اکتوبر ۲۰۱۹

فہرست مضامین

افواہ سازی کی مذمت

ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی | اکتوبر ۲۰۱۹ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

آج کے دور میں جہاں اور بہت سی بُرائیاں اور بداخلاقیاں ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھارہی ہیں، ان میں ایک بہت بڑی بیماری افواہیں پھیلانے کی ہے۔ شاید افواہیں پھیلانے والوں کو یہ اندازہ بھی نہ ہو کہ بسااوقات اس کے منفی اثرات معاشرے اور مملکت دونوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں، اور جس کے تباہ کن اثرات سے خود افواہ سازی کا کام کرنے والے بھی نہیں بچ سکتے۔
شرعی نقطۂ نظر سے افواہیں پھیلانا یا افواہوں کے ذریعے معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلانا ایک بدترین جرم ہے۔ اس لیے کہ افواہیں بغیر کسی بنیاد کے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان نہ صرف نفرت و حقارت پیدا کرتی ہیں، بلکہ بسااوقات بلاوجہ لڑائی جھگڑے کا سبب بھی ہوتی ہیں۔ افواہوں کے مہلک اور مضر اثرات کے پیش نظر اسلامی مملکت کے شہریوں پر یہ فریضہ شرعاً عائد ہوتا ہے کہ وہ خود کسی قسم کی افواہیں نہ پھیلائیں، بلکہ افواہیں پھیلانے والوں پر بھی کڑی نظر رکھیں اور انھیں بھی افواہیں نہ پھیلانے دیں۔ من گھڑت اور جھوٹی باتیں نہ صر ف دُنیوی اعتبار سے جرم ہیں،بلکہ آخرت میں بھی اس جرم کی پاداش میں سخت سزا بھگتنا پڑے گی۔ 
افواہیں خواہ حکومت کے خلاف ہوں یا کسی ادارے کے، جماعت مسلمین کے کسی فرد کے خلاف ہوں یا اُمت ِ مسلمہ کے کسی طبقے کے خلاف، ہرحالت میں قابلِ مذمت ہیں۔ تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ چندافراد کی پھیلائی ہوئی باتیں پوری قوم کے لیے شرمندگی اور پریشانی کا باعث بن گئیں، اور اس کے سنگین نتائج آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے۔
عہد ِ نبویؐ میں افواہیں پھیلانے کا کام منافقین کیا کرتے تھے۔منافقین نہ ملّت اسلامیہ کے خیرخواہ تھے اور نہ مملکت اسلامیہ کے۔ وہ ہرقت اس تاک میں رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے تو ملّت اسلامیہ پر بھرپور وار کریں۔ خصوصاً ان حالات میں جب مسلمانوں پر جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہوتا تھا تو ان کی تخریبی سرگرمیاں مزید تیز تر ہوجاتی تھیں۔ منافقین کبھی خوف و ہراس پھیلانے کے لیے افواہیں پھیلایا کرتے تھے اور کبھی کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے غلط قسم کا اطمینان پیدا کرنے کے لیے بے بنیاد اور مبالغہ آمیز خبریں پھیلاتے تھے۔ قرآنِ حکیم نے اس کا سدّباب کرنے کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب اس قسم کی غیرمصدقہ خبر یا افواہ پہنچے تو اُسے ہرگز لوگوں میں نہ پھیلایاجائے، بلکہ اس قسم کی بے بنیاد خبروں اور افواہوں کے بارے میں ارباب حل و عقد کو آگاہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ اس قسم کی افواہوں کا جائزہ لیں اور ٹھیک ٹھیک صورتِ حال سے ملّت کو آگاہ کریں۔ اگر کوئی بات صحیح ہے اور اُمت کو اس سے آگاہ کرنا ضروری ہے تو حکومت خود اس خبر کی اشاعت کرے گی، اور معاشرے میں محض بے چینی یا فتنہ و فساد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور افواہوں کے مضر اثرات کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات اُٹھائے گی۔
قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے:
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ۝۰ۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ۝۰ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۸۳(النساء ۴:۸۳) اور جب اُن کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں۔ اگر یہ اس کو رسول اور اپنے اولوالامر کے پاس پہنچا دیں تو وہ بات ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ بات کی تہہ تک پہنچ جائیں اور صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کے سوا تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
اس آیت میں افواہیں پھیلانے کو شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے اور ذمہ دار شہریوں پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ کوئی افواہ سنیں تو اربابِ حل و عقد کو اِس سے آگاہ کریں، خود اس افواہ کو بیان کر کے نہ پھیلائیں۔ بلاوجہ سنی سنائی بات کو لوگوں میں بیان کر کے اس مقصد میں شریک نہ ہوں، جو کوئی بدکردار اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا فرد افواہ پھیلا کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا سنہری اُصول بیان فرمایا ہے، جو ایک دستوری ہدایت بھی ہے:
کَفٰی بِالْمَرءِ  اِثْمًا  اَنْ یُحَدِّثَ  بِکُلِّ مَا سَمِعَ  ط (سنن ابوداؤد، کتاب الادب،  باب فی التشدید فی الکذب، حدیث:۴۳۶۱ ) گناہ کے لیے یہ بات کافی ہے کہ انسان  ہرسنی سنائی بات بیان کرنے لگے۔
قرآنِ حکیم اصلاحِ معاشرہ کے لیے جہاں ضروری ہدایات دیتا ہے ، وہاں ایسی باتوں کا بھی قلع قمع کرتا ہے جو معاشرے کے پُرامن اور پُرسکون ماحول کو بگاڑنے کا سبب ہوں۔
سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت ِ مبارکہ کو غور سے پڑھیے ، جو نہ صرف یہ کہ بے بنیاد باتوں کے پیچھے نہ لگنے کا حکم دے رہی ہے،بلکہ ذمہ داری کا شعور بھی بیدار کر رہی ہے:
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۝۳۶  (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ یقینا کان، آنکھ اور دل سب کی بازپُرس ہوگی۔
یعنی جس چیز کے بارے میں تمھیں کامل اطمینان اور پوری طرح علم نہ ہو تو محض اٹکل اور گمان کی بنا پر اس کے پیچھے نہ لگ جایا کرو۔ تہمتیں، بدگمانیاں اور افواہیں سب ایک ہی قبیل کی بُرائیاں ہیں۔ ایک اچھے اور مہذب معاشرے کو ان بُرائیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ اسلام جو معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس کی بنیاد باہمی تعاون، اعتماد اور حُسنِ ظن پر ہوتی ہے۔لہٰذا، کسی معاملے میں کوئی ایسی بات زبان سے نہیں نکالنی چاہیے جو محض افواہ پر مبنی ہو، اور بدگمانی کی وجہ سے کسی کے بارے میں کوئی غلط بات نہ کہی جائے جس کی وجہ سے کسی فرد، جماعت، ادارہ یا طبقے کی عزت و شہرت کو نقصان پہنچتا ہو، یا کچھ لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔
سورۃ الحجرات میں اُمت مسلمہ کی اجتماعی اور شہری زندگی کے لیے ایک جامع ضابطۂ اخلاق پیش کیا گیا ہے۔ اس سورہ میں ان تمام بُرائیوں سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فتنہ و فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے لوگوں کے باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں اور رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، مثلاً ایک دوسرے کا مذاق اُڑانا، طعن و تشنیع کرنا، لوگوں پر پھبتیاں کسنا ، یا ان کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرنا، لوگوں کی غیبت کرنا، عیب جوئی کرنا وغیرہ۔ یہ سب وہ افعال ہیں جو صراحتاً گناہ ہیں اور معاشرے میں بگاڑو فساد پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام بُرائیوں کو نام بنام ذکر کرکے انھیں حرام قرار دیا ہے۔
موضوع کی مناسبت سے یہاں سورئہ حجرات کی ایک آیت خاص طور پر قابلِ توجہ ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۝۶ (الحجرات ۴۹:۶) اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی اہم خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ  تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو، پھر تمھیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
اِس آیت مبارکہ میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی خبر یا اطلاع ناقابلِ اعتماد ذرائع سے آئے تو بغیر تحقیق و تصدیق اسے من و عن نہیں ماننا چاہیے، بلکہ خوب اچھی طرح اس کی تحقیق کرلینی چاہیے کہ آیا واقعی اس خبر میں کوئی صداقت ہے؟ بغیر کسی تحقیق اور بغیر کامل اطمینان کے اگر کسی ردعمل کا مظاہرہ کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ سواے رُسوائی اور ذلّت کے کچھ نہیں ہوگا۔
مفسرین نے اس آیت کا جو پس منظر بیان کیا ہے وہ بھی اس مسئلے کی وضاحت کرتا ہے ۔ عہدنبویؐ میں بعض لوگوں نے قبیلہ بنی المصطلق کے بارے میں رسولِ کریمؐ اور مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو غلط اطلاع دی تھی کہ اس قبیلے نے مرکز کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ اور یہ کہ انھوں نے مرکز کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن مدینہ منورہ کی جانب سے کسی کارروائی سے قبل خود اس قبیلے کے سردار حارث بن ضرارؓ رسولِ کریمؐ کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے تمام حقیقت بیان کی اور بتایا کہ اس قبیلے کے کسی فرد نے بھی زکوٰۃ کی ادایگی سے انکار نہیں کیا، اور نہ مرکز کی جانب سے بھیجے گئے محصِّل کو کسی نے قتل کی دھمکی دی ہے۔ دراصل قبیلہ بنو المصطلق سے مخالفت رکھنے والے بعض افراد نے غلط اطلاعات پھیلا کر مرکز کو اس قبیلے کے خلاف کارروائی پر اُبھارنے کی کوشش کی تھی۔ اصل حقائق معلوم ہونے پر مرکز نے بنو المصطلق کے خلاف کارروائی کا ارادہ موقوف کر دیا۔ قرآنِ حکیم نے اس موقعے پر یہ حکم دیا کہ اس قسم کی جب کوئی خبر یا اطلاع ملے تو اربابِ حل و عقد کو چاہیے کہ اس کی خوب تحقیق کرلیا کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات سے مغلوب ہوکر یا جذبات میں آکر کسی بے گناہ طبقے کے خلاف اقدام کربیٹھیں جس پر بعد میں پچھتانا پڑے۔
عہد نبویؐ میں منافقین اور یہودی افواہیں پھیلانے اور اُمت مسلمہ کے مختلف طبقات کے درمیان منافرت پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ اس کے لیے وہ ہرحربہ استعمال کرتے تھے۔ عبداللہ بن ابی نے انصار و مہاجرین کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لیے علاقائی تعصب بھی اُبھارنے کی کوشش کی۔ انصار و مہاجرین کے درمیان خوش گوار تعلقات اور اسلامی اخوت و محبت نے مدینہ منورہ میں جو وحدت پیدا کر دی تھی اس میں عبداللہ بن ابی کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ وہ باہمی نفرت پیدا کر کے اپنی قیادت کو آگے بڑھانا چاہتا تھا ۔ غزوئہ بنو مصطلق سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین کے بارے میں عبداللہ بن ابی نے یہ دھمکی آمیز الفاظ کہے تھے:
لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ ۝۰ۭ (المنافقون ۶۳:۸)  اگر ہم مدینہ لوٹ جائیں تو وہاں سے عزت والے لوگ بے حیثیت لوگوں کو نکال باہر کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان منافقین کی حرکتوں پر کڑی نظر رکھتے تھے اور ان کی تمام تخریبی حرکات کو اپنی حکمت عملی اور بصیرت سے غیرمؤثر بناتے رہے۔ منافقین کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور سرگوشی کے انداز میں آپ سے باتیں کرتے۔ ان کی سرگوشیوں کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ عام لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی اور قریبی تعلقات ہیں۔ یہ تاثر پیدا کرکے وہ جو بات رسولِ کریمؐ کی طرف منسوب کرکے پھیلائیں گے عام لوگ اسے مان لیں گے۔ 
اسی طرح عام جگہوں پر کھڑے ہوکر سرگوشی کے انداز میں گفتگو کرتے تھے، جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ کوئی خاص بات ہے جس کا صرف ان لوگوں کو علم ہے، یا شاید کوئی راز کی بات ہے جو انھیں معلوم ہوئی ہے۔ اس طرح ذہنی اور نفسیاتی طور پر راہ ہموار کی جاتی تھی، تاکہ جب کوئی افواہ پھیلائی جائے تو لوگ اس پر یقین کرلیں۔ یہ لوگ خفیہ اجتماعات بھی کرتے تھے جس کا مقصد اپنی تخریبی پالیسیوں کا جائزہ لینا اور ان کو عملی شکل دینے کی تدابیر کرنا ہوتا تھا۔ قرآنِ حکیم نے منافقین کے خفیہ اجتماعات کے تین مقاصد کا ذکر کیا ہے۔ یہ لوگ گناہ کے کاموں، ظلم و زیادتی اور رسول کریمؐ کی نافرمانی کے لیے اس قسم کے اجلاس کرتے تھے۔ منافقین کے اس طرزِعمل کی وجہ سے قرآنِ حکیم نے سرگوشیاں کرنے اور رازداری کے انداز میں گفتگو کرنے پر پابندی لگا دی، تاکہ یہ لوگ عام لوگوں میں کوئی غلط تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوں۔
قرآن کریم نے فرعون کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ بہت غرور میں مبتلا تھا، اپنے اقتدار کی خاطر لوگوں میں نسلی امتیاز پیدا کرتا تھا، اور ان میں پھوٹ ڈال کر ان پر حکومت کرتا تھا:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۝۴ (القصص ۲۸:۴) فرعون نے زمین میں سر اُٹھا رکھا تھا۔ اس نے وہاں کے باشندوں کو فرقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا۔ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا اورلڑکیوں کو زندہ رکھتا، یقینا وہ فساد برپا کرنے والوں میں تھا۔
اس آیت مبارکہ میں فرعون کے بھیانک جرائم کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اُوپر ہم نے منافقین کی تخریبی حرکتوں کو بیان کیا ہے جن میں افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانا بھی شامل ہے۔ سورئہ بقرہ میں منافقین کی ان حرکتوں کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۝۱۱ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۝۱۲ (البقرہ۲:۱۱-۱۲) اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلائو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کررہے ہیں۔ خبردار! یہی لوگ فسادی ہیں ، مگر انھیں شعور نہیں۔
فساد اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں:
وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۝۲۰۵ (البقرہ ۲:۲۰۵) اور اللہ تعالیٰ فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا۔
اخلاقی نقطۂ نگاہ سے غور کریں تو بھی افواہیں پھیلانا بہت گھٹیا اور مذموم حرکت ہے۔ اس لیے کہ غیبت کرنا، تہمتیں لگانا، جھوٹ بولنا، لوگوں کی کردار کشی کرنا اور تحقیر و تذلیل نہ صرف گناہِ کبیرہ ہیں، بلکہ وہ بُرائیاں ہیں جنھیں تمام اخلاقی نظام غیراخلاقی حرکت تصور کر کے رد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افواہیں پھیلانے میں ان تمام بُرائیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اسلام کا اخلاقی ضابطہ تو ایسے کردار کی تعمیر و تشکیل کرتا ہے جس کی بنیاد صداقت، امانت و دیانت داری، باہمی اخلاص و محبت، اعتماد اور عدل و انصاف پر ہوتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہرانسان فطرتاً اچھا ہے، بدگمانی گناہ ہے۔ حدیث نبویؐ میں ہے کہ اہلِ ایمان کے بارے میں اچھا گمان رکھو۔ بلاوجہ تجسّس اور عیب جوئی بھی جائز نہیں ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ قرآن و سنّت کی رُو سے افواہیں پھیلانا، بے بنیاد خبریں شائع کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اس قسم کی حرکتوں میں جو لوگ ملوث ہوں گے وہ جرم میں ملوث تصور کیے جائیں گے۔ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ قرآن و سنت میں جہاں اس قسم کی مذموم حرکتوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، وہاں مملکت کے عام اور ذمہ دار شہریوں پر بھی یہ فریضہ عائد کیاگیا ہے کہ وہ بھی افواہوں کی روک تھام اور ملک و ملّت کی سلامتی کے معاملات میں پورا پورا تعاون کریں۔
افواہوں کی روک تھام میں حکومت کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ خاص طور پر نشرواشاعت کے وہ ادارے جو حکومت کی زیرنگرانی کام کر رہے ہیں، مثلاً ریڈیو یا ٹیلی ویژن وغیرہ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام یہ کرناہوگا کہ یہ ادارے عوام میں اپنا اعتماد پیدا کریں تاکہ لوگ ان اداروں کی مہیا کردہ اطلاعات پر بھروساکرسکیں۔ یہ ادارے کردار سازی کا تو کام کریں، لیکن کردار کشی کے لیے استعمال نہ ہوں۔ ان اداروں پر اعتماد بحال ہونے سے افواہ سازوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ہماری ملکی اور ملّی صحافت پر بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہمارے بعض اخبارات کا طرزِعمل تو بہت ہی غیرمحتاط ہوتا ہے۔ وہ غیرمصدقہ اور بے بنیاد خبریں شائع کرکے معاشرے اور مملکت دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اخبارات کو چاہیے کہ وہ ایسی خبریں جن کا براہِ راست اثر ملک و ملّت پر پڑتا ہو، یا جن سے ہمارے ملّی ادارے متاثر ہوتے ہوں، یا افراد کے کردار پر ان کا اثر پڑتا ہو، بلاتحقیق شائع نہ کریں۔ صرف ان چیزوں کو شائع کرنا چاہیے، جن کی اشاعت واقعی ضروری ہو اور ان کی اشاعت سے منفی اثرات معاشرے میں نہ پیدا ہوتے ہوں۔
اگر ہمارے ذرائع ابلاغ اِن آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ کی روشنی میں ایک ضابطۂ اخلاق طے کرلیں، تو یقینا مثبت اور صحت مند صحافت بھی افواہ سازی کے خلاف اپنا کردار ادا کرسکے گی۔