اسلامی نظامِ تعلیم ایک ہمہ جہت تعمیری وانقلابی تعلیم کا خواہاں ہے جس کے جلو میں نہ صرف سیاسی ہنگامہ خیزی اور فکری آزاد روی پروان چڑھتی ہے بلکہ جو ہمہ نوع وہمہ جہت مثبت وتعمیری تبدیلیوں کا سبب وذریعہ بنتی ہے۔ اس کے بنیادی خدوخال پیش کرنا خود ایک طویل مقالے کا موضوع ہے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ اس کے چند اہم نکات پیش کیے جاتے ہیں:
اسلام میں مخلوط تعلیم کی ممانعت ہے۔ یہ امر اس کا متقاضی ہے کہ صرف جامعات کی سطح پر نہیں بلکہ پرائمری کے بعد ہر درجے اور مرحلے میں طلبہ کے ادارے الگ اور طالبات کے ادارے الگ ہونے چاہییں جن میں صرف طلبہ وطالبات ہی الگ الگ نہ ہوں، اساتذہ بھی علی الترتیب مرد اور خواتین ہوں۔ یہ مطالبہ کوئی نئی چیز نہیں، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان نے ایک موقعے پر اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ان واہی باتوں کو مسلمان سننا بھی گوارا نہیں کرتے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ تعلیم ہو۔ آج تک مشترکہ تعلیم کا کوئی ایسا فائدہ کسی نے بیان نہیں کیا ہے جو دل نشین ہو… ممکن ہے کہ مسلمانوں میں بعض افراد ایسے ہوں، جو مخلوط تعلیم کے موید ہوں مگر مسلمانوں کی ساری قوم اس کے خلاف ہے‘‘۔ ۱۹
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ (التوبہ ۹: ۱۲۲) سوکیوں نہ نکلے ان کے ہرگروہ میں سے کچھ لوگ تاکہ دین کی سمجھ پیدا کریں۔
اس آیت میں تخصص فی الفقہ کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ایک اور مقام پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے لیے متخصّصین کی تیاری کی تاکید ہے۔فرمایا:
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴) تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے، نیکی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر تربیت بہت سے صحابہ کرامؓ نے مختلف مضامین میں تخصص وامتیاز حاصل کر لیا تھا، جن میں سے بعض خوش نصیب ایسے تھے، جنھیں اس اختصاص کی سند خود زبانِ نبوت سے ملی۔ مثال کے طور پر حضرت ابیؓ بن کعب کو قراء ت وتجوید میں اختصاص حاصل تھا۔ آپؐ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔۲۲ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قضاۃ میں امتیاز حاصل تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہمارے سب سے بڑے قاضی حضرت علیؓ اور سب سے بڑے قاری ابیؓ ہیں۔۲۳ اسی طرح علوم قرآنی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ امتیاز کے حامل تھے۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ صحابہ میں سب سے زیادہ علمِ قرآن رکھتے تھے۔۲۴ اور علم تفسیر و فقہ میں ابن مسعودؓ کو شہرت ملی۔ خود آپؐ نے یہ فرما کر انھیں سند عطا کی کہ تم تعلیم یافتہ لڑکے ہو۔۲۵ علم الفرائض میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ممتاز ہوئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک ہے کہ ’’میری امت میں علم فرائض سب سے زیادہ زید بن ثابت جانتا ہے‘‘۔۲۶ اور حلال وحرام کے علم میں معاذ بن جبلؓ درجۂ امتیاز کے حامل تھے۔ آپؐ نے فرمایا: میری امت میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص معاذ بن جبلؓ ہے۔۲۷
عصر حاضر میں بھی ہمیں ان خصوصیات کو زندہ رکھتے ہوئے آج کی ضرورت کے مطابق مختلف علوم وفنون کے ماہر تیار کرنا ہوں گے۔
حوالہ جات
۱۔ سید عزیز الرحمٰن، استحکام پاکستان، سیرت طیبہ کی روشنی میں، کراچی، ۱۹۹۷ء، ص ۲۴
۲- طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم : ابن ماجہ ، السنن ، ج ۱، ص ۹۷، رقم ۲۲۴
۳- مولانا قاضی اطہر مبارک پوری، خیر القرون کی درس گاہیں، ادارہ اسلامیات، لاہور۔l محمد یاسین شیخ، عہد نبویؐ کا تعلیمی نظام، کراچی lمولانا محمد عبد المعبود، عہد نبویؐ میں نظام تعلیم، لاہور lپروفیسر سید محمد سلیم، اسلام کا نظام تعلیم، لاہور
۴- شبلی نعمانی، الفاروق، ج ۲، ص ۴۴۲
۵- پروفیسر سید محمد سلیم، اسلام کا نظام تعلیم، ص ۸۶
۶- احمد، ابو عبد اللہ محمد بن حنبل الشیبانی، ج ۲، ص ۳۴۱، رقم ۶۵۰۔ ترمذی، ج ۴، ص ۳۰۵، رقم ۲۶۷۸
۷- احمد، ج ۲، ص ۵۱۷، رقم ۷۵۱۷ ۸- الفاروق ، ص ۴۴۲، ۴۵۰
۹- مجلہ تعلیم، مرتبہ: مسلم سجاد، سلیم منصور خالد۔ شمارہ ۷،اسلام آباد lپاکستان میں تعلیم اور نجی شعبہ، مرتبہ:مسلم سجاد، سلیم منصورخالد،مضمون: پروفیسر سید محمد سلیم، تعلیم فی سبیل اللہ کا احیا، ص ۸۸
۱۰- ابن قتیبہ ، عیون الاخبار، بیروت، ج ۲، ص ۱۲۳ ۱۱- ایضاً، ص ۱۶۴
۱۲- بیہقی، شعب الایمان، ج ۲، ص ۲۵۶۔ ترمذی، ج ۳، ص ۳۸۳، رقم ۱۹۵۹
۱۳- ترمذی، ایضاً، رقم ۱۹۵۸
۱۴- یہ واقعات ذیل کے غزوات واسفار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ سے غیر موجودگی میں پیش آئے: ملاحظہ کیجیے ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، بیروت، ۱۹۹۷ء، ج ۲ (۱) غزوۂ قرقرۃ الکدر، ص ۲۳ (۲)غزوۂ بنی سلیم، ص ۲۷ (۳) غزوۂ اُحد، ص ۲۹ (۴) غزوۂ بنی نضیر، ص ۲۴ (۵) غزوۂ احزاب، ص۵۱ (۶) غزوۂ بنی قریظہ، ص ۵۷ (۷) غزوۂ بنی لحیان، ص ۶۰ (۸)غزوۂ الغابہ، ص ۶۲ (۹) صلح حدیبیہ، ص۷۳ (۱۰) فتح مکہ، ص ۱۰۲۔ اس کے علاوہ آپؐ نے ابن ام مکتومؓ کو غزوۂ بدر میں صرف نمازوں کی امامت کے لیے اپنا قائم مقام مقرر فرمایا تھا: دیکھیے طبقات، ج۲،ص ۸
۱۵- دیکھیے مولانا حبیب الرحمن خان شروانی، نابینا علما، کراچی
۱۶- بخاری، کتاب العلم وکتاب الاعتصام بالسنۃ، باب تعلیم النبیؐ امۃ من الرجال والنساء
۱۷- اسلام کا نظام تعلیم، ص ۹۰
۱۸-ایضاً
۱۹۔ سید مصطفیٰ علی بریلوی، شہید ملت لیاقت علی خان، آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس، کراچی، ۲۰۰۱ء، ص ۶۳
۲۰- بخاری، کتاب العلم
۲۱- ڈاکٹر محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسیۃ، بیروت، ۸۵ء، ص ۵۹
۲۲- شمس الدین ابی عبد اللہ محمد بن احمد، معرفۃ القراء الکبار، ج ۱، ص ۲۹
۲۳۔ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، بیروت، ج ۷، ص ۳۳۷
۲۴- الصابونی، محمد علی، التبیان فی علوم القرآن، بیروت، ۱۹۸۵ء، ج ۷، ص ۶۸
۲۵- احمد، ج ۱، ص ۶۲۶، رقم ۳۵۵۸
۲۶- کنز العمال، رقم ۳۳۳۰۴
۲۷- ڈاکٹر، احمد امین، فجر الاسلام، مصر، ج ۲، ص ۱۷۱
آج ہماری بہت سی مشکلات میں سے کچھ تو اجتماعی اُمور سے متعلق ہیں، کچھ کا تعلق حکومتوں سے ہے، اور کچھ انفرادی نوعیت کی ہیں۔ اس آخری قسم سے تعلق رکھنے والی مشکلات کے سرسری جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو حل کرنے کے لیے ہمیں نہ تو بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، نہ کسی کثیرسرمایے یا تربیت یافتہ افرادی قوت کی۔ یہ اُمور چونکہ ہم سب کی اپنی دسترس میں ہیں، اس لیے کسی سے مطالبہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ضرورت صرف صدقِ دل سے عمل کرنے کی ہے اور عمل بھی زیادہ مشکل نہیں۔ معمولی کوشش سے ہم اپنی عادات بدل سکتے ہیں، اور ان روایات اور رسوم و رواج سے چھٹکارا پاسکتے ہیں، جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اسی حوالے سے یہاں چند اُمور کے متعلق سیرتِ طیبہؐ اور تعلیماتِ نبویؐ سے راہ نمائی پیش کی جارہی ہے:
حقوق کی ادایگی میں کوتاہی
ہماری بہت سی مشکلات کا سبب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک (الا ماشاء اللہ) اپنے حقوق کے حصول کا تو دعوے دار ہے، مگر دوسروں کے اپنے اُوپر عائد ہونے والے حقوق اور اپنے فرائض کی ادایگی سے بے نیازی و لاپروائی کا بھی شکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی مطمئن نہیں، اور ہر ایک کام ناقص و ادھورا ہے اور تقریباً ہرشخص دوسرے کا حق نادہندہ ہے۔ چونکہ کوتاہی سب کی جانب سے ہے، اس لیے متاثر بھی سب ہی ہیں، لیکن اصلاح کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔
یہ صورتِ حال ہر میدان میں موجود ہے۔ استاد اپنے طلبہ سے اپنے حقوق کی ادایگی کا خواہاں ہے، تو دوسری جانب اس کے شاگرد مطمئن نہیں کہ وہ اپنے فرائض کی ادایگی میں اپنی انتہائی صلاحیتوں کو صرف کرنے سے قاصر ہے۔ بھائی بھائی سے نالاں ہے، مگر وہ خود بھی اپنے بھائی کے بہت سے حقو ق ادا نہ کرنے کا ذمے دار ہے۔ شریعت نے یہ حل پیش کیا ہے کہ حقوق کی ادایگی کو بغیر کسی معمولی رکاوٹ کے تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ اسی بنا پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی سخت تاکید فرمائی ہے اور حقوق کی ادایگی کی تلقین فرمائی ہے۔ یہ حقوق متعدد نوعیت کے ہیں: والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، استاد شاگرد کے حقوق، اہلِ قرابت کے حقوق، دوست احباب کے حقوق اور ملازمین کے حقوق وغیرہ۔ ہر ایک کے علیحدہ علیحدہ حقوق، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کیے اور سب کی ادایگی کی الگ الگ تلقین فرمائی ہے۔
اہلِ قرابت کے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی ہمارے ہاں عام ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
الرَّحِمُ شَجْنَۃٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ قَالَ اللہُ تَعَالٰی مَنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُہٗ (بخاری، ج۵، ص ۲۲۳۲، رقم:۵۶۴۲) رحم (حق قرابت) رحمٰن سے مشتق ہے، اور اللہ تعالیٰ نے رحم سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا، میں اسے جوڑوں گا، اور جو تجھے کاٹے گا، میں اسے قطع کردوں گا۔
یعنی جو شخص اپنے تعلق والوں کے حقوق احساسِ ذمہ داری سے ادا کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب سے نوازے گا، اور جو قطع رحمی کرتے ہوئے ان کے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی اس سے قطع تعلق فرمائے گا۔
صلۂ رحمی کرنے اور اہلِ قرابت کو ان کے حقوق کی ادایگی کے دنیاوی فوائد بھی کثرت سے ہیں۔ حضرت انسؓ کی روایت میں آپؐ نے فرمایا:
مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُبْسَطَ فِیْ رِزْقِہٖ وَیُنْسَأَ لَہٗ فِیْ اَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ (مسلم: رقم ۲۵۵۷؛ بخاری، الادب المفرد ، ج۱، ص ۳۴، رقم: ۵۶) جو شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی اور دنیا میں اس کے آثار تادیر رہیں (یعنی اس کی عمردراز ہو) تو اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔
اسلام دوسروں کے حقوق کی ادایگی کی تلقین کے ساتھ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا خواہاں ہے، جہاں سکون و اطمینان، خوش دلی اور باہمی تعاون کی فضا پروان چڑھے ۔ ضروری ہے کہ بُرائی کا جواب بھی اچھائی سے دیا جائے، حقوق ادا نہ کرنے والوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں۔
ابن عمرؓ سے روایت میں اسی کی تلقین ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیٔ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ ھُوَ الَّذِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا (ابوداؤد، ج۲، ص ۵۹، رقم: ۱۶۹۷؛ بیہقی، السنن الکبریٰ، بیروت، ۱۹۹۶ء، ج۷، ص ۲۷،رقم: ۱۲۹۹۸) وہ شخص صلۂ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا جو بدلے کے طور پر صلۂ رحمی کرتا ہے۔ صلہ رحمی کرنے والا تو اصل میں وہ شخص ہے جو اس شخص سے بھی صلۂ رحمی کرے جو اس کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ کرتا ہے۔
حقوق کی بحث صرف رشتے داروں کے حقوق تک محدود نہیں، اسلام کی نظر میں تو اس کی حدود بہت وسیع ہیں،جیساکہ ذکر کیا گیا کہ اس کی بہت سی شاخیں ہیں، اور بحیثیت مسلمان ہم پر فرض ہے کہ تمام حقوق کی نگہبانی کریں، اس یقین کے ساتھ کہ اس کے نتیجے میں اُخروی اجر تو ان شاء اللہ ملنا ہی ہے، دنیاوی مصائب بھی ختم ہوں گے، مشکلات کم ہوں گی اور ہمارے گھر پھر سے پریشانیوں سے آزاد اور مسرت و انبساط کا مرکز بنیں گے۔
دوسری جانب ہمارے قیمتی وقت اور صلاحیتوں کے ضیاع نے بھی صورتِ حال سنگین کردی ہے۔دونوں چیزیں اَنمول ہیں، جنھیں ہم قطعاً مہمل، لایعنی اور بے مول مصروفیات یا بے کاری میں برباد کررہے ہیں، جس کے سبب ہم بہت سی مشکلات سے دوچار ہیں۔ سرکاری دفاتر میں اگر کام آٹھ گھنٹے ہونا چاہیے توعام طور پر بہ مشکل دو اڑھائی گھنٹے ہوتا ہے۔ طرح طرح کے بہانوں کے نتیجے میں ہونے والی چھٹیاں اس کے علاوہ ہیں۔ یہ بات ایک جانب بدترین خیانت ہے، دوسری طرف وقت کے ضیاع کا گناہ بھی اس کے نتیجے میں لازم آتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل گھنٹوں بلکہ بعض اوقات پوری شب انٹرنیٹ کے سامنے بیٹھ کر گزار دیتی ہے۔ پھر طویل طویل ٹیلی فون کالیں ہیں۔ کرکٹ وغیرہ مختلف کھیلوں کی خرافات الگ ہیں، جن میں پوری قوم کے کروڑوں روپے اور ہزاروں گھنٹے برباد ہورہے ہیں ، اور افسوس کہ اتنی قیمتی دولت کے ضیاع کا احساس تک نہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فرائض کی ادایگی میں سخت کوتاہی و لاپروائی عام ہے۔ گھر کے روزمرہ کے اُمور سے بھی بے توجہی کی شکایات کم نہیں۔ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد، سب ہی پامال ہورہے ہیں، اور حاصل کچھ بھی نہیں۔ نہ دین کا فائدہ نہ دنیا ہی کا حصول، نتیجتاً گھریلو ناچاقی، بے روزگاری، مالی پریشانیاں ، بڑھتے ہوئے اخراجات سب جمع ہوکر ہماری مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
ان مشکلات سے بچنے کے لیے اسلام نے اپنے اوقات کو قیمتی بنانے اور انھیں کارآمد سرگرمیوں میں صرف کرنے کی تلقین کی ہے، اور وقت کی قدروقیمت کو واضح کیا ہے۔ ان مشکلات کا واحد حل یہی ہے کہ ہم اپنے وقت کو کارآمد مصروفیات میں صرف کر کے قیمتی بنائیں، اور فضول و لایعنی اُمور سے چھٹکارا حاصل کریں۔
قرآنِ حکیم میں روزِ قیامت کی منظرکشی کرتے ہوئے فرمایاگیا:
وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ۰ۭ (یونس۱۰:۴۵) جس روز اللہ انھیں اکٹھا کرے گا تو (انھیں اپنی بیتی ہوئی زندگی اس قدر محسوس ہوگی کہ) گویا وہ محض ایک گھڑی کو آپس کی جان پہچان کے لیے ٹھیرے تھے۔
انھیں محسوس یہ ہوگا کہ دنیا میں ان کا قیام اتنا ہی تھا جس میں محض دو افراد باہمی ملتے ہوئے سلام دُعا کرتے ہیں، اور کچھ نہیں۔ اتنی مختصرمدت کو لایعنی اُمور میں ضائع کر دینا نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟
اسی بنا پر لایعنی اُمور سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے ہادیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ (ابن حبان، ج۱، ص ۴۶۶، رقم:۲۲۹،مالک بن انس ؛ الموطا، مصر، ج۲،ص ۹۰۳، رقم: ۱۶۰۴) اسلام کے حسن میں یہ بات بھی ہے کہ انسان لایعنی (فضول، بے کار)مشاغل ترک کردے۔
انسان کو وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتے ہوئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ ، شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ (حاکم، المستدرک، ج۴، ص ۳۴۱، رقم:۷۸۴۶)پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: بڑھاپے سے پہلے جوانی، بیماری سے پہلے تندرستی، تنگ دستی سے پہلے مال داری، مشغولیت سے پہلے فراغت اور موت سے پہلے زندگی کو۔
اور ایک روایت میں آپؐ نے وقت کی قدروقیمت کی جانب اس طرح توجہ دلائی، فرمایا:
نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْھِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ ، اَلْفَرَاغُ وَالصِّحَۃُ (ابن ابی شیبہ، المصنف، ریاض، ۱۴۰۹ھ، ج۷، ص۸۲، رقم:۳۴۳۵۷) دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے کا شکار ہیں: ایک فراغت اور دوسری صحت۔
ہر چڑھنے والا سورج جہاں ایک نئے دن کی نوید لے کر طلوع ہوتا ہے، وہیں اس کا مغرب کے اُفق میں غائب ہو جانا بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ انسانی زندگی اور دنیاوی مہلت کے مزید چوبیس گھنٹے کم ہوگئے۔ آپؐ نے فرمایا:
ہر روز صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس دن یہ اعلان کرتا ہے کہ آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کرلے۔ آج کے بعد مَیں پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔(بیہقی، شعب الایمان، ج۳،ص ۳۸۶، رقم: ۳۸۴۰)
ان نصوص کی روشنی میں ہمیں اپنے طرزِعمل کا جائزہ لینا ہوگا، تاکہ ہم مشکلات کے بھنور سے نکل کر کامیابی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔
ایک اور بہت بڑا مرض جس میں ہم مبتلا ہیں وہ اسراف و دکھلاوا ہے۔ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، لیکن نتائج یکساں ہیں۔ ریاکاری و دکھلاوے میں بھی انسان اسراف سے کام لیتا ہے، اور اسراف کے نتیجے میں بھی ریاکاری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ان کے مفاسد اس قدر واضح ہیں کہ کسی بیان کے محتاج نہیں۔ اسراف درحقیقت ہماری لامحدود خواہشات کا نتیجہ ہے ، جن کی ہم تکمیل کی آرزو رکھتے ہیں، حالانکہ ان کی تکمیل اس دنیا میں تو ممکن ہی نہیں۔ اس لیے اسلام نے خواہشات کی تہذیب کی ہے، اور ان کی تکمیل کے لیے حدود متعین کردی ہیں:
۱- ہم انواع و اقسام کے اسراف میں مبتلا ہیں، جن میں ہماری تقاریب سرفہرست ہیں، مثلاً بات بات پر تقاریب کا انعقاد گویا ہمارے فیشن کا حصہ بن گیا ہے۔
۲- تقاریب میں کھانوں کا بہ کثرت اہتمام اور پھر ان کا ضیاع الگ سے اسراف ہے۔
۳- خصوصاً تقاریب میں خواتین کے ملبوسات، زیورات اور آرایش، یہ اسراف بھی ہے اور دکھلاوا بھی۔ جو اکثر ایسی حدود میں داخل ہوجاتا ہے کہ شریعت کی نگاہ میں سراسر ناجائز ہے۔
اس موقعے پر ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول کیا تھا؟ اور اس دکھلاوے یا اسراف کو آپؐ نے ناپسند تو نہیں فرمایا؟ حیاتِ طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے:
۱- ’’آپؐ کے زیراستعمال کپڑوں کا ہمیشہ ایک ہی جوڑا ہوتا تھا‘‘۔(قاضی عیاض: الشفاء، قاہرہ، ۱۹۵۰ء، ج۱، ص ۸۲)
۲- حضرت عائشہؓ سے روایت ہے ’’آپؐ نے کبھی مسلسل دو وقت سیر ہوکر روٹی نہیں کھائی‘‘۔(ترمذی، ج۴، ص ۱۵۹، رقم: ۲۳۶۳)
۳- ایک بار حضرت فاطمہؓ نے اپنے گھر میں پردے لٹکا لیے، آپؐ نے دیکھا تو گھر میں داخل تک نہیں ہوئے۔پوچھنے پر فرمایا کہ’’ اس دنیاوی زیب و زینت سے میرا کیا تعلق؟‘‘ (ابوداؤد: ج۴،ص ۴۲، رقم:۴۱۴۹)
اسی طرح ایک بار حضرت عائشہؓ نے اپنے حجرے میں پردے لٹکائے، آپؐ نے دیکھ کر ناگواری کا اظہار فرمایا اور فرمایا: ’’ہمیں اللہ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ہم اس کے دیے ہوئے رزق میں سے اینٹوں اور پتھروں کو کپڑے پہنائیں‘‘۔(مسلم، ج۳، ص ۸۲، رقم:۷۱۰)
۴- حضرت فاطمہؓ کو ایک بار حضرت علیؓ نے سونے کا ہار دیا۔ آپؐ کو علم ہوا تو فرمایا کہ اے فاطمہؓ! کیا تو یہ پسند کرتی ہے کہ لوگ کہیں کہ رسولؐ اللہ کی صاحب زادی کے ہاتھ میں آگ کی زنجیر ہے؟ حضرت فاطمہؓ نے اسے بیچ کر ایک غلام خرید کر اسے آزاد کردیا۔ آپؐ کو علم ہوا تو فرمایا کہ خدا کا شکر ہے، اس نے فاطمہؓ کو آگ سے نجات دے دی۔(نسائی، السنن الکبریٰ، بیروت، ۱۹۹۱ء، باب الکراھیۃ للنساء فی اظہر الحلی والذھب)
حالانکہ سب ہی اس امر سے واقف ہیں کہ خواتین کے لیے زیورات کی ممانعت نہیں، اس کے باوجود آپؐ کا اپنے اہل کے بارے میں یہ معمول تھا۔ ایسے میں زیورات کی موجودہ کثرت اور ان کے ساتھ ہمارا موجودہ ذوق و شوق کس طرح درست قرار دیا جاسکتا ہے؟
۵- آپؐ کے استعمال کے بستر میں صرف کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ (مسلم، ج۳، ص ۳۶۹، رقم: ۲۰۸۲)
۶- یاد رہے کہ یہ سب سادگی، زہد اور قناعت آپؐ کا اختیاری عمل تھا۔ چنانچہ ابوامامہؓ سے روایت ہے: رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ مجھے میرے ربّ نے پیش کش کی کہ (اگر میں چاہوں تو) میرے لیے پورے بطحا (مکّہ) کو سونے کا بنا دیا جائے، مگر میں نے کہا: نہیں، میرے رب! مَیں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن مَیں سیر ہوں اور ایک دن بھوکارہوں۔ آپؐ نے یہ بات تین بار فرمائی، اور جب بھوک لگے تو تیرے سامنے تضرع کروں (روئوں، گڑگڑائوں، تجھ سے مانگوں) اور تجھے یاد کروں، اور جب سیر ہوں تو تیرا شکر ادا کروں اور تیری حمد کروں۔ (ترمذی، ج۴، ص ۱۵۵، رقم: ۲۳۵۴)
اسی بنا پر آپؐ نے قناعت کی تلقین فرمائی اور اہلِ قناعت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ شخص کامیاب ہوگیا جو اسلام لایا اور گزر اوقات کے مطابق اسے رزق مل گیا اور اللہ نے اسے قناعت کی دولت سے نوازا۔ (ترمذی، ج۴، ص ۱۵۶، رقم: ۲۳۵۵)
ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا کہ: اس شخص کے لیے خوش خبری ہے، جسے اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی اور اس کی زندگی کی گزراوقات کے مطابق اسے روزی ملی اور قناعت حاصل ہوئی۔(ترمذی: ج۴، ص ۱۵۶، رقم:۲۳۵۶، المستدرک، ج۱، ص ۹۰)
دوسری جانب ریاکاری بھی پسندیدہ فعل نہیں، خصوصاً دینی اُمور میں اس کے نقصانات واضح ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللہُ بِہٖ وَمَنْ رَاءَیٰ رَاءَیٰ اللہُ بِہٖ (مسلم: رقم ۲۹۸۶، نسائی، کبریٰ، ج۶، ص۵۲۲، رقم:۱۱۷۰۰) جس نے اپنا کوئی عمل دکھاوے کے لیے کیا، اللہ تعالیٰ اس کی رُسوائی کا سامان کرے گا، اور جس کسی نے اپنا کوئی عمل ریاکاری کی نیت سے کیا تو اللہ اس کے راز لوگوں پر عیاں کر دے گا۔
اس بنا پر ہماری کوشش و خواہش ہونی چاہیے کہ ان خطرناک اُمور سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور ان عام ہوجانے والی بُرائیوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کریں۔
جھوٹ ہر معاشرے میں بُرا سمجھا جاتا اور وعدہ خلافی کو سخت بُرائی گردانا جاتا ہے۔ اسلام نے بھی ان سے بچنے کی سختی سے تاکید کی ہے، لیکن اس کے باوجود ہم ان اُمور میں مکمل طور پر غرق ہیں۔
جھوٹ اپنی اصل کے لحاظ سے ہی غلط، ناروا اور ممنوع ہے۔ پھر اس کی بے شمار قسمیں ہمارے ہاں رائج ہیں، لیکن سب کی سب ممنوع اور کسی بھی معاشرے کے لیے سخت ضرر رساں۔
قرآنِ حکیم میں جھوٹ کی بُرائی بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:
اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَكٰذِبٌ كَفَّارٌ۳(الزمر ۳۷:۳) بلاشبہہ اللہ اس کو راستہ نہیں دکھاتا جو جھوٹا اور ناشکرا ہو۔
اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَمُسْرِفٌ كَذَّابٌ۲۸ (المومن۴۰:۲۸) یقینا اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھ جانے والا، بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔
آپؐ نے جھوٹ کو نفاق کی علامت شمار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جس شخص میں چار عادتیں ہوں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں ان چار میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے جب تک وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ پھر ان علامات کا ذکر ان الفاظ سے فرمایا:
۱- جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
۲- جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
۳- جب کسی سے عہد کرے تو اسے دھوکا دے۔
۴- جب کسی سے لڑے تو گالیوں پر اُتر آئے۔ (بخاری، ج۱،ص ۱۶، رقم:۳۴)
عہد اور وعدے کا ایفا بھی ضروری ہے اور وعدہ خلافی سخت ممنوع۔ قرآنِ حکیم میں حکم ہوا:
وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ ۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۳۴ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴) اور اپنے عہد کو پورا کرو، یقینا عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
ہمارے ہاں جو جھوٹ کی اقسام رائج ہیں، ان میں عام روز مرہ کے جھوٹ سے لے کر گواہی، قسم اور شہادت میں غلط بیانی، جھوٹے سرٹیفکیٹ، وکلا کا غلط مقدمہ لینا، غلط سفارش، ناپ تول میں کمی، تجارتی فریب، صحافتی رپورٹنگ میں غلط بیانی اور حکومتی و سیاسی سطح کے جھوٹ، سب ہی شامل ہیں۔ سب سے ہی بچنے کا حکم ہے ، اور ہماری موجودہ مشکلات میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
جھوٹ اور کذ ب بیانی کے بعد جس دوسرے حد سے زیادہ بڑھنے والے مرض میں ہم شدت سے مبتلا ہیں، وہ خیانت اور بددیانتی ہے۔ یہ مرض بھی ہم میں اس قدر گہری جڑیں پکڑ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنابھی آسان نظر نہیں آتا۔امانت کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص کوئی کام یا کوئی چیز یا کوئی مال اس بھروسے اور اعتماد کے ساتھ دوسرے شخص کے سپرد کردے کہ وہ شخص اس سلسلے میں اپنا فرض پوری ذمے داری کے ساتھ بجا لائے گا، اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گا۔ قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ(النساء۴:۵۸) اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کر دو۔
حدیث میں بھی اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی تمھارے پاس کوئی چیز امانت رکھے تو تم اس کو واپس کردیا کرو، اور جو تم سے خیانت کرے تم اس سے خیانت نہ کرو‘‘۔ (ابوداؤد، ج۳،ص ۲۷۶، رقم:۳۵۳۴)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کبھی بھی خطبہ دیا تو اس میں یہ ضرور فرمایا:’’ جس شخص کے اندر امانت نہیں، اس کے اندر ایمان نہیں، اور جس شخص میں عہد کا پاس نہیں، اس کے پاس دین نہیں‘‘۔(احمد، المسند، ج۳،ص ۵۹۴)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چار چیزیں تمھیں میسر ہوں تو دنیا کی کسی چیز سے محرومی تمھارے لیے نقصان دہ نہیں، اور وہ یہ ہیں:
۱- امانت کی حفاظت کرنا، ۲- سچ بولنا، ۳- خوش خلقی اختیار کرنا، ۴- روزی میں پاکیزگی اختیار کرنا۔(احمد، ج۲،ص ۳۷۰، رقم: ۶۶۱۴)
’امانت‘ کا مفہوم بہت وسیع ہے، اور انسانی زندگی کا ہر شعبہ اس کے دائرے میں داخل ہے۔ مثال کے طور پر ’تاجر‘ کے لیے امانت یہ ہے کہ وہ لین دین میں سچ بولے اور دیانت داری سے تجارت کرے۔ ’آجر‘ کے حق میں امانت یہی ہے کہ وہ ’اجیر‘ (مزدور) کے حقوق کی ادایگی بروقت کرے، اور اس میں کسی بخل سے کام نہ لے۔ ’اجیر‘ کے حق میں امانت یہ ہوگی کہ وہ مالک اور ’آجر‘ کے حقوق کی نگہبانی کرے اور اس کے مفاد کا بھرپور خیال رکھے۔ ملازم اپنی ڈیوٹی پوری ذمہ داری سے ادا کرے۔ صنعت کار اپنا فریضہ دیانت داری سے انجام دے اور کسی قسم کی غلط سرگرمی میں ملوث نہ ہو۔ یہ سب امانت داری ہے، اور اگر کوئی شخص اس کے برعکس کرتا ہے تو وہ خیانت کا مرتکب ہے، اور خیانت کے بُرا ہونے میں کس کو کلام ہوسکتا ہے؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَدُّوْا الْخِیَاطَ وَالْمَخِیْطَ وَ اِیَّـاکُمْ وَالْغُلُوْلَ ، فَاِنَّہٗ عَارٌ عَلٰی اَھْلِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (دارمی، ج۲،ص ۳۰۲، رقم: ۲۴۸۷) دھاگا اور سوئی (تک) ادا کردو ، اور خیانت سے بچو، اس لیے کہ یہ خیانت قیامت کے دن عار اور ندامت کا باعث ہوگی۔
ہمارے ہاں خیانت کی بہت سی شکلیں رائج ہیں: ملازمت کے اوقات میں خیانت، ذمے داریوں کی ادایگی میں خیانت،علمی خیانتوں سے لے کر عملی خیانت تک۔ ہم وقت پر دفتر نہیں پہنچتے، ذمے داریوں کی ادایگی میں امانت و دیانت کا لحاظ نہیں رکھتے، دوسروں کے حقوق کی ادایگی میں خیانت کرجاتے ہیں، لین دین میں اپنے مفادات کو ترجیح دے کر دوسروں کو نقصان پہنچانا عام ہے۔ یہ سب چیزیں خیانت میں شامل اور سخت ممنوع ہیں۔ ہماری بہت سی مشکلات اس بنا پر ہیں کہ ہم امانت و دیانت کے ان اسلامی تقاضوں کا پاس نہیں رکھتے، جن کی تاکید قرآن و حدیث میں بار بار کی گئی ہے۔ ان اصولوں کو نافذ کیے بغیر ایک فلاحی معاشرے کا قیام ممکن نہیں، اور اس مقصد کے لیے ہرشخص اپنی ذات سے اس کا آغاز کرسکتا ہے۔
ہماری بہت سی مشکلات کا ایک سبب رزقِ حلال کی کمی ہے۔ ہمارا مطمح نظر صرف کمائی بن کر رہ گیا ہے، خواہ وہ کسی طریقے سے ہو۔ اکثریت کے سامنے تو حلال و حرام کا تصور رہا ہی نہیں، جنھیں اس کا تھوڑا بہت خیال ہے وہ بھی حیلے بہانے سے سب کچھ جائز کرلیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ حرام کھانے کا گناہ اپنی جگہ پر، آخرت کا وبال بھی درست، لیکن ان کے علاوہ خود ہماری دنیاوی زندگی بھی اس کے ساتھ اطمینان و سکون کے ساتھ نہیں گزرسکتی۔ ایک جانب حرام لقمہ ہماری خوراک بن رہا ہو اور دوسری جانب ہم آرام و بے فکری کی زندگی بسر کریں، یہ ممکن ہی نہیں۔ حرام غذا سے اسلام کے منع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے اثرات خود ہم پر ہی پڑتے ہیں اور اس کے نقصانات براہِ راست ہمیں ہی متاثر کرتے ہیں، جن میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے مال، زندگی اور کام، سب سے برکت اُٹھ جاتی ہے، مشکلات بڑھنے لگتی ہیں، مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، غیرمتوقع اخراجات سامنے آتے ہیں، اور زندگی حادثات کا شکار ہونے لگتی ہے۔ ان سےبچنے کا واحد نسخہ یہ ہے کہ کسب ِ حلال کی کوشش کریں اور حرام سے ہرصورت میں بچیں۔ اسلام نے جہاں ایک جانب حلال کمائی کی تلقین کی ہے، وہیں حرام سے بچنے کی بھی سخت تاکید فرمائی ہے۔ قرآنِ حکیم میں رزقِ حلال کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ (البقرہ ۲:۱۷۲) اے ایمان والو! تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو جو ہم نے تمھیں عطا کی ہیں۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ (طبرانی، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۷۴) حلال روزی کا طلب کرنا (دوسرے) فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔
اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کمائی سے اجتناب کی تلقین واضح الفاظ میں اور متعدد مقامات پر کی ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے، آپؐ نے کعب بن عجرہؓ سے فرمایا:
اِنَّہٗ لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ (دارمی،ج۲،ص۴۰۹، رقم:۲۷۷۶) بلاشبہہ حرام کمائی سے پلنےوالا گوشت جنّت میں داخل نہ ہوسکے گا۔
ایک موقعے پر حرام کمائی سے صدقہ و خیرات کرنے والوں کی بابت فرمایا کہ جس شخص نے بُرائی کے ذریعے مال کمایا، پھر اس کے ذریعے صلۂ رحمی کی، یا اس سے صدقہ کیا، یا اسے اللہ کے راستے میں خرچ کیا، تو یہ سارا مال جمع کر کے اس کے ساتھ جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ (ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، بیروت،ج۱، ص ۱۰۲)
جن مسائل سے آج ہم ذاتی حیثیت میں دوچار ہیں، اور جو آج کسی نہ کسی اعتبار سے ہمارے گھروں کو متاثر کیے ہوئے ہیں، ان کے تمام نقصانات اپنی جگہ پر، لیکن ان کا ایک سب سے بڑا نقصان یہ سامنے آرہا ہے کہ نااُمیدی اور مایوسی جیسی خطرناک نفسیاتی کیفیت سے ہم دوچار ہوتے جارہے ہیں۔ خصوصاً مستقبل کے حوالے سے مسلسل ایسے خیالات ہمارے ذہنوں میں پرورش پارہے ہیں جو ہمیں مایوسیوں کی جانب دھکیلنے اور مختلف نفسیاتی و جسمانی امراض کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے بھی اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے ، تاکہ اس کیفیت سے باہر نکل سکیں، کیوں کہ ایسی ہرسوچ اسلام کے منافی ہے۔ اسلام تو خداے واحد پر غیرمتزلزل ایمان کی دعوت دیتا ہے جو حوادث کے سامنے ہرحالت میں پورے استقلال کے ساتھ قائم رہتا ہے اور مصائب و مشکلات کی آندھیاں اسے ذرہ برابر بھی متاثر نہیں کرسکتیں۔
درحقیقت، انسانی مزاج دو انتہائوں سے عبارت ہے۔ ایک جانب اگر خوف، شکستگی اور انفعالیت کی انتہا ہے تو دوسری جانب ہرطرح کے نتائج و عواقب سے بے پروا ہوکر دنیاوی لذتوں سے جیسے بھی ممکن ہو اور جس قدر بھی ممکن ہو، لطف اندوزی کی انتہا ہے۔ یہ دونوں انتہائیں انسان کی حقیقی کامیابی کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لیے اسلام کو ان میں سے ایک بھی انتہا مطلوب نہیں، وہ تو دونوں کے درمیان ایک راہ متعین کرتا ہے، اعتدال کی راہ۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ خوف و رجا کے ارتباط سے ایسی معتدل کیفیت تشکیل پائے جہاں ایک جانب خدا کا خوف اسے منکرات کی جانب بڑھنے سے روکے، تو دوسری جانب اللہ تعالیٰ کی رحمت کی اُمید اسے حیاتِ مستعار کے آخری سانس تک جدوجہد کرنے پر اُبھارتی رہے۔ اسلام تو نااُمیدی کا تعلق گم راہوں سے جوڑتا ہے۔ گویا اس کے نزدیک راہِ حق پر ہم لوگ گامزن ہوں تو نااُمیدی چھو کر بھی نہیں گزر سکتی۔ نااُمیدی تو اسلام کے مزاج کے یک سر خلاف ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا قول قرآنِ حکیم نے ہم تک یوں پہنچایا:
وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۵۶(الحجر ۱۵:۵۶) اپنے رب کی رحمت سے تو فقط گم راہ لوگ ہی نااُمید ہوتے ہیں۔
یہی تعلیم حضرت یعقوب ؑ کی زبانی بھی ہمیں ملتی ہے۔(یوسف۱۲:۸۷)
اور ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ہم گناہ گاروں کو مخاطب کرکے فرمایا:
يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۰ۭ (الزمر ۳۹:۵۳) اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، تم اللہ کی رحمت سے نااُمید مت ہونا۔
اسی لیے دوسرے مقام پر قرآنِ حکیم نے اُمید کا تعلق مومنین سے جوڑا اور بتایاکہ رحمت باری کی اُمید صرف مومن ہی رکھ سکتا ہے۔ فرمایا:
وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللہِ مَا لَا يَرْجُوْنَ ۰ۭ(النساء۴:۱۰۴) بلاشبہہ اللہ کے بارے میں حُسنِ ظن رکھنا بھی عبادت کرنا ہے۔
اور اللہ کے بارے میں حُسنِ ظن کا یہی مفہوم ہے کہ اس کی رحمت کی اُمید رکھی جائے، اور اس پر ہرحال میں اور ہر کام میں بھروسا کیا جائے۔ حدیث قدسی میں خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَنَـا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ فَلْیَظُنَّ بِیْ مَاشَاءَ (دارمی، ج۲، ص ۳۹۵، رقم:۲۷۳۱) میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں، سو وہ جو چاہے میرے بارے میں گمان رکھے۔
اسی لیے اسلام نے خوف اور اُمید دونوں کو جمع کر دیا ہے۔ نیک بندوں اور صالحین کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۰ۡ (السجدہ ۳۲:۱۶) ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے ربّ کو خوف و اُمید کی کیفیات کے ساتھ پکارتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مومن کے قلب میں خوف اور اُمید کی دونوں کیفیتیں بیک وقت، یک جا ہونی چاہییں۔ وہ ایک جانب اگر اپنے گناہوں کی بازپُرس اور خطائوں پر مواخذے کا ڈر رکھتا ہو، تو دوسری جانب وہ اللہ کی رحمت کی اُمید سے بھی مالا مال ہو۔ یہ دونوں کیفیات اس لیے بھی ضروری ہیں کہ ایک جانب اگر ڈر گناہوں اور معاصی پر جری ہونے سے باز رکھتا ہے، تو اُمید و رحمت اسے مایوس و شکستہ دل نہیں ہونے دیتی۔ اس کی آرزوئوں کو توانا اور عزائم کو بلند رکھتی ہے جو کارزارِ حیات میں سرگرم ہونے کے لیے ازبس ضروری ہے۔
حُسنِ اعتدال پر مبنی خوف و اُمید کی اسی کیفیت کے ذریعے ہم مایوسی و نااُمیدی کی فضا سے نکل سکتے ہیں، اور اللہ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کی اُمید پر ہی ہم مصائب اور حوادث کی مشکل گھڑیوں میں جہد مسلسل کے سلسلے کو دوبارہ قائم کرسکتے ہیں۔
بچے کسی بھی معاشرے کی امیدوں، آرزوئو ں اور تمنائوں کا مرکز ہوتے ہیں، اس لیے کہ مستقبل کی تعمیر کا انحصار ان ہی پر ہوتا ہے۔ اس لیے بچے دوسرے تمام طبقات کی بہ نسبت زیادہ توجہ، زیادہ شفقت اور زیادہ محبت چاہتے ہیں۔ معاشرتی حوالے سے بھی بچوں کی اہمیت مسلّم ہے۔ اسی بناپر اسلامی تعلیمات میںجہاں والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت بیان کی گئی ہے وہاں بچوں کے حقوق بھی واضح کیے گئے ہیں۔ اسلام کی معاشرتی زندگی یک رخی نہیں، ہمہ گیر ہے۔ اس لیے والدین اگر اسلامی معاشرے میں بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں تو بچے اس اکائی کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں۔ یہ دونوں مل کر معاشرے کی صورت گری کرتے ہیں۔ بچے تو اور بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، کیوں کہ وہ نہ صرف والدین کی شخصی توسیع ہیں بلکہ معاشرے کے ارتقا اور اس کی متحرک زندگی کا عکس ہیں۔ آج کی اولاد کل کے والدین ہیں، اور آج کے بچے کل کے جو ان اور بزرگ ہوتے ہیں۔ اس بنا پر اسلام نے بچوں کے بارے میں خصوصی ہدایات دی ہیں۔
کوئی معاشرہ بچوں کے بارے میں جو رویہ اختیار کرتا ہے وہی اس کا معاشرتی معیار قرار پاتا ہے۔ اگر ان کے ساتھ حسن سلوک کے بجاے بے اعتدالی روا رکھی گئی تو اس سے نہ صرف یہ کہ معاشرے کا ارتقائی مزاج مجروح ہوگا بلکہ مستقبل کے والدین بھی خطرناک حد تک اولاد کش ثابت ہوں گے۔ (ڈاکٹر خالد علوی، اسلام کا معاشرتی نظام،ص ۲۲۴)
اسلام کی نظر میں بچوں کی اہمیت کئی وجوہ سے ہے۔ وہ مستقبل کے معمار ہیں، خاندان کی بقا کا ذریعہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہیں، جماعت کی کثرت اور پہچان کا سبب ہیں، نیز اللہ تعالیٰ کی مدد کی ایک صورت ہیں۔ اسلام اپنے زیر اثر معاشرے میں اولاد کو اپنی معاشرتی اور سماجی اقدار کے تعارف، بقا اور تحفظ کا ذریعہ تصور کرتا ہے۔ اسلام اولاد کو نعمتِ عظمیٰ قرار دے کر اس کی نگہداشت کا حکم دیتا ہے۔ اسلام نے خاندان کا جو تصور دیا ہے اس کی ایک اہم اکائی اولاد کی صورت میں بچے ہیں۔ اسلام اسے ذاتی تسکین کا سامان بھی قرار دیتا ہے۔ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے بچوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں اور بچوں پر آپؐ کی شفقت و رحمت کے جو مظاہر کتب حدیث و سیرت میں موجود و محفوظ ہیں، ان کا تذکرہ کرنے سے قبل ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی روشنی میں اسلام کے ہاں بچوں کی کیا حیثیت سامنے آتی ہے؟
جیسا کہ عرض کیا گیا اسلام بچوں کو نعمت ِعظمیٰ قرار دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے احسانات یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے: ’’اور اللہ نے تم ہی میں سے تمھارے لیے جوڑے بنائے اور تمھاری بیویوں سے تمھارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا‘‘(النحل ۱۶:۷۲)۔ ’’دنیا کی رونق بچوں کے دم سے ہے، یہ سامان زینت ہیں۔ فرمایا: ’’مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں‘‘۔(الکھف ۱۸:۴۶)
نظامِ فطرت میں بچے اور اولاد امداد و تعاون کی ایک صورت ہے، جن سے انسان تقویت حاصل کرتا ہے، اور جن کے بل بوتے پر وہ عددی اکثریت حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے: ’’اور تمھیں مال اور اولاد سے قوت دی اور تمھیں بڑی جماعت والا بنا دیا‘‘(بنی اسرائیل ۱۷:۶)۔ اسی طرح حضرت ہود ؑاپنی قوم کو اپنے رب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اور اس سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمھاری مدد کی جن کو تم جانتے ہو۔ اس نے چوپایوں اور اولاد سے تمھاری مدد کی ‘‘ (الشعرا ۲۶: ۱۳۲-۱۳۳)۔ حضرت نوح علیہ السلام بھی اپنی قوم کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کے انعامات اور انعامات کے وعدے بیان کرتے ہیں تو اولاد کا ذکر خاص طور پر کرتے ہیں: ’’اور تمھیں مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمھیں باغ عطا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کرے گا‘‘۔(نوح ۷۱:۱۲)
غرض اسلام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ چونکہ دیگر نعمتوں کی طرح بچے بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہیں، اس لیے اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ ان کی پرورش اور تربیت پوری اہتمام سے کرنی چاہیے پھر ان کا درجہ امانت کا بھی ہے، اس لیے ان کی تربیت پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ان سے بدسلوکی اور ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں کوتاہی پورے معاشرے کے لیے مضر ہے۔ جب ایک تربیت یافتہ بچہ انسانی معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوگا تو ایک غیر تربیت یافتہ بچہ اسی معاشرے کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
بچوں کو نبی کریمؐ کی خاص توجہ حاصل رہی ہے۔ آپؐ نے ان کے جو حقوق بیان فرمائے ہیں اور اسلام نے انھیں جو خاص اہمیت دی ہے اسے چند عنوان کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
اسلام نے بچوں پر اہم ترین احسان یہ کیا ہے کہ انھیں زندگی کا حق عطا کیا ہے۔ اسلام کی نظر میں مرد و عورت کا جائز باہمی تعلق محض ایک تفریح نہیں ہے، بلکہ یہ نسلِ انسانی کے تحفظ اور اس کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ ہے۔ اس بنا پر اس تعلق کے ثمرے کے طور پر وجود پانے والے بچے کو اسلام یہ حق دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے، اور والدین کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اس کی زندگی کو خوشی سے قبول بھی کریں اور اس کی بقا کے لیے ناگزیر و ضروری اقدامات بھی کریں۔
اسلام سے قبل بچوں سے بہت سی صورتوں میں یہ حق حیات چھین لیا جاتا تھا۔ کبھی نرینہ اولاد کی خواہش ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتی۔ کبھی ان کے جیتے جاگتے وجود کو خیالی یا ساکت و جامد معبودوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا، اور کبھی معاشی کفالت کا خوف ان کی جان لے لیتا۔ یہ تیسری صورت فیملی پلاننگ کے نام پر آج بھی پوری دنیا پر مسلط ہے، اور اس کے تقاضوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے والے ملک چین میں بچوں کا قتل آج عروج پر ہے۔ کثرت آبادی کے خوف سے وہاں کی حکومت عرصے سے ’ایک خاندان ایک بچہ‘ کے اصول پر عمل پیرا ہے، جس کے نتیجے میں اب وہاں ہر خاندان کی خواہش ہے کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہو۔ چونکہ ان کے پاس صرف ایک موقع ہوتا ہے، اس لیے وہ اولاد نرینہ نہ ہونے کی صورت میں ایسا انتظام کرتے ہیں کہ بچہ دنیا میں آنے ہی نہیں پاتا۔ یہ صورت حال اسلامی معاشرے میں پیدا نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ اسلام ایسے غیر انسانی اقدامات کی مذمت کرتا ہے، اورایسی ہدایات دیتاہے کہ اس قسم کے اقدامات کی بیخ کنی ہو۔
اسلام معاشی بنیادوں پر اولاد کے قتل کو سخت ترین جرم قرار دیتا ہے، کیوں کہ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اس کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اس کائنات کا نظم و نسق انسان کے حوالے کیا ہے، اسے وسائل دیے ہیں، محنت کا جذبہ اور معنی و کوشش کے دروازے اس پر وا کیے ہیں۔ اسے ذرائع دیے ہیں جن کے ذریعے وہ محنت اور جدوجہد کرکے اپنی دنیاوی زندگی کو مزین اور اُخروی حیات ابدی کو روشن اور ثمر بار کرسکتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کے ظالمانہ اقدامات اور غیرمنصفانہ رویوں کے باعث وسائل حیات پر چند افراد کا قبضہ ہوجاتا ہے، اور عام افراد کی دست رس سے وسائل نکلنے لگتے ہیں۔ ایسے میں معاشی تنگی پیدا ہوتی ہے، اور انسان اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے بعض اوقات ناجائز اقدامات پر بھی اتر آتا ہے، مگر یہ نظام کو صحیح طور پر نافذ نہ کرنے کا نقصان ہے۔ اس کا ذمہ دار خود نظام نہیں ہے، وہ چند غلط کار لوگ اور چند ہاتھ اس کے ذمہ دار ہیں، جو اس نظام کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ اسلام اس لیے ایک تو دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیتا ہے، دوسری جانب معاشی وجوہ سے قتل اولاد کو سنگین ترین جرم قرار دیتا ہے۔ ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور مفلسی کے ڈر سے تم اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم ان کوبھی رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل کرنا بڑی خطا ہے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۳۱)
بچوں کے قتل کا ایک اور سبب اولاد نرینہ کی خواہش ہے۔ اس خواہش کی وجہ سے لڑکیوں کا قتل انسان کی بہت پرانی روایت ہے، اور ہر طرح کی ترقی کا دعویٰ رکھنے اور انسانی حقوق کے بلند آہنگ دعوئوں کے باوجود ترقی یافتہ قومیں بچوں کے اس قتل عام کو آج تک نہیں روک سکیں۔ بچوں کا یہ قتل آج بھی دنیا بھر میں رائج ہے، اوریہ قبائلی سوچ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے کہ لڑکیوں کو بوجھ سمجھاجاتا ہے۔ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی لڑکیاں جہیز کم لانے کی وجہ سے قتل ہورہی ہیں اور بعض عورتیں، یہ جان کر کہ اس کے ہاں لڑکی پیدا ہو رہی ہے، اسقاط کرا دیتی ہیں۔ لڑکی معاشی بوجھ اور معاشرتی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، اس لیے اس سے نجات کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔ انھیں وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے، جس کے لیے نہایت گھٹیا طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ان کی قرآن سے شادی کردی جاتی ہے۔ کس قدر ظلم ہے کہ اس قرآن حکیم کو لڑکیوں کے حقوق بالجبر مارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس نے سب سے پہلے اس کی آواز بلند کی، اور مظلوم بچوں کو ان کا حق دلایا۔ اسلام ان تمام فرسودہ اور گھٹیا رسوم و رواج اور طور طریقوں کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ قرآن حکیم ان کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ غم کے سبب کالا پڑجاتا ہے اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہ ناک ہو جاتا ہے، اور اس خبر بد کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑدے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری بات ہے۔ (النحل ۱۶:۵۸-۵۹)
اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کا قتل کرنا مستحسن بنا رکھا ہے تاکہ وہ ان کو ہلاک کردیں اور تاکہ ان کے دین کو ان کے حق میں خلط ملط کردیں۔ (الانعام ۶:۱۳۷)
ایسا ہی شیاطین نے ان مشرکوں کی نگاہ میں فقر و فاقے کے اندیشے سے اولاد کا قتل اور ننگ و عار کے (خود ساختہ ) خطرے سے بچیوں کا زندہ درگور کرنا محبوب مشغلہ بنا رکھا تھا۔ (التفسیر، عیسیٰ البابی الحلبی، ج۲،ص ۱۸۹)
اسلام بچوں کو ایک عظیم نعمت قرار دیتا ہے، اور ہمیں اس عظیم نعمت کی قدر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام نے سب سے پہلے بچوں کے اس طرح قتل کو قانوناً جرم قرار دیا اور انسانیت کو بتایا کہ نوعِ انسانی کی بقا کے لیے بچوں کی قدر کرنا اور ان کی پرورش کرنا، انھیں صحیح تربیت فراہم کرنا ناگزیر ہے۔
اسلام کا بچوں پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے بچوں کو ایک شناخت اور پہچان عطا کی ہے۔ اس غرض سے اسلام نے خاندان کی صورت میں جو نظام وضع کیا ہے، وہ بچے کو جہاں ایک مضبوط سائبان عطا کرتا ہے، وہیں اسے ایک شناخت بھی دیتا ہے، اور تیسری جانب خاندان کو اس کی تربیت اور تعلیم کا ذمہ دار بھی ٹھیراتا ہے۔ اگر کوئی معاشرہ یاخاندان یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہے، جب کہ اس فریضے کی ادایگی کی صورت میں پورا خاندان اپنے اپنے حصے کے مطابق اجر و ثواب کا مستحق ٹھیرتا ہے۔
خاندان کا نظام پہلے سے چلا آرہا ہے، اس کی شکل قدرے تبدیل ہوتی رہی، یوں کہہ سکتے ہیں کہ تدریجاً ارتقا پاتی رہی، مگر اسلام کا احسان یہ ہے کہ اس نے اس نظام کو قانونی شکل عطا کی اور اس کی تمام اکائیوں کے حقوق و فرائض واضح کیے، پھر ان سب کا دائرۂ کار متعین کیا۔ اس نظام سے خاندان کی تمام اکائیاں متمتع ہوتی ہیںلیکن درحقیقت اس سے سب سے زیادہ فائدہ بچوں کا ہے۔ اس لیے جہاں یہ نظام ختم ہوا یاشکست و ریخت سے دو چار ہوا وہاں سب سے زیادہ نقصان بھی بچوں ہی کو اٹھانا پڑا۔ مغرب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
اسی بنا پر اسلام نے اسے ایک اخلاقی معاملہ نہیں رکھا بلکہ اسے ایک قانون اور ضابطے کی شکل دی جس میں خاص طور پر عورتوں کو اس کا پابند بنایا کہ وہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں کسی قسم کی دوسری مصروفیات کو آڑے نہ آنے دیں۔
اسلام کا یہ نظام اس قدر فطری بنیادوں پر قائم ہے کہ اس سے انحراف کی صورت میں جہاں ایک طرف سخت ترین نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہیں اس کے مقابل دوسرا کوئی نظام قائم کرنے میں بھی انسان کو کام یابی نہیں ہوسکی۔ اس کا واضح مفہوم یہی ہے کہ انسانیت کی بقا کے لیے کسی کے پاس اسلام کے تجویز کردہ نظام کے علاوہ کوئی راہ موجود نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے برخلاف ایک غیر فطری تجربے کی داستان ملاحظہ کیجیے۔
مغرب میں آزادیِ نسواں کی تحریک شروع ہوئی تو اسے فلسفیانہ بنیاد عطا کرنے اور باقاعدہ و باضابطہ بنانے کے لیے جو مشکلات درپیش تھیں، ان میں سرفہرست یہی مسئلہ تھا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے کیا خطوط متعین کیے جائیں؟ اس غرض سے ایک فریق نے بچوں کی اجتماعی پرورش کا متبادل اصول متعارف کرایا۔ ہنگری کے مارکسی مصنف وجدہ اور ہیلر یہ تجویز کرتے ہیں کہ ایک اجتماعی خاندان یا کمیون (collective family) یہ فرائض ادا کریں گے اور تمام بالغ افراد بچوں کی پرورش کا فریضہ انجام دیں گے۔ بالغوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت یک زوجگی سے لے کر جنسی آوارگی تک موجود ہوگی کیوں کہ کمیون میں جنسی تعلقات اخلاقی قدروں کے ماتحت نہیں ہیں۔ اجتماعی خاندان کمیون سے مختلف ہے، کیوں کہ وہ صرف گھریلو معاملات اور بچوں کی نگہداشت سے متعلق ہے اور یہ پیداواری اکائی نہیں ہوتی۔
اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے ایلون ٹوفلر نے ایک انوکھا متبادل نظام تجویز کیا ہے۔ اس نے پیشہ ور والدین (professional parents) کا تصور پیش کیا ہے۔ یہ ’معاون والدین‘ خاندان کی حیثیت اختیار کریں گے اور ماں، باپ ، چچا، چچی اور دادا، دادی اور نانا، نانی کا کردار ادا کریں گے۔ یہ لوگ بچے کی پرورش کو تنخواہ دار ملازمت کی حیثیت سے اختیار کریں گے۔ اس طرح رضا کارانہ طور پر بچوں کی پرورش کا خاتمہ ہوگا اور بہت سے حیاتیاتی والدین کو خاندانی کردار سے چھٹکارا ملے گا۔ انھیں صرف یہ کرنا ہوگا کہ اپنے بچوں کو پیشہ ور لوگوں کے سپرد کردیں۔
اسی طرح بہت سے مصنفین نے خاندان کے متبادل اداروں کا تصور بھی پیش کیا ہے۔ اشتراکی نسائیت پسند مصنفہ جو لیٹ مشیل نے مختلف تجربات کا تدکرہ کیا ہے جن کا تعلق اجتماعی زندگی (commnunal living) سے ہے جو افراد اور حالات کی مناسبت سے متعین ہوسکے ہیں۔ وہ ایسے ادارے تجویز کرتی ہے جو رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیں اور ان میں مختلف مرد اور عورتیں مصروف خدمت رہیں۔ (Future Shock ، پینگوین، لندن، ۱۹۷۱ئ)
ملاحظہ کیجیے اس طبقۂ فکر کی ذہنی اُپج کہ اصلی والدین کو فیکٹریوں میں جھونک کر کرایے کے والدین حاصل کیے جارہے ہیں۔ یہ بات کم از کم اس امر کی تو واضح دلیل ہے کہ بچوں کی تربیت میں والدین خصوصاً ماں کا کردار ایسا ہے جس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوچکی تو پھر جس کا جو وظیفۂ حیات قدرت نے متعین کردیا، عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ اسے وہ ادا کرنے دیا جائے نہ یہ کہ اپنی اختراعات سے کام لے کر اس کا متبادل سامنے لایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ معاملہ اتنا ہی سادہ ہوتا تو قدرت نے یہ کیوں نہ کردیا کہ بچے بھی پھلوں اور سبزیوں کی طرح درختوں پر اُگتے اور کھیتوں میں ابھرتے، پھر پال لگانے کے لیے اسے متعلقہ اداروں کے سپرد کردیا جاتا اور آخر میں یہ تیار پروڈکٹ والدین کو بھیج دی جاتی۔ ماںبھی سال بھر کی مشقت سے محفوظ رہتی، اور باپ بھی کسی آزمایش سے دوچار نہ ہوتا۔ قدرت کے اس پورے نظام کا مطالعہ کرنے سے جہاں ایک طرف خاندان کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہیں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ واحد نظام ہے جو بچوں کو احساس تحفظ اور شناخت عطا کرتا ہے، اس بنا پر یہ نظام بچوں کی تربیت کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ اسلام کا بچوں پر اس قدر بڑا احسان ہے جس کی اہمیت سے صحیح معنی میں ہم واقف ہی نہیں ہیں۔
بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی پرورش درست نہج پر کی جائے۔ آپؐ نے والدین کو بچوں کی پرورش کا براہِ راست ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جس میں کوتاہی کی صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا:
آگاہ ہو جائو! تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اورہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں (روزِ قیامت) پوچھا جائے گا۔ سو، یادرکھو لوگوں کا امیر بھی رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، اور ہر فرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اور ہر عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس بارے میں سوال ہوگا۔ آگاہ رہو، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (مسلم، حدیث ۱۸۲۹، بخاری، حدیث ۵۲۰۰)
بچوں کی پرورش، خوراک، لباس، تعلیم و تربیت، علاج معالجہ، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے، عموماً ــوالدین یہ فرائض انجام دیتے ہیں، لیکن اسلام انھیں والدین کا مستقل فریضہ قرار دیتا ہے، جس کی ادایگی پر وہ علیحدہ سے اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے، اور عدم ادایگی کی صورت میں انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا۔
قرآن کریم کی رُو سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کسی ماں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بچے کو اپنے دودھ سے محروم رکھے، اسلام نے بچے کے لیے دودھ پلانے کی مدت دو سال مقرر کی ہے (البقرہ ۲:۲۳۳)۔ اس سے کم مدت میں اگر دودھ چھڑایا جائے تو یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ بچے کی صحت اور پرورش پر اس کا کوئی برا اثر تو مرتب نہیں ہوگا۔ اسی آیت نے یہ بھی واضح کیا کہ دودھ پلانے والی ماں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔ باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دودھ پلانے والی ماں کے طعام و لباس کا پورا انتظام کرے، جب کہ باپ کی غیر موجودگی میں یہ خاندان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے اور اس کی ماں کی نگہداشت کا پورا انتظام کرے۔ والدین کی علیحدگی کی صورت میں بچے کی رضاعت (دودھ پلوانے) کا انتظام کرنا ضروری ہے۔ ماں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بلاوجہ بچے کو دودھ کی نعمت سے محروم کردے، کیونکہ یہ اس کی پرورش میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس عمل پر اس سے باز پرس ہوگی۔
ان ہدایات کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاں دودھ پلانے کا یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہ دورِحاضر کی بدعت ہے کہ مائوں نے اپنا دودھ پلانے سے گریز کیا ہے، جس کا نتیجہ مائوں کے حق میں بھی بہتر نہیں نکلا، جب کہ بچوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ دور حاضر کی طبی تحقیقات نے ماں کے دودھ کی اہمیت و ضرورت کا ادراک کیا ہے اور مائوں کو یہ مشورہ دینا شروع کیا ہے کہ وہ بچوں کو دودھ پلائیں۔ چونکہ ماں کا دودھ بچے کی صحت، عادات و اطوار اور مستقبل کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے ماں کی صحت، اس کی دینی اور اخلاقی حیثیت کی بڑی اہمیت ہے۔
بچوں کی پرورش بہت نازک معاملہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے جو احکامات اس بارے میں ہمیں تعلیم فرمائے ہیں ان میں ان نزاکتوں کا بھرپور خیال رکھا ہے۔ انسان جو لقمہ اپنے پیٹ میں منتقل کرتا ہے وہ بھی اپنی ایک تاثیر رکھتا ہے، اور اسلام یہ کہتا ہے کہ رزق حرام کسی اچھے مستقبل کی تعمیر نہیں کرسکتا۔ اس لیے والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی پرورش حلال رزق سے کریں، تاکہ وہ آگے چل کر اچھے مستقل سے لطف اندوز ہو سکیں، ورنہ انجام درست نہیں ہوسکتا۔ قرآن کہتا ہے : کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ (طٰہٰ ۲۰:۸۱)’’تم ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو‘‘۔ دوسرے مقام پر حرام خوری کو شیطان کا راستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے حلال و پاکیزہ چیزوں کو کھائو اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۶۸)
ابتدا سے یہ رجحان بھی چلا آرہا ہے کہ بعض اوقات تمام بچوں میں مساوات نہیں برتی جاتی۔ کبھی لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے تو کبھی لڑکوں کے مابین بھی کسی وجہ سے یا بلا وجہ فرق روا رکھا جاتا ہے۔ یہ تفریق اسلام میں قطعاً پسندیدہ نہیں۔ نبیِ رحمت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، اور سب کے مابین مساوی سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے، اور ایسے والدین کو اجر و ثواب میں بشارت دی ہے، جو بچوں کی صحیح پرورش کریں اور سب کے درمیان مساوی سلوک کریں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ’’ ایک عورت میرے پاس آئی اور اس کے ہم راہ اس کی دو بیٹیاں تھیں۔ اس نے میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ پایا تو میں نے اسے وہی دے دی۔ پھر اس نے اسے اپنی بیٹیوں میں بانٹ دیا اور اس میں سے خود نہ کھایا، پھر اٹھ کر باہر چلی گئی۔ اس کے بعد نبی ؐگھر آئے اور میں نے آپؐ کو بتایا تو آپؐ نے فرمایا: ’’جو کوئی ان بیٹیوں کی آزمایش میں ڈالا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے آگ سے مقابلے میں رکاوٹ ثابت ہوں گی‘‘۔ (بخاری، حدیث ۵۹۹۵)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی وہ اور میں جنت میں اس طرح داخل ہوں گے، پھر آپؐ نے اپنی انگلیوں کو باہم ملایا‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۹۲۱)
جنت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب، نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہوگی، یہ نعمت خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق بیٹیوں کی پرورش سے حاصل ہوسکتی ہے۔
آپؐ نے باہم بیٹوں میں بھی کسی قسم کا امتیاز قائم نہیں فرمایا۔ اگر کسی نے اپنے ایک لڑکے کو عطیہ دیا اور دوسرے لڑکے یا لڑکوں کو نہ دیا تو آپؐ نے اسے ظلم قرار دیا۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے اپنے لڑکوں میں سے کسی ایک کو ایک غلام ہبہ کیا اور چاہا کہ اس پر آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائے۔ چنانچہ انھوں نے آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ آپؐ نے دریافت فرمایاکہ کیا تم نے اپنے سب بچوں کو ایک ایک غلام دیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں سواے حق کے کسی پر گواہ نہیں بنتا (ابوداؤد، حدیث ۳۵۴۲)۔ اس طرح آپؐ نے نہ صرف ایک ناانصافی پر مشتمل فیصلے میں گواہ بننے سے انکار کیا، بلکہ اپنے عمل سے ایک ایسے معاملے کی شناعت کی جانب ہماری توجہ بھی مبذول کروائی جس میں ایک بہت بڑا طبقہ شامل ہے۔
اسی قسم کے ایک اور واقعے میں ذکر آ تا ہے کہ ایک صحابی کے والد نے انھیں کچھ عطیہ دے دیا تو ان کی والدہ نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہ ہو ں گی جب تک تم اس پر حضوؐر کی گواہی نہیں لاؤ گے۔ ان کے والد رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان فرما کر آں حضرتؐ سے اس پر گواہی چاہی، آپؐ نے فرمایا:
کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اسی طرح کا عطیہ دیا ہے ، میں نے کہا کہ نہیں ۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل سے کام لو، پس وہ صحابی واپس پلٹے اور بیٹے سے عطیہ واپس لے لیا۔(بخاری، کتاب الھبۃ، باب ۱۳)
ناموں کا اثر بچے کی شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کا یہ حق بھی قرار دیا ہے کہ اس کا نام موزوں اور اچھا تجویز کیا جائے، اور والدین پر اولاد کا یہ ایک اہم حق ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’باپ پر بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کو حُسنِ ادب سے آراستہ کرے‘‘۔ (مجمع الزوائد، ج۸، ص ۹۳)
اگر کسی کا نام کسی سبب سے مناسب نہ ہو تو اسے بدل دینا چاہیے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیح ناموں کو بدل دیا کرتے تھے‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاتون کا نام عاصیہ سے تبدیل کرکے جمیلہ تجویز فرمایا‘‘۔ (ترمذی، ایضاً)
سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچے کا نام ایسا رکھا جائے جو اچھے عقائد اور عمدہ اخلاق کا آئینہ دار ہو۔ حدیث میں آیا ہے کہ تم اپنے بچوں کے نام خوب صورت رکھو۔ آں حضرتؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ کے نزدیک سب سے پیارے نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں‘‘۔ (ابن ماجہ، ابوداؤد)
شاہ ولی اللہ اس حکم کی حکمت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’شریعت کے اہم اور عظیم ترین مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ تمام ضروریاتِ زندگی اور تدابیر معاشیات میں بھی ذکر الٰہی شامل کردیا جائے اور اسے دو چند کردیا جائے تاکہ یہ امور بھی دعوت اسلام کی زبان بن کر حق کی دعوت دیں اور نومولود بچے کو عبد اللہ اور عبد الرحمن سے موسوم کرنا درحقیقت اسے توحید سے آگاہ و باخبر کرنا اور توحید آشنا بنانا ہے۔ نیز اہل عرب اور دیگر ممالک کے باشندے اپنی اولاد کا نام ان لوگوں کے نام پر رکھتے تھے جن کی وہ لوگ عبادت و پرستش کیا کرتے تھے۔ چونکہ آں حضرتؐ کی بعثت کا مقصد ہی مراسم توحید قائم کرنا تھا اس لیے لازم و ضروری ہوا کہ نام رکھنے میں سنت، توحید اور طریق توحید ہی کا اعتبارو لحاظ رکھا جائے‘‘۔ (شاہ ولی اللہ، حجۃ اللّٰہ البالغہ، ج۲،ص ۳۹۱، مصر)
اسی طرح برے ناموں کی ممانعت کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: ’’ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ کے نزدیک کم بخت نام اس شخص کا ہوگا جو ملک الاملاک کہلائے گا‘‘(ابوداؤد، بخاری)۔ ابو الدردا رضی اللہ عنہ کی روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’قیامت کے دن تمھیں اپنے ناموں اور اپنے والد کے ناموں سے پکارا جائے گا، اس لیے بہترین نام رکھا کرو‘‘۔ (ابوداؤد، حدیث ۴۹۴۸، دارمی، حدیث ۲۶۹۴)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی یہ تاثیر ہے کہ امت مسلمہ میں ہمیشہ اچھے نام مقبول رہے ہیں۔ انبیا و صلحا کی نسبت سے بھی نام رکھے گئے۔ بعض ایسے نام پائے جاتے ہیں جو متنازع رہے ہیں، تاہم امت مسلمہ اچھے ناموں کی وجہ سے پوری دنیا میں منفرد ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کا نام ابراہیم رکھا۔ آپؐ کا یہ ارشاد بھی کتب حدیث میں منقول ہے: ’’پیغمبروں کے نام پر نام رکھو‘‘ (ابوداؤد)۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کی اپنے قول مبارک سے تلقین فرمائی، اپنے عمل سے اس کی تائید بھی امت کے سامنے پیش فرما دی۔
عقیقے کی روایت عربوں میں پہلے سے موجود تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اصلاح فرمائی اور اسے بچے کا حق قرار دیا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ بچے کی پیدایش پر جانور ذبح کیا جاتا اور پھر اس کے خون سے بچے کو رنگ دیا جاتا۔ اسلام نے اس کی ممانعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقے کی یہ صورت بیان فرمائی:’’جس کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو، اور وہ قربانی کرنا پسند کرے تو اسے چاہیے کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کے لیے ایک بکرا قربان کرے‘‘۔(ابوداؤد، حدیث ۲۸۴۲)
آپؐ کے نواسے حضرت حسن ؓ کی پیدایش کے وقت آپؐ نے خود ان کا عقیقہ کیا، اس کی تفصیل راویت میں یوں مذکور ہے:
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے عقیقے میں ایک بکرا ذبح کیا اور کہا کہ اے فاطمہ! حسن کا سرمونڈا دو اور اس کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کردو۔ ان کا وزن ایک درہم نکلا۔ (ترمذی، حدیث ۱۵۲۴، حاکم، حدیث ۷۵۸۹)
تعلیم بنیادی ضرورت ہے۔ اسلام پہلا مذہب اور پہلی تہذیب ہے، جس نے تعلیم کو ہرانسان کی بنیادی ضرورت قرار دیا ہے، جب کہ اس سے قبل یہ تصور موجود نہ تھا، بلکہ ہرمعاشرہ اور قبیلہ صرف اپنے اعلیٰ طبقے کی تعلیم پر قانع تھا، اور وہ قبیلے کے سردار اور امرا وغیرہ اور مذہبی پیشوائوں کی تعلیم و تربیت کو ضروری قرار دیتا اوراس کا اہتمام کرتا تھا۔ عام افراد اس تعلیمی نظام سے خارج سمجھے جاتے تھے۔ انھیں طبقۂ اشرافیہ کی طرح تعلیم حاصل کرنے کا حق نہ تھا (انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا، ۱۹۸۴ئ، ۶/۳۱۷-۳۱۸)۔ یہاں تک کہ یونان اور چین کے ہاں بھی، جنھوں نے علم و تمدن کے میدان میں نمایاں بلکہ غیر معمولی ترقی کی،تمام انسانوں کی تعلیم کا کوئی تصور نہ تھا، بلکہ وہ اہل علم کے ایک خاص طبقے کی تعلیم کے محرک اور داعی تھے۔ افلاطون بھی فلاسفہ اور اہل نظر کے ایک مخصوص طبقے ہی کو اس امتیاز سے نوازتا ہے۔(پروفیسر خورشیداحمد، اسلامی نظریۂ حیات، ص۴۲۰)
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے، جس نے سب سے پہلے بلا تفریق طبقات و قبائل و بلاتخصیص مرد و زن سب کے لیے بلاامتیاز و بلا اختصاص عام تعلیم کا آوازہ بلند کیا، اور نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘(ابن ماجہ، حدیث ۲۲۴)۔ گویا تعلیم ہر چھوٹے بڑے، امیر و غریب، مرد و عورت اور کالے و گورے ،ہر ایک پر فرض ہے۔ اس باب میں نہ تو طبقۂ فکر کی تخصیص ہے نہ کسی اور بنیاد پر اسلام نے کسی بھی نوعیت کے امتیاز کودرست سمجھا ہے ۔ اس بنا پر اولاد کی تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کوئی والد اپنی اولاد کو اچھے آداب سے بہتر ہدیہ نہیں دے سکتا‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۹۵۹)
تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو عصر حاضر کے دیدہ وروں کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ علم کے نام پر جو لاعلمی پھیلائی جارہی ہے، اس کے مفاسد اپنی جگہ پر مگر تربیت کی طرف کوئی ذہن بھی توجہ نہیں کررہا۔ حالانکہ تربیت کے بغیر علم کی حیثیت خام مال سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب تک اسے تربیت کی بھٹی سے نہ گزار لیا جائے اس وقت تک اس سے فائدہ نہیں اٹھا جاسکتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں پر جو شفقت فرمائی ہے، اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ آپؐ نے ان کی تہذیب اور تربیت کی بھی خاص تلقین فرمائی ہے۔ تربیت میں سب سے پہلے روحانی تربیت کا مرحلہ آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے وہ اُس کو بجا لاتے ہیں۔(التحریم ۶۶:۶)
اولاد اور اہل و عیال کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ دعائیں بھی تعلیم فرمائی ہیں۔ کیونکہ یہ بھی تربیت کا حصہ ہے کہ انسان جہاں ان کے اخلاق و کردار پر نظر رکھے، انھیں اچھی باتوں کی تعلیم دے، وہیں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے دعا بھی کرے۔ قرآن حکیم دعاگو رہنے والے والدین کا ذکر یوں کرتا ہے: ’’اور وہ جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘(الفرقان ۲۵:۷۴)۔ایک دوسری دعا ہے: ’’اور میرے لیے میری اولاد میں بھی خیر رکھ۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں‘‘۔ (احقاف ۴۶:۱۵)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی تربیت کو کس قدر اہمیت دی ہے، اور ان کے اندر خیرخواہی کا مادہ پیدا کرنے پر جس قدر زور دیا ہے، اس کا کچھ اندازہ ان ارشادات سے کیا جاسکتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان کا اپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک صاع (ساڑھے تین سیر، تقریباً) صدقہ کرنے سے بہتر ہے‘‘ (ترمذی، حدیث ۱۹۵۸)۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو اور ان کے آ داب کو بہتر بناؤ‘‘۔ (ابن ماجہ، حدیث ۳۶۷۱)
نبی کریمؐ نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی انتہائی اہمیت دی جو بہ ظاہر تو چھوٹی نظر آ تی ہیں مگرمستقبل میں انسانی شخصیت و کردارپر ان کے بہت گہرے اور پایدار اثرات دیکھنے میں آ تے ہیں۔چناں چہ نبی کریمؐ بچوں کو سلام کی تلقین فرماتے تھے ۔ روایت میں آ تا ہے کہ نبی کریمؐ نے حضرت انسؓ سے فرمایا: ’’اے بیٹے ! جب اپنے گھر میں داخل ہو تو اہل خانہ کو سلام کرو ، یہ تمھارے اور اہل خانہ دونوں کے لیے باعث برکت ہو گا۔(ترمذی، حدیث ۲۷۰۷)
بچوں کی فطرت میں تھوڑی ضد اور ہٹ دھرمی ہوتی ہے اور وہ اس کا مظاہرہ اپنے بچپن میں زیادہ کرتے ہیں۔اس لیے اگر چہ اسلام میں بچوں پر شفقت و رحمت کے حوالے سے زیادہ زور دیا گیا ہے لیکن اس قسم کے بچوں کے لیے اور بنیادی اسلامی فرائض کی انجام دہی میں سستی کرنے والے بچوں کے لیے تربیت کا یہ اصول بتا یا گیا ہے:’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو ، اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر علیحدہ کر دو‘‘۔(ابوداؤد، حدیث ۴۹۵)
تعلیم و تربیت کی کثیر الجہت اہمیت اور مفہوم کی بنا پر اسلام کی تعلیمات اس باب میں بہت زیادہ اور مختلف پہلوؤں کی حامل ہیں۔بچوں کو اچھائی اور ادب کی تعلیم دینے کے سلسلے میں ارشاد نبویؐ ہے: ’’خود کو اور اپنے اہل خانہ کو اچھائی کی تعلیم دو اور انہیں ادب سکھاؤ‘‘۔(روح المعانی، ج۲۸،ص ۱۵۶)
بچوں کو قرآ ن کریم کی تعلیم دینے پر زور دیا گیا ہے اور دینی فرائض سیکھنے کا بھی حکم دیا گیا ہے: ’’فرائض اور قرآن کی تعلیم خود بھی حاصل کرو اور دوسرے لوگوں کو بھی سکھاؤ، کیوں کہ میں (عن قریب)دنیا سے چلا جاؤں گا‘‘( ترمذی، حدیث ۲۰۹۸)۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’قرآن کا علم حاصل کرو ، اس کو پڑھو اور اس کے ساتھ سوؤ (یعنی سونے سے پہلے تمھارا آخری کلام قرآن مجید ہونا چاہیے)‘‘۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، حدیث ۳۳۲۷)
اسلامی تعلیمات کے برعکس مغرب کا المیہ یہ ہے کہ وہ آزادی اور خود مختاری کے ایک ایسے نظریے کے شکنجے میں آچکا ہے، جو اسے بے لگام آزادی کی طرف دھکیل رہا ہے، حالانکہ آزادی کا یہ مفہوم شاید اس فکر کو پروان چڑھانے والوں کے ذہنوں میں بھی موجود نہیں ہوگا۔ بچوں کے سلسلے میں اس نظریے کے ثمرات ایک ایسے بے ترتیب، غیر منظم، بے ادب اور بدلحاظ گر وہ کی شکل میں سامنے آئے ہیں جسے اپنی ذات کے علاوہ کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ یہ گروہ انسانی معاشرے کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ یہ تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ اس بنا پر اسلام بچوں کی درست تعلیم وتربیت کی جانب متوجہ کرتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’چونکہ بچوں کی زندگی میں استقلال نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنے والدین کی نگرانی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ماں باپ کے دلوں میں بے پناہ شفقت اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کیا تاکہ وہ تربیت اولاد کا کام خوشی سے انجام دیں اور ہر طرح ان کے نگران حال رہیں۔ وہ ان کی تربیت ایسے طریقے پر کریں جس سے ان کی آیندہ زندگی سنور جائے اور وہ ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے جائز اور باعزت طریقے پر کمانا جان سکیں‘‘۔(حجۃ اللّٰہ البالغہ، ج۲، ص ۳۹۱)
بچے کی تعلیم و تربیت اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ معاشرے کی اساس ہے۔ فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اچھے افراد جو تربیت یافتہ اور زیور علم سے آراستہ ہوں گے وہ معاشرے کو جنت کا نمونہ بنائیں گے۔ وہ ایسا ماحول تشکیل دیں گے جس میں تمام افراد خوش حال زندگی بسر کرسکیں۔ غیر تربیت یافتہ افراد کے نتیجے میں غیر مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے جو مزید انتشار اور فساد کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے اسلام نے بچے کی تعلیم و تربیت دونوں پر زور دیا ہے اور اسے آزاد اور بے مہار نہیں چھوڑا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کے حوالے سے یہ بنیادی اصول بیان فرمایا کہ بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کے والدین اس کی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں اور اسے جس رنگ میں چاہیں ڈھال دیتے ہیں(اسلام کا معاشرتی نظام، ص ۲۳۷)۔ حدیث کے الفاظ ہیں، آپؐ نے فرمایا: ’’ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی یا نصرانی بناتے ہیں‘‘۔ (بخاری، حدیث ۱۳۸۵، ابوداؤد، حدیث ۴۷۱۴)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں، اور اپنی رحمت و شفقت پر مبنی جو احکامات ان کے لیے دیے ہیں یہ اس کا ایک خلاصہ ہے۔ جس کی روشنی میں ہمیں یہ باور کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیںآتی کہ انسانی معاشرے میں بچوں کو آج سے ڈیڑھ صدی قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حقوق عطا فرمائے تھے آج بھرپورترقی کے دعوئوں کے باوجود جدید معاشرہ اس سے کہیں دور کھڑا ہے، اور جن پہلوئوں سے اس نے اصلاحات قبول بھی کی ہیں تو وہ بھی اسلام کے صدقے میں، اور یہ اسلام کی اصلاحات کا تسلسل ہے۔
اگر ان تعلیمات کو عمل کے لیے اپنالیا جائے تو اس سلسلے میں پائے جانے والی کوتاہیاں دُور ہوسکتی ہیں، اور ان کوتاہیوں کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کو جو مسائل درپیش ہیں ان کو ہم حل کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین! [نائب مدیر ششماہی السیرۃ عالمی، کراچی، ای میل:info@rahet.org ]