پروفیسر خورشید احمد | اگست ۲۰۱۲ | اشارات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بالآخر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا ___ امریکا نے ایک بار پھر پاکستان کے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جو کچھ ستمبر ۲۰۰۱ء میں کیا تھا، وہی کردار جولائی ۲۰۱۲ء میں آج کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ہزار کہہ مکرنیوں کے ساتھ ادا کر کے پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت و وقار اور اسٹرے ٹیجک مفادات پر کاری ضرب لگائی ہے۔پرویز مشرف نے بھی ’قومی مفادات‘ کا راگ الاپا تھا اور آج کی حکومت اور اس کے میڈیا کے ہم نوا بھی یہی کچھ دہرا رہے ہیں۔ شرم کا مقام یہ ہے کہ اس عبرت ناک پسپائی کو ’ایک سوپر پاور کو معذرت کے اظہار پر مجبور کرنے‘ اور ’۵۰ممالک سے تعلقات نہ بگاڑنے‘ کا نام دے رہے ہیں۔ حالانکہ اس قیادت کے ہاتھوں پاکستان کی آزادی، عزت اور حیثیت کا جوط حشر ہوا ہے وہ بین الاقوامی محاذ پر ’جوتے اور پیاز‘ دونوں کھانے کی بدترین مثال ہے___ فاعتبروا یااُولی الابصار!
امریکا نے جس طرح بلیک میل کرتے ہوئے پاکستان کو ’دہشت گردی‘ کے خلاف نام نہاد جنگ میں گھسیٹا وہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں پاکستان نے جو جو نقصانات اُٹھائے اورتمام تر نقصانات اُٹھانے کے باوجود امریکا نے جس جس طرح پاکستان کو ذلیل وخوار کیا، اس کے نتیجے میں ۲۰۱۱ء وہ فیصلہ کن سال بن گیا جس نے دونوں ملکوں کے جدا راستوں کو بالکل دوٹوک انداز میں واضح کردیا تھا۔
۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کو سلالہ کی فوجی چوکی پر امریکا کا جارحانہ حملہ اور اس میں پاکستانی مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں کی شہادت نے پاکستان اور امریکا کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں تعاون کے رشتے کو تارتار کر دیا۔ قوم نے سوگ و الم اور غصے اور انتقام کے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے ایک باوقار، اور متوازن ردعمل کا اظہار کیا۔ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی نے ناٹوسپلائی کے فوری طور پر معطل کرنے، شمسی ایئربیس سے امریکیوں کے انخلا اور دوسرے فوجی اور نیم فوجی آپریشن میں دی گئی سہولتوں کی واپسی کی شکل میں اس کی تائید کی۔ نیز سب سے اہم چیز یہ طے کی کہ: پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف اس کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کے کردار کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور پارلیمنٹ سے اس سلسلے میں واضح رہنمائی لی جائے۔ اس طرح پاکستانی قوم اور قیادت کو ایک ایسا تاریخی موقع حاصل ہوا جس کی روشنی میں وہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرسکے اور مستقبل کے لیے خارجہ پالیسی اور پاک امریکا تعلقات کو ایک نئی سمت دے سکے۔ لیکن ہماری تاریخ کا یہ ایک الم ناک سانحہ ہے کہ اس وقت ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے اس تاریخی موقع کو نہ صرف یہ کہ ضائع کر دیا، بلکہ پارلیمنٹ کی رہنمائی سے مکمل انحراف کا راستہ اختیار کرتے ہوئے، نہ صرف امریکا کی غلامی کے طوق کو دوبارہ پہن لیا، بلکہ عزت و وقار کو اس طرح خاک میں ملا دیا کہ جو کچھ تھوڑی بہت حیثیت باقی تھی، وہ تباہ کی اور امریکا سے تعلقات کو برابری، مفادات کی پاس داری اور توازن کی سطح پر لانے کا جو سنہری موقع ملا تھا وہ بھی اپنی حماقت سے ضائع کر دیا۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات ۱۹۵۰ء ہی سے غیرمتوازن رہے ہیں اور بار بار تنائو، تصادم اور بحران کا شکار ہوئے ہیں۔ چار بار امریکی امداد بند ہوچکی ہے اور تین بار عملاً پابندیاں بھی لگ چکی ہیں، لیکن ہربار کسی نہ کسی بیرونی عالمی دبائو کی وجہ سے تعلقات پھر استوار ہوگئے ہیں۔ گو کبھی بھی ا ن میں حقیقی اعتماد باہمی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کی ہم آہنگی کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔ ہمیشہ وہ وقتی مصلحتوں کے تابع، یا پھر زیادہ سے زیادہ متعین طور پر چند معاملات میں لین دین اور تعاون سے عبارت رہے۔
۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۱ء تک سخت کھچائو کا عالم تھا اور پاکستان پر ایٹمی دھماکے کی پاداش میں سخت پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ مشرف حکومت کو فوجی آمریت قرار دے کر ایک ناپسندید حکومت کا مقام دیا ہوا تھا، حتیٰ کہ جب امریکی صدر کلنٹن پاک و ہند کے دورے پر آئے اور پانچ گھنٹے پاکستان کی سرزمین پر بھی گزارے، تب بھی پاکستان کی فوجی حکومت سے نفرت کے اظہار کے لیے اس امر کا اہتمام کیا گیا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ان کی تصویر تک نہ بننے پائے۔ ستمبر ۲۰۰۱ء میں نائن الیون کے خونیں اور اور اَلم ناک حادثے نے اور مشرف کے اپنے اقتدار کے لیے سندِجواز حاصل کرنے کے کھیل نے امریکی صدر بش اور مشرف کو دوستی اور تعاون کے ایک نئے جال میں پھنسا دیا، اور اس کے بعد کے ۱۱ سال ہماری قومی زندگی کے تاریک سال بن گئے۔
جہاں تک پاکستانی قوم کا تعلق ہے، اس نے پہلے دن سے اس جنگ کو صرف امریکا کی جنگ قرار دیا، اور ایک ایسی جنگ سمجھا جو امریکا نے افغانستان کے ساتھ پاکستان اور پھر عراق پر اپنے مخصوص مفادات کے حصول اور علاقائی عزائم کو پروان چڑھانے کے لیے مسلط کی تھی۔ جنرل مشرف کو نہ صرف دھونس، دھمکی، دبائو اور لالچ کے ذریعے اس میں اپنا شریکِ کار بنایا، بلکہ پاکستان کی سرزمین اور اس کی فضائی حدود کو پاکستان کے ایک برادر ہمسایہ مسلمان ملک کے خلاف جارحیت کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ: جو دوست تھے وہ دشمن بن گئے، ملک کا امن و امان تہ و بالا ہوگیا اور خود پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی آماج گاہ بن گئی۔ پاکستان کے ۴۰ہزار سے زیادہ عام شہری اور ۶ہزار سے زیادہ فوجی اور دوسرے سرکاری اہل کار ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ خونیں ڈراما جاری و ساری ہے۔ ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ ملک میں امن و امان تباہ اور نظم و نسق کا حال پراگندہ ہے۔ معاشی اعتبار سے جو ملک عالمی برادری میں اپنا مقام بنا رہا تھا زوال و انحطاط اور بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، توانائی اور پانی کی شدید قلت ہے، سرمایہ کاری رُوبہ زوال ہے اور ملک سے سرمایے کی منتقلی روزافزوں ہے۔
سرکاری اندازوں کے مطابق جنگ میں شرکت کے پہلے آٹھ برسوں میں ملک کو ۶۸؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جس میں اگر مزید تین برسوں کے خسارے کو شامل کیا جائے تو یہ رقم ۱۰۰؍ارب ڈالر سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ اس میں وہ معاشی نقصان شامل نہیں جو ہزاروں افراد کے ہلاک، زخمی اور بے گھر ہونے کی وجہ سے واقع ہوا ہے۔ نیز ملک کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا ہے اور اس کی تباہی میں ناٹو کو سپلائی فراہم کرنے والے ہرماہ ۶ہزار سے زیادہ ٹرکوں کی آمدورفت ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ یہ سپلائی افغانستان پر امریکا اور ناٹو کے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے فراہم کی جاتی رہی ہے اور جسے خود ملک میں اسلحے اور دوسری اشیا کی اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔
یہ تمام نقصانات اور مصائب و آلام اپنی جگہ، لیکن اس زمانے میں سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ عملاً امریکا کا عمل دخل ہماری اجتماعی زندگی میں اتنا بڑھ گیا کہ ملک کی آزادی خطرے میں پڑگئی۔ پاکستان کی سرزمین کو عملاً امریکا نے اپنا بیس کیمپ (base camp) بناڈالا۔ ہوائی اڈے قائم کیے گئے، ٹریننگ کے نام پر فوجوں کی ایک فوج ظفر موج یہاں براجمان ہوگئی اور جب انھوں نے محسوس کیا کہ فوجیوں کی برسرِعام موجودگی منفی ردعمل کا ذریعہ بن رہی ہے، تو پھر ایک محدود تعداد میں فوجیوں کو باقی رکھتے ہوئے جاسوسی، تخریب کاری اور دوسری سرگرمیوں کے لیے نیم عسکری اہل کاروں کو بڑی تعداد میں لے آئے اور خود پاکستان سے کرایے کے مددگارحاصل کیے ۔ امریکا کی اس نوعیت کی موجودگی کا اعتراف بڑے کھلے الفاظ میں سی آئی اے کے اس وقت کے ڈائرکٹر لیون پینٹا نے وائٹ ہائوس میں منعقدہ ایک اجلاس میں ان الفاظ میں کیا ہے:
اصل متبادل راستہ یہ تھا کہ خفیہ جنگ کو بہت بڑے پیمانے پر پھیلا دیا جائے۔دہشت گردی کا تعاقب کرنے والی ٹیموں ( CTPT) کے ۳ہزار افراد اب پاکستان کی سرحد کے پار کارروائیاں کر رہے تھے۔ (ملاحظہ کیجیے:Obama's Wars: The Inside Story ، باب وڈورڈ، ص ۳۶۷)
یہی وہ امریکی اہل کار اور ان کے پاکستانی معاونین تھے جو ڈرون حملوں کے لیے خفیہ معلومات فراہم کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، ۲مئی کو ایبٹ آباد پر حملہ، اور پھر ۲۶ نومبر کا سلالہ پر حملہ___ یہ سب ایسے تکلیف دہ واقعات تھے جنھوں نے پاکستان کی قیادت کو مجبور کیا کہ ناٹو کی سپلائی کا راستہ بند کریں، شمسی ایئربیس خالی کرائیں اور امریکا سے اس جنگ کے سلسلے میں تمام تعلقات اور امور پر نظرثانی کریں۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ تمام اُمور کا جائزہ لے کر اور خارجہ، داخلہ، اور دفاعی شعبوں کے ذمہ داروں سے ضروری معلومات اور تفصیل (بریفنگ) لے کر نئی پالیسی کے خطوطِ کار تجویز کرے۔ امریکا کی جارحانہ کارروائیوں نے سفارتی تعلقات پر یکسر نظرثانی کرنے کا ایک تاریخی موقع فراہم کردیا تھا اور پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی اور دینی قوتوں نے متفقہ طور پر ایک نیا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا___ سارے وعدے وعید کے علی الرغم صدر زارداری، وزیراعظم پرویز اشرف، جنرل پرویز کیانی، اور پورے حکمران ٹولے نے ایک بار پھر وہی پسپائی اور امریکا کی غلامی کا راستہ اختیار کرلیا ہے جو مشرف نے ۱۱سال پہلے اختیار کیا تھا اور اپنی آزادی، حاکمیت، قومی عزت و وقار اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے بھرپور تحفظ کا جو موقع تاریخ نے دیا تھا، اسے ضائع کردیا ہے۔ بلاشبہہ اس شرم ناک اور اَلم ناک پسپائی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ لیکن بات محض ماتم کی نہیں احتساب، جواب دہی، غلامی سے نجات کی جدوجہد اور قیادت کی تبدیلی کی ہے تاکہ ملک و قوم ذلت کی اس زندگی سے چھٹکارا پاسکیں اور پاکستان کو جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا، قوم ایک بار پھر اس کے حصول کی طرف گامزن ہوسکے۔
نیویارک ٹائمز کے چیف نمایندے ڈیوڈ ای سانگر کی ایک بڑی اہم کتاب Confront And Conceal: Obama's Secret Wars and Surprising Use of American Power چند ہفتے پہلے شائع ہوئی ہے جس کا موضوع صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کا جائزہ ہے۔ اس میں نائن الیون کے بعد کے پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور امریکا کی افغان جنگ اور خصوصیت سے بن لادن کے سلسلے میں ایبٹ آباد کے حملے کے اصل حاصل کو متعلقہ باب کے عنوان میں پانچ لفظوں میں یوں سمیٹ دیا ہے: Getting Bin Ladin, Losing Pakistan۔
موصوف نے اس امر کا بھی برملا اعتراف کیا ہے کہ اس پوری جنگ میں جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے وہ نہ امریکا ہے اور نہ افغانستان، نہ القاعدہ اور نہ طالبان___ وہ بدقسمت ملک پاکستان ہے جو علاقے کی اس جنگ میں بڑا خسارے کا سودا کرنے والا ملک ہے۔
امریکا نے پاکستان سے کس طرح معاملات طے کرائے ہیں، اس کا کھلا اعتراف ڈیوڈ سانگر نے بھی دوسرے سیاسی مبصرین اور سفارت کاروں کی طرح صاف الفاظ میں کیا ہے۔ اس کی چند جھلکیاں بھی پاک امریکا تعلقات کو سمجھنے کے لیے سامنے رکھنا ضروری ہیں:
جب امریکا نے افغانستان پر حملے کی تیاری کی تو اس نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ یا تو طالبان اور القاعدہ کا ساتھ دے یا واشنگٹن کا۔ اپنے سر پر بندوق لگی دیکھ کر پاکستان کے فوجی آمر پرویز مشرف نے وہی کیا جو کرسکتا تھا اور اس کا ملک افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم بن گیا۔
۲۰۱۲ء میں ایک مختلف دنیا کا سامنا کرتے ہوئے امریکا اس حکمت عملی کو اُلٹ رہا ہے۔ افغانستان میں مستقل موجودگی کا مقصد یہ ہے کہ امریکا کی اسپیشل آپریشن فورسز کو اور ڈرونز کو پلیٹ فارم مل جائے، جہاں سے وہ علاقے میں کہیں بھی جاسکیں۔ اگر القاعدہ دوبارہ جان پکڑتی ہے، یا کوئی ایٹمی اسلحہ کسی کے ہاتھ لگتا ہے تو وہ پاکستان کے اندر حملہ کریں، یا اگر افغان حکومت کو زوال آتا نظر آئے، یا اگر ایران سے معاملہ کرنا پڑے تو کابل میں موجودگی بہت کام آئے گی۔ ابوظبی میں جنرل کیانی کو ڈونی لون کے پیغام کا اصل مرکزی نکتہ یہ تھا۔کم از کم امریکا کے لیے یہ درست اسٹرے ٹیجک تصور ہے۔ (ص۱۲۹-۱۳۰)
پاکستان کی حاکمیت، سرحدوں کے احترام اور پاکستان کی سرزمین پر یک طرفہ فوجی کارروائیوں کے سلسلے میں امریکا نے پاکستان کو ٹکا سا جواب دے دیا ہے اور وہ اس پر قائم ہے۔ سانگربجاطور پر تسلیم کرتا ہے کہ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد حملے کے پانچ ماہ بعد، جس کی وجہ سے پاکستان، پاکستانی فوج اور خود جنرل کیانی سب سے بڑی ذلت (humiliation) سے دوچار ہوئے ہیں، اور سلالہ حملے سے صرف ایک ماہ پہلے، یعنی اکتوبر ۲۰۱۱ء میں ابوظہبی میں امریکی صدر کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ٹام ڈونی لون (Tom Donilon) نے منہ در منہ کہہ دیا تھا کہ امریکا اپنے مفاد میں اگر پاکستان کی حدود میں کارروائی ضروری سمجھے گا تو ضرور کرے گا۔ سانگر لکھتا ہے:
پھر آخری بات آئی: ’’میں جانتا ہوں کہ تم ہم سے ضمانت چاہتے ہو کہ (بن لادن والے واقعے کی طرح) ہم تمھارے ملک میں آیندہ یک طرفہ آپریشن نہیں کریں گے‘‘۔’’یہ ضمانت میں تم کو نہیں دے سکتا‘‘۔
اور دلیل یہ تھی کہ : امریکیوں کا تحفظ امریکا کے صدر کی آخری ذمہ داری ہے۔ (ص ۸)
یہ ہمت کس میں تھی کہ کہے کہ پاکستان کے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور پاکستان کی سرحدوں کے تقدس کی پامالی سے روکنے کی ذمہ داری بھی کسی سیاسی اور عسکری قیادت پر ہے یا نہیں؟
سانگر اعتراف کرتا ہے: پاکستان کے خلاف یک طرفہ ڈرون حملے کیے گئے جو بالکل لغوی مفہوم میں ایک جنگ کا عمل ہیں (ص۱۳۷)۔ یہ بھی اعتراف ہے کہ: عملی مفہوم میں کسی متعین شخص کو ہدف بنا کر قتل کرنے اور ڈرون کے ذریعے قتل کرنے میں امتیاز کرنا مشکل ہے۔(ص ۲۵۵)
بین الاقوامی قانون میں کسی غیرمتحارب کا نشانہ زدقتل ایک جنگی جرم ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی قیادت کا اصرار ہے کہ دنیا میں جہاں وہ اپنے زعم میں اپنے کسی شہری کے لیے خطرہ محسوس کریں گے تو محض اس اندیشے پر ان کو ڈرون حملے کرنے کا حق ہے۔ پاکستان میں تمام عوامی احتجاج اور اب حکومت اور پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود وہ ڈرون حملوں کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔
وائس آف امریکا کی ۶جون ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق:امریکا کے وزیردفاع لیون پینٹا نے کہا کہ امریکا کا پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ دہشت گرد لیڈروں کو ہدف بنانے کا تعلق ہماری خودمختاری سے ہے۔
یہ ۶ جون ۲۰۱۲ء کا ارشاد ہے۔ ۴جولائی کو پاکستان سے سودے بازی کرنے کے بعد ہیلری کلنٹن اور پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے( جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ڈرون حملوں پر خوش نہیں ہیں، اور یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ انھیں معلوم نہ تھا کہ ان کی سفارت کاری میں انسانوں کے قتل میں شرکت بھی شامل ہوگی) ۴جولائی کے اعلان کے تین دن بعد ہی فاٹا میں ڈرون حملوں کا دفاع کیا اور ان کے جاری رہنے کی ’نوید‘ سنائی ہے۔
یہ ہے امریکاکا ذہن اور عالمی منظرنامہ جس میں پاکستان کی وزیرخارجہ نے امریکی سیکرٹری خارجہ سے گفتگوکرتے ہوئے ان کے ایک موہوم اور مجہول اظہارِ افسوس اور ہمدردی کے بعد، پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کے تمام مطالبات کو بالاے طاق رکھ دیا۔ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی جس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ اس نے اس سلسلے میں فیصلہ کیا ہے، اس کے اجلاس سے ۱۲گھنٹے پہلے، ناٹو کے لیے پاکستان کے راستوں کو کھولنے کا مژدہ امریکا کو سنایا، اور اس کے یومِ آزادی پر پاکستان کے مفادات، پارلیمنٹ کی قرارداد اور پاکستانی قوم کے جذبات کو بھینٹ چڑھا دیا، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
پاکستان کی موجودہ قیادت نے یہ قلابازی کب کھائی؟ کھچڑی تو نہ معلوم کب سے پک رہی تھی، مگر اعلان کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہورہا تھا۔ اس لیے زمین ہموار کرنے کے لیے مئی اور جون میں کارستانیاں شروع ہوگئیں مگر دھیمے سُروں میں، بظاہر مشاورت کا بڑا شور ہے مگر اس کا کوئی ثبوت ۴جولائی ۲۰۱۲ء سے پہلے نہیں تھا۔ البتہ یہ یقین ہے کہ ’کسی‘ نے فیصلہ کرلیا تھا اور پھر سرکاری ذرائع اور میڈیا کو فضا سازگار بنانے کے لیے ’جہاد‘ میں جھونک دیا گیا۔
اپریل ۲۰۱۲ء تک برابر یہی اعلانات آتے رہے کہ: ’’ملک کی آزادی، خودمختاری، سرحدات کی پاس داری اور حفاظت، قومی عزت و وقار اور پاکستان کے ملکی اور علاقائی مفادات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور پارلیمنٹ کی قرارداد پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل ہوگا، خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘‘۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپریل میں بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا: ’’میں اس ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ جو قرارداد آج یہاں منظور کی گئی ہے اس کو الفاظ اور روح کے مطابق نافذ کیا جائے گا‘‘۔ (واشنگٹن پوسٹ، ۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ئ)
اسلام آباد میں دو روزہ اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے بعد پاکستان نے امریکی مذاکرات کاروں کو گذشتہ ہفتے بتایا کہ جب تک امریکا نومبر کے اس حملے کی غیرمشروط معافی نہیں مانگتا، جس میں ۲۴پاکستانی فوجی افغان سرحد کے قریب ہلاک کیے گئے تھے، وہ ناٹو کے قافلوں کو اپنی سرحد سے نہیںگزرنے دے گا۔ اگرچہ اوباما انتظامیہ نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو اس کے مطابق اتفاقیہ تھیں، تاہم پینٹاگان کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں پر برابر کا الزام آتا ہے۔ (واشنگٹن پوسٹ، ۲۹؍اپریل ۲۰۱۲ء ، رپورٹ: Richard Leiby and Karen Deyoung)
اس رپورٹ میں (جس کا وقت بھی بہت اہم ہے) اس بات کا بھی اعتراف اور اعادہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے امریکا سے معاملات طے کرنے کے لیے واضح خطوط کار دے دیے ہیں، جن میں ’غیرمشروط معافی‘ کے لیے جو بنیاد بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے: ’’نومبر میں امریکا کے ہیلی کاپٹروں اور جیٹ فائٹروںکا سرحدوں پر بلااشتعال قابلِ مذمت حملہ‘‘۔ اور پھر اس رپورٹ میں پاکستان کے سرکاری ترجمان کا یہ عزم بھی درج ہے کہ:
جب ایک باقاعدہ منتخب جمہوری حکومت تین دفعہ یہ کہتی ہے کہ یہ نہ کرو اور امریکا وہی کرتا رہتا ہے ، تو اس سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔ ان ڈرون حملوں سے دہشت گرد ہلاک ہوسکتے ہیں، لیکن اصل نقصان آزادی اور جمہوریت کا ہوتا ہے۔
پاکستان نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ اس کی سرحدوں کے اندر شدت پسندوں پر امریکا کے ڈرون حملے روک دیے جائیں لیکن واشنگٹن نہیں سمجھ رہا۔ حناربانی کھر نے کہا: ’’ڈرون حملوں پر بات واضح ہے، یعنی ڈرون حملوں کا مکمل طور پر ختم ہونا۔ میں اس موقف پر قائم ہوں۔ ہم نے پہلے بھی ان کو بہت واضح طور پر بتا دیا تھا لیکن وہ نہیں سنتے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی سماعت بہتر ہوگی‘‘۔ (عرب نیوز، ۲۷؍اپریل ۲۰۱۲ئ)
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے امریکی دوست ہماری خودمختاری اور سرحدات کا احترام کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرون حملے نہ ہوں اور پاکستان کی سرحدات میں کوئی مداخلت نہ ہو۔ (دی نیوز، اسلام آباد، ۲۰جولائی ۲۰۱۲ء ، بحوالہ واشنگٹن پوسٹ)
پاکستان سلالہ کے واقعے پر امریکا سے معافی (apology) سے کم کوئی لفظ قبول نہ کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے موقف سے نہ ہٹے گا اور معافی مانگنے سے کم کے لیے کسی دلیل کو قبول نہ کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایک جامع حکمت عملی بنائی جائے تاکہ مستقبل میں سلالہ جیسا واقعہ پیش نہ آئے۔ (پاکستان ٹوڈے، ۲۰جون ۲۰۱۲ئ)
اب غور طلب امر یہ ہے کہ اواخر مئی اور جون میں وہ کیا انقلاب واقع ہوا کہ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، وزیرخارجہ، وزیردفاع اور پورے برسرِاقتدار گروہ نے سجدۂ سہو کرڈالا اور ’’تھا جو نا خوب‘‘ چشم زدن میں وہ ’خوب‘ بن گیا؟
ا س سلسلے میں سب سے پہلا شوشا اس وقت کے وزیردفاع جناب احمدمختار نے چھوڑا اور یہ انکشاف فرمایا کہ: ’’رسد صرف زمین کے راستے سے بند ہے، فضائی حدود امریکا اور ناٹو کے لیے کھلی ہوئی ہیں اور ان پر کبھی پابندی نہیں لگی‘‘۔ حالانکہ پارلیمنٹ کی قرارداد میں زمینی اور ہوائی ہرراستے کا واضح طور پر ذکر ہے۔ پھر ایک دم کئی وزیروں پر یہ عقدہ کھلا کہ ناٹو اور ایساف میں تو ۴۸ممالک ہیں اور ہم ان سب کی مخالفت کیسے مول لے سکتے ہیں۔ غضب بالاے غضب کہ ان ممالک میں ہمارا دوست ملک ترکی بھی شامل ہے۔ پھر ایک بھرپور مشاعرہ شروع ہوگیااور وزرااور سرکار کا ہم نوا میڈیا یہ راگ الاپنے لگا۔ اس زمانے میں ایک اور موضوع پر سخن طرازی شروع ہوگئی کہ: ’’اصل چیز معافی (apology) ہے۔ ڈرون کا مسئلہ اس سے الگ ہے جس پر جداگانہ بات چیت جاری رکھی جارہی ہے‘‘۔ حالانکہ دونوں میں اصل مسئلہ ملک کی حاکمیت اور سرحدات کی خلاف ورزی کا تھا ، جب کہ خود پاکستانی سفیرصاحبہ نے ۴جولائی کے اعلان سے صرف ۱۴ دن پہلے تک دوسرا موقف اپنائے رکھا۔
پھر اس لَے میں ایک اور لَے یہ شریک ہوگئی کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے جذبات پر نہیں حقائق پر استوار ہوتے ہیں۔ گویا نومبر ۲۰۱۱ء میں ناٹوسپلائی کی بندش، امریکی افواج کے انخلا اور شمسی ایئربیس سے امریکا کی خلاصی وغیرہ تو بس جذباتی فیصلے تھے اور اصل حقائق اب اس قیادت پر کھلے ہیں۔ اور پھر ٹیپ کا یہ بند لگایا گیا کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں ہوتے ، اس کے پاس یہ پیشہ ورانہ مہارت نہیں کہ ایسے معاملات طے کرسکے۔یہ تو صرف انتظامیہ طے کرسکتی ہے۔ یہ بڑی حماقت ہوئی کہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا اور اس طرح قیادت ایک مصیبت میں گرفتار ہوگئی۔ وہ جو پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے اور جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اس اظہارِخیال پر بھی برہم ہیں کہ ’اصل بالادستی دستوراور قانون کی ہوتی ہے اور دستور کے دیے ہوئے اختیارات کے اندر ہر ایک اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا پابند ہے، وہ اب ببانگِ دہل فرما رہے ہیںکہ اس کھڑاگ میں پارلیمنٹ کو اپنی ٹانگ نہیں پھنسانا چاہیے۔
ریکارڈ کی درستی کی خاطر ایک انگریزی اخبار کے اداریے کا یہ حصہ قارئین کی نذر کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ یہ اداریہ اس پورے ذہن کا عکاس ہے جو ایک طرف لبرل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دن رات جمہوریت کی دہائی اور آزادیِ صحافت کا واویلا کرتا ہے، لیکن دراصل مخصوص مفادات کے تحفظ اور ترجمانی کے علاوہ اس کا کوئی کردار نہیں۔ روزنامہ Express Tribune کا ۶جولائی ۲۰۱۲ء کا اداریہ پوری لبرل لابی کے تصورات اور احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس اداریے نے قوم کے لیے جو سبق نکالے وہ بھی پڑھ لیں اور اس دانش وری پر سر دُھنیں:
پاکستان کا پھندوں میں خود جاکر پھنسنے کا ایک طریقہ ہے لیکن اس کو وہ طویل مدت تک نہیں چلا سکتا۔ مئی ۲۰۱۱ء میں، اس بات کا احساس کیے بغیر کہ باہر کی دنیا کو کیسا لگے گا، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر فوج کا صبر جواب دے گیا۔ اور جب نومبر میں سلالہ کاواقعہ پیش آیا تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور غم و غصے کا اظہار کیاگیاجس کو قومی مفادات کے تحت قابو میں رکھنا چاہیے تھا۔ پھر میڈیا کو اجازت دی گئی کہ وہ غیض و غضب کی کیفیت میں آکر ملک میں انتقام کے جذبات کو پھیلائے۔
دوسری غلط بات یہ کی گئی کہ مسئلے کو پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا گیا جہاں قومی غیرت کا ذکر کچھ زیادہ ہی ہونا تھا۔ ریاست کمزور ہو یا مضبوط، اس کی خارجہ پالیسی کو قومی تفاخر کے معاملات سے الگ ہونا چاہیے، تاکہ مدبرانہ سوچ پر عمل کیا جاسکے اور تنازعے سے بچاجاسکے۔
ایک بڑی خرابی یہ ہوئی کہ مختلف مبصرین نے جلد ہی یہ محسوس کیا کہ پارلیمنٹ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تیاری میں دیر لگا رہی ہے۔ یہ انتقام کے اسفل جذبات کے آگے سپرانداز ہوگئی اور اس میں وہ لمحہ گزر گیا جب امریکا پاکستان کے موقف کوتسلیم کرنے پر آمادہ تھا۔
باہمی تنائو کے اس عرصے میں پاکستانی اپنے زیادہ اہم بحران کو بھول گئے اور امریکا کی معافی پر یکسو ہوگئے۔ان کا خیال تھا کہ اس سے خود ہی انتہائی تذلیل ہوگی۔ کیا اس میں پاکستان کے لیے کوئی سبق ہے؟ ہاں، تین سبق ہیں: غیرت کے جذبات میں نہیں بہنا چاہیے، کیونکہ ریاستیں ایسا نہیں کرتیں۔ سفارت کاری کو پارلیمنٹ کے حوالے مت کرو، کیونکہ اس سے لازماً حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ اور چاہے کچھ بھی ہو، خود کو دنیا میں تنہا نہ کرو کیونکہ آج کے بین الاقوامی قانون میں تنہائی شکست کا دوسرا نام ہے۔
حکومت کے نمایندوں اور اس کے ہم نوا پریس اور الیکٹرانک میڈیا کے تمام ارشادات کا تجزیہ کیا جائے تو چھے نکات سامنے آتے ہیں، جن میں سے ہر ایک نہایت بودا اور تارِعنکبوت کے مانند ہے لیکن انھیں بڑی تعلّی،بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
پہلا دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے اور اس کا درس دیا جا رہا ہے کہ خارجہ اور سلامتی کے امور کے فیصلے جذبات کے تحت نہیں کیے جاتے، ان کے لیے ٹھوس دلائل اور زمینی حقائق کا اِدراک ضروری ہے۔ ہمیں اس اصولی بات سے اتفاق ہے کہ قومی فیصلے محض جذبات کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو فیصلے بھی قوم کے جذبات، قومی خواہشات، عوام کے عزائم، توقعات اور ترجیحات کو نظرانداز کر کے ہوں گے ان کی اہمیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں ہوگی۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکا نہ صرف عراق بلکہ افغانستان میں بھی عملاً یہ جنگ ہارچکا ہے اور اس کے اتحادی ایک ایک کرکے اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ۱۱سال پر محیط اس جنگ میں دنیا کی واحد سوپرپاور نے ۵لاکھ سے زیادہ اعلیٰ ترین ٹکنالوجی اور کیل کانٹے سے لیس فوجی سورما جھونکے اور ۳ہزار ارب ڈالر سے زیادہ پھونک دیے ہیں۔ اس میں نائن الیون کے ۳ہزار ہلاک ہونے والے انسانوں کے انتقام میں عراق، افغانستان اور پاکستان میں ملاکر ۵لاکھ سے زیادہ افراد موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، مگر چند سو القاعدہ کا قلع قمع نہیں ہوسکا۔ اور جنھیں دہشت گرد کہا جارہا تھا وہ آج درجنوں ممالک تک پہنچ گئے ہیں۔ افغانستان کے ۷۰ فی صد زمینی رقبے پر طالبان کا عمل دخل ہے اور وہ جب چاہتے ہیں کابل کے محفوظ ترین علاقوں پر پانچ حفاظتی حصار توڑ کر یا عبور کر کے اقدام کرڈالتے ہیں۔ پاکستان جو نقصانات اُٹھا چکا ہے اور اُٹھا رہا ہے، وہ محض جذباتی گلہ شکوہ نہیں، زمینی حقائق ہیں۔
راے عامہ کے امریکی ادارے Pew ریسرچ سنٹر کے تازہ ترین سروے کی روشنی میں، جو ۲۷جون ۲۰۱۲ء کو شائع ہوا ہے: ’’پاکستان کی آبادی کا ۷۴ فی صد ۲۰۱۲ء میں امریکا کو ایک دشمن ملک سمجھتا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں یہ تعداد ۶۴ فی صد تھی۔ اور جن کی نگاہ میں امریکا ایک ناپسندیدہ ملک ہے، وہ ۸۰ فی صد ہیں۔ اسی طرح ۴۰ فی صد کی نگاہ میں امریکی امداد کے اثرات منفی ہیں۔ ڈرون حملے کی مخالفت کرنے والے ۹۴ فی صد ہیں، جو اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ان ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے عام شہری ہیں۔
پاکستانی عوام اور خواص کا یہ پختہ یقین ہے کہ امریکا اور پاکستان کے عزائم، اہداف اور مفادات متضاد ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک امریکا کی قیادت بھی کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت اور فوج کے رویے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اعتماد میں لینے سے گریز کرتے ہیں اور موقع پاتے ہی چوٹ لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس حکومت کو اس کا اِدراک ہو یا نہ ہو، عوام اس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور امریکا کے اہلِ نظر اس کا کھلے بندوں اعتراف کرتے ہیں، جس کی ایک تازہ مثال وہ مضمون ہے جو مشہور امریکی تجزیہ نگار اسکالر اسٹیفن پی کوہن اور معیدیوسف نے مشترکہ طور پر ۲۱جون ۲۰۱۲ء کی انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کی اشاعت میں لکھا ہے:
یہ بات درست نہیں ہے کہ پاکستان کے شہری اور واشنگٹن پاکستان کی قومی سلامتی کے معاملات کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے شہری پاکستان کے لیے امریکی پالیسی پر فوج ہی کی طرح پریشان ہیں۔
اگر پاکستانی قوم امریکا سے دوستی کو آنکھ بند کر کے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، اور اسے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو وہ حق بجانب ہے، اس لیے کہ اس کے بارے میں امریکا کے جو عزائم اور پالیسیاں ہیں، انھیں پاکستانی قوم اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
امریکا کے بارے میں یہ منفی تصور صرف پاکستان کا نہیں بلکہ یہ پوری دنیا اور خصوصیت سے اسلامی دنیا میں بھی ہے۔Pew ہی کے ۱۰جولائی ۲۰۱۲ء کے سروے میں چند مسلمان ممالک میں امریکا پر اعتماد کی جس کیفیت کی تصویرکشی کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں پاکستان میں امریکا کو ناپسند کرنے والوں کی تعداد ۸۰ فی صد ہے، وہاں ترکی میں ۷۲ فی صد، مصر میں ۷۹ فی صد اور اُردن میں ۸۶ فی صد ہے۔ یہ سب وہ ممالک ہیں جنھیں امریکا کا دوست ترین ملک کہا جاتا ہے اور جہاں کے حکمرانوں کی امریکی حکمرانوں سے گاڑھی چھنتی ہے۔
ڈیوڈ سانگر جن کا حوالہ ہم اُوپر دے چکے ہیں، مصر کے حالیہ انقلاب کے بعد وہاں کی جو فضا ہے اور جس کا تازہ ترین مظہر ہیلری کلنٹن کے دورے کے موقع پر اسکندریہ کا مظاہرہ تھا، وہاں کی تمام ہی انقلابی ، اسلامی اور سیکولر قوتوں کے بارے میں موصوف کو جو اِدراک ہوا وہ یہ ہے:
ایک مسئلے پر سب کا اتفاق تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ امریکا حسنی مبارک کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی مصر کے مسئلے کا حصہ ہے۔راینا نے کہا: ’میں سمجھتی ہوں کہ میں امریکا سے لڑ رہی ہوں‘۔ ’فوج امریکا کی بنائی ہوئی ہے۔ مبارک امریکا کا بنایا ہوا تھا۔ امریکا کی مالی امداد عوام تک نہیںجاتی‘۔
مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ افغانستان میں امریکی جنگ جلداز جلد ختم ہو اور وہاں سے غیرملکی افواج کا مکمل انخلا واقع ہو، تاکہ افغانستان اور علاقے میں امن کا حصول ممکن ہوسکے۔ جنگ ختم کرنا اور مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے۔ اس کے سوا جو راستہ اختیار کیا جائے گا وہ تباہی کا راستہ ہے۔ نومبر ۲۰۱۱ء میں جو فیصلہ قوم نے کیا تھا اور جس پر قوم کے ہرطبقے کو اطمینان تھا اور جس کی بھرپور تائید برسرِاقتدار جماعتوں اور حزبِ اختلاف نے کی، وہ حقائق پر مبنی تھا محض جذبات پر استوار نہیں تھا۔ اس اقدام کی پارلیمنٹ نے قوم کے جذبات اور پاکستان کے مفادات اور عزائم کو سامنے رکھ کر توثیق کی اور ان کو آگے بڑھاتے ہوئے حالات میں تبدیلی کے راستے کی نشان دہی کی۔ اسے جذباتیت قرار دے کر اسی گھسی پٹی امریکی لائن کو آگے بڑھانے کو عقلیت اور حقیقت پسند قرار دینا حقائق سے انکار اور قوم کے عزائم اور ترجیحات کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔
اس بحث کا ایک اور دل چسپ شوشا بڑے طمطراق سے چھوڑا جا رہا ہے کہ: ’’عقل اور فراست کے تمام متوالوں کے ارشاداتِ عالیہ کو نظرانداز کر کے ان لوگوں کی باتوں کو اہمیت دی جارہی ہے جو محض غیرت کے نام پر ملک کو کسی تصادم کی طرف لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔ کون تصادم کی طرف لے جارہا ہے اور کس نے اس ملک کو ایک تصادم نہیں بلکہ تصادموں کے ایک سلسلے میں جھونک دیا ہے؟ ایک قابلِ تحقیق امر ہے، لیکن ان تمام افراد اور اداروں بشمول پارلیمنٹ کو مطعون کرنا جو قوم و ملک کی آزادی، عزت و ناموس اور خودمختاری، شناخت کی حفاظت اور اس کے لیے ہرقربانی کے لیے آمادگی کا عزم رکھتے ہیں، صرف بے غیرتی ہی نہیں ایک قومی جرم ہے۔
ایمان اور عزت و ناموس وہ قیمتی متاع ہیں، جن کے لیے جان کی بازی لگانا زندگی کی سب سے بڑی معراج ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ جس قوم میں اخلاقی حُسن اور عزتِ نفس باقی نہ رہے، وہ پھر غلاموں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ جس کو اپنی آزادی، عزت اور شناخت عزیز ہو وہ بڑی سے بڑی استعماری طاقت سے بھی ٹکر لیتی ہے اور بالآخر اسے پاش پاش کردیتی ہے۔ خود ہمارے اس عہدِحیات میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک کابڑی بڑی مضبوط اور دیوہیکل استعماری قوتوں کے چنگل سے آزادی حاصل کرلینا ایک زندہ حقیقت ہے۔ تیونس اور مصر میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اور شام میں جو معرکہ برپا ہے وہ آزادی اور عزت ہی کے حصول کی خاطر ہے۔ لیکن افسوس ہمارے نام نہاد آزاد خیال اور لبرل طبقے کا حال یہی ہے کہ ع
حمیّت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
قائداعظمؒ نے مارچ ۱۹۴۸ء میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کے اجتماع میں اپنے صدارتی خطاب کو جن الفاظ پر ختم کیا تھا وہ ایمان، اخلاق، عزتِ نفس، نظریاتی اور ثقافتی شناخت یا بہ الفاظ دیگر اس شے لطیف کے بارے میں تھا، جسے ایک لفظ میں ’غیرت‘ کہتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا:
جس اہم مقابلے میں ہم مصروف ہیں وہ نہ صرف مادی فوائد کے لیے ہے بلکہ وہ مسلم قوم کی روح کی بقا کے لیے بھی ہے۔ اسی لیے میں نے بسااوقات یہ کہا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے، سودے بازی کی بات نہیں۔ مسلمانوں کو اس بات کا پورا احساس ہوچکا ہے۔ اگر ہم اس جدوجہد میں ہار گئے تو سب کچھ کھو جائے گا۔ ولندیزی ضرب المثل کے مصداق ہمارا موٹو یہ ہونا چاہیے: ’’دولت کھوئی تو کچھ نہیں کھویا، حوصلہ کھویا تو کافی کچھ کھویا، عزت کھوئی تو بہت کچھ کھویا، روح کھوئی تو سب کچھ کھو دیا!!‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد دوم، ص ۴۵۵)
دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں پارلیمنٹ کو کیوں گھسیٹ لیا گیا وہ تو اس کی اہل ہی نہیں۔ بلاشبہہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مختلف اداروں اور مختلف علوم پر مہارت رکھنے والوں کا کردار ناقابلِ تردید ہے۔ لیکن جمہوریت جہاں قانون کی حکمرانی کا نام ہے، وہیں پالیسی سازی میں عوام کی مرضی،ان کے عزائم، ترجیحات اور خواہشات کو بھی ایک فیصلہ کن حیثیت دیتی ہے۔ پاکستان کے دستور میں خارجہ پالیسی کے اصولی نکات درج ہیں اور اس سلسلے میں دفعہ ۴۰ بڑی محکم ہے۔ اور یہ بھی دستور نے لازم کیا ہے کہ ہرسال حکومت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو مطلع کرے کہ پالیسی کے اصولوں پر کہاں تک عمل ہوا ہے۔
دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے تمام اہم پہلوئوں پر گفتگو ، تبصرے اور پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیاں خارجہ پالیسی اور سلامتی کے متعلقہ امور پر نہ صرف نگرانی (oversight) کی ذمہ داری ادا کرتی ہیں بلکہ احتساب اور censor بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔ امریکا میں تو دستور صدرِمملکت کو پابند کرتا ہے کہ جنگ کا کوئی فیصلہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا۔ معاملات جنگ کے ہوں یا صلح و امن کے، دوستی کے ہوں یا کش مکش اور تصادم کے، پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیاں تمام امور کے بارے میں اپناکردار ادا کرتی ہیں۔ صرف اصول اور کلیدی معاملات میں نہیں بلکہ بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات تک پر نہ صرف بحث کرتی ہیں بلکہ فیصلہ تک کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ یہ جو ایک ایک ملک کو معاشی امداد اور فوجی امداد کے سلسلے میں پارلیمنٹ سے رجوع کیا جاتا ہے اور اس کی کمیٹیوں کی کارروائی کے بعد ہائوس میں ووٹ کے ذریعے ایک ایک ڈالر کا معاملہ طے کیا جاتا ہے، یہ پارلیمنٹ کا خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور میں کردار نہیں تو کیا ہے؟
تیسرا ارشادِ گرامی یہ ہے کہ پاکستان امریکا سے نہیں لڑسکتا، اس کے لیے امریکا سے دوستی کے سواکوئی چارہ نہیں۔ امریکا کو آنکھیں دکھانا ایک غلطی تھی اور اب اس کی سزا ہم کو بھگتنا پڑے گی۔ اچھا ہوا کہ سات مہینے ہی میں ہماری آنکھیں کھل گئیں، ورنہ اور بھی تباہی ہمارا مقدر ہوتی۔
اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ تباہی سے ہم بچ گئے ہیںیا ایک نئی تباہی کے منہ میں داخل ہوگئے ہیں، اور ۴جولائی کے بعد سے ان چند دنوں ہی میں کتنے نئے حملے ہمارے مظلوم شہریوں پر ہوئے ہیں، اور ہمارے خلاف کتنے نئے محاذ (بشمول افغانستان کی طرف سے محاذ آرائی) کھولنے کا بار بار اعادہ ہورہا ہے؟ ان تمام مسائل کے اصولی پہلوئوں پر گفتگو کرنا ہرعاقل پاکستانی کا فرضِ منصبی ہے۔ مگر حکمران طبقہ یہ کہتا ہے کہ عوام اور عوام کے منتخب نمایندوں کا ان بحثوں سے بھلا کیا تعلق؟
بہرحال یہ شوشے اور ارشادات جن مفروضوں پر مبنی ہیں، وہ خام اور ناقابلِ التفات ہیں اور صرف شکست خوردہ اور غلامانہ ذہنیت کے غماز ہیں۔
دوستی اور غلامی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دوستی کا کون منکر ہے، بات دوطرفہ تعلقات اور برابری کی بنیاد پر تعلقات کی ہے۔ حقیقی دوستی اعتماد پر مبنی ہوتی ہے اور مقاصد، اقدار اور مفادات کے اشتراک سے اسے مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔ امریکا سے اچھے تعلقات کا کوئی مخالف نہیں ہے، لیکن کوئی وجہ تو ہے کہ دنیا میں صرف دو ملکوں کو چھوڑ کر، یعنی اسرائیل اور بھارت، کسی ملک کے عوام بھی امریکا پر بھروسا نہیں کرتے۔ اس کی دوستی کے دعوئوں کو اس کے الفاظ کی بنیاد پر نہیں پرکھتے بلکہ دوستی کے پردے میں جو کھیل وہ عالمی میدان میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے کھیل رہا ہے، اس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ ع
ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
دنیا بھر میں امریکا سے بے زاری کیوں ہے؟ ٹکنالوجی پر اس کی دست رس، معاشی وسائل میں فوقیت اور بہ نظر ظاہر اس کی جمہوری اقدار اور اداروں کی وجہ سے نہیں، اس کی ان پالیسیوں کی وجہ سے ہے جن کے نتیجے میں دنیا کے ہر گوشے کے لوگ اس کے ظلم و ستم کا نشانہ ہیں اور اس کے اس کردار پر برافروختہ ہیں۔ وہ امریکی استعمار کے خلاف برسرِپیکار ہیں اور برملا کہہ رہے ہیں کہ ع
جہاں سے اُٹھا ہے جو بھی فتنہ، اُٹھاتیری رہ گزر سے پہلے
امریکا کی خارجہ سروس کے ایک اعلیٰ عہدے دار پیٹر فان بورین نے ۲۳سال تک تائیوان، جاپان، کوریا، عراق، انگلستان اور ہانگ کانگ میں سفارتی خدمات انجام دی ہیں، اس نے عراق میں امریکا کے مجرمانہ کردار کی تفصیلی داستان اپنی تازہ ترین کتاب We Meant Wellمیں بیان کی ہے۔ یہ کہانی صرف عراق کی نہیں، افغانستان، پاکستان، مصر، شام، اُردن سب کا یہی حال ہے۔
پیٹر بورین الجزیرہ کے ویب پیج پر اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی صدر کی جو تصویرکشی کرتا ہے، ڈرون حملوں سے زخم خوردہ ہر پاکستانی کا تصور بھی اس سے مختلف نہیں۔
ہمارے وقت کی سادہ حقیقت یہ ہے کہ صدر نے اپنے آپ کو (اور اپنے مشیروں کو اور جو ان کے احکامات کی تعمیل کریں ان کو) قانونی اور اخلاقی ہرلحاظ سے قانون سے بالاتر قرار دے دیا ہے۔ اب ان کو اور صرف ان کو تنہا یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ڈرون حملوں سے کون ہلاک ہوگا اور کون زندہ رہے گا۔ وہی میڈیاتقسیم کاروں کو خفیہ اطلاعات سے نوازیں گے یا ان صحافیوں کی پٹائی لگائیں گے جو ان کو اور ان کے ساتھیوں کو مقدمات سے پریشان کرتے ہیں اور بدترین بات یہ ہے کہ وہ خود ہی یہ طے کریں گے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے۔
نوام چومسکی امریکا کی ایک مشہور یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے، وہ امریکی لغت کے مطابق نہ کوئی اسلامی فنڈامنٹلسٹ ہے اور نہ القاعدہ کا ہمدرد، وہ برطانوی ہفت روزہ New Statesman میں ایک انٹرویو میں امریکی صدر اوباما کے بارے میں اپنے کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہے کہ:
اوباما نے خود اپنا جو تشخص بنایا ہے، (آج کل اس کے لوگ جارحانہ انداز میں اُسے اور بڑھا رہے ہیں) وہ ایک قاتل کا ہے جو’دہشت گردوں‘ اور ان کے ساتھیوں کو ختم کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگتا ہے۔
وہ اس وقت بھی جنگی جرائم میں مبتلا ہے۔ مثال کے طور پر ہدف زدہ ہلاکتیں جنگی جرائم ہیں۔ ان میں اوباما کے دور میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ شہریوں پر حملوں کی بھی متعدد مثالیں ہیں۔ (نیواسٹیٹس مین، ۱۳ ستمبر ۲۰۱۰ئ)
امریکا سے دو طرفہ دوستی اور اور سیاسی اور معاشی تعلقات کا کوئی مخالف نہیں۔ ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ ان تعلقات کو ان حدود کے اندر ہونا چاہیے، جو آزاد اور خودمختار ممالک کے درمیان ہوتے ہیں اور مشترک مقاصد اور ایک دوسرے کی حاکمیت، خودمختاری اور مفادات کے احترام کے فریم ورک کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے بالکل صاف الفاظ میں کہی ہے، جس کی تائید پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اتفاق راے سے کی گئی ہے لیکن افسوس ہے کہ وہ نہ امریکا کو قبول ہے اور نہ پاکستان میں امریکی لابی اسے ہضم کرپارہی ہے۔
رہا تصادم کا راستہ، تو وہ اگر کسی نے اختیار کیا ہے تو امریکا ہے۔ وہ قوت اور جبر کے تمام حربوں، دھونس اور بلیک میل کے تمام ہتھکنڈوں اور میڈیا اور پروپیگنڈے کی پوری یلغارکے ساتھ اپنی پالیسیاں دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے اور کر رہا ہے۔ وہ مظلوم اقوام کو ظلم اور قوت کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے کے حق کو تصادم کا نام دیتا ہے۔ ہماری مخالفت امریکا کی غلامی اور اپنے قومی مفادات کو قربان کر کے اس کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے حوالے سے ہے۔ مناسب حدود میں عزت و احترام کے ساتھ تعلقات کے ہم بھی خواہاں ہیں، لیکن کیا امریکا اس کے لیے تیار ہے؟ اور اگر وہ تیار نہیں، جیساکہ ظاہر ہے تو پھر ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عوام کے جذبات کی پاس داری کے لیے اس کے آگے سپر نہ ڈالیں۔
ہم اس میدان میں تنہا نہیں ہیں۔ دنیا کے کم قوت رکھنے والے ممالک نے بھی عزت اور آزادی کا راستہ اختیار کیا ہے اور امریکا اپنی تمام اکڑفوں کے باوجود ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکا۔ جنوبی امریکا کے ممالک میں کیوبا، ارجنٹینا، نیکوروگوائے اور چلّی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایران اور شمالی کوریا نے امریکا کی ہردھمکی اور دست درازی کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور وسائل اور قوت کے فرق کے باوجود اپنی عزت، اپنی آزادی اور اپنے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ امریکا کی ناراضی ہمارے لیے بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ ۱۹۶۵ء ، ۱۹۷۱ئ، ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۸ء میں ہم اس کا بھرپور تجربہ کرچکے ہیں اور اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور امریکا کے ناروا مطالبات کے آگے جھکنے سے انکار کرچکے ہیں۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ ۱۹۹۹ء میں پاکستان، لیبیا کے بعد سب سے زیادہ پابندیوں میں جکڑا ملک تھا مگر ہم نے اس دور کو بھی بحسن و خوبی گزار دیا۔ آج بھی قیامت نہیں ٹوٹے گی اور عراق اور افغانستان کے بے سروسامان عوام نے مزاحمت اور امریکا کے دانت کھٹے کرنے کی جو نظیر قائم کی ہے، وہ دوسروں کے لیے نشانِ راہ ہے۔ چین نے اپنی ہوائی حدود کی خلاف ورزی پر امریکی جہاز کو اُتار لیا تھا اور امریکا کے واضح معافی کے بغیر جہاز کا ملبہ بھی واپس نہ کیا۔ ایران نے حال ہی میں امریکی ڈرون اُتار لیا اور واپس کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ کیا غلامی اور چاکری صرف ہمارے ہی مقدر میں لکھی ہے اور کیا اپنے مفادات کا تحفظ، تصادم اور اعلانِ جنگ کا درجہ رکھتے ہیں؟
ہمارا اصل مسئلہ باصلاحیت اور دیانت دار قیادت کا فقدان ہے، ورنہ قوم میں بڑی جان ہے اور وسائل کی بھی کمی نہیں۔ جس ملک میں قومی ادارئہ احتساب (NAB) کے سربراہ کے الفاظ میں ہر روز ۶ سے ۸ ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہو، اس کے بارے میں وسائل کی کمی کی بات تو نہیں کی جاسکتی۔ اور ملک اچھی حکمرانی کے فقدان، امن و امان کی تباہ شدہ حالت، امریکا کی ساری ریشہ دوانیوں اور کرپشن کے اس طوفان کے باوجود زندہ رہ سکتا ہو اور تین سے چار اشاریہ کی رفتار سے جی ڈی پی میں اضافہ بھی کرسکتا ہو، اور جس کے بیرونِ ملک سے پاکستانی محنت کش ہر سال ۱۲سے ۱۵؍ ارب ڈالر بھیج رہے ہوں، وہ ایسی خارجہ پالیسی پر کیوں کاربند نہیں ہوسکتا جو آزادی اور عزت کی حفاظت کرسکے، اور سب سے دوستی اور برابری کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی تعلقات استوار کرنے میں ممدومعاون ہوسکے ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
چوتھی بات اس سلسلے میں یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’پاکستان ساری دنیا سے کٹ کر ترقی نہیں کرسکتا ،اور اگر ہم امریکا کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرتے تو ایک نہیں ۴۹ممالک کی مخالفت مول لینا ہوگی‘‘۔ پہلا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس قیادت اور ان دانش وروں کو یہ اطلاع کب ملی کہ افغانستان میں صرف امریکا نہیں مزید ۴۸ ممالک برسرِعمل ہیں۔ کیا یہ ممالک ۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء سے پہلے وہاں نہیں تھے یا ۲۷ نومبر کے فیصلے کے وقت آپ کے علم میں یہ نہ تھا۔ ۲۷نومبر کے فیصلے کے بارے میں تو ایک آواز بھی اختلاف کی نہ اُٹھی اور حکومت اور اس کے اتحادی بڑے فخر سے اس کا کریڈٹ لے رہے تھے۔ پھر یہ سارے انکشافات کب ہوئے؟ کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے؟
دوسرا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم ان ممالک سے کب برسرِپیکار ہیں اور ان سے اُلجھنے کی کون دعوت دے رہا ہے۔ یہ ممالک تو خود افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے بے چین ہیں۔ اسپین اور اٹلی نکل چکے ہیں، فرانس سارے دبائو کے باوجود دسمبر ۲۰۱۲ء تک نکلنے کے عزم پر قائم ہے۔ بہت سے ممالک صرف براے وزنِ بیت وہاں ہیں اور الحمدللہ بحیثیت مجموعی سب ہی سے ہمارے اچھے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات ہیں۔ یہ بھی صرف ایک مجرمانہ مغالطہ انگیزی ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔
پانچویں بات کا تعلق پاکستان کے اپنے معاشی حالات سے ہے اور کہا جا رہا ہے کہ: ’’ہم ان حالات میں امریکا سے کسی قسم کے کھچائو کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘‘۔ یہاں بھی یہ سوال اہم ہے کہ معاشی اثرات اور نتائج کا انکشاف کب ہوا؟ کیا ۲۰۱۱ء میں حالات بہت مختلف تھے؟ اگر نہیں تو صرف ان حالات کا حوالہ دے کر ایک ایسی پالیسی کے لیے جواز کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے، جو ہردوسرے اعتبار سے خسارے کا سودا ہے۔ لیکن دوسرا زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ معیشت کی اس خراب صورت حال میں حکومت کی غلط پالیسیوں، بہتر انتظامی صلاحیت کے فقدان، نااہلی اور بددیانتی کا کتنا حصہ ہے اور اس معاشی فساد میں بیرونی اسباب کا کیا کردار ہے؟ پاکستان کے عوام کا یہ تجزیہ سامنے آگیا ہے کہ ۴۰ فی صد کی نگاہ میں امریکی امداد کے نہ صرف یہ کہ کوئی مثبت اثرات نہیں نکلے ہیں، بلکہ منفی اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔ اس میں اگر دہشت گردی میںجنگ کی شرکت کی وجہ سے جو ہرسال ۱۰ سے ۱۱؍ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اس سے بچا جائے تو معیشت کے بحران سے نکلنا آسان اور تیزتر ہوسکے گا۔ اگر ہم اپنی معاشی حماقتوں اور تباہ کن فیصلوں کا سدِّباب کرلیں تو معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا مشکل نہیں ہے۔ صرف کرپشن پر قابو پاکر اس خسارے کو ایک بڑی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے۔ نیز ہم یہ بات بھی کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قومیں اپنی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عزت کے تحفظ کے لیے معاشی قربانیاں بھی دینے کو غلامی اور محکومی کی زندگی پر ترجیح دیتی ہیں، بلکہ اقبال نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ؎
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
یہ محض شاعرانہ تعلّی نہیں، آزاد اور خوددار قوموں کا شعار ہے، اور دنیا میں کوئی بڑا کام اگر کسی نے کیا ہے تو وہ وہی لوگ ہیں جو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور اپنے نظریات کے مطابق زندگی کی تشکیل کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں، اور ان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث میں
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
اس سلسلے کی چھٹی بات یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’دیکھو ہم نے امریکا سے معذرت تو حاصل کرلی، کیا ہوا اگر کوئی اور بات نہ منوا سکے۔ بات چیت تو جاری ہے۔ ہیلری کلنٹن نے جو اظہارِافسوس کردیا ہے ،وہ نئی شروعات کے لیے کافی ہے‘‘۔
حکومت اور اس کے ہم نوا جو دلیلیں دے رہے ہیں ان میں سب سے کمزور اور شرم ناک دلیل یہی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اس کا جائزہ پارلیمنٹ کی قرارداد کی روشنی میں لیا جائے، تاکہ قوم کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح آجائے کہ اس قیادت نے پارلیمنٹ کی خلاف ورزی کرکے کس بے تدبیری اور کج فکری اور اخلاقی دیوالیے پن کے ساتھ امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں اور ملک و قوم کو غلامی کے ایک بدتر جال میں پھنسایا جا رہا ہے، جس سے نکلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹی پر دو الزامات پوری دریدہ دہنی سے لگائے جارہے ہیں، جن کا مقصد پارلیمنٹ کی اہلیت اور اس کی دی ہوئی رہنمائی کو بے وقعت کرنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ: ’’پارلیمنٹ نے وقت ضائع کیا اور امریکا سے معاملات کو درست کرلینے کا جو کام جھٹ پٹ ہوجانا چاہیے تھا وہ غیرمعمولی تعویق کا شکار ہوگیا‘‘۔اصل حقائق کیا ہیں ذرا ان کو بھی دیکھ لیں۔
۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعے کے بعد اسی شام کو کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی نے ان اقدامات کا اعلان کیا، جن کے نتیجے میں ناٹو کی سپلائی بند کردی گئی، شمسی ایئربیس کو خالی کرا لیا گیا، امریکی فوجیوں اور آپریشن کی ایک تعداد کو واپس بھیج دیا گیا اور امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کا عمل شروع ہوا۔ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کو نئی پالیسی کے خطوطِ کار تجویز کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔
چنانچہ ۲۸نومبر کے کابینہ کے اجلاس نے اس تجویز کی توثیق کی اور وزیراعظم نے ۳۰نومبر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سیکرٹریٹ کو اس پر عمل کی دعوت دی۔ کمیٹی نے ۳دسمبر کو پہلا اجلاس منعقد کیا اور خود وزیراعظم، متعلقہ وزرا اور سروسز کے نمایندوں نے بریفنگ لی اور اپنے کام کا منصوبہ تشکیل دیا۔ ۱۵ دسمبر سے ۵جنوری تک کمیٹی نے آٹھ اجلاس منعقد کیے، جن میں تمام متعلقہ اداروں اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین سے تفصیلی بریفنگ لی، اور ۵جنوری کو اپنی ابتدائی سفارشات کا مسودہ تیار کر کے وزارتِ دفاع، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ خزانہ کو ان کے تبصرے کے لیے بھیج دیا، تاکہ وہ اپنے اپنے دائرے میں فنی اعتبار سے تجاویز کو جانچ پرکھ لیں۔ ان کے تبصروں کی روشنی میں کمیٹی نے ۱۱جنوری کو، یعنی ۴۰ دن کے اندر اندر اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے کر ۱۲جنوری کو اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیج دیا۔ باقی جو بھی تاخیر ہوئی ہے اس کی ذمہ داری حکومت پر ہے جس نے اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کو بلانے میں غیرضروری تاخیر کی اور پھر اجلاس کے دوران کمیٹی کی تجاویز کو تبدیل کرانے کی کوشش کی، جو پوری طرح کامیاب نہ ہوسکی۔ بالآخر پارلیمنٹ نے وسط اپریل میں سفارشات منظور کرلیں۔ لیکن نہ صرف یہ کہ حکومت نے ان پر عمل نہیں کیا بلکہ جو کچھ ۳اور۴جولائی کو ہوا، وہ ان سفارشات کی بلااستثنا خلاف ورزی ہے۔ ان سفارشات کا کیا حشر ہوا اور پارلیمنٹ کی بھی اس حکومت نے اسی طرح خلاف ورزی کی جس طرح عدالت ِ عالیہ کے احکامات اور فیصلوں کی کررہی ہے، یعنی ۴۱فیصلے عدالت عظمیٰ اور عدالت ہاے عالیہ کے ہیں جن پر عمل نہیں ہوا، اور ۴۰سفارشات پارلیمنٹ کی ہیںجنھیں عملاً دریابُرد کردیا گیا۔
ہم حکومت کے اس شرم ناک کارنامے پر مزید گفتگو کرنے سے پہلے چاہتے ہیں کہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے کام پر جو دوسری تنقید کی جارہی ہے اس کے بارے میں بھی صحیح صورت حال قوم کے سامنے رکھیں۔ کمیٹی نے صرف اپنے ارکان کی مہارت اور بصیرت پر انحصار نہیں کیا بلکہ حکومت کے متعلقہ اداروں کے سربراہوں اور ماہرین سے بھرپور استفادہ کیا۔ حالات کو سمجھتے ہوئے بھی اور ایسی تجاویز مرتب کرنے کے مقصد کے حصول کے لیے بھی جو پروفیشنل اعتبار سے کسی طور بھی کمزور نہ ہوں ہرطرح سے کوشش کی۔ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ افسران ، سفیروں کی کانفرنس کی تجاویز، وزارتِ دفاع کے ماہرین کی آرا، وزارتِ خزانہ کے متعلقہ افراد بشمول وزیرخزانہ اور سیکرٹری خزانہ سب کو مشاورت میں شریک رکھاگیا۔ مجوزہ تجاویز کو بھی ایک بار پھر متعلقہ وزارتوں کے تبصرے کے لیے بھیجا گیا۔ اسی طرح ملک میں امورِخارجہ، امورِ معیشت اور امورِ دفاع کے جو بھی ماہرین موجود ہیں، ان سے کسی نہ کسی حد تک بڑے محدود وقت میں استفادہ کیا گیا۔
پارلیمنٹ نے سفارشات کو جس آخری شکل پر منظور کیا وہ ۱۶نکات پر مشتمل ہیں اور ان میں ۳۸ متعین سفارشات ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق اصولی ہدایات سے ہے، کچھ میں متعین اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، اور کچھ میں اس طریق کار کی نشان دہی کی گئی ہے جس پر عمل کرنے سے خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور زیادہ مؤثر انداز میں ادا کیے جاسکتے ہیں۔
ہم پہلے طریق کار کے اُمور کو لیتے ہیں جن پر سفارشات کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ کمیٹی کو تفصیلی جائزے کے دوران محسوس ہوا کہ حکومت کا نظام بڑی بے تدبیری سے چل رہا ہے اور فیصلے کرنے کے طریقے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں تین بڑی اہم کمزوریاں کمیٹی نے محسوس کیں:
۱- بہت سے اہم فیصلے زبانی کیے گئے ہیں،ان پر عمل بھی ہوگیا ہے، مگر نہ ان فیصلوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ ہے، نہ وہ دلائل اور معاہدے صفحۂ قرطاس پر موجود ہیں جن کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہوا ہو اور نہ اس کی کوئی خبر ہے کہ اس فیصلے میں کون کون شریک تھا۔کمیٹی نے سفارش کی کہ آیندہ ہر فیصلہ اور معاہدہ تحریری طور پر کیا جائے۔ اس کے سارے حقائق اور دلائل ضبطِ تحریر میں لائے جائیں۔ فیصلے میں شرکا کا بہ صراحت ذکر ہو اور یہ تمام سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہوں۔
۲- دوسری بات جو کمیٹی کے لیے اچنبھے کا باعث تھی وہ یہ کہ کسی بھی اہم فیصلے، معاہدے یا کسی پالیسی کے بناتے وقت اس مسئلے کے سلسلے میں جو بھی متعلقہ وزارتیں ہیں ان میں مشورہ اور ربط و تعاونِ باہمی (coordination) مجرمانہ حد تک کم ہے۔ خارجہ امور کے کتنے ہی معاملات ہیں جو دفترخارجہ کے علم میں لائے بغیر طے کردیے گئے ہیں۔ کتنے ہی معاہدے ہیں جن کا بغور جائزہ (vetting) وزارتِ قانون اور وزارتِ خارجہ نے نہیں لیا، اور کتنے ہی ایسے ہیں جن کے مالیاتی واجبات یا نتائج کے بارے میں وزارتِ خزانہ کو پہلے سے کوئی اطلاع نہیں اور نہ ان کو طے کرنے میں اس وزارت کا کوئی دخل ہی ہے۔کمیٹی نے تجویز کیا کہ ایسے تمام اُمور نہ صرف تحریری طور پر طے کیے جائیں بلکہ ان کے طے کرنے سے پہلے اور اس عمل کے دوران تمام متعلقہ وزارتوں کو شریک کیا جائے، اور خارجہ اُمور سے متعلق جو بھی فیصلے یا معاہدے ہوں وہ وزارتِ خارجہ ہی کے ذریعے ہوں۔
۳- تیسری بڑی کمی پارلیمنٹ اور ان کے اداروں کا عدم باہمی تعامل تھا جو معروف جمہوری اقدار و روایات کے بالکل منافی ہے ۔ پارلیمانی نگرانی اور پارلیمانہ مرحلہ بہ مرحلہ جائزہ دستور کا تقاضا ہے اور جمہوری عمل کا ناقابلِ انقطاع حصہ ہے۔ اس کے لیے تجویز کیاگیا کہ متعلقہ عناصر (تمام اسٹیک ہولڈرز) سے مشاورت کے بعد جو بھی معاہدے طے ہوں اور فیصلے لیے جائیں ان کو پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کے علم میں تحریری طور پر لایا جائے، اور ان معاہدات اور فیصلوں کے بارے میں جو مرکزی اصول اور مقاصد ہیں ان سے متعلقہ وزیر پارلیمنٹ کے فلور پر پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لے۔ نیز معاہدے کوئی فرد نہ کرے بلکہ مرکزی کابینہ ان کو باقاعدہ منظور کرے۔
یہ تینوں سفارشات بڑی اہم اور دُور رس نتائج کی حامل ہیں لیکن ان سب کو ۳؍۴جولائی کے ڈرامائی اقدام میں نظرانداز کردیا گیا ہے۔
اخبارات کی اطلاع کے مطابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے ۳جولائی کی رات اور ۴جولائی کی صبح کو امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں انھوں نے ۲۶نومبر کے امریکی جارحانہ حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں پر اپنے ’گہرے تاسف ‘ (deepest regrets) کا اظہار کیا اور ان کے ورثا کے لیے تعزیت کے کلمات ارشاد فرمائے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی وزیرخارجہ نے ان کو یہ مژدہ سنادیا کہ ہم نے آپ کی اور ناٹو کی سپلائی لائن کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ان پر فوری عمل ہورہا ہے۔ بظاہر فیصلہ۴جولائی کی رات کو کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی میں ہوا جس کی توثیق دو دن کے بعد کابینہ نے کی مگر اس فیصلے کی اطلاع امریکی سیکرٹری خارجہ کو فیصلے کے کیے جانے سے ۱۴گھنٹے پہلے ہی دے دی گئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل فیصلہ کس نے کیا اور امریکی آقائوں کو اس کی اطلاع محض دفاعی کمیٹی نہیں بلکہ کابینہ کے فیصلے سے پہلے کیسے دے دی گئی؟ اور فیصلہ بھی ایسا جسے صرف یوٹرن ہی کہا جاسکتا ہے۔
انھی اطلاعات میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی گئی ہے کہ درپردہ مذاکرات چل رہے تھے اور ان میں اصل کارپرداز ہیلری کلنٹن کے ایک معاون تھامس آرنائیڈز اور پاکستان کی طرف سے اس کے وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ تھے۔ معاملات درپردہ انھوں نے طے کیے۔ نام نہاد معذرت کے الفاظ کی صورت گری بھی انھی کے ہاتھوں ہوئی اور باقی تمام قول وقرار، مذکورہ اور غیرمذکورہ بھی انھی کے ذریعے طے ہوئے۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے کے اصل کرتا دھرتا وزیردفاع اور وزیرخارجہ تھے مگر اس ٹیم میں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ وزیرخارجہ صاحبہ غالباً آخری پیغام بر تو ضرور ہیں مگر معاملہ بندی میں ان کا حصہ نظر نہیں آتا۔ پھر یہ پہلو بھی نظرانداز کرنے کے لائق نہیں کہ امریکا کی طرف سے تو خارجہ سیکرٹری کا ایک معاون معاملات طے کر رہا ہے اور پاکستان کی طرف سے ایک وزیرباتدبیر اس ٹیم میں شریک ہیں۔ کیا سفارتی پروٹوکول کا امریکا سے معاملات طے کرنے میں کوئی عمل دخل نہیں؟ معاملہ ناٹو کی سپلائی کھولنے کا تھا، اس کا کیا تعلق وزارتِ خزانہ سے ہے ، جب کہ بظاہر بڑے بڑے مطالبات کے بعد یہ بات طے ہوگئی تھی کہ راہداری کے سلسلے میں امریکا کوئی فیس دینے کو تیار نہیں اور پاکستان کو اسی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا۔ پھر وزیرخزانہ وہاں کیا خدمات انجام دے رہے تھے؟
تیسرا پہلو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے واضح مطالبے کے باوجود کوئی تحریری معاہدہ آج تک وجود میں نہیں آیا ہے۔ دو دن پہلے ہی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی تحریری معاہدہ نہیں، سب حسب سابق زبانی جمع خرچ ہے۔ اس نام نہاد معذرت کی بھی بس اتنی حقیقت ہے کہ ٹیلی فون پر دو خواتین کے درمیان بات ہوئی ہے اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اخباری بیان میں اس کا خلاصہ شائع ہوا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اخباری اطلاعات کے مطابق اب تک کوئی سرکاری نوٹیفیکیشن امریکا سے معاملات طے کرنے کے بارے میں جاری نہیں ہوا۔
ہم ابھی پارلیمنٹ کی سفارشات کے قابلِ عمل(substantive) پہلو کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہے، صرف طریق کار کے نکات پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات حسب سابق ہیں۔ پرنالہ وہیں گر رہا ہے۔ اہم ترین معاملات کو طے کرنے اور معاہدات میں حکومتوں اور قوموں کو جکڑنے کا عمل اسی پرانے اور غیرذمہ دارانہ انداز میں انجام دیا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ فیصلہ کس نے کیا؟ کب کیا؟ کس طرح اس کا اظہار کیا گیا؟ پورے عمل میں کون کون شریک تھا؟ ان سب کا ریکارڈ کہاں ہے اور اصل ذمہ داری کہاں اور کس کی ہے؟
پارلیمنٹ کی بالادستی اور آخری فیصلہ کرنے والے ادارے کے بارے میں دعوے اور چرچے تو بہت ہوتے ہیں لیکن اصل حقیقت بہت تلخ ہے، یعنی ع
وہی ہے چال بے ڈھنگی ، جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے!
۱- اصل مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ازسرِنو جائزہ لے کر اس میں ایسی بنیادی تبدیلیاں لانے کا ہے جو اسے صحیح معنی میں آزاد اور صرف پاکستان کے مقاصد اور مفادات کا پاسبان بنا دیں۔ اس سلسلے میں امریکا سے تعلقات اور ’دہشت گردی‘ کی جنگ میں شرکت میں پاکستان کے کردار کو ازسرِنو مرتب کرنا ضروری ہے اور یہ کام اس طرح ہونے چاہییں کہ جملہ امور ایک تحریری پیکج کی صورت میں طے ہوسکیں۔
حکومت نے اس سلسلے میں کوئی ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا۔ اس ہدایت کے برعکس صرف ایک مسئلے کو (یعنی راہداری کے مسئلے کو) باقی تمام معاملات سے کاٹ کر امریکا کی خواہش کے مطابق طے کرڈالا اور اس طرح پارلیمنٹ کی سفارشات کے اصل مقصد کو کلُی طور پر ناکام کردیا۔
۲- پارلیمنٹ کی سفارش تھی کہ وقت کی اصل ضرورت مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش اور امن کے قیام کے لیے مذاکرات کا آغاز ہے۔ فوجی کارروائیوں کا خاتمہ نہیں تو تعطل ضروری ہے اور تمام متعلقہ افراد اور اداروں (اسٹیک ہولڈرز) کو اس عمل میں شریک کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت نے اسے یکسر نظرانداز کیا اور اس تباہ کن جنگ کو مزید تقویت دینے والے اقدام میں دست تعاون بڑھا دیا۔ جو دروازہ بڑی مشکل سے اور بڑی بھاری قیمت دینے کے بعدبند ہوا تھا، اسے کسی تحفظ کے بغیر دوبارہ کھول دیا گیا تاکہ خون کی ندیاں برابر بہتی رہیں اور ’دہشت گردی‘ کی جنگ جس طرح گرم تھی، اسی طرح نہ صرف گرم رہے اور اس کی زہرناکی اور بھی بڑھ جائے۔
۳- پارلیمنٹ نے ایک نہیں تین بار یہ کہا تھا کہ ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ ہماری اپنی حاکمیت اور سرحدوں کی حفاظت کا ہے۔ ہماری سرزمین پر امریکی نقوش پا (footprints) کسی قیمت پر منظور نہیں۔ ڈرون حملے ہماری حاکمیت، آزادی اور سلامتی پر حملہ ہیں، بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں، ہمارے عام شہریوں کے قتل کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اور امریکا مخالف جذبات کو بھڑکا رہے ہیں۔ اس لیے انھیں فی الفور بند ہونا چاہیے۔ اگر بند نہیں ہوتے تو حکومت ان کو رکوانے اور ان کے خلاف عالمی راے عامہ منظم کرنے کے لیے مؤثر اقدام کرے۔ جو ذرائع بھی اسے حاصل ہیں ان کو ان حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے استعمال کرے اور کم از کم سپلائی کی سہولت کو بالکل بند کردے، تاآنکہ ڈرون حملوں اور پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزیاں ختم کرائی جاسکیں۔
پارلیمنٹ کی قرارداد میں ناٹو کی سپلائی کی بحالی اور ڈرون حملوں کا خاتمہ اور امریکا سے تعاون کے دوسرے اہم اقدامات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے بے تعلق (de-link) نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت نے پارلیمنٹ کے اس واضح اور اہم ترین مطالبے کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور اس طرح پارلیمنٹ کی توہین کی ہے اور قومی مفادات کے تحفظ میںیکسر ناکام رہی ہے۔
واضح رہے کہ آج خود یورپ اور امریکا میں ڈرون حملوں کے خلاف مؤثر آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ حال ہی میں جنیوا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں روس اور چین سمیت ۲۰ممالک نے باقاعدہ ایک قرارداد کے ذریعے ان کی مذمت کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ایک درجن سے زیادہ ماہرین نے اپنے مضامین اور تقاریر میں بھی ان کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی چارٹر براے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور یہ بات بھی اب پوری صراحت سے کہی جارہی ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے متعلقہ ممالک کی قومی حاکمیت کو پامال کیا جا رہا ہے، نیز تمام غیرمتحارب شہریوں کی ہلاکت جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ اقوام متحدہ کے چوٹی کے دو مشیروں (consultants) نے جو انسانی حقوق کے معاملات کے ذمہ دار ہیں نہ صرف ان حملوں کی مذمت کی ہے بلکہ اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے ذمہ داروں کا احتساب کرے اور بین الاقومی قانون کے احترام کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ عوامی دبائو اور عالمی اداروں کی تحریک پر جرمنی، برطانیہ اور خود امریکا میں ڈرون حملوںکا نشانہ بننے والے غیرمتحارب افراد کے خاندانوں کی طرف سے امریکی، جرمنی اور برطانوی حکومتوں کے خلاف ان کے اس مذموم عمل میں شریک ہونے کے ناتے مقدمات قائم کر دیے گئے ہیں جو اس وقت ان ممالک کی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ پاکستان میں بھی پشاور اور اسلام آباد کی عدالت ہاے عالیہ میں ایسے مقدمات شروع ہوگئے ہیں لیکن حکومت نے ڈرون حملوں کے سوال کو باقی امور سے کاٹ کر پاکستانی قوم کے سینے میں خنجر گھونپا ہے اور امریکا کو قتل و غارت گری اور پاکستان کی حاکمیت اور سرحدی حدود کی پامالی کے لیے کھلی چھٹی دے دی ہے۔ اس جرم میں پہلے اگر حکومت خفیہ طور پر شریک تھی تو اب کھل کر شریک ہوگئی ہے اور مزید حکمرانی کے باب میں اپنی سندِجواز (legitimacy) سے، جو پہلے ہی مشکوک تھی، مکمل طور پر محروم ہوگئی ہے اور پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کے خلاف امریکی اعلانِ جنگ کی حصہ دار بن گئی ہے۔ موجودہ حکومت کے جرائم میں یہ جرم سب سے زیادہ قبیح جرم ہے اور اس حکومت سے جلد از جلد نجات کی جدوجہد کے لیے یہی سب سے مضبوط دلیل ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ قوم کے سامنے پارلیمنٹ کی سفارشات میں سے چند اہم حصے رکھیں تاکہ اس حکومت کی دریدہ دہنی ، پارلیمنٹ کی توہین اور ملک و قوم سے بے وفائی کی حقیقی تصویر سب کے سامنے آجائے۔
پارلیمنٹ کی سفارشات کی پہلی شق یہ تھی کہ: ’’پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اور یہ کہ ’’امریکا سے تعلقات دونوں ریاستوں کی خودمختاری، آزادی اور سرحدات کے باہمی احترام پر مبنی ہوں گے‘‘۔
۱- پاکستان کی سرحدوں کے اندر ڈرون حملوں کا خاتمہ۔
۲- پاکستانی سرحد کے اندر نہ گرم تعاقب (hot pursuit) ہوگا اور نہ فوجی آئیں گے۔
۳- غیرملکی نجی سیکورٹی کنٹریکٹرز کی سرگرمیاں شفاف ہوں گی اور پاکستانی قانون کے تابع ہوں گی۔
یہ بات محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈرون حملے اپنے دعویٰ کردہ مقصد کی نفی کرتے ہیں۔ قیمتی جانوں اور جایداد کو ضائع کرتے ہیں۔ مقامی آبادی کو جذباتی اور انقلابی بناتے ہیں۔ دہشت گردوں کے لیے حمایت پیدا کرتے ہیں اور امریکا دشمن جذبات کے لیے ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
اسی طرح پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور ہونے والی ۱۴مئی ۲۰۱۲ء کی قرارداد میں بھی پارلیمنٹ نے واضح الفاظ میں یہ اصول طے کردیا تھا کہ سپلائی روٹ اور ڈرون حملوں کے روکے جانے اور پاکستان کی حاکمیت اور سرحدوں کے تقدس کی پامالی میں ایک لاینفک تعلق ہے:
(یہ ایوان) پُرزور طور پر کہتا ہے کہ یک طرفہ اقدامات جیساکہ امریکی افواج نے ایبٹ آباد میں کیے اور پاکستان کی حدود میں مسلسل جاری ڈرون حملے نہ صرف ناقابلِ قبول ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں، بین الاقوامی قانون اور انسانی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور ایسے ڈرون حملے فوراً روک دیے جانے چاہییں۔ حملے بند نہ کیے جانے کی صورت میں حکومت مجبور ہوگی کہ ضروری اقدامات کرے بشمول ناٹوسپلائی کی جو سہولت دی گئی ہے اسے واپس لینے کے۔
یہ کہ یک طرفہ اقدامات دہشت گردی کو ختم کرنے کے عالمی مقصد کو آگے نہیں بڑھاتے اور پاکستان کے لوگ ایسے اقدامات کو زیادہ برداشت نہیں کریںگے اور یک طرفہ اقدامات کو دہرائے جانے سے خطے اور دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔
یہ کہ حکومت اور عوام کا یہ عزم ہے کہ وہ پاکستان کی خودمختاری اور قومی سلامتی کو ہرقیمت پر برقرار رکھیں گے جو ایک مقدس فریضہ ہے۔
پارلیمنٹ کی ان واضح ہدایات کے بعد جو کچھ اس حکومت نے ۴جولائی کو کیا ہے، اس کے بعد ایک دن کے لیے بھی اس کے اقتدار کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ واضح رہے کہ امریکا نے ۴جولائی کو رسد کی بحالی کے ۲۴گھنٹے کے اندر دو بار ڈرون حملے کر کے (جن میں ایک درجن سے زیادہ پاکستانی شہید ہوئے) پاکستان کی قیادت کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا ہے اور اس کے بعد سے جارحیت کا یہ سلسلہ اب تک بلاروک ٹوک جاری ہے، جب کہ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے اور پبلک پلیٹ فارم سے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم ڈرون گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انتظار صرف سیاسی قیادت کے فیصلے کا ہے۔ ایران نے ایک امریکی ڈرون اُتار کر یہ ثابت کردیا ہے کہ ڈرون حملے آسانی سے روکے جاسکتے ہیں اور تو اور خود امریکا کے ٹیکساس کالج کی نوجوان ریسرچ ٹیم نے اپنے استاد پروفیسر ٹوڈ ہمفریز کی قیادت میں امریکا کی نیشنل سیکورٹی اتھارٹی کے ذمہ دار افراد کے سامنے ڈرون کو کامیابی سے اس کے پروگرام کیے ہوئے راستے سے ہٹا کر اپنی مرضی کے مطابق زمین پر اُتارنے کا کارنامہ کر دکھایا ہے۔ پروفیسر صاحب کا دعویٰ ہے کہ:
چند سو ڈالروں کے لیے ان کی ٹیم نے spoofing کی تکنیک استعمال کرکے ایسا sophisticated سسٹم بنایا جیسا اب تک نہیں بنایا گیا۔ اس نے ڈرون کو چکمادے کر نئے احکامات کے مطابق اُڑنے اور زمین پر اُترنے کا پابند کر دیا۔ سپوفنگ دراصل کسی جہاز کو اغوا کرنے کا طریقہ ہے۔
ایک امریکی کالج کا استاد اور اس کے ریسرچ کرنے والے طلبہ نے حکومت کے ذمہ داروں کے سامنے یہ کام کردکھایا۔ کیا پاکستان کی ایئرفورس اور ہمارے سائنس دان اپنے ملک کی حفاظت، شہریوں کی ہلاکت اور اپنی سرحدوں کی جارحانہ خلاف ورزی کو روکنے کے لیے یہ بھی نہیں کرسکتے؟
ناٹو/ ایساف کا قابلِ مذمت بلااشتعال حملہ (جس کے نتیجے میں پاکستان کے ۲۴فوجی شہیدہوگئے) بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے،اور ملکی خودمختاری اور سرحدات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان کو امریکا سے مہمند ایجنسی میں ۲۵، ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کو ہونے والے اس بلااشتعال واقعے پر غیرمشروط معافی طلب کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ اقدامات کیے جائیں:
__ مہمندایجنسی حملے میں جو ذمہ دار قرار پائیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
__ پاکستان کو یقین دہانی کرائی جائے کہ ایسے حملے اور ایسے اقدامات جن سے پاکستان کی خودمختاری اثراندازہوتی ہو، آیندہ نہیں ہوں گے۔
__ ناٹو،ایساف اور امریکا آیندہ خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔
__ پاکستان کے اڈوں یا فضائی حدود کو بیرونی قوتوں کے کسی بھی استعمال کے لیے پارلیمنٹ کی اجازت ضروری ہوگی۔
__ سرحدی ملحقہ علاقوں کے لیے وزارتِ دفاع پاکستانی فوج/ ایساف/ امریکا/ ناٹو کے لیے نئی فضائی ضوابط مقرر کیے جانے چاہییں۔
پارلیمنٹ کے اس واضح موقف سے چند باتیں سامنے آتی ہیں:
۱- سلالہ چوکی پر حملہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ بلاجواز تھا، یعنی (unprovoked) جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور پاکستان کی حاکمیت اور اس کی سرحدوں کی تقدیس پر کاری ضرب کی حیثیت رکھتاہے، اور یہی سبب ہے کہ امریکی حکومت اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور غیرمشروط معافی مانگے (unconditional apology)۔
۲- جو افراد اس کے ذمہ دار ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
۳- ایسے حملوں کے مستقبل میں نہ ہونے کے بارے میں واضح ضمانت دی جائے۔
۴- پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کا استعمال پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر نہ ہو۔ یہ بڑا اہم نکتہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے اقدام سے پہلے منظوری (prior approval) کے اصول کو منوایا گیا۔
۵- وزارتِ دفاع اور متعلقہ ادارے سرحدوں کے پاس، فضائی حدود کے استعمال کے سلسلے میں نئے قواعد و ضوابط مرتب کریں۔
۱- امریکا نے سلالہ چوکی کے حملے کو ایک غلطی ماننے سے انکار کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ معافی ( apology) اپنے قانونی اور اخلاقی مفہوم میں غلطی کے اعتراف اور اس پر افسوس کا اظہار ہے، جب کہ sorry یا regret کے الفاظ میں یہ مفہوم شامل نہیں۔ صدر صاحب، وزیراعظم صاحب اور نہ معلوم کون کون بغلیں بجارہے ہیں کہ ہم نے امریکا سے معذرت لے لی لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے ہرگز اپنی غلطی کا اعتراف کر کے معافی یا تاسف کا اظہار نہیں کیا، بلکہ اگر ہیلری کلنٹن کے الفاظ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ سلالہ کے واقعے کو بالکل گول کرگئی ہیں اور ہماری وزیرخارجہ کو غچّہ دے کر صرف یہ کہہ رہی ہیں کہ ’’اسے فوجیوں کے ہلاک ہونے کا دکھ ہے‘‘ جو معاملے کی پوری نوعیت ہی کو بدل دیتا ہے۔
۲- بات صرف یہی نہیں کہ غلطی کا اعتراف اور اس پر معذرت نہیں کی گئی، بلکہ اُلٹا ہیلری کلنٹن نے حناربانی کھر سے یہ اعتراف کرا لیا ہے کہ سلالہ کا واقعہ دونوں طرف سے غلطیوں کا نتیجہ تھا۔ گویا معافی توہم کیا حاصل کرتے، ہم خود مجرم بن گئے اور پاکستانی فوج نے سلالہ واقعے پر امریکا کی جس نام نہاد رپورٹ کو کھلے بندوں رد کیا تھا اور جس میں دونوں طرف سے غلطی اور غلط فہمی کی بات کی گئی ہے، ہماری وزیرخارجہ نے اسے قبول کرلیا ہے۔ تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو!
۳- پارلیمنٹ نے سلالہ واقعے کا ارتکاب کرنے والوں پر مقدمے اور سزا کی بات کی تھی، وہ سب پادر ہوا ہوگئی۔
۴- معافی کے بغیر اور پاکستان کی سرحدوں کے احترام اور سلالہ اور ۲مئی جیسے واقعات کے دوبارہ رُونما نہ ہونے کی واضح یقین دہانی، نیز ڈرون حملوں کے روکنے کے وعدے کے بغیر ناٹو سپلائی کا کھلنا، ایک قومی جرم اور ملک کے دستور اور پارلیمنٹ سے بے وفائی ہے۔
پارلیمنٹ کی قرارداد میں اور بھی کئی اہم سفارشات تھیں جن پر اس وقت کلام کی ضرورت نہیں۔صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ان کا حشر بھی ان پانچوں باتوں جیسا ہوا ہے جن کا اُوپر ذکر کیاگیا۔
’قلابازی‘ کی وجہ
اس مسئلے پر گفتگو ختم کرنے سے پہلے ایک بات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں کہ آخر حکومت نے امریکا کے سامنے اس بوکھلاہٹ اور بے غیرتی کے ساتھ ہتھیار کیوں ڈالے؟ امریکا اور یورپ کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں آنے والے تبصروں کی روشنی میں دو نظریات ہیں جو قوی مفروضوں (hypothesis) کی حیثیت سے سامنے آرہے ہیں۔ ہم اپنے قارئین کے غوروفکر کے لیے ان کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔
پہلا نظریہ یہ ہے کہ حکومت مختلف وجوہ سے ڈانواںڈول ہے۔ گیلانی صاحب کی بیک بینی و دوگوش رخصتی کے بعد غیریقینی کی کیفیت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ان حالات میں ایک غیرعلانیہ این آر او امریکا کی قیادت اور موجودہ حکومت کے درمیان ہوا ہے جس میں امریکا نے اس حکومت کو مزید زندگی (lease of life) کی ضمانت دی ہے، اور اس نے کسی باقاعدہ معاہدے اور پاک امریکا تعلقات کے پورے فریم ورک کو ازسرِنو مرتب کرنے کے بجاے ایک غیرتحریری معاہدے کے ذریعے امریکا کو وہ کچھ دے دیا ہے جو امریکا چاہتا تھا۔زرداری صاحب کے بیرونِ ملک اثاثوں کی حفاظت اور ان کو چند ماہ کے لیے مزید اقتدار کی یقین دہانی پر چشم زدن میں سارے معاملات طے کردیے گئے ہیں۔ اس میں ملک کی دوسری قوتیں بھی کہاں تک شریک ہیں، کہنا مشکل ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اصل معاملات ابھی صیغۂ راز میں ہیں۔ کیا کیا لین دین ہوئے ہیں یا ہونے ہیں، ابھی مخفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو چیز سامنے آئی ہے وہ بڑی معمولی اور عجیب ہے۔ اگر اس نوعیت کے مبہم اور افسوس کے گول مول الفاظ پر تمام اختلافات کو ختم ہونا تھا اور work as usual کو بحال کرنا تھا، تو اس سے تو کہیں بہتر موقع وہ تھا جب سلالہ کے حادثے کے ایک ہفتے بعد اوباما اور زرداری میں ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تھا اور The News کی ۴دسمبر کی اشاعت میں اس کا یہ احوال شائع ہوا۔ اسے ذرا غور سے دیکھیں اور پھر اس کا موازنہ اس اعلامیے سے کریں جو ہیلری کلنٹن اور حناربانی کھر میں ۴جولائی کی گفتگو کے بارے میں جاری ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس بات کو ۴جولائی کو تسلیم کیا گیا ہے وہ اس سے مختلف نہیں جسے پارلیمنٹ اور حکومت دونوں نے ۴دسمبر کو ردکردیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں:
ناٹو کے فوجی حملے میں ۲۴ پاکستانی فوجیوں کی اموات پر ذاتی طور پر تعزیت کے لیے صدراوباما نے اتوار کے دن فون کیا۔ وائٹ ہائوس کے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ صدراوباما نے واضح کردیا کہ یہ قابلِ افسوس واقعہ پاکستان پر سوچا سمجھا حملہ نہیں تھا اور مکمل تحقیقات کے وعدے کو دہرایا۔ (دی نیوز، ۴دسمبر ۲۰۱۲ئ)
یہ سوال بہرحال پاکستانی عوام کو غلطاںو پیچاں رکھے گا کہ ۳دسمبر کو اظہارِ افسوس (regret) کیوں قابلِ قبول نہیں تھا اور ۳جولائی کو دونوںطرف سے غلطیوں کے اعتراف کے اضافے کے ساتھ وہی ناقابلِ التفات لفظ کیو ں قابلِ قبول ہوگیا___ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے؟
دوسرا نظریہ اور بھی ہولناک ہے۔ اس میں بڑے تیقن کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ اصل چیز امریکا کی کچھ ایسی دھمکیاں تھیں جنھیں موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت نظرانداز نہیں کرسکی اور امریکا نے وہی ڈراما رچایا جو ستمبر ۲۰۰۱ء میں کامیابی سے رچایا جاچکا تھا۔
سب سے پہلے ایک ہمہ گیر میڈیا جنگ شروع ہوئی اور اپریل سے جون کے آخیر تک تابڑتوڑ حملے کیے گئے جن میں پاکستان کو غیرذمہ دار، جھوٹا، دھوکے باز، دوغلا، دہشت گرد اور نہ معلوم کیا کہا اور لکھا گیا۔ مقصد پاکستان کو ہی اصل مسئلہ بناکر پیش کرنا تھا۔ پاکستان کے سفارت کار اور لابی اس کا کوئی مؤثر توڑ نہ کرسکے۔ بی بی سی کے ایک پروگرام میں پاکستان کو دنیا کے لیے ایک دردِسر ثابت کیا گیا۔
پھر امریکا کی قیادت نے پاکستان کے بارے میں اپنے صبر کے پیمانے کے لبریز ہونے کا اعلان کرنا شروع کیا۔ بھارت سے خصوصی تعلقات استوار کرلیے اور بھارت کی سرزمین پر امریکی قیادت نے پاکستان کے خلاف سخت جارحانہ رویہ اختیار کیا اور پاکستان کو ڈھکے چھپے اور کھلے دھمکیاں دینے کے عمل کو بھی تیز تر کردیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں پاکستان کو ڈالروں سے خریدنے اوربیچنے کے ساتھ ساتھ اوقات میں رہنے کی دھمکی بھی دی؟
اس پس منظر میں سلالہ واقعے کے بعد چند ہفتوں کے تعطل کے بعد خود امریکا نے ڈرون حملے پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں شروع کردیے۔ اس کے ساتھ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملوں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور ہندستان سے بھی پاکستان کی سرحدوں پر بوفورتوپیں نصب کردیں۔
۱- امریکی کانگرنس میں پاکستان کے خلاف کئی قوانین کے مسودات کا داخل کیا جانا جن میں معاشی اور عسکری امداد تخفیف یا اس کی مکمل معطلی، ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی ہیرو بنا کر اس کی واپسی کا مطالبہ، اور پھر سب سے بڑھ کر حقانی نیٹ ورک اور لشکرطیبہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا بل جس کے پاکستان کے لیے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے تھے، یعنی اسے بلاواسطہ ایک دہشت گرد ملک قرار دیے جانے کا امکان یا خطرہ۔ ان چیزوں کو پاکستان میں امریکی لابی نے سیاسی اور عسکری حلقوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔
۲- سیاسی اور معاشی میدان میں ان آپریشنز کو ایک عسکری جہت دینے کے لیے امریکا نے ایک بڑا ہی خطرناک اقدام کیا۔ اپنے بحری بیڑے Carrier Strike Group Twelve کے ایک نہایت تباہ کن ایٹمی صلاحیت سے آراستہ جنگی جہاز یو ایس ایس انٹرپرائز کو گوادر کے قریب پاکستانی سمندری حدود میں لاکھڑا کیا۔ اس نیوکلیر پاور سے آراستہ جہاز پر ۴۶۰۰؍افراد کا عملہ ہے۔ اس پر جنگی ہوائی جہازوں کے ۱۸ اسکوارڈن ایستادہ ہیں۔ یہ ایک طرح کی وارننگ تھی جو اس سے پہلے امریکانے نہیں دی تھی۔ راستے کھلنے کے دو دن بعد یہ جہاز گوادر کے ساحل سے چلاگیا اور امریکی بیڑے میں شامل ہوگیاجس سے یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ۲۰۱۲ء میں یہ وہ پستول تھا جو زرداری کیانی کی کنپٹی پر رکھا گیا؟
۳- چین اور پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے شرانگیز اقدامات کیے گئے۔ چین کی مسلم اکثریت کی ریاست شین چانگ (سابق سنکیانگ) میں کارروائیوں اور خیبرایجنسی میں دہشت گردی کی تربیت کی خبروں کو بڑی سُرعت سے اُچھالا گیا۔ بھارت، پاکستان پر دونوں طرف سے دبائو ڈال رہا ہے، یعنی ممبئی کے حادثے کا سہارا لے کر پاکستان کے مشرقی محاذ پر اور افغانستان میں اپنے کردار کو بڑھا کر اور شمالی الائنس کے ساتھ مل کر مغربی محاذ پر۔
۴- پھر اسی زمانے میں سعودی عرب سے ممبئی حملوں کے سلسلے کے ایک مطلوب فرد کو (جسے ابوجندل کہا جا رہا ہے) بڑے رازدارانہ انداز میں بھارت روانہ کیاگیا جہاں اسے ایئرپورٹ پر گرفتار کر کے پاکستان پر دبائو کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کی مہم شروع ہوگئی اور پاکستان پر دبائو کی اس یلغار میں ایک دیرینہ دوست ملک کو بھی گویا شامل کرلیا گیا۔
دبائو اور بلیک میل کا یہ سارا کھیل بالآخر رنگ لایا اور پاکستان کی قیادت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ شاید غالب نے کسی ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا کہ ؎
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا
امریکا کو یہ اندازہ ہے کہ پاکستان کی قیادت ایک حد سے زیادہ دبائو کو برداشت نہیں کرسکتی اور ٹمپریچر کو اس حد سے آگے بڑھا کر اسے دبایا جاسکتا ہے۔ امریکا اپنے اس زعم کا برملا اظہار کرتا ہے۔ باب وڈورڈ اپنی کتاب Obama's Wars میں امریکا کے چوٹی کے پالیسی سازوں کی خود وائٹ ہائوس میں گفتگو نقل کرتا ہے، جسے دل پر پتھر رکھ کر، محض اپنی قیادت کی آنکھیں کھولنے اور پاکستانی عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ امریکہ کیا کیا حربے استعمال کرتا ہے ہم نقل کر رہے ہیں:
پاکستانی قیادت کا دعویٰ تھا کہ ان کی حکومت اتنی کمزور اور خستہ ہے کہ اگر امریکا نے چھڑیاں استعمال کیں تو یہ گر جائے گی۔ دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے: ’’آپ یہ نہیں چاہتے کہ ہم ختم ہوجائیں۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں؟ اس لیے کہ پھر سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔
بلیر کا خیال تھا کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں صرف ۱۰منٹ کی دیانت دارانہ بحث سے معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان پر حقیقی دبائو (leverage) کیا ہے۔ فرض کریں کہ صدر خلوص سے پوچھتے کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ تم کیا کرسکتے ہو؟ بلیر کا کہنا تھا کہ اگر پوچھا جاتا تو اس نے یہ کہا ہوتا: ’’ہم سرحدپار کچھ حملے کریں گے اور پاکستان کے اندر انتہاپسند گروپوں پر بم باری کریں گے‘‘۔ صدر اور دوسروں نے ضرور پھر یہ پوچھا ہوگا کہ’’ڈینی! اس کے نتائج کیا ہوتے؟‘‘ ’’میرے خیال میں پاکستان مکمل طور پر زیر ہوجاتا۔٭ شاید وہ ہمارے خلاف کچھ اقدام کرتے لیکن پھر وہ فوراً ہی ایڈجسٹ کرلیتے۔ اور کون سے حملے، کون سی باتیں، میرا خیال ہے ہم اس میں سے نکل آتے‘‘۔
یہ ہے امریکی قیادت کا ذہن پاکستان کی قیادت اور اس کے محافظوں کے عزم و فراست اور قوتِ مدافعت اور جوابی کارروائی کے بارے میں۔ ۲۰۰۱ء میں بھی وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہے اور ۲۰۱۲ء میں بھی ایک بار پھر وہ کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
کیا ان حالات کو انقلابی تبدیلیوں کے بغیر بدلا جاسکتا ہے؟ کیا پاکستان کا مقدر ایسی ہی قیادت ہے؟ یا اس قوم میں ایسی نئی قیادت برسرِاقتدار لانے کی صلاحیت اور عزم ہے جو غلامی کی زنجیروں کو اسی طرح کاٹ پھینکے جس طرح قائداعظم کی قیادت میں ۱۹۴۷ء میں کاٹ کر اسی قوم نے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا تھا۔ موجودہ قیادت کا اخلاقی، نظریاتی اور قوتِ کار کے اعتبار سے دیوالیہ پن تو واضح ہوگیا ہے۔ اب امید کے چراغ روشن ہوسکتے ہیں تو وہ کسی نئی اہل اور دیانت دارانہ قیادت اور نئے نظام ہی سے ممکن ہیں۔ تاریخ ایک بار پھر اس قوم کو عزمِ نو اور نئی جدوجہد کی طرف پکار رہی ہے ___ ہمارے لیے زندگی اور عزت کا راستہ اس پکار پر لبیک کہنے اور پھر منزلِ مراد کو حاصل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادینے میں ہے ؎
یہ مصرع کاش! نقش ہر در و دیوار ہوجائے
جسے جینا ہو، مرنے کے لیے تیار ہوجائے