علامہ محمد اسد نے قیام پاکستان سے چار ماہ قبل اپنے رسالے Arafatمیںمئی ۱۹۴۷ء میںایک فکرانگیز مقالہ لکھا تھا ۔ اس مقالے میں اس وقت قیامِ پاکستان کے لیے جو جدوجہد ہورہی تھی، اس پرکچھ اہم سوالات اٹھائے گئے تھے۔ آج ہمارے ملک میں قیام پاکستان پھر موضوع بحث بناہواہے، اورہرطرح کی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اِس پس منظر میںاُس وقت کی اِس تحریر کا مطالعہ چشم کشا ہے۔علامہ محمد اسد ان چند نو مسلموںمیں سے ہیںجنھوںنے اسلام کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ گہرائی میں جاکر اس کا مطالعہ کیا اورپھر اس کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی ان تھک کوششیں کی۔ تحریک پاکستان میں انھوںنے دل و جان سے شرکت کی۔تحریک کی قیادت سے ان کاقریبی ذاتی تعلق تھا۔ انھوں نے پاکستان کی تحریک کواس کے صحیح پس منظر میں سمجھا اوراپنے قلم سے اس کی گراں قدر خدمت کی۔ ان کی یہ تحریر ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے کہ تحریک کے عروج کے وقت انھوں نے اس تحریک کے اصل ہدف اورملت اسلامیہ ہند کے مقصد، عزائم اوراحساسات کی بھرپورترجمانی کی ہے۔
قائد اعظم، لیاقت علی خان اورنواب ممدوٹ نے ان کو پاکستان کے اسلامی دستورکا خاکہ مرتب کرنے کا کام سونپا، جسے انھوں نے ایک گراں قدر مقالے کی شکل میں تیار کیا جو پاکستان بننے کے بعد Arafat کے پہلے اور آخری شمارے میں شائع ہوا اورآج بھی کتابی شکل میں موجود ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کو اقوام متحدہ میںپاکستان کانمایندہ مقرر کیا لیکن پھر حالات نے ایک دوسرا رخ اختیار کرنا شروع کردیااورزمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں آگئی جو نہ شریک سفر تھے اورنہ تحریک پاکستان کے اصل پیغام کے امین۔ جہاں ان ۶۵برسوں میں پاکستان کی نظریاتی شناخت کو پراگندہ کرنے کی کوششیں زور و شور سے ہوررہی ہیں، وہیں پاکستان کی اصل اساس اس کی حفاظت اوراس کو اس کی اصل منزل کی طرف گامزن کرنے کی جدوجہد بھی روزافزوں ہے۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری اور ۱۹۵۶ء کا دستور ہو یا۱۹۶۲ء یا ۱۹۷۳ء کا، پاکستان کی اسلامی شناخت ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اصل مقاصد کی بار بار یاددہانی ہو، نئی نسلوں کو اس تاریخی جدوجہد اوراس کے اصل اہداف سے روشناس کیا جائے۔ مسجداور تعلیمی اداروں سے لے کر میڈیا اورپارلیمنٹ تک سب نہ صرف اس تاریخی سفر کو پوری دیانت سے پیش کریں بلکہ اس کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی اورجہادی ریاست بنانے کے لیے سرگرم ہوں۔ ہمیں توقع ہے کہ تعلیم،تذکیر اورتبدیلی کے لیے تیاری اورجدوجہد کے اس عمل میں علامہ محمد اسد کے اس مقالے کی اشاعت ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرلے گی۔ اس جذبے، خواہش اوردعاکے ساتھ ہم اس تحریر کو پرانی اورنئی دونوں نسلوں کو رمضان کے تحفے کے طور پر پیش کررہے ہیں۔٭ مدیر
تین چار ماہ پہلے کی بات ہے، میں نے عرفات کے شمارہ فروری میں ایک سوال اُٹھایا تھا: ’’کیا واقعی ہم اسلام چاہتے ہیں؟‘‘۔ یہ کوئی خطیبانہ سوال نہیں تھا کہ قارئین کی دینی اصلاح کے لیے ذہن میں آیا ہو۔ فی الحقیقت یہ ایسا سوال تھا جو ہمیں اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیے۔ یہ کہ ’’کیا واقعی ہم اسلام چاہتے ہیں؟‘‘ وقت آگیا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپنے حال اور مستقبل کے حوالے سے اس سوال کے تمام نتائج و عواقب کا پورا پورا تجزیہ کرنا ہوگا اور اپنے اندر اخلاقی جرأت پیدا کرنی ہوگی کہ اس سوال کے جواب میں ایمان داری سے ’ہاں‘ یا ایمان داری سے ’نہ‘کہہ سکیں۔ فی زمانہ، جیسے حالات ہمارے مشاہدے میں آرہے ہیں، ان کی کیفیت یہ ہے کہ بے شمار مسلمان زبان سے تو کہتے ہیں ’ہاں‘ اور عمل سے کہتے ہیں ’نہ‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کی باتیں تو بہت کرتے ہیں اور بلندبانگ ادعا کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلام بہترین ضابطۂ حیات ہے، اسلام واحد ضابطۂ حیات ہے جو انسانیت کو تباہی کے راستے سے بچا سکتا ہے، اس لیے اسلام واحد منزلِ مقصود ہے جس کے نفاذ کے لیے کوشش کی جانی چاہیے۔ یہ لوگ کہتے تو یہی ہیں، لیکن اپنے اعمال اور سماجی رویوں سے وہ اسلام سے زیادہ سے زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں۔ ہماری جدید تاریخ میں اسلام کے بارے میں اتنی باتیں کبھی نہیں ہوئی تھیں، جتنی آج کے ہندستان میں ہورہی ہیں۔ ہر طرف اسلام، اسلام کا غلغلہ ہے اور اس کا برعکس بھی درست ہے کہ اسلام کی سچی روح کے مطابق عملاً اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کی طرف اتنی بے توجہی کبھی نہیں برتی گئی، جتنی آج کے ہندستان میں برتی جارہی ہے۔
اس مقام پر شاید میرے اس دعوے کے خلاف آپ کے دل میں شکایت یا احتجاج پیدا ہو اور آپ اس زبردست جوش و خروش کی طرف توجہ دلائیں جو نظریۂ پاکستان نے مسلمانانِ ہند میں برپا کررکھا ہے۔ آپ کہیں گے اور ایسا کہنے میں آپ حق بجانب ہوں گے کہ مسلمانانِ ہند بالآخر اپنی طویل گراں خوبی سے بیدار ہوگئے ہیں، انھوں نے ایک عظیم مقصد کے لیے اتنا زبردست اتفاق و اتحاد حاصل کرلیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ یہ کہ مسلمان ہونے کی بنا پر انھوں نے اپنا جداگانہ ثقافتی تشخص قائم کرنے کا شعور حاصل کرلیا ہے۔ یہ کہ تحریکِ پاکستان کا پہلا نعرہ ہی ’لااِلٰہ الا اللہ‘ مقرر ہوا ہے۔ یہ کہ انھوں نے ایسی سیاست حاکمہ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس میں مسلم تصورِ کائنات، مسلم اخلاقیات اور مسلم معاشرتی افکار مکمل اظہار کی راہ پاسکیں۔ اور شاید آپ کسی قدر رنجیدگی سے مجھ سے دریافت کریں گے کہ کیا میں ان سب باتوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے بے وقعت اور غیراہم خیال کرتا ہوں؟
بات یہ ہے کہ میں ہرگز ہرگز ان کو بے وقعت اور غیراہم خیال نہیں کرتا۔ میری نظر میں یہ بہت وقیع اور اہم ہیں۔ میرا عقیدہ ہے (اور گذشتہ چودہ سال سے مَیں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں، ماسوا اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کر قائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے تو پورے عالمِ اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی، اسلامی ہیئت حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا۔ کیا تحریکِ پاکستان کے تمام قائدین اور اہلِ دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعوئوں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اوّلین محرک ہے؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں؟ پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے، یا مختلف و متفرق ہے؟
یہ سوالات معمولی نہیں ہیں۔ یہ بڑے سوال ہیں، اتنے بڑے کہ ہمارے موجودہ مصائب سے بھی بڑے ہیں، اور اُن انفرادی تکالیف سے بھی بڑھ کر ہیں جو اس ملک میں ہزاروں مسلمان مرد وزن سردست برداشت کر رہے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب ہی سے فیصلہ ہوگا اس امر کا کہ یہ تکالیف اور قربانیاں مستقبل کے ایک نئے تناظر ،یعنی اسلام کے مکمل اثبات و نفاذ کی نوید لائیں گی یا ایک قومی مسلم ریاست کی تشکیل کے ذریعے مسلمانانِ ہند کی محض اقتصادی صورت حال کی اصلاح و ترقی کی ضامن ہوں گی۔
یہاں میں جریدہ عرفات کے شمارہ فروری ۱۹۴۷ء میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرنے کی جسارت چاہتا ہوں۔ میں نے لکھا تھا: ’’تحریکِ پاکستان ایک نئے اسلامی نظام کا نقطۂ آغاز بن سکتی ہے، بشرطیکہ ہم مسلمان محسوس کریں اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی برابر محسوس کرتے رہیں کہ اس تحریک کی حقیقی اور تاریخی وجۂ جواز یہ نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے دوسرے باشندوں سے مختلف لباس پہنتے، مختلف زبان بولتے یا مختلف انداز میں علیک سلیک کرتے ہیں، یا یہ کہ ہمیں دوسری قوموں سے کچھ شکایات ہیں، یا یہ کہ ہمیں زیادہ معاشی مواقع کی خواہش ہے یا یہ کہ ان لوگوں کے لیے جو خود کو محض عادت کے طور پر ’مسلمان‘ کہلواتے ہیں، زیادہ کشادہ جگہ کی طلب ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مطالبۂ پاکستان کا اگر کوئی جواز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ایک سچی اسلامی مملکت قائم کی جائے، دوسرے لفظوں میں یہ کہ عملی زندگی میں اسلامی احکام و شعائر رائج کیے جائیں‘‘۔
’’پاکستان کے بارے میں میرا تصور یہی ہے ، اور میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں کا بھی یہی تصور ہے۔ میں نے ’بہت سے‘ کہا ہے، ’سب‘ نہیں کہا، اور نہ ’بیش تر‘ کہا۔ اس احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر و بیش تر تعلیم یافتہ طبقے کا تصور پاکستان یہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا مطلب فقط یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کو ہندو غلبے سے نجات دلائی جائے اور ایک ایسی ہیئت حاکمہ قائم کی جائے جہاں مسلمانوں کو اقتصادی مفہوم میں اپنی ایک خودمختار جگہ مل جائے۔ ان کے نزدیک اسلام کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ متعلقہ لوگوں کا مذہب اتفاق سے اسلام ہے، جیسے کہ آئرلینڈ کی جدوجہد آزادی میں کیتھولکیت کو بھی اس لیے کچھ اہمیت حاصل ہوگئی تھی کہ آئرلینڈ کے بیش تر باشندوں کا یہی مذہبی تھا، اور جس طرح کہ آئرستانی قومیت کی تحریک میں کیتھولکیت کو محض ایک اضافی، جذباتی عنصر کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، اسی طرح خدشہ ہے کہ تحریکِ پاکستان میں اسلام کے نام پر نعرے بازی بھی کہیں قومی خوداختیاری کی جدوجہد میں محض ایک اضافی، جذباتی عنصر بن کر نہ رہ جائے‘‘۔
میں صاف صاف اور واشگاف لفظوں میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے بہت سے بھائی اور بہنیں پاکستان کے روحانی و اسلامی مقاصد پر یقین تو کیا رکھیں گے ، وہ ان کی مطلق پروا بھی نہیں کرتے، اوروہ ایسے جذبات کے بہائو میں بہے چلے جارہے ہیں جو قوم پرستی کے جذبات سے ملتے جلتے ہیں۔ اور یہ بات خاص طور پر اُن مسلمانوں پر لاگو ہوتی ہے جنھوں نے مغربی خطوط پر تعلیم پائی ہے۔ دین اسلام سے اُن کی بے اعتنائی گذشتہ چند عشروں میں پختہ ہوئی ہے۔ شرعی احکام کی پابندی ایسے لوگوں کے لیے خاصی پریشان کن اور تکلیف دہ بن گئی ہے۔ مغربی طرزِفکر کے سوا کسی اور انداز میں سوچنے سمجھنے کی قابلیت ان میں مفقود ہوچکی ہے۔ چنانچہ ان کے قلوب میں یہ عقیدہ پیدا ہی نہیں ہوتا کہ دنیا کے معاشرتی اور سیاسی مسائل خالص مذہبی اصولوں کے تحت حل پذیر ہوسکتے ہیں۔ اسلام کا نام ان کی زبان پر آتا ہے تو محض رسماً آتا ہے، کسی اصول و نظریے کے تابع ہوکر نہیں آتا۔ انھیں اسلام سے کوئی دل چسپی ہوتی ہے، تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ اپنی قوم کی روایات میں ثقافتی اقدار کا بھرم رکھا جائے۔ اس قسم کی ذہنیت والے لوگوں کے لیے پاکستان کا مطالبہ ویسا ہی قومی مطالبہ ہے، جیسے مصر مصریوں کے لیے، چیکوسلواکیہ چیک لوگوں کے لیے، یعنی لوگوں کے ایک گروہ کی جانب سے، چند مخصوص اقتصادی مفادات اور چند مشترکہ ثقافتی خصائص (اور مسلمانانِ ہند کی صورت میں اسلام سے وابستہ ثقافتی خصائص) کی اساس پر خوداختیاری کا مطالبہ۔ نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔
یقینا آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ یہ پاکستان کا بہت کمزور تصور ہے۔ یہ تصور اس اسلامی جوش و خروش سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا، جس کا مظاہرہ ہمارے عوام کی بہت بڑی اکثریت بڑے واضح، لیکن بڑے بے ہنگم طریقے سے کر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اکثر نام نہاد اربابِ دانش اسلام سے صرف اس حد تک غرض رکھتے ہیں، جس حد تک کہ وہ ان کی سیاسی خوداختیاری کی جدوجہد کے لیے مفیدمطلب ہوسکتا ہے، جب کہ ہمارے عوام خوداختیاری کا مطالبہ صرف احیاے اسلام کی آرزو کے تحت کررہے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کی آرزوئیں واضح نہیں ہیں اوروہ نہیں جانتے کہ انھیں حاصل کیوں کر کیا جاتا ہے، اس لیے وہ قدرتاً اہلِ قیادت پر بھروسا کرتے ہیں۔ پس قیادت کے روحانی اوصاف ہی سے بالآخر یہ طے ہوگا کہ پاکستان کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد کی روحانی کیفیت کیا ہوگی، اور پاکستان اپنے قیام کے بعد کیسا رنگ روپ اختیار کرے گا؟
جہاں تک مسلمانانِ ہند کا تعلق ہے، تحریکِ پاکستان کی جڑیں ان کے اس جبلی احساس میں پیوست ہیں کہ وہ ایک ’نظریاتی قوم‘ ہیں، اور اسی لیے وہ خودمختار، جداگانہ سیاسی وجود کے حق دار ہیں۔ بالفاظِ دیگر وہ محسوس کرتے اور جانتے ہیں کہ ان کا جداگانہ تشخص، دوسری اقوام کی طرح، مشترکہ نسلی مشابہتوں اور قرابتوں یا مشترکہ ثقافتی اقدار و روایات کے شعور کی بنیاد پر قرار نہیں پاتا، بلکہ اسلامی نظریہ و اعتقاد سے مشترکہ وابستگی کی اساس پر قرار پاتا ہے۔ پس ان پر لازم آجاتا ہے کہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کے جواز کی خاطر ایسا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کریں جس میں اسلامی نظریہ و اعتقاد (یعنی شریعت) ان کی قومیت کے ہرپہلو اور ہرمظہر میں سب کو دکھائی دے۔
یہ ہے تحریکِ پاکستان کا حقیقی و تاریخی نصب العین۔ یہ ہرگز ہندستان میں مسلم اقلیت کے اجتماعی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ غیرمسلم اقلیتیں رہیں گی، جس طرح کہ ہندستان میں مسلم اقلیتیں رہیں گی، اس لیے اقلیتوں کے مسئلے کے سراسر حل کی ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں ہوتی۔ یہی ہے وہ نکتہ جس پر ہمیں اور ہمارے نکتہ چینوں کو ذرا رُک کر غوروفکر کرلینا چاہیے۔ اقلیتوں کا مسئلہ بے شک ہرلحاظ سے ہندستان کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے، لیکن یہ مسئلہ بنیادی طور پر تحریکِ پاکستان کا ذمہ دار نہیں ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اقلیتوں کا مسئلہ تحریکِ پاکستان کے اصلی نصب العین کا ایک اتفاقی لازمہ ہے۔ تحریکِ پاکستان کا اصلی نصب العین کیا ہے؟ ایک اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام، جس میں ہمارا نظریہ حقیقت کا رنگ روپ اختیار کرسکے۔ صرف اسی نصب العین کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ممبئی یا مدراس کے مسلمان، جن کو خوب معلوم ہے کہ ان کے صوبے پاکستان کا حصہ نہیں بنیں گے، حصولِ پاکستان کے اتنے ہی متمنی ہیں جتنے پنجاب یا بنگال کے مسلمان۔ ممبئی اور مدراس کے مسلمان یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے صوبے جغرافیائی و علاقائی اعتبار سے پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے، اگر ’مسلم اکثریت‘ کے صوبوں کے بھائیوں کی مانند پوری شدت و توانائی سے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ اس دعوے کا ٹھوس ثبوت ہوگا کہ اسلام ایک عملی مذہب اور مکمل ضابطۂ حیات ہے، اور یہ کہ مسلمان، محض مسلمان ہونے کی بنا پر ایک ملت ہیں، خواہ وہ جغرافیائی لحاظ سے کسی بھی علاقے میں آباد ہوں۔ اور اگر غیرمسلم ہمارے اس دعوے پر اس بنیاد پر نکتہ چینی کرتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی، حتیٰ کہ دنیاے اسلام میں بھی، کسی ملک یا علاقے میں محض مذہبی عقائد کی اساس پر جداگانہ قومیت کا مطالبہ نہیں کیاجاتا، تو ہمارا جواب یہ ہے کہ یہی تو تحریکِ پاکستان کی خاص انفرادیت ہے۔
کیا دوسروں کو یہ طے کرنے کا حق دے دیا جائے کہ ہماری قومیت کے عناصر کیا ہونے چاہییں اور کیا نہیں؟ کیا ہمیں اس حقیقت کے اعتراف میں شرمساری محسوس کرنی چاہیے کہ ہمارا سیاسی نصب العین ترکوں، مصریوں، افغانیوں، شامیوں یا ایرانیوں کے موجودہ سیاسی نصب العین سے بالکل مختلف ہے؟ کیا ہمیں یہ سوچ کر فخر نہیں کرنا چاہیے کہ تمام مسلم اقوام میں، یہ ہم اور صرف ہم مسلمانانِ ہند ہیں جو گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف لوٹاکر اُمت واحدہ کے اُس تصور کی جستجو میں نکل کھڑے ہیں جس کی ہدایت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لیے روشن کردی تھی۔
پس دنیاے اسلام میں جہاں کہیں بھی سیاسی عوامی تحریکیں چل رہی ہیں ، ان سب کے مقابلے میں تحریکِ پاکستان فی الحقیقت منفرد و یکتا ہے۔ اس جیسی اور کوئی تحریک نہیں۔ بلاشبہہ وسیع و عریض دنیاے اسلام میں اور بھی لوگ ہیں جو اسلام کے سچے شیدائی ہیں، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے فروغ کے لیے اور اپنی قوم کی اخلاقی سربلندی کے لیے بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن پوری دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے، سواے تحریکِ پاکستان کے، کہ پوری کی پوری مسلم قوم منزلِ اسلام کی جانب گامزن ہوگئی ہو۔ پوری دنیاے اسلام میں کوئی عوامی تحریک ایسی نہیں ہے، جس کی اساس اسلامی جذبے پر رکھی گئی ہو، سواے تحریکِ پاکستان کے۔ کسی بھی موجودہ اسلامی ملک میں ایسی تحریک نہیں چلی جس کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ ہو، سواے تحریک پاکستان کے۔ بعض اسلامی ممالک، مثلاً ترکی اور ایران، اپنے سرکاری و حکومتی مقاصد میں علانیہ غیراسلامی ہیں، اور انھوں نے کھلم کھلا اعلان کررکھا ہے کہ اسلام کو سیاست اور عوام کی معاشرتی زندگی سے الگ رکھنا چاہیے۔ حتیٰ کہ اُن اسلامی ملکوں میں بھی، جہاں مذہب کی تھوڑی بہت قدر باقی ہے، اور جہاں مختلف مدارج میں اس کی روحانی میراث برقرار ہے، وہ بھی یوں سمجھیے کہ صرف ان معنوں میں ’اسلامی‘ ہیں کہ وہاں کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے، جب کہ ان کے سیاسی مقاصد و عزائم اسلامی اصول و نظائر کے تابع نہیں ہیں، بلکہ ان کے حکمران یا مقتدر گروہ جس چیز کو ’قومی مفادات‘ کہتے ہیں، مغرب کے مفہوم ہی میں ’قومی مفادات‘ ہیں۔ اس لیے ان ملکوں کی سیاسی تنظیمات سے، خواہ وہ سعودی عرب یا افغانستان کی طرح مطلق العنان سلطنت ہوں یا شام کی طرح ری پبلک ہوں یا مصر اور عراق کی طرح آئینی بادشاہت ہوں، اسلام کی طرف جھکائو رکھنے کی توقع نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ملکوں کے عوام یا حکمران اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مختلف تاریخی وجوہ سے ان کی حکومتوں یا سیاسی نظاموں کا اسلام سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔
تحریکِ پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بلاشبہہ اس تحریک میں اسلام سے جذباتی وابستگی اور اسلامی سیاسی نظام میں آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس تحریک کی عملی کامیابی کا سبب ہمارے عوام کی یہ جذباتی خواہش (اگرچہ مبہم) ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کی جائے، جہاں حکومت کی اشکال و اغراض اسلام کے اصول و احکام کے مطابق ہوں، ایک ایسی ریاست جہاں اسلام عوام کے مذہبی و ثقافتی روایات کا محض ٹھپہ نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی تشکیل و تاسیس کا بنیادی مقصد ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک ایسی نئی اسلامی ریاست جو جدید دنیا میں پہلی ریاست ہوگی___ تمام اسلامی ملکوں کے سیای افکار میں انقلاب برپا کردے گی اور دوسرے اسلامی ملکوں کے عوام میں بھی تحریک پیدا کرے گی کہ وہ ایسے ہی نصب العین کے لیے جدوجہد کریں، اور یوں یہ ریاست (پاکستان) دنیا کے اکثر حصوں میں تجدید و احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ بن جائے گی۔
اس لیے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تحریکِ پاکستان احیاے اسلام کے لیے زبردست امکان کا درجہ رکھتی ہے اور جہاں تک میری نظر جاتی ہے، تحریکِ پاکستان ایک ایسی دنیا میں تجدید و احیا کی ’واحد اُمید‘ ہے جو بڑی تیزی سے اسلامی مقاصد سے دُور ہٹتی جارہی ہے۔ لیکن یہ ’واحد اُمید‘ بھی اس اعتبار پر قائم ہے کہ ہمارے قائدین اور عوام قیامِ پاکستان کا اصل مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور اپنی تحریک کو ان نام نہاد ’قومی‘ تحریکوں میں شامل کرنے کی ترغیب میں نہ آئیں جو آئے دن جدید دنیاے اسلام میں اُبھرتی رہتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور مجھے کبھی کبھی اس کے رونما ہونے کا خدشہ صاف نظر آتا ہے۔ میری مراد نسلی خطوط پر قوم پرستی سے نہیں ہے، جس کی مثالیں دوسرے ملکوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ مسلمانانِ ہند میں نسلی بنیاد پر قوم پرستی ناممکن ہے، کیونکہ یہاں مسلم قوم انتہائی متنوع نسلی عناصر سے ترکیب پائی ہے۔ لیکن تحریکِ پاکستان کے اپنے اصلی نظریاتی راستے سے منحرف ہونے کا خطرہ مجھے ایک اور سبب سے نظرآرہا ہے۔ وہ سبب یہ ہے کہ ’ثقافتی قومیت‘ پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے، یعنی مشترکہ نظریاتی اساس کے بجاے چند مخصوص ثقافتی رجحانات، سماجی عادات و رسوم کا تحفظ، اور اس گروہ کے معاشی مفادات کا تحفظ جو بربناے پیدایش ’مسلمان‘ واقع ہوئے ہیں۔ اس میں شک و شبہے کی گنجایش نہیں کہ اسلامی خطوط پر مسلمانوں کے مستقبل کی منصوبہ سازی میں ثقافتی روایات و اقدار اور فوری معاشی تقاضوں کی پاسداری انتہائی اہمیت کے حامل عوامل ہیں، لیکن جو نکتہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ ان انتہائی اہم عوامل کو ہمارے نظریاتی نصب العین سے الگ جداگانہ حیثیت نہیں دی جاسکتی۔
لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ ہمارے اکثروبیش تر اربابِ دانش سے یہ غلطی سرزد ہوکر رہے گی۔ جب وہ پاکستان کی بات کرتے ہیں توو ہ اکثر یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے مسلم دنیا کے ’حقیقی‘ مفادات اسلام کے خالص نظریاتی مفادات سے جدا کوئی چیز ہوں۔ بالفاظِ دیگر اسلام کے بنیادی نظائر و شعائر سے کوئی تعلق رکھے بغیر بھی ’اچھا پاکستانی‘ بننا ممکن ہے۔
میرا خیال ہے کہ قارئین محترم میری اس راے سے اتفاق کریں گے کہ ’مسلم مفادات‘ اور ’اسلامی مفادات‘ میں تفریق کرنا بے عقلی کی بات ہے۔اسلام مسلمانوں کے وجود و تشخص کے چند عوامل و خصائص میں سے محض ایک نہیں ہے، بلکہ اسلام تو ان کے وجود کی تاریخی علت اور بنیادی جواز ہے۔ مسلم مفادات کو اسلام سے جدا کوئی چیز خیال کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی ’زندہ چیز‘ کو زندہ بھی کہنا اور زندگی سے عاری بھی سمجھنا۔ ایک سوچنے سمجھنے والے آدمی کے نزدیک یہ کیسی بھی بے عقلی کی بات ہو، یہ امر بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بیش تر لوگ (اور ان میںہمارے بیش تر اربابِ دانش بھی شامل ہیں) غوروفکر نہ کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں۔
جب ہمارے قائدین اور ہمارے اربابِ دانش حصولِ پاکستان کی خاطر مسلمانوں سے اتحاد، اخوت، ایثار اور ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کی اپیلیں کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ’اسلامی ہیئت حاکمہ‘ کا نقشہ کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریکِ پاکستان کے منفی پہلو سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ یہ منفی پہلو ناممکنات سے ہے، یہ کہ غیرمسلم غلبے کے تحت مسلمانوں کا آزادانہ زندگی گزارنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریکِ پاکستان کے مثبت پہلو سے تعلق کم کم رکھتے ہیں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ اسلام کی خاطر، اسلام کے مطابق اپنا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کرنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ اکثر و بیش تر تعلیم یافتہ مسلمانوں اور ہمارے اکثر سیاسی لیڈروں کے نزدیک اسلام محض غیرمسلموں سے فرقہ وارانہ جدوجہد میں ایک جنگی تدبیر ہے، بجاے اس کے کہ اسلام مقصود بالذات ہوتا۔ گویا اسلام ہماری منزلِ مقصود نہیں، ایک منطقی استدلال ہے۔ ایک اُمنگ نہیں، ایک نعرہ ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہمارے اکثر رہنما نام نہاد مسلم قوم کے لیے زیادہ سیاسی قوت اور زیادہ معاشی مراعات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، بجاے اس کے کہ وہ نام نہاد مسلم قوم کو ایک سچی اسلامی قوم بنانے کی کوشش کرتے؟
ہمارے رہنمائوں نے اب تک جو اچھے کام انجام دیے ہیں، میں انھیں کم کرکے نہیں دکھانا چاہتا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بعض اعتبار سے ان کے کارنامے بہت زیادہ ہیں اور انتہائی تعریف و توصیف کے مستحق ہیں۔ انھوں نے ایک خوابِ خرگوش میں ڈوبی ہوئی قوم کو بیدار کیا ہے، یہی کارنامہ بہت بڑا ہے۔ پھر یہ کہ انھوں نے قوم میں ایسا زبردست اتحاد پیدا کیا ہے، جو دنیاے اسلام میں اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آیا۔ ہر ذی ہوش آدمی اس کا اعتراف کرے گا اور کرنا چاہیے۔ میں جو اپنے بعض رہنمائوں پر الزام تراشی کرتا رہتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے مسلم عوام کی تقدیر بدل دینے والی اس فیصلہ کن گھڑی میں انھیں روحانی عظمت کی راہ پر گامزن کرنے کے بجاے دیدہ دانستہ اس راہ پر لگا دیا جو بنیادی طور پر ہمارے موجودہ بحران کی ذمہ دار ہے۔ اس بات کو مَیں سادہ لفظوں میں یوں کہوں گا کہ ہمارے رہنمائوں نے یہ بتانے اور دکھانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ اسلام ہی ہماری موجودہ جدوجہد اور تحریک کا اصل اور بنیادی مقصد و منتہا ہے۔ اس میں شک نہیں، جب وہ اخباری بیان جاری کرتے ہیں یا عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہیں تو اسلام کا نام ضرور لیتے ہیں، لیکن لفظ اسلام کا استعمال وہ صیغہ مستقبل میں کرتے ہیں، کہ جب پاکستان وجود میں آجائے گا تو اسلام بھی آجائے گا۔ انھوں نے کبھی مسلمانوں کے موجودہ طرزِفکر اور طرزِحیات کو اسلامی اصول و احکام سے زیادہ ہم آہنگ اور مطابق کرنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی۔ میرے خیال میں، یہ بہت بڑی فروگذاشت ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مستقبل حال کا بچہ ہے، اٹل ہے، غیرمتبدل ہے۔ جیسا ہم آج سوچیں اور کریں گے، اس کااثر ہماری کل کی زندگی پر ضرور پڑے گا۔ اگر پاکستان کا مطلب فی الواقعی لا اِلٰہ الا اللہ کے کلمے میں پوشیدہ ہے، تو ہمارا عمل بھی اس کلمے کے مطلب کے قریب سے قریب تر ہونا چاہیے۔ گویا ہمیں صرف اپنے قول کا سچا مسلمان نہیں، بلکہ اپنے عمل کا بھی پکا مسلمان ہونا چاہیے۔
یہ فریضہ اور منصب ہمارے رہنمائوں کا ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو تلقین کریں کہ آج وہ پکّے مسلمان بنیں تاکہ کل سچے پاکستانی بن سکیں۔ حالانکہ وہ ہمیں صرف اس امر کا یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کے بنتے ہی ہم پکّے مسلمان بن جائیں گے۔
یہ آسان اور لفظی یقین دہانی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ پرلے درجے کی خود فریبی ہے۔ اگر ہم اسلامی زندگی کا بیج آج نہیں بوئیں گے ، جب کہ اسلام کے لیے ہمارا تحریکی جوش و خروش اپنے عروج پر ہے، تو کوئی بھی معقول آدمی اس یقین دہانی پر اعتبار نہیں کرے گا کہ جب تحریک ختم ہوجائے گی اور سیاسی آزادی مل جائے گی، تو ہم یکایک اور خودبخود سچے اور پکّے مسلمان بن جائیں گے۔
’’بھائی صاحب، تم قنوطی ہو، خواہ مخواہ تشویش میں مبتلا رہتے ہو۔ ہم سب سچی اسلامی زندگی کے آرزو مند ہیں لیکن ابھی، اسی وقت اس پر اصرار خلافِ مصلحت ہوگا۔ ہماری صفوں میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو سیاسی میدان میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن غلط تربیت کے باعث مذہب کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنی تحریک کے آغاز ہی میں اپنی جدوجہد کے مذہبی پہلو پر زیادہ زور دیں گے تو ان قیمتی کارکنوں کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا، جس کا ہماری جدوجہد پر بہت بُرا اثر پڑے گا اور یہ سراسر نقصان کی بات ہوگی۔ ہمارے نصب العین کو ضعف پہنچے گا۔ ہم اپنے رضاکاروں کو کھونا نہیں چاہتے۔ ان کی خدمات سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ ہماری اپنی اسلامی مملکت حاصل ہونے تک ہم اپنے عوام کی مذہبی اصلاح کا کام ملتوی کرنے پر مجبور ہیں۔ فی الحال ہمیں اپنی پوری توانائیاں اس چھوٹے مقصد کے حصول کے لیے وقف کردینی چاہییں، یعنی غیرمسلم تسلط سے مسلمانوں کی آزادی اور اپنی توانائیاں خالص مذہبی معاملات پر فی الحال خرچ نہیں کرنی چاہییں۔ ایک سچی ہیئت حاکمہ کا قیام اور مسلمانوں میں سچا مذہبی شعور بہت اہم کام ہے، لیکن یہ قیامِ پاکستان کے بعد شروع ہوگا۔ فی الحال مغرب زدہ بھائیوں اور بہنوں کو اپنے نصب العین سے الگ کردینے سے نقصان ہوگا، بلکہ مذہب پر زیادہ زور دینے سے پاکستان کے علاقے میں رہنے والی غیرمسلم اقلیتوں کو بھی تشویش پیدا ہوگی‘‘۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ طرزِ استدلال بالکل غلط ہے، اور عقلی لحاظ سے بددیانتی۔ آیئے ان حضرات کی ایک ایک دلیل پر نکتہ بہ نکتہ غور کرتے ہیں۔ پہلے غیرمسلم اقلیتوں والی بات لیتے ہیں۔
جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اسلامی طرزِ فکر و حیات پر زور دینے سے ہماری غیرمسلم اقلیتوں میں تشویش پیدا ہوگی، تو میں آپ سے پوچھتا ہوں: ’’وہ کیا چیز ہے جس نے غیرمسلموں کو نظریۂ پاکستان کا سخت مخالف بنا رکھا ہے؟‘‘ ظاہر ہے، فرقہ وارانہ راج کا خوف، اس بات کا خوف کہ مسلم اکثریتی علاقے بھارت ماتا سے کٹ جائیں گے۔ یہ مسئلہ غیرمسلموں کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوتا کہ مسلمان اسلامی اصول و احکام کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ وہ اگر خائف ہیں تو اس بات سے کہ بعض علاقوں میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہوجائے گا۔ انھیں بہ نظر ظاہر اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مسلمان اپنے مذہب پر چلنے کی کتنی اُمنگ رکھتے ہیں اور اس پر چلنے کے کیسے عزائم رکھتے ہیں۔ بعض علاقوں میں مسلم سیاسی اقتدار کے خلاف وہ ہرحالت میں اور ہرصورت میں مخالفت کریں گے اور اسے رکوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔
ہمارے حریفوں کے مخالفانہ رویے کے باوجود اگر انھیں یہ باور کرایا جائے کہ ہم مسلمانوں کا مقصد ’سب کے لیے عدل و انصاف‘ کا قیام ہے تو وہ کسی حد تک اس خیال سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ وہ ضرور متاثر ہوجائیں گے، صرف یہ کہا ہے کہ متاثر ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ ہم انھیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں کہ ہم مسلمانوں کے مفاد کی خاطر غیرمسلموں کا استحصال نہیں کرنا چاہتے، بلکہ ہم انسانی اخلاق کے بنیادی اصولوں کی بالادستی قائم کرنے کے متمنی ہیں۔ لہٰذا یہ ہمارا فرض عین ہے کہ ہم پوری دنیا پر ثابت کردیں کہ ہم فی الواقعی قرآن مجید کے ان الفاظ کے معنی و منشا و معیار کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ، اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہمارا بہترین اُمت ہونے کا انحصار اس امر پر موقوف ہے کہ ہم ہمیشہ اور ہرحالت میں انصاف کی بالادستی اور بے انصافی کے انسداد کے لیے، جدوجہد کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ غیرمسلموں کو اپنی عدل گستری کا یقین دلانے سے پہلے ہمیں ایک سچی مسلم قوم بننا پڑے گا۔ ہم بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک غیرمسلم کو ایک ایسی ریاست میں رہتے ہوئے تشویش ضرور لاحق ہوگی، جو اس کی نظر میں معاشی حقوق و مفادات میں مسلمانوں کو غیرمسلموں پر ترجیح دے گی۔ لیکن اگر اسے یقین دلایا جائے کہ وہاں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا تو اس کی تشویش اگر دُور نہیں ہوگی، تو اس میں کمی ضرور ہوجائے گی۔ اب یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہم اپنے حریفوں کو اپنی اصلی سچائیاں نہیں دکھا سکتے، جب تک ہم ان پر ثابت نہ کریں: اوّل یہ کہ اسلامی حکومت کا مطلب ہے عدل سب کے لیے۔ دوم یہ کہ ہم مسلمان واقعی اپنے دین کے احکامات پر قول و فعل میں سچے پیروکار ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں عدل سب کے لیے ہوتا ہے، تو ایسا ہی ہوگا۔ اس لیے یہ سمجھنا انتہائی غلط ہے کہ اگر ہم اپنے مذہبی مقاصد پر زور نہیں دیں گے اور حتی الوسع براہِ راست مذہبی حوالے دینے سے احتراز کریں گے، تو اس طرح غیرمسلم اقلیتوں کی تشویش دُور ہوجائے گی، بلکہ ہمارے اس رویے سے تو انھیں یہ شبہہ ہوگا کہ ہم منافقت سے کام لے رہے ہیں۔ ان کی تشویش دُور یا کم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم صاف دلی سے، اور پوری تفصیلات کے ساتھ بتا دیں کہ ہمارے اخلاقی مقاصد کیا ہیں جن کے لیے ہم جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن صاف دلی سے دیے گئے بیانات سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، تاوقتیکہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں انھیں یہ مشاہدہ نہ کرادیں کہ ہمارے اخلاقی مقاصد محض نعرے نہیں ہیں، بلکہ ہمارے اخلاقی اعمال ہیں۔
عارضی قسم کے ’خلافِ مصلحت‘ یا ’سیاسی تدبر‘ کے نام پر (غلط فہمی سے) اپنے اصل مستقل اسلامی مقاصد سے گریز پائی ایک ایسی عاقبت نااندیشی ہے، جس سے غیرمسلموں پر تو بُرا اثر پڑتا ہی ہے، ہم مسلمانوں کے اخلاقی مزاج پر بھی نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ ہم اسلام کے بتائے ہوئے راستے سے مزید دُور ہوجائیں، ہم مسلمانوں کے سامنے احیاے اسلام کا جو اصل نصب العین ہے، اس کے زیادہ سے زیادہ شعورو آگہی کے بجاے، ہم دوبارہ مصلحت اندیشی اور فوری آسایش کی اصطلاحوں میں سوچنے کے عادی ہوجائیں گے، جیساکہ ہم صدیوں سے اس کے عادی چلے آرہے ہیں، اور یوں پاکستان کا اسلامی نصب العین یقینا گھٹ کر صرف نظریہ پرستی بن کر رہ جائے گا، جیساکہ مغرب کی نام نہاد مسیحی اقوام میں مسیحیت کے سچے مقاصد گھٹ کر اپنی اصلیت کھو چکے ہیں۔ ہم ہرگز ایسا نہیں چاہتے۔
ہم پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ اسلام کو اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں ’حقیقت‘ بنادیں۔ ہم پاکستان اس لیے بناناچاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہرایک شخص، مرد وزن، سچی اسلامی زندگی گزار سکے۔ اور کسی فرد کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر زندگی بسر کرنا ممکن نہیں، تاوقتیکہ پورے کا پورا معاشرہ شعوری طور پر اسلام کو ملک کا قانون و دستور نہ بنائے اور کتاب و سنت کے احکام پر صدق دل سے عمل نہ کرے۔
لیکن اس قسم کا اصلی پاکستان کبھی حقیقت کا جامہ نہ پہن سکے گا، تاوقتیکہ ہم اسلامی قانون کو اپنے ’غیر واضح اور مبہم‘ مستقبل کے لیے اصل اصول نہ بنائیں اور ابھی اسی گھڑی، اسی گھنٹے، اسی منٹ ، اسی سیکنڈ سے اسلام اور اس کے احکام کو اپنے تمام شخصی اور معاشرتی طرزِعمل کی اساس نہ بنائیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری صفوں میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو مذہب کو اس حد تک غیراہم خیال کرتے ہیں، کہ ہم جو تحریکِ پاکستان کے مذہبی رُخ پر اس قدر اصرار کررہے ہیں تو ہم سے ناراض ہوجائیں گے۔ اگرچہ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ اگر انھیں یہ احساس دلایا جائے کہ مسلم قوم بہ حیثیت مجموعی اسلام کی جانب پیش قدمی کرنے کا عزمِ صمیم کرچکی ہے تو مذہب سے بے زار یہ لوگ بہت جلد جماعت کے آگے سرتسلیم خم کردیں گے۔ بہرصورت ان کی ذاتی ترجیحات کی زیادہ پروا نہیں کرنی چاہیے اور ہمارے عزم کی راہ میں ان کی بے عزمی کو راہ نہیں ملنی چاہیے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ رسول کریمؐ کفارِ قریش کی ناراضی سے بچنے کے لیے اور اس انتظار میں کہ ایک روز وہ اسلامی ریاست کی تشکیل و تعمیر میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے، ایک دن کے لیے بھی اسلامی مقاصد کی تحصیل و تکمیل کو ملتوی کردیتے؟
آپ اس کے جواب میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’رسولؐ تو آخر رسولؐ تھے، ان کے لیے مصلحت کوشی کو نظرانداز کرنا ممکن تھا۔ ہم تو عام سے فانی بندے ہیں‘‘۔ اس کے جواب میں، مَیں آپ سے پوچھوں گا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر یقین رکھتے ہیں:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب ۳۳:۲۱)، درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
کیا یہ حکمِ ربانی آپ کی سیاست اور آپ کی دعائوں، آپ کے ذاتی حالات و تفکرات اور آپ کی اجتماعی و معاشرتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا؟ (جاری)