ستمبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| ستمبر ۲۰۱۲ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

عبدالرشید عراقی ، سوہدرہ

’برما کے مظلوم مسلمان‘ (اگست ۲۰۱۲ئ) پڑھ کر دلی صدمہ ہوا اور مظالم کی تفصیل جان کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میانمار میں مسجدوں کو نذرِ آتش کرنا، کتب خانوں کو جلانا، اور خاص کر قرآن پاک کا جلانا اور عورتوں کی بے حُرمتی کرنا برمی حکومت اور بدھ مذہب کے پیروکاروں کی انتہائی ناپاک جسارت ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا غیرمسلم حکومتوں کا ایک شرم ناک فعل ہے۔ مغربی میڈیا کا خاموش رہنا فطری امر ہے، تاہم  اسلامی میڈیا نے بھی اس سلسلے میں بھرپور آواز نہیں اُٹھائی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلم ممالک کامل یک جہتی سے بھرپور انداز میں اس کے خلاف آواز بلند کریں۔مغربی میڈیا امن کا زیادہ پرستار بنتا ہے، اس کو کھوکھلے نعرے نہیں لگانے چاہییں بلکہ عملی قدم اُٹھانا چاہیے۔


بیگم طاہرہ عقیل ، اسلام آباد

’مصر: اخوان ایوانِ صدارت میں‘ (جولائی ۲۰۱۲ئ) جہاں اخوان کی سیاسی پیش رفت، بیرونی چیلنج اور کامیابیوں کا احاطہ کرتا ہے، وہاں پالیسی امور پر اندرونی کش مکش اور غلطیوں سے صرفِ نظر بھی کرتا ہے۔ ترجمان جیسے مؤقر جریدے میں ایسے مضمون کا مقصد اخوان کی حکمت عملی اور کامیابیوں کو اُجاگر اور غلطیوں کی نشان دہی کرنا ہونا چاہیے، جس سے ہمارے اپنے ملک کی اسلامی تحریک اور دینی قوتوں کو رہنمائی مل سکے۔

اخوان نے اپنے صدارتی اُمیدوار نہ لانے اور کسی مناسب اُمیدوار کی حمایت کرنے کا فیصلہ     جن حالات میں اور جن وجوہ کی بنا پر بھی کیا، ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح کے صدارتی امیدوار ہونے کے اعلان سے سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ ڈاکٹر ابوالفتوح اخوان کے مقبول اور محترم مرکزی رہنما رہے تھے اور انھوں نے کئی عشروں تک عالمی پالیسی اداروں میں اخوان کا نقطۂ نظر پیش کیا تھا۔ اخوان کو ان سے بہتر اُمیدوار نہیں مل سکتا تھا، لیکن ڈاکٹر محمدمرسی کو صدارتی اُمیدوار نامزد کیا گیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ ابوالفتوح اُمیدوار ہوتے تو اخوان انتخابات بھاری اکثریت سے جیت جاتے اور دوسرے رائونڈ کی نوبت ہی نہ آتی (کیونکہ ابوالفتوح کو    اخوان کے علاوہ سلفی جماعت النور، لبرل عناصر اور نوجوانوں سب ہی کی حمایت حاصل تھی)۔ اب صورت حال یہ رہی کہ ڈاکٹر مرسی پہلے رائونڈ میں اوّل تو آئے مگر صرف ایک فی صد ووٹ کے فرق سے ۔ دوسرے رائونڈ کا نتیجہ بھی منقسم انتخابی نتیجہ (split mandate) تھا جس کی وجہ سے عسکری و سیاسی بزرجمہروں کو اپنے مقاصد کے لیے کھل کھیلنے، اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے اور اخوان سے سودے بازی کی ہمت ہوئی۔


محمد اصغر ، پشاور

’اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا پہلا قدم___ بیع سلم‘ (جون ۲۰۱۲ئ) میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے قانون (۲۰۰۷ئ) کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسی قانون کو صوبہ سرحد میں بھی نافذ کیا گیا تھا اور اے این پی کی موجودہ حکومت نے اسے غیرمؤثر کردیا ہے۔ (ص ۵۴)

ریکارڈ کی درستی کے لیے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راقم اُس ٹیم کا حصہ تھا جس نے پروفیسر خورشید احمد کی قیادت میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران معیشت سے سود کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے مذکورہ بالا قانون کو اختیار /نافذ (adopt) نہیں کیا تھا بلکہ ایک الگ اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت بنک آف خیبر ایکٹ کا ترمیمی بل ۲۰۰۴ء صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کر بنک آف خیبر کی تمام سودی شاخوںکو اسلامی بنکاری کی برانچوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس ایکٹ کا پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ ایکٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم صوبائی معیشت کو اسلامیانے کے لیے ایک الگ کمیشن جسٹس  فدا محمد خان ، جج شریعہ کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا جس کا راقم بھی رُکن تھا۔ اِس کمیشن نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹ مرتب کی کہ کس طرح صوبائی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ بیوروکریٹک کوتاہیوں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی عدم دل چسپی کے باعث کمیشن کی سفارشات حتمی شکل اختیار نہ کرسکیں۔

واضح رہے کہ اے این پی کی حکومت نے مکمل طور پر بنک آف خیبر کو دوبارہ سودی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بنک کی پرانی سودی برانچوں کو اسلامی برانچیں بننے سے روکنے کے لیے بنک آف خیبرایکٹ میں دوبارہ ترمیم کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ لیکن اس کے باجود وہ بنک آف خیبر میں اسلامی برانچوں کو غیرمؤثر کرنے یا نقصان پہنچانے میں (کوشش کے باوجود) کامیاب نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایم ایم اے دور کا کام محفوظ اور intact ہے اور ان شاء اللہ جب دوبارہ ہمیں اقتدار ملے گا تو اسلامی بنکاری اور اسلامی معیشت کے کام کا آغاز وہیں سے ہوگا جہاں اِسے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے پھیلنے سے روکا ہے۔


تنویر قمر دانش ، کراچی

ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحریر ’فروعی مسائل اور علما کی ذمہ داری‘ (مئی۲۰۱۲ئ) میں اختلافی مسائل کا حل عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت چند سطحی فقہی اختلافات میں اُلجھ کر رہ گئی ہے۔ نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں، شلوار ٹخنے سے اُوپر ہو، آمین بلند ہو یا آہستہ، داڑھی کی مقدار اور لمبائی کتنی ہو؟ ان سے بڑھ کر دوسرے اہم مسائل کہ دیانت دار اور ایمان دار لیڈرشپ کیسے آئے، نااہل لوگوں سے چھٹکارا کیسے پائیں، قرآن و سنت کی تفہیم اور پوری زندگی کو اسلامی نظام کے تابع کرنا، اسلام کا غلبہ، جہاد اور کافروں کی سازشوں کا جواب___ ملک و ملّت کے ان ناگزیر تقاضوں کی طرف ہماری توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔


آئی اے فاروق، لاہور

’آیاتِ سجدہ‘ (اگست ۲۰۱۲ئ) کے مطالعے سے ان آیات کا پس منظر اور اہمیت اُجاگر ہوئی۔ سجدہ سے متعلق مسائل سے بھی آگاہی ہوئی بالخصوص مولانا مودودی کی راے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں، جس حال میں ہو، جھک جائے سے روایتی نقطۂ نظر سے ہٹ کر پہلو سامنے آیا۔ ’کلامِ نبویؐ کی کرنیں‘ میں مولانا عبدالمالک نے عمدہ انتخاب احادیث کیا۔تذکیر کے ساتھ ساتھ دین کے عملی تقاضوں کی طرف رہنمائی بھی دی۔


دانش یار ، لاہور

علامہ محمد اسد کے مضمون ’ہم پاکستان کیوں بناناچاہتے ہیں؟‘ (اگست ۲۰۱۲ئ) کی اشاعت سے آپ نے ایک ایسے نومسلم مجاہد اسلام کی یاد تازہ کی کہ جس نے اپنے عالمِ شباب کے اوائل میں دین حق قبول کر کے عالمِ کفر میں مقیم رہنے کو ہجرت پر ترجیح دی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے ۱۹۳۶ء میں چودھری نیاز علی صاحب کے نام اپنے ایک خط میں یہ تاریخی جملہ لکھا تھا: ’’میرا خیال ہے کہ دورِ جدید میں اسلام کو جتنے     غنائم یورپ سے ملے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے‘‘۔ ( محمد اسد: ایک یورپین بدوی، ڈاکٹر محمد اکرام چغتائی)

پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے ماہ نامہ ترجمان القرآن اگست ۲۰۰۶ء میں اسی عنوان سے ایک مقالہ لکھا تھا۔ جناب صادق قریشی ’سیلانی کی ڈائری‘ کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت میں لکھا کرتے تھے۔ محمد اسد نے ۲۳ستمبر ۱۹۸۲ء کو ایک خط موصوف کو لکھا کیونکہ ایک وقت تھا جب ۱۹۵۲ء میں محمداسد کے بارے میں ترکِ اسلام کی تہمت کو اُچھالا گیاتھا: ’’میں اس وقت نیویارک میںبیٹھا اپنی کتاب روڈ ٹو مکہ   لکھ رہا تھا اور اتنی دُور سے اپنے خلاف کسی الزام کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ میرے حامیوں میں سرفہرست سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے جنھوں نے میری اور میری شہرت کو ان الزامات سے بچانے میں بہت مثبت کردار ادا کیا۔ میں نہ کبھی جماعت اسلامی سے وابستہ رہا ہوں اور نہ کبھی حضرت مولانا کو میرے تمام خیالات سے اتفاق ہوا تھا۔ ان فکری اختلافات سے قطع نظر مجھے بصد مسرت اعتراف ہے کہ وہ ایک نہایت قابلِ احترام اور بے حد انصاف پسند شخصیت کے مالک ہیں‘‘۔ (محمد اسد- بندہ صحرائی، محمد اکرام چغتائی)

عالمی ترجمان القرآن کے باذوق قارئین کے لیے محمد اسد کو جاننے کے لیے ڈاکٹر محمد اکرام چغتائی کی تالیف: Muhammad Asad - Europe's Grift to Islam جو دو جلدوں میں شائع ہوچکی ہے، کا مطالعہ دل و دماغ کی مسرت کا باعث ہوگا۔ میرے جو احباب آج تک روڈ ٹو مکہ نہیں  پڑھ سکے وہ ایک لطیف حسرت لے کر دنیا سے رخصت نہ ہوجائیں۔