ہرقسم کی علمی، تحقیقی اور اخلاقی حدود یا اقدار سے ماورا، ہمارا سوشل میڈیا، جھوٹ اور مبالغے کا پرچارک یا ذریعہ بن چکا ہے۔اس ذریعے کو سیاسی جماعتیںاپنے مخالفین کی کردارکشی، دانش وَر حضرات نفرت بونے اور کنفیوژن پھیلانے، مذہبی عناصر فتوے دینے اور مذہبی اقلیتیں اپنے مفادات کی آڑ میں جھوٹے دعوے کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کر رہی ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا مکمل طور پر جھوٹ کا پلندہ بن چکا ہے۔ بلاشبہہ اس میں بعض اوقات نادر تحریریں اور مستند مواد بھی ملتا ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ خدا جانے یہ صورتِ حال ہمیں کہاں لے جائے گی۔
اس کا ایک پہلو بہرحال بڑا تشویش ناک اور قابلِ توجہ ہے۔ وہ یہ کہ ہماری نوجوان نسل کتاب، مطالعے اور تحقیق سے رشتے منقطع کرکے صرف سوشل میڈیا پر تکیہ کیے بیٹھی ہے اور سوشل میڈیا ہی ان کی معلومات اور ذہنی تربیت کا واحد ذریعہ بن چکا ہے۔ جھوٹ، نفرت، علاقائی و مذہبی تعصبات اور فرقہ واریت کے پرچار کے لیے لکھی گئی تحریریں پڑھ پڑھ کر ہماری نوجوان نسلوں کی سوچ کنفیوژن کا شکار ہورہی ہے۔حال ہی میں مجھے ایک بلاگ پڑھنے کا موقع ملا، جس میں پاکستانی مسلمانوں پر تبرا بھیج کر ایک مذہبی اقلیت کے دانش وَر نے پھر وہی دعویٰ دہرا ڈالا ہے، جس کی تردید کئی بار کی جاچکی ہے۔ تاریخ کا ریکارڈ ہزار بار ان کے جھوٹ کی نفی کرے، لیکن یہ عجیب لوگ ہیں کہ وہ غلط بات کو بار بار دہراتے رہیں گے، تاکہ مطالعے سے عاری نوجوان ان کے جھانسے میں آجائیں اور ان کے نقطۂ نظر کو قبول کرکے قائداعظمؒ کو انگریزوں کا ایجنٹ اور قیامِ پاکستان کو انگریزوں کا تحفہ سمجھ لیں۔
لاعلمی قابلِ معافی ہے لیکن بدنیتی ایسا جرم ہے جس کی سزا دونوں جہانوں میں ملتی ہے۔ جب ایک ایسا شخص جو علم و فضل کی شہرت رکھنے اور مؤرخ ہونے کا دعویٰ بھی کرے، مگر دوسری طرف ببانگ دہل تاریخی حقائق کو مسخ کرے، تو اس کا رویہ لاعلمی کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ نرم سے نرم الفاظ میں بھی خبث ِ باطن ہی کہلاتا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں کانگریسی پروپیگنڈے اور ہندو ذہنیت کے ’ہرکارے‘ یا ایسے افراد موجود ہیں، جو وقتاً فوقتاً پاکستان کی نظریاتی اساس میں بدگمانیوں کا زہر گھولتے رہتے ہیں اور قائداعظمؒ سے قیامِ پاکستان کے جرم کا انتقام لیتے رہتے ہیں۔ تحریک ِ پاکستان اور قائداعظمؒ کے حوالے سے نوجوان نسلوں میں بدظنی اور بدگمانیاں پھیلانے کے لیے پہلے جب یہ مہم عبدالولی خان نے شروع کی تھی تو اسی وقت پروفیسر وارث میر مرحوم نے مدلل جواب دے کر انھیں لاجواب اورکانگریسی ہرکاروں کا منہ بند کر دیا تھا۔
قراردادِ لاہور (پاکستان) کی عظمت کو ٹھیس لگانے کے لیے پہلے ان خان صاحب نے اور پھر ڈاکٹر مبارک علی صاحب نے ایک اخبار میں یکم اپریل ۲۰۱۷ء کو یہ دعویٰ کیا کہ: ’’وائسرائے لنلتھ گو نے قراردادِ لاہور سرظفراللہ خاں سے لکھوائی اور یہ مسوّدہ قائداعظمؒ کو دے دیا۔ جنھوں نے ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کے اجلاس میں مسلم لیگ سے منظور کروا دی اور پھر قراردادِ پاکستان کا نام دے دیا گیا‘‘۔ حالیہ زمانے میں، پاکستان میں تاریخ کے نام پر اس سے بڑا جھوٹ شاید ہی بولا گیا ہو۔
پہلی بات یہ ہے کہ قرارداد ِ پاکستان کا اصلی مسودہ کراچی یونی ورسٹی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ پس منظر کے طور پر ذہن میں رہے کہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے ۲۱مارچ ۱۹۴۰ء کو قرارداد ڈرافٹ کرنے کے لیے سرسکندر حیات، ملک برکت علی اور نواب اسماعیل خان پر مشتمل کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی کے تیار کردہ ڈرافٹ پر سبجیکٹ کمیٹی نے قائداعظمؒ کی صدارت میں ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو سات گھنٹے بحث کی۔ یہ ڈرافٹ اپنی اصل حالت میں مسلم لیگ آرکائیوز میں موجود ہے۔ مذکورہ سبجیکٹ کمیٹی میں علی محمد راشدی، محمدنعمان، ظہیرالدین فاروقی، مشتاق گورمانی، حسین امام، زیڈ ایچ لاری، رضوان اللہ، عبدالحمید خان، نواب آف چھتاری، عزیز احمد اور عاشق حسین بٹالوی وغیرہ نے ۱۴،۱۵ترامیم تجویز کیں۔ یہ تمام ترامیم صاف طور پر پڑھی دیکھی جاسکتی ہیں۔خودقائداعظمؒ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ترمیم بھی قرارداد کے مسودے پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ڈرافٹ وائسرائے کی طرف سے آیا تھا تو یہ ترامیم کیا ہوا میں کی جارہی تھیں؟ یہ ساری تحریری کارروائی مسلم لیگ کے ریکارڈ میں موجود ہے، جو ڈاکٹر مبارک اور ان کے مریدوں کے دعوئوں کو باطل ثابت کرتی ہے۔ اس طرح یہ بات بھی شواہد سے ثابت ہوتی ہے کہ قراردادِ لاہور کا سر چودھری ظفراللہ خاں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اسی مناسبت سے سکندرحیات نے ۱۱مارچ ۱۹۴۱ء کو پنجاب کی قانون ساز اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ: ’’میری تیار کردہ،قراردادِ لاہور کے ڈرافٹ میں اتنی زیادہ تبدیلیاں کر دی گئی تھیں کہ اس کی شکل ہی بدل گئی‘‘۔ سرسکندر حیات کا ایک معاملہ یہ بھی تھا کہ وہ متحدہ ہندستان کی فیڈریشن کی بنیادپر مطالبے کے حق میں تھے، جب کہ کُل ہند مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی تقسیم ہند اور مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ سرسکندر کے لیے ایسی کسی تجویز سے اتفاق ممکن نہ تھا کہ جس پر وہ انگریز وائسرائے اور برطانوی حکومت کو ناراض کرتے۔
اسی طرح پروفیسر اِکرام نے اپنی کتاب Truth is Truth میں، قراراداد پاکستان پر ایک دم یلغار کرنے والے ردعمل کےحوالے سے وائسرائے اور برطانوی سیکرٹری آف اسٹیٹ کی خط کتابت کے اقتباسات دیے ہیں۔ جن سے پتا چلتا ہے کہ برطانوی حکومت، مسلم لیگ سے کس قدر ناراض تھی اور قراردادِ لاہور کو کس طرح تختۂ مشق بنارہی تھی۔ اگر قرارداد لنلتھ گو نے بھجوائی تھی، تو پھر اس قدر غم و غصے کا کیا مطلب؟ یہ خطوط کئی جلدوں پر مشتمل مصدقہ کتاب ٹرانسفر آف پاور میں موجود ہیں۔ برطانوی حکومت نے ۲۳مارچ کا جلسہ ملتوی کروانے کے لیے جو کوششیں کیں، ان کے ثبوت بھی سیّد شریف الدین پیرزادہ [م:۲۰۱۷ء]کی کتب میں موجود ہیں۔
اب دیکھیےکہ خود چودھری ظفراللہ خاں،قراردادِ پاکستان سے اپنے کسی قسم کے تعلق کی نفی اور تردید کرتے ہیں۔ ۲۵دسمبر ۱۹۸۱ءکو ان کا ایک بیان دوسرے اخبارات کے علاوہ معروف انگریزی اخبار ڈان کے پہلے صفحے پر شائع ہوا، جس کے بعد اس بحث کا سلسلہ بند ہوجانا چاہیے تھا۔ سرظفراللہ خاں کا بیان ملاحظہ فرمایئے:
Sir Zafarullah has denied having ever presented a formula of dividing the sub-continent to the then Viceroy vehemently refuting (Wali Khan's assertions) he stated that he only gave opinion to the Viceroy, whenever asked to do so. It is unthinkable that his opinions were passed on the Quaid-e-Azam and he accepted without hesitation. It was unimaginable that a formula initiated on March12 was incorporated on March 23, 1940 during those days it took more than two weeks for a communication to reach India from England.
سر ظفراللہ نے اس سے انکار کیا کہ انھوں نے کبھی [برطانوی ہند کے]وائسرائے کو تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا تھا [ولی خان کے اصرار کو] مسترد کرتے ہوئے انھوں نے کہا: میں نے وائسرائے کو صرف اپنی راے دی تھی۔ اور یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ ان کی راے کو قائداعظم تک پہنچایا گیا اور انھوں نے اسے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تسلیم کرلیا۔ اسی طرح یہ بات بھی ناقابلِ یقین ہے کہ ۱۲مارچ کو سوچا جانے والا فارمولا ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو [لاہور کے اجلاس میں] پیش بھی کر دیا گیا ہو کہ ان دنوں برطانیہ سے انڈیا پہنچنے میں دو ہفتوں سے زیادہ دن لگتے تھے۔
ظفراللہ خاں نے یہ بھی واضح کیا کہ میں نے وائسرائے لنلتھ گو کے کہنے پر ایک اسکیم بنائی تھی، جس میں متحدہ ہندستان کے اندر فیڈریشن کا تصور دیا تھا۔
تحریکِ پاکستان اور قائداعظمؒ پر سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ان مصنّفین میں عالمی سطح کے برطانوی ، امریکی، فرانسیسی، سویڈش اور پاکستانی مؤرخین شامل ہیں۔ سب نے قائداعظمؒ کی عظمت کردار، بصیرت اور مستقل مزاجی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ممتاز سوانح نگار والپرٹ کا کہنا ہے کہ موجودہ تاریخ میں اتنا عظیم لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا۔ عالمی سطح کے ان غیرملکی مؤرخین میں سے کسی ایک محقق کو بھی قراردادِ پاکستان سے ظفراللہ خاں کے تعلق کا اشارہ تک نہیں ملا۔ وہ افسانوی اشارہ کہ جو ولی خان کے ذریعے ڈاکٹر مبارک تک پہنچا ہے اور جس جھوٹے دعوے کو اُچک کر پرویز پروازی نے کتابی حوالہ بنادیا ۔ یاد رہے کہ پروازی صاحب کا مذہبی طور پر قادیانیت سے تعلق ہے، اور وہ قیامِ پاکستان کا کریڈٹ قادیانیوں کو عطا کرنے کی کوشش میں ظفراللہ خاں کو قراردادِ پاکستان کا مصنف قرار دے رہے ہیں۔
قائداعظم، دن رات محنت کر کے اور مسلم قوم کو متحد کرکے حصولِ پاکستان میں جب کامیاب ہوگئے تو وہ عرصہ ان کی بیماری میں شدت کا زمانہ تھا۔ تاہم، انھوں نے اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو حصولِ مقصد کے لیے پوری قوت سے جھونک دیا۔ بیماری بڑھ گئی تو ۷جولائی کو قائداعظمؒ آرام کے لیے دوبارہ کوئٹہ چلے گئے۔ جب علالت مزید شدت اختیار کرگئی تو قائداعظمؒ کو زیارت منتقل کردیا گیا۔ کرنل الٰہی بخش کے علاوہ ٹی بی کے ماہر ڈاکٹر ریاض علی شاہ بھی اس وقت قائداعظمؒ کا علاج کرنے والے بورڈ کے رکن تھے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں ایک چشم کشا اور ایمان افروز گفتگو لکھی ہے، جس کا ہرلفظ ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا اور قائداعظمؒ کے باطن کی جھلک دکھاتا ہے۔
ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں:’’کوئٹہ میں قائداعظمؒ کی صحت بہتر ہوتی گئی تو ایک دن کرنل الٰہی بخش نے کہا کہ: ’’ہم دونوں کی انتہائی کوشش ہے کہ آپ کی صحت اتنی اچھی ہوجائے جتنی آج سے سات آٹھ سال پہلے تھی‘‘۔ قائداعظمؒ مسکرائے اور فرمایا: ’’چند سال قبل یقینا میری بھی یہ آرزو تھی کہ میں زندہ رہوں۔ میں اس لیے زندگی کاطالب نہیں تھا کہ مجھے دنیا کی تمنا تھی اور میں موت سے خوف زدہ تھا، بلکہ اس لیے زندہ رہنا چاہتا تھا کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا ہے اور قدرت نےجس [کام] کے لیے مجھے مقرر کیا ہے میں اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ وہ کام پورا ہوگیا ہے۔ میں اپنا فرض ادا کرچکا ہوں۔ پاکستان بن گیا ہے۔ اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اس کی تعمیر کرے۔ اسے ناقابلِ تسخیر اور ترقی یافتہ بنائے، حکومت کا نظم و نسق دیانت داری اور محنت سے چلائے۔ آٹھ برس تک مجھے قوم کے اعتماد و تعاون پر تنہا، مدمقابل عیار اور مضبوط دشمنوں سے لڑنا پڑا ہے۔ میں نے خدا کے بھروسے پر اپنے خون کا آخری قطرہ تک حصولِ پاکستان کے لیے صرف کر دیا ہے۔ مَیں تھک گیا ہوں۔ اب مجھے زندگی سے زیادہ دل چسپی نہیں۔بے شک اللہ کے دوست موت سے نہیں ڈرتے‘‘۔(ڈاکٹر ریاض علی شاہ کا مضمون، مطبوعہ ماہِ نو، کراچی ، ۱۹۴۸ء، بحوالہ قائداعظمؒ کے ۷۲سال از خواجہ رضی حیدر،ص ۳۲۰)
یہی لیڈر جب سفرِآخرت پرروانہ ہوتا ہے تو سرظفراللہ خاں اس کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے کے بجاے، لاتعلقی سے بیٹھے سارا منظر دیکھتے رہتے ہیں۔ اب انھی کو قراردادِ پاکستان کا خالق بنانے کے لیے ہمارے ترقی پسندی اور روشن خیالی کے دعوے دار دانش وروں اور مؤرخ ہونے کا دعویٰ رکھنے والوں کی بے چینی ایک بھونڈے لطیفے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔