مغربی اور بھارتی کلچر کے فروغ پر کالموں کی اشاعت کے بعد، انصارعباسی کے اپنے اخبارنے، ان کی تحریر شائع نہ کی اور میڈیا کے بڑوں نے کچھ اور ہی فیصلے کیے۔ اس پر ان کا اپنا تبصرہ پڑھیے۔ ادارہ
ہمارا دین ہمیں محض اسباب پر بھروسا کرنے کے بجاے ایمان اور اصول کی بنیاد پر لڑنے اور جدوجہد کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ذاتی عناد اور دوسروں سے بلاوجہ کی دشمنی پالنا مسلمانوں کا وطیرہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کی دشمنی اور دوستی صرف اپنے اللہ کی خاطر ہونی چاہیے اور دشمنی بھی برائی سے نہ کہ برائی میں ملوث فرد سے۔ لیکن ہم انسان غلطی کرتے ہیں۔ اختلاف راے کو دشمنی میں بدل دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف فتنے میں پڑ جاتے ہیں۔ میں نے بھی نجانے ایسا کتنی بار کیا ہوگا جس پر میں اپنے اللہ سے اور اُن لوگوں سے جن کا دل دکھایا معافی کا طلب گار ہوں۔
یہاں میں واضح کردوں کہ میری کیبل آپریٹروں سے کوئی دشمنی ہے نہ ٹی وی مالکان سے کوئی عناد۔ میری جنگ تو بے حیائی اور انڈین اور مغربی کلچر کے خلاف ہے مگر کیبل آپریٹر اور میڈیا مالکان مجھے اپنا دشمن سمجھ بیٹھے۔ اپنی خفگی میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ فیصلہ کردیا کہ میں تو کیا، کسی اینکرپرسن کو اس مسئلے پر بات نہیں کرنے دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اخباری اطلاعات کے مطابق فیصلہ یہ بھی کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں فحاشی و عریانیت اور غیرقانونی انڈین چینلوں سے متعلق محترم قاضی حسین احمد اور محترم جسٹس وجیہہ الدین کی درخواستوں پر سنے جانے والے کیس کا بھی مکمل بلیک آئوٹ کیا جائے گا۔ گویا میڈیا نے خود ہی میڈیا اور آزادیِ راے پر حملہ کر دیا۔ دنیاوی اسباب، اپنی برادری کی جمعیت اور طاقت کے بل بوتے پر صحافیوں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چلانے کی ایک نئی مگر بڑی سازش ہے جس کو پیمرا کی مکمل حمایت حاصل ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اُن کے بس میں ہے کہ وہ میڈیا کو بلیک میل کرکے صحافیوں کو کسی ایسے ایشو پر بات کرنے سے روک سکتے ہیں جو غیرقانونی اور غیراخلاقی ہو۔ بظاہر وہ یہ بھی طاقت رکھتے ہیں کہ میرے لکھے ہوئے کو ناقابلِ اشاعت قرار دلوا دیں۔ ابھی تک وہ اس بات پر کامیاب ہوئے ہیں کہ کوئی ٹی وی چینل یا کوئی اینکرپرسن فحاشی و عریانیت اور غیرقانونی انڈین چینل کے موضوع پر بات نہ کرے۔ کئی اینکرپرسنز کو یہ بتادیا گیا ہے کہ وہ فحاشی اور غیرقانونی انڈین چینلوں کے مسئلے کو اپنے شوز کا موضوع نہ بنائیں۔
مالکان تو ڈر گئے، بلیک میل ہوگئے، ان کو اپنے اپنے کاروبار کو بچانے کی فکر پڑ گئی مگر اب اصل امتحان ہے ہم صحافیوں کا۔ اب امتحان ہے بڑے بڑے اینکرپرسنز کا، کیونکہ یہ کسی کی ذات کا مسئلہ نہیں بلکہ آزادی صحافت پر ایک سنگین حملہ ہے۔ اب یہ امتحان ہے پاکستان کی صحافتی تنظیموں کا کہ وہ کس طرح اس حملے کا جواب دیتی ہیں۔ ابھی تو ہر طرف ہُو کا عالم ہے۔ سب خاموش ہیں ماسواے سید طلعت حسین کی ویب سائٹ،سچ ٹی وی اور کراچی سے اُمت اور جسارت اخبار کے کسی نمایاں اخبار یا ٹی وی چینل نے صحافت کی آزادی پر مارے جانے والے اس شب خون پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیبل آپریٹروں اور میڈیا مالکان کے بجاے اگر یہ حملہ کسی اور جانب سے ہوتا تو پاکستان کا میڈیا، صحافی، اینکر پرسنز، انسانی حقوق کے علَم دار، سیاست دان سب نے آسمان سر پہ اُٹھا لینا تھا۔
اس وقت تک mainstream میڈیا میں اس موضوع پر موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ کیبل آپریٹروں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ کسی صورت غیرقانونی انڈین چینلوں کو بند نہیں کریں گے۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن نے اپنی غلط کاریوں کو چھپانے کے لیے کیبل آپریٹروں کے سامنے سر جھکا دیا ہے۔ کون نہیں جانتاکہ میڈیا مالکان کے اہم رہنمائوں کے اپنے چینل انڈین گانوں اور فلموں سے چلتے ہیں۔ پی ایف یوجے، اے پی این ایس، سی پی این ای سب بے خبر بنے بیٹھے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود میں نااُمید نہیں۔
مجھے امید ہے کہ سب میڈیا مالکان اس ڈکیتی میں حصہ دار نہیں بن سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ صحافیوں اور اینکر پرسنز میں سے وہ باضمیر اور جرأت مند صحافی جنھوں نے ہرکڑے وقت میں اپنی آواز بلند کی، اس موضوع پر بھی اپنی آواز ضرور اُٹھائیں گے۔ اپنے ذاتی مفادات کا پہرہ دینے والے اور اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس ذات باری تعالیٰ کے غضب اور قہر سے غافل ہیں اس لیے اپنے غیرقانونی انڈین چینلوں کے علَم برداروں نے میڈیا کو خاموش کرنے کا خوب بندوبست کیا مگر اس سب کے باوجود نسبتاً چھوٹے اخباروں اور بالخصوص سوشل میڈیا نے ساری سازش عوام کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ سوشل میڈیا میں اس مسئلے پر خوب بحث ہورہی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا میں سرگرم لبرل اور سیکولر طبقہ اس بحث میں داخل ہونے سے اس لیے گریزاں ہے کیونکہ ان کے لیے فحاشی و عریانیت اور انڈین کلچر کا پاکستان میں پھیلائو کوئی مسئلہ نہیں۔
انصار عباسی دی نیوز اور روزنامہ جنگ کے معروف کالم نگار