جولائی ۲۰۱۰

فہرست مضامین

منافقین کا طرزِ عمل

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | جولائی ۲۰۱۰ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

سورئہ منافقون غزوۂ بنی مصطلق کے زمانے میں نازل ہوئی۔ احادیث میں آتا ہے کہ اس غزوہ سے واپسی کے سفر میں ایک انصاری اور مہاجر کا جھگڑا ہوگیا۔ یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ جب لوگ ایک ساتھ رہتے اور ایک ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہوں، باہم معاملات کرتے ہوں تو اُن کے اندر جھگڑے ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی کسی بات پر ایک مہاجر اور ایک انصاری کا جھگڑا ہوگیا۔ انصار کے ایک بڑے قبیلے بنوخزرج کا سردار عبداللہ بن اُبی جو اس وقت مدینے کا ایک بڑا قوم پرست (nationalist) لیڈر تھا، اس نے اس موقع پر یہ محسوس کیا کہ مدینے کے انصار اور مہاجرین کے درمیان نفاق ڈالنے اور ان کو لڑانے کا اچھا موقع ہے۔ چونکہ وہ مدینے کا ایک اہم سردار تھا اور سچے دل سے ایمان بھی نہیں لایا تھا، اس لیے اس کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ دوسرے شہر کے لوگ، یعنی مکی مہاجرین اور دوسرے قبیلوں سے آئے ہوئے لوگ مدینے کے اندر آکر بس گئے ہیں اور یہاں اپنے قدم جمارہے ہیں۔ لہٰذا اس نے جب یہ دیکھا کہ مہاجرین میں سے ایک آدمی اس کے قبیلے کے ایک آدمی سے جھگڑ پڑا ہے، تو اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر اس نے مدینے کے لوگوں کی عصبیت کو بھڑکانا اور ان کو مہاجرین کے خلاف اُکسانا شروع کردیا۔

قوم پرستی (نیشنلزم) کا جذبہ جب بھی پیدا ہوتا ہے توہر آدمی جو سمجھتا ہو کہ ایک خاص دائرے کے اندر اس کو برتری حاصل ہونی چاہیے وہ اس دائرے کے اندر والوں کو اپنا اور باہر  والوں کو غیر سمجھتا ہے۔ جب صورتِ حال یہ پیدا ہوجاتی ہے تو ایک ملک کے اندر ضلع کی عصبیت پیدا ہوتی ہے اور ایک ضلع کے اندر تحصیل کی عصبیت پیدا ہوتی ہے۔ ایک تحصیل میں ایک تھانے کی اورایک شہر اور گائوں کی عصبیت پیدا ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ برادری اور خاندان کی عصبیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن دینی نقطۂ نظر سے یہ وہ چیز ہے جو اُن مقاصد کے بالکل خلاف ہے، جو اسلام کا مقصود ہیں۔ اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جتنے انسان ایک کلمے کے اُوپر جمع ہوجائیں وہ ایک قوم بن جاتے ہیں۔ اس طرح تشکیل پانے والی قوم اور دراصل اُمت تمام دنیا کے انسانوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتی ہے۔ اس کے برعکس جو دنیاوی نیشنلزم اور قوم پرستی ہے وہ چھوٹے سے چھوٹے دائرے کے آدمیوں کو جمع کرتی ہے، اور باہر والے لوگوں کے بارے میں ان کے اندر عداوت ڈالتی ہے۔ ان کے درمیان مناقشت (مخاصمت) اور کش مکش پیدا کرتی ہے۔

عبداللہ بن اُبی چونکہ قوم پرستانہ ذہن کا آدمی تھا اس لیے وہ اس موقع کی تاک میں تھا کہ مہاجرین کے خلاف انصار کو بھڑکائے اور بالآخر مہاجرین کو مدینہ سے نکالا جاسکے۔ چنانچہ اس نے اس موقع پر انصار کو بھڑکایا۔ اسی ترنگ میں اس نے ایک بڑی نازیبا بات کہی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین اہلِ مدینہ کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں اور اب نوبت یہ آگئی ہے کہ یہ ہمارے منہ آرہے ہیں۔ اس نے یہاں تک کہا کہ مدینے پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال باہر کرے گا۔ یہ سورت اسی زمانے میں نازل ہوئی۔اس کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اِِذَا جَآئَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ م وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ o (المنافقون ۶۳:۱) اے نبیؐ، جب یہ منافق تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں۔

مراد یہ ہے کہ اے نبیؐ! تم اللہ کے رسولؐ ہو، یہ بات تو ان کی جھوٹی نہیں ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ ہم گواہ ہیں کہ تم اللہ کے رسولؐ ہو، یہ جھوٹ ہے۔ وہ ہرگز اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ تم اللہ کے رسول ہو۔ محض جھوٹ کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تم اللہ کے رسول ہو۔ اللہ کے رسولؐ تو تم ضرور ہو مگر اُن کی گواہی جھوٹی ہے۔

قسموں کو ڈہال بنانا

اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَھُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِِنَّھُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۲) اُنھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح یہ  اللہ کے راستے سے (خود رُکتے ہیں اور) دنیا کو روکتے ہیں۔ کیسی بُری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو آآ کر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسولؐ ہیں اور ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، اور مسلمانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم تمھاری ہی طرح ایمان لائے ہیں، اس بات کو اُنھوں نے ڈھال بنا لیا ہے۔ ڈھال بنانے کی نوعیت یہ تھی کہ مدینۂ طیبہ کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مسلمان ہوگئی تھی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لے آئی تھی اس نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر مدینہ میں بلایا اور اپنا سردار اور فرماں روا بنا لیا، بغیر اس کے کہ حضوؐر زبردستی اپنے آپ کو ان پر مسلط کرتے، انھوں نے برضا و رغبت آپ کی فرماں روائی تسلیم کی اور مان لیا کہ جب آپ اللہ کے رسولؐ ہیں تو فرماں روائی بھی آپؐ کی ہے۔ اس طرح جب حضوؐر کی یہ پوزیشن مدینہ طیبہ میں بن گئی تو جو لوگ مدینہ کے سردار اور بااثر لوگ تھے انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر اب ہم نے مقابلہ کیا تو آپس میں خانہ جنگی ہوسکتی ہے اورچونکہ بہت سے صاحب ِ حیثیت آدمی اور سردار مسلمان بھی ہوگئے ہیں اور نوجوانوںکا بڑا طبقہ بھی مسلمان ہوگیا ہے، اس صورت حال میں اگر غیرمسلم رہتے ہیں تو جو آج تک ہماری چودھراہٹ تھی وہ ختم ہوجائے گی۔ اس لیے محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وہ مسلمان ہوگئے۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے اپنے اسلام کو ڈھال بنا لیا۔ اس طرح درحقیقت وہ اپنی پوزیشن بچانا چاہتے تھے اور اسلام کو انھوں نے محض ڈھال کے طور پر سامنے رکھا۔

دوسری چیز یہ تھی کہ جب وہ مسلمان ہوگئے تو ان کو مسلمانوں کے اندر گھسنے کا موقع مل گیا۔ اگر کوئی مسلمان نہ ہو تو وہ مسلمانوں کے اندر گھس کر فساد برپا نہیں کرسکتا۔ ان کے مشوروں میں شریک ہوکر ان کے رازوں سے واقف نہیں ہوسکتا، لیکن اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اس کے لیے پورے مواقع موجود ہوتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے اندرونی معاملات کو بگاڑ سکے۔ ان کے اندر نفاق ڈالنا اور ان کے مشورے میں شریک ہوکر ان کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کرنا،     یہ سارے کام بھی اس طرح کا آدمی کرسکتا ہے۔

اللہ کے راستے سے روکنا

اس کے بعد فرمایا کہ اپنی قسموں کو انھوں نے ڈھال بنالیا ہے اور اس ڈھال کی آڑ میں وہ اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ اللہ کے راستے سے روکنے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اللہ کے راستے سے روکنے کی ایک  شکل یہ تھی کہ وہ بظاہر مسلمانوں کے اندر شامل ہیں لیکن قرآنِ مجید کا کوئی ارشاد ہو یا حضوؐر کا کوئی فعل، وہ اس کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک ڈالتے تھے تاکہ ان کے اندرایمان راسخ نہ ہوسکے۔

دوسری صورت یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر ایسی خبریں پھیلاتے تھے جن سے مسلمانوں میں انتشار اور کم حوصلگی پیدا ہو۔ دشمنوں کے مقابلے میں یہ خوف پیدا ہوا کہ فلاںقبیلہ تمھارے خلاف مجتمع ہورہا ہے اور وہ اتنی طاقت کے ساتھ تم پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس طرح کی خبریں پھیلا پھیلاکر وہ مسلمانوں کے اندر اضطراب اور بے چینی پیدا کرتے تھے۔ اسی طرح مدافعت کی جو تیاری کی جاتی تھی، وہ اس کے اندر بھی رخنے ڈالنے کی کوششیں کرتے تھے۔ یہ بھی اللہ کے راستے سے روکنے کی ایک صورت تھی۔

تیسری صورت یہ تھی کہ عرب قبائل کے اندر مسلمانوں کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی خبریں پھیلایا کرتے تھے تاکہ ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق عداوت اور منافرت پیدا ہو اور وہ اسلام اور رسولؐ اللہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔

یہ مختلف طریقے تھے جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے اور اسلام کے راستے میں سدِّراہ بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کی سرتوڑ کوشش یہ تھی کہ یہ کام کسی طرح چلنے نہ پائے۔ اس پر فرمایا گیا: اِِنَّھُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۲)، یعنی یہ بہت بُرے کرتوت ہیں جو یہ لوگ کررہے ہیں۔

دلوں پر مُھر

ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لاَ یَفْقَھُوْنَ (۳)    یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لاکر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول کا صاف صاف انکار کردے تو اس بات کا امکان ہے کہ کسی وقت بات اس کی سمجھ میں آجائے اور وہ ہدایت قبول کر کے مسلمان ہوجائے۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ مکار اور فریبی نہیں ہے، چال باز نہیں ہے۔ اس کے اندر اس طرح کا کھوٹ نہیں ہے کہ وہ بات کو مان بھی رہا ہے لیکن صدق دل سے نہیں مان رہا ہے، بلکہ صرف ماننے سے انکار کر رہا ہے۔ جس وقت بات اس کی سمجھ میں آجائے گی تو وہ اپنے قبولِ حق کا اظہار و اعلان کر دے گا۔ لیکن جو آدمی چال بازیاں کرتا ہے، مکاریاں کرتا ہے، فریب دیتا ہے، اس کے اندر سے وہ صلاحیت ختم ہوجاتی ہے کہ وہ سیدھی طرح سے ایمان لے آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اصل میں وہ کافر ہے۔بظاہر ماننے کی ایکٹنگ کر رہا ہے اور اندر سے مان نہیں رہا ہے۔ ماننے کے بعد وہ کام کر رہا ہے جو نہ ماننے والوں کے کرنے کے ہیں۔ ان حرکتوں کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولِ ہدایت کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔ ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی توفیق سلب ہوجائے تو ان کے اندر   یہ صلاحیت باقی نہیں رہتی کہ وہ غوروفکر کرسکیں اور سمجھ بوجھ سے کام لیں۔

اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ان پر پڑ گئی ہے اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگ گیا ہے اس وجہ سے اتنی سیدھی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ خدا کی ہدایت کے ساتھ چال بازی کا معاملہ کرکے وہ کیسے فلاح پائیں گے۔اسی ٹیڑھ کی وجہ سے آپ سیدھی بات ان سے کریں گے وہ اس میں سے ٹیڑھ نکال لیں گے۔

لکڑی کے کُندے

وَاِِذَا رَاَیْتَھُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُھُمْ ط وَاِِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِھِمْ ط کَاَنَّھُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ط یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْھِمْ ط ھُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْھُمْط قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ ز اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ o (۴) اِنھیں دیکھو تو اِن کے جُثّے تمھیں بڑے شان دار نظر آئیں۔ بولیں تم تو ان کی باتیں سنتے رہ جائو۔ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کُندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیے گئے ہیں۔ ہر زور کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ پکے دشمن ہیں، ان سے بچ کر رہو۔ اللہ کی مار ان پر، یہ کدھر اُلٹے پھرائے جا رہے ہیں۔

اس میں منافقین کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ میں پہلے بتا چکاہوں کہ یہ مدینے کے بڑے بڑے چودھری اور سردار تھے، خوب کھاتے پیتے لوگ تھے۔ اور چربی بھرے ہوئے ان کے جسم تھے۔ اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا گیا کہ تم ان کو دیکھو تو ان کے جسم بڑے شاندار نظر آئیں گے۔ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بڑی شخصیت (personality) کے مالک ہیں۔ اگر بات کریں تو ان کی بات سنتے رہ جائو، بڑی چکنی چپڑی باتیں کرنے والے بڑے زبان آور اور بڑی اعلیٰ درجے کی زبان استعمال کرنے والے لوگ ہیں مگر ان ظاہر فریب شخصیتوں کے ساتھ ان کی کیفیت یہ ہے کہ یہ گویا دیوار سے لگی ہوئی لکڑیاں ہیں، اندر سے کھوکھلے لوگ ہیں۔

عرب میں جو بت پوجے جاتے تھے وہ زیادہ تر لکڑی کے ہوتے تھے، پتھر کے بت کم تھے۔ ان بتوں کو بہت شاندار، رنگین اور بڑے بڑے نقش و نگار بناکر طرح طرح کے کپڑے پہناکر دیواروں کے ساتھ لگا کر رکھ دیا جاتا تھا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ ان منافقوں کی حالت ان بتوں کی سی ہے جو کہ بظاہر بڑے شان دار نظر آتے ہیں لیکن ان کے اندر جان نہیں ہوتی۔یہ دیواروں کے سہارے کھڑے ہوتے ہیں، ان کے اندر اپنے بل بوتے پر کھڑے ہونے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔

مجرم ضمیر کی تصویر

یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْھِمْ ہر آواز کو سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف ہے۔

یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ اگر ایک آدمی چوری کر رہا ہوتو ذرا سی آہٹ اور آواز کسی طرف سے آئے تو وہ فوراً بِدکتا ہے کہ میں مارا گیا۔ اسی طرح سے جو آدمی کسی معاشرے میں رہتے ہوئے اس معاشرے کے خلاف کام کر رہا ہے، کسی ریاست میں رہتا ہے اور غیرقانونی افعال میں ملوث ہے، دشمن سے ملا ہوا ہے، یا کسی سازش میں شریک ہے، تو ایسا آدمی اندر سے جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ اس کا دل اس بات سے باخبر ہوتا ہے کہ میں مجرم ہوں اور جرم کا ارتکاب کر رہا ہوں اس لیے ہر وقت اس بات کا امکان ہے کہ میرا راز فاش ہوجائے اور میری شامت آجائے۔ ایسے آدمی کے اندر ایک عجیب قسم کی بُزدلی موجود ہوتی ہے، اپنے جرم کا احساس موجود ہوتا ہے، اس لیے وہ ہر وقت خوف زدہ رہتا ہے۔ لہٰذا ہر آواز سے اس کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ میری شامت آئی۔

اس کے برعکس جو آدمی ایمان داری کے ساتھ کام کر رہا ہو، وہ بے خوف اور بے کھٹکے ہوتا ہے۔ وہ آدمی جو کچھ بھی خیالات رکھتا ہو، ان کو کھلم کھلا بیان کرتا ہے، جو کام بھی کرتا ہے، علانیہ کرتا ہے۔ اگر کسی سے لڑائی ہے تو کھلم کھلا لڑائی ہے۔ کسی کے ساتھ دوستی ہے تو ایمان داری کے ساتھ دوستی ہے۔ کسی کا مخالف ہے تو کھلم کھلا مخالف ہے۔ کسی کا موافق ہے تو علانیہ موافق ہے۔ جو بات کرتا ہے اطمینان اور ایمان داری کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایک منافق کا رویّہ ایک ڈرے ہوئے اور سہمے ہوئے سے انسان کی طرح ہوتا ہے، وہ اندر سے کمزور ہوتا ہے اس لیے ہر آواز سے اس کو احساس ہوتا ہے کہ بس اب اس کی شامت آرہی ہے۔

منافقین کی اس روش کی بنا پر انھیں مسلمانوں کا اصل دشمن قرار دیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا گیا:

ھُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْھُمْ (۴) یہی اصل میں دشمن ہیں، ان سے بچو۔

باہر والے دشمن کے مقابلے میں یہ چھپے دشمن زیادہ خطرناک ہیں۔ اس لیے ان سے ہوشیار رہو۔ ان کے ظاہر سے دھوکا نہ کھائو۔ ہر وقت خیال رکھو کہ یہ کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیا: قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ اللہ تعالیٰ ان کا ناس کرے،  یہ کدھر اُلٹے پھرائے جارہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کا ناس کرے___ عربی زبان کا محاورہ ہے، یعنی جب کہنا ہو کہ اس کا ستیاناس ہوجائے تو اس موقع پر بولا جاتا ہے۔ مزید کہا گیا کہ یہ دھوکا کھاکر کدھر جا رہے ہیں۔ یہ بظاہر دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں لیکن دراصل خود دھوکا کھا رہے ہیں اور اپنی تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔

گہمنڈ اور غرور

وَاِِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْلَکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَوَّوْا رُئُوْسَھُمْ وَرَاَیْتَھُمْ یَصُدُّونَ وَھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ o (۵) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو تاکہ اللہ کا رسولؐ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے، تو سر جھٹکتے ہیں، اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رُکتے ہیں۔

یہ اشارہ ہے اس واقعے کی طرف کہ عبداللہ بن اُبی نے غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر مسلمانوں کو باہم لڑانے کی کوشش کی تھی اور اس طرح کی باتیں کی تھیں کہ یہ مہاجرین جب ہمارے ہاں آئے تھے تو بھوکے ننگے تھے۔ اور اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ انصار کے خلاف جری ہوگئے ہیں اور ان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اس موقع پر اس نے یہ الفاظ بھی کہے تھے کہ اب مدینہ چل کر جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی اطلاع پہنچی اور عبداللہ بن اُبی کو بھی خبر دی گئی کہ رسولؐ اللہ کو اس بات کا پتا چل گیا ہے کہ تم نے کیا باتیں کی ہیں تو انصار کے بعض لوگوں نے اس سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو اور ان سے اس کی معافی مانگو اور یہ درخواست بھی کرو کہ آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے مغفرت کے لیے دعا کریں، تو اس نے بڑی نفرت سے منہ پھیرا اور اکڑ کر یہ کہا کہ تم لوگوں نے مجھے کہا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لائو تو میں ایمان لے آیا، تم نے کہا کہ نماز پڑھو تو میں نماز بھی پڑھنے لگا، تم نے کہا کہ زکوٰۃ دو تو میں نے زکوٰۃ بھی دینی شروع کر دی، اب بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ تم کہو کہ محمدؐ کو سجدہ کرو تو یہ تو میں کرنے سے رہا۔

گویا اس کے نزدیک اس کا یہ بہت بڑا احسان تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا، جب کہ اس کے قبیلے کے لوگ اس کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ گویا اس کے بقول: پھر یہ کیا کم مہربانی تھی کہ میں لوگوں کے کہنے پر نماز بھی پڑھنے لگا، زکوٰۃ بھی دینے لگا، اور اب    تم اتنے بڑے رئیس کو یہ کہہ رہے ہو کہ جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کرو کہ    وہ تمھارے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں ،تو گویا بس اب ان کو سجدہ کرنے کی کسر باقی رہ گئی ہے۔ اس کے بارے میں یہ فرمایا گیا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو تاکہ اللہ کا رسولؐ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے تو (تم دیکھتے ہو کہ) یہ بڑے تکبر کے ساتھ منہ پھیرتے ہیں۔ (جاری)۔ (جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)


منافق کے لیے ھدایت نھیں

سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَھُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (۶) اے نبیؐ، تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے، اللہ ہرگز انھیں معاف نہ کرے گا، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا۔

یہ بات سورئہ توبہ میں بھی ارشاد ہوتی ہے اور یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر تم ان کے لیے ۷۰مرتبہ بھی مغفرت کی دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول نہیں کرے گا۔ یہاں یہی بات ان الفاظ میں فرمائی گئی کہ تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی درخواست کرو یا نہ کرو، اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ کیوں؟___ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کو ایمان کے دعوے کے ساتھ مکاری کسی طرح پسند نہیں۔

ایک آدمی مشرک، کافر، بدعتی، جو بھی ہے، اللہ سے معافی مانگے تو اس کی معافی ہوجائے گی۔ اس کے اندر کم از کم یہ شرافت تو موجود ہے کہ جس چیز کو مانتا ہے اس کو سیدھی طرح سے مانتا ہے۔ لیکن جو آدمی اپنے خدا سے بھی مکاری کرے، جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی مکاری کرے، وفاداری کا دم بھی بھرے اور وفادار نہ بھی ہو، اپنے آپ کو مخلص مومن کی حیثیت سے پیش کرے لیکن حقیقت میں اس کے اندر کوئی اخلاص نہ ہو، بظاہر مطیع فرمان بنا پھرتا ہو لیکن درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر تلا ہوا ہو___ ایسے آدمی کے لیے کوئی معافی نہیں۔یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے حق میں مغفرت کی دعا مانگیں تو ان کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی ہرشخص کے لیے نافع نہیں اور کسی کے لیے دعاے مغفرت کرنا بھی شفاعت ہے___ ظاہر بات ہے کہ شفاعت زندگی میں بھی ہوسکتی ہے اور آخرت میں بھی ہوگی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کی شفاعت کے معاملے میں کیفیت یہ ہے کہ حضوؐر کی شفاعت اللہ کو مجبور کرنے والی نہیں۔ اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا پورا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ حضوؐر اللہ کے بندے ہیں، خدائی میں شریک نہیں ہیں۔ آپؐ کا کام گزارش کرنا ہے،دعا کرنا ہے، قبول کرنا نہ کرنا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کے حق میں دعاے مغفرت فرما دیں تو وہ یقینا بخشا جائے گا، درست نہیں___ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات فرمائی ہے کہ یہ بات یکساں ہے کہ چاہے تم ان کی مغفرت کی دعا کرو یانہ کرو، اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو نہیں بخشے گا۔

اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۶) اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اطاعت کے دائرے سے جان بوجھ کر نکل جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی ہدایت نہیں ہے۔ فِسق کے معنی ہیں اطاعت سے جان بوجھ کر نکل جانا۔ ایک وہ آدمی ہے جو بھولے سے اطاعت کے دائرے سے نکل گیا، لغزش کھا گیا، ٹھوکر کھا گیا۔ اس کے برعکس ایک آدمی وہ ہے جو جان بوجھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت نہیں کرنی ہے، وہ فاسق ہوتا ہے۔ ہر گناہ گار کافر نہیں فرق یہ ہے کہ جس شخص سے غفلت کی بنا پر کوئی قصور ہوگیا، وہ فاسق نہیں گناہ گار ہے۔ لیکن جس آدمی نے جان بوجھ کر فیصلہ کیا ہو کہ مجھے اطاعت قبول نہیں کرنی ہے بلکہ نافرمانی کی راہ پر چلنا ہے، وہ فسق کا ارتکاب کرتا ہے، اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ظاہر بات ہے کہ مغفرت اُسی شخص کی ہوسکتی ہے جو راہِ راست اختیار کرے، ہدایت قبول کرے لیکن جو شخص ہدایت اختیار نہیں کرتا اس کی مغفرت کیسے ہوسکتی ہے۔ جو آدمی پہلے گمراہ تھا لیکن سیدھے راستے پر آگیا اس کی معافی قبول ہونے کا امکان ہے، کیونکہ اس نے نافرمانی اور گمراہی کو چھوڑ کر اطاعت اور ہدایت کی راہ اختیار کرلی۔

اس کے برعکس جس نے جان بوجھ کر ٹھنڈے دل سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا فیصلہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ اس کو ہدایت دے۔ اللہ آقا ہے اور بندہ، بندہ اور غلام ہے۔ اگر بندہ اپنے آقا کے مقابلے میں جان بوجھ کر بغاوت کا رویہ اختیار کرے اور اکڑ کر چلاجائے کہ مجھے اس کی اطاعت نہیں کرنی ہے، تو کیا آقا کا یہ کام ہے کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو میری طرف چلا آ۔ آقا کا تو یہ کام ہے کہ اس سے کہے کہ تو جا اور اپنا انجام دیکھ۔      یہ مفہوم ہے اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ کا۔ اللہ کا کام یہ نہیں ہے کہ جو آدمی اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا، اللہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو ہدایت قبول کرلے۔ جو ہدایت نہیں چاہتا، اس کے لیے ہدایت نہیں ہے۔ اور جب اس کے لیے ہدایت نہیں ہے تو اس کے لیے مغفرت بھی نہیں ہے ۔

احسان جتانا

ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوا وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَفْقَھُوْنَ o (۶۳:۷) یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسولؐ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہوجائیں۔ حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کامالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافق نہیں سمجھتے ہیں۔

یہ بات بھی عبداللہ بن اُبی نے کہی تھی۔ جب غزوئہ بنی المصطلق کے موقع پر ایک انصاری اور ایک مہاجر کے درمیان جھگڑا ہوا تو اس نے انصار کو خوب بھڑکایا، مہاجرین کے خلاف خوب اُکسایا اور کہا کہ یہ لوگ تو بھوکوں مرنے ہوئے آئے تھے اور تم نے ان کو اپنی جایدادوں میں شریک کیا، ان کو اپنے گھر تک دیے رہنے کے لیے،ان پر اپنے مال خرچ کیے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ تمھارے …… آرہے ہیں۔ اب مدینہ واپس جاکر ان پر اپنا مال خرچ کرنا بند کرو، جو گھر ان کو دیے تھے ان سے واپس لو، اور جن جایدادوں میں ان کو حصہ دار بنایا تھا وہ ان سے واپس لو، جو قرض ان کو دیے تھے وہ قرض وصول کرو، اور آیندہ ان کی مدد کرنا بند کرو، یہ تمھیں چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔

اس پر یہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے اُوپر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ چھٹ کر الگ ہوجائیں، یہاں سے چلے جائیں، حالانکہ ان منافقین کو معلوم نہیں ہے کہ زمین و آسمان کے خزانے اللہ کے پاس ہیں۔ یہ محض جہالت اور نادانی کی باتیں ہیں کہ اگر یہ لوگ مہاجرین کی مدد نہ کرتے تو انھیں نہ کوئی ٹھکانہ ملتا اور نہ رزق میسر آتا، حالانکہ وہ ان کے رازق نہیں بلکہ وہ خود بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ وہ اپنے رزّاق خود نہیں ہیں۔ ان کے پاس جو کچھ ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اگر تم نے اپنے ایمان اور اخلاص کی بنا پر کیا تو پھر احسان کیا۔ اگر تم یہ سب کچھ نہ بھی کرتے تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ان کی ضرورت کا سامان مہیا کرتا۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا خزانوں کا مالک ہے۔

عزت اور ذلت کا معیار

یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (۶۳:۸) یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔

جیساکہ میں بتا چکا ہوں کہ عبداللہ بن اُبی نے یہ بات بھی کہی تھی اور اس کا مطلب ذلت والے سے مراد نعوذباللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس تھی۔ اس کے قول کا مطلب یہ تھا کہ ہم جو عزت والے ہیں مدینہ شریف پہنچ کر نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیں گے۔ یہ بات رسولؐ اللہ تک بھی پہنچی اور صحابہ کرامؓ نے بھی سنی۔ رسولؐ اللہ نہایت درجے کی غیرمعمولی متحمل شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے یہ بات سنی اور سن کر ٹال دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ قول سنا کہ عبداللہ بن اُبی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے تو انھوں نے آکر حضوؐر سے عرض کیا کہ حضوؐر، اگر اجازت ہو تو میں جاکر اس کا سر قلم کر دوں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دراصل ارتداد کا فعل تھا کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر اللہ کے رسولؐ کو نعوذباللہ ذلیل کہتا ہے___ اس سے زیادہ ارتداد اور کیا ہوسکتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص قرآن کی توہین کرے، اللہ کو یا اس کے رسولؐ کو گالی دے تو وہ تو نہ صرف یہ کہ مرتد ہے بلکہ نہایت ذلیل قسم کا مرتد ہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ میں جاکر اس مرتد کا سر قلم کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ میں نہیں چاہتا کہ عرب کے لوگ یہ کہیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ باہر کے لوگوں کو معلوم نہیں کہ عبداللہ بن اُبی ایک منافق ہے، باہر کے لوگوں کو تو یہ معلوم ہے کہ عبداللہ بن اُبی مسلمانوں کا ایک سردار ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے منافق تھے ان کے بارے میں بھی باہر کے لوگ یہی جانتے تھے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر عبداللہ بن اُبی کو قتل کر دیا جاتا تو باہر کے لوگ یہ کہتے کہ دیکھیے ان کے درمیان ایسی پھوٹ پڑی ہے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہے ہیں۔ یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی۔ اس سے اسلام کی شہرت کو نقصان پہنچتا، اس لیے حضوؐر نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو یہ کام نہیں کرنا ہے۔

عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا نہایت مخلص مسلمان تھا۔ اس نے آکر عرض کیا کہ حضوؐر اگر آپ کو میرے باپ کا سر چاہیے تو کسی اور کو حکم دینے کے بجاے مجھے حکم دیجیے، میں جاکر اس کا کام تمام کرتا ہوں۔ لیکن حضوؐر نے اس کو منع کر دیا۔ یہ غزوہ بنی المصطلق سے واپسی پر مدینہ پہنچنے سے پہلے کی بات ہے۔ جب حضوؐر مدینہ پہنچے تو عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا مدینہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے باپ سے کہا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اس وقت تک آپ مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اور فرمایا کہ عزت والے وہ ہیں۔ وہ اجازت دیں گے تو آپ آسکیںگے ورنہ نہیں۔ آپ نے تو کہا تھا کہ عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ اب آپ فیصلہ کرلیجیے کہ عزت والا کون ہے اور ذلیل کون ہے؟ اب اس کا بیٹا اس کے سامنے کھڑا ہے۔ یہ تھا اخلاص!

ایمان دراصل یہ چیز ہے کہ اللہ اور رسولؐ کو مان لینے کے بعد کسی اور رشتے داری کا پاس نہ ہو۔ اہلِ کفر سے تمام رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ نہ باپ باپ ہے، نہ بیٹا بیٹا ہے، نہ بھائی بھائی ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں آکر دشمن کی حیثیت سے کھڑا ہوجائے تو باپ اپنے بیٹے کو قتل کرے گا اور بیٹا اپنے باپ کو قتل کرے گا اور یہ مظاہرہ جنگ ِ بدر میں ہوچکا تھا۔ اللہ اور رسولؐ کو ماننے کا اخلاص یہی ہے۔ جس جگہ آدمی کے اپنے جذبات وابستہ ہیں اس جگہ آکر وہ اپنے جذبات پر چھری پھیر دے گا۔ کوئی پروا نہ کرے اس بات کی کہ اگر میں نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا، بیٹے نے باپ کو قتل کردیا تو دل پر کیا گزرے گی۔ جو گزرتی ہے گزر جائے لیکن اللہ کی راہ میں اخلاص کا تقاضا یہی ہے کہ ہر رشتے، ہر جذبے اور ہر شے پر اللہ اور اس کے رسولؐ کو مقدم رکھا جائے۔

یہی بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کہتا ہے کہ عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عزت اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔ کوئی عزت والا ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کی کوئی عزت نہیں۔ عزت صرف اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔

نفاق کا سبب

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلاَدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (۶۳:۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔

یہ سورئہ منافقون کا دوسرا اور آخری رکوع ہے۔ اس سے پہلے یہ بتایا گیا کہ مدینہ کے منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہ روش اختیار کیے ہوئے تھے کہ آپ کی رسالت کا اقرار کرتے تھے اور قسمیں کھاکا کر یہ یقین دلاتے تھے کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں لیکن اس کے بعد حضوؐر کے خلاف، دین کی دعوت اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی چال بازیاں اور مکاریاں کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ فرمانا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کو تمھارے مال اور تمھاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے، اور جو تم میں سے ایسا کرے وہ خسارے میں پڑنے والا ہے۔ یہ بات ارشاد فرمانے سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ منافقین کو جس چیز نے منافقانہ روش پر آمادہ کیا تھا وہ مال اور اولاد کا مفاد تھا۔ جب تک ایک آدمی اپنے مال اور اولاد کے مفاد کو خدا اور اس کے دین سے، حق سے منحرف کردینے کی حد تک نہ پہنچ جائے، اس کی محبت اس وقت تک آدمی منافقانہ روش اختیار نہیں کرتا۔ اس لیے فرمایا کہ تمھارا مال اور تمھاری اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اصل میں لفظ لاَ تُلْھِکُمْ استعمال کیا گیا ہے۔ لَھْو اس چیز کو کہتے ہیں جس میں آدمی کو دل چسپی اتنی بڑھ جائے اور اس میں اتنا مشغول ہوجائے کہ دوسری چیزوں سے اس کو غفلت لاحق ہوجائے۔ اسی بنا پر گانے بجانے اور کھیل کود کو لَھْو کہتے ہیں کیونکہ آدمی ان کے اندر اتنا مشغول ہوتا ہے، اور اس میں اس کی دل چسپی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اس کو کسی اور چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ یہی لفظ یہاں استعمال کیا گیا کہ تم کو ایسا غافل نہ کردے، اپنے ساتھ مشغول کرلے کہ تم اللہ کی یاد سے غافل ہوجائو۔

منافق اس شخص کو کہتے ہیں جو خدا سے غافل ہوتا ہے۔ وہ درحقیقت اس وجہ سے منافق ہوتا ہے کہ اس کو دنیوی مفاد عزیز ہوجاتا ہے، وہ اس کو اپنی طرف اتنا متوجہ کرلیتا ہے، مثلاً ایک آدمی ہے جس کو اپنی تجارت کو بڑھانے اور اسے ترقی دینے اور ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو نشوونما دینے کی اتنی فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ اس کو پھر اس بات کی پروا نہیں رہتی کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے۔ وہ ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو بڑھانے کی فکر کرتا ہے۔ اس طرح جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ کسی طرح حق بات کی حمایت کروں، جس چیز کو زبان سے خود مانتا ہے وہ اس کے متعلق یہ سوچتا ہے کہ اگر میں اس کی حمایت کروں تو میری جایداد کو نقصان پہنچے گا، میری تجارت بیٹھ جائے گی، میرے دوسرے مالی مفادات پر ضرب آئے گی۔ اس لیے میں ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرتا ہوں کہ حق اور باطل کے جھگڑے میں کیوں پڑوں، حق کے لیے مرنے، کٹنے والے نعوذباللہ بہت سے بے وقوف موجود ہیں، مجھے اپنے مفاد کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایک آدمی اپنی اولاد اور بیوی کے عیش و آرام کی خاطر حرام کماتا ہے، رشوتیں کھاتا ہے، غبن اور خیانتیں کرتا ہے۔ ہر طرح کی بے ایمانیاں کرکے کوشش کرتا ہے کہ اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ زیور پہنائے، زیادہ سے زیادہ عیش کرائے، اور اپنے نزدیک اپنی اولاد کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے سروسامان مہیا کرے۔ یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو اس کے خدا، اس کے رسولؐ اور اس کے دین کے معاملے میں منافقانہ روش پر اُبھارتی ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو آدمی منافقت اختیار نہیںکرتا۔

اللہ کے ذکر سے غافل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اللہ اللہ کرنے سے رُک جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کو بھول جائے۔ یہ خیال اس کے دل سے نکل جائے کہ اُوپر کوئی خدا بھی ہے جس کے سامنے جاکر اسے کبھی اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ یہ خیال اگر کسی آدمی کے دل میں رہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ کبھی اس کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی اولاد کے مفاد کے لیے، اپنی بیوی کو عیش کرانے کے لیے، اپنی دولت بڑھانے کے لیے کوئی ایساکام کرے جس کا انجام ہمیشہ کے لیے جہنم ہو۔

قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ مال اور اولاد آخرت میں تمھارے کام آنے والا نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس جن لوگوں کے عیش اور آرام کے لیے تم یہاں بے ایمانیاں کرتے ہو، قیامت کے روز وہی اُٹھ کر تمھارے خلاف گواہ بنیںگے۔ بجاے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ ہمارے باپ نے ہمارے لیے کتنی تکلیفیں اُٹھا کر اور کس قدر ایمان کو بیچ کر حرام دولت کمائی تھی، اس لیے اب اس کی جگہ ہمیں جہنم میں بھیج دیا جائے۔ کوئی اولد اس کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ باپ بیٹے کے لیے جہنم میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ بھائی بھائی کے لیے تیار نہیںہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس اس کے خلاف جو مقدمہ قائم ہوگا تو یہی لوگ آکر گواہی دیں گے کہ اس طرح اس نے رشوتیں کھا کر، بے ایمانیاں کر کے یہ دولت کمائی تھی۔ ہمیں بھی حرام سے پالا اور خود بھی حرام کھایا۔ یہ بات قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ یہ اولاد کل تمھارے خلاف گواہ بننے والی ہے۔ اگر ان کی خاطر آج تم نے بے ایمانیاں کیں۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو۔ اس بات کو بھول مت جائو کہ تمھیں کبھی خدا کے ہاں جانا ہے اور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔

وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (۶۳:۹) جو لوگ یہ روش اختیار کریں گے یہی آخرکار خسارے میں جانے والے ہیں۔

خسارہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ آدمی جس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگائے، اس میں اپنی محنتیں اور وقت صرف کرے اور اس کے بعد وہ صرف لگا لگایا ڈوب جائے، یہ خسارہ ہے۔ ایک آدمی اپنی تمام محنتیں، قوتیں اور تمام ذرائع و وسائل سارے کے سارے ایک ایسے کام میں لگا رہا ہے جو اس کو لے جاکر آخرکار جہنم میں جھوکنے والا ہے، اس سے بڑا کوئی خسارہ نہیں ہے۔

مھلتِ عمل کو غنیمت جانو!

وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلآَ اَخَّرْتَنِیْٓ اِِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ o وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۶۳:۱۰-۱۱) جو رزق ہم نے تمھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اُس وقت وہ کہے کہ ’’اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا‘‘ حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔

ایک آدمی کے لیے اس سے زیادہ احمقانہ فعل کوئی نہیں ہے کہ اس وقت اس کو جو زندگی اور مہلت عمل ملی ہوئی ہے اس میں وہ اللہ تعالیٰ کو بھولتا ہے، اس سے منہ موڑ کر اپنے دنیوی مفاد کی پرستش میں لگارہے، تو مرتے وقت اس کو یہ احساس ہو کہ میں نے کیا کیا، کس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دے۔ اور اس وقت جب وہ دیکھ رہا ہو کہ اب میں تباہی کی طرف جا رہا ہوں، اس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ مجھے تھوڑا سا وقت اور دے دے تاکہ میں اپنے مال کو آپ کی راہ میں خرچ کروں۔

وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۶۳:۱۱) اللہ کسی متنفس کو مہلت دینے والا نہیں ہے، جب کہ اس کی اجل آجائے، اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

اجل کہتے ہیں مدت مقررہ کو جو پہلے سے طے کر دی گئی کہ فلاں شخص کو اتنا وقت دیا جائے گا مثلاً امتحان کے کمرے میں آپ بیٹھتے ہیں تو یہ طے ہے کہ مثلاً تین ساڑھے تین گھنٹے کا وقت آپ کے لیے پرچہ حل کرنے کا وقت ہے۔ اس تین ساڑھے تین گھنٹے کی جو مہلت ہے اس کا نام اَجل ہے۔ ایک آدمی کو کسی کام کرنے کے لیے جو مہلت دی گئی ہو، یہ اَجل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کردیا گیا ہے کہ اس آدمی کو دنیا میں کام کرنے کے لیے اتنا وقت دیا جائے گا اور ایسی ہی مہلت قوموں کو بھی دی جاتی ہے۔ قوموں کی زندگی اور مہلتِ عمل کے لیے بھی اَجل کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ جب کسی قوم کی اَجل آن پوری ہوتی ہے تو پھر ایک منٹ کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے اس کی مہلت ختم ہوتی ہے اور نہ اس کے بعد۔ اس کو مزید وقت دیا جاتا ہے۔

یہاں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کے لیے جو اَجل مقرر کر دی گئی ہے، جو مدت طے کر دی گئی ہے،اس کے بعد کسی شخص کو کوئی مہلت نہیں دی جاتی۔ کوئی تاخیر اس کے اندر نہیں ہوتی۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کو مزید کچھ وقت دے دیا جائے۔ تو جس آدمی کو اپنی عاقبت کے لیے جو بھی عمل کرنا ہے، وہ اس وقت اس کو کرلینا چاہیے، جب کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ میں تندرست ہوں، زندہ ہوں، موت کا وقت قریب نہیں ہے۔ لیکن جس وقت آدمی دیکھے کہ آخری وقت آگیا ہے، کوئی ایسی بیماری ہے کہ جس کی وجہ سے اس کو معلوم ہوگیا ہے کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے، اس وقت آدمی کا یہ چاہنا کہ مجھے مزید وقت ملے تاکہ میں کوئی نیک عمل کرلوں جس سے میری عاقبت درست ہوجائے تو اس کی یہ محض حماقت ہے۔ کبھی آج تک دنیا میں یہ نہیں ہوا ہے کہ جس شخص کی موت کا جو وقت مقرر ہے ایک منٹ کے لیے بھی وہ ٹل جائے۔

وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۶۳:۱۱) اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

وہ بے خبر نہیں ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ کتنا کتنا تم کو سمجھایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتنی کچھ نصیحت کی گئی،فقط ایک کتاب ہی نہیں، بے شمار طریقوں سے آدمی کی نصیحت کا سامان ہوتا ہے۔ وہ فقط کسی ناصح کی زبان بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نصیحت کرنے کے لیے، اس کو عبرت کا سبق دینے کے لیے بساااوقات ایک آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ ایکسیڈنٹ ہوا اور آن کی آن میں آدمی مر گیا۔ وہ یہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ یہ بھی ایک نصیحت ہے۔

اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کتنے کتنے مواقع پر تمھاری نصیحت کا انتظام کیا گیا کہ تم ہوش میں آئو اور سمجھو کہ ہماری اس دنیا پر تمھاری کیا پوزیشن ہے؟ اور کیا چیزیں عاقبت درست کرنے والی ہیں، اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو آدمی کی عاقبت تباہ کرنے والی ہیں۔ کوئی آدمی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو اس چیز کو نہ سمجھتا ہو۔ اس کے بعد اگر ایک آدمی آخرت سے غافل ہوتا ہے اور اپنا سارا وقت اور محنتیں صرف اس دنیا کو بنانے کے لیے صرف کردیتا ہے اور ایسے طریقے اختیار کرتا ہے دنیا بنانے کے لیے جو عاقبت کے لیے تباہ کن ہوں تو اللہ تعالیٰ کو کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ ایسے آدمی کو مزید وقت دے۔ وہ کسی کے لیے اپنے قوانین تبدیل نہیں کیا کرتا۔ کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن، امجد عباسی)