ستمبر کے شمارے میں کشمیر پر برہمنی مظالم کی مناسبت سے بہت قیمتی تحریریں مطالعے کے لیے ملیں۔ سچی بات ہے کہ اس مرحلے پر سیّد علی گیلانی صاحب کی تحریر اور پکار کو ’اشارات‘ میں پیش کرکے، آپ نے کشمیری بھائیوں سے یک جہتی اور مسئلے کی مرکزیت کو نمایاں کرنے میں ایک شان دار مثال قائم کی ہے۔ مولانا مودودی مرحوم نے ’ جنگ ِ ستمبر‘ کے حوالے سے ۵۵برس پہلے جو باتیں کی تھیں، وہ آج حرف بہ حرف توجہ اور ترجیح کے لائق ہیں۔ افتخار گیلانی تو کشمیر کی جدوجہد پر انسائیکلوپیڈیا کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر شمارہ ان کے ذریعے ہمیں کشمیر اور بھارت لے جاتا ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی ایمان افروز تحریر اور پطرس بخاری مرحوم کے احساس ذمہ داری اور کشمیر سے وابستگی نے معلومات میں بے پناہ اضافہ کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر صفدر محمود صاحب، قومی پریس میں غالباً واحد دانش ور ہیں جو سیکولر لہر کا مدلل انداز سے مقابلہ کر رہے ہیں اور جواب دے رہے ہیں۔
تازہ شمارے میں ایچ عبدالرقیب صاحب نے زکوٰۃ کی عالمی سطح پر قدر و منزلت ، قبولیت اور معنویت کا نقشہ پیش فرمایا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر محمد واسع ظفر صاحب نے ایک دینی اور عملی مضمون کو مکمل کر کے کاروبار میں اسلام کی رہنمائی سے آگاہ کیا ہے۔ ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے دینی مدارس پر ریاستی شب خون مارنے کی حرکت کو بے نقاب کیا ہے اور مراد علوی صاحب نے تجدد پسند گروہ کو آئینہ دکھایا ہے۔ یہ سب تحریریں علم میں اضافے کا باعث ہیں۔
محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے مضمون: ’’کیا حفظ ِ قرآن ایک ’بدعت‘ ہے؟‘‘ (ستمبر۲۰۱۹ء) پڑھا۔ اسلام کے دورِ اوّل اور بہت بعد تک یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ کوئی بغیرسمجھے بھی قرآنِ مجیدکو پڑھے گا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ خود ہمارے یہاں عربی مدارس میں بھی طلبہ کی بڑی تعداد کو عربی نہیں پڑھائی جاتی۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ابتدائی جماعتوں میں عربی پڑھائی جاتی اور پھر حفظ ِ قرآن اور باقی علوم اسلامیہ کی تعلیم دی جاتی؟ تلاوتِ قرآن کا مطلب معانی سمجھے بغیر تلاوت کیسے ہوسکتا ہے؟ قرآن کے ابتدائی قاری تو وہ تھے، جنھیں عربی زبان آتی تھی۔ قرآن کا اصل مقصد اُس کے الفاظ کے معانی سمجھنا ہے۔ ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ قرآن کا مفہوم (سیدھاسادہ مفہوم) سمجھے۔ [مفتی صاحب نے کہیں یہ نہیں کہا کہ قرآن فہمی کی ضرورت نہیں اور نہ ہم کہتے ہیں کہ محض تلاوت مقصود و مطلوب ہے۔ قرآن کریم کا یاد ہونا اور پھر ایک قدم آگے بڑھ کر اس کا فہم اور تفقہ فی الدین ہونا اور اس پر عمل کرنا ہی مطلوب ہے۔ مگر حفظ کو ’بدعت‘ قرار دینا نامناسب بیان ہے۔ ادارہ]
شمارہ اگست ۲۰۱۹ء میں مقالہ بعنوان ’تحفظ حقوق ماوراے صنف قانون‘ از محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب میں مفتی صاحب نے صنفی لحاظ سے متنوع اقسام کے بارے تحقیق کرکے پاکستان کی پارلیمان کے منظور کردہ قانون کا محاکمہ کیا ہے۔ ان کی دو باتوں سے کُلی اتفاق ہے: اوّل، یہ کہ منظور کردہ قانون میں ماوراے صنف افرادکے لیے سہولتوں، فوائد، استحقاق یا مواقع کے ضمن میں متضاد سہولتوں کی منظوری دی گئی ہے۔ ایک جگہ ان کو ان کی متعین شدہ جنس کے مطابق سہولتوں کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ گویا نارمل افراد کی متعلقہ جنس کے مطابق یا مساوی۔ دوسری جگہ ان کے لیے الگ جیل خانے یا حفاظتی حراستی مراکز بنانے کو کہا گیا ہے۔ لہٰذا، اس تضاد کو دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ وراثت کے معاملے میں منظورکردہ قانون میں ان افراد کے حصے کے لیے ۱۸سال سے پہلے اور ۱۸سال کی عمر کے بعد میں فرق رکھا گیا ہے، جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مفتی صاحب کی دلیل کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے (اگرچہ اس کا انھوں نے ذکر نہیں کیا ہے) کہ پارلیمان اس قانون میں ضروری ترمیمات کروا کر اسے اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق ڈھالے۔
مفتی صاحب نے مضمون میں جس ’فتوے‘ کو رد کیا ہے، میری راے میں یہ فتویٰ بنیادی طور پرشریعت کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہے۔ البتہ، اس کی زبان و بیان میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ دوم، نفسیاتی اصطلاح Gender Dysphoria کا ترجمہ ’صنفی احساسِ ملامت‘ کے بجاے ’صنفی احساسِ عدم اطمینان یا احساسِ ناگواری‘ زیادہ مناسب ہے۔
مفتی سیّد عدنان کاکاخیل صاحب نے اپنے قابلِ قدر مضمون: ’چائلڈ میرج بل، مسئلہ یا مغالطہ!‘ (جون ۲۰۱۹ء) میں بہت مفید باتیں بیان کی ہیں۔ البتہ، بعض پہلو توجہ طلب ہیں، مثلاً قرآنِ کریم میاں بیوی کے رشتے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے: رفاقت، مؤدت، رحمت اور سکینت وغیرہ ، جو کہ بالغ افراد ہی کے درمیان ممکن ہے، نابالغ کے درمیان نہیں۔اسی شمارے میں ڈاکٹر نازنین سعادت نے بصیرت افروز مضمون: ’شادی سے قبل رہنمائی اور مشاورت‘ میں لکھا ہے: ’’اسلام نے شادی میں لڑکے اور لڑکی کی راے کو بہت اہمیت دی ہے کہ ایجاب و قبول انھی میں ہوتا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ایجاب و قبول بالغ افراد کے درمیان ہی ممکن ہے۔ اس لیے نابالغ بچی کی شادی کے مسئلے اور پاکستان کے قوانین پر علمی بحث اور عملی تجاویز کو پیش کیا جانا چاہیے۔