بسم اللہ الرحمن الرحیم
بجٹ صرف حکومت کی آمدن و خرچ کا ایک میزانیہ ہی نہیں ہوتا بلکہ حکومتِ وقت کی تمام معاشی اور مالیاتی پالیسیوں اور ان کے مالی تقاضوں کا آئینہ بھی ہوتا ہے، اور اس میں ملک کی معاشی اور مالی صورت حال اور سیاسی حکمت عملی کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ بجٹ کا کام وسائل کے حصول کے ذرائع کی نشان دہی کرنا اور یہ بتانا ہوتا ہے کہ انھیں کن پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے کس انداز میں استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے بجٹ، حکومت ِ وقت کی ایک بنیادی دستاویز ہوتی ہے، جس میں اس کی تمام پالیسیوں کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔
موجودہ حکومت کی طرفہ کارگزاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے اپنے کنبے سے کوئی لائق وزیرخزانہ میسر نہیں آیا۔ پہلے چند مہینے مسلم لیگ (ن) کے جناب اسحاق ڈار اس ذمہ داری پر فائز ہوئے۔ پھر چند ہفتے کے لیے جناب نوید قمر نے جلوہ دکھایا۔ اس کے بعد جناب شوکت ترین مستعار لیے گئے اور اب ڈاکٹر محمد حفیظ شیخ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، جو اپنی ذاتی قابلیت کے باوصف جنرل پرویز مشرف کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور صوبہ سندھ کے وزیرخزانہ اور مرکزی حکومت کے وزیر نج کاری کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اسی طرح حنا ربانی کھر صاحبہ بھی پچھلی اور موجودہ حکومت کا حصہ رہی ہیں۔ گویا ڈھائی سال کے عرصے میں چار وزراے خزانہ کی آمدورفت جاری رہی۔ ہر ایک اپنے ساتھ اپنی من پسند ٹیم لایا اور اپنی پالیسی اور ترجیحات بھی۔ رہا معاملہ حکومت کی معاشی پالیسی کا تو ہر وزیر اور ہر وزارت اپنی اپنی ڈفلی بجانے اور اپنا اپنا راگ الاپنے کا منظر پیش کرتی رہی اور پاکستان کی معیشت کا جو حشر ہوا اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ع
شد پریشاں خواب من از کثرتِ تعبیر ہا
بے سمت معاشی پالیسی
بجٹ تقریر کے حوالے سے عوام الناس میں اب یہ تاثر عام ہے کہ یہ ناقابلِ اعتماد اعدادوشمار اور بے سروپادعووںکا پلندا ہواکرتی ہے۔ اس حوالے سے موجودہ وزیرخزانہ کی تقریر نسبتاً بہتر ہے کہ اس تقریر میں اگرچہ مکمل صداقت نہ تھی لیکن صداقت کی کم از کم کچھ جھلکیاں موجود تھیں۔ تقریر میںوزیرخزانہ نے حالات کا کچھ تجزیہ بھی کیا، اور چھے ایسے نکات بھی دیے جو ان کی نگاہ میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔تاہم، بجٹ تقریر میں ایک بڑی خامی یہ رہی کہ اس میں کسی عام فرد کی طرح مسائل کی نشان دہی تو کی گئی، لیکن مسائل کاکوئی واضح اور قابل عمل حل پیش نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ حل پیش کرنا ہی اصل کام اور حکومت کی اصل ذمہ داری ہے۔ اس بجٹ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں مستقبل کے حوالے سے کسی واضح منزل اور سمت کا تعین قطعی طور پر مفقود ہے ع
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی
بجٹ کے حوالے سے قوم اور قوم کے نمایندہ ایوانوں سے ایک سنگین مذاق یہ بھی ہے کہ وزیرِ خزانہ کی تقریر اور حکومت کی طرف سے فراہم کردہ بجٹ دستاویزات میں بڑا فرق ہے ۔وزیرِ خزانہ تو یہ کہہ کر داد وصول کر گئے کہ کفایت شعاری کی غرض سے تنخواہوں کے علاوہ غیرترقیاتی اخراجات کو منجمد کیا جا رہا ہے، لیکن جو تفصیل تحریری طور پر فراہم کی گئی ہے اس میں اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا، بلکہ بجٹ تقریباً ہر مد میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں ۵۰ فی صد اضافے کا جو اعلان کیا گیا، بجٹ دستاویز میں اس کا اشارہ تک نہیں ہے۔ اس لیے کہ کم از کم اس کی بنا پر یہ ۶۰،۷۰ ارب روپے مرکزی بجٹ میں اور پھراس سے بھی کچھ بڑی رقوم کی فراہمی صوبوں میں دکھائی دینی چاہیے تھی، لیکن بجٹ دستاویز میں یہ کہیں نظر نہیں آتا۔
اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ اور اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل کرنے کے فیصلے کے بعد، یہ پہلا بجٹ ہے جو سامنے آیا ہے۔ اصولی طور پر اگرچہ یہ درست ہے کہ صوبوں کو اختیارات اوروسائل کی منتقلی کے لیے ایک سال کی مدت رکھی گئی ہے، لیکن خود بجٹ کو بھی اس بات کا عکاس ہونا چاہیے تھا ۔ مثال کے طور پر کم از کم ۲۱ ایسے ڈویژنز ہیں جو اَب صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں لیکن ان وزارتوں کے بارے میں اسی طرح کا بجٹ ہے جیسے پہلے تھا۔ پھر ۵۵۰ میں سے ۱۲۵ سرکاری اداروں کو صوبوں کی طرف منتقل ہونا ہے۔وسائل اور اختیارات کی اس منتقلی کا لائحۂ عمل بجاطور پر اس بجٹ میں نظر آنا چاہیے تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً اڑھائی لاکھ سرکاری ملازمین جو مرکزی حکومت کے تحت ہیں، ان کی خدمات صوبہ جات کی طرف منتقل ہونے کے حوالے سے کوئی ابتدائی اقدامات تو نظر آنے ہی چاہییں تھے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ سازی کوئی اور کررہا ہے،جس کے علم میں یہ بات آئی ہی نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کیا قانون سازی کررہی ہے۔ حد یہ ہے کہ CTV اور سروسز پرسیلز ٹیکس جواب صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں، بجٹ کی ان دستاویز میں انھیں مرکز کے مشمولہ فنڈ (consolidated fund ) میں ایک آمدنی کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے، حالانکہ اب ان کو صوبوں کے بجٹ میں جانا چاہیے۔ اس لیے یکم جولائی ۲۰۱۰ء کے بعد ان کا مرکزی بجٹ میں اندراج دستور سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ماضی کی حکومت اور ماضی کے مسائل کو بیان کرنا اور کیڑے نکالنا ہر موجودہ حکومت کا مستقل طرزِ عمل رہا ہے۔موجودہ وفاقی حکومت، اقتدار کے تقریباً اڑھائی سال مکمل کر چکی ہے اور اب اس کے پاس نصف عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ اس وقت معیشت کی جو بھی صورتِ حال ہے، اس کی ذمہ داری کلی طور پر سابقہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ان اڑھائی برسوں کا حساب موجودہ حکومت کو ہی دینا ہوگا۔ اگرچہ پاکستان میں اندازِ حکمرانی کبھی بھی مثالی نہیں رہا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے کسی بھی دور میں ہماری معاشی پالیسی اتنی بے ربط اور بے ہنگم نہیں رہی جتنی موجودہ حکومت کے دور میں ہے۔ حکومت کی کوئی واضح سمت نہیں ہے اور ہر وزیر اور ہر شعبہ ایک الگ ہی سمت میں جارہا ہے۔اگرچہ قومی زندگی کاہر شعبہ ہی ’دیکھو اور وقت گزارو‘ (ایڈہاک ازم یا ’ڈنگ ٹپائو) کی پالیسی پر چل رہا ہے، لیکن جو عدم استحکام خاص طور پر وزارتِ خزانہ میں نظر آیا ہے، اس نے یقینا ملک، قوم اور خود حکومت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ کسی مرکزی نظام کی غیر موجودگی میں وزارت کی سطح پر پالیسیوں کے تسلسل پر بہت فرق پڑا ہے۔سوا دو سال میں وزارتِ خزانہ کی قیادت چار بار تبدیل ہوئی ہے اور ملک کے معاشی مسائل اور بھی گھمبیر ہوگئے ہیں۔ حکومت کا حال یہ ہے کہ ؎
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
وزیر خزانہ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ملک معاشی طور پر بہتری اوراستحکام کی جانب گامزن ہے لیکن حکومت پاکستان کے سالانہ اقتصادی جائزے (اکنامک سروے) میں ملکی معیشت کی سخت پریشان کن صورت سامنے آتی ہے۔ اکنامک سروے میں کم از کم ۲۵ مقامات پر یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ حالیہ معاشی صورتِ حال غیر مستحکم اور ناپایدار ہے۔ وزارتِ خزانہ اور عالمی بنک کے معاشی جائزے کے مطابق غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا ۴۰ فی صد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگر دو ڈالر (=۱۷۰ روپے) آمدنی روزانہ کو بنیاد بنائیں تو یہ رقم کروڑوں پاکستانیوں کی دسترس سے باہر ہے، اس لیے ۷۶فی صد آبادی غربت کا شکار ہے۔ ان کے برعکس تقریباً ۲۰ فی صد کے پاس ساری دولت ہے اور وہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، جس سے معاشرے کے اندر تصادم، نفرت، تناؤ اورانتہا پسندی کے رجحانات پیداہو رہے ہیں، جب کہ ۸۰ فی صد آبادی کا حال یہ ہے کہ ع
زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا!
حال ہی میں پاکستان کے حوالے سے ہونے والے سماجی و معاشی جائزے کے مطابق ملک میں ۶ئ۴۸ فی صد آبادی غذا کی کمی کا شکار ہے اورملک کے ۶۱ فی صد اضلاع میں غذائی قلت ہے۔ جس ملک میں یہ صورت حال ہو، حقیقت یہ ہے کہ ان کے حکمرانوں اور ارکینِ پارلیمنٹ کی نیندیں اُڑجانی چاہییں، لیکن مقامِِ حیرت ہے کہ ان کے معاملاتِ زندگی اور سوچ کے انداز میں کوئی فرق ہی نہیں، بلکہ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ان کی زندگی کا نقشہ تو کچھ ایسا ہے کہ ع
پاکستان کی ۶۳ سالہ تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا ہے کہ۲۰۰۹ء اور۲۰۱۰ء کے درمیان صرف ایک سال کی مدت میں ملک میں گندم اورآٹے کے استعمال اور کھپت میں ۱۰ فی صد کمی ہوئی ہے، یعنی لوگوں کو روٹی میسر نہیںہے۔ اس جائزے کے مطابق ایک بڑی تعداد وہ ہے کہ جنھیں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل میسر ہے۔ اس صورت حال کو نظر انداز کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔
مہنگائی کی صورت حال یہ ہے کہ۲۰۰۹ء میں مہنگائی کی شرح۹ئ۸ فی صد رہی،جو موجودہ برس میں تشویش ناک حد تک بڑھ کر ۵ئ۱۳ فی صد ہو گئی ہے اور اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ۵ئ۱۴ فی صد ہوا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام کی اوسط قوتِ خرید ۲۳ فی صد کم ہوئی ہے۔ستم بالاے ستم یہ ہے کہ موجودہ بجٹ میں سب سے زیادہ کٹوتی ترقیاتی بجٹ میں ہوئی ہے، یعنی ۴۰ فی صد کم کر دیا گیا ہے۔
بجلی اور توانائی کے بحران کے سبب قوم جس پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہے وہ تو اپنی جگہ جوں کی توں موجود ہے ،لیکن اس کا تشویش ناک نتیجہ یہ ہے کہ ملکی پیداوار میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔ گذشتہ دوسال کے عرصے میں ۱۳۳۲ صنعتی کارخانے بند ہوگئے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ۴۹ ملین افرادلیبر فورس کا حصہ ہیں اور حکومتی اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ دو برس کے دوران حددرجہ بے روزگاروں میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت کے مطابق اس وقت ۳۰ لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ لیکن اعدادوشمار کے ساتھ تکلیف دہ مذاق یہ کیا گیا ہے کہ جو۵۰ ملین لوگ برسر روزگار دکھائے گئے ہیں، ان میں سے ۴۵ئ۱۴ ملین بغیر تنخواہ کے ملازم ہیں ۔اگر لفظوں کی اس جادوگری کے سحر سے نکل کر دیکھا جائے تو دراصل ایک کروڑ ۷۰ لاکھ ۳۷ ہزار افراد بے روزگار ہیں۔ اس میں ۳۸ فی صد وہ ہیں جو ۱۰ سے ۲۵ سال عمر کے درمیان ہیں۔ یہ بے کاری اور معاشی ظلم ان اسباب و محرکات میں سے ایک ہے، جن کی وجہ سے نوجوانوں میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے رجحانات میںاضافہ ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ بجٹ نے ان حالات کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔
پبلک سیکٹر میں۲۶۰ ارب روپے کا خسارہ صرف چھے بڑے اداروں میںہوا ہے۔ جس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ان منافع بخش اداروں کو من پسند اور نااہل افراد کو نوازنے کا ذریعہ بنالیا گیا، جنھوں نے بدنظمی، بداحتیاطی اور اقربا نوازی سے دو سال کے اندر اندر ان اداروں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، اور اب ان اداروں کو بیچ کھانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔اس وقت دنیا کو جو معاشی بحران درپیش ہے، اس کی بڑی وجہ نجی اداروں کی آزادانہ اور بلا روک ٹوک پالیسیاں ہیں جس کے نتیجے میں عالمی معیشت میں صرف دو سال میں ۹ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ اس لیے معیشت کو آنکھیں بند کرکے محض منڈی (market) کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑا جاسکتا اور نہ ہرمسئلہ کا حل نج کاری (Privatization) ہی ہے۔ معیشت کے میدان میں حکومت کا ایک مثبت کردار بہت ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے کردار کے ذریعے سے نہ صرف معاشی بڑھوتری کو یقینی بنائے بلکہ قومی مقاصد اور اسٹرے ٹیجک ضروریات کے حصول کو یقینی بنانے کا بھی خیال رکھے۔ اس لیے ہمارا ماڈل نج کاری کے بجاے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ہونا چاہیے۔
قومی معیشت کی ایک نہایت خطرناک شکل اندرونی و بیرونی قرضو ں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ ہمارے بیرونی قرضے ۴ہزار ارب روپے ہیں، لیکن ہمارے لیے اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ہمارے اندرونی قرضے بھی اب ۴ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اس طرح ملک پرقرضوں کا مجموعی بار ساڑھے آٹھ ہزار ارب روپے ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستانی قوم کو تقریباً ساڑھے چھے سے سات ارب ڈالر مبادلہ کی شکل میں سالانہ بیرونی اقوام اور اداروں کو ادا کرنا پڑ رہا ہے اور اس وقت بجٹ میں اخراجات کی سب سے بڑی مد قرضوںپرسود کی ادایگی پر خرچ ہورہی ہے، جو ۷۵۰ ارب روپے سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ اگر ہماری قرض خوری اور فاقہ مستی کی کیفیت یہی رہی تو آیندہ اس غریب قوم کے دیے ہوئے ٹیکسوں کی آمدنی کا نصف سے بھی زیادہ صرف قرضوں کی ادایگی کی نذر ہوجائے گا اور بیرونی قرضوں کوادا کرنے کے لیے مزید نئے قرضے لینے ہوں گے۔
اس خطرناک ترین صورتِ حال میں بھی حکومت کے پاس بظاہر یہی ایک حل ہے کہ مزید قرض حاصل کر کے پہلے سے واجب الادا قرض ادا کر دیا جائے۔ یہ معاشی خودکشی کا راستہ ہے۔ اس بجٹ میں کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ خود انحصاری بھی ہماری ترجیحات میں کہیں شامل ہے۔معلوم ہوتا ہے اپنی معاشی خودمختاری کھو دینے کے بعد اب ہم اپنی سیاسی خود مختاری کا سودا بھی کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔
’دہشت گردی کے نام پر امریکی جنگ‘ میں امریکا نے ہمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، جس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانا بھی مشکل ہے۔ شماریاتی جائزے کے مطابق ملک کا صرف معاشی نقصان ہی۴۳ ارب ڈالر ہے، یعنی ۳ہزار ۷ سو ارب روپے جو ہمارے اس سال کے پورے بجٹ سے بھی ۲۵ فی صد زیادہ ہے۔ بیرونی ممالک سے پاکستان کو صرف ۱۵ارب ۵۰ کروڑ ڈالر ملے ہیں، جن میں سے ۱۰ ارب ڈالر سروس چارجز کی مد میں ہیں۔ اس طرح درحقیقت پاکستان کو اس عظیم، سیاسی، سماجی اور معاشی نقصان کے بدلے صرف ساڑھے پانچ ارب ڈالر ملے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں اس ملک کے غریب عوام نے امریکا کی ہوس کے لیے ۳۷ ارب ڈالر کا بوجھ اٹھایا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں ہی کا خون بھی بہایا گیاہے۔ہم نے اپنے ۱۳۰۰ فوجی اور۳۵۰۰ سویلین امریکا کی راہ میں قربان کیے ہیں۔ ہمارے ۳ہزار فوجیوں اور ۱۲ہزار عام شہریوں نے جسمانی زخم اٹھائے ہیں، جب کہ روح تو ہر فرد کی زخمی ہے۔اس کے باوجود امریکا کے دبائو میں وزیرستان، پنجاب، کراچی اور کوئٹہ میں بھی فوجی کارروائی شروع کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ جب تک ہم آنکھیں کھول کر پاکستان کے مفاد میں آزاد معاشی و سیاسی حکمتِ عملی وضع نہیں کریں گے، حالات میں مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔ پارلیمنٹ نے یہی بات اپنی ۲۲؍اکتوبر۲۰۰۸ء کی قرارداد میں واضح الفاظ میں اور متفقہ طور پر کہی تھی لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہورہا۔
ٰٰٓٓایک طرف تو یہ روح فرسا حقائق ہیں اور دوسری طرف شاہ خرچیوں کا یہ عالم ہے کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء کے مالی سال میں ۳۵۰ ارب روپے طے شدہ بجٹ سے زیادہ خرچ کیے گئے ہیں۔ لاکھوں نہیں، اربوں روپے اشتہار بازی کی نذر کیے گئے ہیں۔اربوں روپے وی آئی پی کلچر کر فروغ دینے اور اپنے مکانات کی تعمیر اور تزئین و آرایش پر خرچ کیے گئے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومت کے صواب دیدی اختیارات ختم کیے جائیں۔اپنے منظورکردہ بجٹ پر عمل درآمد کروانا بھی پارلیمنٹ کا ہی کام ہونا چاہیے۔ کسی بھی شعبے یا وزارت کو بجٹ سے زیادہ وسائل درکار ہوں تو پارلیمنٹ اس کی منظوری دے۔اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انتظامیہ کے اس اختیار کو فی الفور ختم کیا جائے کہ وہ جب چاہے، اور جس مد میں چاہے، پارلیمنٹ کے منظورشدہ بجٹ سے زیادہ رقوم خرچ کرسکے۔ کوئی خرچ پارلیمنٹ کی پیشگی منظوری کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم نے سال کے شروع میں اعلان کیا تھا کہ ان کے دفتر کا خرچ ۴۰فی صد کم کیا جائے گا لیکن بجٹ کی جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں ،ان میں یہ خرچ۴۰ فی صد کم ہونے کے بجاے ۲۰ فی صد بڑھ گیا ہے اور اگلے سال اس میں مزید ۱۴فی صد اضافہ کیا جا رہا ہے۔اس وقت بہت ضروری ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم اور اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کی جائے ۔ جب تک اہلِ ثروت کو اللّوں تللّوں کی کھلی چھوٹ دی جاتی رہے گی ہم عام آدمی کی مشکلات کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ صدر و وزیرِ اعظم کے بیرونی دوروںاور دعوتوں سمیت اسراف اور فضول کرچی کی تمام عادات کو ترک کیا جائے۔یہ قاعدہ بنا دیا جائے کہ عام حالات میں پانچ افراد اور غیر معمولی حالات میں زیادہ سے زیادہ ۱۰ افراد کسی بھی بیرونی دورے پر جائیں گے۔ بنکوں اور انشورنس کے اداروں نے بے تحاشا منافع کمایا ہے، ان پر زیادہ ٹیکس لاگو کیے جائیں۔ سینیٹ بار بار اس کی طرف متوجہ کرتا رہا ہے کہ مالیاتی اداروں پر کم از کم ۴۰ فی صد کارپوریٹ ٹیکس لگنا چاہیے۔ اسی طریقے سے ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر کو حکومتی وسائل پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ۔ جب تک حکومتی دعوے یا خواب جو وزیرخزانہ نے دکھائے ہیں،انھیں پورا کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جائیں گے ، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایات کی روشنی میں ہم macro معاشی اشاریوں میں استحکام لانے کے لیے کوشاں ہیں، لیکن جب تک ہماری شرحِ پیداوار میں اضافہ نہ ہو اس وقت تک حقیقی استحکام اور ترقی ممکن نہیں۔ اس لیے جب تک شرحِ پیداوار میں اضافے، غربت میں کمی اور روزگار میں اضافہ کی حکمتِ عملی اختیار نہیں کی جائے گی، ہم اپنی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں کرسکیں گے۔
حکومت نے ہمیںسال رواں کے باب میں ۱ئ۴ فی صد شرحِ نموکی خوش خبری سنائی ہے، جو محض کاغذی کاری گری اور سراسر دھوکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱ئ۴فی صد شرحِ ترقی ظاہر کرنے کے لیے سب سے پہلے ۰۸-۲۰۰۷ء کی شرحِ ترقی کو کم کیا گیا ہے۔ اسے پہلے ۱ئ۴ سے ۷ئ۳ اور پھر ۲ئ۳ کیا گیا۔ اسی طرح ۰۹-۲۰۰۸ء کے اعداد وشمار کو بھی تبدیل کیا گیا۔ ان کو ۲ کے بجاے ۲ئ۱فی صد پر لے جایا گیا۔ اس تمام کاغذی ’کارناموں‘ کے بعد حالیہ سال کی شرحِ نمو کو۳ فی صد بڑھا کر۱ئ۴ فی صد قرار دیا گیا، جب کہ حقیقت میں یہ۳ فی صد بھی نہیں ہے۔ لطف کی بات ہے کہ اس دعوے کے ساتھ جو ۵ جون کی تقریر میں کیا گیا ہے، دوسری حکومتی دستاویزات بالکل دوسری تصویر پیش کر رہی ہیں۔
خود پاکستان نے ۳ مئی۲۰۱۰ء کو آئی ایم ایف کوجو سرکاری یادداشت پیش کی ہے اس میں یہ توقع ظاہر کی گئی تھی کہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی حقیقی شرحِ نمو ۳ فی صد تک ہوجانے کا امکان ہے اور جون ۲۰۱۰ء میں، یعنی بجٹ کے اعلان سے صرف چند دن پہلے خود آئی ایم ایف کی پاکستان پر رپورٹ میںبھی متوقع شرح نمو کو ۳فی صد دکھایاگیاہے۔ تمام عالمی رپورٹوں میں یہی بات دہرائی گئی ہے۔ آخر یہ دودن میں کیا ماجرا ہوگیا ہے کہ۳ فی صد کی متوقع شرح سے بڑھ کر یہ ۱ئ۴ فی صد ہو گئی ہے، حالانکہ توانائی کے بحران کے نتیجے میں جی ڈی پی میں ۲ فی صد کمی ہوئی ہے۔ نجی سرمایہ کاری میں ۵ئ۳ فی صد اور براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں ۴۶فی صد کمی ہوئی ہے۔ ہماری حکومتیں جب تک خودفریبی اور قوم کو طفل تسلیاں دینے کی روش سے باز آکر حقائق کا سامنا نہیں کریں گی، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے۔
قومی زندگی کے چار بنیادی شعبہ جات تعلیم ، صحت ،تحقیق و ترقی اور انسانی وسائل کی ترقی، معاشی ترقی اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ان چاروں کے حوالے سے حالیہ بجٹ اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کسی مثبت پیش رفت میں قطعی ناکام نظر آتا ہے۔ جب تک ان کے لیے وسائل فراہم نہیں کیے جائیں گے، اس وقت تک معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر ایک بہت بڑی نعمت ہیں۔ہمیں ہر سال ۷ سے۸ ارب ڈالر اس ذریعے سے وصول ہو رہے ہیں۔مقامی مارکیٹ میں اس رقم کے آنے سے طلب کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ہماری پیداوار ناکافی ہے۔ اس کی وجہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔عام پیداواری صلاحیت میں کمی کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبے میں بھی ملک خسارے کا شکار ہے۔ توانائی کے بحران نے زرعی ضروریات (inputs) کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے اور اس وقت ہم چھوٹی اور بڑی، تمام فصلوں کی پیداوار میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ زرعی شعبے کے حوالے سے جو چند مثبت اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں وہ صرف اس وجہ سے ہیں کہ مویشیوں کی افزایش (لائیو سٹاک) کو بھی اسی ضمن میں گِنا جاتا ہے، جس میں کارکردگی نسبتاً بہتر رہی ہے۔ تاہم لائیو سٹاک کے شعبے پر بھی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔
پاکستانی معیشت کے تمام تر تجزیوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمیں اپنی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا جو کہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک سرمایہ کاری اور بچت کے رجحان میں اضافہ نہ ہو، لیکن موجودہ استحصالی پالیسیوں کے ساتھ ایسا ممکن نہیں ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے جس شرحِ سود کو بنیادی شرح (base-line) مقرر کیا ہے، وہ ساڑھے بارہ فی صد ہے۔مارکیٹ میں یہی شرحِ سود ۱۵ سے ۱۸ فی صد ہو جاتی ہے۔ہم ہر طرح کے سود کے شدید مخالف ہیں، لیکن ہمارا مالیاتی نظام بنیادی طور پر اس استحصالی نظام کو مزید استحصال کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بنک کے ساڑھے بارہ فی صد شرحِ سود کے مقابلے میں امریکا میں شرحِ سود ۲۵ئ۰ فی صد، برطانیہ میں ۵۰ئ۰ فی صد،بقیہ یورپ میں ایک فی صد، جاپان میں ۱ئ۰ فی صد، کینیڈا میں ۲۳ئ۰ فی صد، آسٹریلیا میں ۵ئ۴ فی صداور چین میں۳ئ۵فی صد ہے۔ خود ہمارے خطے میں بھارت میں شرحِ سود ۲۵ئ۵فی صد، ملائشیا میں ۲ فی صد، انڈونیشیا میں ۲ئ۲ فی صد، فلپائن میں ۵ئ۶ فی صد، تھائی لینڈ میں ۴ فی صد، نیوزی لینڈ میں ۲ئ۱ فی صد ہے۔ جب سرمایہ کاری مہنگی اور مشکل ہو، مراعات موجود نہ ہوں، ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے لیے وسائل فراہم نہ کیے جائیں اور سبسڈیز واپس لے لی جائیں تو پیداوار میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے۔
محصول اضافہ قدر (VAT)نافذ کرنے کا فیصلہ حکومت نے آئی ایم ایف سے اپنے ایک معاہدے میں مارچ ۲۰۰۹ء میں کر لیاتھا (ویلیو ایڈڈ ٹیکس، ایک عمومی ٹیکس ہے جو ہر طرح کی اشیا اور خدمات پر، بنیادی پیداوار سے لے کر آخری صارف تک لگایا جاتا ہے۔ یہ ایک بالواسطہ ٹیکس ہے، جس کی زد ہرسطح پر پڑتی ہے) لیکن اس حوالے سے کوئی بنیادی اورضروری اقدامات نہیں کیے گئے جس سے قوم کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ پھر اپنے ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو بھی اس قابل نہیں بنایا گیا کہ اسی ذریعے سے کسی حقیقی فائدے کی توقع رکھی جاتی۔ اس وقت پاکستان کے عوام پر لاگو بالواسطہ ٹیکس ۶۲ فی صد ہیں، جب کہ بلاواسطہ ٹیکس صرف ۳۸ فی صد ہیں۔
ویٹ ایک رجعی ٹیکس (regressive) ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس سکیم میں دولت مند طبقے کے بجاے عام افراد کو ٹیکس کا ہدف رکھا گیا ہے جو سراسر استحصال ہے۔ جب تک اس طرزِ عمل کو بدلا نہیں جائے گا، یہ نظام ٹھیک نہیں ہوگا۔ اسی طرح حکومت نے اس بجٹ میں سیلز ٹیکس میں ایک فی صد اضافہ کر دیا ہے، گویا موجودہ حکومت کے آنے کے بعد جنرل سیلز ٹیکس میں ۲ فی صد اضافہ ہواہے۔ اس ٹیکس کا سارا بوجھ تو ملک کے ۸۰ فی صد عوام پر ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ اس ٹیکس سے جو آمدنی ہوگی، اس سے کہیں زیادہ آمدنی صرف درآمدات پر ٹیکس میں دانستہ نظراندازی اور ہیرپھیر کا رویہ (evasion) اختیار کیا جا رہا ہے، اسے روک کر ہی کی جاسکتی ہے۔ حالیہ معاشی سروے کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف درآمدی مال میں ۱۰۰سے ۳۰۰ارب روپے سالانہ کا ٹیکس چوری کیا جا رہا ہے۔ ان امرا سے ٹیکس وصول کرنے کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔
کرپشن اور بدعنوانی کا حال یہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ہونے والی کرپشن کا اندازہ ۲۰۰ سے ۲۵۰ارب روپے سالانہ کا ہے، جب بعض آزاد تجزیہ نگاروں کے اندازے کے مطابق ہر سال ۶۰۰سے۷۰۰ ارب روپے ٹیکس چوری کیا جا رہا ہے۔ اگردستیاب وسائل کو درست انداز میں حاصل کرلیں اور کرپشن پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے، تو ملک کو قرض کی لعنت سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔عالمی بنک کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ۱۰برسوں میں کرپشن ۴۰۰فی صد بڑھی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق صرف پچھلے ایک سال میں کرپشن میں ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود حکومت اب تک کرپشن کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی میں ناکام رہی ہے بلکہ جو قانون زیرِغور ہے وہ دراصل کرپشن کی سرپرستی اور بدعنوان عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے کا فارمولا ہے۔ بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف عوام اور میڈیا چیخ رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مَس نہیں ہو رہی۔ دُور دُور تک گُڈ گورننس کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ مالیاتی نظم و ضبط کا کہیں وجود نہیں ہے۔ملکی سلامتی و خود مختاری تک داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ان حالات میں وفاقی بجٹ مایوس کن ہے۔
حکومت کی طرف سے کم از کم تنخواہ ۶ ہزار سے بڑھا کر ۷ہزارروپے کرنے کا اعلان بظاہر خوش کُن، لیکن درحقیقت امتیازانہ ہے۔ اگر گریڈ ایک سے گریڈ ۲۲ کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ۵۰ فی صد اضافہ کیا جا رہا ہے تو کم از کم تنخواہ میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیوں نہیں کیا جا رہا۔پھر تمام ملازمین کے لیے ۵۰ فی صد کا اضافہ بلا جواز ہے۔ پہلے گریڈ سے ۱۶ویں گریڈ تک کے سرکاری ملازمین کو ۶۰فی صد اور گریڈ ۱۷ اور اس سے بالائی گریڈ زکو ۴۰ فی صد اضافہ ملنا چاہیے تاکہ معاشی ناہمواری میں کمی ہو۔ اگر گریڈ ۱۷ سے گریڈ۲۲ تک کے ملازمین کو۵۰فی صد دینا ضروری ہو، جب بھی ضروری ہے کہ پہلے گریڈ ایک سے ۱۶ویں گریڈ تک کے ملازمین کو ۶۰ سے۶۵ فی صد تک کا اضافہ دیا جائے۔ اسی طرح گیس پر۵ فی صد اضافی سرچارج بھی قطعاً بلا جواز ہے۔ اسے ختم ہونا چاہیے اور سیلزٹیکس بھی ایک فی صدی کا مزید اضافہ ایک ظالمانہ اقدام ہے اور اسے بھی ختم کیا جانا چاہیے۔
اصولی طور پر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جو ملک بھی آئی ایم ایف کی گرفت میں آیا ہے، وہ کبھی ترقی نہیں کرسکا۔ آئی ایم ایف کا اصل کام ملک کی ادایگیوں کے توازن میں مدد کرنا تھا جسے اب قرض لینے والے ملک کی پوری معاشی پالیسی اور خصوصیت سے بڑے پیمانے پر استحکامی پالیسی (macro stabilization) کے نام پر ایسی پابندیوں کے شکنجے میں کسنا ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں ضروریاتِ زندگی پیدا کرنے والے شعبوں کی مدد (subsidy) کو ختم کرنے اور تمام خدمات کی قیمتوں کو بڑھانے اور منڈی کی حکمرانی قائم کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔
نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جوزف سٹک لٹز(Joseph Sticlets) نے دنیا کے ۴۰سے زیادہ ممالک کی معیشت پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی ایک ملک میں بھی اس کی مسلط کردہ پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی حاصل نہیں ہوسکی۔
افسوس کا مقام ہے کہ ہم انھی ناکام پالیسیوں کو اپنے ملک پر ایک بار پھر مسلط کرنے کی حماقت کر رہے ہیں۔ ملک کی معاشی ترقی اور سیاسی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل کی جائے لیکن اس حکومت نے جناب شوکت ترین کے دور میں صدر آصف علی زرداری کے احکام کے مطابق جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ معاشی تباہی اور مسلسل قرضوں کے بار میں اضافے کا راستے ہے اور یہ قرض بھی اس لیے مل رہے ہیں کہ ہم امریکا کے حکم پر اپنی خارجہ پالیسی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک قبیح کردار ادا کر رہے ہیں۔
اگر ہم آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی جسارت کریں گے تو آئی ایم ایف اسی دن لال جھنڈی دکھا دے گا اور ہم ایک عظیم تر بحران کی گرفت میں ہوںگے۔ کاش! ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اوراس تباہ کن پالیسی کوتبدیل کریں۔
اس ملک میں وسائل کی کمی نہیں۔ اصل کمی پالیسی کے صحیح وژن، اپنی قوم اور اپنے وسائل پر بھروسا، بُری حکمرانی (bad governance) اور کرپشن کا خاتمہ اور معاشی ترقی کا وہ آہنگ اختیار کرنا ہے جو ترقی کی رفتار کے ساتھ عوام کی خوش حالی، دولت کی منصفانہ تقسیم اور ملک کی پوری آبادی کو صحت مند معاشی جدوجہد میں شریک کرنے کا ذریعہ بنے۔ جب تک معاشی ترقی کا مثالیہ (paradigm) تبدیل نہیں ہوگا ہم ایک بحران کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہوتے رہیں گے اور عوام کی زندگی اجیرن رہے گی۔ موجودہ حکومت معیشت کی صحیح سمت میں رہنمائی کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے جس کے نتیجے میں عوام کی تکالیف اور معاشی مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور اندر ہی اندر وہ لاوا پک رہا ہے جو پورے نظام کو خدانخواستہ ایک دھماکے سے اُڑانے کا باعث ہوسکتا ہے۔ ہم پوری دردمندی سے ملک کی پوری قیادت سے اپیل کریں گے کہ معاشی خودکشی اور سیاسی محکومی کے اس راستے کو ترک کریں، صحیح اہداف کا تعین کریں، اپنی ترجیحات کو ازسرنو ترتیب دیں، عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں، ترقی کا رُخ اور وسائل کے استعمال کی سمت کو تبدیل کریں، اور پاکستان میں اسلام کے دیے ہوئے معاشی اصولوں اور اقدار کی روشنی میں پالیسی سازی اور زندگی کے ہر شعبے کی صورت گری کریں۔ پاکستان کی بقا، نجات اور ترقی کا یہ واحد راستہ ہے۔ ابھی موقع ہے کہ ہم اپنی پالیسی، اپنے رویوں اور اپنے وسائل کے استعمال کے طریقوں کو تبدیل کریں۔ اس صورت میں ہم چند سال میں ملک کی قسمت کو بدل سکتے ہیں۔