دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ملک میں رائج قوانین کے مطابق واضح طور پر ’قادیانی گروپ‘ یا ’لاہوری گروپ‘ (جو اپنے کو ’احمدی‘ یا کوئی دوسرا نام دیتے ہوں) کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے کر ’غیرمسلم‘ کہا گیا ہے۔
دستور کی دفعہ ۲۶۰ ذیلی دفعہ ۳ شق (الف) اور (ب)
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۸ سی دفعہ ۲۹۸ سی: قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کا کوئی شخص (جو خود کو قادیانی یا کسی دیگر نام سے موسوم کرتا ہو)، بلاواسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہو، یا اپنے عقیدے کا بطورِ اسلام کے حوالہ دیتا ہو، یا موسوم کرتا ہو، یا دوسروں کو اپنا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دیتا ہو، الفاظ سے جو چاہے زبانی ہوں یا تحریری یا ظاہری حرکات سے یا کسی طریقے سے خواہ کچھ بھی ہو، مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے، اسے دونوں اقسام میں سے کسی قسم کی سزاے قید دی جائے گی، جس کی مدت تین سال تک ہوسکتی ہے اور سزاے جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔
اس صورتِ حال کے پیش نظر مزید قانون سازی ضروری تھی تاکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۲۶۰ ذیلی دفعہ ۳ کی شق (الف) پر مکمل عمل درآمد ہوسکے۔
1. قادیانی یا لاہوری جماعت کا کوئی فرد (جو خود کو ’احمدی‘ یا کسی دیگر نام سے موسوم کرتے ہیں) جو زبانی یا تحریری الفاظ سے یا ظاہری بیان سے:
تو اسے دونوں اقسام میں سے کسی قسم کی ایسی مدت کی سزاے قید دی جائے گی، جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔
2. قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کا کوئی شخص (جو خود کو قادیانی یا کسی دیگر نام سے موسوم کرتے ہیں) جو زبانی یا تحریری الفاظ سے یا ظاہری حرکات سے، اپنے عقیدے میں پیروی کردہ عبادت کے لیے بلانے کے لیے کسی طریقے یا شکل کو بطور اذان کے حوالہ دے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں تو اسے دونوں اقسام میں سے کسی قسم کی سزاے قید دی جائے گی، جس کی مدت تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔
ملکی دستور و قانون کو تسلیم کرنا پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ اہم عہدوں اور اداروں میں ان کا تقرر ہونا چاہیے، کہ جو ملک کے دستور و قانون کو تسلیم کرتے ہوں۔ مذکورہ بالا زمینی حقائق و تفصیلات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قادیانی ملکی دستور اور قانون کا صریح انکار کرتے ہیں۔ وہ اپنے کو ’غیرمسلم‘ نہیں مانتے جو کہ دستور و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، لہٰذا، اہم عہدوں اور اہم پالیسی ساز اداروں میں ان کا تقرر دستور و قانون کے حوالے سے نہیں ہونا چاہیے۔ یہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے اور ہر محب ِ وطن پاکستانی اس کا پُرجوش حامی ہے۔
دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان (اختصار کی خاطر ’دستور‘ لکھا اور پڑھا جائے گا) کے حصہ دوم کے باب اوّل کا عنوان بنیادی حقوق (Fundamental Rights) ہے۔ دفعہ ۸ تا ۲۸ تک میں پاکستانی شہریوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ یہ ہیں وہ حقوق جو کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ دستور اور دستوری اداروں و نظام میں اقلیتوں کے حقوق درج ذیل ہیں:
یہ تمام حقوق عمومی طور پر تمام پاکستان کے شہریوں کو حاصل ہیں۔ان حقوق کی تنفیذ میں اگر کوئی رکاوٹ ہو یا اگر حکومت یا کسی کی طرف سے حقوق پامال ہو رہے ہوں تو دستور کی دفعہ ۱۹۹ کے تحت پاکستان کے تمام ہائی کورٹوں اور دفعہ۱۸۴ کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا راستہ موجود ہے۔
پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۶۰ ذیلی دفعہ ۳ شق (ب) قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیتی ہے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے اہم قانون مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۸ سی میں واضح طور پر درج ہے کہ: قادیانی اپنے کو اگر ’مسلم‘ ظاہر کرے یا کہے گا تو یہ جرم ہے اور سزا کا مستوجب ہوگا، جب کہ دستور کی دفعہ۵ واضح طور پر ہرمسلم اور غیرمسلم پاکستانی شہری سے تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کے دستور و قانون کو غیرمشروط اور مکمل طور پر مانے اور اطاعت کرے۔
قادیانیوں کو عمومی طور پر مذکورہ بالا تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ ان حقوق سے مستفیذ ہورہے ہیں۔ شکایت تو ہم اکثریتی مسلمان پاکستانیوں کو ہے کہ قادیانی اپنی دستوری اور قانونی حیثیت، یعنی ’غیرمسلم‘ ہونے کو قبول نہیں کر رہے، مگر دوسری طرف دستوری حقوق سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں، جب کہ دستور کے تقاضوں کے مطابق ’غیرمسلم‘ کی حیثیت اختیارکرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہرپاکستانی سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
مغربی ممالک خاص طور پر امریکا اپنے مقاصد کے لیے قادیانیوں کو استعمال کرتا ہے۔ اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے صرف ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ ۱۳نومبر ۲۰۱۷ء کو جنیوا میں Universal Periodic Review of Pakistan میں امریکی وفد کے سربراہ جیس برنسٹین نے مطالبہ کیا کہ:
Repeal blasphemy laws and restrictions and end their use against Ahmadi Muslims and others and grant the visit request of the UN Special Reporter the Promotion and Protection of the Right to Freedom of Opinion and Expression. (Ref:https://geneva.usmission.gov)
توہین رسالتؐ کے قوانین اور پابندیاں منسوخ کی جائیں اور ان کا احمدی مسلمانوں اور دیگر کے خلاف استعمال روکا جائے اور یواین اسپیشل رپورٹر کو آزادیِ اظہار کے قانون کے فروغ اور تحفظ کے لیے دورے کی اجازت دی جائے۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کے دستور میں درج قادیانیوں کی ’غیرمسلم‘ کی حیثیت سے انکار کی پشت پر امریکی حمایت اور مکمل پشت پناہی موجود ہے۔ امریکی وفد کے سربراہ کا صرف ’احمدی‘ کہنے کے بجاے ’احمدی مسلمان‘ کہنا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔اس طرح کا پاکستان کے دستور سے متصادم مطالبہ کیا کوئی دوست ملک کرسکتا ہے؟ نیز جن قادیانی ’غیرمسلم‘ کے حق میں غیردستوری مطالبہ کیا گیا ہے وہ کیا پاکستان کے وفادار ہوسکتے ہیں؟
عام پاکستانی پوچھتا ہے کہ امریکا کے وفد کے سربراہ نے قادیانیوں کے علاوہ دیگر ’غیرمسلم‘ اقلیتوں کے لیے کیوں ایک لفظ بھی نہیں بولا؟ سپریم کورٹ کے سابق دو غیرمسلم چیف جسٹس کارنیلس اور بھگوان داس کے خلاف کبھی کسی نے بات نہیں کی۔ اسی طرح تقریباً ہرحکومت کے دور میں وفاقی و صوبائی حکومتوں میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے وزیر ہوتے ہیں، مگر ان پر اعتراض نہیں کیا گیا، کیوںکہ وہ دستور کے تقاضوں کو قبول کرتے ہیں اور محب ِ وطن ہیں۔
اس لیے محب ِ وطن پاکستانی مطالبہ کرتے ہیں کہ قادیانیوں کو اہم عہدوں اور اہم پالیسی ساز اداروں میں اس وقت تک نہ رکھا جائے جب تک وہ ملکی دستور و قانون کے تقاضوں کے مطابق اپنے کو’غیرمسلم‘ تسلیم نہ کرلیں۔