اکتوبر ۲۰۱۹

فہرست مضامین

آسام میں مسلم شہریت کا بحران

افتخار گیلانی | اکتوبر ۲۰۱۹ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ، جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے، تو ایک دن پارٹی صدر دفتر میں پریس بریفنگ کے دوران ’’بھارت کی روایتی مہمان نوازی ، ہندو کلچر کے بے پناہ برداشت اور تحمل‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’صدیوں سے بھارت نے غیر ملکیوں کو پناہ دی اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھا کر بلندیوں تک پہنچایا‘‘۔ روزنامہ دی ہندو میں سیاسی اُمور کی ایڈیٹر نینا ویاس نے سوال کیا:’’آپ کی پارٹی نے پھر اس تاریخی ہندو کلچر کے برعکس ، بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کو انتخابی موضوع کیوں بنایا ہے؟‘‘ اس پر مودی کا پارہ چڑھ گیا اور انھوں نے پریس بریفنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح ایک بار بی جے پی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سیاسی قرارداد پر بحث کے دوران ایک مسلمان ممبر نے، جو اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر بھی تھے ، شکوہ کیا: ’’پارٹی کو دیگر فرقوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ قرار داد صرف مسلمانوں کی مخالفت کے ایشوز سے بھری پڑی ہے۔ قرارداد میں بنگلہ دیشیوں کی شناخت کرکے ان کو ملک بدر کرنا، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنااور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر وغیرہ، یہ سبھی ایشو تو مسلمانوں ہی کے متعلق ہیں‘‘۔

حال ہی میں شمال مشرقی صوبہ آسام میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے سے قبل ان کی شناخت کا مرحلہ اور اس کے نتائج حکمران بی جے پی کے لیے ایک طرح سے سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ بن گیا ہے  اور ’نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز‘ یعنی NRC  کی لسٹ ، ان سے نگلتے نہ اُگلتے بنتی ہے۔ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی والی مثال ہندو فرقہ پرستوں پر صادق آرہی ہے۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ اور سات سال کی عرق ریزی کے بعد صوبہ کی۹۰ لاکھ ۳۹ ہزار آبادی میں ۱۹لاکھ ۶ ہزار افراد ایسے پائے گئے، جو شہریت ثابت نہیں کرسکے۔ برسرِزمین کام کرنے والے رضا کاروں کے مطابق: ’’ان میں سے۱۱ لاکھ افراد ہندو ہیں اور صرف ۸لاکھ ہی مسلمان ہیں‘‘۔ اُن میں سے بھی بیش تر ایسے ہیں، جو فارم وغیرہ بھرنے میں غلطیاں کرگئے۔ خاندان کے متعدد افراد میں ناموں کے ہجے کا فرق ہے۔

۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی ۳۴ء۲۲ فی صد ہے اور تناسب کے اعتبار سے بھارت میں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔  اس لیے۹؍اضلاع میں ان کی واضح اکثریت فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی آرہی ہے۔ گذشتہ سال این آرسی کی پہلی فہرست آئی تھی اُس میں تقریباً ۴۰ لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، فہرست میں بے شمار غلطیاں تھیں۔ بہت سے ایسے تھے جن کااپنا نام توشامل تھا، لیکن ان کے لڑکوں کا نہیں تھا۔ کسی لڑکے کا تھا تو اْس کے والدین میں دونوں یا کسی ایک کا نام شامل نہیں تھا۔ ایسا بھی تھا کہ ماں کی جگہ بیوی کا نام، بیوی کی جگہ بہن کا نام درج کیا گیا تھا۔

ابھجیت شرما ، جن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے شہریوں کی شناخت کرنے کا آپریشن شروع کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ’’نتائج ان کی توقع کے برعکس ہیں‘‘۔ گوہاٹی سے فون پر راقم سے ان کا کہنا تھا: ’’غیر ملکی افراد کی تعداد ۴۰سے ۵۰لاکھ کے قریب ہونی چاہیے تھی۔ فی الحال جن ۱۹لاکھ افراد کی شہریت پر سوالیہ نشان لگا ہے، ان میں بیش تر ایسے لوگ ہیں ، جو صدیوں سے آسام میں رہ رہے ہیں‘‘۔ شرما نے اب سپریم کورٹ میںشہریوں کی فہرست کی از سر نو تصدیق کی درخواست کی ہے، اور پوچھا ہے: ’’ اس پورے عمل پر ۱۳؍ارب روپے کیسے خرچ ہوئے ہیں؟‘‘ اسی طرح بھارتیہ گھورکھا پری سنگھ کی آسام شاخ کے سربراہ نیتیانند اوپادھیائے نے بتایا: ’’ہماری کمیونٹی کے تقریباً ایک لاکھ افراد شہریت کی فہرست میں نہیں ہیں، یعنی ان کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے‘‘۔ نیپال نژاد گھورکھا جوان، بھارتی فوج میں کام کرتے ہیں ۔ ان کی شہریت سے بے دخلی کے دورس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ 

آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (AASU)، جس نے ۸۰ء کے عشرے میں آسامی بمقابلہ غیرآسامی کے ایشو کو لے کر احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی، کا کہنا ہے: ’’این آر سی کی فہرست ہم کو منظور نہیں ہے۔ یہ تعداد حکومت کے اپنے اعداد و شمار سے بھی کم ہے‘‘۔ ۲۰۱۶ءمیں وزیرمملکت براے داخلہ نے پارلیمان کو بتایا تھا:’’ملک بھر میں تقریباً۲کروڑ غیرقانونی بنگلہ دیشی مقیم ہیں۔  اس سے قبل۲۰۰۴ء میں ایک اور وزیر داخلہ سری پرکاش جیسوال نے یہ تعداد ایک کروڑ ۲۰لاکھ  بتائی تھی اور ان کا کہنا تھا اس میں ۵۰ لاکھ آسام میں مقیم ہیں۔

جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: نشیبی آسام مغربی علاقہ ہے، بالائی آسام مشرقی علاقہ ہے، اور بارک وادی جنوب میں واقع ہے۔آسام  بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے، جہاں کی تقریباً۴۰ فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ہندو بنا کر رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے بی جے پی صوبہ کی راے عامہ اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔

معروف تجزیہ کار کلیان بروا کے مطابق: ’’مسلم اکثریتی علاقوں میں نہایت کم افراد غیرملکیوں کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں‘‘۔ جب یہ مشق شروع ہوئی تو معلوم تھا کہ اس کا ہدف مسلمان ہی ہوں گے۔ اس لیے مسلم تنظیموں خاص طور پرجمعیۃ علما ہند ، اس کے مقامی لیڈر مولانا بدرالدین اجمل، ان کے رفقا اور کئی غیر سرکاری تنظیموں نے مسلمانوں کو دستاویزات تیار کرانے اور قانونی مدد فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مولانا اجمل آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (AIUDF) کے سربراہ اور لوک سبھا کے ممبر بھی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور کئی دیگر اداروں سے مسلم طلبہ نے بھی رضاکارانہ طور پر ان سے تعاون کیا۔ دُور دراز کے علاقوں میں پہنچ کر ان نوجوانوں نے شہریت ثابت کرنے کے لیے مطلوب دستاویزات تیار کرنے میں لوگو ں کی مدد کی۔

کلیان بروا کے نزدیک: ’’چونکہ ہندو اس عمل سے زیادہ خائف نہیں تھے، انھوں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جس کی وجہ سے ان کی خاصی تعداد شہریت کی فہرست سے باہر ہوگئی ہے۔ اب،جب کہ بی جے پی کے ہی ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد غیر ملکیوں کے زمرے میں آگئی ہے ، بی جے پی نے اس این آر سی کے پورے عمل پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ آسام کے وزیرخزانہ اور بی جے پی کے مقتدر لیڈر ہیمنت بیسواسرما نے این آر سی کے عمل میں متعین افسران پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’ان افسران نے۱۹۷۱ءمیں بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آئے ہندو ؤں کو دی گئی ریفیوجی اسناد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اور بھگوان کرشنا، بھگوتی درگا کے ماننے والوں کو غیر بھارتیہ قرار دیا گیا ہے۔ آسام میں مقیم بنگلہ دیشی اب بھارت کے دیگر علاقوں میں   بس گئے ہیں۔ اس لیے آسام کی طرز کا آپریشن پورے ملک میں لاگو کیا جانا چاہیے، جس پر ۱۷کھرب روپے لگیں گے‘‘۔

’مہاجرین کے بحران‘ پر کام کرنے والے سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’آسام میں آبادی کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ۲۴مارچ۱۹۷۱ء سے قبل وہ اسی صوبے میں مقیم تھے، جو بہت مشکل کام ہے۔ ۱۹۷۱ءمیں آسام کی ۴۴فی صد آبادی خواندہ تھی۔ باقی آبادی آخر کہاں سے پیدایشی سند حاصل کرے؟ اس عمل میں اکثر بے زمین مزدور شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔ سہاس چکما کا کہنا ہے: ’’چائے کے باغات میں کام کرنے والے قبائلیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی کمیونٹی آسام کی اصل رہایشی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی‘‘۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے جنرل سیکرٹری امین الاسلام کا کہنا ہے: ’’پچھلے ۴۰برسوں سے مسلمانوں کے سروں پر شہریت کی جو تلوار لٹک رہی تھی،   وہ ہٹ گئی ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق شہریت کا پیمانہ مذہب نہیں ، بلکہ ’آسام ایکارڈ‘ تھا، جس کی رُو سے ’’مارچ ۱۹۷۱ءتک آسام میں رہنے والوں کو شہری تسلیم کرنا تھا‘‘۔

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پہلا، یعنی شناخت کا مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔ دوسرا مرحلہ  ووٹر اور شہریت کی فہرست سے ایسے افراد کا اخراج کرنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ملک بدر کرنا۔ حکومت پریشان ہے کہ ہندوؤں کی اتنی بڑی تعداد کو کہاں بھیجے؟ حکومت قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے کہ: ’’بنگلہ دیش، پاکستان،ا ور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، جین اور پارسی بھارتی شہریت کے حق دار ہوں گے‘‘۔ اس کے لیے ان کو کوئی بھی دستاویز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن دوسری طرف اگر ملک بدر یا نظر بند ہوں گے تو، صرف مسلمان ہی ہوںگے۔

تقسیم ہند ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۱ء میںسقوط مشرقی پاکستان کے عرصے کے دوران مجموعی طور پر دعوئوں کے مطابق تقریباً ایک کروڑ افراد ہجرت کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ ۱۹۷۱ء میں تو پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں۔ لیکن جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس اپنے گھروں میں چلے گئے۔۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس یونین سمیت کچھ تنظیموں نے پروپیگنڈا شروع کیا کہ ’’بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجاے آسام میں بس گئے ہیں‘‘۔۱۹۷۸ء کے انتخابات میں ۱۷مسلمان اسمبلی کے لیے منتخب ہو گئے، جس پر آسمان سر پر اٹھا لیا گیا: ’’آسام کو ’اسلامی ریاست‘ میں تبدیل کرنے کے لیے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ریلا چلا آرہا ہے‘‘۔پہلے تو غیر آسامیوں، یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی، پھر اس کا رُخ خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑدیا گیا۔ بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر خوں ریز مسلم مخالف تحریک میں تبدیل کردیا گیا، جس میں ہزاروں بے گناہ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں، مسلمان عورتوں کی بے حُرمتی اورکروڑوں روپے مالیت کی جایدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔

آسام میں ’بنگلہ دیشی‘ کہہ کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، جس میں ۱۶فروری ۱۹۸۳ءکو نیلی (Nillie: ضلع ناگائوں) اور چولکاوا میں قتل عام کے روح فرسا واقعات کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے، جن میں تقریباً ۳ ہزار (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۰ ہزار) افراد کو محض چھے گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاتھا۔ اس المیے کی تحقیقات کے لیے ’تیواری کمیشن‘ نے ۶۰۰صفحوں پر پھیلی مفصل رپورٹ میں ظلم کی رُوداد کو مرتب کیا، جو فروری ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی۔ پھر ۱۵؍اگست ۱۹۸۵ء کو بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی مرکزی حکومت، آسام حکومت اور احتجاجی طلبہ لیڈروں کے درمیان معاہدہ ’آسام آکارڈ‘ وجود میں آیا۔پولیس نے نیلی قتل عام میں ملوث ۶۸۸؍ افراد کے خلاف فردِ جرم عائد کی، مگر ’آسام اکارڈ‘کی ایک شرط کے تحت معلوم قاتلوں اور فسادیوں کے خلاف قتل کے تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔ اس طرح آج تک مسلمانوں کی اس نسل کشی کے لیے کسی ایک قاتل اور فسادی کو سزا تک نہیں ملی۔

بنگالی مسلمانوں کے خلاف یہ مہم چلانے والی ’آل آسام سٹوڈنس یونین‘ کے بطن سے نکلی ’آسام گن پریشد‘ کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔معاہدے کے مطابق مارچ ۱۹۷۱ء (کو ایک حتمی تاریخ) بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر رہایش اختیار کرنے والوں کو شہری تسلیم کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس معاہدے کے بعد مر کزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعے ’’شہریت کے قانون مجریہ ۱۹۵۵ء‘‘ میں سیکشن ۶ (الف) داخل کر کے اسے منظور کیا،جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ بشمول کانگریس، بی جے پی،کمیونسٹ جماعتوں، نیز تمام غیرسیاسی وسماجی تنظیموں نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔ چونکہ یہ مسئلہ ریاست میں مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت بننے سے روکنے کی غرض سے کھڑا کیا گیا ہے۔ اس لیے پہلے ۲۰۰۹ء میں اور پھر ۲۰۱۲ء میں آسام سنمیلیٹا مہاسنگھـ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اس معاہدے کے خلاف مفاد عامہ کی ایک عرض داشت داخل کرکے ۵مارچ ۱۹۷۱ءکے بجاے، ۱۹۵۱ءکی ووٹرلسٹ بنیاد پر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔ نیز اسی طرح مذکورہ معاہدے کی قانونی حیثیت اور پارلیمنٹ کے ذریعے’شہریت کے ترمیمی قانون ۱۹۵۵ء‘ کو بھی چیلنج کیا گیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۱ءکو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کی ایک نئی فہرست تیار کرنے کا فرمان جاری کیا۔ ممبر پارلیمنٹ اجمل نے جو ریاست کی ڈھبری حلقے سے پارلیمنٹ میں نمایندگی کرتے ہیں، ان کی جماعت کے ریاستی اسمبلی میں ۱۳؍ ارکان ہیں۔ ان کے بقول: ’’سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گو گوئی نے اپنے ۱۵سالہ دورِ حکومت (۲۰۰۱ء-۲۰۱۶ء) میں ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو تین کاری ضربیں لگائیں: پہلے انھوں نے۲۰۰۵ء میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا، جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیش سے آنے والوں کا پتا لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ۱۹۸۳ء میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کو ختم کردیا گیا ۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ’بارڈر پولس ڈیپارٹمنٹ‘ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیار دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دے کر گرفتار کرسکتا ہے۔ ہزاروں معصوم لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ گرفتار شدہ لوگوں سے راشن کار ڈ بھی چھین لیے گئے‘‘۔

 مسلمانوں کو کس حد تک پاور اسٹرکچر سے باہر رکھنے کا کام کیا گیا، اس کی واضح مثال بھارتی حکومت اور ’بوڈو لبریشن ٹائیگرز‘ (BLT) کے درمیان۲۰۰۵ء کا معاہدہ ہے، جس کی رُو سے   آسام کے کھوکھرا جار اور گوپال پاڑہ میں بوڈو علاقائی کونسل قائم کی گئی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفیدفام اقلیت کی نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے۔ کیوں کہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی، ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض ۲۸ فی صد ہے۔ بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ۸۰ء کے عشرے میں ’یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ‘ (UMF) کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی، لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا، حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر ۲۰۰۵ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔ چنانچہ صوبے کی ۱۳ملّی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ ’آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (AIDF)کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم کردار رہا، لیکن وہ بے زری کے سبب قیادت نہ نبھاسکے۔ چنانچہ قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔

آسام کا دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے، جہاں ۱۳ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۷۵۷ءمیں جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا، تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا۔ چونکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں اورمشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے،ان میں ۸۵فی صد مسلمان تھے۔ آج تین صدیوں سے آباد انھی مسلمانوں کو ’غیر ملکی یا بنگلہ دیشی‘ قرار دے کر ان کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ 

ریاست میں اکثر یت قبائلی فرقوں کی ہے، جو کل آبادی کا لگ بھگ ۴۰ فی صد ہیں۔ قبائلیوں کی کل ہند تنظیم راشٹریہ آدیواسی ایکتا پریشد کے نیشنل کو آرڈی نیٹر پریم کمار گیڈو کہتے ہیں: ’’آئین ہندکی رو سے قبائلی ہندو نہیں ہیں۔ پھر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، جس نے قبائلیوں کو غیر ہندو قرار دیا ہے‘‘۔ چنانچہ ریاست میں ہندو حقیقی معنوں میں اکثریت میں نہیں ہیں۔یہ چیز بھی فرقہ پرستوں کو کھٹکتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی شہریت چھیننے اور ان کو بے حیثیت کر نے کی کوششیں شروع کی تھیں، اور یہ معاملہ برما کے اراکانی مسلمانوں سے بھی سنگین تر ہوتا جا رہا تھا۔ سرکار ی اعداد و شمار کے مطابق اگست ۲۰۱۷ءسے جاری اس کارروائی میں اب تک ۳۹ہزار ۵سو ۸۹؍ افراد کو غیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپوں میں نظر بند کیا جا چکا تھا۔

انصاف کے دہرے معیار کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ایک طرف آسام میں مذہب کی بنیاد پر شہریت میں تفریق کی جارہی ہے، تو دوسری طرف بھارت کی مرکزی حکومت لاکھوں غیرملکی ہندو پناہ گزینوں کو شہریت دلانے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔اس سے بڑی اور کیا ستم ظریفی ہوسکتی ہے کہ آسام میں تو مقامی ہندو آبادی کی نسلی اور لسانی برتری قائم رکھنے کے لیے لاکھوں بنگالی نژاد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر شہریت سے محروم کر نے کی کوشش ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف جموں و کشمیر کی نسلی ، لسانی و مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لیے علانیہ دوہرے پیمانے صرف اس لیے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ آسام کی ۳۵ فی صد اور جموں و کشمیر کی ۶۸ فی صد مسلم آبادی ہندو فرقہ پرستوں اور موجودہ بھارتی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ ہندو فرقہ پرست دیگر ریاستوں سے ہندو آبادی کو کشمیر میں بساکر مقامی کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کردیں۔