اگر خدا کا خوف نہ ہوتا…!
جس بحث کا آپ نے ذکر کیا ہے، اس کے موقع و محل اور اندازے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اصل بناے بحث بجاے خود یہ مسائل نہیں ہیں بلکہ دل کا ایک پرانا بخار ہے جو مدتوں سے موقعے کی تلاش میں دبا پڑا تھا اور اب اس کو نکالنے کے لیے کچھ مسائل بطور حیلہ ڈھونڈ لیے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ ارادہ کرکے بیٹھ جائے کہ کسی کو متہم کرنا ہے تو دنیا میں کوئی نہیں ہے جو ایسے شخص کی مار سے بچ جائے۔ آپ جس بڑے سے بڑے قدیم یا جدید مصنف کا نام چاہیں لے لیں، میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ متہم کرنے کا ارادہ کرلینے کے بعد اس کے ہاں سے کیسے کیسے سخت الزامات کی بنیادیں برآمد کی جاسکتی ہیں۔ دوسروں کو چھوڑیئے، اگر خدا کا خوف اور ایک ایک لفظ پر اس کے حضور بازپُرس کا خطرہ نہ ہوتا تو میں بطور نمونہ بتاتا کہ خود اِن حضرات کو ضّال اور مضلّ ثابت کر دینا، بلکہ انھیں دین اور ملّت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ٹھیرا دینا کتنا آسان ہے اور آدمی تقویٰ و خشیت کا لباسِ زور پہن کر کیسی کچھ باتیںخود ان لوگوں کے خلاف بنا سکتا ہے۔
میرا قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کی تنقید میں مجھے اس طرح کے محرکات محسوس ہوتے ہیں تو مَیں اس کا جواب دینے سے پرہیز کرتا ہوں، کیونکہ وہ تو اپنے مقصد کی خاطر ہروادی میں بھٹکتا پھرے گا، میں اپنا مقصد چھوڑ کر اس کے پیچھے کہاں کہاں بھٹک سکتا ہوں۔اور آخر اس طرح کے لوگوں سے اُلجھ کر مَیں پھر اور کسی کام کے لیے وقت بھی کہاں سے لاسکتا ہوں۔
اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ بعض حضرات [برسوں] سے مسلسل مجھ پر حملے کررہے ہیں، اور ابھی چند سال سے تو کچھ لوگوں نے میرے خلاف الزام تراشیاں کرنا اپنا مستقل مشغلہ ہی بنارکھا ہے، مگر میں نے کبھی ان کی کسی بات کا جواب نہ دیا، یا حد سے حداگر کبھی ضرورت سمجھی تو اپنی پوزیشن کی وضاحت کردی اور اس کے بعد انھیں چھوڑ دیا کہ جب تک چاہیں اپنا نامۂ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔ (’رسائل و مسائل‘،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن ، جلد۵۱، عدد۳، دسمبر ۱۹۵۸ء، ص۵۶-۵۷)