زرداری حکومت نے امریکی اور ناٹو افواج کے لیے افغانستان میں اپنی جارحانہ جنگی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے سپلائی لائن بحال کردی ہے۔ یہ ایک نہایت عاقبت نااندیشانہ، بزدلانہ اور محکومی پر مبنی فیصلہ تھا جس کے نتائج اور تباہ کن اثرات رُونما ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ڈرون حملے حسب سابق جاری ہیں اور اب مشترک فوجی آپریشن اور شمالی وزیرستان میں زمینی اور فضائی حملوں کی منصوبہ بندی آخری مراحل میں ہے۔
واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے خفیہ اداروں کے سربراہان نے خاموشی سے نیا جنگی منصوبہ تیار کرلیا ہے اور کور کمانڈروں کے اجلاس نے بھی اخباری اطلاعات کے مطابق، امریکی مطالبات پر کچھ پاکستانی شکرچڑھا کر ایک بظاہر تدریجی عمل کے ذریعے فوجی اقدامات کا نقشہ بنا لیا ہے۔ ایک طرف حکومت کے طے شدہ منصوبے کے مطابق قوم کی توجہ کو پارلیمنٹ اور عدالت میں محاذ آرائی کی دھند (smoke-screen) میں اُلجھا دیا ہے تو دوسری طرف الزام تراشیوں کی گرم گفتاری توجہ کا دوسرا مرکز بنی ہوئی ہے، نیز توانائی کا بحران اور معاشی مصائب قوم کی کمر توڑ رہے ہیں اور اسے فکرِمعاش کی دلدل سے نکلنے کی مہلت نہیں دے رہے۔ مبادلہ خارجہ کے بیرونی ذخائر کی کمی اور حکومت کی فوری مالیاتی سیّال اثاثے (liquidity )حاصل کرنے کی ضرورت اور امریکا سے اپنی ہی جیب سے خرچ کیے ہوئے ۳؍ارب ڈالروں میں سے ۱ئ۱؍ارب روپے کی وصولی کا ڈراما بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس سیاسی اور معاشی دُھندکا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، پارلیمنٹ کے واضح فیصلوں اور عوام کے جذبات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے امریکا کے فوجی اور سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا پورا انتظام کیا جا رہا ہے۔ جس تباہی اور بربادی سے ملک کو بچانے کے لیے سیاسی اور دینی قوتیں احتجاج کر رہی تھیں اور جس کے لیے پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اپنے طور پر ایک بظاہر متفقہ لائحہ عمل دیا تھا ،اسے دربا بُرد کر کے پاکستان اور افغانستان دونوں کو ایک نئی جنگ اور تصادم کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے۔
امریکا نے ۴جولائی ۲۰۱۲ء کو اپنی آزادی کے دن پاکستان کے نامۂ شکست پر جشن فتح منانے کے لیے ۲۴گھنٹے کے اندر اندر پاکستانی سرزمین پر تین ڈرون حملے کر کے نومبر ۲۰۱۱ء میں شہید ہونے والے ۲۴جوانوں کی فہرست میں ۳۴ نئے شہیدوں کا اضافہ کردیا تھا، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ قیادت ڈرون حملوں کو تو کیا رکواتی، وہ خود اس جنگ کے سب سے خطرناک مرحلے میں امریکا کی شریکِ کار بننے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اس طرح جو اصل امریکی مطالبہ تھا، یعنی پاکستانی فوج کے ذریعے شمالی وزیرستان میں مشترکہ آپریشن، اس کا سلسلہ شروع ہوتا نظر آرہا ہے اور امریکا کا جنگی جنون آخری فیصلہ کن دور میں داخل ہونے والا ہے۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے اس کی پوری ذمہ داری امریکا کی قیادت اور اس کی سامراجی سیاست کے ساتھ خود پاکستان کی حکومت اور اس کی موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت پر آتی ہے۔ قوم کو جان لینا چاہیے کہ اگرماضی میں کچھ پردہ تھا بھی تو وہ اب اُٹھ گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ جو جوہری تبدیلی اب سر پر منڈلا رہی ہے، اسے اچھی طرح سمجھا جائے اور قوم کو اس سے پوری طرح باخبر کیا جائے تاکہ اسے احساس ہوسکے کہ اس کی آزادی، عزت و وقار، قومی مفادات اور علاقے میں امن و آشتی کی خواہش، سب کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔ ضرورت ہے کہ قوم اس خطرناک کھیل کو سمجھے اور اس کے اہم کرداروں کو پہچان لے ، اور اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے نئی حکمت عملی بنائے اور اس پر عمل کے لیے مؤثر جدوجہد کا نقشہ بنا کر ضروری اقدام کرے۔ اس کام کو سلیقے اور حقیقت پسندی سے انجام دینے کے لیے ضروی ہے کہ اس سلسلے کے بنیادی حقائق کو ذہن میں ایک بار پھر تازہ کرلیا جائے تاکہ ان زمینی حقائق کی روشنی میں نیا نقشۂ کار تیار کیا جاسکے۔
پاکستانی عوام امریکا کی اس جنگ کو پاکستان، افغانستان اور پورے علاقے کے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس میں پاکستان کی حکومت اور اس کی افواج کی شرکت کو ایک قومی جرم تصور کرتے ہیں۔ راے عامہ کے تمام سروے اس امر پر متفق ہیں کہ پاکستانی قوم کی عظیم اکثریت اس جنگ کو ننگی جارحیت سمجھتی ہے، اور خصوصیت سے ڈرون حملوں کو جو اَب امریکی جارحیت کی مضبوط ترین علامت ہیں، ملک کی آزادی، سالمیت اور حاکمیت پر بلاواسطہ حملہ قرار دیتی ہے۔ انگلستان کے ہفت روزہ نیو اسٹیٹس مین کی ۱۳جون ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں شائع ہونے والے مضمون میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ:
ایک حالیہ پیو (Pew) جائزے سے معلوم ہوا کہ ۹۷ فی صد لوگ ان حملوں کو منفی نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ طے ہے کہ یہ انتخابات میں ایک کلیدی مسئلہ ہوگا۔ پاکستان کی خودمختاری پر ایک اور حملہ سمجھتے ہوئے اس نے ملک میں امریکا دشمن شدید جذبات کو مزید طاقت ور بنا دیا ہے۔(http://www. newstatesmen.com )
بات صرف پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کے اس دوٹوک اعلان تک محدود نہیں کہ امریکا کے ڈرون حملے ہوں، یا امریکی افواج یا نیم فوجی عناصر کی ہماری سرزمین پر موجودگی اور خفیہ کارروائیاں، انھیں ختم ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ان کی حقیقی نوعیت دراصل یہ ہے:
ا : یہ پاکستان (یا جس ملک میں بھی یہ کارروائیاں ہوں، اس ملک) کی حاکمیت اور آزادی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ب: انھیں عملاً اس ملک اور قوم کے خلاف ’اقدامِ جنگ‘ شمار کیا جائے گا جو عالمی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی تعلقات کی روایات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ج: ان کے نتیجے میں غیرمتحارب عام شہریوں کی بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوتی ہیں جو نشانہ لے کر قتل کرنے (targettted assasination) کی تعریف میں آتی ہیں اور انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔ نیز عام انسانوں کی بڑی تعداد زخمی اور بے گھر ہوتی ہے جو خود عالمی قانون اور روایات کی رُو سے جرم ہے اور اس کی قرارواقعی تلافی (compensation) کو قانون کا کم سے کم تقاضا شمار کیا جاتا ہے۔
د: تمام شواہد گواہ ہیں کہ یہ پالیسی اپنے اعلان کردہ مقصد، یعنی دہشت گردی کو ختم کرنے اور خون خرابے کو قابو کرنے یا کم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس کے نتیجے میں دوسرے تمام نقصانات کے ساتھ خود دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، اور متعلقہ اقوام اور ممالک کے خلاف نفرت اور شدید ردعمل کے جذبات میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جن کو اب عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جا رہا ہے جس کے صرف چند شواہد ہم پیش کرتے ہیں: (بلامبالغہ گذشتہ چند برسوں میں میرے علم میں ایک درجن سے زیادہ کتب اور ۱۰۰ سے زیادہ مضامین آئے ہیں جن میں کسی نہ کسی شکل میں اس ردعمل کا اعتراف کیا جارہاہے)۔
جارج بش کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو شروع کرنے کے ۱۰سال بعد یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ کم ہورہی ہے۔ امریکا کا عراق پر فوجی قبضہ ختم ہوچکا ہے اور ناٹو افغانستان سے باہر نکلنے کا راستہ دیکھ رہی ہے، گو کہ قتل و غارت جاری ہے۔ لیکن دوسری جانب غیرعلانیہ ڈرون جنگ، جو ہزاروں انسانوں کو ہلاک کرچکی ہے، اب نہایت تیزی سے بغیر کسی روک کے بڑھائی جارہی ہے۔ پاکستان سے صومالیہ تک سی آئی اے کے بغیر پائلٹ کے جہاز مشتبہ دہشت گردوں کی ہمیشہ بڑھتی رہنے والی ہٹ لسٹ پر ہیل فائر میزائلوں کی بارش برساد یتے ہیں۔ ابھی بھی وہ سیکڑوں شاید ہزاروں شہریوں کو اس عمل میں ہلاک کرچکے ہیں۔ اس ماہ یمن میں کم از کم ۱۵ ڈرون حملے ہوئے ہیں اور اتنے ہی گذشتہ پورے عشرے میں ہوئے ہیں اور درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ گذشتہ ہفتے پاکستان میں بھی ڈرون حملوں کا ایک سلسلہ مفروضہ شدت پسند اہداف کو نشانہ بناکر شروع کیا گیا ہے۔ ۳۵؍افراد جل گئے اور ایک مسجد اور بیکری بھی زد میں آئی۔
درحقیقت یہ ہلاکتیں فوری قتل (summary executions) ہیں جنھیں عام طور پر بین الاقوامی قانون دان بشمول اقوام متحدہ کے ماوراے عدالت ہلاکتوں کے اسپیشل رپورٹر فلپ آلسٹون، امکانی جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔ سی آئی اے کے ریٹائرڈ کونسل نے جو ڈرون حملے کی منظوری دیتے تھے خود اپنے بارے میں کہا کہ وہ قتل میںملوث رہے ہیں۔
تمام ناٹو ریاستوں میں افغانستان کی جنگ کی حمایت نچلی ترین سطح پر آچکی ہے۔ امریکا میں ڈرون جنگ مقبول ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، اس لیے کہ اس سے امریکی افواج کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ کوئی برابری کا مقابلہ تو ہے نہیں، جب کہ دہشت گرد مارے جارہے ہیں۔لیکن یہ ہائی ٹیک موت کے دستے ایک خطرناک عالمی مثال قائم کرر ہے ہیں جس سے امریکا کی سلامتی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ایک عشرہ پہلے ناقدوں نے متنبہ کیاتھا کہ یہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دہشت گردی کو ختم کرنے کے بجاے اس میں اضافہ کرے گی۔ بالکل یہی ہوا۔ اوباما نے ان مہموں کا نام بیرون ملک حسب ضرورت آپریشن رکھ دیا ہے، اور اب اس کا زور زمین پر بوٹوں کے بجاے روبوٹس پر ہے۔
لیکن جیساکہ پاکستان کے غیرمستحکم ہونے اور یمن میں القاعدہ کی طاقت میں اضافہ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا اثر ایک جیسا ہی ہے۔ ڈرون جنگ مسلم دنیا پر مسلط ایک سفاک جنگ ہے جس سے امریکاسے نفرت کو غذا مل رہی ہے اور دہشت گردی کو ایندھن فراہم ہو رہا ہے، اس سے لڑا نہیں جا رہا۔(دی گارڈین، ۲۹مئی ۲۰۱۲ئ)
ایک احساس یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون ناکام ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ۵۱ کا صرف اُن حملوں پر اطلاق ہوتا ہے جو دوسری ریاستیں کریں نہ کہ دہشت گرد گروپ۔ کسی نے بھی ابھی تک جنگ اور قانون کے اس معاملے پر دہشت گردی کا اطلاق کرنے کا نوٹس نہیں لیا۔ جنیوا کنونشن اور معمول کے حقوق کا دہشت گرد اور قانون نافذ کرنے والے پر یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔ اگر اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری اور حماس کے کمانڈروں کو ہلاک کرنا قانوناً جائز ہے، تو ان کے لیے بارک اوباما، بن یامین نیتن یاہو، ان کے جرنیلوں اور حلیفوں کو قتل کرنا بھی جائزہے، حتیٰ کہ ملکہ بھی سربراہِ ریاست ہونے کے ناتے اس فہرست میں آسکتی ہے۔
جو لوگ دہشت گردی پھیلانے کے لیے معصوم شہریوں کی جانیں لیتے ہیں، ان کے ساتھ خطرناک ملزموں کا برتائو کیا جانا چاہیے اور جب ضرورت ہو، انھیں قتل کیا جانا چاہیے، نہ کہ ان کو وہ مقام دیا جائے جو ان جنگ جوئوں کا ہوتا ہے جو ریاستوں سے برسرِجنگ ہوں۔
انسانی حقوق کے قانون کے تحت کیا صورت حال ہوگی؟ اگر دہشت گردوں کے ہمدردوں کو دوسروں کی حوصلہ شکنی کے لیے نشانہ بنایا جائے، جب کہ گرفتاری ممکن ہو، تو یہ انسان کے حقِ زندگی کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ جو دہشت گرد شہریوں کو مارنے کے مشن پر مامور ہوں یا ان سازشوں میں شریک ہوں جو انھیں مارنے کے لیے کی جائیں، انھیں ہلاک کرنا معقول بات ہوگی۔لیکن ڈرون حملوں کا ریکارڈ یہ بتاتاہے کہ افراد کو اس وقت نشانہ بنایا جاتا ہے جب ان کی طرف سے کوئی واضح یا فوری خطرہ نہ ہو۔
یمن اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں ان افراد کو ہدف بنایا گیا جو مسلح تھے یا سازشی اجتماعات میں تھے لیکن دوسروں کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ کسی شادی یا جنازے میں شریک ہیں، یا کسی مسجد یا ہسپتال سے باہر آرہے تھے۔ پاکستان میں یہ واقعات بھی ہوئے کہ پاکستان کے حامی لیڈروں ، ان کے اہل و عیال، حتیٰ کہ فوجی جوانوں کو بھی غلطی سے قتل کیا گیا ہے۔ ان حملوں نے امریکا کے ایک ایسی قوم سے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے جو سیاسی طور پر دبائو کا شکار ہے، ایٹمی اسلحے سے مسلح ہے اور اس کے ساتھ برسرِجنگ نہیں ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے سی آئی اے کو اہداف کے انتخاب کے لیے کھلی چھٹی دے دی ہے اور اسے قانون کے پروفیسر Koh کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے، جو اَب ایک جلاد ہے۔ جو لوگ نیو ادا میں بیٹھ کر ہیل فائر کے بٹن دباتے ہیں، یہ سوچنے کے لیے لمحہ بھر نہیں رُکتے کہ ان کا ہدف واقعی برسرِجنگ ہے۔ فہرست میں شامل کرنے یا قتل کرنے کے معیارات کے بارے میں اندازہ لگانے کا کوئی مقصد نہیں، اس لیے کہ عدالت کے دائرۂ کار اور فریڈیم آف انفارمیشن ایکٹ کی دفعات سے ماورا یہ سی آئی اے کا خفیہ استحقاق ہے۔
ایک خیال یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون ناکام ہوچکا ہے۔ یو این چارٹر، کنونشنز اور عدالتوں کی معمول کی کارروائیوں میں بے جوڑ لڑائیاں لڑنے کے لیے کوئی اطمینان بخش رہنمائی نہیں دی گئی ہے۔ اسی لیے ریاستوں کی خاموشی ہے اور حال ہی میں یو این کے ہیومن رائٹس کمشنر کی ایک درخواست سامنے آئی ہے کہ قانون کی فوری وضاحت کی جائے۔ آگے جانے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے ہوسکتا ہے کہ قابلِ لحاظ فوج اور متناسب طاقت کے لیے پیچھے جانے کا راستہ ڈھونڈنا ہو۔ فی الحال بہت سی ڈرون ہلاکتوں کو فوری قتل کہا جاسکتا ہے۔ جیساکہ سرخ ملکہ کی سزا ظاہر کرتی ہے کہ فیصلہ پہلے، مقدمہ بعد میں، جو حقِ زندگی، معصوم فرض کرنے کے حق اور مقدمے کی منصفانہ سماعت کے حق سے انکار کرتا ہے۔ (’’ڈرون حملے کتاب میں درج انسانی حقوق کے ہراصول کے خلاف ہیں‘‘، جیفرے رابرٹسن، نیو اسٹیٹس مین، ۱۳ جون ۲۰۱۲ئ)
ظلم یہ ہے کہ ان حملوں میں جو افراد بھی مارے جاتے ہیں، انھیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایک پاکستانی میجر جنرل محمود غیور صاحب تک نے مارچ ۲۰۱۲ء میں ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۰ تک شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں کی توجیہ کرتے ہوئے بلاکسی ثبوت کے یہ تک فرما دیا کہ a majority of those eliminated are terrorists, including foreign terrorist elements. (مارے جانے والوں کی اکثریت دہشت گرد ہوتی ہے اور ان میں غیرملکی دہشت گرد بھی شامل ہوتے ہیں) حالانکہ تمام وہ ادارے جو کسی درجے میں بھی ان اُمور پر تحقیق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہہ رہے ہیں شہریوں کی اموات غیرمعمولی طور پر زیادہ ہیں۔ امریکا کے مشہور تحقیقی ادارے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے بارے میں کہا گیا ہے:
درست اعدادو شمار جمع کرنا مشکل ہے مگر مقامی افراد کہتے ہیں کہ وزیرستان میں ۳ہزار ہلاکتوں میں صرف ۱۸۵ القاعدہ کے نشان زد سرگرم افراد تھے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کا تخمینہ ہے کہ ہرجنگ جُو کے ساتھ ۱۰ شہری بھی ہلاک ہوتے ہیں۔ (نیو اسٹیٹس مین، ۱۳جون ۲۰۱۲ئ)
پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکت کے سلسلے میں تازہ ترین معلومات سٹیٹ آف پاکستان کی کمیٹی براے دفاع و دفاعی پیداوار کی جولائی ۲۰۱۲ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ایک چارٹ کی شکل میں دی گئی ہے جو گھر کی گواہی (شَھِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا) کے مصداق ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں:عسکریت پسند :۶۴۶، عام شہری: ۱۵۷۶، خواتین و بچے: ۵۶۵ کُل: ۲۷۸۷۔
یہ اعدادو شمار ۲۰۱۲-۲۰۰۴ء تک کے ڈرون حملوں کے سلسلے میں دیے گئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ڈیفنس کمیٹی کے سامنے پیش کردہ معلومات کی بنیاد پر ۲ہزار ۷سو ۸۷ میں سے صرف ۶۴۶؍افراد پر عسکریت پسندی کا شبہہ تھا، باقی ۲ہزار ایک سو۴۱ عام شہری تھے جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد ۵۶۵ تھی۔
خود امریکا کا ایک اور ادارے American Civil Liberties Union اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان، یمن اور صومالیہ میں امریکی ڈرون حملوںکے نتیجے میں ۴ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد شہریوں کی تھی۔
اس رپورٹ میں اس حقیقت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ پہلے افراد کو نشانہ بنایا جاتا تھا اور اب ہدف علاقوں اور اجتماعات کو بنایا جارہا ہے جن کے بارے میں محض فضائی نگرنی کی بنیاد پر میزائل داغ دیے جاتے ہیں۔ اس طرح اجتماعی اموات واقع ہورہی ہیں۔ اس کے لیے امریکی سیکورٹی کے اداروں نے ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے، یعنی "signature strikes" اور خود اوباما صاحب نے اس کی اجازت بلکہ ہدایت دی ہے۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے ڈائرکٹر ایان سیڈرمن نے اس لاقانونیت کے بارے میں کہا ہے کہ: بین الاقوامی قانون کے ڈھانچے کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا تھا۔ (Drone strikes threaten 50 years of International Law by Owen Bowcott، دی گارڈین، ۲۱ جون ۲۰۱۲ئ)
محض شبہے کی بنیاد پر یا لباس اور ڈاڑھی کے ’جرم‘ میں امریکا کی نگاہ میں مشتبہ علاقوں میں کسی بھی ایسے مرد یا مردوں کے اجتماع کو ہدف بنایا جاسکتا ہے جو ۱۵ سے ۶۰ سال کی عمر کا ہو اور ان علاقوں میں پایا جائے۔ دہشت گرد کی یہ وہ نئی تعریف ہے جو امریکا نے وضع کی ہے اور جس کے مطابق وہ اب پاکستانی فوج سے ،اقدام کرانے پر تُلا ہوا ہے۔
اس سے زیادہ ظلم اور انسانی جانوں کے ساتھ خطرناک اور خونیں کھیل کی کیا مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ ایک حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں جنوبی افریقہ کے ایک پروفیسر اور ماوراے عدالت ہلاکتوں کے اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے کرسٹاف ہینز نے ان تمام اقدامات کو ’جنگی جرائم‘ (war crimes) قرار دیا۔ اس نے اس امر پر شدید اضطراب کا اظہار کیا کہ نہ صرف ایک خاص شخص یا جگہ کو ہدف بنایا جا رہا ہے بلکہ ان افراد اور اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں لوگ ہلاک ہونے والوں کی تجہیزو تکفین میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس سار خونیں کھیل پر اس نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ بھی کہا ہے کہ:
اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ۲۰۱۲ء میں ہونے والی کتنی ہلاکتوں کا جواز ۲۰۰۱ء میں ہونے والے واقعے کے ردعمل سے فراہم ہوتا ہے۔
اس میں یہ اضافہ بھی ضروری ہے کہ ۲۰۰۱ء میں نیویارک میں ہونے والے واقعے کے بدلے میں پاکستان اور افغانستان میں یہ کھیل کھیلا جارہا ہے، جب کہ نیویارک میں مبینہ دہشت گردوں میں کسی کا بھی تعلق پاکستان یا افغانستان سے نہیں تھا۔
تقریباً تمام ہی سنجیدہ تحقیق کرنے والے افراد اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور خاص طور پر ڈرون حملوں سے دہشت گردی میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور ان اسباب کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب رابرٹ پیپ اور جیمز فولڈمین کی ہے جو ۲۰۱۰ء تک سے دہشت گردی کے تمام واقعات کے بے لاگ علمی جائزے پر مبنی ہے اور جس میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی کی مکمل ناکامی کو علمی دلائل اور اعداد و شمار کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔(دیکھیے: Cutting the Fuse، عالمی خودکش دہشت گردی کا دھماکا اور کیسے اس کو روکا جائے، رابرٹ اے پیپ، جیمز کے فلڈمین، یونی ورسٹی آف شکاگو پریس، شکاگو ، ۲۰۱۰ئ)
خاص طور پر ڈرون حملوں کے بارے میں امریکا اور جرمنی کے دو پروفیسروں کی تحقیق بھی اس نتیجے کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے ہم بھی بہ چشم سر دیکھ رہے ہیں۔ البتہ اگر کسی کو یہ نظر نہیں آتی تو وہ امریکی اور پاکستانی قیادت ہے!
ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کی دہشت گردی پر ڈرون حملوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ ان کا بدترین پہلو یہ ہے کہ یہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو مختصر وقت میں بڑھا دیتے ہیں۔ جنوری ۲۰۰۷ء سے ستمبر ۲۰۱۱ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو ہم نے پایا کہ القاعدہ اور طالبان کے افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں پر ڈرون حملے غیر مؤثر ہیں۔ دوسری طرف ڈرون حملوں کے بعد ہفتوں تک پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کے حملوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے جب ڈرون حملے اپنے ٹارگٹ کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ بعض ڈرون حملے مختلف نوعیت کے مقاصد پورے کرتے ہیں لیکن ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ وہ القاعدہ اور طالبان کی افغانستان میں دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہیں۔ پاکستان میں ایک مختصر مدت کے لیے دہشت گردی بڑھا دیتے ہیں۔ اگر اوباما کی حکمت عملی کے مقاصد میں ایک محفوظ پاکستان ہے تو ان کو اندازہ ہوگا کہ ڈرون حملے اپنے مقاصد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ (فارن پالیسی، مئی جون ۲۰۱۲ئ، ص ۱۱۰)
جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ ہمارے پاس حوالوں کی بھرمار ہے لیکن جگہ کی قلت کے باعث صرف ان چند حوالوں پر اکتفا کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد توجہ کو اصل ایشوز پر مرکوز کرنا ہے۔
یہ تصویر کا ایک پہلو ہے جس میں امریکا کا کردار، وہ عالم گیر تباہی جو اس جنگ کے نتیجے میں رُونما ہوئی ہے اور پاکستان کی وہ درگت جو اس جنگ میں امریکا کے آلۂ کار بننے کی وجہ سے ہمارا مقدر بن گئی ہے(اس سلسلے میں ترجمان کے جولائی اور اگست ۲۰۱۲ء کے شماروں میں شائع ہونے والے ’اشارات ‘ کو ذہن میں تازہ کرنا مفید ہوگا)،لیکن اس تصویر کا دوسرا رُخ اور بھی ہولناک، شرم ناک اور خون کھولا دینے والا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر بھی کھل کر بات ہو اور قوم کو تمام حقائق سے بے کم و کاست روشناس کرایا جائے۔ ہماری تاریخ میں جو کردار عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ ابن سبا سے لے کر میرجعفر اور میرصادق تک انجام دیتے رہے ہیں، آج بھی ایسے ہی کرداروں سے ہمارا سابقہ ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ آج انھیں دانش وروں، صحافیوں اور میڈیا کے گوئبلز ٭کی اعانت بھی حاصل ہوگئی ہے۔یہ کردار امریکا سے پاکستان تک ان اداکاروں کی ایک فوج ظفرموج کا ہے جو پوری دیدہ دلیری کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ ضمناً لبرل لابی کے ایک اہم اخبار ایکسپریس ٹربیون ( ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ) میں لبرل صحافیوں کے سرخیل خالد احمد کے ایک تازہ ترین مضمون میں ایک اعتراف سے ناظرین کو روشناس کرانادل چسپی کا باعث ہوگا کہ ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘۔ ان کا اشارہ ملک کی سپریم کورٹ کے موقف اور لبرل حلقوں کی سوچ کے درمیان پائے جانے والے بُعد کی طرف ہے لیکن یہ بات صرف سپریم کورٹ کے آزاد اور عوام دوست رویے تک محدود نہیں۔ امریکا کے کردار، ڈرون حملوں کی توجیہ اور اب شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے زمین ہموار کرنے سے متعلق تمام ہی امور پر صادق آتی ہے:
ایک حالیہ ٹی وی مباحثے میں میرے پسندیدہ وکیل سلمان اکرم راجا نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ان آرا کا ۸۰ فی صد جو پاکستان میں انگلش میڈیم پریس میں چھپتا ہے، ہماری فعال عدلیہ کے حق میں نہیں ہے۔ دوسری طرف اُردو میڈیا میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں میں عمومی اتفاق راے پایا جاتا ہے۔
پاکستانی قوم پرستی کی زبان اُردو ہے۔ اُردو میڈیم تعلیم کی مارکیٹ پر ریاست کو غلبہ حاصل ہے۔ ذریعۂ اظہار کے طور پر اُردو کی شاعری اور جذباتی اظہار میں مضبوط بنیادیں ہیں۔ جدید زبان میں معاشیات اور اس کا بتدریج اثرانداز ہونے والا نظریے کے بجاے موقع پرستی کا پیغام ابھی تک اُردو میں داخل نہیں ہوا۔ انگلش میڈیم تعلیم کی مارکیٹ میں کرسچین مشنری اسکولوں نے جگہ بنائی جن کا امتحان بیرونی ادارے سے ہوتا ہے۔ یہاں کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ بنیاد پرستانہ نظریے کو اختیار کرلیا گیا ہے۔ اُردو کالم نگار نے کچھ حقائق کو یکساں طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ جب وہ قومی معیشت کی بات کرتا ہے تو آئی ایم ایف اور مغرب مخالف ہوتا ہے۔ وہ اسلام کے خلاف خصوصاً پاکستان کے خلاف ایک عالمی سازش پہ یقین رکھتا ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ پوری دنیا میں امریکا بھارت کے ہندووں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملے کی قیادت کر رہا ہے۔
جب بھارت سے تعلقات پر بات ہو رہی ہو، تو وہ ایک لڑاکا ہے اور اسے یقین ہے کہ پاکستان کی لبرل سوسائٹی غدار ہے، اور یہ کہ پورے ملک میں کام کرنے والی این جی اوز ایجنٹ ہیں اور غداری کی مرتکب ہورہی ہیں۔
پاکستان میں قوم پرستی کا اظہار انگریزی کے مقابلے میں اُردو میں زیادہ ہوتا ہے۔ حالانکہ قوم پرستی قومی معیشت کو تباہ کردیتی ہے۔(دی ایکسپریس ٹربیون، ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ)
بات زبان کی نہیں ذہن کی ہے۔ تعلیمی پس منظر کی نہیں، فکری اور سیاسی وفاداری کی ہے۔ قومی مفاد اور مفاد پرستی کی ہے۔ البتہ اس تحریر کے آئینے میں پاکستان کی قسمت سے کھیلنے اور پاکستان کو ان مشکل حالات میں دلدل سے نکالنے والے کرداروں کی تصویر بھی دیکھی جاسکتی ہے، جو غالباً صاحب ِ مضمون کا تو اصل مقصد نہ تھا مگر اس تحریر سے وہ ذہن پوری طرح سامنے آجاتا ہے جس کی نگاہ میں نہ قومی حاکمیت، آزادی اور عزت کی کوئی اہمیت ہے اور نہ حقیقی قوم پرستی کوئی مقدس شے ہے ۔ اس اخبار نے چند دن پہلے ادارتی کالم میں یہ تک لکھ دیا ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے اور جو لوگ حاکمیت (sovereignity) اور قومی مفاد کی بات کرکے امریکا سے تعلقات کے اس نام نہاد نئے باب اور ناٹو سپلائی کی بحالی پر گرفت کر رہے ہیں، وہ زمانے کے تقاضوں سے ناواقف ہیں۔ ہمارے یہ دانش ور بھول جاتے ہیں کہ برطانوی اقتدار کے دور میں بھی ہمیں یہی سبق سکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ع
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
لیکن بالآخر تاریخ کا دھارا ان لوگوں نے موڑا جو محض طاقت اور غلبے کی چمک دمک سے مرعوب نہیں ہوتے اور اپنے عقائد، نظریات اور حقیقی قومی مفادات کے لیے زمانے کو بدلنے کی جدوجہد کرتے ہیں، یعنی زمانہ با تو نہ سازد تو بازمانہ ستیز۔
جملۂ معترضہ ذرا طویل ہوگیا لیکن جن حقائق کو ہم اب قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ان کو سمجھنے میں اس ذہن کو سامنے رکھنے اور معاشرے کے اس نظریاتی اور اخلاقی تقسیم کو سمجھنا ضروری ہے جو ہمارے بہت سے مسائل اور مشکلات کی جڑ ہے۔
ناٹو سپلائی کی بحالی اور امریکا سے تعلقات کو امریکی احکام اور مفادات کے مطابق ڈھالنے کا جو کام موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت انجام دے رہی ہے، وہ ڈھکے چھپے انداز میں تو ایک مدت سے جاری ہے مگر ۲۰۰۱ء کے بعد اس کا رنگ اور بھی زیادہ چوکھا ہوگیا تھا۔ پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ئ، ۱۴؍مئی ۲۰۱۱ء اور اپریل ۲۰۱۲ء کی قراردادیں ایک بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ یہ قراردادیں عوامی جذبات اور عزائم سے ہم آہنگ تھیں اور ۲۷؍نومبر ۲۰۱۱ء کی کھلی امریکی جارحیت اور اس کے بعد اس کی رعونت نے اس کے لیے پالیسی میں تبدیلی کا ایک تاریخی موقع بھی فراہم کیا تھا لیکن جس نوعیت کی قیادت بدقسمتی سے ملک پر مسلط ہے اس نے اس موقعے کو ضائع کرتے ہوئے اب زیادہ کھلے انداز میں امریکی غلامی اور کاسہ لیسی کے راستے کو اختیار کرلیا ہے۔ یہی وہ تاریخی لمحہ ہے جب قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اب اسے پاکستان کی تقدیر کن لوگوں کے ہاتھوں میں دینی ہے ___ وہی قیادت جو قومی مفادات اور قومی آزادی اور وقار کا سودا کرتی رہی ہے یا ایسی نئی قیادت جو ایمان، آزادی، عزت اور قومی مفادات کی حفاظت کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دَور سے اب تک کی قیادت کی جو اصل تصویر امریکا اور مغرب کے پالیسی ساز اور راے عامہ کو بنانے والے ادارے اور افراد کی پسندیدہ تصویر ہے، وہ اب قوم کے سامنے بھی بے حجاب آجائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکے۔
ڈیوڈ سانگر کی کتاب Confront and Conceal اس وقت امریکا اور پاکستان میں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ہم نے اگست کے ’اشارات‘ میں اس سے کچھ اہم اقتباسات پیش کیے تھے۔ New York Review of Books نے اپنی تازہ ترین اشاعت (۱۶؍اگست ۲۰۱۲ئ) میں اس پر مفصل تبصرہ کیا ہے اور اسے امریکا کی پالیسی کے لیے ایک آئینے کی حیثیت دی ہے۔ اس میں ہماری قیادت کی کیا تصویر ہمارے سامنے آتی ہے، اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، کہ امریکا کو ایسی ہی قیادت مطلوب ہے۔
پاکستانیوں سے اوباما کے دورِ صدارت کے کارناموں کے بارے میں پوچھیے تو ڈرون حملوں سے شہریوں کی ہلاکت کے موضوع پر شروع ہوجائیں گے۔ (ص xviii)
وہ پاکستانی عوام کے اصل اضطراب کا بھی شعور رکھتے ہیں!
پاکستانیوں نے جو سوال مجھ سے کیا وہ یہ تھا کہ پاکستان میں اور کتنے ریمنڈ ڈیوس گھوم رہے ہیں اور ہم ان کے بارے میں نہیں جانتے۔
لوگر اعتراف کرتا ہے کہ ’’ڈرون حملے اہلِ پاکستان کی نگاہ میں بجا طور پر پاکستان کی حاکمیت کی خلاف ورزی ہیں‘‘ (ص ۱۳۵)۔ نیز یہ حملے ’ایک جنگی عمل‘ (an act of war) شمار کیے جائیں گے (ص ۱۳۷)۔ یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ یہ اقدام ناجائز ہیں جو قتل عمد کے مترادف ہیں (ص ۲۵۳)۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ چشم کشا اوردل خراش انکشاف محض سیاسی قیادت کے بارے میں ہی نہیں، فوجی قیادت کے بارے میں بھی کرتا ہے، یعنی خود آئی ایس آئی نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پرویز مشرف نے ان کی اجازت دی تھی:
آئی ایس آئی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ملک میں جو کوئی بھی امریکی خفیہ اہل کار ہے، اس کے بارے میں بتایا جائے اور ڈرون حملے بند کیے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ جب مشرف مُلک چلا رہا تھا تو واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان حملوں کی اجازت کا ایک خفیہ معاہدہ تھا لیکن یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ڈرونز کی تعداد بڑھائی گئی اور ڈرون حشرات الارض کی طرح نکل آئے اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی عوام کا غم و غصہ بھی۔ اب دُور سے، بہت دُور سے ایک ڈرون حملہ پاکستان پر لانچ کیا جاسکتا ہے۔ امریکی یہ ظاہر کرتے تھے کہ انھوں نے اس مطالبے کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ اوباما کے لیے ڈرونز ہی وہ واحد چیزتھے جو پاکستان میں نتائج دے رہے تھے۔(Confront and Conceal: Obama's Secret Wars and Surprising Use of American Power, by David E. Sanger, Crown Publisher, New York, 2012, p. 87-88)
یہ بات ۲۵ نومبر کے واقعے کے بعد ہوئی ہے۔ ۴جولائی نے پھر ہمیں وہیں پہنچا دیا ہے جہاں یہ بدقسمت ملک مشرف کے دور میں تھا ع
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اپریل ۲۰۱۲ء میں پاکستانیوں نے اوباما ڈاکٹرائن کے لیے بہت بڑا چیلنج پیش کیا۔ اس وقت تک امریکا نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ۲۵۰ امریکی ڈرون حملوں کا یہ کہہ کردفاع کیا تھا کہ ان حملوں کو کرنے کے لیے انھیں حکومت کی منظوری حاصل تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس منظوری کو کبھی عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ منظوری جنرل کیانی اور اس کے فوجی ساتھیوں سے حاصل کی گئی تھی نہ کہ منتخب قیادت سے۔ یہ بڑی حد تک لفظی منظوری تھی۔ پھر جب پاکستانی پارلیمنٹ نے امریکا کے ساتھ تعلقات کا ایک مکمل جائزہ لیا تو اس نے بہت بڑی اکثریت کے ساتھ پاکستانی علاقے پر ڈرون حملوں سے منع کیا۔ یہ مطالبہ اوباما کے اس موقف کے لیے ایک چیلنج تھا کہ وہ امریکا کے سلامتی کے مفادات کی حفاظت افواج کے باقاعدہ استعمال کے بغیر کرسکیں گے، جب کہ اس طرح ہم جمہوری حکومت کی خودمختاری کا احترام بھی کریں گے۔(ص ۱۳۶)
داد دیجیے کہ ایک جمہوری ملک کی حاکمیت کا ڈرون حملوں کی بارش کے ساتھ کس عیاری سے ’احترام‘ کیا جا رہا ہے اور ملک کی فوجی قیادت کس طرح وہی کردار ادا کرتی نظر آرہی ہے جو سیاسی قیادت نے انجام دیا تھا۔ لیکن دل تھام کر بیٹھیے۔ اس کتاب کے صفحہ ۲۵۸ پر یہ چشم کشا انکشاف بھی موجود ہے کہ ہماری قیادت نے ان حملوں کی افادیت کا اعتراف بھی کیا ہے اور جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ میجر جنرل محمود غیور٭ کے بیان سے بھی اس کی توثیق ہوتی ہے:
ایک سینیرخفیہ اہل کار کا (جو پروگرام کی نگرانی کا ذمہ دار ہے) اصرار ہے کہ امریکا ان قواعد کی پابندی کرتا ہے۔ اگر ایک ملک میں کوئی باقاعدہ حکومت ہو تو ہم اسے میزبان حکومت کی اجازت سے استعمال کرتے ہیں۔ جب میں نے اس سے چاہا کہ وہ تفصیل بتائے کہ روزمرہ ’حملہ کریں یا نہ کریں‘ کے فیصلے کس طرح کیے جاتے ہیں؟ تو اس نے کہا: اگر وہ نہ چاہیں تو ہم عام طور پر حملے نہیں کرتے، الا یہ کہ ہماری افواج کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہو۔
بلاشبہہ عملاً واشنگٹن اور دنیا کے لیڈروں کے درمیان ڈرون کے استعمال کے بارے میں نازک توازن کبھی اس طرح واضح ہوتا اور نہ اجازتیں اس طرح واضح ہوتی ہیں جیسے اگر کوئی امریکی اہل کاروں کی باتوں کو سنے تو سوچ سکتا ہے۔ وکی لیکس کے ذریعے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جو پیغامات شائع ہوئے ہیں، ان سے ڈرون کے استعمال کی عجیب و غریب صورت حال زیادہ واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں پاکستان آرمی کے چیف آف اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دورے پر آئے ہوئے امریکی ایڈمرل ولیم جے فالن کو القاعدہ کے گڑھ وزیرستان پر مسلسل اور مستقل ڈرون کوریج کے لیے کہا۔
چھے ماہ بعد یہ پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھا جو قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں پر ڈرون حملوں کے بارے میں خود اپنے وزیرداخلہ کے اعتراضات کو مسترد کر رہا تھا اور امریکی سفیر اینی پیٹرسن کو یہ کہہ رہا تھا: ’’مجھے اس کی پروا نہیں، یہ اسے اس وقت تک کرتے رہیں جب تک مطلوب آدمی نہیں ملتے‘‘۔ جیسے ہی یہ باتیں عوام میں آئیں، اوریقینا بن لادن آپریشن کے بعدانھی پاکستانی افسروں نے ملک کے اندر ڈرون حملوں کو ملک کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے روکنے کا مطالبہ کیا۔ (ص ۲۵۸-۲۵۹)
۴جولائی کے بعد ڈرون حملوں کا جاری رہنا اور شمالی وزیرستان میں مشترک یا امریکی معلومات کی فراہمی پر پاکستانی فوجیوں کی کارروائی کے عندیے نے نہ صرف مشرف، زرداری، گیلانی، کیانی کی سابقہ حکمت عملی کی بحالی کا منظرنامہ پیش کرنا شروع کر دیا ہے، بلکہ اب عملاً کھلی اجازت کا سماں ہے اور کوئی پردہ باقی نہیں نظر آرہا۔ صرف ریکارڈ کے لیے یہ بات بھی اس سلسلے میں بیان کرنا ضروری ہے کہ زرداری صاحب نے بنفس نفیس نومبر ۲۰۰۸ء میں امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں مشرف کی پالیسی کو جاری رکھنے کی اشیرباددی تھی جس کا واضح بیان باب ووڈورڈ کی کتاب Obama's Warsمیں ان الفاظ میں پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے:
۱۲ نومبر (بدھ) کو امریکا کے سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیک ہیڈن نیویارک گئے تاکہ ڈرون حملوں پر پاکستان کے صدر سے بات چیت کرسکیں۔ ۶۳سالہ ہیڈن ایئرفورس کا چار ستاروں والا جنرل ہے جو ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۵ء تک این ایس اے کا ڈائرکٹر رہا۔ پاکستانی صدر اور ہیڈن کی ایک گھنٹے کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ زرداری چاہتا تھا کہ ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت سے ہونے والی کشیدہ فضا کو دُور کیا جائے۔
وہ ستمبر میں صدر بنا تھا اور اپنی پسندیدگی کی شرح میں کمی برداشت کرسکتا تھا۔ معصوم لوگوں کی ہلاکت القاعدہ سے معاملات کرنے کی قیمت تھی۔ زرداری نے کہا: سینیرز کو ہلاک کردیں۔ امریکیو! تمھیں ضمنی نقصان پریشان کرتا ہے، یہ مجھے پریشان نہیں کرتا۔ زرداری نے سی آئی اے کو سبز جھنڈی دکھا دی۔ ہیڈن نے حمایت کی تحسین کی لیکن اسے معلوم تھا کہ القاعدہ کو تباہ کرنے کا مقصد اس سے حاصل نہیں ہوسکے گا۔ (ص ۲۵۸-۲۵۹)۔ (Obama's Wars The Inside Story by Bob Woodwork, Simon and Schuster, 2010, pp. 25-26)
رہا معاملہ ہمارے سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کا، تو کچھ ذکر تو ان کا اُوپر آگیا ہے لیکن پوری بات ذرا زیادہ صاف الفاظ میں اناطول لیون نے اپنی کتاب میں جو حیرت انگیز طور پر پاکستان کے خلاف آنے والی کتابوں کی یلغار میں نسبتاً متوازن اور ہمدردانہ علمی پیش کش ہے اور پاکستان میں طویل قیام کے بعد لکھی گئی ہے، بیان کی ہے اور سنجیدہ غوروفکر کی متقاضی ہے۔ یہ بات لیون نے اپنے گہرے غوروخوض اور تجزیے کے نتیجے میں امریکی اور برطانوی پالیسی سازوں کو مخاطب کرکے کہی ہے۔ کاش! پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت بھی اس کو قابلِ توجہ سمجھے:
اس بات پر باوجود حکومتی تردید کے عام طور پر یقین کیا جا رہا تھا کہ پاکستانی ہائی کمانڈ اور حکومت نے امریکا کو معلومات فراہم کی ہیں تاکہ پاکستانی طالبان لیڈروں پر حملہ کیا جاسکے۔ اس کی تصدیق وکی لیکس نے بھی کی ہے۔ جیساکہ ۲۰۰۸ء میں امریکی حکام کو بتایا کہ مجھے پروا نہیں کتنی مدت تک یہ کام کریں گے۔ ہم قومی اسمبلی میں احتجاج کریں گے اور پھر نظرانداز کردیں گے۔
ڈرون حملے کے مقابلوں میں پاکستان کے جھک جانے سے معاشرے میں فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچا اورعام سپاہی کے اس احساس میں اضافہ ہوا کہ فوج کرایے کے لیے حاضر ہے۔ اس لیے یہ کوئی سوال طلب بات نہیں ہے کہ ان حملوں کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا تک وسعت دینا مقامی لوگوں کو مزید غضب ناک کردے گا۔ پاکستانی طالبان کو نئے علاقوں میں پہنچائے گا، اور پاکستان کا امریکا سے تعاون کو کم کردے گا۔
اس کتاب نے استدلال کیا ہے کہ فاٹا میں امریکی زمینی افواج کی کھلی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے پاکستانی فوج میں کھلی بغاوت کا خدشہ ہے۔ اس سلسلے میں احتیاط کو لازماً ملحوظ رکھا جائے۔ امریکا پر نیا دہشت گردی کا حملہ ہو تو اس مداخلت کو روکنے کے لیے برطانیہ کو واشنگٹن میں جو بھی اثرورسوخ حاصل ہے اسے استعمال کرنا چاہیے۔اس سے دہشت گردی اور برطانیہ میں ثقافتی اور نسلی تعلقات پر ہولناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ افغان طالبان سے پاکستان کے روابط مغرب میں عام طور پر ایک مسئلے کے طور پردیکھے جاتے ہیں لیکن انھیں افغانستان سے نکلنے کے لیے ایک اہم اثاثہ بھی سمجھنا چاہیے۔ (Anatal Lievein Pakistan: A Hard Country, by Anatal Lievein, Allen Lane, London 2011, p. 479)
۲۰۱۲ء میں اہم عالمی تجزیہ کار اس امر پر متفق ہیں کہ ماضی میں ڈرون حملے جن مقامات سے کیے جارہے ہیں ان میں پاکستان میں امریکی ہوائی بیس شامل تھے اور غالباً یہ صرف شمسی ایئربیس ہی نہیں تھا۔ دوسرے مقامات بھی استعمال کیے جارہے ہیں جن کے بارے میں شبہہ ہے کہ وہ اب بھی امریکی افواج کے تصرف میں ہیں۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے جاسوسی کے وسیع جال کے بغیر یہ نہ پہلے ممکن تھا اور نہ اب ممکن ہے۔ اس امر کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کا اس کارروائی میں بڑی حد تک ایک مشترک کردار بھی رہا ہے جس پر پردہ ڈالے رکھا گیا مگر اب یہ سب راز طشت از بام ہوگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو اور پارلیمنٹ کو سیاسی اور عسکری قیادت نے غلط بیانی اور کتمانِ شہادت کا پوری بے دردی سے نشانہ بنایا ہے۔ کیا اب بھی منہ زور گھوڑوں کو لگام دینے کا وقت نہیں آیا؟
اوباما نے پوچھا: تم پاکستان میں کتنا کچھ کر رہے ہو؟ ہیڈن نے بتایا کہ امریکا کے دنیا بھر میں کیے جانے والے حملوں کا ۸۰ فی صد وہاں ہوتے ہیں۔ ہم آسمان کے مالک ہیں۔ ڈرون پاکستان میں خفیہ ٹھکانوں سے اُڑتے ہیں۔ القاعدہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کو تربیت دے ر ہی ہے جن کو اگر تم ڈلس میں ویزہ لینے والوں کی قطار میں دیکھو تو خطرہ نہیں سمجھو گے۔ (Obama's Wars، ص ۵۲)
شمال مغربی سرحدی اضلاع میں ڈرون حملوں کا سب سے زیادہ چونکا دینے والا لیکن کم بتایا جانے والا پہلو یہ ہے کہ یہ پاکستانی فوج اور اس کی طاقت ور خفیہ شاخ آئی ایس آئی کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ یمن میں بھی کچھ سرکاری حمایت ضروری ہوتی ہے لیکن یمنی ریاست کی کمزوری کی وجہ سے پاکستان سے کم۔
مسئلہ یہ ہے کہ ٹھیک نشانے پر حملہ کرنے والے اسلحے کو بھی ہدف کی شناخت کے لیے زمین پر کی جانے والی خفیہ کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں، آئی ایس آئی نجی طور پر یہ بتاتی ہے کہ اس کے ایجنٹ تفصیلات مہیا کرتے ہیں کہ ڈرون کس کا تعاقب کریں۔ دُور بیٹھ کر کمانڈ پوسٹ سے ڈرون کی رہنمائی کرنا، دوسری جنگ ِ عظیم میں نشانہ پر لگنے والی بم باری یا عراق میں ۱۹۹۳ء اور ۲۰۰۳ء میں ٹھیک نشانے پر لگنے والے میزائل حملے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اس بارے میں لمحے لمحے کی خفیہ اطلاع کہ کون کس گھر میں ہے اور جب وہ وہاں ہو، اس کی اطلاع کے لیے مقامی ایجنٹوں کے نیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے جو ان معلومات کو فوراً پہنچا سکے۔
یہ بہت ناپسندیدہ ہوگا کہ آئی ایس آئی، سی آئی اے کو اس طرح کا نیٹ ورک بنانے کی اجازت دے۔ وہ فیصلہ کن اطلاع جس کی وجہ سے امریکا نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو تلاش کیا، خود آئی ایس آئی نے دی تھی۔ بلاشبہہ جو قتل کا ہدف ہو شاید ہی اتنا بے وقوف ہو کہ وہ اپنی پوزیشن موبائل یا سیٹلائٹ فون یا برقی اطلاع کا ذریعہ استعمال کرکے دے۔ لیکن بعض باغی گروپ آج بھی ایسے ہیں جو اپنی پوزیشن آسانی سے بتادیتے ہیں۔ آئی ایس آئی پر اعتبار کی وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستانی فوج کے افسران ہیں نہ کہ صدراوباما یا ان کا سلامتی اور عسکری سٹاف جو درحقیقت فیصلہ کرتے ہیں کہ ڈرون کس قسم کے مشکوک شخص کو ہلاک کرے گا۔ یہ پاکستان کی نائن الیون سے امریکا سے معاملہ کرنے کی کامیاب حکمت عملی ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں بہترین ساتھی بھی ہے اور بدترین دشمن بھی۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۱۰ جون ۲۰۱۲ئ)
مضمون نگار نے صدر اوباما کو ڈرون حملوں کے شدید ردعمل سے بچانے کے لیے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے وہ بجا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور نیویارک ٹائمز کی مفصل رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد تو اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ ڈرون حملوں کاآخری فیصلہ صدراوباما خود کرتے ہیں اور وہ بلاواسطہ اس قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں۔ اس سلسلے میں Counter Punch پر بھی Bill Quigby کا بڑا چشم کشا مضمون Five Reasons Drone Assassination is Illegal (ڈرون قتل غیرقانونی ہونے کی پانچ وجوہات) (دی انڈی پنڈنٹ،۱۶ مئی ۲۰۱۲ئ) بڑا مدلل اور ناقابلِ انکار شواہد کا حامل ہے۔
نیو اسٹیٹس مین کی ۱۳جون کی اشاعت میں کرس ووڈز کا مضمون Drones: Barack Obama's Secret War (ڈرونز: باراک اوباما کی خفیہ جنگ)شائع ہوا ہے جس میں عام شہریوں کی ہلاکت پر بڑے لائق اعتماد اور ہولناک شواہد دیے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں کی ٹھیک ٹھیک نشانہ بازی اور صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے دعوے مضمون نگار کے الفاظ میں جھوٹے (bogus) ہیں، نیز اس کے ساتھ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس سے تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ:
القاعدہ کو اس مہم میں یقینا کافی نقصان پہنچاہے۔ ۴جون کو اس کے ڈپٹی لیڈر یحییٰ اللّیبی کی ہلاکت کے بعد یہ دہشت گرد گروپ نہ ہونے کے برابر ہوگیا ہے، امریکی فضائی حملوں نے اس کو قیادت سے محروم کیا اور اس سے قبل دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ آپریشن کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے برسوں تک اپنی سرزمین پر امریکی حملوں کو خاموشی سے برداشت کیا ہے۔ گذشتہ ۱۸مہینوں میں یہ تعاون آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اب پاکستان ہرحملے کی مذمت کرتا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ اس دوران امریکا اپنے حلیف کو سادگی سے نظرانداز کردیتا ہے۔(Chriswoods Drones: Barack Obama's Secret War.، نیو اسٹیٹس مین، ۱۳ جون ۲۰۱۲ئ)
بات اب نظرانداز کرنے سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اب تو کھیل شراکت داری کا ہے جو نئی آگ بھڑکانے کا نسخہ ہے جس خطرے کی طرف اناطول لیون نے بھی اُوپر واضح اشارہ کیا ہے۔
اس خطرناک کھیل کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس کی طرف ۸جون ۲۰۱۲ء کی ایک on line (۲۸ جون ۲۰۱۲ئ) رپورٹ میں کہا گیا ہے (شائع شدہ دی نیشن، ۱۰جون ۲۰۱۲ئ) ۔ یہ خبر جولائی کے ایم او یو سے تین ہفتے پہلے کی ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جب امریکا سے پاکستان کے تعلق کو ’کُٹّی‘ کا دور کہا جاسکتا ہے لیکن اس دور کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ شمسی ایئربیس سے امریکیوں کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کی سرزمین کے دوسرے مقامات سے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری تھا، اور یہ اس پر مستزاد ہے جس کا دعویٰ اس وقت کے وزیردفاع نے کیا تھا کہ ’’راستہ صرف زمین کا بند ہے، فضائی حدود کی پامالی تو ہماری اجازت سے جاری ہے‘‘۔ اس اطلاع سے مزیدتصدیق ہوئی ہے کہ امریکی بوٹوں کی موجودگی کا معاملہ صرف شمسی ایئربیس تک محدود نہیں تھااور (جون ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کی روشنی میں) ۴جولائی کے رسد کی بحالی کے انتظامات سے پہلے کے دور میں بھی سی آئی اے کے دوسرے اڈے موجود تھے اور ان کو یہ خطرہ بھی تھا کہ ان کے دوسرے غیرعلانیہ یا خفیہ (undeclared) اڈوں سے بھی انخلا کی بات ہوسکتی ہے:
نام نہ بتانے کی شرط پر امریکی اہل کاروں نے خفیہ معلومات کے بارے میں بتایا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان سی آئی اے کو باقی رہنے والا ہوائی اڈا بھی خالی کرنے کا کہے گا جس سے افغانستان کی سرحد پر پاکستان میں پناہ لیے ہوئے عسکریت پسندوں کو وہ اپنا ہدف بناتے ہیں۔ امریکا ۲۰۰۴ء سے اسلام آباد کی انتظامیہ کی خفیہ منظوری سے ڈرون حملے کر رہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور اس کے لیڈر ان حملوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انھیں ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ (دی نیشن، ۱۰ جون ۲۰۱۲ئ)
امریکا کے مؤقر جریدے فارن پالیسی میں پیٹربرگن اور کیتھرین ٹائیڈمین کا مقالہ The Effects of the Drone Programme in Pakistan (پاکستان میں ڈرون پروگرام کے اثرات) شائع ہوا ہے جس میں امریکا کے اس دعوے پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے کہ کیا فی الحقیقت ان ڈرون حملوں سے القاعدہ کی قیادت کا صفایا ہوگیا ہے؟ ان کی تحقیق کی روشنی میں اوسطاً سات میں سے صرف ایک میزائل کسی عسکریت پسند لیڈر کو ہلاک کر پاتا ہے اور یہاں بھی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مارے جاتے ہیں وہ بالعموم بہت معمولی درجے کے عسکریت پسندہوتے ہیں۔
قابلِ ذکر قیادت کے صرف دو فی صد لوگ حملوں کی زد میں آنے کی مصدقہ اطلاعات ہیں، البتہ عام شہریوں کی ہلاکت بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے ۔ گو، تفصیلی معلومات ہر دو کے بارے میں عنقا ہیں، یعنی عسکریت پسند اور عام شہری۔ زیادہ تر اعتماد اندازوں اور سنی سنائی پر ہے۔ البتہ نصف سے زیادہ مقامی آبادی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے جس کے خلاف عوام میں شدید ردعمل ہے۔ ان حقائق کا اعادہ اور اعتراف کرنے کے بعد جو اہم بات اس مقالے سے بھی کھل کر سامنے آئی ہے وہ پاکستانی قیادت کا دوغلا کردار ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
جس آپریشن میں بن لادن کو قتل کیا گیا، پاکستانی اہل کاروں نے شور مچایا کہ ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ پس پردہ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے کبھی کبھار دیے جانے والے احتجاجی بیانات کے ساتھ ڈرون حملوں کی حمایت کی۔ اسلام آباد کے تعاون کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ پروگرام اب بھی جاری ہے۔ اس لیے کہ اس پروگرام میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا تعاون چاہیے، جیساکہ ایک امریکی اہل کار نے تبصرہ کیا کہ تمھیں زمین پر لوگ چاہییں جو تم کو بتائیں کہ ہدف کہاں ہے اور یہ اطلاع فاٹا کے آس پاس بھاگ دوڑ کرنے والا کوئی سفیدفام نہیں دے سکتا۔(پاکستان ٹریبون، ۱۴ جولائی ۲۰۱۲ئ)
۱- امریکا کی عسکری حکمت عملی میں ڈرون حملوں کو اب ایک مرکزی اہمیت حاصل ہے اور وہ اسے اپنے اقتدار اوراثرورسوخ کو مستحکم کرنے کا مؤثر ترین حربہ سمجھتا ہے۔ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے، اور آزاد اور خودمختار مملکتوں کے درمیانی تعلقات کے اصول و ضوابط سے متصادم ہے، نیز جنگ اور دوسرے ممالک میں مداخلت کے متفق علیہ آداب کی بھی ضد ہیں، بلکہ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ خود امریکا کے دستور اور قوانین میں جو اختیارات اور تحدیدات موجود ہیں، ان سے بھی ہولناک حد تک متصادم ہیں۔ اس لیے اب عالمی امن کے علَم بردار اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی ایک تعداد امریکی صدر کو ’قاتل صدر‘ (Killer President) اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے رہی ہے۔
۲- اس نئی جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی میں کمی کی کوئی صورت رُونما نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں اب وہ دنیا کے طول و عرض میں پھیل رہی ہے۔ نیز ان حملوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں معصوم شہری بشمول خواتین اور بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں، اس سے امریکا کے خلاف نفرت کے طوفان میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر امریکی قیادت اس سب سے بے نیاز ہوکر بدستور اپنے ایجنڈے پر عمل پیراہے۔
۳- اس مکروہ عمل میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت برابر کی شریک رہی ہے جو خود اپنے عوام اور اپنی پارلیمنٹ کو دھوکا دیتی رہی ہے، غلط بیانیوں کا کاروبار کرتی رہی ہے، اور اب اگر ڈھکے چھپے تعاون اور شراکت داری کا اعتراف کرنا پڑ رہا ہے تب بھی کہہ مکرنیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ عالمی میڈیا اور خود امریکا کے سرکاری اور نیم سرکاری بیانات نے ان کو مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے۔پاکستانی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ان کا بے لاگ احتساب ہو اور اس گندے کھیل کو جتنی جلد ختم کیا جاسکتا ہو اس کا اہتمام کیا جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان کا دستور اور قانون سیاسی اورعسکری قیادت کو ملک کے مفادات کی حفاظت، اس کی آزادی اور سلامتی کو اوّلین ترجیح دینے اور دستور اور قانون کی مکمل اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ ان سب نے اپنے اپنے مناصب کی مناسبت سے دستور سے وفاداری اور اس کی مکمل پاس داری کا حلف لیا ہوا ہے۔ دستور کی دفعہ۴ ہر شہری کو مکمل قانونی تحفظ کی ضمانت دیتی ہے تو دفعہ۵ کی رُو سے ’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری کی واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔اور دفعہ ۲۴۵ کی رُو سے افواجِ پاکستان کی اولیں ذمہ داری پاکستان کا دفاع ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت یہ حلف لیتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک ’’خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار ہوگا‘‘ اور ’’پاکستان کے دستور کے اور قانون کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری، سالمیت، استحکام، یک جہتی اور خوش حالی‘‘ کے لیے خدمات انجام دے گا۔
اس عہد اور دستور کے ان واضح مطالبات کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت کا جو کردار امریکا کی اس ناجائز اور ظالمانہ جنگ میں رہا ہے وہ دستور کو مسخ (subvert) کرنے کے ذیل میں آتا ہے اور دفعہ۶ کے تحت احتساب اور کارروائی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا قوم، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں دستور کے ان تقاضوں کوپورا کرانے کی ہمت ہے؟ بلاشبہہ اس ظلم و ستم کی اولیں ذمہ داری امریکا اور اس کی خارجہ سیاست پر ہے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ان ممالک کے حکمران اور ذمہ دار جہاں امریکا کا یہ خونیں کھیل کھیل رہے ہیں وہاں اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں ،بلکہ شاید ان کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی ہے کہ ان حالات میں ان کا فرض تھا کہ سامراجی قوتوں کے آگے سینہ سپر ہوجاتے، نہ کہ ان کے معاون اور مددگار کا کردار ادا کریں۔
موجودہ قیادت اور پوری انتظامیہ (establishment) قوم کی مجرم ہے اور احتساب کا عمل جتنا جلد شروع ہو وہ وقت کی ضرورت ہے، ورنہ اس نئے ایم او یو (Mou )کے بعد تو نظر آرہا ہے کہ ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے اور ان میں اضافے کے دبائو اور معاشی اور فوجی امداد کی ترغیب و ترہیب (carrot and stick) کے ماہرانہ استعمال سے فوج کو شمالی وزیرستان کے جہنم میں بھی دھکیل دیا جائے گا اور امن اور علاقے کی سلامتی کے اصل اہداف کو پسِ پشت ڈال کر اس آگ کو مزید پھیلایا جائے گا۔ کیا کوئی یہ تضاد نہیں دیکھ سکتا کہ ایک طرف طالبان سے مذاکرات اور فوجی انخلا کی بات ہوتی ہے اور دوسری طرف جنگ کو وسعت دینے اور جو حکومت اور جس ملک کی فوجی قیادت مذاکرات کے راستے کسی مثبت تبدیلی کے امکانات روشن کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے، اسے دشمن بنا کر اس کردار ہی سے محروم نہیں کیا جارہا بلکہ اس کے افغان قوم کے درمیان نہ ختم ہونے والی دشمنی اور تصادم کا نقشہ استوار کیا جارہا ہے۔
۱- امریکا کی اس جنگ میںکسی نوعیت کی بھی شرکت پاکستان اور علاقے کے مفاد کے خلاف ہے اور ہمارے لیے واحد راستہ اس سے نکلنے اور خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کرنے کا ہے___ اس دلدل میں مزید دھنسنا صرف اور صرف تباہی کا راستہ ہے۔
۲- امریکا اور ناٹو کے لیے بھی صحیح راہِ عمل مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہے۔ جنگی حل ناکام رہا ہے اور اس کی کامیابی کے دُور دُور بھی امکانات نظر نہیں آرہے۔ اپنے وسائل اور افواج کو دوسرے ممالک اور ان کے فوجی یا سیاسی عناصر کو اس جنگ کو تیز تر کرنے کی پالیسی سب کے لیے خطرناک ہے اور ضرورت اسے بدلنے کی ہے۔ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے دوسروں کو آگ میں دھکیلنے سے بڑی حماقت نہیں ہوسکتی۔
۳- بیرونی دبائو کی جو شکل بھی ہو، پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے مفادات، علاقے کے مفادات اور سب سے بڑھ کر اپنی حاکمیت، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اس جنگ سے نکلے اور اپنا الگ راستہ بنائے، افغان عوام سے اپنے تاریخی رشتے کو خلوص کے ساتھ بحال کرے، تعلقات میں جو بگاڑ اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے آچکا ہے، اس کی اصلاح کرے اور ملک کی اپنی معیشت جس طرح تباہ ہوئی ہے، اسے ازسرِنو بحال کرنے پر توجہ صرف کرے۔ نیز علاقے کی دوسری تمام قوتوں خصوصیت سے چین، ایران، وسط ایشیائی ممالک اور عرب دنیا سے مل کر علاقے میں امن کی بحالی اور اسے بیرونی مداخلت سے پاک کرنے میں ایک مثبت اور فعال کردار ادا کرے۔
یہ سب ایک بنیادی تبدیلی (paradigm shift) کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عوام کو تمام حقائق سے پوری طرح باخبر کیا جائے۔ تمام محب وطن قوتیں مل کر حالات کامقابلے کا نقشۂ کار تیار کریں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ عوام کو متحرک کیا جائے اور ان کی تائید سے ایک نئے مینڈیٹ کی بنیاد پر نئی قیادت ملک کی باگ ڈور سنبھالے اور موجودہ خلفشار اور تباہ کن صورت حال سے ملک کو نکالے۔ ملک کی محب وطن سیاسی اور دینی قوتوں نے دفاعِ پاکستان کونسل کے پرچم تلے جو اہم خدمات انجام دی ہیں، اب ان کو مربوط کرنے اور ملک کو نئی سمت دینے کے لیے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اس حکمت عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی دور کے ابتدائی پُرآشوب زمانے میں اختیار فرمائی اور جس کے نمایاں پہلوئوں کو سورئہ انفال میں اُمت کی ابدی ہدایت کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔ ہم قوم اور ملک کی قیادت کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ غلامانہ ذہن سے نکل کر قرآن اور سیرت نبویؐ کی روشنی میں اپنے حالات کے بے لاگ جائزے اور ان حالات کے لیے قرآن کریم کے راہ نما اصولوں کے مطابق اپنی منزل اور اہداف کا تعین کرے اور ان کو حاصل کرنے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی تیار کرے۔ اس لیے کہ یہ اُمت اپنے بعد کے اَدوار میں بھی اسی راستے کو اختیار کر کے ترقی کرسکتی ہے جو اس نے اولیں دور میں اختیار کیے تھے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ آج سورئہ انفال میں بیان کردہ ان رہنما اصولوں کے سوا ہمارے لیے نجات کا کوئی دوسرا راستہ نہیں:
اَلَّذِیْنَ عٰھَدْتَّ مِنْھُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَھُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّ ھُمْ لَا یَتَّقُوْنَo فَاِمَّا تَثْقَفَنَّھُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْبِھِمْ مَّنْ خَلْفَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَo وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ م اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآئٍ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ o وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْا ط اِنَّھُمْ لَا یُعْجِزُوْنَo وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ o وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo وَ اِنْ یُّرِیْدُوْٓا اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ط ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَo (الانفال ۸:۵۶-۶۲) پس اگر یہ لوگ تمھیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لوکہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں اُن کے حواس باختہ ہوجائیں۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ منکرین حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے ، یقینا وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔
اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعدا کو خوف زدہ کردو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹا دیا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔
اور اے نبیؐ! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجائو اور اللہ پر بھروسا کرو، یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔
آیئے! اپنے حالات پر ان آیات کی روشنی میں غور کریں، اللہ سے مدد و استعانت اور رہنمائی طلب کریں اور اس ملک کی شکل میں جو امانت ہمارے سپرد کی گئی ہے اس کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ زندگی اور عزت کا یہی راستہ ہے اور جس قوم نے بھی یہ راستہ خلوص، دیانت اور بھرپور تیاری سے اختیار کیا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوئی:
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت ۲۹:۶۹)، جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔