حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ بنی تمیم قبیلہ کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا: اے بنی تمیم! بشارت قبول کرو۔ انھوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپ نے ہمیں بشارت دی ہے تو پھر ہمیں مال عنایت فرما دیں۔ اس پر آپؐ کے چہرئہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ اس کے بعد یمن کے کچھ لوگ آئے تو آپؐ نے فرمایا: یمن والو! تم بشارت قبول کرو، جب کہ بنوتمیم نے قبول نہ کی۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم نے قبول کی۔ تب آپؐ نے کائنات کے حالات، اس کی پیدایش سے لے کر اہلِ جنت کے جنت میں داخل ہونے اور اہلِ دوزخ کے دوزخ میں داخل ہونے تک بیان کرنا شروع کردیے۔ اس دوران میں آواز دینے والے نے آواز دی :اے عمران! تیری اُونٹنی رسی کھول کر نکل گئی ہے۔ میں اُونٹنی کو پکڑنے کے لیے آپؐ کی مجلس سے اُٹھ گیا، لیکن اُونٹنی تو دُور دُور تک نظر نہ آئی۔ جو لوگ مجلس میں بیٹھے رہے انھوں نے آپؐ کا سارا بیان سن لیا۔ کسی نے سارا بیان یاد رکھا اور کسی نے کچھ بھلا دیا اور کچھ یاد رکھا۔ مجھے اپنے اُٹھ جانے کا افسوس ہوا۔ کاش! میں آپؐ کی مجلس سے نہ اُٹھتا اور آپؐ کا سارا بیان سن لیتا۔ (بخاری، باب بدء الخلق)
حضرت عمران بن حصین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ہیں۔ آپؐ کی مجالس میں شرکت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔ کائنات کے حالات کا اوّل سے لے کر آخر تک کا بیان، حضورؐ کے بیانات میں سے ایک اہم بیان ہے۔ عمران بن حصینؓ اُونٹنی کو پکڑنے کی خاطر اُٹھ کر چلے گئے، اُونٹنی بھی نہ مل سکی اور آپؐ کے پورے بیان کے سننے سے بھی محروم ہوگئے۔ بعد میں اُونٹنی کے نہ ملنے کا افسوس تو نہ ہوا لیکن آپؐ کی علمی مبارک مجلس سے اُٹھ کر چلے جانے کا نہایت افسوس ہوا۔
صحابہ کرامؓ کو اصل شوق آپؐ کی مجلس میں حاضری اور تحصیلِ علم کا تھا۔ مال و مویشی ،سواریاں اور دنیاوی کام ان کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔ انھیں کبھی بھی اس بات کا افسوس نہیں ہوا کہ وہ آپؐ کی مجلس میں شرکت کے سبب کسی دنیاوی منافع سے محروم ہوگئے۔ آپؐ کی مجلس سے محروم ہوجاتے تو اس کا انھیں بڑا افسوس ہوتا تھا۔ آج کے دور میں ہمیں دنیا کمانے کا بڑا شوق ہے اور یہی ہمارا اصل کام بن گیا ہے۔ علم اور تحریکی کام ہمارے ہاں ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ وہ کردار جو جماعت صحابہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں سرانجام دیا وہ کام اسی طرح کے لوگ ادا کرسکتے ہیں جن کے ہاں علمِ دین اور تحریکی کام مقدم ہو اور دنیوی کام ثانوی حیثیت رکھتے ہوں۔ آیئے ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم اس معیار پر پورا اُترتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر اس کا مداوا کرنا چاہیے اور ایسے کارکن تیار کرنا چاہییں جو اس معیار پر پورا اُترتے ہوں۔ جب ایسے کارکنوں پر مشتمل معیاری لوگ تیار ہوکر جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوں گے، تو پھر اسلامی انقلاب برپا ہونے کے راستے میں تمام رکاوٹیں دُور ہوجائیں گی۔
o
حضرت حفصہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار کاموں کو نہیں چھوڑتے تھے: سفر اور حضر ہرحال میں انھیں ادا فرماتے تھے۔ عاشورے کا روزہ، ذوالحجہ کے نو روزے، یکم سے لے کر ۹ذوالحجہ تک، اور ایامِ بیض ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخوں کے روزے اور فجر کی دو سنتیں۔ (نسائی)
رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اہتمام فرماتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی آپؐ نفلی روزے رکھتے تھے ، مثلاً سوموار اور جمعرات کا روزہ۔ رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھے روزے رکھنے والا صائم الدھر (ہمیشہ روزہ رکھنے والا) شمار ہوتا ہے۔نفلی روزوں کی سیرت و کردار کی تعمیر اور اللہ سے تعلق قائم رکھنے میں بڑی اہمیت ہے۔ ہمارے گھروں میں بعض خواتین ان کا اہتمام کرتی ہیں۔ کچھ گھرانوں میں روایتاً رکھے جاتے ہیں۔ اخوان المسلمون کی طرح ہمارے ہاں اس کا کلچر ہونا چاہیے۔ بیش تر لوگ رکھتے ہوں، عام طور پر رکھتے ہوں۔ عموماً شاذ ہی ذکر ہوتا ہے۔ تربیتی پروگراموں کا یہ حصہ ہونا چاہیے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حال میں فوت ہوگیا کہ اللہ کی راہ میں پہرہ دے رہا تھا تو وہ جو عملِ صالح دنیا میں کرتا تھا، ان سب کے اعمال کا ثواب برابر جاری رہے گا۔ اس کا رزق بھی جاری رہے گا، وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا، اور قیامت کے روز اس حال میں اُٹھے گا کہ قیامت کی ہولناکیوں سے خوف زدہ نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، مسند صحیح)
جو شخص اللہ کی راہ میںپہرہ دے رہا ہے، اسلام اور اُمت مسلمہ کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے، اسے دشمن کے شر سے اور مسلمان ملک پر کفار کے قبضے سے بچانے میں مشغول ہے، اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، وہ اس دنیا سے چلا جائے تو بھی اس کے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عالمِ برزخ میں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق بھی ملے گا اور وہ جب تک دنیا میں ہے اس وقت تک شیطان کے شر سے بھی محفوظ ہے اور قیامت کے روز جو انتہائی سخت دن ہے اس میں لوگوں کے لیے بڑی بڑی مشکلات اور مصیبتیں ہوں گی، لوگ اپنے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے، کوئی گھٹنوں تک، کوئی پیٹ تک اور کوئی گلے تک، لیکن یہ شخص ہرقسم کی تکلیف اور مصیبت سے محفوظ ہوگا۔ اس حدیث میں اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد کرنے والوں، مسلمان ممالک کو کفار کے قبضے سے آزاد کرانے والوں کے لیے بڑی بشارت ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس دور میں بھی یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے نفاذ اور اُمت مسلمہ کی حفاظت میں سرگرمِ عمل ہیں۔ دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے۔ ایسے لوگوں کو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کام میں ہرقسم کی تکلیف اور قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جتنا بڑا اجر ہے، اتنی ہی بڑی قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ جن کو اس خدمت کے لیے منتخب کرتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرتا ہے اور اپنے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی سعادت سے نوازتا ہے۔
o
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں پہنچا کہ آپؐ کعبہ کی دیوار کے سایے میں تشریف فرما تھے۔ جب آپؐ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ربِ کعبہ کی قسم! یہ لوگ بہت بڑے خسارے میں ہیں، یہ لوگ سب سے زیادہ خسارے میں ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: یہ وہ ہیں جن کے پاس دوسروں سے زیادہ مال ہے، مگر وہ اس خسارے سے محفوظ ہیں جو بے تحاشا خرچ کریں، آگے ، پیچھے، دائیں، بائیں، لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ (متفق علیہ)
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال مال دیا ہے، ان کے لیے وقت ہے کہ وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ آج دین کی تعلیم و اشاعت ، دعوت وتبلیغ اور اس کے نظام کی تنفیذ کے لیے سب سے زیادہ مال کی ضرورت ہے۔ قرآن پاک کی آسان تفاسیر لوگوں تک پہنچانا، آسان لٹریچر فراہم کرنا، اُردو انگریزی اور دوسری زبانوں میں لے کر لوگوں کے گھروں پر دستک دینا اور اپنے مکتبوں میں سستے داموں اور اچھے کاغذ پر فراہم کرنا وقت کی آواز ہے۔ اس طرح اچھی اخلاقی اور دینی کیسٹ، سی ڈی اور فلمیں تیار کرنے کے لیے بھی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لادینیت اور فحاشی اور عریانی کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہورہی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس کی اشاعت پر اپنا مال خرچ کر رہے ہیں، تو دین دار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ہرسطح پر ان کا مقابلہ کریں اور ان کو اس میدان میں بھی شکست سے دوچار کردیں۔
o
حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مچھلی والے کی دعا، جب کہ انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں دعا کی، اللہ تعالیٰ کو ان کلمات سے پکارا: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ،جو آدمی بھی ان کلمات سے دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی)
کتنی آسان دعا ہے۔ اسے ہرمسلمان یاد کرسکتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے ہرعیب سے پاک ہونے کا اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف و اقرار ہے۔ دریا میں ڈوب جانا، مچھلی کے پیٹ میں چلے جانا کتنی بڑی تکلیف ہے۔ ایسی تکلیف کہ اس سے رہائی کا تصور تک نہیں ہے لیکن حضرت یونس ؑکو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی بدولت رہائی عطا فرمائی۔ معلوم ہوا کہ بڑی سے بڑی تکلیف اور سخت سے سخت قید سے بھی اس دعا کی بدولت رہائی مل سکتی ہے۔ آج، جب کہ مسلمان کفار کے مظالم کا شکار ہیں، تنگ و تاریک کوٹھڑیوں کے اندر قید اور گرفتار ہیں اور طرح طرح کی اذیتیں برداشت کر رہے ہیں، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سہارا ہی رہائی کا سامان ہے۔ جو مسلمان قید اور گرفتار ہیں، وہ بھی اس دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پکاریں اور مسلمان بھائی جو اپنے اپنے ملکوں میں آزادی کی نعمت سے سرفراز ہیں وہ بھی ان کے لیے یہ دعا پڑھیں۔ جتنی تعداد میں پڑھ سکیں، بہتر ہے۔ ایک لاکھ کی تعداد میں پڑھی جائے تو اکثر اوقات اس کی تاثیر ظاہرہوجاتی ہے لیکن اگر لاکھ مرتبہ پڑھنے سے بھی تاثیر ظاہر نہ ہو تو چھوڑ نہ دیا جائے اسے مسلسل پڑھا جائے۔ ان شاء اللہ کسی وقت اثر ظاہر ہوگا۔