چل رہا ہے۔ اس مقدمے کی پہلی سماعت میں ماہرقانون دان ڈاکٹر یحیٰ الجمل کا موجود ہونا معنی خیز تھا۔ یہ یحیٰ الجمل جمال عبدالناصر کے روحانی فرزندوں میں شامل ہوتا ہے۔ باقیاتِ ناصر کی صورت میں اسی گروہ نے عسکری مجلس کے لیے دستوری مسوّدہ تیار کیا تھا جس میں صدرِ جمہوریہ مصر ڈاکٹر محمد مرسی کے اختیارات سے اُن کو محروم کرنے کا حکم ہے۔ یحییٰ الجمل کا اس مقدمے میں کویل فریدالدیب کے پہلو میں بیٹھنا حیرت انگیز ہے۔ یہ وہی مقدمہ ہے جس میں معروف مصنف حسنین ہیکل کے صاحب زادے حسن محمد بھی مبارک کے بیٹوں کے ساتھ مقدمے میں ملوث کیے گئے ہیں۔
یہ ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں معاملات ایسے ہیں جن میں وہ تمام قوتیں یک جا اور متحد دکھائی دیتی ہیں جو کل تک حسنی مبارک کا نمک کھایا کرتی تھیں۔ آج انھیں اسلام سے اس قدر خوف محسوس ہورہا ہے کہ یہ اسلام پسندوں کو ہرقیمت پر منظر سے ہٹانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے تمام ذرائع، وسائل، مہارتیں اور دبائو میڈیا، عدلیہ، سیاست اور معیشت میں دستوری عدالت کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے اقدام کے دفاع میں صرف کر رہے ہیں، جب کہ یہ فیصلہ بذاتِ خود ایک مختلف فیہ فیصلہ ہے۔ آج یہ لوگ خود کو مہذب اور جمہوری باور کرا رہے ہیں اور قانون کی حکمرانی کے دعویدار ہیں، جب کہ قانون ان سے ماورا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ حسنی مبارک کی ۳۰سالہ ظالمانہ حکمرانی میں کہاں تھے؟ اُس دوران میں بے شمار عدالتی فیصلے ایسے تھے جو بے گناہوں کی بے گناہی کو ثابت کر رہے تھے مگر حکومت نے اُن کو پائوں تلے روند کر رکھ دیا تھا۔ اُس وقت تو اِن لوگوں کی کوئی آواز قانون اور دستور کی حکمرانی کے سلسلے میں سنائی نہ دی۔ لیکن آج اُن کا یہ ’حق‘ ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کا دفاع کریں جو کل نہیں تھا، لہٰذا وہ کیوں خاموش رہیں۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ حسنی مبارک آج بھی اس معرکے کی قیادت کر رہا ہے اور اس میں شامل ہر فرد اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کیونکہ یہ جنگ موت و حیات کی جنگ ہے۔ نوشتۂ دیوار یہ بتاتا ہے کہ باطل کے یہ حواری اور حمایتی بالآخر موت کے گھاٹ اُتر کررہیں گے کیوں کہ مصری قوم کو اپنی شناخت، اپنے حقِ انتخاب و اختیار کے حصول سے پیچھے ہٹنا ہرگز قبول نہیں ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی بھی یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا بھی یہی ہے کہ مصر اپنی شناخت کی طرف واپس لوٹ جائے اور اس کی قوم اپنی آزاد مرضی سے زندگی گزار سکے۔
صدر جمہوریہ مصر ڈاکٹر محمد مُرسی کے انتخاب پر اسرائیل کے صدر بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل مصر میں جاری جمہوری سفر کو اہم سمجھتا ہے اور اس کے نتائج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دراصل نیتن یاہو کا یہ بیان ڈپلومیٹک تھا۔ وہ اسرائیل کو پہنچنے والے اس زخم اور ڈاکٹر مُرسی کے انتخاب کے خلاف دیے گئے منفی بیانات سے توجہ ہٹانا چاہتا تھا۔ صدرِ مصر کے انتخاب سے دو روز قبل اسرائیل کے ایک فوجی افسر نے کہا تھا کہ اسرائیل امن و آزادی کو جمہوریت پر ترجیح دیتا ہے۔
اسرائیل اور حسنی مبارک حکومت کے درمیان تعلقات دوستانہ ہی نہ تھے، بلکہ حسنی مبارک اسرائیل کا وفادار دوست تھا۔ اس نے اسرائیل کے لیے اپنی وفاداری کا امریکا کو مکمل طور پر یقین دلارکھا تھا لیکن انقلاب کے دوران اس وقت مبارک کو بہت بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا جب اُس نے اپنے اسرائیلی دوست اور اسرائیل کے سابق وزیردفاع بنیامین الیعازر سے ملاقات کر کے درخواست کی کہ وہ وہائٹ ہائوس کو میرے دفاع اور بقا کے لیے آمادہ کرے، مگر انقلاب نے اس بات کے تمام دروازے بند کردیے تھے اور ہرامکان کا خاتمہ کردیا تھا، لہٰذا مبارک کو بوجھل دل کے ساتھ قصرِصدارت چھوڑنا پڑا۔
احمدشفیق جو صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر مُرسی کے مدمقابل مبارک کا نمایندہ تھا، نیتن یاہو نے اس کے خلاف بیان بازی سے اپنی کابینہ کو منع کر رکھا تھا، مگر اسرائیل ڈاکٹر مُرسی کی صورت میں صدرِ مصر کی موجودگی سے بننے والی اسٹرے ٹیجک حکمت عملی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا ایک کے بعد دوسرا بیان اسرائیل کی طرف سے داغا جاتا رہا اور بالآخر نیتن یاہو نے خود ہی کہہ ڈالا کہ وہ احمد شفیق کو ترجیح دیتے ہیں۔
۱- مصر کو علاقے میں قائدانہ کردار کی حیثیت حاصل ہے ۔ وہ عرب دنیا میں سب سے بڑا ملک ہونے کے ناتے سب سے زیادہ سیاسی اثرات کا حامل ہے۔
۲- ڈاکٹر مُرسی کا ایوانِ صدر میں پہنچنا اسلامی تحریک کے سیاست میں داخلے اور مصری عربی رُخ متعین کرنے کی صورت ِ حال کو بدل دے گا۔
۳- اخوان المسلمون اور فلسطین کی بہت بڑی تحریکِ مزاحمت’حماس‘ کے درمیان تال میل کا موجود ہونا۔
۴- ڈاکٹر مُرسی کا صدرِ مصر منتخب ہونے کا مطلب مصر کا اپنے تاریخی وجود کی طرف واپسی کا سفر شروع کرنا ہے۔
۵- مصری قوم کا کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو برابری کی سطح پر نہ ماننا اور مسئلۂ فلسطین کی حمایت و پشت پناہی مستقلاً جاری رکھنا۔
۶- مصری قوم اسرائیل سے اپنا ایک تاریخی حساب بھی چکانا چاہتی ہے جس کی وہ منتظر ہے۔
۷- بغاوت کا انقلاب میں بدل کر کامیاب ہو جانا اور انتخابات کے مرحلے تک پہنچ جانا مصر کو عالمِ عرب کے بعض ممالک کی سیاسی و داخلی معاملات میں پہلے سے زیادہ نمایاں حیثیت عطا کردے گا۔
یہ وہ نکات تھے جو صدر مُرسی کی کامیابی نے اسرائیل کی صہیونی سلطنت کے سامنے لارکھے اور اس نے اِن کے اُوپر عملاً سوچنا شروع کردیا۔اسرائیل کے ادارہ براے مطالعات قومی سلامتی نے ’محمدمُرسی کے انتخاب کی اسٹرے ٹیجک جہات‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں جو اہم نکتہ بیان کیا ہے وہ صدر مُرسی کا اسرائیل کے ساتھ پہلے سے موجود معاہدے کو بدل دینے کا خدشہ ہے۔ اس معاہدے کی رُو سے مصری فوج سینا کی حدود میں داخل اور فوجی کارروائی نہیںکرسکتی۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ اقدام واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جائے گا۔ خاص طور پر اس اعتبار سے کہ وہ مصر و اسرائیل کے درمیان ’امن معاہدے‘ کا نگران ہے، اور وہ تیسرا فریق ہے جس نے اس ’امن معاہدے‘ پر دستخط کے وقت انورالسادات کے دور میں معاہدے کی پابندی کرانے کا تہیہ کیا تھا۔ یہ جائزہ رپورٹ اسرائیلی حکومت کے اس مطالبے پر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ اُن سیاسی امور سے دُور رہا جائے جن کو صدر مُرسی اُٹھائیں۔ اسرائیل کے خارجی امور کے ذمہ داروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مصر کی طرف سے اس امن معاہدے کو کسی بھی طرح سے چھیڑے جانے کے ہرعمل کی عالمی سطح پر مخالفت کریں۔
مصر میں ایک کش مکش جاری ہے۔ ایک طرف انقلاب مخالف قوتیں یک جا ہوکر سابقہ نظام کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اور دوسری طرف عالمی قوتیں اور اسرائیل اخوان المسلمون کی کامیابی کی صورت میں عالمِ عرب میں اس انقلابی تبدیلی کے اثرات و نتائج سے خائف ہیں اور سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں اخوان المسلمون کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اس چیلنج کا سامنا کس طرح کرتی ہے!