انٹر نیشنل مسلم ویمن یو نین کواقوامِ متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسلوں اور کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کے اجلا س میں ممبر کی حیثیت سے شر کت کی دعوت ملی۔ انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین، ۶۰ممالک کی نما یندہ خوا تین پر مشتمل تنظیم ہے جو اسلام میں عورت کو دیے گئے حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اسی طرح یہ تنظیم دنیا کے مختلف حصوں میں مقیم خواتین کا باہم را بطہ و مشا ورت اور ایک مشترکہ پلیٹ فا رم مہیا کر تی ہے۔ مذکورہ اجلاس میں مسلم ویمن یونین کی سربراہ کی حیثیت سے میرے علاوہ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مطا ہر عثمان ،اپنے ملک سوڈان کی چار خواتین کے سا تھ شا مل ہوئیں ۔ اس وفد میں انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد سے شگفتہ عمر نے بھی شرکت کی۔
یو این کمیشن آن سٹیٹس ویمن( CSW) کا اجلاس ،۲۷ فروری تا ۹مارچ ۲۰۱۲ء ہو نا قرار پا یا۔اس اجلاس میں گورنمنٹ مشن، ممبر ممالک کی حکو متوں کے اقوام متحدہ میں متعین نمایند وں اور ان حکو متوں کے نما یندوں کے علا وہ این جی اووز کے ایک ایک نما ئندے کو اجلاس میں شر کت کی اجا زت تھی۔یہ این جی اووز یو این کی اکنامک اور سو شل کو نسل میں رجسٹرڈ ہیں۔ سی ایس ڈبلیو کے اجلاس میں شر کت کے لیے،ہر این جی اوو کو ایک اور حکو متی نما ئندگان کو دو خصوصی اجا زت نامے یا پاس مل سکتے تھے۔
اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ہال میں افتتاحی پروگرام ہوا۔ خصوصی سیشن کا مرکزی عنوان ’دیہی علا قے کی عورت کی ترقی‘ تھا۔ چار یا پانچ مقررین کے اظہار خیال کے بعد،شر کا میں سے تبصرے یا سوال کا موقع بالعموم حکو مت کے مشن اور کسی این جی او کے نمایندوں کو دیا جاتا۔ اس اجلاس سے شہناز وزیر علی صاحبہ (پا کستان) نے خطاب کیا۔ یو سف رضا گیلانی (سابق وزیراعظم پاکستان) کی بیٹی فضہ گیلا نی صاحبہ نے اپنا بیان پڑھا۔پا کستان مشن کے نمایندے نے متعدد مواقع پر پا کستان کے حالات کی عکاسی کر تے ہوئے درست مداخلت کی۔ اس فورم کے شرکا کی اکثریتی راے یہ تھی کہ:’’دیہی عورت کی تر قی کے لیے بنیا دی ضرورت اس عورت کی تعلیم ہے۔اس کو دیہی علاقے میں کیے جا نے وا لے کام کے لیے ہنر مند بنا نا ہے،اس کو چھوٹے قرضہ جات کا اجرا کر نا ہے،اس کے لیے آگا ہی دینی ہے،اس کے لیے زمین کے ما لکا نہ حقوق کا حصول یقینی بنا ناضروری ہے۔دیہی علا قے کی عورت کی صحت کی حفاظت بھی یو این کے طے شدہ ایجنڈے کے مطا بق کی جانی چا ہیے۔اور اس کو فیصلہ سا زی کے اختیا رات میں حصہ ملنا چا ہیے۔یوں وہ مرد کے شانہ بشانہ ترقی کے عمل میں شا مل ہو سکتی ہے اور اس طرح صنفی امتیاز کا خاتمہ ہو سکتا ہے‘‘ ۔اس مر کزی موضوع سے کشید ہونے والا خیال یہ تھا کہ صنفی امتیاز ختم کر نے کے عمل میں نوجوانوں کو شامل کیا جائے، اور اس کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں اور عورت کو حیثیت دینے کے لیے بجٹ کی تقسیم میں صنف کا لحاظ رکھے جا نے، یعنی Gender sensitive budget allocation کا جا ئزہ اور اقدامات طے کیے جانے چاہییں۔
چرچ بلڈنگ میںہونے والے ایک پروگرام کا عنوان ’اسلام اور تشدد‘ تھا۔یہ امر یکا میں مقیم ایرانی مسلمانوں کی ایک این جی او نے تر تیب دیا تھا۔ ایران سے آنے وا لے وفد کو ویزا نہ ملنے کی بنا پر وہاں سے نما یندگی نہ ہوسکی تھی۔ پروگرام میں ایک دستاویزی فلم دکھا ئی گئی۔ یہ مسلمان عورت کا حجاب،اسلام میں قانون وراثت کی تفصیلات پر مبنی ایک مؤثر فلم تھی، جس میں موقف پیش کرنے کے لیے آیات اور تصاویر سے مدد لی گئی تھی۔کمرے میں موجود ۶۰؍ افراد میں سے نصف مسلمان اور نصف غیر مسلم تھے۔ آخر میں سوال و جواب کا وقفہ ہوا تو ایک غیر مسلم نے کہا کہ: ’’کو ئی مسلم عورت پا رلیمنٹ تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ حجاب کی بنا پر ہے اور حجاب دوسروں کو مرعوب کر نے کے لیے ایک طرح کا دبا ئو ہے‘‘۔میں نے اس مرد کے سوال کے جواب میں کہا:’’ میں میڈیکل ڈاکٹر، سا بقہ ممبر پارلیمنٹ، صدر انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین، یو این اکنا مکس و سوشل کونسل ہوں۔ انٹرنیشنل پا رلیمنٹری یونین کی مرتب کردہ ترتیب کے مطابق عورتوں کی سب سے زیا دہ نمایندگی کے ساتھ روانڈا پہلے نمبر پر ہے، جب کہ پا کستان ۲۷ویں نمبر پر ہے۔ امریکا و برطا نیہ ۵۰کے لگ بھگ نمبر پر ہیں۔جس یونی ورسٹی کے ساتھ مَیں منسلک ہوں وہاں میڈیکل، ڈینٹل ، فزیوتھراپی اور فارمیسی میں ۸۰ فی صد لڑکیاں اور۲۰ فی صد لڑکے زیرتعلیم و تربیت ہیں۔یہ تاثر درست نہیں ہے کہ آج مسلم معاشروں میں عورت کو کو ئی مقام حاصل نہیں‘‘۔
ایک پروگرام فیملی واچ انٹرنیشنل کی طرف سے اس نصب العین کے تحت کہ: ’’دنیا کے مسائل خا ندان کے تحفظ کے سا تھ حل کرو‘‘ اورجس کا نعرہ یہ تھا: ’’بچہ نعمت ہے انتخاب نہیں‘‘۔ اس طرح بچے کی مو ت ،ما ں کی نفسیات و صحت کے لیے سانحہ ہے۔ اس کی وضاحت میں دوخوا تین نے رو تے ہو ئے آپ بیتی سنا ئی کہ ہم اب تک اپنے آپ کو معاف نہیں کرسکتے۔ اس پروگرام میں دو پیپرز پڑھے گئے جن میں یہ بتا یا گیا کہ اسقاطِ حمل کرانے سے چھا تی کا سرطان بڑھتا ہے۔اس پروگرام میں اظہار خیال کر تے ہو ئے مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والی اس خاتون کا واقعہ سنا یا جو بد کرداری کے نتیجے میں حاملہ ہو چکی تھی اور رضاکارانہ طور پر سزا پانے کے لیے پیش ہوئی تھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضع حمل کے بعد آنا،وہ آئی تو آپؐ نے اس کو دوبارہ بھیجا کہ: اس بچے کا دودھ چھڑوانے کے بعد آنا۔وہ بچے کا دودھ چھڑوا کر آئی تو اس کو سزا دی گئی۔ عورت کی ممتا کی تسکین کے اس اقدام کی سمجھ مجھے آج آپ خوا تین کی کیفیت دیکھ کر آئی ہے کہ جرم کا کفا رہ اس بچے کی موت نہیں ہے،اس کو تو زندہ رہنا ہے۔اس پر بند با ندھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میری راے میں اختلاط مردوزن،تعلیمی اداروں میں، اور جاے ملاز مت میں ہے، جو اس راہ پر چلانے میں محرک ہے۔اس کو بھی نا گزیر حد تک محدود کر نا ہو گا اور شا دی میں تا خیر کے بجاے جلد شا دی کو رواج دینا ہو گا،جیسے اعلیٰ تعلیم شادی کے بعد مکمل ہو تی ہے،ایسے ہی ہر تعلیم کا حصول شا دی کے بعد آسان اور ممکن بنا نا ہو گا‘‘۔
یو این لان بلڈنگ کے کانفرنس ہال سی میں ’بین المذاہب مکالمہ‘کے عنوان سے ایک سیشن یو ایس فیڈریشن برا ے مڈل ایسٹ پیس کے زیراہتمام ہوا۔ اس میں ایک یہو دی،ایک عیسا ئی اور ایک مسلمان خاتون مقرررین تھے۔ہال میں بیٹھتے ہی انتظا میہ نے شگفتہ عمر سے را بطہ کیا کہ آپ تیسری مقررہ بن سکتی ہیں کہ ہما ری مہمان مقررہ کو کچھ مسئلہ ہو گیا ہے۔انھوں نے ہامی بھر لی۔ اشتراکِ عمل کے نکات پر توجہ دلوا نے کے بعد،تینوں مقررین نے سا معین کے سوالات کے جوابات دیے۔
ایک پروگرام کا مرکزی خیال ـبچوں کی صنفی تعلیم کی روک تھام کی تحریک تھا۔ ان کا نعرہ تھا: ’’دنیا بھر میں صنفی جذبا تیت اُبھا رنے وا لی صنفی تعلیم کو بند کیا جا ئے‘‘۔ اس تعلیم میں صنف کی صحت کے بجاے،صنفی حقوق کی بات کی جا تی ہے ،جو صنفی رویوں کو اُبھا رنے کے طریقوں کی طرف رہنمائی دیتے ہیں، اوربچوں کو صنف کی پو جا پر لگا دیا جاتاہے۔اس گروپ نے ایک آن لائن رٹ کا بتا یا اوروہ شرکا کو دستخط کے لیے بھی تقسیم کی گئی۔ دیگر پروگرام عورتوں کے زمین میں مالکانہ حقوق، لڑکیوں کا موقف، دیہی عورتوں کا اغوا اور فروخت کرنے وغیرہ کے بارے میں تھے، جو دو ہفتوں کے لیے مختلف ہالوں میں جا ری رہے۔
انٹر نیشنل ویمن ڈے کی تقریب۷ما رچ کے بجاے ۸ما رچ۲۰۱۲ء کو منائی گئی۔ یونائیڈنیشن ہیڈ کوا رٹر،جو کہ نا رتھ لان بلڈنگ کے طور پر معروف ہے، کے کا نفرنس روم نمبر چار میں یہ خصوصی تقریب ہو ئی۔ پروگرام کا آغاز ۱۰بجے ہو نا تھا مگر پو نے۱۰بجے ہال پوارا کھچا کھچ بھر چکا تھا۔اور پروگرام کے آغاز کے بعد،آنے وا لوں کو جگہ نہ ہو نے کا کہہ کر دربان معذرت کررہے تھے۔سیکرٹری جنرل یو این مسٹر با نکی مو ن،چیئر پر سن سیشن کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن مارجان کا مرا اورجنرل اسمبلی اقوامِ متحدہ کے نما یندے مسٹر مطلق الکہتا نی نے خطاب کیا۔جس کے بعد واک ہوئی۔ خوا تین کو مخصوص پیلے رنگ کی پٹیاں دی گئیں، جو وہ لباس پر پہن کر اقوام متحدہ کی مرکزی عمارت کے ایک کو نے سے چل کر دوسرے کو نے تک آئیں۔
عورت کے عنوان سے دنیا میں آنے والی اور لا ئی جا نے والی تبدیلیوں سے لا تعلق رہنا گویا معا شر تی تبدیلیوں سے لا تعلق رہنا ہے۔ حقوق اور مسا وات کے سا یے تلے، دیگر بہت سارے نعرے ہیں، جو بظاہر بے ضرر ہیں مگر فی نفسہٖ گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ عورت کے حقوق و فرائض پر اعتدال اور توا زن نہ ہو نا،اور انسانیت کا ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف جا نا حقیقت ہے۔ اس کشاکش کے زیا دہ اثرات خاندان کے نظام پر آنے کا احتمال ہے، اعدادو شماراور سروے یہ تبدیلیاں دکھلا رہے ہیں۔
یہ دراصل ایک میلہ تھا،جو عورتوں نے اپنے اپنے مئوقف کی معلومات دو سروں تک پہنچانے کے لیے لگا یا تھا۔دوسروں کی را ے سا زی کی بالواسطہ کو ششیں تھیں،اپنے ہاں کے مسا ئل کو اُجاگر کر نے اور بعض اوقات اپنے مفادات کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا موقع پیدا کیا گیا تھا۔ گروہ بندیاں تھیں،موقف تسلیم کرا نے اور ہم نوائی حاصل کر نے کی کو ششیں تھیں۔ پھر یہ آرا و سفارشات یو این کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کے مر کزی اجلاس کا مشترکہ اعلا میے اور قرارداد شامل کر نے کی خاموش سعی تھی۔
معاہدے اور قانون کے نام پر افراد اور قوموں پر حکمرا نی کر نا، آج کا ایک اہم طرزِ حکمرانی ہے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ: پہلے افرادو اقوام کو جمع کرو۔پھر ان کے مشا ورتی فورم بنا ئو۔ وہاں فیصلے ہوں۔پھر ان فیصلوں کا نفاذ ہو اوران کی عمل داری کا جائزہ ہو۔اس عمل کے لیے کچھ دبا ئو اور کچھ مالی ترغیبات ہوں۔ پھر عمل نہ کر نے پر کچھ پا بندیاں لگ جا ئیں،کچھ حما یت و امداد وغیرہ سے ہا تھ اٹھا لیے جائیں، قوموں کو اجتما عیت کے نام سے مات دی جا ئے،تنہا کر دیا جا ئے وغیرہ وغیرہ۔اگر یہ سب کچھ طاقتوں کے منفی جذبہ حکمرا نی کی تسکین کے لیے ہو، تو نظم اور مشا ورت ہو نے کے باوجود،بدنیتی کی بنا پر خیر برآمد نہیں ہو تا۔ نظام موجود ہو،اس کے اندر کچھ مشاورت اور جمہوریت بھی ہو،تو اصلاح کے لیے شامل ہو کر اپنا کردار ادا کر نے اور مثبت نتا ئج سے کلی طور پر نا امیدنہ ہونا چاہیے ۔ ایک سخت فکری دفاعی نظام کے باوجود اقوامِ متحدہ کے فیصلہ سازی کے نظام میں،داخل ہونے کے کئی را ستے ہیں۔اپنی تر جیحات کے سا تھ،ان پر کام اور مؤثر کردار ادا کر نے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک اور دوگیا رہ بن کر،منصوبہ بندی، یکسوئی کے سا تھ جان گھلانے کی ضرورت ہے اور یہ میدان بھی بہت اہم اور مؤثر ہے۔
معا شرے کی فکری اصلاح،خدمت کے ذریعے ان کے غموں کے مداوے کی کوشش کے ساتھ،ملکی سیاست میں تبدیلی قیادت کا فلسفہ رکھنے والے گروہوں کے لیے یہ بھی سو چنے کا نکتہ ہے کہ ملک میں قانون سا زی،ملکی با شندوں کے لیے خیر کا با عث ہوگی تو دنیا میں،عالمی معاہدات،پوری انسا نیت کے لیے نفع بخش ہوں گے۔ افراد کو مختص اور میدا ن کا انتخاب کرکے،کام کا آغاز کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے صبر اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کر نا ناگزیر ہے۔