تجدید و احیاے اسلام کی جو روح مسلمانانِ عالم کی نئی نسل میں تقلیدِ مغرب کے تلخ تجربات کے بعد اُبھر رہی ہے، عربی ممالک میں اس کی مظہر مشہور دینی تنظیم ’الاخوان المسلمون‘ ہے۔ اس تنظیم کے داعی حسن البنا شہیدؒ نے یہ تقریر اس کی تاسیس کے ۱۰ سال بعد ۱۹۳۸ء میں اس کے پانچویں کھلے اجلاس کے موقع پر کی تھی۔ جماعت ’الاخوان المسلمون‘ اگرچہ آج اس مرحلے سے بہت آگے نکل گئی ہے جس میں وہ اس تقریر کے زمانے میں تھی لیکن یہ تقریر اپنی اُصولیت، اپنی جامعیت اور اپنی روحانیت کی وجہ سے آج بھی اس کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اس میں اُس تحریک کے اصول و منہاج کو داعی شہیدؒ نے کھول کر پیش کردیا ہے جس کے لیے اخوان کو جمع کیا گیا تھا۔ اس میں وقت کے بہت سے سوالات اور شکوک و شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ اخوان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’اسلام دراصل وہی اسلام ہے جو زندگی کے سارے شعبوں اور اس کے تمام مسائل کو محیط ہو‘‘ (ص ۳۲).....تحریکِ اخوان کی جامعیت یوں واضح کی ہے کہ: ’’الاخوان المسلمون ایک سلفی دعوت ہے‘‘۔ ’’الاخوان المسلمون ایک طریقۂ سنیت ہے‘‘___ ’’الاخوان المسلمون ایک حقیقتِ تصوف ہے‘‘___ ’’الاخوان المسلمون ایک سیاسی جماعت ہے‘‘___ ’’الاخوان المسلمون ایک عسکری تنظیم ہے‘‘___ ’’الاخوان المسلمون ایک علمی و ثقافتی انجمن ہے‘‘___ ’’الاخوان المسلمون ایک معاشی ادارہ ہے‘‘ اور ’’الاخوان المسلمون ایک اجتماعی فکر ہے‘‘۔ (ص۲۸ تا ۳۰)۔ پھر اس تقریر میں بتایا گیا ہے کہ اخوان کی دعوت فقہی اختلافات سے دُوری، اکابر اور اربابِ جاہ سے بے نیازی، سیاسی جماعتوں اور انجمنوں سے اجتناب، ٹھوس تعمیری اور تدریجی طریق عمل، اشتہار و اعلان کے بجاے خاموش عملی کام جیسے امتیازات کی حامل ہے (ص ۳۲)۔ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ اگرچہ اخوان خدمتِ دین کے لیے قوت کو ضروری سمجھتے ہیں، لیکن ’’جہاں تک متشددانہ انقلاب کا تعلق ہے، الاخوان اس کے بارے میں کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے‘‘ (ص ۶۴).....
تقریر سادہ اور روحانی جذبات سے لبریز ہے۔ ترجمہ خاصا ہے، صرف ایک مقام پر ایک چیز کھٹکی کہ الاخوان کی دعوت کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ ’’ایمان والوں کے دلوں میں پہلے ایک حقیر تخم بن کر داخل ہوئی…‘‘ (ص ۵۲)۔ اس جگہ تخم کی چھوٹائی کو حقیر کے لفظ سے بیان کرنا نامناسب ہے کیونکہ تخم تو آخر اسلامی دعوت ہی کا ہے، وہ حقیر کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کے بجاے ’ذرا سا‘ کہنا چاہیے تھے ۔ (’مطبوعات‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۶، ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ، ستمبر ۱۹۵۲ء ، ص۶۳-۶۴)