’فتح بیت المقدس کا جشن‘ (جون ۲۰۱۰ئ) میں حضرت عمرؓ کے معاہدے کی تحریر پڑھ کر مسلمانوں کی عظمت اور اس تاریخ ساز لمحے کی یاد ایک بار پھر تازہ ہوگئی۔ آج کے ’مہذب‘ مغرب کے لیے اس معاہدے میں بڑا سبق ہے۔ اس تاریخ ساز دن کو ہرسال منایا جائے۔ اس تقریب کا انعقاد اُمت مسلمہ کے لیے ایک نئے عزم اور ولولۂ تازہ کا باعث ہوگا۔ ایک غلطی کی تصحیح بھی کرلیں کہ بحرمُردار ’جاے عبادت‘ (ص ۷۷) نہیں بلکہ جاے عبرت ہے۔ ’بنگلہ دیش: عوامی لیگ کی اسلام دشمنی‘ بھی مفید تحریر ہے اور اہم معلومات سامنے آئیں۔ ان دگرگوں حالات میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی جدوجہد یقینا ایمان و استقامت اور عزم و حوصلے کا ثبوت ہے۔
’علوم کو اسلامیانے کے نام پر‘ (جون ۲۰۱۰ئ) ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کا ایک اچھا ناقدانہ مضمون ہے، تاہم اس کا اسلوب جارحانہ ہے۔ اگر انداز ناصحانہ ہوتا تو شاید اس سے بھی بہتر تاثیر ہوتی۔
’سیرتِ رسولؐ پر اعتراضات کا جائزہ‘ (مئی ۲۰۱۰ئ) بروقت اور اہم تحقیقی مقالہ ہے۔ نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے توہین آمیز خاکے بنانے کا اصل محرک سامنے آتا ہے۔ ’بھارت اور عالمِ اسلام‘ سے بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرات کا اندازہ ہوا جو باعث ِ تشویش ہے۔ امیرجماعت کا مضمون ’رجوع الی اللہ___ وقت کی اہم ترین ضرورت‘ سوزاور تڑپ لیے ہوئے ہے۔
’سیرتِ رسولؐ پر اعتراضات کا جائزہ‘ (مئی ۲۰۱۰ئ) گستاخانِ نبوت کی مذموم حرکتوں کا بہترین احاطہ کرتا ہے۔ لیکن اصل میں یہ ہمارا امتحان ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ سنتِ نبویؐ پر عمل پیرا ہوکر اہلِ مغرب کو اپنی فیس بُک پر حضور کا پیغام پیش کریں۔
تصحیح: میرے مضمون: ’علامہ اقبال اور مسئلہ فلسطین‘ (جون ۲۰۱۰ئ) میں یہودی لیڈر کا نام ’تھیوڈور ہرزل‘ چھپاہے۔ اس کا صحیح تلفظ اور املا ’تیوڈور ہرسل‘ ہے، براہِ کرم تصحیح فرما لیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
مولانا معین الدین خٹک سے ایک بار پوچھا کہ تحریک کے ابتدائی کارکنان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ کچھ سوچ کر بولے۔ ۱۹۵۲ء کراچی میں جماعت ِ اسلامی کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ رفقا کے قافلے بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے جوق در جوق کراچی کی طرف چل پڑے۔ موضع شیخ سلطان ٹانک (سرحد) کے تین ساتھیوں نے جو بے انتہا غریب تھے، اجتماع میں شرکت کا ارادہ کرلیا۔ کسی دوسرے ساتھی سے نہ مالی تعاون لیا اور نہ جماعت کے بیت المال ہی پر بوجھ بنے۔ یہ مذکورہ تینوں ساتھی کراچی کی جانب پیدل چل پڑے۔ ایک آنہ کی دو روٹیاں اور جی ٹی روڈ پر ایسے ہوٹل بھی ہوا کرتے تھے جہاں آنہ روٹی دال مفت بھی مل جایا کرتی تھی۔ دن بھر سفر کرتے، رات کسی مسجد میں نمازِ عشاء کے بعد آرام کرتے اور نماز فجر پڑھ کر سفر جاری رکھتے۔ استقبالیہ کیمپ سہراب گوٹھ لبِ سڑک تھا۔ ناظم استقبالیہ نے آمدہ قافلہ سے دریافت کیا کہ جناب آپ کہاں سے اور کیسے پہنچے؟ جواب سن کر کیمپ میں موجود کارکنان حیران رہ گئے۔ اجتماع گاہ میں قائد تحریک سیدمودودیؒ کو اطلاع دی گئی۔ مولانا استقبالیہ میں تشریف لائے اور اس قافلے کا خود استقبال کیا۔ اِس قافلے کو قافلۂ سخت جان کا نام سیدصاحب نے دیا۔ ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ گئے۔ سب کی آنکھوں سے موتی چھلک پڑے: ’’یااللہ! یہ تیرے بندے صرف تیری رضا اور تیرے دین کی بقا کے لیے جوتکالیف اُٹھا رہے ہیں ان کی قربانیوں کو قبول فرما، آمین!