بچے کسی بھی معاشرے کی امیدوں، آرزوئو ں اور تمنائوں کا مرکز ہوتے ہیں، اس لیے کہ مستقبل کی تعمیر کا انحصار ان ہی پر ہوتا ہے۔ اس لیے بچے دوسرے تمام طبقات کی بہ نسبت زیادہ توجہ، زیادہ شفقت اور زیادہ محبت چاہتے ہیں۔ معاشرتی حوالے سے بھی بچوں کی اہمیت مسلّم ہے۔ اسی بناپر اسلامی تعلیمات میںجہاں والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت بیان کی گئی ہے وہاں بچوں کے حقوق بھی واضح کیے گئے ہیں۔ اسلام کی معاشرتی زندگی یک رخی نہیں، ہمہ گیر ہے۔ اس لیے والدین اگر اسلامی معاشرے میں بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں تو بچے اس اکائی کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں۔ یہ دونوں مل کر معاشرے کی صورت گری کرتے ہیں۔ بچے تو اور بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، کیوں کہ وہ نہ صرف والدین کی شخصی توسیع ہیں بلکہ معاشرے کے ارتقا اور اس کی متحرک زندگی کا عکس ہیں۔ آج کی اولاد کل کے والدین ہیں، اور آج کے بچے کل کے جو ان اور بزرگ ہوتے ہیں۔ اس بنا پر اسلام نے بچوں کے بارے میں خصوصی ہدایات دی ہیں۔
کوئی معاشرہ بچوں کے بارے میں جو رویہ اختیار کرتا ہے وہی اس کا معاشرتی معیار قرار پاتا ہے۔ اگر ان کے ساتھ حسن سلوک کے بجاے بے اعتدالی روا رکھی گئی تو اس سے نہ صرف یہ کہ معاشرے کا ارتقائی مزاج مجروح ہوگا بلکہ مستقبل کے والدین بھی خطرناک حد تک اولاد کش ثابت ہوں گے۔ (ڈاکٹر خالد علوی، اسلام کا معاشرتی نظام،ص ۲۲۴)
اسلام کی نظر میں بچوں کی اہمیت کئی وجوہ سے ہے۔ وہ مستقبل کے معمار ہیں، خاندان کی بقا کا ذریعہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہیں، جماعت کی کثرت اور پہچان کا سبب ہیں، نیز اللہ تعالیٰ کی مدد کی ایک صورت ہیں۔ اسلام اپنے زیر اثر معاشرے میں اولاد کو اپنی معاشرتی اور سماجی اقدار کے تعارف، بقا اور تحفظ کا ذریعہ تصور کرتا ہے۔ اسلام اولاد کو نعمتِ عظمیٰ قرار دے کر اس کی نگہداشت کا حکم دیتا ہے۔ اسلام نے خاندان کا جو تصور دیا ہے اس کی ایک اہم اکائی اولاد کی صورت میں بچے ہیں۔ اسلام اسے ذاتی تسکین کا سامان بھی قرار دیتا ہے۔ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے بچوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں اور بچوں پر آپؐ کی شفقت و رحمت کے جو مظاہر کتب حدیث و سیرت میں موجود و محفوظ ہیں، ان کا تذکرہ کرنے سے قبل ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی روشنی میں اسلام کے ہاں بچوں کی کیا حیثیت سامنے آتی ہے؟
جیسا کہ عرض کیا گیا اسلام بچوں کو نعمت ِعظمیٰ قرار دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے احسانات یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے: ’’اور اللہ نے تم ہی میں سے تمھارے لیے جوڑے بنائے اور تمھاری بیویوں سے تمھارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا‘‘(النحل ۱۶:۷۲)۔ ’’دنیا کی رونق بچوں کے دم سے ہے، یہ سامان زینت ہیں۔ فرمایا: ’’مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں‘‘۔(الکھف ۱۸:۴۶)
نظامِ فطرت میں بچے اور اولاد امداد و تعاون کی ایک صورت ہے، جن سے انسان تقویت حاصل کرتا ہے، اور جن کے بل بوتے پر وہ عددی اکثریت حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے: ’’اور تمھیں مال اور اولاد سے قوت دی اور تمھیں بڑی جماعت والا بنا دیا‘‘(بنی اسرائیل ۱۷:۶)۔ اسی طرح حضرت ہود ؑاپنی قوم کو اپنے رب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اور اس سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمھاری مدد کی جن کو تم جانتے ہو۔ اس نے چوپایوں اور اولاد سے تمھاری مدد کی ‘‘ (الشعرا ۲۶: ۱۳۲-۱۳۳)۔ حضرت نوح علیہ السلام بھی اپنی قوم کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کے انعامات اور انعامات کے وعدے بیان کرتے ہیں تو اولاد کا ذکر خاص طور پر کرتے ہیں: ’’اور تمھیں مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمھیں باغ عطا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کرے گا‘‘۔(نوح ۷۱:۱۲)
غرض اسلام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ چونکہ دیگر نعمتوں کی طرح بچے بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہیں، اس لیے اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ ان کی پرورش اور تربیت پوری اہتمام سے کرنی چاہیے پھر ان کا درجہ امانت کا بھی ہے، اس لیے ان کی تربیت پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ان سے بدسلوکی اور ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں کوتاہی پورے معاشرے کے لیے مضر ہے۔ جب ایک تربیت یافتہ بچہ انسانی معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوگا تو ایک غیر تربیت یافتہ بچہ اسی معاشرے کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
بچوں کو نبی کریمؐ کی خاص توجہ حاصل رہی ہے۔ آپؐ نے ان کے جو حقوق بیان فرمائے ہیں اور اسلام نے انھیں جو خاص اہمیت دی ہے اسے چند عنوان کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
اسلام نے بچوں پر اہم ترین احسان یہ کیا ہے کہ انھیں زندگی کا حق عطا کیا ہے۔ اسلام کی نظر میں مرد و عورت کا جائز باہمی تعلق محض ایک تفریح نہیں ہے، بلکہ یہ نسلِ انسانی کے تحفظ اور اس کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ ہے۔ اس بنا پر اس تعلق کے ثمرے کے طور پر وجود پانے والے بچے کو اسلام یہ حق دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے، اور والدین کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اس کی زندگی کو خوشی سے قبول بھی کریں اور اس کی بقا کے لیے ناگزیر و ضروری اقدامات بھی کریں۔
اسلام سے قبل بچوں سے بہت سی صورتوں میں یہ حق حیات چھین لیا جاتا تھا۔ کبھی نرینہ اولاد کی خواہش ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتی۔ کبھی ان کے جیتے جاگتے وجود کو خیالی یا ساکت و جامد معبودوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا، اور کبھی معاشی کفالت کا خوف ان کی جان لے لیتا۔ یہ تیسری صورت فیملی پلاننگ کے نام پر آج بھی پوری دنیا پر مسلط ہے، اور اس کے تقاضوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے والے ملک چین میں بچوں کا قتل آج عروج پر ہے۔ کثرت آبادی کے خوف سے وہاں کی حکومت عرصے سے ’ایک خاندان ایک بچہ‘ کے اصول پر عمل پیرا ہے، جس کے نتیجے میں اب وہاں ہر خاندان کی خواہش ہے کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہو۔ چونکہ ان کے پاس صرف ایک موقع ہوتا ہے، اس لیے وہ اولاد نرینہ نہ ہونے کی صورت میں ایسا انتظام کرتے ہیں کہ بچہ دنیا میں آنے ہی نہیں پاتا۔ یہ صورت حال اسلامی معاشرے میں پیدا نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ اسلام ایسے غیر انسانی اقدامات کی مذمت کرتا ہے، اورایسی ہدایات دیتاہے کہ اس قسم کے اقدامات کی بیخ کنی ہو۔
اسلام معاشی بنیادوں پر اولاد کے قتل کو سخت ترین جرم قرار دیتا ہے، کیوں کہ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اس کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اس کائنات کا نظم و نسق انسان کے حوالے کیا ہے، اسے وسائل دیے ہیں، محنت کا جذبہ اور معنی و کوشش کے دروازے اس پر وا کیے ہیں۔ اسے ذرائع دیے ہیں جن کے ذریعے وہ محنت اور جدوجہد کرکے اپنی دنیاوی زندگی کو مزین اور اُخروی حیات ابدی کو روشن اور ثمر بار کرسکتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کے ظالمانہ اقدامات اور غیرمنصفانہ رویوں کے باعث وسائل حیات پر چند افراد کا قبضہ ہوجاتا ہے، اور عام افراد کی دست رس سے وسائل نکلنے لگتے ہیں۔ ایسے میں معاشی تنگی پیدا ہوتی ہے، اور انسان اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے بعض اوقات ناجائز اقدامات پر بھی اتر آتا ہے، مگر یہ نظام کو صحیح طور پر نافذ نہ کرنے کا نقصان ہے۔ اس کا ذمہ دار خود نظام نہیں ہے، وہ چند غلط کار لوگ اور چند ہاتھ اس کے ذمہ دار ہیں، جو اس نظام کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ اسلام اس لیے ایک تو دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیتا ہے، دوسری جانب معاشی وجوہ سے قتل اولاد کو سنگین ترین جرم قرار دیتا ہے۔ ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور مفلسی کے ڈر سے تم اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم ان کوبھی رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل کرنا بڑی خطا ہے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۳۱)
بچوں کے قتل کا ایک اور سبب اولاد نرینہ کی خواہش ہے۔ اس خواہش کی وجہ سے لڑکیوں کا قتل انسان کی بہت پرانی روایت ہے، اور ہر طرح کی ترقی کا دعویٰ رکھنے اور انسانی حقوق کے بلند آہنگ دعوئوں کے باوجود ترقی یافتہ قومیں بچوں کے اس قتل عام کو آج تک نہیں روک سکیں۔ بچوں کا یہ قتل آج بھی دنیا بھر میں رائج ہے، اوریہ قبائلی سوچ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے کہ لڑکیوں کو بوجھ سمجھاجاتا ہے۔ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی لڑکیاں جہیز کم لانے کی وجہ سے قتل ہورہی ہیں اور بعض عورتیں، یہ جان کر کہ اس کے ہاں لڑکی پیدا ہو رہی ہے، اسقاط کرا دیتی ہیں۔ لڑکی معاشی بوجھ اور معاشرتی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، اس لیے اس سے نجات کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔ انھیں وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے، جس کے لیے نہایت گھٹیا طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ان کی قرآن سے شادی کردی جاتی ہے۔ کس قدر ظلم ہے کہ اس قرآن حکیم کو لڑکیوں کے حقوق بالجبر مارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس نے سب سے پہلے اس کی آواز بلند کی، اور مظلوم بچوں کو ان کا حق دلایا۔ اسلام ان تمام فرسودہ اور گھٹیا رسوم و رواج اور طور طریقوں کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ قرآن حکیم ان کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ غم کے سبب کالا پڑجاتا ہے اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہ ناک ہو جاتا ہے، اور اس خبر بد کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑدے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری بات ہے۔ (النحل ۱۶:۵۸-۵۹)
اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کا قتل کرنا مستحسن بنا رکھا ہے تاکہ وہ ان کو ہلاک کردیں اور تاکہ ان کے دین کو ان کے حق میں خلط ملط کردیں۔ (الانعام ۶:۱۳۷)
ایسا ہی شیاطین نے ان مشرکوں کی نگاہ میں فقر و فاقے کے اندیشے سے اولاد کا قتل اور ننگ و عار کے (خود ساختہ ) خطرے سے بچیوں کا زندہ درگور کرنا محبوب مشغلہ بنا رکھا تھا۔ (التفسیر، عیسیٰ البابی الحلبی، ج۲،ص ۱۸۹)
اسلام بچوں کو ایک عظیم نعمت قرار دیتا ہے، اور ہمیں اس عظیم نعمت کی قدر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام نے سب سے پہلے بچوں کے اس طرح قتل کو قانوناً جرم قرار دیا اور انسانیت کو بتایا کہ نوعِ انسانی کی بقا کے لیے بچوں کی قدر کرنا اور ان کی پرورش کرنا، انھیں صحیح تربیت فراہم کرنا ناگزیر ہے۔
اسلام کا بچوں پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے بچوں کو ایک شناخت اور پہچان عطا کی ہے۔ اس غرض سے اسلام نے خاندان کی صورت میں جو نظام وضع کیا ہے، وہ بچے کو جہاں ایک مضبوط سائبان عطا کرتا ہے، وہیں اسے ایک شناخت بھی دیتا ہے، اور تیسری جانب خاندان کو اس کی تربیت اور تعلیم کا ذمہ دار بھی ٹھیراتا ہے۔ اگر کوئی معاشرہ یاخاندان یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہے، جب کہ اس فریضے کی ادایگی کی صورت میں پورا خاندان اپنے اپنے حصے کے مطابق اجر و ثواب کا مستحق ٹھیرتا ہے۔
خاندان کا نظام پہلے سے چلا آرہا ہے، اس کی شکل قدرے تبدیل ہوتی رہی، یوں کہہ سکتے ہیں کہ تدریجاً ارتقا پاتی رہی، مگر اسلام کا احسان یہ ہے کہ اس نے اس نظام کو قانونی شکل عطا کی اور اس کی تمام اکائیوں کے حقوق و فرائض واضح کیے، پھر ان سب کا دائرۂ کار متعین کیا۔ اس نظام سے خاندان کی تمام اکائیاں متمتع ہوتی ہیںلیکن درحقیقت اس سے سب سے زیادہ فائدہ بچوں کا ہے۔ اس لیے جہاں یہ نظام ختم ہوا یاشکست و ریخت سے دو چار ہوا وہاں سب سے زیادہ نقصان بھی بچوں ہی کو اٹھانا پڑا۔ مغرب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
اسی بنا پر اسلام نے اسے ایک اخلاقی معاملہ نہیں رکھا بلکہ اسے ایک قانون اور ضابطے کی شکل دی جس میں خاص طور پر عورتوں کو اس کا پابند بنایا کہ وہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں کسی قسم کی دوسری مصروفیات کو آڑے نہ آنے دیں۔
اسلام کا یہ نظام اس قدر فطری بنیادوں پر قائم ہے کہ اس سے انحراف کی صورت میں جہاں ایک طرف سخت ترین نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہیں اس کے مقابل دوسرا کوئی نظام قائم کرنے میں بھی انسان کو کام یابی نہیں ہوسکی۔ اس کا واضح مفہوم یہی ہے کہ انسانیت کی بقا کے لیے کسی کے پاس اسلام کے تجویز کردہ نظام کے علاوہ کوئی راہ موجود نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے برخلاف ایک غیر فطری تجربے کی داستان ملاحظہ کیجیے۔
مغرب میں آزادیِ نسواں کی تحریک شروع ہوئی تو اسے فلسفیانہ بنیاد عطا کرنے اور باقاعدہ و باضابطہ بنانے کے لیے جو مشکلات درپیش تھیں، ان میں سرفہرست یہی مسئلہ تھا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے کیا خطوط متعین کیے جائیں؟ اس غرض سے ایک فریق نے بچوں کی اجتماعی پرورش کا متبادل اصول متعارف کرایا۔ ہنگری کے مارکسی مصنف وجدہ اور ہیلر یہ تجویز کرتے ہیں کہ ایک اجتماعی خاندان یا کمیون (collective family) یہ فرائض ادا کریں گے اور تمام بالغ افراد بچوں کی پرورش کا فریضہ انجام دیں گے۔ بالغوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت یک زوجگی سے لے کر جنسی آوارگی تک موجود ہوگی کیوں کہ کمیون میں جنسی تعلقات اخلاقی قدروں کے ماتحت نہیں ہیں۔ اجتماعی خاندان کمیون سے مختلف ہے، کیوں کہ وہ صرف گھریلو معاملات اور بچوں کی نگہداشت سے متعلق ہے اور یہ پیداواری اکائی نہیں ہوتی۔
اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے ایلون ٹوفلر نے ایک انوکھا متبادل نظام تجویز کیا ہے۔ اس نے پیشہ ور والدین (professional parents) کا تصور پیش کیا ہے۔ یہ ’معاون والدین‘ خاندان کی حیثیت اختیار کریں گے اور ماں، باپ ، چچا، چچی اور دادا، دادی اور نانا، نانی کا کردار ادا کریں گے۔ یہ لوگ بچے کی پرورش کو تنخواہ دار ملازمت کی حیثیت سے اختیار کریں گے۔ اس طرح رضا کارانہ طور پر بچوں کی پرورش کا خاتمہ ہوگا اور بہت سے حیاتیاتی والدین کو خاندانی کردار سے چھٹکارا ملے گا۔ انھیں صرف یہ کرنا ہوگا کہ اپنے بچوں کو پیشہ ور لوگوں کے سپرد کردیں۔
اسی طرح بہت سے مصنفین نے خاندان کے متبادل اداروں کا تصور بھی پیش کیا ہے۔ اشتراکی نسائیت پسند مصنفہ جو لیٹ مشیل نے مختلف تجربات کا تدکرہ کیا ہے جن کا تعلق اجتماعی زندگی (commnunal living) سے ہے جو افراد اور حالات کی مناسبت سے متعین ہوسکے ہیں۔ وہ ایسے ادارے تجویز کرتی ہے جو رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیں اور ان میں مختلف مرد اور عورتیں مصروف خدمت رہیں۔ (Future Shock ، پینگوین، لندن، ۱۹۷۱ئ)
ملاحظہ کیجیے اس طبقۂ فکر کی ذہنی اُپج کہ اصلی والدین کو فیکٹریوں میں جھونک کر کرایے کے والدین حاصل کیے جارہے ہیں۔ یہ بات کم از کم اس امر کی تو واضح دلیل ہے کہ بچوں کی تربیت میں والدین خصوصاً ماں کا کردار ایسا ہے جس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوچکی تو پھر جس کا جو وظیفۂ حیات قدرت نے متعین کردیا، عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ اسے وہ ادا کرنے دیا جائے نہ یہ کہ اپنی اختراعات سے کام لے کر اس کا متبادل سامنے لایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ معاملہ اتنا ہی سادہ ہوتا تو قدرت نے یہ کیوں نہ کردیا کہ بچے بھی پھلوں اور سبزیوں کی طرح درختوں پر اُگتے اور کھیتوں میں ابھرتے، پھر پال لگانے کے لیے اسے متعلقہ اداروں کے سپرد کردیا جاتا اور آخر میں یہ تیار پروڈکٹ والدین کو بھیج دی جاتی۔ ماںبھی سال بھر کی مشقت سے محفوظ رہتی، اور باپ بھی کسی آزمایش سے دوچار نہ ہوتا۔ قدرت کے اس پورے نظام کا مطالعہ کرنے سے جہاں ایک طرف خاندان کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہیں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ واحد نظام ہے جو بچوں کو احساس تحفظ اور شناخت عطا کرتا ہے، اس بنا پر یہ نظام بچوں کی تربیت کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ اسلام کا بچوں پر اس قدر بڑا احسان ہے جس کی اہمیت سے صحیح معنی میں ہم واقف ہی نہیں ہیں۔
بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی پرورش درست نہج پر کی جائے۔ آپؐ نے والدین کو بچوں کی پرورش کا براہِ راست ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جس میں کوتاہی کی صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا:
آگاہ ہو جائو! تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اورہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں (روزِ قیامت) پوچھا جائے گا۔ سو، یادرکھو لوگوں کا امیر بھی رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، اور ہر فرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اور ہر عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس بارے میں سوال ہوگا۔ آگاہ رہو، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (مسلم، حدیث ۱۸۲۹، بخاری، حدیث ۵۲۰۰)
بچوں کی پرورش، خوراک، لباس، تعلیم و تربیت، علاج معالجہ، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے، عموماً ــوالدین یہ فرائض انجام دیتے ہیں، لیکن اسلام انھیں والدین کا مستقل فریضہ قرار دیتا ہے، جس کی ادایگی پر وہ علیحدہ سے اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے، اور عدم ادایگی کی صورت میں انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا۔
قرآن کریم کی رُو سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کسی ماں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بچے کو اپنے دودھ سے محروم رکھے، اسلام نے بچے کے لیے دودھ پلانے کی مدت دو سال مقرر کی ہے (البقرہ ۲:۲۳۳)۔ اس سے کم مدت میں اگر دودھ چھڑایا جائے تو یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ بچے کی صحت اور پرورش پر اس کا کوئی برا اثر تو مرتب نہیں ہوگا۔ اسی آیت نے یہ بھی واضح کیا کہ دودھ پلانے والی ماں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔ باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دودھ پلانے والی ماں کے طعام و لباس کا پورا انتظام کرے، جب کہ باپ کی غیر موجودگی میں یہ خاندان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے اور اس کی ماں کی نگہداشت کا پورا انتظام کرے۔ والدین کی علیحدگی کی صورت میں بچے کی رضاعت (دودھ پلوانے) کا انتظام کرنا ضروری ہے۔ ماں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بلاوجہ بچے کو دودھ کی نعمت سے محروم کردے، کیونکہ یہ اس کی پرورش میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس عمل پر اس سے باز پرس ہوگی۔
ان ہدایات کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاں دودھ پلانے کا یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہ دورِحاضر کی بدعت ہے کہ مائوں نے اپنا دودھ پلانے سے گریز کیا ہے، جس کا نتیجہ مائوں کے حق میں بھی بہتر نہیں نکلا، جب کہ بچوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ دور حاضر کی طبی تحقیقات نے ماں کے دودھ کی اہمیت و ضرورت کا ادراک کیا ہے اور مائوں کو یہ مشورہ دینا شروع کیا ہے کہ وہ بچوں کو دودھ پلائیں۔ چونکہ ماں کا دودھ بچے کی صحت، عادات و اطوار اور مستقبل کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے ماں کی صحت، اس کی دینی اور اخلاقی حیثیت کی بڑی اہمیت ہے۔
بچوں کی پرورش بہت نازک معاملہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے جو احکامات اس بارے میں ہمیں تعلیم فرمائے ہیں ان میں ان نزاکتوں کا بھرپور خیال رکھا ہے۔ انسان جو لقمہ اپنے پیٹ میں منتقل کرتا ہے وہ بھی اپنی ایک تاثیر رکھتا ہے، اور اسلام یہ کہتا ہے کہ رزق حرام کسی اچھے مستقبل کی تعمیر نہیں کرسکتا۔ اس لیے والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی پرورش حلال رزق سے کریں، تاکہ وہ آگے چل کر اچھے مستقل سے لطف اندوز ہو سکیں، ورنہ انجام درست نہیں ہوسکتا۔ قرآن کہتا ہے : کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ (طٰہٰ ۲۰:۸۱)’’تم ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزوں میں سے کھائو‘‘۔ دوسرے مقام پر حرام خوری کو شیطان کا راستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے حلال و پاکیزہ چیزوں کو کھائو اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۶۸)
ابتدا سے یہ رجحان بھی چلا آرہا ہے کہ بعض اوقات تمام بچوں میں مساوات نہیں برتی جاتی۔ کبھی لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے تو کبھی لڑکوں کے مابین بھی کسی وجہ سے یا بلا وجہ فرق روا رکھا جاتا ہے۔ یہ تفریق اسلام میں قطعاً پسندیدہ نہیں۔ نبیِ رحمت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، اور سب کے مابین مساوی سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے، اور ایسے والدین کو اجر و ثواب میں بشارت دی ہے، جو بچوں کی صحیح پرورش کریں اور سب کے درمیان مساوی سلوک کریں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ’’ ایک عورت میرے پاس آئی اور اس کے ہم راہ اس کی دو بیٹیاں تھیں۔ اس نے میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ پایا تو میں نے اسے وہی دے دی۔ پھر اس نے اسے اپنی بیٹیوں میں بانٹ دیا اور اس میں سے خود نہ کھایا، پھر اٹھ کر باہر چلی گئی۔ اس کے بعد نبی ؐگھر آئے اور میں نے آپؐ کو بتایا تو آپؐ نے فرمایا: ’’جو کوئی ان بیٹیوں کی آزمایش میں ڈالا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے آگ سے مقابلے میں رکاوٹ ثابت ہوں گی‘‘۔ (بخاری، حدیث ۵۹۹۵)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی وہ اور میں جنت میں اس طرح داخل ہوں گے، پھر آپؐ نے اپنی انگلیوں کو باہم ملایا‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۹۲۱)
جنت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب، نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہوگی، یہ نعمت خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق بیٹیوں کی پرورش سے حاصل ہوسکتی ہے۔
آپؐ نے باہم بیٹوں میں بھی کسی قسم کا امتیاز قائم نہیں فرمایا۔ اگر کسی نے اپنے ایک لڑکے کو عطیہ دیا اور دوسرے لڑکے یا لڑکوں کو نہ دیا تو آپؐ نے اسے ظلم قرار دیا۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے اپنے لڑکوں میں سے کسی ایک کو ایک غلام ہبہ کیا اور چاہا کہ اس پر آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائے۔ چنانچہ انھوں نے آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ آپؐ نے دریافت فرمایاکہ کیا تم نے اپنے سب بچوں کو ایک ایک غلام دیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں سواے حق کے کسی پر گواہ نہیں بنتا (ابوداؤد، حدیث ۳۵۴۲)۔ اس طرح آپؐ نے نہ صرف ایک ناانصافی پر مشتمل فیصلے میں گواہ بننے سے انکار کیا، بلکہ اپنے عمل سے ایک ایسے معاملے کی شناعت کی جانب ہماری توجہ بھی مبذول کروائی جس میں ایک بہت بڑا طبقہ شامل ہے۔
اسی قسم کے ایک اور واقعے میں ذکر آ تا ہے کہ ایک صحابی کے والد نے انھیں کچھ عطیہ دے دیا تو ان کی والدہ نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہ ہو ں گی جب تک تم اس پر حضوؐر کی گواہی نہیں لاؤ گے۔ ان کے والد رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان فرما کر آں حضرتؐ سے اس پر گواہی چاہی، آپؐ نے فرمایا:
کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اسی طرح کا عطیہ دیا ہے ، میں نے کہا کہ نہیں ۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل سے کام لو، پس وہ صحابی واپس پلٹے اور بیٹے سے عطیہ واپس لے لیا۔(بخاری، کتاب الھبۃ، باب ۱۳)
ناموں کا اثر بچے کی شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کا یہ حق بھی قرار دیا ہے کہ اس کا نام موزوں اور اچھا تجویز کیا جائے، اور والدین پر اولاد کا یہ ایک اہم حق ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’باپ پر بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کو حُسنِ ادب سے آراستہ کرے‘‘۔ (مجمع الزوائد، ج۸، ص ۹۳)
اگر کسی کا نام کسی سبب سے مناسب نہ ہو تو اسے بدل دینا چاہیے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیح ناموں کو بدل دیا کرتے تھے‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاتون کا نام عاصیہ سے تبدیل کرکے جمیلہ تجویز فرمایا‘‘۔ (ترمذی، ایضاً)
سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچے کا نام ایسا رکھا جائے جو اچھے عقائد اور عمدہ اخلاق کا آئینہ دار ہو۔ حدیث میں آیا ہے کہ تم اپنے بچوں کے نام خوب صورت رکھو۔ آں حضرتؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ کے نزدیک سب سے پیارے نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں‘‘۔ (ابن ماجہ، ابوداؤد)
شاہ ولی اللہ اس حکم کی حکمت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’شریعت کے اہم اور عظیم ترین مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ تمام ضروریاتِ زندگی اور تدابیر معاشیات میں بھی ذکر الٰہی شامل کردیا جائے اور اسے دو چند کردیا جائے تاکہ یہ امور بھی دعوت اسلام کی زبان بن کر حق کی دعوت دیں اور نومولود بچے کو عبد اللہ اور عبد الرحمن سے موسوم کرنا درحقیقت اسے توحید سے آگاہ و باخبر کرنا اور توحید آشنا بنانا ہے۔ نیز اہل عرب اور دیگر ممالک کے باشندے اپنی اولاد کا نام ان لوگوں کے نام پر رکھتے تھے جن کی وہ لوگ عبادت و پرستش کیا کرتے تھے۔ چونکہ آں حضرتؐ کی بعثت کا مقصد ہی مراسم توحید قائم کرنا تھا اس لیے لازم و ضروری ہوا کہ نام رکھنے میں سنت، توحید اور طریق توحید ہی کا اعتبارو لحاظ رکھا جائے‘‘۔ (شاہ ولی اللہ، حجۃ اللّٰہ البالغہ، ج۲،ص ۳۹۱، مصر)
اسی طرح برے ناموں کی ممانعت کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: ’’ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ کے نزدیک کم بخت نام اس شخص کا ہوگا جو ملک الاملاک کہلائے گا‘‘(ابوداؤد، بخاری)۔ ابو الدردا رضی اللہ عنہ کی روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’قیامت کے دن تمھیں اپنے ناموں اور اپنے والد کے ناموں سے پکارا جائے گا، اس لیے بہترین نام رکھا کرو‘‘۔ (ابوداؤد، حدیث ۴۹۴۸، دارمی، حدیث ۲۶۹۴)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی یہ تاثیر ہے کہ امت مسلمہ میں ہمیشہ اچھے نام مقبول رہے ہیں۔ انبیا و صلحا کی نسبت سے بھی نام رکھے گئے۔ بعض ایسے نام پائے جاتے ہیں جو متنازع رہے ہیں، تاہم امت مسلمہ اچھے ناموں کی وجہ سے پوری دنیا میں منفرد ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کا نام ابراہیم رکھا۔ آپؐ کا یہ ارشاد بھی کتب حدیث میں منقول ہے: ’’پیغمبروں کے نام پر نام رکھو‘‘ (ابوداؤد)۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کی اپنے قول مبارک سے تلقین فرمائی، اپنے عمل سے اس کی تائید بھی امت کے سامنے پیش فرما دی۔
عقیقے کی روایت عربوں میں پہلے سے موجود تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اصلاح فرمائی اور اسے بچے کا حق قرار دیا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ بچے کی پیدایش پر جانور ذبح کیا جاتا اور پھر اس کے خون سے بچے کو رنگ دیا جاتا۔ اسلام نے اس کی ممانعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقے کی یہ صورت بیان فرمائی:’’جس کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو، اور وہ قربانی کرنا پسند کرے تو اسے چاہیے کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کے لیے ایک بکرا قربان کرے‘‘۔(ابوداؤد، حدیث ۲۸۴۲)
آپؐ کے نواسے حضرت حسن ؓ کی پیدایش کے وقت آپؐ نے خود ان کا عقیقہ کیا، اس کی تفصیل راویت میں یوں مذکور ہے:
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے عقیقے میں ایک بکرا ذبح کیا اور کہا کہ اے فاطمہ! حسن کا سرمونڈا دو اور اس کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کردو۔ ان کا وزن ایک درہم نکلا۔ (ترمذی، حدیث ۱۵۲۴، حاکم، حدیث ۷۵۸۹)
تعلیم بنیادی ضرورت ہے۔ اسلام پہلا مذہب اور پہلی تہذیب ہے، جس نے تعلیم کو ہرانسان کی بنیادی ضرورت قرار دیا ہے، جب کہ اس سے قبل یہ تصور موجود نہ تھا، بلکہ ہرمعاشرہ اور قبیلہ صرف اپنے اعلیٰ طبقے کی تعلیم پر قانع تھا، اور وہ قبیلے کے سردار اور امرا وغیرہ اور مذہبی پیشوائوں کی تعلیم و تربیت کو ضروری قرار دیتا اوراس کا اہتمام کرتا تھا۔ عام افراد اس تعلیمی نظام سے خارج سمجھے جاتے تھے۔ انھیں طبقۂ اشرافیہ کی طرح تعلیم حاصل کرنے کا حق نہ تھا (انسائی کلوپیڈیا برٹانیکا، ۱۹۸۴ئ، ۶/۳۱۷-۳۱۸)۔ یہاں تک کہ یونان اور چین کے ہاں بھی، جنھوں نے علم و تمدن کے میدان میں نمایاں بلکہ غیر معمولی ترقی کی،تمام انسانوں کی تعلیم کا کوئی تصور نہ تھا، بلکہ وہ اہل علم کے ایک خاص طبقے کی تعلیم کے محرک اور داعی تھے۔ افلاطون بھی فلاسفہ اور اہل نظر کے ایک مخصوص طبقے ہی کو اس امتیاز سے نوازتا ہے۔(پروفیسر خورشیداحمد، اسلامی نظریۂ حیات، ص۴۲۰)
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے، جس نے سب سے پہلے بلا تفریق طبقات و قبائل و بلاتخصیص مرد و زن سب کے لیے بلاامتیاز و بلا اختصاص عام تعلیم کا آوازہ بلند کیا، اور نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘(ابن ماجہ، حدیث ۲۲۴)۔ گویا تعلیم ہر چھوٹے بڑے، امیر و غریب، مرد و عورت اور کالے و گورے ،ہر ایک پر فرض ہے۔ اس باب میں نہ تو طبقۂ فکر کی تخصیص ہے نہ کسی اور بنیاد پر اسلام نے کسی بھی نوعیت کے امتیاز کودرست سمجھا ہے ۔ اس بنا پر اولاد کی تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کوئی والد اپنی اولاد کو اچھے آداب سے بہتر ہدیہ نہیں دے سکتا‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۹۵۹)
تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو عصر حاضر کے دیدہ وروں کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ علم کے نام پر جو لاعلمی پھیلائی جارہی ہے، اس کے مفاسد اپنی جگہ پر مگر تربیت کی طرف کوئی ذہن بھی توجہ نہیں کررہا۔ حالانکہ تربیت کے بغیر علم کی حیثیت خام مال سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب تک اسے تربیت کی بھٹی سے نہ گزار لیا جائے اس وقت تک اس سے فائدہ نہیں اٹھا جاسکتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں پر جو شفقت فرمائی ہے، اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ آپؐ نے ان کی تہذیب اور تربیت کی بھی خاص تلقین فرمائی ہے۔ تربیت میں سب سے پہلے روحانی تربیت کا مرحلہ آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے وہ اُس کو بجا لاتے ہیں۔(التحریم ۶۶:۶)
اولاد اور اہل و عیال کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ دعائیں بھی تعلیم فرمائی ہیں۔ کیونکہ یہ بھی تربیت کا حصہ ہے کہ انسان جہاں ان کے اخلاق و کردار پر نظر رکھے، انھیں اچھی باتوں کی تعلیم دے، وہیں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے دعا بھی کرے۔ قرآن حکیم دعاگو رہنے والے والدین کا ذکر یوں کرتا ہے: ’’اور وہ جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘(الفرقان ۲۵:۷۴)۔ایک دوسری دعا ہے: ’’اور میرے لیے میری اولاد میں بھی خیر رکھ۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں‘‘۔ (احقاف ۴۶:۱۵)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی تربیت کو کس قدر اہمیت دی ہے، اور ان کے اندر خیرخواہی کا مادہ پیدا کرنے پر جس قدر زور دیا ہے، اس کا کچھ اندازہ ان ارشادات سے کیا جاسکتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان کا اپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک صاع (ساڑھے تین سیر، تقریباً) صدقہ کرنے سے بہتر ہے‘‘ (ترمذی، حدیث ۱۹۵۸)۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو اور ان کے آ داب کو بہتر بناؤ‘‘۔ (ابن ماجہ، حدیث ۳۶۷۱)
نبی کریمؐ نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی انتہائی اہمیت دی جو بہ ظاہر تو چھوٹی نظر آ تی ہیں مگرمستقبل میں انسانی شخصیت و کردارپر ان کے بہت گہرے اور پایدار اثرات دیکھنے میں آ تے ہیں۔چناں چہ نبی کریمؐ بچوں کو سلام کی تلقین فرماتے تھے ۔ روایت میں آ تا ہے کہ نبی کریمؐ نے حضرت انسؓ سے فرمایا: ’’اے بیٹے ! جب اپنے گھر میں داخل ہو تو اہل خانہ کو سلام کرو ، یہ تمھارے اور اہل خانہ دونوں کے لیے باعث برکت ہو گا۔(ترمذی، حدیث ۲۷۰۷)
بچوں کی فطرت میں تھوڑی ضد اور ہٹ دھرمی ہوتی ہے اور وہ اس کا مظاہرہ اپنے بچپن میں زیادہ کرتے ہیں۔اس لیے اگر چہ اسلام میں بچوں پر شفقت و رحمت کے حوالے سے زیادہ زور دیا گیا ہے لیکن اس قسم کے بچوں کے لیے اور بنیادی اسلامی فرائض کی انجام دہی میں سستی کرنے والے بچوں کے لیے تربیت کا یہ اصول بتا یا گیا ہے:’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو ، اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر علیحدہ کر دو‘‘۔(ابوداؤد، حدیث ۴۹۵)
تعلیم و تربیت کی کثیر الجہت اہمیت اور مفہوم کی بنا پر اسلام کی تعلیمات اس باب میں بہت زیادہ اور مختلف پہلوؤں کی حامل ہیں۔بچوں کو اچھائی اور ادب کی تعلیم دینے کے سلسلے میں ارشاد نبویؐ ہے: ’’خود کو اور اپنے اہل خانہ کو اچھائی کی تعلیم دو اور انہیں ادب سکھاؤ‘‘۔(روح المعانی، ج۲۸،ص ۱۵۶)
بچوں کو قرآ ن کریم کی تعلیم دینے پر زور دیا گیا ہے اور دینی فرائض سیکھنے کا بھی حکم دیا گیا ہے: ’’فرائض اور قرآن کی تعلیم خود بھی حاصل کرو اور دوسرے لوگوں کو بھی سکھاؤ، کیوں کہ میں (عن قریب)دنیا سے چلا جاؤں گا‘‘( ترمذی، حدیث ۲۰۹۸)۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’قرآن کا علم حاصل کرو ، اس کو پڑھو اور اس کے ساتھ سوؤ (یعنی سونے سے پہلے تمھارا آخری کلام قرآن مجید ہونا چاہیے)‘‘۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، حدیث ۳۳۲۷)
اسلامی تعلیمات کے برعکس مغرب کا المیہ یہ ہے کہ وہ آزادی اور خود مختاری کے ایک ایسے نظریے کے شکنجے میں آچکا ہے، جو اسے بے لگام آزادی کی طرف دھکیل رہا ہے، حالانکہ آزادی کا یہ مفہوم شاید اس فکر کو پروان چڑھانے والوں کے ذہنوں میں بھی موجود نہیں ہوگا۔ بچوں کے سلسلے میں اس نظریے کے ثمرات ایک ایسے بے ترتیب، غیر منظم، بے ادب اور بدلحاظ گر وہ کی شکل میں سامنے آئے ہیں جسے اپنی ذات کے علاوہ کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ یہ گروہ انسانی معاشرے کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ یہ تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ اس بنا پر اسلام بچوں کی درست تعلیم وتربیت کی جانب متوجہ کرتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’چونکہ بچوں کی زندگی میں استقلال نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنے والدین کی نگرانی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ماں باپ کے دلوں میں بے پناہ شفقت اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کیا تاکہ وہ تربیت اولاد کا کام خوشی سے انجام دیں اور ہر طرح ان کے نگران حال رہیں۔ وہ ان کی تربیت ایسے طریقے پر کریں جس سے ان کی آیندہ زندگی سنور جائے اور وہ ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے جائز اور باعزت طریقے پر کمانا جان سکیں‘‘۔(حجۃ اللّٰہ البالغہ، ج۲، ص ۳۹۱)
بچے کی تعلیم و تربیت اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ معاشرے کی اساس ہے۔ فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اچھے افراد جو تربیت یافتہ اور زیور علم سے آراستہ ہوں گے وہ معاشرے کو جنت کا نمونہ بنائیں گے۔ وہ ایسا ماحول تشکیل دیں گے جس میں تمام افراد خوش حال زندگی بسر کرسکیں۔ غیر تربیت یافتہ افراد کے نتیجے میں غیر مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے جو مزید انتشار اور فساد کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے اسلام نے بچے کی تعلیم و تربیت دونوں پر زور دیا ہے اور اسے آزاد اور بے مہار نہیں چھوڑا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کے حوالے سے یہ بنیادی اصول بیان فرمایا کہ بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کے والدین اس کی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں اور اسے جس رنگ میں چاہیں ڈھال دیتے ہیں(اسلام کا معاشرتی نظام، ص ۲۳۷)۔ حدیث کے الفاظ ہیں، آپؐ نے فرمایا: ’’ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی یا نصرانی بناتے ہیں‘‘۔ (بخاری، حدیث ۱۳۸۵، ابوداؤد، حدیث ۴۷۱۴)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں، اور اپنی رحمت و شفقت پر مبنی جو احکامات ان کے لیے دیے ہیں یہ اس کا ایک خلاصہ ہے۔ جس کی روشنی میں ہمیں یہ باور کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیںآتی کہ انسانی معاشرے میں بچوں کو آج سے ڈیڑھ صدی قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حقوق عطا فرمائے تھے آج بھرپورترقی کے دعوئوں کے باوجود جدید معاشرہ اس سے کہیں دور کھڑا ہے، اور جن پہلوئوں سے اس نے اصلاحات قبول بھی کی ہیں تو وہ بھی اسلام کے صدقے میں، اور یہ اسلام کی اصلاحات کا تسلسل ہے۔
اگر ان تعلیمات کو عمل کے لیے اپنالیا جائے تو اس سلسلے میں پائے جانے والی کوتاہیاں دُور ہوسکتی ہیں، اور ان کوتاہیوں کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کو جو مسائل درپیش ہیں ان کو ہم حل کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین! [نائب مدیر ششماہی السیرۃ عالمی، کراچی، ای میل:info@rahet.org ]