اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وَّجْدِکُمْ وَلاَ تُضَآرُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْہِنَّ ط وَاِِنْ کُنَّ اُولاَتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ج فَاِِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ج وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوفٍ ج وَاِِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰیط (الطلاق ۶۵:۶) اُن کو (زمانۂ عدّت میں) اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسر ہو۔ اور انھیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستائو۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک اُن کا وضعِ حمل نہ ہوجائے۔ پھر اگر وہ تمھارے لیے (بچے کو) دودھ پلائیں تو اُن کی اُجرت انھیں دو، اور بھلے طریقے سے (اُجرت کا معاملہ) باہمی گفت و شنید سے طے کرلو لیکن اگر تم نے (اُجرت طے کرنے میں) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلا لے گی۔
گذشتہ ساری ہدایات دینے کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وَّجْدِکُمْ،’’ان کو اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، نہ ان کو نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، جو غذا تم کو میسر ہو وہی اُن کو بھی کھلائو‘‘۔ مزید فرمایا: وَلاَ تُضَآرُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْہِنَّ،’’اور ان کو تنگ کرنے کے لیے اُن کو نہ ستائو‘‘۔ مراد یہ ہے کہ یہ ساتھ رکھنا شریف آدمیوں کی طرح ہو۔ اگر طلاق کسی جھگڑے کی وجہ سے ہوئی ہے تو مطلقہ بیوی کو ساتھ رکھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ اگر کوئی موافقت کی صورت نکل سکتی ہو تو نکل آئے۔ اس غرض کے لیے ساتھ رکھنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے کہ جب تک عدّت کی مدت ختم نہیں ہوتی تب تک روز دنگافساد ہو، لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ ہو۔
اسی طرح اس حکم کا ایک اور مطلب بھی ہے کہ مثلاً اگر ایک آدمی یہ حرکت کرتا ہے کہ ایک طلاق دی اور جب عدّت کی مدت گزرنے پر آئی تب رُجوع کرلیا تاکہ اُس کو ایک اور طلاق دی جائے جس سے ایک اور عدّت اس پر واجب آجائے۔ پھر عدّت کے خاتمے کے قریب رُجوع کرنے اور پھر اُسی طرح طلاق دے تاکہ اس کی عدّت کی مدت پھیل کر نومہینے تک ہوجائے۔ ایسا کرنا کسی بھلے آدمی کا کام نہیں ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ مطلقہ عورت کو ساتھ رکھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ موافقت کی کوئی صورت نکل سکتی ہو تو نکل آئے۔ اس سے لڑائی جھگڑا کرنے اور اس کو تنگ کرنے کے لیے نہیں دیا گیا ہے۔
وَاِِنْ کُنَّ اُولاَتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ،’’اگر (مطلقہ) عورتیں حاملہ ہوں تو اُن کے اُوپر خرچ کرو جب تک کہ وضعِ حمل نہ ہوجائے، یعنی عدّت کی مدت خواہ کتنی طویل ہو (یعنی نو مہینے بھی ہو) وضع حمل تک اس کے مصارف اور اس کی کفالت تمھارے ذمے ہے۔
فَاِِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوفٍ، پھر اگر وضعِ حمل کے بعد عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے پر راضی ہو اور تم بھی یہ چاہو کہ وہ اسے دودھ پلائے تو اِس صورت میں آپس میں مشورہ کر کے طے کرلو کہ اُس کی اُجرت کیا ہوگی۔ یعنی جب تک وہ عورت بچے کو دودھ پلا رہی ہے، اس وقت تک اس کا خرچ اس شخص کے ذمے ہے جس کا بچہ ہو۔ اور اس خرچ یا اُجرت کا تعین باہمی مشورے سے کیا جائے۔ وَاِِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَـہٗٓ اُخْرٰی، یعنی اگر تم اُجرت طے کرنے میں باہمی تنگی محسوس کرو، یعنی عورت زیادہ رقم کا تقاضا کرے اور مرد کم دینا چاہتا ہو، اور باہم اتفاق نہ ہوسکے تو اس صورت میں بہتر ہے کہ بچے کو کسی اور عورت سے دودھ پلوایا جائے۔
لِیُنْفِقْ ذُوْسَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ ط وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰہُ اللّٰہُ ط لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِِلَّا مَآ اٰتٰھَا ط سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا o (۶۵:۷) خوش حال آدمی اپنی خوش حالی کے مطابق نفقہ دے، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اُسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اُس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا۔ بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے۔
اس آیت کا مفہوم واضح ہے کہ جو خوش حال آدمی ہے وہ اپنی مقدرت کے مطابق بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو نفقہ دے، اور جس کا رزق تنگ ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق اس پر خرچ کرے___ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص معاوضہ مقرر نہیں کردیا گیا کہ کتنا دینا لازم ہوگا، بلکہ یہ بات آپس میں مشورہ کر کے طے کی جائے کہ بچے کے باپ کی مقدرت کیا ہے۔ وہ جتنا بار اُٹھا سکتا ہے اسی پر فیصلہ ہوگا۔
مزید فرمایا: لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِِلَّا مَآ اٰتٰھَا ط ، ’’یعنی اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا‘‘۔ گویا ایک اصول طے کردیا گیا کہ ہر آدمی کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمایا کہ: سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا، یہ اطمینان دلایا گیا کہ اللہ تعالیٰ عُسر (تنگ دستی) کے بعد یُسر (فراخ دستی) عطا کرنے والا ہے۔ اس لیے تنگ دلی سے کام نہ لو۔ ایک چیز تنگ دستی ہوتی ہے اور ایک چیز تنگ دلی ہوتی ہے۔ بسااوقات ایک آدمی اپنی تنگ دستی سے بڑھ کر بخیل بن جاتا ہے۔ وہ اپنی تنگ دستی سے بڑھ کر اپنا ہاتھ روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے منع فرمایا گیا اور بتایا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ آج تم تنگ دست ہو تو کل اللہ تعالیٰ تمھیں فراخ دست کردے۔
وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّھَا وَرُسُلِہٖ فَحَاسَبْنٰھَا حِسَابًا شَدِیْدًا وَّعَذَّبْنٰھَا عَذَابًا نُّکْرًا o فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِھَا وَکَانَ عَاقِبَۃُ اَمْرِھَا خُسْرًا o (۶۵:۸-۹)کتنی ہی بستیاں ہیںجنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور اُن کو بُری طرح سزا دی۔ انھوں نے اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور اُن کا انجامِ کار گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔
قرآن مجید میں اکثر احکام دینے کے بعد اور خاص طور پر عورتوں اور مردوں کے تعلقات کے بارے میں احکام دینے کے بعد ساتھ ہی لوگوں کو بہت شدید الفاظ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان احکام کی خلاف ورزی سے بچیں۔ اس لیے کہ اگر انسان اپنی خانگی اور معاشرتی زندگی میں ظالم اور ایک دوسرے کا حق مارنے والا ہو تو اس سے انسانیت کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ سامنے کی حقیقت ہے کہ انسانی تہذیب ساری کی ساری گھر سے شروع ہوتی ہے۔ یہیں سے پوری تہذیب اور تمدن کی عمارت اُٹھتی ہے۔ اگر انسان کے گھر میں خرابی ہو، لوگ اپنے گھر کے اندر ظالم اور بے انصاف ہوں، بے رحم اور ایک دوسرے کے حقوق مارنے والے ہوں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی پوری تہذیب اور پورے تمدن کی عمارت انسانیت، شرافت اور اخلاق سے خالی ہوجائے گی، کیونکہ جڑ اور بنیاد خراب ہوگئی۔
اس بنا پر آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید میں جہاں نکاح، طلاق اور معاشرت کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں وہاں احکام دینے کے بعد شدید الفاظ میں اس طرح کی وعیدیں آئی ہیں۔ لہٰذا فرمایا کہ جن بستیوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے رُوگردانی کی، احکام کی خلاف ورزی کی، اللہ کے رسولوں کی بتائی ہوئی حدود کو توڑا، ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور ان کو بدترین سزا دی۔ سخت محاسبہ ایک وہ ہے جو آخرت میں ہونا ہے لیکن یہاں اس کا ذکر نہیں ہے بلکہ ذکر اس عذاب کا ہو رہا ہے جو ان کے اُوپر دنیا میں آیا۔ جس قوم کے گھروں میں بھی عورت اور مرد کے تعلقات بگڑے ہیں اور غلط بنیادوں پر قائم ہوئے ہیں وہ ساری قوم تباہی سے دوچار ہوئی۔
اس وقت مثال کے طور پر آپ دیکھیے کہ یورپ اور امریکا میں سارا معاشرتی نظام اس بُری طرح بگڑا ہے کہ ان میں طلاق کی انتہائی کثرت ہوگئی ہے۔ بالکل ایسا ہوگیا ہے کہ نکاح نامہ گویا کوئی ردّی کا ٹکڑا ہے جس کو جس وقت چاہیں پھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ یہ نکاح کی دستاویز کا مقام بن گیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہرپانچ نکاحوں میں سے چار کا انجام طلاق پر ہوتا ہے۔۱؎ اس کے نتیجے میں امریکا میں جس طرح teen agers (نوعمرلڑکے لڑکیوں) کے جرائم بڑھ رہے ہیں، ان کا حال آپ جب چاہیں وہاں کے اخبارات اُٹھا کر پڑھ سکتے ہیں۔ یہی حال
۱- یاد رہے کہ یہ ۱۹۶۷ء کا ذکر ہے۔ اب صورتِ حال اس سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔ (مرتب)
یورپ کا ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے غول کے غول جرائم کرتے پھرتے ہیں اور یہ مرض روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ خاندانی نظام کے عدم استحکام اور ابتری کی وجہ سے یہ ایک نیا مسئلہ ان کے لیے پیدا ہوگیا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ جب گھروں کے اندر آپس میں ناچاقی اور نااتفاقی اور ایک دوسرے پر ظلم کرنے اور عدم برداشت کی وجہ سے نباہ نہ کرنے کے امراض پیدا ہوجائیں، اور اس کے نتیجے میں بچوں کے والدین ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو اس کے بعد ان کے بچے جرائم پیشہ نہ بنیں گے تو کیا بنیں گے؟ اس طرح یہ ایک بڑی تباہی کا راستہ ہے جس کی طرف وہ لوگ جارہے ہیں۔ اگر کوئی قوم ابھی آپ کو اپنی صنعت و حرفت اور تجارت وغیرہ کی وجہ سے کھڑی نظر آرہی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ترقی کر رہی ہے اور اس کو استحکام حاصل ہے، بلکہ اس کے اعصاب درحقیقت مفلوج ہوچکے ہیں۔ بظاہر ابھی جڑ اس کی کھڑی ہے لیکن اس کی زندگی کی اصل طاقت ختم ہوچکی ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ ہم ایسی قوموں کا سخت محاسبہ کرتے ہیں اور اس کو بدترین سزا دیتے ہیں۔
اسی لیے فرمایا: فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِھَا وَکَانَ عَاقِبَۃُ اَمْرِھَا خُسْرًا o (۶۵:۹)، ’’انھوں نے اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور ان کا انجام کار گھاٹا ہی گھاٹا ہے‘‘۔ گویا جس طرزِعمل پر وہ قوم چل رہی تھی اس کا انجام بالآخر تباہی ہی ہونا تھا۔
اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا لا فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ ج الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِِلَیْکُمْ ذِکْرًا o رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِِلَی النُّوْرِ ط وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُّدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ط قَدْ اَحْسَنَ اللّٰہُ لَہٗ رِزْقًا o (۶۵:۱۱) اللہ نے (آخرت میں) ان کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ پس اللہ سے ڈرو ، اے صاحب ِ عقل لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ نے تمھاری طرف ایک نصیحت نازل کر دی ہے، ایک ایسا رسول جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سناتا ہے تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔ جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق رکھا ہے۔
پہلے فرمایا گیا کہ وہ قومیں جو اپنا بُرا انجام اس دنیا میں دیکھ چکی ہیں، اپنی شامت ِاعمال کا مزا چکھ چکی ہیں۔ اب اس کے بعد فرمایا کہ : اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا،’’اللہ نے ان کے لیے عذابِ شدید مہیا کر رکھا ہے‘‘۔
اس دنیا کے عذاب ہی سے ان کا پیچھا نہیں چھوٹ جائے گا کیونکہ دنیا کا عذاب ان کے کرتوتوں کی سزا نہیں ہے بلکہ اس دنیا کا عذاب تو ان کے کرتوتوں پر ان کی گرفتاری کے مترادف ہے۔ اصل سزا تو ان کو آخرت میں ملنی ہے۔ اگر ایک آدمی جرم کرے تو حکومت کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ اس کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اسے لے جاکر حوالات میں بند کردیا جاتا ہے۔ پھر وہ عدالت کے آخری فیصلے تک بھی ایک عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ اگر اس کا جرم ثابت ہوجائے تو عدالت کے فیصلے کے بعد اس کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی پوزیشن یہاں ہے کہ اگر کوئی قوم جرائم پیشہ بن جائے اور اس کی پوری معاشرتی زندگی کے تانے بانے کے اندر ظلم و ستم سرایت کرجائے تو اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا عذاب اس پر آتا ہے تواس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جیسے کوئی مجرم چھوٹا پھر رہا تھا اور یکایک اس کے وارنٹ جاری کرکے اس کو گرفتار کرلیا گیا۔ گویا دنیا میں عذاب آنا صرف اس مجرم قوم کی گرفتاری ہے۔ آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگاکہ دنیا کا عذاب اس کے جرائم کی اصل سزا نہیں، کیوں کہ جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو اس میں گرفتار وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس وقت موجود ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے جو لوگ جرائم کرتے ہوئے گزر گئے اور جن لوگوں نے خرابی کی بنیاد ڈالی تھی جن کی سزا میں یہ نسل پکڑی گئی، تو اصل مجرموں کو کیا سزا ملی۔ مزید غور کیجیے کہ جن لوگوں نے مثلاً ایک معاشرے کے اندر شراب نوشی کو عام کیا وہ تو زندگی گزار کر چلے گئے وہ کہاں پکڑے گئے، پکڑے تو وہ لوگ جائیں گے جو شراب نوشی کا ارتکاب کرتے ہوئے آخرکار گرفتار ہوگئے۔ اس لیے دنیا میں کسی قوم پر جو عذاب آتا ہے اس کی نوعیت اصل سزا کی نہیں ہوتی۔ یہ محض ایک گرفتاری ہے اور اس کے بعد اصل سزا اس کو آخرت میں ملتی ہے۔ اس کے متعلق فرمایا کہ: اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا___’’اللہ نے ان کے لیے عذابِ شدید مہیا کر رکھا ہے‘‘۔
فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ: ’’پس اے عقل رکھنے والو! اللہ سے ڈرو‘‘۔یہاں عقل رکھنے والوں سے مراد کون ہیں؟ فرمایا: الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا،’’وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں‘‘۔دوسرے الفاظ میں یہ سمجھیے کہ جو ایمان نہیں لا رہا ہے اس کی عقل ماری گئی ہے اور وہ احمق ہے۔ عقل رکھنے والا دراصل وہی ہے جو ایمان لے آیا۔ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ کہنے کے بعد الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکہنے سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں۔ ان الفاظ کے مطابق خواہ کوئی کتنا ہی بڑا سائنس دان ہو، کتنا ہی بڑا عالم فاضل ہو، اگر وہ ایمان نہیں لایا تو وہ احمق ہے۔ اس کی عقل ماری گئی ہے۔ ایک آدمی بعض چیزوں کے معاملے میں بڑا دانش مند ہوتا ہے۔ لیکن بعض دوسری چیزوں کے بارے میں بالکل نادان اور احمق ہوتا ہے۔ اگر ایک آدمی بہت بڑا قانون دان بھی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ عقل مند بھی ہے۔ صحیح معنوں میں عقل مند ہونا اور چیز ہے اور آدمی کا چالاک، زیرک اور ہوشیار ہونا ایک اور چیز ہے۔
اس مفہوم میں دیکھا جائے تو دنیا میں جو لوگ بظاہر چالاک اور زیرک ہیں وہ زیادہ تر بے وقوف ہیں۔کیونکہ حقیقی دانش مند جو بھی ہوگا وہ لازماً صاحب ِ ایمان ہوگا۔ اس بات کو اگر آپ مزید سمجھناچاہیں تو مثال کے طور پر دیکھیے کہ ہندوئوں میں کیسے کیسے ماہرینِ علوم پائے جاتے ہیں۔ لیکن وہ کس جاہلیت میں مبتلا ہیں، اس بات کا آپ تھوڑا سا اندازہ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ ہندستان کا ایک بہت بڑا لیڈر تھا مدن موہن مالویہ۔ وہ ایک بڑا قانون دان اور اعلیٰ درجے کا مقرر تھا اور مانا ہوا زیرک آدمی تھا لیکن اس کی جاہلیت کا حال یہ تھا کہ وہ اس عقیدے پر ایمان رکھتا تھا کہ اگر آدمی بحری سفر کرے تو اس کا دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے۔ لندن میں گول میز کانفرنس میں اُس کو بھی مدعو کیا گیا۔ ہندو قوم کے مفاد کا تقاضا تھا کہ پنڈت جی اس کانفرنس میں جائیں۔ چنانچہ پنڈت جی کو جانا پڑا لیکن واپس آئے تو برہمنوں نے کہا کہ آپ کا دھرم سمندری سفر کی وجہ سے بھرشٹ ہوچکا ہے۔ اس لیے آپ کو اس کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ اس کے پرائس چتھ [کفارہ]کی ضرورت ہے۔ اس کفارے میں یہ چیزیں شامل تھیں: گائے کا گوبر جسم پر مَلنا، اس کا پیشاب پینا، اس کی دم پکڑ کر بنارس کا ایک کُنڈ پار کرنا۔ اپنے عقیدے کے مطابق پنڈت جی نے یہ سب کچھ کیا تب کہیں جاکر اُن کا دھرم پاک ہوا اور وہ بھرشٹ ہونے سے بچ گیا۔ اس مثال سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایک آدمی کا کفر ایک بنیادی بیوقوفی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ایمان نہیں رکھتا تو وہ بیوقوف ہے، چاہے دنیا کی نظر میں وہ کتنا ہی بڑا عالم فاضل ہو۔
اس لیے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اے عقل مندو! یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ یہاں مخاطب مسلمان ہیں اور اُن سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ قومیں جنھوں نے اللہ کی نافرمانی کی وہ دنیا میں بُرے انجام سے دوچار ہوئیں اور آخرت میں بدترین انجام دیکھنے والی ہیں۔ ان کے طریقے پر نہ چلو بلکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارو۔
قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِِلَیْکُمْ ذِکْرًا o رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ (۶۵:۱۰-۱۱)اللہ نے تم پر نازل کیا ایک ذکر، ایک رسول جو تم کو اللہ کی روشن آیات سناتا ہے۔
یہاں ذکر سے مراد اللہ کا رسولؐ ہے۔ نازل کرنے کا لفظ قرآن کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے لیکن ذکر کے ساتھ فوراً رَسُولًا کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ دراصل قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و تعلیم دونوں ایک ہی ہیں۔ ایک طرف قرآن ہے اور دوسری طرف رسولؐ کی تعلیم، اس کی سنت اور سیرت و اخلاق و اعمال ہیں۔ بظاہر یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن درحقیقت دونوں ایک ہی ہیں اور دونوں اللہ ہی کی طرف لوٹتی ہیں۔ گویا اللہ نے تم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ تمھارے اُوپر ذکر نازل کیا اور رسول بھیجا جو اللہ کی آیات تم کو سناتا ہے۔ کھلی کھلی آیات کے لیے اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات واضح طور پر یہ بتا رہی ہیں کہ تم کو دنیا میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ کیا اختیار کرنا چاہیے اور کیا چھوڑنا چاہیے۔ کوئی چیز اس طرح مبہم نہیں چھوڑی گئی ہے کہ اس سے واضح ہدایت معلوم نہ ہوتی ہو۔
لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِِلَی النُّوْرِط (۶۵:۱۱) تاکہ وہ نکالے ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف۔
دوسرے الفاظ میں یہاں تاریکی سے مراد ہے جہالت، اور نور سے مراد ہے علم۔ گویا اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ فضل فرمایا کہ ایک کتاب بھیجی اور ایک رسول بھیجا، اور اس کتاب اور رسول کے ذریعے سے تم کو ہر طرح کی ہدایات دیں۔ یہ سب کچھ اس غرض کے لیے تھا کہ تم کو جہالت کی تاریکی میں بھٹکنے سے بچایا جائے اور تم کو سیدھا راستہ دکھایا جائے، تاکہ تم روشنی میں آجائو۔ جیسے دن کی روشنی میں آدمی صاف صاف دیکھتا ہے کہ کہاں گزرگاہ میں گڑھے یا کانٹے ہیں اور کس جگہ راستہ صاف اور ہموار ہے۔ تم پر یہ احسان کیا تاکہ تم تاریکیوں سے نکل آئو، لیکن تاریکیوں سے نکلیں گے وہ لوگ جو ایمان لائیں اور عملِ صالح اختیار کریں۔ رسول کے ذمے یہ کام نہیں ہے کہ وہ ہرآدمی کو تاریکی سے روشنی میں نکال لائے،بلکہ رسول تاریکی سے نکال کر روشنی میں لائے گا اس شخص کو جو اوّلاً ایمان لائے اور اس کے بعد عملِ صالح اختیار کرے۔ معلوم ہوا کہ محض ایمان لانے ہی کا نتیجہ تاریکی سے نکل کر روشنی میں آجانا نہیں ہے، بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ قبولِ ایمان کا اظہار کرنے کے بعد آپ کا ارادہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور پیروی کا ہے یا نہیں۔اگر آپ احکامِ الٰہی کے مطابق عملی زندگی بسر نہیں کرتے، صالح اخلاق اختیار نہیں کرتے، تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ محض ایمان کا اعلان کرنے سے آپ تاریکی سے نکل کر روشنی میں آجائیں۔ اس کی شرط یہی ہے کہ آپ ایمان لائیں اور عملِ صالح کریں۔
پھر فرمایا: وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُّدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ o (۶۵:۱۱)’’جو لوگ ایمان لائیں گے اور عملِ صالح اختیار کریں گے اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘‘۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ ، ’’وہ ہمیشہ ہمیشہ اُن میں رہیں گے‘‘۔کبھی ان کے وہاں سے نکلنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ قَدْ اَحْسَنَ اللّٰہُ لَہٗ رِزْقًا ، ’’اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق مہیا کیا ہے‘‘۔
اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّط یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لا وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا o (۶۵:۱۲) اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی اُنھی کے مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے۔ (یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہرچیز پر محیط ہے۔
اُوپر اللہ پر ایمان لانے کے اچھے نتائج بتانے اور اللہ کے عذاب سے ڈرانے کے بعد یہ فرمانا کہ اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے ہیں، اور وہی ہے جس نے اتنی زمینیں پیدا کی ہیں، اور وہی ہے کہ جس کا حکم تمام آسمانوں اور زمینوں میں نازل اور جاری ہوتا ہے، وہ ہرچیز پر قادر ہے اور اس کا علم ہرچیز پر حاوی ہے___ یہ اس غرض کے لیے ہے کہ انسان کو احساس ہو کہ میرا سابقہ کس خدا سے ہے، اُس خدا سے ہے جو علیم و قدیر ہے تاکہ تمھیں معلوم ہو کہ یہ احکام کوئی انسان تمھیں نہیں بتا رہا ہے کہ جس کی طاقتوں کی ایک حد ہوتی ہے، بلکہ یہ احکام وہ سنا رہا ہے جو کائنات کا خالق و مالک اور فرماں روا ہے۔
یہ جو فرمایا کہ :’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین کی قِسم سے اس کے مثل‘‘ (وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ)، تو دوسرے الفاظ میں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح سے یہ زمین ہمارے لیے گہوارہ ہے جس پر بے حد و حساب مخلوق جی رہی ہے، اسی طرح سے کچھ اور زمینیں بھی ہیں جو اپنی اپنی آبادی کے لیے گہوارہ ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ اسی زمین کے اندر اُوپر تلے مختلف تہیں ہیں جن میں آبادی پائی جاتی ہے لیکن یہ مراد نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ جیسی یہ زمین ایک سیارہ (planet) ہے جس کے اندر بستیاں اور آبادیاں ہیں اُسی طرح عالمِ بالا میں کچھ دوسرے سیارے بھی ہیں جن کے اندر ایسی ہی بستیاں آباد ہیں۔
قرآن مجید میں اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ عالمِ بالا میں اسی طرح سے دوسری مخلوقات پائی جاتی ہیں جس طرح اس زمین پر پائی جاتی ہیں۔ سورۂ شوریٰ میں آسمان و زمین کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے: وَمَا بَثَّ فِیْھِمَا مِنْ دَآبَّۃٍ ط(الشورٰی ۴۲:۲۹)، ’’اور زمین اور آسمانوں میں، دونوں کے اندر جو مخلوق اُس نے پھیلا رکھی ہے‘‘۔ دَآبَّۃٍ زندہ مخلوق کو کہتے ہیں، جمادات اور نباتات کو دَآبَّۃٍ نہیں کہتے۔ معلوم ہوا کہ زندہ مخلوقات صرف اسی زمین پر نہیں ہیں بلکہ دوسرے سیارے بھی ایسے ہیں جن میں زندہ مخلوقات موجود ہیں اور انھی کے لیے اَرْض کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
مِثْلَہُنَّ کا مطلب لازماً یہی نہیں ہے کہ وہ سات ہی ہیں۔ یہ مثلیت [یکسانی] تعدُّد کے لحاظ سے ہے، تعداد کے لحاظ سے نہیں۔ یعنی جس طرح کہ آسمان متعدد ہیں، ایسے ہی زمینیں بھی متعدد ہیں لیکن اس سے مراد سات زمینیں نہیں۔ اس کائنات کے اندر جس کی کوئی حد نہیں ہے، بے حساب سیارے ہیں اور اتنے بڑے بڑے سیارے ہیں کہ ہماری یہ زمین اگر اُن کے اندر ڈال دی جائے تو ایسا ہوگا جیسے کہ ایک بڑے مٹکے کے اندر چنے کا ایک دانہ ڈال دیا جائے___ تو اس کائنات کے اندر پائے جانے والے سارے سیّارے اور ستارے ڈھنڈار پڑے ہوئے نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس پوری کائنات میں آباد بس یہی ایک زمین ہو اور باقی پوری کائنات بے آباد پڑی ہو۔
اس کے بعد فرمایا کہ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ ، ’’ان کے درمیان امر نازل ہوتا ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح خدا کا حکم اس زمین پر چل رہا ہے، اسی طرح دوسری زمینوں اور آسمانوں میں بھی چل رہا ہے۔ کائنات میں ہرجگہ اس کا حکم نافذ ہو رہا ہے۔ زمین کی طرح وہاں بھی اس کے احکام آتے ہیں اور نافذ ہوتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر وہ پوری کائنات کا مالک اور فرماں روا ہے، فقط اس زمین کا مالک اور فرماں روا نہیں ہے۔
لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ،’’ یہ تم کو اس لیے بتایا جا رہا ہے کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ جو کچھ وہ کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ کوئی چیز اس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے روکنے والی نہیں ہے۔ کوئی چیز اس کے حکم کی مزاحمت کرنے والی نہیں ہے۔ اگر وہ کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہے اور صرف اپنی ہَوا کو اشارہ کردے تو وہی اس کو ہلاک کرکے رکھ دے گی اور اس کے سارے آلات اور مشینیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ گویا اللہ کی قدرت کی کوئی حد نہیں ہے، وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ مزید یہ بھی فرمایا: وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا ،’’اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے‘‘۔ یعنی تم کوئی کام ایسا نہیں کرسکتے جو اللہ کے علم سے خارج ہو اور اس کو یہ علم نہ ہو کہ تم نے کیا کام کیا ہے۔ جو کچھ بھی تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے، اور اس کے مطابق وہ تمھاری جزا اور سزا کا فیصلہ کرے گا___ صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ!(کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)