جولائی ۲۰۱۰

فہرست مضامین

تعلیمی شعبہ، منفی تجربات

سلیم منصور خالد | جولائی ۲۰۱۰ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

حکومت کے معاملات اور نظامِ کار کو چلانے کی واحد ذمہ داری حکومت پر نہیں، بلکہ یہاں کے تمام اداروں اور شہریوں پر بھی آتی ہے۔ لیکن پالیسیوں کے نفاذ، نظم و ضبط کو قائم کرنے اور عدل و انصاف کے ساتھ متوازن انداز سے روزمرہ معاملات کو چلانے کی آخری ذمہ داری حکومت ِ وقت ہی پر آتی ہے۔ تاہم حکومت ِصوبہ پنجاب کے مشیروں کی غالب تعداد، درحقیقت حکومت کے  مسائل اور عوام کی مشکلات دُور کرنے کے بجاے،انھیں اُلجھانے کی جانب دھکیل رہی ہے۔ یہاں پر تعلیمی شعبے کے ساتھ کیے جانے والے ظلم و زیادتی پر مبنی کھیل اور تجربات کی بھینٹ چڑھانے کی روش کی جانب توجہ مبذول کرائی جاتی ہے (رفتہ رفتہ یہ آگ پورے پاکستان کے تعلیمی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی)۔

  • گذشتہ برس پنجاب ۲۶ کالجوں میں بی اے کے کمزور نتائج پر، ان کالجوں کے مسائل کو سمجھنے اور ذمہ داری کا تعین کرنے کے بجاے ۲۶ پرنسپلوں کو بہ یک جنبش قلم معطل کر دیا گیا۔ اس چیز نے اصلاح سے زیادہ خوف اور بددلی پھیلانے کا کام کیا اور آخری قیمت خود طالب علموں کو دینا پڑی۔ یوں بہت سے طلبہ و طالبات داخلہ بھیجنے سے محروم رہ گئے۔
  • اس سال کے شروع میں یک لخت یہ اعلان کر دیا گیا کہ صوبہ پنجاب کے تمام اسکولوں میں انگریزی، پہلی کلاس سے لازم کردی گئی ہے۔ اعلان کرنے سے کون کسے روک سکتا ہے، مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ خود کالجوں میںانگریزی کے استاد نہایت قلیل تعداد میں موجود ہیں، کہاں پنجاب کے ہزاروں اسکولوں میں، انگریزی کے ایسے بخار کو مسلط کر دینا کہ جس کے جواز اور عمل کے بارے میں بے شمار سنجیدہ سوالات جواب طلب ہیں، جہاں تربیت یافتہ اساتذہ کا فقدان اور سہولیات کا فقدان پھن پھیلائے ناگ کی طرح کھڑا ہے، وہاں پر ایسا غیرحقیقت پسندانہ اعلان ایک عاجلانہ اقدام تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ ایک دو ماہ بعد حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ جس چیز کا بہرحال حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ (یاد رہے ایسا ہی اعلان ۱۹۹۴ء میں پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ منظوروٹو نے کیا تھا اور چار ماہ خاک اُڑانے کے بعد اس غیر دانش مندانہ فیصلے کو واپس لیا تھا)۔
  • آمرمطلق جنرل پرویز مشرف کے زمانے ۲۰۰۲ئ-۲۰۰۳ء میں، سابق فوجیوں، بیوروکریٹوں اور این جی اوز کے مالی و نظریاتی شکاریوں کو نوازنے کے لیے، کالجوں اور ہسپتالوں میں بورڈ آف گورنرز مسلط کرنے، اور اس پردے میں درحقیقت ان تعلیمی اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کے احمقانہ منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ لیکن ڈاکٹروں، پروفیسروں اور طالب علموں کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں، اس ڈاکا زنی کا راستہ روک دیا گیا۔ تمام سیاسی قوتوں بہ شمول پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی نے استادوں، ڈاکٹروں اور طالب علموں کی اس تحریک کی بھرپور حمایت کی اور مزاحمت کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔

اب، جب کہ جمہوری حکومت، باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، معلوم نہیں اس میں شامل وہی پارٹیاں، جو بجاطور پر ماضی میں اس گھنائونے کھیل کی مخالف تھیں، انھوں نے کس طرح خود ۲۶کالجوں میں بورڈ آ ف گورنرز قائم کر کے، اور پھر اس راستے پر چلتے ہوئے مزید اداروں کا تیاپانچا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر یہ کہ  انھیں ایک ایسی انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے اور اس علاقے کے ہزاروں طالب علموں کے تعلیمی مستقبل کو تاریک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کیا واقعی کوئی جمہوری حکومت ایسے تعلیم دشمن اقدام کا فیصلہ کرسکتی ہے؟

  • ان کالجوں میں بورڈ آف گورنرز قائم کرکے، چار سالہ بی ایس ڈگری کورس کے اجرا کا خوش نما خواب دکھایا گیا ہے۔ یہاں پر حکومت کے مشیروں کو اس امر کی وضاحت کرنی چاہیے کہ جن چند تعلیمی اداروں کو گذشتہ ۱۵ برس کے اندر اس نوعیت کے تجربے کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے، وہ ادارے اپنا شاندار ماضی رکھنے، اساتذہ کی بڑی تعداد اور وسائل کا اچھا خاصا اثاثہ رکھنے اور بے تحاشا قومی وسائل ہڑپ کرنے کے باوجود، تعلیمی زبوں حالی کا شکار کیوں ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اب تک کورس کی آئوٹ لائن نہیں بن سکی، کہیں سمسٹرسسٹم کے نام پر دھاندلی اور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، اور کہیں سہولیات کا فقدان سوالیہ نشان ہے۔ پھر ان مذکورہ اداروں کا اصل زور پڑھائی پر نہیں وسائل کے مالِ غنیمت کو جمع کرنے پر ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کثیرتعداد غیرتربیت یافتہ اور چند ہزار روپوں پر استادوں کی بھرتی یا ریٹائرڈ اساتذہ کو کچھ وظیفہ دے کر کام چلانے کا کلچر روزافزوں ہے۔ چونکہ کسی مقتدرہ یا اتھارٹی کے پاس ان سے سوال جواب کرنے کی فرصت نہیں، اس لیے آخری ہدف بے چارے طالب علم کا وقت، اس کے والدین کی جیب اور پاکستان کا مستقبل ہے۔ اگر لاہور جیسے بڑے شہر کے بڑے کالجوں میں یہ تجربہ عبرت کا نشان بن چکا ہے، تو پھر مضافات میں اور وہ بھی تھوک کے حساب سے کالجوں میں یہ نظام لانا، کس تعلیمی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پنجاب یونی ورسٹی جیسے باوقار تعلیمی ادارے نے بھی دوچار سال بعد، سالِ رواں سے بہت سارے شعبہ جات میں سمسٹرسسٹم ختم کر دیا ہے۔ لیکن حکومت کے مشیر، وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ: ’’آپ بورڈ آف گورنرز اور چار سالہ ڈگری کورس مع سمسٹر سسٹم پنجاب بھر میں پھیلا دیجیے۔ اس طرح ایشیائی ٹائیگر بن جائیں گے‘‘۔  یاد رہے اس سسٹم میں جو پڑھاتا ہے، وہی پرچہ بناتا ہے اور خود ہی پرچے کے نمبر لگاتا ہے۔ نمبروں کے اس جمعہ بازار کے بل پر ڈگریاں لینے والے لوگوں کے سامنے تو کئی غیرڈگری یافتگان کے   سر فخر سے بلند ہوجائیں گے، کہ بھائی ہم تم سے بہتر ہیں۔

  • اس سسٹم کو نافذ کرنے کے نتیجے میں، ان کالجوں میں دو سالہ ڈگری کورس کے جن   طلبہ و طالبات کا داخلہ ختم ہوجائے گا، ان کے مستقبل کا کیا بنے گا؟ نئے استاد، ڈاکٹریٹ کی جعلی ڈگریوں کے ساتھ کس اعزازیے پر تشریف لائیں گے اور چار سالہ ڈگری کے طلب گار طالب علم، کیسا فیضِ علم پائیں گے، اس کا فیصلہ تو سال بھر میں ہوجائے گا، لیکن ہزاروں طالب علموں کے تعلیمی مستقبل کو جو صدمہ پہنچے گا، اس کی تلافی کوئی پنجاب اسمبلی اور کوئی سپریم کورٹ نہ کرسکے گی، جب کہ اس ڈگری کے لیے ہر بورڈ آف گورنر اپنی من مانی کے ساتھ مہنگی فیسوں کا طوفان برپا کرتا رہے گا۔ کیا حکومت پنجاب، عوام کے نام پر، عوام کے بچوں کے تعلیمی اداروں کو نئے ساہوکاری نظام کی نذر کرنا چاہتی ہے؟ عقل اس منطق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہمیت اختیار کر جائے گا کہ دو سالہ ڈگری حاصل کرنے والے طالب علموں کا کیا مستقبل ہے؟ کیونکہ ۲۵،۳۰ کالجوں میں مہنگی تعلیم اور من مانے نمبر حاصل کرنے والے امیرزادے تو ان بے زر   طالب علموں کو پچھاڑ کر آگے نکل چکے ہوں گے۔
  • اسی طرح مبینہ طور پر حکومت اس فیصلے کو بھی آخری شکل دے رہی ہے کہ پنجاب کے ۴ہزار کالج پروفیسروں کوجبری طور پر ریٹائر کردیا جائے، تاکہ خزانے پر سے بوجھ کم ہو۔ ایک طرف خزانے سے بوجھ ہٹانے کا یہ ظالمانہ منصوبہ اور دوسری جانب ٹھیکے (یعنی کنٹریکٹ) پر غیر تربیت یافتہ اور اپنے تدریسی مستقبل کے بارے میں خوف زدہ استادوں کی بھرتی___ کیا اس نوعیت کے فیصلے سے پنجاب میں علم و ہنر کے پھول کِھلیں گے یا تعلیم و دانش کا دیوالیہ نکلے گا؟
  • شریف حکومت اپنے مرکزی حلیفوں کے ساتھ مل کر متضاد رویوں کی عکاس ایک تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس میں انٹر کی کلاسیں رفتہ رفتہ اسکولوں میں منتقل کردی جائیں گی، جہاں نہ لیبارٹریاں موجود ہیں اور نہ اس درجے کا تربیت یافتہ عملہ۔ دوسری جانب سوال یہ ہے کہ کالجوں کے اتنے بڑے رقبوں اور عمارتوں کا کیا بنے گا؟ جواب صاف ظاہر ہے کہ انھیں کوئی بیکن ہائوس، کوئی سٹی ٹائپ یا کوئی اور گروپ آف کالجز وغیرہ اُچک لیں گے۔ رسمی سا کرایہ دیں گے اور کسی کنگرو اسمبلی کی چھوٹی سی قرارداد سے وہ رسمی رقم بھی ہمیشہ کے لیے معاف کرا لیں گے۔ کیا اس اندھیرنگری کی طرف اسی جمہوری دور میں سفر کرنا تھا؟ یاد رہے ریلوے کے بڑے بڑے اسکول، جہاں مزدوروں کے بچے پڑھا کرتے تھے۔ آج ان کی ملکیت یا کنٹرول تبدیل ہوجانے کے سبب وہ بچے ان اسکولوں کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتے۔
  • پنجاب حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر ایک ٹاسک فورس اس سلسلے میں بھی کام کررہی ہے کہ جن جن کالجوں میں بی کام کی تعلیم دی جارہی ہے، اس بی کام کی تعلیم کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے۔ کیا حکومت نے پولیس اور عدلیہ کو بھی رفتہ رفتہ نجی شعبے کے ہاتھوں بیچنے کا فیصلہ کرلیا ہے!

اگر پنجاب حکومت کے اعلیٰ دماغ ایسا نہیں چاہتے، تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والا یہ کھیل کیوں کھیل رہے ہیں؟