آج ہماری بہت سی مشکلات میں سے کچھ تو اجتماعی اُمور سے متعلق ہیں، کچھ کا تعلق حکومتوں سے ہے، اور کچھ انفرادی نوعیت کی ہیں۔ اس آخری قسم سے تعلق رکھنے والی مشکلات کے سرسری جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو حل کرنے کے لیے ہمیں نہ تو بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، نہ کسی کثیرسرمایے یا تربیت یافتہ افرادی قوت کی۔ یہ اُمور چونکہ ہم سب کی اپنی دسترس میں ہیں، اس لیے کسی سے مطالبہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ضرورت صرف صدقِ دل سے عمل کرنے کی ہے اور عمل بھی زیادہ مشکل نہیں۔ معمولی کوشش سے ہم اپنی عادات بدل سکتے ہیں، اور ان روایات اور رسوم و رواج سے چھٹکارا پاسکتے ہیں، جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اسی حوالے سے یہاں چند اُمور کے متعلق سیرتِ طیبہؐ اور تعلیماتِ نبویؐ سے راہ نمائی پیش کی جارہی ہے:
حقوق کی ادایگی میں کوتاہی
ہماری بہت سی مشکلات کا سبب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک (الا ماشاء اللہ) اپنے حقوق کے حصول کا تو دعوے دار ہے، مگر دوسروں کے اپنے اُوپر عائد ہونے والے حقوق اور اپنے فرائض کی ادایگی سے بے نیازی و لاپروائی کا بھی شکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی مطمئن نہیں، اور ہر ایک کام ناقص و ادھورا ہے اور تقریباً ہرشخص دوسرے کا حق نادہندہ ہے۔ چونکہ کوتاہی سب کی جانب سے ہے، اس لیے متاثر بھی سب ہی ہیں، لیکن اصلاح کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔
یہ صورتِ حال ہر میدان میں موجود ہے۔ استاد اپنے طلبہ سے اپنے حقوق کی ادایگی کا خواہاں ہے، تو دوسری جانب اس کے شاگرد مطمئن نہیں کہ وہ اپنے فرائض کی ادایگی میں اپنی انتہائی صلاحیتوں کو صرف کرنے سے قاصر ہے۔ بھائی بھائی سے نالاں ہے، مگر وہ خود بھی اپنے بھائی کے بہت سے حقو ق ادا نہ کرنے کا ذمے دار ہے۔ شریعت نے یہ حل پیش کیا ہے کہ حقوق کی ادایگی کو بغیر کسی معمولی رکاوٹ کے تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ اسی بنا پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی سخت تاکید فرمائی ہے اور حقوق کی ادایگی کی تلقین فرمائی ہے۔ یہ حقوق متعدد نوعیت کے ہیں: والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، استاد شاگرد کے حقوق، اہلِ قرابت کے حقوق، دوست احباب کے حقوق اور ملازمین کے حقوق وغیرہ۔ ہر ایک کے علیحدہ علیحدہ حقوق، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کیے اور سب کی ادایگی کی الگ الگ تلقین فرمائی ہے۔
اہلِ قرابت کے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی ہمارے ہاں عام ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
الرَّحِمُ شَجْنَۃٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ قَالَ اللہُ تَعَالٰی مَنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُہٗ (بخاری، ج۵، ص ۲۲۳۲، رقم:۵۶۴۲) رحم (حق قرابت) رحمٰن سے مشتق ہے، اور اللہ تعالیٰ نے رحم سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا، میں اسے جوڑوں گا، اور جو تجھے کاٹے گا، میں اسے قطع کردوں گا۔
یعنی جو شخص اپنے تعلق والوں کے حقوق احساسِ ذمہ داری سے ادا کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب سے نوازے گا، اور جو قطع رحمی کرتے ہوئے ان کے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی اس سے قطع تعلق فرمائے گا۔
صلۂ رحمی کرنے اور اہلِ قرابت کو ان کے حقوق کی ادایگی کے دنیاوی فوائد بھی کثرت سے ہیں۔ حضرت انسؓ کی روایت میں آپؐ نے فرمایا:
مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُبْسَطَ فِیْ رِزْقِہٖ وَیُنْسَأَ لَہٗ فِیْ اَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ (مسلم: رقم ۲۵۵۷؛ بخاری، الادب المفرد ، ج۱، ص ۳۴، رقم: ۵۶) جو شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی اور دنیا میں اس کے آثار تادیر رہیں (یعنی اس کی عمردراز ہو) تو اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔
اسلام دوسروں کے حقوق کی ادایگی کی تلقین کے ساتھ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا خواہاں ہے، جہاں سکون و اطمینان، خوش دلی اور باہمی تعاون کی فضا پروان چڑھے ۔ ضروری ہے کہ بُرائی کا جواب بھی اچھائی سے دیا جائے، حقوق ادا نہ کرنے والوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں۔
ابن عمرؓ سے روایت میں اسی کی تلقین ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیٔ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ ھُوَ الَّذِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا (ابوداؤد، ج۲، ص ۵۹، رقم: ۱۶۹۷؛ بیہقی، السنن الکبریٰ، بیروت، ۱۹۹۶ء، ج۷، ص ۲۷،رقم: ۱۲۹۹۸) وہ شخص صلۂ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا جو بدلے کے طور پر صلۂ رحمی کرتا ہے۔ صلہ رحمی کرنے والا تو اصل میں وہ شخص ہے جو اس شخص سے بھی صلۂ رحمی کرے جو اس کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ کرتا ہے۔
حقوق کی بحث صرف رشتے داروں کے حقوق تک محدود نہیں، اسلام کی نظر میں تو اس کی حدود بہت وسیع ہیں،جیساکہ ذکر کیا گیا کہ اس کی بہت سی شاخیں ہیں، اور بحیثیت مسلمان ہم پر فرض ہے کہ تمام حقوق کی نگہبانی کریں، اس یقین کے ساتھ کہ اس کے نتیجے میں اُخروی اجر تو ان شاء اللہ ملنا ہی ہے، دنیاوی مصائب بھی ختم ہوں گے، مشکلات کم ہوں گی اور ہمارے گھر پھر سے پریشانیوں سے آزاد اور مسرت و انبساط کا مرکز بنیں گے۔
دوسری جانب ہمارے قیمتی وقت اور صلاحیتوں کے ضیاع نے بھی صورتِ حال سنگین کردی ہے۔دونوں چیزیں اَنمول ہیں، جنھیں ہم قطعاً مہمل، لایعنی اور بے مول مصروفیات یا بے کاری میں برباد کررہے ہیں، جس کے سبب ہم بہت سی مشکلات سے دوچار ہیں۔ سرکاری دفاتر میں اگر کام آٹھ گھنٹے ہونا چاہیے توعام طور پر بہ مشکل دو اڑھائی گھنٹے ہوتا ہے۔ طرح طرح کے بہانوں کے نتیجے میں ہونے والی چھٹیاں اس کے علاوہ ہیں۔ یہ بات ایک جانب بدترین خیانت ہے، دوسری طرف وقت کے ضیاع کا گناہ بھی اس کے نتیجے میں لازم آتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل گھنٹوں بلکہ بعض اوقات پوری شب انٹرنیٹ کے سامنے بیٹھ کر گزار دیتی ہے۔ پھر طویل طویل ٹیلی فون کالیں ہیں۔ کرکٹ وغیرہ مختلف کھیلوں کی خرافات الگ ہیں، جن میں پوری قوم کے کروڑوں روپے اور ہزاروں گھنٹے برباد ہورہے ہیں ، اور افسوس کہ اتنی قیمتی دولت کے ضیاع کا احساس تک نہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فرائض کی ادایگی میں سخت کوتاہی و لاپروائی عام ہے۔ گھر کے روزمرہ کے اُمور سے بھی بے توجہی کی شکایات کم نہیں۔ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد، سب ہی پامال ہورہے ہیں، اور حاصل کچھ بھی نہیں۔ نہ دین کا فائدہ نہ دنیا ہی کا حصول، نتیجتاً گھریلو ناچاقی، بے روزگاری، مالی پریشانیاں ، بڑھتے ہوئے اخراجات سب جمع ہوکر ہماری مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
ان مشکلات سے بچنے کے لیے اسلام نے اپنے اوقات کو قیمتی بنانے اور انھیں کارآمد سرگرمیوں میں صرف کرنے کی تلقین کی ہے، اور وقت کی قدروقیمت کو واضح کیا ہے۔ ان مشکلات کا واحد حل یہی ہے کہ ہم اپنے وقت کو کارآمد مصروفیات میں صرف کر کے قیمتی بنائیں، اور فضول و لایعنی اُمور سے چھٹکارا حاصل کریں۔
قرآنِ حکیم میں روزِ قیامت کی منظرکشی کرتے ہوئے فرمایاگیا:
وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ۰ۭ (یونس۱۰:۴۵) جس روز اللہ انھیں اکٹھا کرے گا تو (انھیں اپنی بیتی ہوئی زندگی اس قدر محسوس ہوگی کہ) گویا وہ محض ایک گھڑی کو آپس کی جان پہچان کے لیے ٹھیرے تھے۔
انھیں محسوس یہ ہوگا کہ دنیا میں ان کا قیام اتنا ہی تھا جس میں محض دو افراد باہمی ملتے ہوئے سلام دُعا کرتے ہیں، اور کچھ نہیں۔ اتنی مختصرمدت کو لایعنی اُمور میں ضائع کر دینا نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟
اسی بنا پر لایعنی اُمور سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے ہادیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ (ابن حبان، ج۱، ص ۴۶۶، رقم:۲۲۹،مالک بن انس ؛ الموطا، مصر، ج۲،ص ۹۰۳، رقم: ۱۶۰۴) اسلام کے حسن میں یہ بات بھی ہے کہ انسان لایعنی (فضول، بے کار)مشاغل ترک کردے۔
انسان کو وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتے ہوئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ ، شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ (حاکم، المستدرک، ج۴، ص ۳۴۱، رقم:۷۸۴۶)پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: بڑھاپے سے پہلے جوانی، بیماری سے پہلے تندرستی، تنگ دستی سے پہلے مال داری، مشغولیت سے پہلے فراغت اور موت سے پہلے زندگی کو۔
اور ایک روایت میں آپؐ نے وقت کی قدروقیمت کی جانب اس طرح توجہ دلائی، فرمایا:
نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْھِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ ، اَلْفَرَاغُ وَالصِّحَۃُ (ابن ابی شیبہ، المصنف، ریاض، ۱۴۰۹ھ، ج۷، ص۸۲، رقم:۳۴۳۵۷) دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے کا شکار ہیں: ایک فراغت اور دوسری صحت۔
ہر چڑھنے والا سورج جہاں ایک نئے دن کی نوید لے کر طلوع ہوتا ہے، وہیں اس کا مغرب کے اُفق میں غائب ہو جانا بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ انسانی زندگی اور دنیاوی مہلت کے مزید چوبیس گھنٹے کم ہوگئے۔ آپؐ نے فرمایا:
ہر روز صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس دن یہ اعلان کرتا ہے کہ آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کرلے۔ آج کے بعد مَیں پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔(بیہقی، شعب الایمان، ج۳،ص ۳۸۶، رقم: ۳۸۴۰)
ان نصوص کی روشنی میں ہمیں اپنے طرزِعمل کا جائزہ لینا ہوگا، تاکہ ہم مشکلات کے بھنور سے نکل کر کامیابی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔
ایک اور بہت بڑا مرض جس میں ہم مبتلا ہیں وہ اسراف و دکھلاوا ہے۔ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، لیکن نتائج یکساں ہیں۔ ریاکاری و دکھلاوے میں بھی انسان اسراف سے کام لیتا ہے، اور اسراف کے نتیجے میں بھی ریاکاری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ان کے مفاسد اس قدر واضح ہیں کہ کسی بیان کے محتاج نہیں۔ اسراف درحقیقت ہماری لامحدود خواہشات کا نتیجہ ہے ، جن کی ہم تکمیل کی آرزو رکھتے ہیں، حالانکہ ان کی تکمیل اس دنیا میں تو ممکن ہی نہیں۔ اس لیے اسلام نے خواہشات کی تہذیب کی ہے، اور ان کی تکمیل کے لیے حدود متعین کردی ہیں:
۱- ہم انواع و اقسام کے اسراف میں مبتلا ہیں، جن میں ہماری تقاریب سرفہرست ہیں، مثلاً بات بات پر تقاریب کا انعقاد گویا ہمارے فیشن کا حصہ بن گیا ہے۔
۲- تقاریب میں کھانوں کا بہ کثرت اہتمام اور پھر ان کا ضیاع الگ سے اسراف ہے۔
۳- خصوصاً تقاریب میں خواتین کے ملبوسات، زیورات اور آرایش، یہ اسراف بھی ہے اور دکھلاوا بھی۔ جو اکثر ایسی حدود میں داخل ہوجاتا ہے کہ شریعت کی نگاہ میں سراسر ناجائز ہے۔
اس موقعے پر ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول کیا تھا؟ اور اس دکھلاوے یا اسراف کو آپؐ نے ناپسند تو نہیں فرمایا؟ حیاتِ طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے:
۱- ’’آپؐ کے زیراستعمال کپڑوں کا ہمیشہ ایک ہی جوڑا ہوتا تھا‘‘۔(قاضی عیاض: الشفاء، قاہرہ، ۱۹۵۰ء، ج۱، ص ۸۲)
۲- حضرت عائشہؓ سے روایت ہے ’’آپؐ نے کبھی مسلسل دو وقت سیر ہوکر روٹی نہیں کھائی‘‘۔(ترمذی، ج۴، ص ۱۵۹، رقم: ۲۳۶۳)
۳- ایک بار حضرت فاطمہؓ نے اپنے گھر میں پردے لٹکا لیے، آپؐ نے دیکھا تو گھر میں داخل تک نہیں ہوئے۔پوچھنے پر فرمایا کہ’’ اس دنیاوی زیب و زینت سے میرا کیا تعلق؟‘‘ (ابوداؤد: ج۴،ص ۴۲، رقم:۴۱۴۹)
اسی طرح ایک بار حضرت عائشہؓ نے اپنے حجرے میں پردے لٹکائے، آپؐ نے دیکھ کر ناگواری کا اظہار فرمایا اور فرمایا: ’’ہمیں اللہ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ہم اس کے دیے ہوئے رزق میں سے اینٹوں اور پتھروں کو کپڑے پہنائیں‘‘۔(مسلم، ج۳، ص ۸۲، رقم:۷۱۰)
۴- حضرت فاطمہؓ کو ایک بار حضرت علیؓ نے سونے کا ہار دیا۔ آپؐ کو علم ہوا تو فرمایا کہ اے فاطمہؓ! کیا تو یہ پسند کرتی ہے کہ لوگ کہیں کہ رسولؐ اللہ کی صاحب زادی کے ہاتھ میں آگ کی زنجیر ہے؟ حضرت فاطمہؓ نے اسے بیچ کر ایک غلام خرید کر اسے آزاد کردیا۔ آپؐ کو علم ہوا تو فرمایا کہ خدا کا شکر ہے، اس نے فاطمہؓ کو آگ سے نجات دے دی۔(نسائی، السنن الکبریٰ، بیروت، ۱۹۹۱ء، باب الکراھیۃ للنساء فی اظہر الحلی والذھب)
حالانکہ سب ہی اس امر سے واقف ہیں کہ خواتین کے لیے زیورات کی ممانعت نہیں، اس کے باوجود آپؐ کا اپنے اہل کے بارے میں یہ معمول تھا۔ ایسے میں زیورات کی موجودہ کثرت اور ان کے ساتھ ہمارا موجودہ ذوق و شوق کس طرح درست قرار دیا جاسکتا ہے؟
۵- آپؐ کے استعمال کے بستر میں صرف کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ (مسلم، ج۳، ص ۳۶۹، رقم: ۲۰۸۲)
۶- یاد رہے کہ یہ سب سادگی، زہد اور قناعت آپؐ کا اختیاری عمل تھا۔ چنانچہ ابوامامہؓ سے روایت ہے: رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ مجھے میرے ربّ نے پیش کش کی کہ (اگر میں چاہوں تو) میرے لیے پورے بطحا (مکّہ) کو سونے کا بنا دیا جائے، مگر میں نے کہا: نہیں، میرے رب! مَیں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن مَیں سیر ہوں اور ایک دن بھوکارہوں۔ آپؐ نے یہ بات تین بار فرمائی، اور جب بھوک لگے تو تیرے سامنے تضرع کروں (روئوں، گڑگڑائوں، تجھ سے مانگوں) اور تجھے یاد کروں، اور جب سیر ہوں تو تیرا شکر ادا کروں اور تیری حمد کروں۔ (ترمذی، ج۴، ص ۱۵۵، رقم: ۲۳۵۴)
اسی بنا پر آپؐ نے قناعت کی تلقین فرمائی اور اہلِ قناعت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ شخص کامیاب ہوگیا جو اسلام لایا اور گزر اوقات کے مطابق اسے رزق مل گیا اور اللہ نے اسے قناعت کی دولت سے نوازا۔ (ترمذی، ج۴، ص ۱۵۶، رقم: ۲۳۵۵)
ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا کہ: اس شخص کے لیے خوش خبری ہے، جسے اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی اور اس کی زندگی کی گزراوقات کے مطابق اسے روزی ملی اور قناعت حاصل ہوئی۔(ترمذی: ج۴، ص ۱۵۶، رقم:۲۳۵۶، المستدرک، ج۱، ص ۹۰)
دوسری جانب ریاکاری بھی پسندیدہ فعل نہیں، خصوصاً دینی اُمور میں اس کے نقصانات واضح ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللہُ بِہٖ وَمَنْ رَاءَیٰ رَاءَیٰ اللہُ بِہٖ (مسلم: رقم ۲۹۸۶، نسائی، کبریٰ، ج۶، ص۵۲۲، رقم:۱۱۷۰۰) جس نے اپنا کوئی عمل دکھاوے کے لیے کیا، اللہ تعالیٰ اس کی رُسوائی کا سامان کرے گا، اور جس کسی نے اپنا کوئی عمل ریاکاری کی نیت سے کیا تو اللہ اس کے راز لوگوں پر عیاں کر دے گا۔
اس بنا پر ہماری کوشش و خواہش ہونی چاہیے کہ ان خطرناک اُمور سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور ان عام ہوجانے والی بُرائیوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کریں۔
جھوٹ ہر معاشرے میں بُرا سمجھا جاتا اور وعدہ خلافی کو سخت بُرائی گردانا جاتا ہے۔ اسلام نے بھی ان سے بچنے کی سختی سے تاکید کی ہے، لیکن اس کے باوجود ہم ان اُمور میں مکمل طور پر غرق ہیں۔
جھوٹ اپنی اصل کے لحاظ سے ہی غلط، ناروا اور ممنوع ہے۔ پھر اس کی بے شمار قسمیں ہمارے ہاں رائج ہیں، لیکن سب کی سب ممنوع اور کسی بھی معاشرے کے لیے سخت ضرر رساں۔
قرآنِ حکیم میں جھوٹ کی بُرائی بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:
اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَكٰذِبٌ كَفَّارٌ۳(الزمر ۳۷:۳) بلاشبہہ اللہ اس کو راستہ نہیں دکھاتا جو جھوٹا اور ناشکرا ہو۔
اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَمُسْرِفٌ كَذَّابٌ۲۸ (المومن۴۰:۲۸) یقینا اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھ جانے والا، بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔
آپؐ نے جھوٹ کو نفاق کی علامت شمار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جس شخص میں چار عادتیں ہوں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں ان چار میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے جب تک وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ پھر ان علامات کا ذکر ان الفاظ سے فرمایا:
۱- جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
۲- جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
۳- جب کسی سے عہد کرے تو اسے دھوکا دے۔
۴- جب کسی سے لڑے تو گالیوں پر اُتر آئے۔ (بخاری، ج۱،ص ۱۶، رقم:۳۴)
عہد اور وعدے کا ایفا بھی ضروری ہے اور وعدہ خلافی سخت ممنوع۔ قرآنِ حکیم میں حکم ہوا:
وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ ۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۳۴ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴) اور اپنے عہد کو پورا کرو، یقینا عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
ہمارے ہاں جو جھوٹ کی اقسام رائج ہیں، ان میں عام روز مرہ کے جھوٹ سے لے کر گواہی، قسم اور شہادت میں غلط بیانی، جھوٹے سرٹیفکیٹ، وکلا کا غلط مقدمہ لینا، غلط سفارش، ناپ تول میں کمی، تجارتی فریب، صحافتی رپورٹنگ میں غلط بیانی اور حکومتی و سیاسی سطح کے جھوٹ، سب ہی شامل ہیں۔ سب سے ہی بچنے کا حکم ہے ، اور ہماری موجودہ مشکلات میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
جھوٹ اور کذ ب بیانی کے بعد جس دوسرے حد سے زیادہ بڑھنے والے مرض میں ہم شدت سے مبتلا ہیں، وہ خیانت اور بددیانتی ہے۔ یہ مرض بھی ہم میں اس قدر گہری جڑیں پکڑ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنابھی آسان نظر نہیں آتا۔امانت کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص کوئی کام یا کوئی چیز یا کوئی مال اس بھروسے اور اعتماد کے ساتھ دوسرے شخص کے سپرد کردے کہ وہ شخص اس سلسلے میں اپنا فرض پوری ذمے داری کے ساتھ بجا لائے گا، اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گا۔ قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ(النساء۴:۵۸) اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کر دو۔
حدیث میں بھی اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی تمھارے پاس کوئی چیز امانت رکھے تو تم اس کو واپس کردیا کرو، اور جو تم سے خیانت کرے تم اس سے خیانت نہ کرو‘‘۔ (ابوداؤد، ج۳،ص ۲۷۶، رقم:۳۵۳۴)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کبھی بھی خطبہ دیا تو اس میں یہ ضرور فرمایا:’’ جس شخص کے اندر امانت نہیں، اس کے اندر ایمان نہیں، اور جس شخص میں عہد کا پاس نہیں، اس کے پاس دین نہیں‘‘۔(احمد، المسند، ج۳،ص ۵۹۴)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چار چیزیں تمھیں میسر ہوں تو دنیا کی کسی چیز سے محرومی تمھارے لیے نقصان دہ نہیں، اور وہ یہ ہیں:
۱- امانت کی حفاظت کرنا، ۲- سچ بولنا، ۳- خوش خلقی اختیار کرنا، ۴- روزی میں پاکیزگی اختیار کرنا۔(احمد، ج۲،ص ۳۷۰، رقم: ۶۶۱۴)
’امانت‘ کا مفہوم بہت وسیع ہے، اور انسانی زندگی کا ہر شعبہ اس کے دائرے میں داخل ہے۔ مثال کے طور پر ’تاجر‘ کے لیے امانت یہ ہے کہ وہ لین دین میں سچ بولے اور دیانت داری سے تجارت کرے۔ ’آجر‘ کے حق میں امانت یہی ہے کہ وہ ’اجیر‘ (مزدور) کے حقوق کی ادایگی بروقت کرے، اور اس میں کسی بخل سے کام نہ لے۔ ’اجیر‘ کے حق میں امانت یہ ہوگی کہ وہ مالک اور ’آجر‘ کے حقوق کی نگہبانی کرے اور اس کے مفاد کا بھرپور خیال رکھے۔ ملازم اپنی ڈیوٹی پوری ذمہ داری سے ادا کرے۔ صنعت کار اپنا فریضہ دیانت داری سے انجام دے اور کسی قسم کی غلط سرگرمی میں ملوث نہ ہو۔ یہ سب امانت داری ہے، اور اگر کوئی شخص اس کے برعکس کرتا ہے تو وہ خیانت کا مرتکب ہے، اور خیانت کے بُرا ہونے میں کس کو کلام ہوسکتا ہے؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَدُّوْا الْخِیَاطَ وَالْمَخِیْطَ وَ اِیَّـاکُمْ وَالْغُلُوْلَ ، فَاِنَّہٗ عَارٌ عَلٰی اَھْلِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (دارمی، ج۲،ص ۳۰۲، رقم: ۲۴۸۷) دھاگا اور سوئی (تک) ادا کردو ، اور خیانت سے بچو، اس لیے کہ یہ خیانت قیامت کے دن عار اور ندامت کا باعث ہوگی۔
ہمارے ہاں خیانت کی بہت سی شکلیں رائج ہیں: ملازمت کے اوقات میں خیانت، ذمے داریوں کی ادایگی میں خیانت،علمی خیانتوں سے لے کر عملی خیانت تک۔ ہم وقت پر دفتر نہیں پہنچتے، ذمے داریوں کی ادایگی میں امانت و دیانت کا لحاظ نہیں رکھتے، دوسروں کے حقوق کی ادایگی میں خیانت کرجاتے ہیں، لین دین میں اپنے مفادات کو ترجیح دے کر دوسروں کو نقصان پہنچانا عام ہے۔ یہ سب چیزیں خیانت میں شامل اور سخت ممنوع ہیں۔ ہماری بہت سی مشکلات اس بنا پر ہیں کہ ہم امانت و دیانت کے ان اسلامی تقاضوں کا پاس نہیں رکھتے، جن کی تاکید قرآن و حدیث میں بار بار کی گئی ہے۔ ان اصولوں کو نافذ کیے بغیر ایک فلاحی معاشرے کا قیام ممکن نہیں، اور اس مقصد کے لیے ہرشخص اپنی ذات سے اس کا آغاز کرسکتا ہے۔
ہماری بہت سی مشکلات کا ایک سبب رزقِ حلال کی کمی ہے۔ ہمارا مطمح نظر صرف کمائی بن کر رہ گیا ہے، خواہ وہ کسی طریقے سے ہو۔ اکثریت کے سامنے تو حلال و حرام کا تصور رہا ہی نہیں، جنھیں اس کا تھوڑا بہت خیال ہے وہ بھی حیلے بہانے سے سب کچھ جائز کرلیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ حرام کھانے کا گناہ اپنی جگہ پر، آخرت کا وبال بھی درست، لیکن ان کے علاوہ خود ہماری دنیاوی زندگی بھی اس کے ساتھ اطمینان و سکون کے ساتھ نہیں گزرسکتی۔ ایک جانب حرام لقمہ ہماری خوراک بن رہا ہو اور دوسری جانب ہم آرام و بے فکری کی زندگی بسر کریں، یہ ممکن ہی نہیں۔ حرام غذا سے اسلام کے منع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے اثرات خود ہم پر ہی پڑتے ہیں اور اس کے نقصانات براہِ راست ہمیں ہی متاثر کرتے ہیں، جن میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے مال، زندگی اور کام، سب سے برکت اُٹھ جاتی ہے، مشکلات بڑھنے لگتی ہیں، مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، غیرمتوقع اخراجات سامنے آتے ہیں، اور زندگی حادثات کا شکار ہونے لگتی ہے۔ ان سےبچنے کا واحد نسخہ یہ ہے کہ کسب ِ حلال کی کوشش کریں اور حرام سے ہرصورت میں بچیں۔ اسلام نے جہاں ایک جانب حلال کمائی کی تلقین کی ہے، وہیں حرام سے بچنے کی بھی سخت تاکید فرمائی ہے۔ قرآنِ حکیم میں رزقِ حلال کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ (البقرہ ۲:۱۷۲) اے ایمان والو! تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو جو ہم نے تمھیں عطا کی ہیں۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ (طبرانی، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۷۴) حلال روزی کا طلب کرنا (دوسرے) فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔
اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کمائی سے اجتناب کی تلقین واضح الفاظ میں اور متعدد مقامات پر کی ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے، آپؐ نے کعب بن عجرہؓ سے فرمایا:
اِنَّہٗ لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ (دارمی،ج۲،ص۴۰۹، رقم:۲۷۷۶) بلاشبہہ حرام کمائی سے پلنےوالا گوشت جنّت میں داخل نہ ہوسکے گا۔
ایک موقعے پر حرام کمائی سے صدقہ و خیرات کرنے والوں کی بابت فرمایا کہ جس شخص نے بُرائی کے ذریعے مال کمایا، پھر اس کے ذریعے صلۂ رحمی کی، یا اس سے صدقہ کیا، یا اسے اللہ کے راستے میں خرچ کیا، تو یہ سارا مال جمع کر کے اس کے ساتھ جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ (ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، بیروت،ج۱، ص ۱۰۲)
جن مسائل سے آج ہم ذاتی حیثیت میں دوچار ہیں، اور جو آج کسی نہ کسی اعتبار سے ہمارے گھروں کو متاثر کیے ہوئے ہیں، ان کے تمام نقصانات اپنی جگہ پر، لیکن ان کا ایک سب سے بڑا نقصان یہ سامنے آرہا ہے کہ نااُمیدی اور مایوسی جیسی خطرناک نفسیاتی کیفیت سے ہم دوچار ہوتے جارہے ہیں۔ خصوصاً مستقبل کے حوالے سے مسلسل ایسے خیالات ہمارے ذہنوں میں پرورش پارہے ہیں جو ہمیں مایوسیوں کی جانب دھکیلنے اور مختلف نفسیاتی و جسمانی امراض کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے بھی اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے ، تاکہ اس کیفیت سے باہر نکل سکیں، کیوں کہ ایسی ہرسوچ اسلام کے منافی ہے۔ اسلام تو خداے واحد پر غیرمتزلزل ایمان کی دعوت دیتا ہے جو حوادث کے سامنے ہرحالت میں پورے استقلال کے ساتھ قائم رہتا ہے اور مصائب و مشکلات کی آندھیاں اسے ذرہ برابر بھی متاثر نہیں کرسکتیں۔
درحقیقت، انسانی مزاج دو انتہائوں سے عبارت ہے۔ ایک جانب اگر خوف، شکستگی اور انفعالیت کی انتہا ہے تو دوسری جانب ہرطرح کے نتائج و عواقب سے بے پروا ہوکر دنیاوی لذتوں سے جیسے بھی ممکن ہو اور جس قدر بھی ممکن ہو، لطف اندوزی کی انتہا ہے۔ یہ دونوں انتہائیں انسان کی حقیقی کامیابی کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لیے اسلام کو ان میں سے ایک بھی انتہا مطلوب نہیں، وہ تو دونوں کے درمیان ایک راہ متعین کرتا ہے، اعتدال کی راہ۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ خوف و رجا کے ارتباط سے ایسی معتدل کیفیت تشکیل پائے جہاں ایک جانب خدا کا خوف اسے منکرات کی جانب بڑھنے سے روکے، تو دوسری جانب اللہ تعالیٰ کی رحمت کی اُمید اسے حیاتِ مستعار کے آخری سانس تک جدوجہد کرنے پر اُبھارتی رہے۔ اسلام تو نااُمیدی کا تعلق گم راہوں سے جوڑتا ہے۔ گویا اس کے نزدیک راہِ حق پر ہم لوگ گامزن ہوں تو نااُمیدی چھو کر بھی نہیں گزر سکتی۔ نااُمیدی تو اسلام کے مزاج کے یک سر خلاف ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا قول قرآنِ حکیم نے ہم تک یوں پہنچایا:
وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۵۶(الحجر ۱۵:۵۶) اپنے رب کی رحمت سے تو فقط گم راہ لوگ ہی نااُمید ہوتے ہیں۔
یہی تعلیم حضرت یعقوب ؑ کی زبانی بھی ہمیں ملتی ہے۔(یوسف۱۲:۸۷)
اور ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ہم گناہ گاروں کو مخاطب کرکے فرمایا:
يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۰ۭ (الزمر ۳۹:۵۳) اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، تم اللہ کی رحمت سے نااُمید مت ہونا۔
اسی لیے دوسرے مقام پر قرآنِ حکیم نے اُمید کا تعلق مومنین سے جوڑا اور بتایاکہ رحمت باری کی اُمید صرف مومن ہی رکھ سکتا ہے۔ فرمایا:
وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللہِ مَا لَا يَرْجُوْنَ ۰ۭ(النساء۴:۱۰۴) بلاشبہہ اللہ کے بارے میں حُسنِ ظن رکھنا بھی عبادت کرنا ہے۔
اور اللہ کے بارے میں حُسنِ ظن کا یہی مفہوم ہے کہ اس کی رحمت کی اُمید رکھی جائے، اور اس پر ہرحال میں اور ہر کام میں بھروسا کیا جائے۔ حدیث قدسی میں خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَنَـا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ فَلْیَظُنَّ بِیْ مَاشَاءَ (دارمی، ج۲، ص ۳۹۵، رقم:۲۷۳۱) میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں، سو وہ جو چاہے میرے بارے میں گمان رکھے۔
اسی لیے اسلام نے خوف اور اُمید دونوں کو جمع کر دیا ہے۔ نیک بندوں اور صالحین کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۰ۡ (السجدہ ۳۲:۱۶) ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے ربّ کو خوف و اُمید کی کیفیات کے ساتھ پکارتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مومن کے قلب میں خوف اور اُمید کی دونوں کیفیتیں بیک وقت، یک جا ہونی چاہییں۔ وہ ایک جانب اگر اپنے گناہوں کی بازپُرس اور خطائوں پر مواخذے کا ڈر رکھتا ہو، تو دوسری جانب وہ اللہ کی رحمت کی اُمید سے بھی مالا مال ہو۔ یہ دونوں کیفیات اس لیے بھی ضروری ہیں کہ ایک جانب اگر ڈر گناہوں اور معاصی پر جری ہونے سے باز رکھتا ہے، تو اُمید و رحمت اسے مایوس و شکستہ دل نہیں ہونے دیتی۔ اس کی آرزوئوں کو توانا اور عزائم کو بلند رکھتی ہے جو کارزارِ حیات میں سرگرم ہونے کے لیے ازبس ضروری ہے۔
حُسنِ اعتدال پر مبنی خوف و اُمید کی اسی کیفیت کے ذریعے ہم مایوسی و نااُمیدی کی فضا سے نکل سکتے ہیں، اور اللہ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کی اُمید پر ہی ہم مصائب اور حوادث کی مشکل گھڑیوں میں جہد مسلسل کے سلسلے کو دوبارہ قائم کرسکتے ہیں۔