پانچ دن کم بیس مہنے کی جبری غیرحاضری کے بعد میں اور میرے دونوں رفیق ۲۸؍مئی ۱۹۵۰ء کو پھر اُسی زندگی کی طرف واپس آگئے جس سے ۴؍اکتوبر ۴۸ء کو ہمیں خارج کیا گیا تھا۔ اس مدت میں جن وجوہ سے ہم قید رکھے گئے…ترجمان القرآن کے ناظرین اس کے محتاج نہیں ہیں کہ انھیں اس معاملے کا کچھ بتایا جائے، کیونکہ اس ملک میں ان سے زیادہ میرے ’جرم‘ کا جاننے والا اور کوئی نہیں ہے۔ ان کو خوب معلوم ہے کہ پچھلے ۱۷، ۱۸ سال سے میں کیا کچھ کرتا رہا ہوں۔ اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور میاں طفیل محمد صاحب کے ’جرائم‘ بھی سب سے بڑھ کر انھی کے مشاہدے میں آتے رہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے ہماری گرفتاری کی خبر پاتے ہی سارا معاملہ خود سمجھ لیا ہوگا۔ شاید ان میں سے کسی کو بھی پہلی مرتبہ یہ سن کر حیرت نہ ہوئی ہوگی کہ ہم پکڑے گئے، بلکہ اگر وہ کبھی حیران ہوئے ہوں گے تو اس بات پر کہ آخر شیطان اتنی مدت تک ہم جیسے ’قصورواروں‘ کو برداشت کیسے کرتا رہا....
ممکن ہے اس کارروائی کا فیصلہ کرتے وقت یہ مقصد بھی پیش نظر رہا ہو کہ اِس طرح اُس کام کو روکا جائے جو میں اور میرے ساتھی کر رہے تھے۔ اگر میرا یہ قیاس درست ہے تو میں کہوں گا کہ اس مقصد کے لیے ہماری گرفتاری کا فیصلہ کرنے والے خود ایک غلط فہمی میں گرفتار تھے اور مجھے امید ہے کہ اب ان کی غلط فہمی دُور ہوگئی ہوگی۔ انھوں نے شاید یہ سمجھا تھا کہ جماعت اسلامی چند مٹھی بھر سرپھروں کی ایک جماعت ہے، جو اتفاقاً جمع ہوگئی ہے اور اس کا سارا کام بس دو تین آدمیوں کے بل پر چل رہا ہے، اُن کو میدان سے ہٹا دیا جائے گا تو جماعت ختم اور اس کی دعوت نسیاً منسیاً ہوجائے گی۔ اس غلط گمان کی بنا پر انھوں نے ایک غلط قدم اُٹھا دیا اور ٹھوکر کھائی۔ اب اگر انھوں نے خود اپنے اقدام کے نتائج کا جائزہ لے کر دیکھا ہوگا تو ان پر منکشف ہوچکا ہوگا کہ اس حرکت سے جو فوائد وہ اُٹھانا چاہتے تھے ان میں سے کوئی فائدہ بھی انھیں حاصل نہیں ہوسکا ہے، اور جن نقصانات سے وہ بچنا چاہتے تھے وہ سب مع شیٔ زائدٍ اُن کو پہنچ گئے ہیں۔ اگرچہ میں اِن حضرات کی عقل و دانش کے بارے میں کچھ بہت زیادہ خوش گمان نہیں ہوں، تاہم میں توقع رکھتا ہوں کہ اس تجربے کے بعد وہ جماعت اسلامی اور اس کی تحریک کو، اور اُن بنیادوں کو جن پر یہ تحریک قائم ہے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں گے اور آیندہ کوئی قدم ناکافی معلومات اور سرسری اندازوں کی بنا پر نہ اُٹھائیں گے۔(’اشارات‘، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۳۴، عدد۲، شعبان ۱۳۶۹ھ، جولائی۱۹۵۰ئ، ص ۲-۴)