گذشتہ ایک صدی سے کاروانِ شہادتِ حق کے قائدین میں ایک نمایاں ترین ہستی مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ہیں۔ ہرعہد کے طالبانِ حق اس امر کے متلاشی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے قائدین کے کارنامۂ حیات کو جانیں تاکہ دیکھ سکیں کہ کن حالات میں ان رجالِ کار نے علمِ حق تھاما، بلند کیا اور ایک عہد کے دل و دماغ میں اس پرچم کا پیغام اُتارا۔
اب سے تقریباً ۴۰ برس پہلے پروفیسر عبدالرحمن عبد مرحوم نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ابتدائی زندگی، جدوجہد، آزمایش دارورسن اور تحقیق و تالیف کے تادیر زندہ رہنے والے اُمور پر معلومات جمع کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ اس طرح انھوں نے زیرنظر کتاب جولائی ۱۹۷۱ء میں کاروانِ حق کی خدمت میں پیش کردی۔
اس کتاب میں بھی دیگر کتب کی طرح کئی کمیاں تھیں اور معلومات کی پیش کاری میں بھی کچھ مسائل تھے، تاہم اس حوالے سے کتاب اور کتاب کے مصنف خوش قسمت ہیں کہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے کتاب کی اشاعت کے بعد، اس میں اپنی ذات کے حوالے سے بعض تسامحات کو دُور کرنے کے لیے مصنف کو خط لکھا۔ یہ خط موجودہ ایڈیشن میں نہ صرف شامل ہے بلکہ اس کی روشنی میں مصنف نے پورے مسودئہ کتاب پر نظرثانی بھی کی۔
اس کتاب کا یہ تیسرا یڈیشن ۳۴ برس بعد شائع ہوا ہے۔ جو پہلی دو اشاعتوں سے کئی اعتبار سے بہتر ہے۔ کتاب رواں دواں، دل چسپ اور عام فہم انداز میں، مولانا کی زندگی کے مختلف اَدوار کو پیش کرتی ہے۔ مطالعے سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی جدوجہد کے مدارج بیک نظر سامنے آجاتے ہیں۔ (سلیم منصورخالد)
احمد ابوسعید صاحب نے اس سے پہلے ذلک الکتاب اور ترجمان القرآن الکریم دوکتابیں پیش کی ہیں۔ اب یہ تیسری ہے۔ اس کا نام اتنا طویل ہے، اور اس کے ساتھ مزید تشریح طویل تر ہے کہ میرا جیسا آدمی تو گھبرا کر کتاب کو چھوڑ دے۔ دراصل یہ کتاب الفاتحہ اور پارہ عم کی تفہیم القرآن کی تفسیر ہے، جس میں مرتب نے جہاں مولانا مودودی نے پہلی سے چھٹی جلد تک کے حاشیوں کے حوالے ملاحظہ کرنے کے لیے کہا ہے، وہ انھوں نے حوالے پورے پورے نقل کردیے ہیں۔ یہ حصہ صفحہ ۴۰ سے ۶۷۳ تک ہے۔ اس کے ساتھ ہی سورۃ النصر کے ۱۰ مقبول تراجم کا، اور ۱۰مقبول تفاسیر کا تقابلی مطالعہ دیا گیا ہے۔ آغاز میں مقدمہ تفہیم القرآن اور مقدمہ ترجمۂ قرآن مجید مع مختصر حواشی دیا ہے۔ قرآن کے ۲۰۰ ایسے الفاظ کے معنی دیے ہیں جو ان کے مطابق قرآن کریم کے ۶۰فی صد الفاظ پر محیط ہیں۔ اس کے مطالعے سے تیسویں پارے کے مضامین اچھی طرح ذہن نشین اور دل نشین ہوجاتے ہیں۔
توحید، رسالت اور بالخصوص آخرت کا بیان، جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں کا ایسا تذکرہ کہ جیسے سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہے۔ الم نجعل الارض مِھٰدا میں چھے جلدوں سے ۹ حواشی ایک ساتھ پڑھنے سے مطالب و معانی کی دنیا کھل جاتی ہے۔ اسی طرح دیگر موضوعات بھی۔ اس کتاب کا ہدیہ اصل لاگت سے بھی کم رکھا گیا ہے اور اس پر بھی تاجرانہ کمیشن دیا جاتا ہے۔ اگر مرتب کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ مفت چیز کی ناقدری ہوگی تو وہ شاید اتنا ہدیہ بھی نہ لیتے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان کی کوششیں جاری رکھے۔ پاکستان کے شائقین کو حیدرآباد (دکن) سے شائع شدہ کتاب کو دہلی سے حاصل کرنے کا انتظام کرنا چاہیے۔(مسلم سجاد)
کتاب و سنت سے تمام علما و فقہا کا احکام اخذ کرنے کا معیار ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا کی آرا میں اختلاف موجود ہے اور رفتہ رفتہ یہ اختلاف فقہی مسلکوں کی صورت اختیار کرگیا اور ہردور میں متعدد فقہی مسلک موجود رہے۔ کچھ آج تک قائم ہیں، کچھ اپنے دور ہی میں ختم ہوگئے، اور کچھ ایک عرصہ قائم رہنے کے بعد ناپید ہوگئے۔ فقہ اسلامی کی اس تاریخ کے آغاز سے حال تک کا بیان مدارس اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی ایک ضرورت تھی جس کو بھارت کے دو اہلِ علم نے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ہندستان کے تعلیمی تناظر کو پیش نظر رکھ کر مرتب کی گئی ہے اور کچھ عرصہ قبل دہلی سے شائع ہوئی۔ اب پاکستانی ناشر نے اسے ٹائپ کاری کے اپنے قالب میں ڈھال کر شائع کیا ہے۔ کتاب کے مندرجات میں فقہ اسلامی کے آغاز، مصادر، تاریخ، مسالک، علوم، اجتہاد و تقلید، فقہی اختلاف اور فقہی کتابوں کے عنوانات پر مختصر مواد پیش کیا گیا ہے۔ یہ اسلامی فقہ کے اجمالی تعارف و تاریخ پر مشتمل کتاب ہے۔ اُمید ہے کہ مصنفین کی یہ کاوش طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ (ارشاد الرحمٰن)
اسلامی(حلال) کاروبار اور خصوصاً اسلامی بنکاری کے موضوع پر جتنی کتابیں آج کل لکھی جارہی ہیں شاید اس سے پہلے کبھی نہ لکھی گئی ہوں گی۔ آئے دن نئی سے نئی کتاب کا منظرعام پر آنا اِس موضوع سے عوام الناس کے شوق میں اضافے کا باعث بن رہا ہے بلکہ ہرنئی تصنیف اِس میدان میں نئی راہیں کھولنے کا موجب بھی بن رہی ہے۔
اسلامی بنکاری و کاروبار کی مشہور تصانیف میں ایک حالیہ قابلِ قدر اضافہ قاری خلیل الرحمن کی جارحانہ اور بے باک تصنیف جانبِ حلال ہے۔کتاب کا نام بہت ہی نفیس و پُرکشش ہے جو اپنے قاری کو کتاب کے بغور مطالعہ کی طرف اُکساتا ہے۔ جس قدر اِس کتاب کا نام خوب صورت ہے اِسی قدر خوب صورتی سے اِس کے اندر مختلف ابواب کی تقسیم کی گئی ہے۔ ہرباب میں موجود ہرموضوع اپنے اندر نہ صرف جامعیت کا حامل ہے بلکہ اپنے اگلے موضوع کی مستحکم بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔
کتاب کے شروع میں ’تقدیم‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عبدالرشید صاحب (صدر مجلس اسلامی، پاکستان) کی ایک خوب صورت تحریر کتاب کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہے۔ ’عرضِ مؤلف‘ و ’ماخذِ شریعت‘ جیسے بنیادی عنوانات کے بعد مؤلف نے کتاب کو چھے ابواب میں بالترتیب ۱-معیشت اور اسلام، ۲- حرام کی جدید شکلیں ۳- حرام کی قدیم مگر مروج شکلیں، ۴-چند حرام اور معیوب پیشے، ۵- اسلامی بنکاری نظام، اور ۶- انشورنس و تکافل میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلا باب ’کسب حلال‘ کی ضرورت و اہمیت اِس کے حصول مناسب ذرائع اور اِس میں برکت کی طرف توجہ کی طرف زور دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مؤلف نے حلال و حرام کی تمیز اور اس سے متعلق اِسلام میں انسانی مجبوریوں کا لحاظ بیان فرمایا ہے۔ باب کے آخر میں ’حُرمتِ سود‘ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلاً تحریر کیا گیا ہے۔
دوسرا باب حرام کی جدید اشکال کو واضح کرتا ہے۔ یہ باب بھی انھی جامعیت کے اعتبار سے ایک بھرپور تحریر ہے جس میں مؤلف نے جدید دور کے تمام لین دین سے منسلک اشکال و شکوک و شبہات کا بغور جائزہ لیا ہے۔ کتاب کے اِس حصے میں مختلف قسم کی انعامی اسکیموں، کاروباری حصص کے لین دین، سٹہ بازی، کریڈٹ و کریڈٹ کارڈوں کی موجودہ شکل و ابہام، بی پی فنڈ، پگڑی سسٹم اور دیگر ممالک کی کرنسی کا لین دین کو واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے۔
تیسرے باب میں حرام کی قدیم مگر مروج اشکال پر موضوع کو زیربحث لایا گیا ہے۔ خاص موضوعات میں بیع کی شرائط کا مختلف پہلوئوں سے قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیلی جائزہ، دورِ نبویؐ میں تجارت کی چند مثالیں شامل ہیں۔ باب کا اختتام مولانا تقی عثمانی مدظلہ و دیگر علماے کرام کے موضوع سے متعلق اِشکالات اور مؤلف کی جانب سے اُن کے جوابات پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
چوتھا باب ’چند حرام اور معیوب پیشے‘کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے قابلِ ذکر حرام و معیوب پیشوں میں گلوکاری، رقاصی، مجسمہ سازی، بیوٹی پارلر، ٹی وی، گداگری، ہیئر ڈریسنگ، قوالی وغیرہ جیسے موجودہ زمانے میں عام پائے جانے والے پیشوں کا عقلی و عملی جائزہ لیا گیا ہے۔
آخری پانچواں اور چھٹا ابواب اسلامی بنکاری و انشورنس کے تمام ممکنہ موضوعات کو سامنے رکھ کر مرتب کیے گئے ہیں جس میں اسلامی بنکاری و انشورنس کے تمام اداروں کی تقریباً تمام پروڈکٹس جو شراکتی، تجارتی، سہولیائی اور کرایہ کی بنیاد فراہم کی جاسکتی ہیں، کا مفصل جائزہ مع دیگر علماے کرام کے اِشکالات اور اُن کا مؤلف کی جانب سے قرآن و سنت کی روشنی میں جوابات تحریر کیے گئے ہیں۔
یہ کتاب مکمل طور پر اپنے موضوع پر لکھی گئی ایک جامع کتاب ہے۔ اس میں اپنے موضوع کا تفصیلی احاطہ، قرآن و حدیث کے مناسب و بروقت حوالہ جات، عام فہم شرح و دلیل، منقولات کے معقولات وامثلہ کی بخوبی پیش کش کی بخوبی پیش کش اور دیگر علماے کرام کے اِشکالات کا تفصیلی بیان اور اُن کے جوابات، اس کتاب کی نمایاںخصوصیات میں شامل ہیں۔
کتاب کے ہر موضوع کے آخر میں موضوع سے متعلق معروضی سوالات اور ہرباب کے اختتام پر مختلف موضوعات پر کیس اسٹڈی بشمول سوالات کتاب کی افادیت میں مزید افادیت کا باعث بن سکتے ہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔(محمود شاہ)
مولانا عبدالغفار حسن رحمۃ اللہ علیہ (۲۰ جولائی ۱۹۱۳ئ، رہتک۔ ۲۲مارچ ۲۰۰۷ئ، اسلام آباد) استاد حدیث اور داعی دین تھے، ایک محقق اور شفیق انسان تھے۔ جنھوں نے ہندستان، پاکستان اور سعودی عرب میں تعلیم و تدریس کے کارہاے نمایاں انجام دیے اور دعوتِ حق کے نقوش ثبت کیے۔ ان کا تحریری اثاثہ تادیر خدمت ِ دین کا حوالہ بنا رہے گا۔
زیرنظر کتاب کے مرتب لکھتے ہیں: ’’میں نے والد مکرم کی زبان سے واقعات و ارشادات کو معمولی تغیر و تبدل کے ساتھ صفحۂ قرطاس کی ترتیب بنانے کی کوشش کی ہے‘‘ (ص۱۴)۔ کتاب کا موضوع مولانا مرحوم کے کارنامۂ حیات کو پیش کرنا ہے۔ تاہم فاضل مرتب نے اسے حسنِ ترتیب سے پیش کرنے کے بجاے متفرق واقعات اور تحریروں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ تکرار کی کثرت اور متعلقہ اُمور پر قرار واقعی تحریر و ترتیب کی کمی کا عنصر نمایاں ہوگیا ہے۔
پھر مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے حوالے سے متعدد مقامات پر ظن و تخمین اور لب و لہجے میں ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ مولانا عبدالغفار حسن مرحوم سے ملنے والے لوگ جانتے ہیں کہ وہ اس طرزِ تکلم کو روا نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے ’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو…‘ کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔مولانا عبدالغفار حسن، مسلم اُمت کے ایک قیمتی انسان اور استادالکل تھے، لیکن کتاب میں انھیں محافظِ مسلک اہلِ حدیث کے طور پر پیش کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔مرتب کی اس کاوش کا استقبال کرنے کے باوجود، مذکورہ موضوع پر سوانحی کتاب کی تشنگی موجود ہے۔ (س-م- خ)
زیرنظر کتاب ملک شام کی طالبہ ہبہ الدباغ کے زمانۂ شباب کے نو برسوں کی خودنوشت ہے۔ یہ ۸۰ کا عشرہ تھا۔ مصنفہ شریعہ کالج میں آخری سال کی طالبہ تھی۔ حکومت پر حافظ الاسد نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس نے اسلامی تحریکات بالخصوص اخوان المسلمون سے تعلق کو گناہِ کبیرہ قرار دے رکھا تھا۔ وہ ظلم و ستم، انتقام و تعذیب اور دہشت گردی میں ہر حد سے آگے نکل گیا تھا۔ ایک تاریک شب ہبہ الدباغ کو خفیہ پولیس کے ایک اہل کار نے رات کے اندھیرے میں آجگایا اور کہا: صرف پانچ منٹ آپ سے گفتگو کرنی ہے، پھر وہ پانچ منٹ نو برسوں پر پھیل گئے۔ ہبہ کبھی اِس جیل میں رہی تو کبھی اس جیل میں۔ یہ جیلیں، بدترین عقوبت خانے تھے۔ ایمان و استقامت کی دولت سے سرشار یہ نوجوان لڑکی درندوں سے اپنی عصمت بچاتی اور مسلسل گوناگوں تکلیفیں اُٹھاتی رہی۔ اسے سونے نہ دیا جاتا، بھوکا رکھا جاتا۔ اگرچہ کبھی کوئی نرم دل ہمدردی کا بول بھی بول دیتا۔ ہبہ کے ساتھ اور بھی خواتین تھیں اور سب وحشیوں کے ظلم و جبر کا نشانہ بنیں مگر اللہ نے ان کو استقامت ، ہمت اور حوصلہ عطا کیا اور ان نو برسوں میں وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں۔
ان کا قصور؟ ظالم حکومت کو شک تھاکہ ان کا تعلق مذہبی جماعتوں کے ساتھ ہے۔ محض شک کی بنا پر یہ سب جورو استبداد کی چکّی میں پستی رہیں۔ ہبہ الدباغ سے پہلے جمال عبدالناصر کی جیل میں زینب الغزالی بھی ایسی ہی تعذیب کا شکار رہیں۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنی زینبیں اور ہبائیں مصری اور شامی حکمرانوں کے ظلم و جبر کا شکار ہوئی ہوں گی۔ خاندانوں کے خاندان اُجاڑ دیے، بچے ذبح کردیے گئے۔ ابوبکر، عمروعثمان اور عائشہ و حفصہ نام کے نوجوان اور بچے بالخصوص قتلِ عام کا نشانہ بنے۔ ہمارے ہاں جنرل پرویز مشرف نے بھی لال مسجد میں یہی کچھ کیا تھا۔
مقدمہ زینب الغزالی نے لکھا ہے اور تقریظ قاضی حسین احمد کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے جہاں ہماری خواتین کے عزم و ہمت اور ایمان میں اضافہ ہوگا، وہاں ہمارے مردوں میں بہادری، غیرت اور حمیت بڑھے گی۔ عربی سے اُردو ترجمہ رواں، کتاب خوب صورت اور قیمت مناسب ہے۔(قاسم محمود احمد)
مصنف سال ہا سال بیرونِ ملک مقیم رہے۔ لکھتے ہیں: ’’یورپ، مڈل ایسٹ اور پاکستان میں ہمیں قوموں کے رہنمائوں، صحافیوں، فوجیوں، جہادیوں، تاجروں، لٹیروں، شیشہ گروں کی حرکات و سکنات کو قریب اور ایسے زاویے سے دیکھنے کاموقع ملا، جو شاید کسی ایک شخص کے لیے ممکن نہ ہوا ہو‘‘ (ص ۱۲)۔ چنانچہ منظوراحمد صاحب نے اپنی زندگی کے ’’غیرمعمولی واقعات کی تصویروں کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ انداز و اسلوب دل چسپ، رواں اور کہیں کہیں شوخ و شگفتہ اور پُرلطف ہے، مزاح سے قریب۔ انگریزی ناموں اور مقامات وغیرہ کو لاطینی حروف میں لکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک طرح سے مصنف کی آپ بیتی ہے اور سفرنامہ بھی۔ ۱۹۴۷ء میں ہندستان سے ہجرت کر کے یہ خاندان لاہور پہنچا۔پہلے ماڈل ٹائون رہے، پھر مال روڈ پر واقع ایک کوٹھی میں طویل عرصے تک قیام رہا۔ والد اعلیٰ سرکاری افسر (ڈپٹی کمشنر، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو وغیرہ) ہونے کے باوجود سادہ مزاج، بدعنوانی سے دُور اور اپنے وسائل میں زندگی بسر کرنے کے قائل تھے اور اس پر عامل رہنے کے سبب گھر میں رزق کی بے حد برکت رہی۔ مصنف پڑھ پڑھا کر (گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے کرکے بنک کاری کی تربیت کے لیے) لندن سدھارے۔ بنک کی تربیت چھوڑ کر لندن سے سی اے کیا اور وہیں ٹک گئے۔ حساب کتاب (اکائونٹنسی) کے وکیل رہے۔ درجنوں کمپنیوں کے مشیر اور ڈائرکٹر رہے۔ وائس آف اسلام کے بانی مدیر اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔
اس آپ بیتی میں مصنف کے دوستوں، کرم فرمائوں، علاقوں، مقامات کا ذکر بکثرت آتا ہے مگر اس انداز میں کہ اُکتاہٹ نہیں ہوتی۔ مصنف نے تاریخ، جغرافیہ اور سیاست، سب پر بات کی ہے۔ ایک دنیا دیکھ چکے ، مگر کہنے کو اب بھی بہت کچھ ہے، اسی لیے کہتے ہیں: ’’باتیں___ کچھ اور بھی ہیں‘‘ ___ میرے خیال میں منظوراحمد صاحب کو وہ ’اور باتیں‘ بھی لکھ دینی چاہییں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگردِ رشید حافظ محمد اکرام الدین کی اس کتاب کا مسودہ مولانا عبدالقیوم حقانی کے ہاتھ آگیا۔ ’’اس کتاب نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ قدیم طرزِتحریر اور پرانا ادب ہونے کے باوجود نہایت اعلیٰ درجے کی تحریر ہے جس کی ایک ایک سطر مجھے اپنی طرف کھینچتی تھی۔ تحریری بانکپن، بیان میں خوب صورتی، علمی نکات میں دل کشی، مسائل میں عمق اور انداز داعیانہ اور واعظانہ ہے۔ اور شاعری ہو یا نثر، حدیث کی توضیح ہو، یا قرآن کی تفسیر، تاریخ کا تذکرہ ہو یا فقہ کا مسئلہ، حُسن اس کی بے ساختگی میں ہے‘‘(ص ۹۰)۔ اب میں اور کیا کہوں، کتاب حاصل کیجیے۔ بچوں کو، طالب علموں کو بھی پڑھوایئے، اس سب سے زیادہ پڑھی جانے والی سورہ کے مطالب ان پر آشکار ہو جائیں گے۔(مسلم سجاد)
یہ کتاب ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی آٹھ کتابوں کو یک جا کر کے تیار کی گئی ہے جن میں آپ نے قرآن کاتعارف پیش کیا ہے، اور مسلمانوں سے قرآن کے مطالبات و تقاضے بیان کیے ہیں۔ ۵۰۰صفحے کی اس کتاب میں آٹھ موضوعات پر تقاریر جمع ہیں: ۱-دنیا کی عظیم ترین نعمت قرآنِ حکیم، ۲- عظمت قرآن، بزبانِ قرآن و مصاحب ِقرآن، ۳- قرآنِ حکیم کی قوتِ تسخیر، ۴-تعارفِ قرآن مع عظمتِ قرآن،۵- قرآن اور امنِ عالم، ۶- مسلمانوں پر قرآنِ مجید کے حقوق، ۷- انفرادی نجات اور اجتماعی فلاح کے لیے قرآن کا لائحہ عمل، ۸- جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ۔ ہرخطبہ اپنی جگہ جامع اور راستہ دکھانے والا ہے، بس مسئلہ رستے پر چلنا ہے۔(م- س)
یہ کتاب اُن مطبوعہ تحریروں کا مجموعہ ہے، جو مولانا مودودی کے ابتدائی ساتھی مولانا محمد منظورنعمانی مرحوم کی جماعت اسلامی سے علیحدگی سے متعلق داستان پر مشتمل ہیں۔ فاضل مرتب نے مولانا نعمانی کی الزامی تحریروں کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے، معاصر حضرات کی جانب سے ان کے جوابات کو اس انداز سے مربوط کرنے کی کوشش ہے کہ دعویٰ اور جوابِ دعویٰ کا منظر بنتا دکھائی دیتا ہے۔اگر اختصار سے کام لیتے ہوئے اس فردِ قرارداد کو متعین الفاظ میں پیش کرکے تجزیہ کیا جاتا تو یہ اور زیادہ مؤثر پیش کش ہوتی۔ تاہم، موجودہ شکل میں بھی یہ صداے بازگشت ایک معنویت رکھتی ہے۔ (س-م-خ)
ڈاکٹر ابراہیم عبید کی پونے چھے سو صفحات کی اس کتاب میں پانچ ابواب قائم کر کے سیکولر عناصر کو منہ توڑ جواب دیا گیا ہے۔ الاسلام ھو الحل اس انتخاب میں اخوان کا نعرہ تھا۔ ادارہ معارف اسلامی نے اس کا پہلے باب کا ترجمہ شائع کردیا ہے۔۵۶ صفحے کے اس کتابچے میں جو موضوعات زیربحث آتے ہیں وہ اس طرح ہیں: ۱-اسلامی ریاست کا عروج و زوال، ۲- یورپی انقلاب اور سیکولرزم، ۳- سیکولرزم اور اسلام، ۴-شریعت اسلامی کی بالادستی، ۵-آخری باب صفحہ ۲۵ سے ۵۳ تک ہے، اور اس میں شاید سب ہی متعلقہ اُمور کاذکر ہوگیا ہے، حتیٰ کہ تغیر ِحالات سے تغیر ِفتویٰ بھی۔ گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ بقیہ ۵۰۰ صفحے کے ترجمے کا انتظار ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس سمندر میں کیا کیا ہے فی الحال تو جیسے ٹریلر چلا دیا ہے۔ (م- س)
سُترہ کے حوالے سے ہم صرف یہ حدیث جانتے ہیں کہ سامنے سے گزرنے کے بجاے ۴۰سال بھی کھڑا رہنا پڑے تو کھڑے رہو۔ اب اچھی مسجدوں میں اس کا انتظام ہے کہ بڑے ہال میں کچھ ایسے پارٹیشن لگا دیتے ہیں جس کے پیچھے لوگ سنتیں پڑھتے ہیں۔ کل ہی ایک مسجد میں چھوٹے سائز کے بھی دیکھے کہ نمازی اپنے آگے رکھ لے۔ ایک صاحب ِ علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ایک دو صف آگے تک نہ گزرا جائے لیکن اس کتاب سے یہ معلوم ہوتا ہے (اگر مَیں غلط نہیں سمجھا ہوں) سترہ کی حد وہاں تک ہے جہاں آپ سجدہ کرتے ہیں۔ بہرحال، یہ مسئلہ جو ہرمسجد میں ہرنمازی کا مسئلہ ہے، اس کے تمام پہلو جاننے کے لیے مختصر کتابچہ یقینا مفید ہے۔(م- س)