ہمارے اُردو کے ادیب اور دانش ور حالات حاضرہ پر زبان کھولنے کےلیے تیار نہیں۔ یہ بات افسوس کی ہے اور شرم کی بھی۔ افسوس اور شرم اس لیے کہ ادیبوں اور دانش وروں کی حیثیت ایک ’تھنک ٹینک‘ کی ہوتی ہے۔ منہ کھولے مسائل سے نمٹنے کےلیے یہ قوم کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ ان کا سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ یہ ’ضمیر‘ کو ’زندہ‘ رکھتے ہیں: اپنے ’ضمیر‘ کو بھی اور قوم کے ’ضمیر‘ کو بھی ___مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ادیب اور ہمارے دانش ور یہ کام جو اپنی نوعیت میں بہت ہی اہم بلکہ اہم ترین ہے، کررہے ہیں؟
کچھ عرصہ پہلے شہر ممبئی میں اردو کے ایک بہت بڑے، شہرت یافتہ اور رجحان ساز ادیب آئے تھے، ان سے ملاقات کےلیے پہنچے اور عرض کیا: ’’’ادب‘ پر نہیں ’حالاتِ حاضرہ‘ پر آپ سے بات چیت کرنی ہے‘‘۔ انھوں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا ’ہم تو ادب کے آدمی ہیں۔ ہم سیاست وغیرہ پر کیا بات کریں گے؟‘ ان کے غصّے پر حیرت بھی ہوئی اور تعجب بھی کہ اتنا بڑا ادیب ، دانش ور بھلا حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرنے سے کیو ںکترا رہا ہے؟ بہت منت سماجت پر انھو ںنے بات توکی، مگر سوالوں کے جواب بے دلی سے دیے اور جواب بھی ایسے، جو کسی مسئلے کو حل کرنے میں مفید ثابت نہ ہوسکیں۔
آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ ہوگیا، کشمیر میں کرفیو لگا ہوا ہے، انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہیں، اس خطے کا رابطہ ساری دنیا سے کاٹ کر رکھ دیاگیا ہے، مگر ہمارے ادیب اور دانش ور ہیں کہ اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ اتنا بڑا واقعہ ہوا، ساری دنیا میں اس کی گونج ہے مگر انھیں کوئی فکر نہیں۔ ان کے مقابلے میں انگریزی ، ہندی، تمل، تیلگو ، گجراتی اور بنگالی و مراٹھی زبانوں کے ادیب اور دانش ور حالت حاضرہ پر نہ صرف غور کرتے ہیں بلکہ پوری قوم کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ یہ کشمیر پر بھی لکھ رہے اور بات کررہے ہیں۔
ٹھیک ہے ، افسانے ، شاعری، تنقید اور تحقیق اپنی جگہ درست ہے، مگر ادب تو آنکھیں کھولنا سکھاتا ہے او راپنے اطراف میں جو ہورہا ہے اسے ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی، جانچنے او رپرکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ اگر ہم عالمی ادب کا جائزہ لیں ، یا عالمی سطح کے دانش وروں کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ظلم وجبر کے خلاف آواز اُٹھانے سے وہ نہیں گھبراتے، بلکہ وہ عوام کی آواز کو بھی اپنی آواز میں شامل کرلیتے ہیں اور سب کی آواز وں سے مل کر جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ اس قدر پُراثر ہوتی ہے کہ حکمران حالات کو بہتر بنانے پر غور کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اردو کے ادیبوں اور دانش وروں کو کیا کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان میں چند ہی لوگوں نے ۲۰۰۲ء میں گجرات فسادات کو اپنا موضوع بنایا ہے؟ ۲۰۱۳ء میں مظفر نگر کے فسادات اور ’ہجومی تشدد‘ اور فاشزم پر لکھا؟ بھارت میں ’زعفرانی لہر‘ کے بعد اقلیتوں کی سماجی، معاشی، تہذیبی اور تعلیمی اقدار کی شکست وریخت کو موضوع بنایا؟ عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی اور کشمیر کہ جہاں پیلٹ گنوں سے نکلنے والے چھرّوں سے لوگ نابینا ہوگئے ہیں، ان پر لکھا اور بات کی ہے؟ کتنے ہی موضوعات ہیں جن پر لکھنا،بولنا اور قوم کو راہ دکھانی ہے۔ فاشزم یا فسطائیت کے خلاف وہ لڑائی جو بھارت کی دوسری زبانوں کے ادیبوں اور دانش وروں نے شروع کررکھی ہے، اس میں شامل ہوکر ایک متحدہ جدوجہد کرنی ہے۔
کیوں اُردو میں کوئی اروندھتی راے، شیکھر گپتا ، پنکج مشرا ، یا چندراگوہا پیدا نہیں ہوتے؟ جب بات حق کہنے کی آتی ہے، تب اُردو خواں اہلِ دانش کی زبانوں پر تالے کیوں پڑجاتے ہیں ؟ اب سے سوپچاس سال پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا! پہلے، جب انگریز اس ملک پر قابض تھے تب ہم میں ایسے لوگ موجود تھے، جو سب کچھ سہہ کر بھی حق بولتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد ، ظفرعلی خاں، حسرت موہانی، کتنے ہی جگمگاتے نام ہیں، مگر آج ’کشمیر ‘ پر ہم میں سے کوئی نہ اروندھتی راے کی طرح زبان کھولنے پر آمادہ ہے اور نہ کوئی رویش کمار ہی کی طرح جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کو تیار!
آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے اب تک، جب کہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کو ٹھپ ہوئے ۵۰ واں دن شروع ہوچکا ہے۔ کرفیو ہے کہ مسلسل جاری ہے۔ لوگ ہیں کہ جیلوں کے اندر اس طرح سے ڈال دیے گئے ہیں کہ ان کے گھر والوں کو بھی خبر نہیں ہے۔ پیلٹ گنیں ہیں کہ رہ رہ کی چلتی اور لوگوں کے چہروں اور بدن کو بدنما بنارہی اور بینائی چھین رہی ہیں، اور ہر جانب فوجی وردیوں کا ایک سیلاب نظر آرہا ہے ۔ کشمیر کے حالات پر رپورٹوں ، تجزیوں ، اور روزمرہ کی خبروں کا جائزہ لیں تو خوب اندازہ ہوجائے گا کہ سچ کو جس طرح سے اجاگر کرنا چاہیے تھا ’ہم‘ نے تو نہیں کیا ہے، مگر ’اُنھوں‘ نے کیا ہے ، اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے کیا ہے ۔
اروندھتی راے بھی تو ایک ادیبہ ہیں۔ صرف ایک ناول نگار نہیں بلکہ وہ انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ رہنما بھی ہیں ۔کشمیر پر ان کا ناول The Ministry of Utmost Happiness ۲۰۱۷ء میں شائع ہوچکا ہے۔ ’مسئلہ کشمیر‘ پر وہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے بہت پہلے سے بولتی چلی آرہی ہیں۔ ان کے ایک مضمون’آزادی‘ نے حکمراں جماعتوں کی نیندیں اڑادی تھیں۔ انگریزی ماہنامہ کارواں میں کشمیر کے تازہ ترین حالات پر ان کا ایک تجزیہ شائع ہوا، جس میں انھوں نے ۵؍ اگست کے روزمرکز کا مودی سرکار کے ہاتھوں آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنے کو ’یک طرفہ فیصلہ‘ قرار دیا اور واضح لفظوں میں کہا ہے: ’’مودی حکومت نے اپنے فیصلے سے ان بنیادی شرطوں کو تار تار کردیا جن کی بنیاد پر جموں وکشمیر کی سابق ریاست ہندستان کے ساتھ ملی تھی‘‘۔ محترمہ راے تحریر کرتی ہیں: ’’۴؍ اگست کو پورے کشمیر کو ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ، ۷۰ لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں بند کردیے گئے ، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون خدمات بھی بند کردی گئیں‘‘۔
وہ لکھتی ہیں:’’ اطلاعات کے اس زمانے میں کوئی حکومت کتنی آسانی سے ایک پوری آبادی کو باقی دنیا سے کیسے کاٹ سکتی ہے ، اس سے پتا لگتا ہے کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں ۔ کشمیر کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ ’تقسیم‘ کے ادھورے کاموں میں سے ایک ہے ۔ ’ تقسیم‘ جس کے ذریعے انگریزوں نے برصغیر کے بیچ میں لاپروائی سے ایک لکیر کھینچ دی اور یہ مان لیا گیا کہ انھوں نے ’ مکمل‘ کو تقسیم کردیا ہے۔ برطانیہ کے تحت ہندستان کے سیکڑوں رجواڑے تھے، جن سے الگ الگ مول تول کیا گیا، اور جوریاستیں اس کے لیے تیار نہیں تھیں ان سے زبردستی منوا لیا گیا‘‘ ۔
معروف مؤرخ رام چندرگوہا کا کہنا ہے کہ: ’’صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کا آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنا بالکل ۱۹۷۵ء میں [اندرگاندھی کے] ایمرجنسی کے نفاذ کی مانند ہے۔ یہ جمہوریت نہیں، یہ آمریت ہے۔ ایسے حواس باختہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے حکمرانوں کی کاریگری، جو پارلیمنٹ کے اندر یا باہر مناسب مباحثے کی جرأت بھی نہیں رکھتے‘‘۔
اسی طرح پنکج مشرا بھی تو ادیب ہیں۔ وہ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور دانش ور بھی ہیں۔ انھوں نے فاشزم کے خلاف ایک بلندپایہ کتاب Age of Anger لکھی ہے۔ کارواں ہی میں وہ ایک مضمون: ’’کشمیر میں ہندستان اپنے ہی پیروں پر گولی ماررہا ہے ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہرگزرتے ہفتے کے ساتھ کشمیر پر ہندستان کا کریک ڈاؤن بڑھتا جارہا ہے ۔ انٹرنیٹ اور فون کی لائنوں کو کاٹ دینے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کو حراست میں لے کر، کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار نے اطلاعات کے مطابق ہزاروں کشمیریوں، طالب علموں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو بھی قیدخانوں میں ڈال دیا ہے‘‘۔ پنکج مشرانے کشمیر میں کیے جانے والے اقدام کو سربیا کی نسل پرستی اور وہاں کے نسل پرست لیڈر راتکو ملادیچ کے اقدامات سے تعبیر کیا ہے___ وہ تحریر کرتے ہیں: ’’ہندستانی میڈیا کی جانب سےملنے والی تقریباً اجتماعی حمایت نے مودی سرکار کو بے خوف کردیا ہے ۔ تاہم، غیرملکی میڈیا کے صفحۂ اول پر، کشمیر کی خالی گلیوں میں پوری طرح سے مسلح فوجیوں کی ، چھپنے والی تصویریں یہ ظاہر کردیتی ہیں کہ یہ خطّہ پوری طرح سے فوجی تسلط میں ہے، اور اب عالمی میڈیا کھل کر مودی سرکار کو ’نسل پرست‘ اور ’ فاشسٹ‘ لکھ رہا ہے ‘‘۔
سدھارتھ بھاٹیہ کا کہنا ہے: ’’ کشمیر میں جو ہوا اس کا مقصد کشمیریوں پر کنٹرول کرنا ہی نہیں، ان کو ذلیل کرنا بھی ہے ‘‘___ دی وائر اردو میں وہ صاف صاف لکھتے ہیں: ’’ابلاغ کے سارے ذرائع کو کاٹ کر، ان کو قابو میں رکھنے کے لیے سیکورٹی اہل کاروں کا استعمال ، اور روز روز کی توڑپھوڑ کا مقصد کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے ۔ ان کا ہر قدم اور وجود اقتدار کے ہاتھ میں ہے ، وہ اقتدار کہ جس کی نمایندگی ایک بڑی اور ہرجگہ موجود فوج کررہی ہے ، جو ان کی روزمرہ کی زندگی میں دخل دیتی ہے‘‘۔
انگریزی پورٹل (ویب) The Wire نے سواگتا یادوار کی کشمیر سے ایک دل دہلانے والی رپورٹ شائع کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے: ’ کشمیر‘ کے محاصرے سے وہاں ’ ذہنی بیماریاں‘ پھوٹ پڑی ہیں ۔ رپورٹ کے دواقتباسات ملاحظہ کریں۔ ’’ وہ ایک کونے میں بیٹھی ہوئی ہے ، ڈاکٹر کے کمرے کے دروازے کے بغل میں ، کمپاؤنڈر کی میز پر پھیلے کاغذات اور بکسوں سے چھپی ہوئی۔ میں مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر مایوس ہورہی ہوں ، مجھے لگتا ہے کہ ہمارا کوئی مستقبل ہے ہی نہیں‘‘۔ ۲۴ سالہ زہرا جس نے قانون کی ڈگری لی ہے اور اب ریاستی سول سروسز (جوڈیشل) کے امتحان کی تیاری کررہی ہے۔ وہ اب ڈپریشن (مایوسی) کی مریضہ ہے۔ تین برسوں سے اسے دواؤں کی ضرورت نہیں پڑی تھی، لیکن آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد اس کا اضطراب پھر لوٹ آیا ہے:’’ اب میں اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں مرکوز کرپاتی ‘‘۔ زہرا ان ۱۵ مریضوں میں سے ایک ہے، جو اعصابی امراض کے ماہر آکاش یوسف خان کے پاس بارہمولہ اس کے کلینک میں بغرض علاج آئے ہیں ‘‘۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے حالات دشوار ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق علاج ومعالجے کے لیے لوگوں کا آنا کم سے کم ہوگیا ہے اور ۵؍ اگست کے بعد ذہنی مریضوں میں سے بس چند ہی ڈاکٹروں سے مل سکے ہیں۔ نتیجے میں کشمیر میں ذہنی بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں ۔ لوگوں کو مایوسی ، بے چینی اور اضطراب نے گھیر لیا ہے جسے ’ ڈپریشن‘ کا نام دیا جاتا ہے ‘‘۔
The Quint میں آدتیہ مینن نے کشمیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا ذکر کرتے ہوئے ’سورہ‘ علاقے کو کشمیر کا ’ غزہ‘ قرار دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’سورہ میں اسی روز سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے، جس روز حکومت نے جموں اور کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا، مگر ۹؍ اگست کا بڑے پیمانے کا احتجاج سب سے زیادہ اہم تھا۔ اس احتجاج نے حکومت ہند کے بہت سارے دعوؤں کو ہوا میں اُڑا دیا:
رویش کمار بھی تو ایک ادیب اور دانش وَر ہیں۔ تہذیب، قوم اور جمہوریت کے موضوع پر ان کی کتاب بولنا ہی ہے نے دھوم مچا رکھی ہے۔
پھر اس مستعفی اعلیٰ پولیس افسر کے چند جملے پیش ہیں، جو کبھی پنجاب میں ’ انتہا پسندی‘ کے خاتمے کے لیے سرگرم تھا۔ ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ، صدارتی ایوارڈ یافتہ پدم بھوشن جولیوایف ریبریو نے کاروان میں شائع شدہ انٹرویو میں کہا :’’فوج کو کبھی اپنے ہی لوگوں سے لڑنے کی تربیت نہیں دی گئی۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ کشمیری مسلمان ہندستان کا اٹوٹ اَنگ ہے،تو آپ کو چاہیے کہ ان سے اسی طرح سےپیش آئیں‘‘۔ کیا نریندر مودی ، امیت شا وغیرہ جولیو ایف ریبریو کے مشورے پر عمل کرکے کشمیری مسلمانوں کے بارے میں ان کی بات سنیں گے، یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑادیں گے ؟
یہ تو بس چندمضامین اور تجزیوں اور احوال سے لی گئی کچھ مثالیں ہیں، ایسے دانش وروں، سیاست دانوں اور صحافیوں کی، جو ’ ہم‘ اُردو لکھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اُن کی ایک بڑی تعداد ’مسئلہ کشمیر‘ پر زبان کھول رہی ہے، اور کشمیریوں پر جو کچھ ان دنوں بیت رہی ہے اس کا احوال پیش کررہی ہے ۔ جھوٹ کو جھوٹ کہہ رہی ہے اور حق کو حق___ نہ جانے کیوں ’ ہم‘ اُردو لکھنے والوں میں ایسے لوگ نہیں ہیں ، اور اگر ’مسئلہ کشمیر‘ پر ہماری زبانیں کھلتی بھی ہیں، تو بڑی ہی احتیاط سے الفاظ نکلتے ہیں۔ حکومت کے موقف کی تائید تو کی ہی جاتی ہے ، مگر کشمیری عوام پر جو ان دنوں بیت رہی ہے اس کا ذکر سرسری کیا جاتا ہے ___ کیا کوئی ’ ہم ‘ میں سے کھل کر بات کرے گا؟
اُردو کے قلم کارو! آپ کا قلم کب بولے گا؟ آپ کی زبان کب کھلے گی؟ آپ کب افسانوں اور غزلوں اور نظموںکی دنیاسے باہر نکل کر حالاتِ حاضرہ پر بھی کچھ لکھیں او ربولیں گے؟