’وزیراعظم کی تبدیلی‘ (جولائی ۲۰۱۲ئ) کے تحت حکومت عدلیہ محاذ آرائی کے تناظر میں اصل مسئلہ اور اس کا ممکنہ حل پیش کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت جب سے برسرِاقتدار آئی ہے۔ اس نے آج تک شریعت اسلامیہ کے مقرر کردہ قوانین و اصولوں سے انحراف کیا ہے۔ اس حکومت کے کسی بھی اہل کار نے جو کہا اس پر عمل کرکے نہیں دکھایا۔ حکومت نے عوام کے لیے طرح طرح کی مشکلات پیدا کی ہیں۔یہ ملک وسائل کے اعتبار سے مالا مال تھا لیکن نااہل قیادت نے اس کا ستیاناس کردیا ہے۔ اس ملک کی سلامتی اس طرح محفوظ رہ سکتی ہے کہ اچھی قیادت کو آگے لایا جائے اور اچھی قیادت صرف اسی صورت میں آگے آسکتی ہے کہ حزبِ مخالف جماعتیں متحد ہوکر حکومت کا مقابلہ کریں اور اس قیادت کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔
’ہمارا میڈیا: غلامانہ ذہنیت اور بے حیائی‘ (جولائی ۲۰۱۲ئ) جناب انصار عباسی نے بڑی عرق ریزی اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے قوم کا درد محسوس کرتے ہوئے یہ مضمون تحریر کیا ہے جو کہ فکرانگیز بھی ہے اور تشویش کا باعث بھی۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں مزید زورِ قلم دے اور ہمیں اُن اقدامات کو اُٹھانے کی توفیق دے جس کی نشان دہی مضمون میں کی گئی ہے،آمین!
’انگریزی ذریعۂ تعلیم: شیوئہ غلامی‘ (جون ۲۰۱۲ئ) میں اہم قومی مسئلے سے غفلت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ قومی زبان اور یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لیے بھی قومی مفاد میں پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں عوام کے استحصال سے روکا جاسکے۔
ہمارے ٹی وی چینلوں پر رمضان کے بارے میں آج کل کئی قابلِ تعریف پروگرام بھی آرہے ہیں لیکن دوسری طرف عریانی و فحاشی کو فروغ دینے کے لیے جو کچھ آتا ہے،و ہ پریشان کرنے والا ہے۔ اداروں کے ذمہ دار اس تضاد کی کیا توجیہ کرتے ہیں؟ اور حساب کے دن کیا جواب دیں گے؟ دوسری بات یہ کہ ایک کے بعد ایک چینل نے جرائم کا پروگرام پیش کرنا شروع کیا ہے، جس میں پورے جرم کو کیا جاتا ہوا دکھایاجاتا ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہے؟ اس کے کیا اثرات ہورہے ہیں؟ ہمارے ماہرین عمرانیات و نفسیات کہاں سو رہے ہیں؟