ایک عرصہ قبل ایک ہندو دوست اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں منانے کشمیر جا رہا تھا۔ جانے سے قبل ہچکچاتے ہوئے اس نے کہا کہ : ’’میرا ۱۴سالہ بیٹا، جو دہلی کے ایک اعلیٰ اسکول میں زیر تعلیم ہے، مسلمانوں کے بارے میں عجب و غریب خیالات رکھتا ہے، اور ان کو ایک طرح سے عفریت سمجھتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میرا بیٹا کچھ وقت کسی مسلم فیملی کے ساتھ گزار کر مسلمانوں کے بارے میں خود مشاہدہ کرسکے‘‘۔ اس خواہش کے احترام کے لیے سرینگر میں ہمارے ایک دوست نے میزبانی کا بیڑا اٹھایا ۔ فیملی اور بچوں کے ساتھ چند روز گزارنے کے جب و ہ واپس دہلی وارد ہوا، تو اس لڑکے میں ایک انقلابی تبدیلی آچکی تھی۔ اس کے ساتھ میرا اکثر مکالمہ اور تعامل ہوتا تھا۔ بعد میں اس کے والد نے مجھے بتایا کہ: ’’نہ صرف میرے صاحبزادے بلکہ خود میری اپنی کئی غلط فہمیاں دُور ہوگئی ہیں جنھوں نے ہمارے ذہنوں کو مکڑی کے جالے کی طرح جکڑ رکھا تھا‘‘۔
حال ہی میں دفتر میں میری ایک شریکِ کار نے بتایا کہ ان کے والد ، جو ممبئی کے ایک نامور بزنس مین ہیں، مسلمانوں کو پاس نہیں آنے دیتے۔ اگرچہ کام کے سلسلے میں اکثر ان کا واسطہ مسلمان کاریگروں ہی سے ہوتا ہے، مگر وہ زیادہ سے زیادہ گھر کے برآمدہ تک ، یا ان کے دفتر میں ان کے کیبن کے باہر اپنے معاملات کو نبٹانے آسکتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ: ’’تم واحد مسلمان ہو جس سے میرے والد خوش اخلاقی اور گرم جوشی کے ساتھ ملتے ہیں‘‘۔ اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کو اپنی تعریف سمجھوں یا اپنے مسلمان بھائیوں کی توہین کے طور پر لوں۔
مشہور بھارتی دانش ور اور صحافی سعید نقوی نے اپنی کتاب Being the Other میں کچھ اسی طرح کے مشاہدات کا ذکر کیا ہے۔ ان کی اصل کتاب انگریزی میں پچھلے سال منظر عام پر آئی تھی، تاہم اس کا اُردو ترجمہ وطن میں غیر ہندستانی مسلمان کا اجرا چند روز قبل دہلی میں سابق نائب صدر حامد انصاری نے کیا۔نقوی صاحب رقم طراز ہیں کہ: ’’ایک بار الٰہ آباد یونی ورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے مَیں نے سامعین سے سوال کیا کہ کتنے ہندو طالب علم یا اساتذہ ، کبھی کسی مسلم ساتھی کے گھر گئے ہیں یا قریب سے مسلمانوں کو جاننے کی کوشش کی ہے؟ تو میرے اس سوال کا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ چند ایک نے کہا کہ ان کے والد یا دادا اُردو اور فارسی جانتے تھے جو ان کے مذہبی تعصب سے آزاد ہونے کی شہادت تھی، مگر مجھ پر قدم قدم پہ یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ ہم عشروں سے نسلی تفریق اور غیریت کی حالت میں جی رہے ہیں اور اس کو تسلیم بھی نہیں کرتے ہیں‘‘۔
سعید نقوی بھار ت کے ان گنے چنے مسلمانوں میں سے ہیں، جنھوں نے ذاتی طور سے بہت کامیاب زندگی گزاری۔ پانچ عشروں پر محیط اپنے صحافتی کیریر کے دوران وہ مقتدر انگریزی اخبارات اسٹیٹسمین اور انڈین ایکسپریس کے مدیر رہے۔ ان کی بیٹی صبا نقوی اور بھائی جاوید نقوی نے بھی صحافت کی دنیا میں خاصا نام کمایا ہے، مگر ان پانچ دہائیوں میں شاید ہی کبھی ان کو اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش آیا ہوگا۔ ایک لبر ل مسلمان، جو بھارت کے سیکولر کلچر میں رچ بس گیا ہو، جن کے گھر پر عید اور محرم کے ساتھ ساتھ دیوالی اور ہولی بھی اتنے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہو، جن کی بیٹی، بھائی ، بھانجی اور دیگر قریبی رشتہ داروں نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہوں، اگر وہ اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتے ہوں، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔
بھارت میں مسلمان کس حد تک سیاسی طور پر بے وزن ہوچکے ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس کے مقتدر لیڈر اور ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد نے حال ہی میں شکوہ کیا کہ: ’’میری پارٹی کے ہندو اراکین اب مجھے اپنے حلقوں میں جلسے اور جلوسوں میں مدعوکرنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ لکھنؤ میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے مذکورہ لیڈر نے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے کہا: ’’۱۹۷۳ء میں کانگریس میں شمولیت کے بعد سے لے کر آج تک میں نے ہر انتخابی مہم میں شرکت کی ہے اور ہندو لیڈر، مجھ کو اپنے انتخابی حلقوں میں لے جانے کے لیے بے تاب ہوا کرتے تھے۔ پہلے جہاں جلسے جلوسوں میں مجھ کو مدعوکرنے کے لیے ۹۵فی صد درخواستیںہندو لیڈروں کی آتی تھیں، اب پچھلے چار سالوں میں سکڑ کر محض ۲۰فی صد رہ گئی ہیں‘‘۔ غلام نبی آزاد، جموں کشمیر ، ضلع ڈوڈہ میں ایک مقامی کانگریسی لیڈر کے گھر پیدا ہوئے ، مگر اپنی انتخابی زندگی کا آغاز۱۹۸۰ء میں مہاراشٹر کے ہندو اکثریتی لوک سبھا حلقہ واسن سے کیا۔ وہ ۱۹۸۴ء میں دوبارہ اسی سیٹ سے منتخب ہوئے۔ اکثر فخر سے یہ کہتے تھے کہ: میرا سیاسی کیریئر اقلیتی سیاست کے بجاے بھارت کے سیکولر ہندو اکثریت کا مرہونِ منت ہے۔ ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۸ء تک جموں و کشمیر کے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے علاوہ آزاد نئی دہلی میں سینیر مرکزی وزیر اور کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس، کانگریس ورکنگ کمیٹی کے برسوں ممبر اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری رہے ہیں۔ من موہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس حکومت میں مرکزی وزیر صحت کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔
ایک روز صبح سویرے ان کا فون آیا کہ کسی وقت ان سے دفتر میں آکر مل لوں۔ کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو میں کام کرنے کی وجہ سے ان کو کور کرنا میری پیشہ ورانہ ذمہ داری (beat)کا ایک حصہ تھا۔ آفس جاتے ہوئے میں نرمان بھون میں وزارت صحت کے ہیڈ کوارٹر پہنچا اور ان کے پرسنل سیکریٹری راما چندرن کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس نے مجھے انتظار گاہ میں بیٹھنے کے لیے کہا۔ جنوبی بھارت کا یہ نوجوان خاصا نک چڑھا ملازم تھا۔ میں نے دیکھا کہ وزیر موصوف کے کمرے کے باہرسبز بتی جل رہی تھی، جس کا مطلب تھا کہ وہ کسی میٹنگ میں مصروف نہیں ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ راما چندرن جی انتظار گاہ میں آنے والے افراد کو ایک ایک کرکے یا وفد کی صورت میں وزیر کے کمرے میں لے جارہے تھے۔ میں نے ان کو یاد دلایا کہ وزیر موصوف نے خود مجھے بلایا ہے۔ قریباً ایک گھنٹے تک نظر انداز کرنے کے بعد موصوف نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر پرسوں ملاقات کے لیے آنے کو کہا۔ میرے بار بار کے اصرار پر وجہ یہ بتائی کہ: ’’آج ملاقاتیوں کی لسٹ میں مسلمان نام کچھ زیادہ ہیں۔ ہمیں وزیر سے ملنے والوں میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک میں رہتے ہیں اوراس کا تقاضا ہے کہ وزیر سے ملنے والوں کی لسٹ بھی سیکولر ہو۔ آج کی لسٹ میں ہندو ملاقاتیوں کی تعداد کچھ کم ہے‘‘۔ راما چندرن کی یہ وضاحت سن کر مَیں چکرا گیا۔ لیکن جاتے جاتے ان کو بتایا کہ: ’’آزاد صاحب خاص طور پر اس وقت وزارتی کونسل میں صرف مسلمان اور کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے وزیر ہیں‘‘۔
پچھلے سال وزیر اعظم نریندر مودی کے آبائی صوبہ گجرات میں کانگریس نے بی جے پی کو ہروانے کے لیے جہاں پوری قوت جھونک دی تھی، وہیں کارکنوں کو باضابط ہدایت دی گئی تھی کہ اسٹیج پر کوئی مسلم لیڈر براجمان نہ ہو۔ حتیٰ کہ گجرات سے کانگریس کے مقتدر لیڈر اور سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو پس پردہ رہنا پڑا۔ امیدوارں کو بتایا گیا تھا کہ وہ مسلم محلوں میں ووٹ مانگنے نہ جائیں اور جلسے ، جلوسوں میں لمبی داڑھی اور ٹوپی والوں کو اگلی صفوں میں نہ بٹھائیں۔ کچھ اسی طرح کی حکمت عملی کانگریس اب ۲۰۱۹ء میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنا رہی ہے۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی کا خیال ہے کہ انتخابی مہم کے دوران مندروں اور مٹھوں میں جاکر آشیر واد لینے سے وہ خود کو مودی سے زیادہ ہندو ثابت کرکے بی جے پی کے ہندو ووٹ بنک میں نقب لگا سکیں گے۔ پارٹی کے اندر سے یہ خبریں بھی اب چھن چھن کر آرہی ہیں کہ مسلم لیڈروں کو بتایا گیا ہے کہ: ’’انتخابات میں آپ ٹکٹ یا مینڈیٹ کے حصول کے لیے تگ و دو نہ کریں اور حلقے کے لیے کسی مضبوط سیکولر ہندو امیدوار کر ترجیح دے کر اس کو کامیاب بنائیں‘‘۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس طرح اگلی پارلیمان میں مسلمانوں کی سیاسی نمایندگی مزید کم ہوجائے گی۔
نریندر مودی اور ان کے دست راست بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے تقریباً طے کیا ہے کہ: ’’بگڑتی ہوئی معیشت، بے روزگاری اور کرپشن سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پولارائزیشن [مسلمانوں سے نفرت کو پھیلانا ہی] بہترین ہتھیار ہے۔ ہندو کو مسلمانوں کا خوف دلاکر ان کو یک جا کرکے مسلم ووٹ بنک کی ہوا نکالی جائے۔ ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ، یعنی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ ایک عالی شان رام مندر کی تعمیر کے لیے قانون سازی کی تجویز پیش کرکے اس کو ایک انتخابی موضوع بنانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ انتہاپسند ہندو حلقے اس لیے بھی تلملائے ہوئے ہیں کہ نئے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اس معاملے کی تیزی سے سماعت کرنے سے انکار کیا ہے۔ان انتہاپسندوں کا منصوبہ تھا کہ جب سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوگی تو کارروائی کے دوران دلائل اور شواہد کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کرکے ایشو کو انتخابات تک خوب گرم رکھا جائے گا، لیکن چیف جسٹس نے کم از کم اس منصوبے پر تو پانی پھیر دیا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں بے یقینی کی آگ جلائے رکھنا، ملک میں ہندوؤںکو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے پولارائزڈ [متحارب اور نفرت بھرا] ماحول برقرار رکھنا بھی بی جے پی کے انتخابی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں تعلیم و ترقی کے بجاے عدم تحفظ کا احساس زیادہ گھر کر گیا ہے، جوایک خطرناک علامت ہے۔
آج کے بھارت میں مسلمانوںکی سیاسی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ اس کی تفصیل بیان کرنا ہرگز مشکل کام نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا اس لیے اسے ان کی کوئی پروا نہیں۔ اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم در تقسیم اور ہندو ووٹ یک جا ہو۔ ادھر سیکولر پارٹیوںکو معلوم ہے کہ آر ایس ایس یا بی جے پی کے مقابلے میں مسلمان کہاں جائے گا، ووٹ تو بہرحال انھی کو ملنا ہے، اس لیے وہ بھی ان کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل نہیں کرتے۔
سعید نقوی، غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے مقتدر مسلمان لیڈران کرام، جنھیں بھارت کے سیکولر چہرہ کو وقار بخشنے کے لیے اکثر رول ماڈل کے بطور پیش کیا جاتا تھا ، جن کو عام مسلمان پہلے سے ہی ’سرکار ی مسلمان‘ کے نام سے نوازتا تھا ، اب وہ مسلمان بھی اپنے آپ کو سسٹم سے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ضمیرالدین شاہ نے حال ہی میں اپنی شائع کردہ سوانح حیات کا عنوان ’ سرکاری مسلمان ‘رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: بدقسمتی سے ان کا سامنا کئی ایسے کامیاب مسلمانوں سے ہو ا ہے جو اپنے سیکولرہونے کا بھرم رکھنے کے لیے مسلم فرقہ اور معاشرت سے دُور رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مسلم افسر کو اپنی کمیونٹی کے مفاد اور اپنی نوکری کے درمیان خاصی باریک اور تنی ہوئی رسی پر چلنا پڑتا ہے۔ اس طرح اکثر اپنی نوکری کو ترجیح دے کر اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔
جنرل ضمیرالدین شاہ کا کہنا ہے کہ جب میرے والد کو بحیثیت ایڈمنسٹریٹر اجمیر بھیجا گیا تو وہاں مسلمانوں کا رد عمل تھا کہ ایک اور ’سرکاری مسلمان‘ آگیا ۔ مطلب پوچھنے پر والد نے بتایا کہ جب کوئی مسلمان کسی بڑے سرکاری عہدے پر پہنچ جاتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اب ان کا خیر خواہ نہیں رہا ، اب یہ حکومت کی زبان بولے گا اور عام مسلمانوں سے کٹ کے رہے گا‘‘۔ جنرل ضمیر کا مزید کہنا ہے کہ ۱۹۷۰ء میں بحیثیت فوجی افسر جب مَیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ایک اسپورٹس ٹیم کی مسوری میں میزبانی کر رہا تھا، تو مَیں نے مسلمان ٹیم ممبران کو فوج میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ کئی روز کے بعد جب یہ ٹیم واپس جارہی تھی تو مَیں نے ان سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ تعلیم کے بعد اب کیا آپ فوج میں بھرتی ہوں گے؟ تو جواب میں کسی نے بھی ہامی نہیں بھری۔ جب ان سے سوال کیا کہ کیا مَیں آپ کو قائل نہیں کرسکا؟ تو سبھی کا مشترکہ جواب تھا: ــ’’آپ تو سرکاری مسلمان ہیں۔ آپ کی بات پر کیسے بھروسا کرسکتے ہیں‘‘۔
نقوی اور ضمیر الدین شاہ کی کتابوں میں ایک نہایت گہری، سچی، تلخ اور بڑی تکلیف دہ ٹیس بیان کی گئی ہے، جو تقریباً ایک صدی قبل قائد اعظم محمد علی جناح نے محسوس کرکے اور پھر کانگریس کو الوداع کہہ کے متعین کی تھی۔ نقوی صاحب کاماننا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ تعصب کوئی نئی بیماری ہے۔ ۱۹۶۰ء میں جب وہ دہلی میں روزنامہ انڈین ایکسپریس میں کام کرنے آئے تو انھیں گھر نہیں مل رہا تھا تو کلدیپ نیر نے مدد کرکے گھر دلادیا۔ مگر نقوی صاحب کا کہنا ہے کہ اب گھر نہ دینے والوں اور گھر دلانے پر بضد لوگوں کے درمیان تناسب مسلسل کم ہوتا چلا گیا ہے۔ یہ منظرنامہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں کو دھیرے دھیرے اپنے ہی وطن میں ’غیر ‘ بنا دیا گیا ہے۔ کتاب کے مطابق بھارتی مسلمان ’سہ گانہ‘ (Triangle) میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جس کے تین حصے کچھ اس طرح ہیں: ٭ہندی مسلم، ٭بھارت ٭پاکستان اور کشمیر ___ ان تینوں کو حل کیے بغیر مثلث کا مسئلہ حل نہیں ہوگا،مگر پاکستان سے اگر صلح ہوجائے تو ہندو انتہا پسندوں کے پاس سیاست کرنے کے لیے ایشو ختم ہوجائے گا۔
نقوی صاحب کے بقول بڑے شہری مراکز میں ہندو قوم پرست بی جے پی اور سیکولر کانگریس کے مابین فرق مٹ چکا ہے۔ ان کے درمیان جو دھوکے کا پردہ ۱۹۴۷ء سے حائل تھا وہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ آبادی کے اجتماعی رویے میں، ان کے سیاسی نظریات سے قطع نظر یکساں نوعیت کی فرقہ واریت سرایت کرچکی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمان اپنے خول میں سمٹتا جارہا ہے۔ غیرنسل پرست ہندو بھی بھونچکا رہ گئے ہیں۔ بقول نقوی صاحب: جہاں کہیں ممکن ہوتا ہے مَیں ’سیکولر ‘ کی اصطلاح سے اجتناب کرتا ہوں ، کیوںکہ اس لفظ کی حُرمت کو بہت زیادہ پامال کیا گیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی ہے جس پر ہندو قوم پرستی تعمیر کی جارہی ہے۔ اور اب یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں کہ ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا ہے اور اکثریتی ہندو فرقے کو ان بے گناہوں سے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔ گویا فرض کرلیا گیا ہے کہ خواہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو تب بھی محض مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ مجرم ہیں۔ پس ماندہ مسلم بستیوں میں رہنے والوں کے اندر سلگتی ہوئی شکایتوں سے ذہنوں کے اندر خلیج تقویت پاتی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں کرکٹ کا کھیل ہو یا امریکی انتخابات، ہر مسئلے پر خیالات ایک دوسرے کے برعکس ہوتے ہیں۔
نقوی صاحب کا مزید کہنا ہے کہ ان پر ایک اور حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ جہاں کوئی مسلمان اعلیٰ عہدے تک پہنچتا ہے وہ اپنی مسلم برادری کے افراد کی مدد کرنے سے منہ موڑتا ہے، مبادا اس پر ’فرقہ پرست‘ ہونے کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔ شاید اس سے قبل صورت حال اتنی خراب نہیں تھی۔اب کوئی دن نہیں گزرتا جب کوئی بھارتی، مسلمانوں کی شہریت پر سوال نہ اُٹھائے، حتیٰ کہ فلمی دنیا تک میں بھی مذہب کو بخشا نہیں گیا ہے۔ جب ۲۰۱۵ء کے اواخر میں اس دنیا کے دو افراد نے فرقہ وارانہ زیادتیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف آواز اٹھائی تو دونوں کو ہندو اکثریت کے غضب ناک ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ چند تنظیموں نے تو مطالبہ کیا کہ ان اداکاروں کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔نقوی صاحب کے خاندان کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب پاکستان میں رشتہ داروں سے ملنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ میں ان کے ایک دوست نے ان کو مشورہ دیا کہ اب اپنے اقارب کو بھول جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عملی طور پر میں ا ن سب کو بھول چکا ہوں، مگر ایک حسرت ہے، سو وہ بھی چند نسلوں میں ختم ہوجائے گی۔
یہ تو ایک حقیقت ہے کہ ۱۸۵۷ءکے بعد ہی سے مسلمانوں کو انگریز حکمرانوں نے دشمن سمجھ کر’ غیر‘ تصور کرنا شروع کیا تھا، مگر۱۹۴۷ء میں تقسیم کے بعد جہاں مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں ایک ملک ملا، وہیں بھارت میں رہنے والی ایک کثیر آبادی کو پاکستان کی تخلیق کا ’ذمہ دار‘ ٹھیرا کر ایک مستقل ’احساس جرم‘ میں مبتلا رکھتے ہوئے ’غیر ‘بنا دیا گیا۔ اب تو حال یہ ہے کہ پچھلے چار برسوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڑ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندو بازار ہوگیاہے، ہمایوں نگراب پچھلے سال ہنومان نگر ہوگیا، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین، دیال اپدھائے نگر ہوگیا اور مغل شہنشاہ اکبر کا بسایا ہوا الٰہ آباد اب پریاگ راج ہوگیا ہے۔ احمد آباد کو اب کرناوتی نگر بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی، مگر یہاں تو تاریخ مسخ ہورہی ہے۔ یہ مٹتے ہوئے نام ، مسخ ہوتی تاریخ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے خود اعتمادی چھین کر احساس کمتری میں دھکیل دے گی۔کیوںکہ یہ صرف نام نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کی جھلک تھی ، جو ثابت کرتی تھی کہ مسلمان اس ملک میں کرایے دار نہیں بلکہ حصہ دار اور اس کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن شاید غیر محسوس طریقے سے ۱۵ ویں صدی کے اواخر کے اسپین کے واقعات دہرائے جا رہے ہیں۔ غالباً بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی تاریخ کو قصۂ پارینہ بنایا جائے گا۔ اسلام سے وابستگی اور مسلم شناخت کو زندہ جاوید رکھنے کی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ مسلمان لیڈروں کو بھی اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر وہ قوم کا بھلا کرسکتے ہیں؟کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ ایک متبادل حکمت عملی تیار کرنے پر سنجیدہ غور و خوض کیا جائے؟