ستمبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

سوشلزم نمبر پر سید مودودی کا تبصرہ، ۱۹۶۸ء

| ستمبر ۲۰۱۲ | مشعلِ راہ

Responsive image Responsive image

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ میرے محسن اور قائد ہی نہ تھے بلکہ استاد اور مربی بھی تھے۔ان کا یہ تاریخی خط چراغ راہ کے ’سوشلزم نمبر‘ کی اشاعت  کے معاً بعد موصول ہوا اور مجھے ورطۂ حیرت میں    ڈال دیا۔ اپنی تمام مصروفیات ، تنظیمی خدمات اور علمی کاوشوں کے ساتھ قائد تحریک نے جس گہرائی میں جا کر ۷۰۰ صفحات کی اس اشاعت خاص کا مطالعہ کیا اور جس مشفقانہ انداز میں اس کی خامیوں کی طرف متوجہ کیا  اور آیندہ تحقیق و جستجو کے لیے مشورے دیے ،وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس خط میں مولانا کی تحریر کی شوخی (wit)کی ایک جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے، خصوصیت سے پہلا جملہ اپنی معنویت اور ادبیت ہر دو اعتبار سے زندہ رہنے والا تبصرہ  ہے۔ میری بدخطی پر اس میں جس خوب صورتی سے تبصرہ کیا ہے وہ مولانا ہی کا حصہ ہے ۔

 بظاہر تو سوشلزم ایک داستان پارینہ معلوم ہوتا ہے لیکن تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ وہ      افکار و نظریات جوایک دور میں انقلابی تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں وہ مستقبل کے لیے کبھی بھی  غیرمتعلق (irrelevant) نہیں ہوتے۔ یونان کے اہلِ فکر و دانش کی باتیں اور کنفیوشس کے خیالات امتدادِ زمانہ  کے باوجود اپنا اثر دکھاتے رہتے ہیں۔ سرمایہ داری کے موجود ہ بحران کے نتیجے میں ایک بار پھر اشتراکیت کے بنیادی تصورات پر بحث و گفتگو کا آغاز ہو چکا ہے۔ چراغ راہ کا ’سوشلزم نمبر‘ اور سوشلزم کے تاریخی تجربے کے سلسلے کے جن پہلوئوں کی طرف مولانا محترم نے اشارہ فرمایا،    آج نہیں تو مستقبل کے اہل تحقیق کے لیے سوچ بچار کا سامان فراہم کرتے رہیں گے۔ یہی وہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے مولانا محترم کے اس خط کو ہم قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔(مدیر)

آپ کا ’سوشلزم نمبر‘ میں نے بغور پڑھا۔ آپ کی محنت قابلِ داد اور طباعت کے معاملہ میں شدید تساہل قابلِ فریاد ہے۔ اس نمبر کے چند مضامین ایسے ہیں جن کو ازسرِنو درست کر کے الگ الگ مستقل کتابوں میں آفسٹ پر شائع ہونا چاہیے۔

آپ کا مضمون ’سوشلزم یا اسلام‘ بہت اچھا ہے مگر بعض جگہ نسبتاً زیادہ تفصیل کی ضرورت ہے۔ خصوصاً ایسے مقامات پر جہاں آپ نے ایک جامع حکم تو لگادیا ہے مگر اس کو substantiate کرنے کے لیے کم از کم ضروری ثبوت بھی نہیں دیے ہیں۔ یہ آپ نے بغرض اختصار کیا ہے۔ اب کتابی صورت میں آپ اس کو مرتب کریں اور اس تشنگی کو دُور کریں۔ اشاعت کے لیے دیتے وقت پورے مضمون کی تصحیح کردیجیے، مگر تصحیح اپنے قلمِ خاص سے کرنے کے بجاے کسی صاف نویس سے کرایئے تاکہ کاتب غریب فتنے میں نہ پڑے۔

حسین خاں کا مضمون بہت مفید ہے۔ اس پر نظرثانی کرا لیجیے اور اسے بھی الگ کتابی صورت میں شائع کیجیے۔ آبادشاہ پوری کے دونوں مضامین یک جا کتابی صورت میں شائع ہونے چاہییں۔

ایک کتاب مسلمان ملکوں میں اشتراکیت کے تجربات پر مرتب ہونی چاہیے جس میں خلیل  [احمدحامدی] صاحب کے وہ مضامین جو ترجمان القرآن اور ’سوشلزم نمبر‘ میں شائع ہوئے ہیں اور حسان کلیمی صاحب، ظفراسحاق انصاری صاحب اور ممتاز احمد صاحب کے مضامین یک جا کردیے جائیں۔ ان مضامین کے علاوہ دو تین موضوعات ایسے ہیں جن پر مزید کچھ چیزیں تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

  • روس میں اشتراکی انقلاب اور اشتراکی تجربے کی تاریخ:اس میں یہ بتایا جائے کہ وہاں اشتراکی انقلاب کس طرح برپا ہوا۔ بالشویکوں نے زمامِ کار پر کیسے قبضہ کیا اور قبضہ کرنے کے بعد کس سنگ دلی و بے دردی کے ساتھ روس کی آبادی کو اپنے اناڑی پن کے اشتراکی تجربوں کا تختۂ مشق بنایا، اور ان تجربوں میں انسانی جان و مال اور اخلاق کا کتنے بڑے پیمانے پر ضیاع ہوا۔ اسی سلسلے میں اس جابرانہ نظام کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں جو پہلے لینن کے تحت اور پھر اسٹالن کے تحت قائم ہوا۔
  • مارکسزم کو عملی جامہ پھنانے کے لیے لینن کے انقلابی ھتکہنڈے: یہ ایک بڑا دل چسپ موضوع ہے جس کا تفصیلی مطالعہ کرکے یہ بتایا جائے کہ مارکسزم کے نظریات کو لینن نے عملی صورت میں ڈھالنے کے لیے اس میں کیا کیا ترمیمات کیں اور پھر انقلاب برپا کرنے کے لیے کیسی شدید شیطانی اسکیم بنائی۔ اس اسکیم کا ہرجزو شیطنت کا ایسا نمونہ ہے جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، مگر ابھی تک کسی نے اس کوکھل کر بیان نہیں کیا ہے۔ کوئی صاحب اگر اس پر کام کرنے کو تیار ہوں تو میرے پاس بھی اس سلسلے میں کچھ مواد موجود ہے۔
  • چین کا کمیون سسٹم:اس کا بھی تفصیلی مطالعہ کر کے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ نظام کس طرح انسان کو اجتماعی مشین کا ایک پُرزہ بنا کر اس کی انسانیت کو فنا کردیتا ہے۔ لوگ صرف مجموعی نتائج کو دیکھ کر ان پر فریفتہ ہوتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ یہ نتائج جن طریقوں سے حاصل کیے جاتے ہیں ان میں انسان کا کیا حشر ہوتا ہے۔
  •  سوویت امپریلزم:ایک مستقل مضمون سوویت امپریلزم (Soviet Imperialism) پر بھی ہونا چاہیے جس میں یہ بتایا جائے کہ دنیا میں اس وقت صرف سفید سامراج ہی نہیں ہے بلکہ ایک سرخ سامراج بھی موجود ہے جو قوموں اور ملکوں پر اس طرح ہاتھ صاف کر رہا ہے جس طرح سفیدسامراجیوں نے ہاتھ صاف کیا ہے۔ مذہب کے بارے میں اشتراکی نقطۂ نظر اور اسلام پر روسی مستشرقین کی تنقیدات کو آپ کے ’سوشلزم نمبر‘ میں موضوعِ بحث تو بنایا گیا ہے مگر دونوں مضمون سرسری ہیں۔ ضرورت ہے کہ زیادہ وسیع اور گہرے مطالعے کے بعد ان دونوں موضوعات پر مختصر کتابیں طبع کی جائیں۔