سعید اکرم کا زیرنظر نعتیہ مجموعہ اس اعتبار سے لائق تحسین ہے کہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے عام روش سے ہٹ کر ایک الگ راہ نکالی۔ انھوں نے کالی کملی اور زلفوں کی باتیں کرنے کے بجاے آپؐ کے اوصافِ حمیدہ، آپؐ کی بہادری و شجاعت اور آپؐ کے مقامِ رسالت کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ آپؐ کی فیض رسانی، خلّاقیِ آئین جہاں داری اور آپؐ کی تمدن آفرینی کی طرف اشارے کیے ہیں۔
حمدودعا کے بعد، کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے بعنوان ’غرورِ شوق کا دفتر‘ میں تخلیقی نعتیں ہیں جو غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں۔ ان نعتوں سے شاعر کا وفورِ شوق اور واردارتِ قلبی مترشح ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے ایک خاص کیفیت میں ڈوب کر یہ نعتیں کہی ہیں۔ بقول خود: ع ’’مدینے سے مجھے پیغام کچھ منظوم آتے ہیں‘‘۔ ا س حصے میں کُل ۴۴ نعتیں شامل ہیں۔
دوسرے حصے بعنوان ’شہادتِ جبرئیل ؑ‘ میں آیاتِ قرآنی کے منظوم تراجم پر مشتمل ۳۴نعتیں شامل ہیں۔ یہ تراجم ایسی آیات کے ہیں جن میں رسولؐ اللہ سے خطاب کیاگیا ہے یا آپؐ کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے۔ اس حصے کا آغاز سورئہ فاتحہ کے ترجمے سے اور اختتام درود شریف کے ترجمے پر ہوتا ہے۔ تراجم آزاد نظم کی ہیئت میں مناسب اور مکمل ہیں۔ اس حصے کا نام ’شہادتِ جبرئیل ؑ اس لیے رکھا کہ جو کچھ پہلے کہا گیا ہے، اس پر جبرئیل امین ؑ کی گواہی ہوجائے۔
مجموعی طور پر یہ ایک وقیع اور عمدہ مجموعۂ نعت ہے جس سے شاعر کی والہانہ عقیدت، جذب و سُرور اور فراوانیِ محبت ِ رسولؐ کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہرمسلمان شاعر تو نہیں ہوسکتا کہ وہ شعری پیرایے میں اس طرح اظہارِ محبت کرے مگر کتاب پڑھ کر اس کے دل میں حُب ِ رسولؐ کا جذبہ ضرور موجزن ہوگا اور بقول رسولِ مقبولؐ تبھی وہ ایمان دار ہوگا۔ اللہ ہرمسلمان کے دل میں ایسی محبت پیدا کرے۔ دیباچہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا اور تقریظ محمد اشرف آصف کی ہے۔(قاسم محمود احمد)
فاضل مصنف نے ۳۰برس تک عربی زبان کی تدریس کا کام کیا۔ کچھ عرصہ تو پنجاب کے مختلف کالجوں میں، پھر ۲۰سال تک ریاض (سعودی عرب) میں تعلیم و تدریس اور ملازمت کے سلسلے میں مقیم رہے۔ زیربحث کتاب میں انھوں نے عورت کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کیا ہے۔ خواتین سے متعلق قرآن پاک میں جتنے کلمات و اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں،ان کو حروفِ تہجی کے اعتبار سے جمع کیا ہے۔ کُل ۲۸ ابواب ہیں۔ اس میں چند ایسے کلمات بھی آگئے ہیں جو اگرچہ عورت کے لیے براہِ راست مخصوص نہیں مگر عورتیں ان احکامات میں مردوں ہی کی طرح مخاطب ہیں، مثلاً الأنس، البشر، عبد، طائفۃ ، الناس، النفس اور الیتیم وغیرہ۔ ہرباب میں متعلقہ لفظ کے معنی و مطالب کتب ِ تفاسیر، حدیث، عربی لغت،گرامراور عربی شاعری کی رُو سے متعین کیے گئے ہیں۔ بعدازاں وہ ان سے اخذ ہونے والے مسائل و نتائج پر روشنی ڈالتے چلے جاتے ہیں۔
مصنف کتاب کے ایک ایک صفحے پر یہ واضح کرتے نظر آتے ہیں کہ مرد و عورت میں کامل مساوات ہے۔ عورت بھی وہ ساری صلاحیتیں رکھتی ہے جو مردوں میں موجود ہیں: ’’خاتون کو قدرومنزلت، جو قرآن نے عطا کی تھی وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی، اور یہ تصور لوگوں کے رگ و پے میں سرایت کرگیا کہ خاتون مرد سے گھٹیا ہوتی ہے۔ قرآنی آیات کی غلط تاویل کی گئی۔ جن آیات میں قرآن نے وہ حقوق عطا کیے تھے، جو آج تک ان کو حاصل نہ تھے انھی آیات کو اس کی تنقیص کے لیے پیش کیا گیا، احادیث وضع کی گئیں محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مرد افضل ہے اور خاتون فروتر‘‘۔ (ص ۱۱۲)
’’خواتین ان فنون میں بازی لے گئیں جو مردوں کے ساتھ مخصوص سمجھے جاتے ہیں، مثلاً حکمرانی ، عسکری قیادت، تحریر و تقریر اور زُہد و تقویٰ‘‘۔ (ص ۱۲۷)
’’مرد و زن میں جو حیاتیاتی امتیاز پایا جاتا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک دوسرے کے کام کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اس کا دائرۂ کار الگ ہے‘‘۔ (ص ۱۳۰)
’’حیاتیاتی اختلاف فرد کے رویوں کو متعین نہیں کرتا۔ جب کسی معاشرے میں حالات بدلتے ہیں تو رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ ہرصنف کے وجود میں مردانہ اور زنانہ دونوں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ سرجری کے ذریعے مرد خاتون بن جاتا ہے اور خاتون مرد‘‘۔ (ص ۱۳۰)
’’ماضی میں خاتون کی صرف ایک حیثیت تھی،گھریلو ذمہ داری۔ اب ایک دوسری حیثیت، یعنی کارکن کی بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اگر شوہر عورتوں کو ملازمت کی اجازت دے رہے ہیں تو ہمیں اعتراض کا کیا حق حاصل ہے۔ کٹر سے کٹر روایتی گھرانوں اور ملکوں میں دائرۂ کار کی تخصیص ختم ہوچکی ہے۔ دنیا کی موجودہ اقتصادی صورت حال میں کسی ملک کی نصف آبادی کو زندگی کے تمام میدانوں میں شریک ہونے سے روک دیا جائے تو ترقی کیسے ہوگی؟ دونوں کے مل کر کام کرنے سے ہوگی‘‘۔ (ص ۱۳۱)
مصنف چہرے کے پردے کے قائل نہیں ہیں: ’’چہرے کا پردہ کتاب و سنت سے ثابت نہیں‘‘ (ص ۱۲۰)۔اس طرح یہ کتاب عربی لُغت اور گرامر کے پردے میں عورت کے بارے میں پورا مغربی ایجنڈا مسلمانوں میں قرآن کے نام پر رائج کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔ اگر اپوائی بیگمات یا این جی اوز اسلام کے خاندانی اور تمدنی و معاشرتی مسائل کے بارے میں بات کریں تو سب کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ مسلم معاشرے میں گمراہی پھیلائی جارہی ہے، مگر گمبھیر مسئلہ تو اس وقت بنتا ہے جب نام نہاد علما و فاضل حضرات اپنے علم و فضل کے زعم میں، عربی لُغت کے زور پر اور اپنی چرب زبانی کی بنیاد پر وہی کام کرتے نظر آتے ہیں جو اہلِ مغرب کو مطلوب ہے، تو پھر یہ تلبیس ابلیس ہمارے لیے بہت خطرناک بن جاتی ہے۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ ’روشن خیال‘ حضرات جو حسبنا کتاب اللہ کا دعویٰ رکھتے ہیں، جو خود اللہ ا ور اس کے رسولؐ کو بھی قرآن پاک کی تشریح و تفسیر کا حق دینے کو تیار نہیں، ان کو اپنی عربی دانی پر اتنا بھروسا ہے کہ اسی کی بنیاد پر فرنگیت کو اسلام میں داخل کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ مغربی فکر کو زبردست لفاظی کے ذریعے قرآن و حدیث میں سے کشید کرنے لگ جاتے ہیں۔ وہ تاویل اور اجتہاد کا کلہاڑا ہاتھ میں لے کر عربی گرامر، لغت اور عربی شاعری کی مدد سے عورت کا دائرۂ کار وہی متعین کرتے نظر آتے ہیں جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے ’سیڈا‘ (CEDAW) کو مطلوب ہے۔ غرض مصنف نے ’پرویزی‘ فکر کو آگے بڑھایا اور ’غامدی فکر‘ کو پروان چڑھایا ہے۔ لغاتِ قرآن کے پردے میں شیطان کو کمک بہم پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یہ مارِ آستین ہیں جو اپنے فسادِ فکرونظر سے اُمت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کے لیے پوری طرح کوشاں ہیں۔ اس تمام خلط مبحث کا علمی انداز میں جواب تو دیا جاسکتا ہے ، مگر اس ’مختصر‘ تبصرے میں گنجایش نہیں، فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔ (ثریا بتول علوی)
بنت مجتبیٰ مینا کے کلام کو صرف تحریکی حلقوں میں ہی نہیں، عام ادبی حلقوں میں بھی اہمیت دی جائے گی کیونکہ ایسا کلام ہے جو اپنی اہمیت خود منوائے گا۔
جس ماحول میں ان کی پرورش اور ذہنی نشوونما ہوئی ہے اس کا تقاضا یہی تھا کہ محض حصولِ علم پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اپنے عمل سے علم کے مثبت پہلوئوں کا اظہار بھی کیا جائے۔ اس لیے انھوں نے طویل عرصے تک نور کی ادارت کی، بتول میں مضامین لکھے، حریم ادب کی نشستوں میں نئی نسل کی رہنمائی بھی کی۔ تحریک کی ذمہ داریوں کو نبھاتی رہیں اور ہرجگہ کامیاب اور کامران رہیں۔
بنت مجتبیٰ مینا مکمل شاعرہ ہیں کیونکہ شاعر وہی ہوتا ہے جو اپنے احساسات کو خوب صورت الفاظ کی لڑی میں پرو کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ سننے والا بھی اس چبھن اور کسک کو محسوس کرتا ہے جو شاعر کا مقصد ہوتا ہے۔ مفہوم کی ادایگی اور اس کا ابلاغ ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ انھوں نے تمام اصناف سخن کو پوری مہارت سے برتا ہے۔ انھوں نے حمدونعت کہی ہیں، قطعات لکھے ہیں، غزلیں اور نظمیں کہی ہیں لیکن ہمارے ہاں مروجہ انداز کی آزاد نظموں سے مکمل اجتناب برتا ہے۔
بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے بنت مجتبیٰ مینا کی شاعری ایک واضح مقصد کے لیے ہے اور وہ اپنے مقصد کے اظہار میں پوری طرح کامیاب ہیں، یعنی ان کی شاعری مقصدی ادب میں خوش گوار اضافہ ہے۔ بنت مجتبیٰ مینا کی نعتوں میں بڑی دل سوزی اور عقیدت و احترام ہے۔ انھوں نے کہا ؎
کچھ ہوش نہیں رہتا جب وقت حضوری ہو
دیوانے سے دیوانے، دیوانے محمدؐ کے
ان کی چھوٹی بحرکی نعتیں خوب نہیں بہت خوب ہیں۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ غزل کی زیادہ کامیاب شاعرہ ہیں یا نظم کی۔ شاہدہ یوسف کے مطابق: ’’ان کی غزلوں میں ایک کربِ مسلسل ہے جو، ان کے احساس تنہائی، دل شکستگی اور درمندی کا آئینہ دار ہے۔ چند اشعار:
غمِ دوراں، غمِ ہجراں، غمِ جاناں، غمِ دل
اِک دنیا ہے یہاں، کہتے ہو تنہائی ہے
کچھ تو مجھ کو ملا
اِک دل بیتاب سہی
پھر کسی تازہ واردات کی خبر
غنچہ دل کو کیوں ہنسی آئی
ان کی نظم کے بارے میں کہا گیا: ’’سماجی اور معاشرتی المیوں سے مالا مال ہے‘‘۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کی نظمیں تاریکیوں میں روشنی اور جبر میں اختیار و اعتبار کا پیغام دیتی ہیں۔ ’ہارسنگھار‘، ’صدقہ‘، ’رات گزر جائے گی‘، ’چاک گریباں‘، ’آواز‘ ایسی نظمیں ہیں جن سے پُرآشوب حالات میں بھی جینے کا اور مسائل سے نمٹنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ان کی تمام نظموں میں مفہوم کی ادایگی اور مکمل ابلاغ نمایاں ہے۔ بطور مجموعی ان کی شاعری اُجالا پھیلانے والی شاعری ہے۔
منشورات نے اہتمام سے چھاپی ہے۔ سرورق پر خوب صورت جدت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کی داد دینی چاہیے۔ بنت مجتبیٰ مینا کی صاحب زادی زہرا نہالہ کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی والدہ کے خوب صورت کلام کو زمانے کی دستبرد سے محفوظ کرلیا۔ (وقاراحمد زبیری)