ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی ہے___ صہیونی ریاست کے دشمن ہی نہیں، اس کے دوست بھی دہائیاں دینے لگے ہیں کہ صہیونی ریاست کو باقی رکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔ سرزمین فلسطین سے اس کے اصل باشندوں کو دنیا بھر کی خا ک چھاننے پر مجبور کردینے، لاکھوں انسانوں کو تنگ و تاریک اور متعفن مہاجر کیمپوں میں محبوس کردینے اور لاکھوں کو غزہ و مغربی کنارے میں محصور کردینے کے بعد، وہاں قائم کی جانے والی نام نہاد ریاست کیا واقعی اپنے خاتمے کے سفر کا آغاز کرچکی ہے؟
یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ اپنے تئیں کچھ ’دُور اندیش‘ مسلمان حکمرانوں میں دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ہر کوئی اس ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے دلیلیں گھڑ رہا تھا۔ پاکستان میں امریکی جنگ کے پشتی بان جنرل پرویز مشرف بھی اپنے وزیر خارجہ کو اس اُمید سے خلافت عثمانیہ کے آخری مرکز بھیج رہے تھے کہ صہیونی استعمار کا دل جیت سکے۔ کئی پاکستانی جبہ پوش بھی بیت المقدس کی زیارت کے بہانے چوری چھپے جاکر وہاں عملاً اسرائیلی قبضہ تسلیم کرنے کا اعلان کررہے تھے۔ بہت سے نام نہاد دانش ور اپنے دانش گریز ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے، اسرائیل سے دوستی کو امریکی اعتماد حاصل کرنے اور بھارت کے مقابلے میں زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے کا آسان راستہ بتارہے تھے۔ صہیونی قلم کار اور پالیسی ساز دنیا بھر کو ان کی حیثیت کے طعنے دے رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا ’’پاکستان سمیت سب مسلمان ممالک ہم سے اس لیے دوستی چاہتے ہیں کہ امریکا جانے کے لیے ہم ٹکٹ گھر کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔ مصر اور اُردن جیسے پڑوسی ممالک اپنے عوام کے منہ سے نوالے چھین کر ناجائز صہیونی انتظامیہ کی ناز برداریاں کررہے تھے۔ ان دونوں ملکوں نے اس سے ایسے معاہدے کررکھے ہیں، جن سے خود ان کی اپنی کپڑے کی صنعت تباہ ہورہی ہے۔ مصر اب بھی اسرائیل کو اپنے عوام کی نسبت ۹۰ فی صد کم قیمت پر قدرتی گیس فراہم کررہا ہے۔ غزہ میں تو اور بھی ناقابلِ یقین صورت حال سامنے آتی ہے۔ تین اطراف سے سفاک صہیونی دشمن نے ایک مدت سے ۱۵لاکھ انسانوں کو محصور کر رکھا ہے۔ مسلمان، عرب اور پڑوسی ہونے کے باوجود مصر نے چوتھی طرف سے اس سے بھی کڑا محاصرہ کر رکھا ہے۔ تھوڑا بہت غذائی سامان یا ادویات لے جانے کے لیے کھودی جانے والی سرنگوں کو بند کرنے کے لیے ’غزہ مصر سرحد‘ کے درمیان ۹۰فٹ گہری زیر زمین فولادی دیوار کی تفصیل آپ انھی صفحات پر ملاحظہ کرچکے ہیں۔ غزہ پر مسلط کی جانے والی مہلک ترین صہیونی جنگ کے دوران میں اسے ملنے والی مصری پشت پناہی اور فلسطینی زخمیوں تک کو بھی مصر آنے نہ دینے کی داستانیں بھی دل دہلا دینے والی ہیں۔ لیکن یہ کیسا مسلمان، کیسا عرب اور کیسا ہمسایہ ملک ہے کہ ادھر اسرائیل، غزہ جانے والے قافلہء حریت پر ہلہ بول رہا تھا، اور دوسری طرف مصری انتظامیہ غزہ اور مصر کے مابین بچی کھچی سرنگوں میں زہریلی گیسیں چھوڑ کر امدادی سامان لے جانے والے کارکنان کو شہید کررہی تھی۔
غزہ میں طبی امداد مہیا کرنے کے منتظم ادھم ابو سلمہ کے بقول اب تک ۴۰ فلسطینی شہری مصر کی ان زہریلی گیسوں سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان کے بقول مجموعی طور پر ان سرنگوں میں اب تک ۲۴۵ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ دیگر افراد کو ان سرنگوں پر گولہ باری کرکے یا بلڈوزروں سے سرنگیں ڈھا کر شہید کیا گیا ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں شہید ہوجانے کے باوجود، فلسطینی نوجوان آخر کیوں سرنگیں کھودنے اور ان میں کود جانے پر اصرار کر رہے ہیں؟ دنیا اس سوال کا جواب بخوبی جانتی ہے۔ لیکن اسرائیل کی ناز برداریوں میں مدہوش مصری حکومت کو ان سوالات کی کوئی پروا نہیں ہوگی، لیکن خود اسرائیل کے اندر سے اُٹھنے والی آواز بہت سے افراد اور حکومتوں کا نشہ ہرن کردینے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ آیئے، ایک نظر صرف گذشتہ دو روز کے اسرائیلی اخبارات پر ڈالتے ہیں۔
’نیتن یاہو کے کھیل‘ کے عنوان سے معروف یہودی تجزیہ نگار عکیفادار نے لکھا ہے: ’’جس بچے نے بھی سائیکل چلانے کا تجربہ کیا ہے وہ جانتا ہے کہ اگر پیڈل چلانا بند کر دیا جائے تو سائیکل سوار بالآخر گر جاتا ہے۔ اگر اسرائیلی حکمران نے فلسطینیوں کے ساتھ دو متوازی ریاستوں کی تشکیل کے لیے مذاکرات بند کردیے تو وہ اپنے پوتوں کا نہیں اپنے بیٹوں کا مستقبل بھی تاریک کر دے گا‘‘۔ (ھآرٹز، ۲۱جون ۲۰۱۰ئ)
’ترکی فلم کے مطابق زندگی‘ کے عنوان سے روزنامہ یدیعوت احرونوت اپنے اداریے میں لکھتا ہے: ’’ہم جنگ کے عروج پر ہیں اور ہم یہ جنگ ہار رہے ہیں، اس لیے نہیں کہ ہم کمزور ہیں، احمق ہیں یا غیرمنصف ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہم عقلی اور تنظیمی اعتبار سے خود کو کھیل کے نئے ضابطوں کے مطابق نہیں ڈھال سکے… جن کتابوں میں اسرائیل کے خاتمے کی بات لکھی جاتی ہے ان میں تین اہم پہلو بیان کیے جاتے ہیں: ۱- اقتصادی جنگ جس میں اسرائیلی سامان کا بائیکاٹ، سیاحت کی ناکامی، اسرائیل کے دفاع اور امن و امان پر بیش بہا اخراجات شامل ہیں۔ ۲-سیاسی اور نفسیاتی جنگ، جس میں اسرائیل سے اس کا حق وجود چھین لیا جائے۔ حالیہ بحری قافلے اسی کا حصہ تھے، اور ۳-عسکری لحاظ سے اسرائیل کو کمزور و دیمک زدہ کرنا۔ ہمارے دشمن پہلے دونوں پہلوئوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے والے بھی انھی دو میدانوں سے ہونے چاہییں نہ کہ فوج اور اس کے ترجمان… ترکوں نے ہمارے لیے فلم کا منظرنامہ تیار کرکے پیش کیا ہے اور ہم نے ترک پروڈیوسر کی مرضی کے مطابق اس فلم میں اپنا کردار ادا کرڈالا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج پوری دنیا آنسو بہاتے ہوئے ہم سے اظہارِ نفرت کر رہی ہے‘‘۔ (یدیعوت، ۲۰جون ۲۰۱۰ئ)
روزنامہ ھآرٹز میں ’ایہود! صبح بخیر‘ کے عنوان سے بوئیل مارکوس لکھتا ہے: ’’اب ہم اس آخری حد کے انتہائی قریب آپہنچے ہیں، جہاں ہم پر کوئی اور فارمولا ٹھونسا جائے گا۔ لڑھکنیوں کے اس سفر سے نکلنے کا اب صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ (اپوزیشن) کادیما پارٹی کو بھی ساتھ ملائیں، دو الگ الگ ریاستوں (اسرائیل اور فلسطین) پر مشتمل حل پر عمل کریں اور سارے کوڑھ اور برص زدہ لوگوں کو اپنی پشت سے اُتار پھینکیں‘‘۔ (۲۰ جون ۲۰۱۰ئ)
’مزید بحری قافلے‘ کے عنوان سے سمڈار بیری لکھتا ہے: ’’گذشتہ مرحلے میں بلاشبہہ حماس کامیاب رہی ہے، ساری دنیا ہمیں مطعون کررہی ہے۔ سفینے کے بارے میں ہماری جاری کردہ وڈیو فلموں کو کسی نے قابلِ توجہ نہیں سمجھا، آخر اب ہماری بات کون سنے گا… آج صورت یہ ہے کہ خود روشن خیال دنیا بھی حماس سے مذاکرات کرنے پر اصرار کررہی ہے۔ مصر ہمارا حلیف ہے،وہ خود غزہ کے گرد مضبوط دیوار تعمیر کر رہا ہے، لیکن اب وہ بھی اسرائیل سے حصار ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے… دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے، جو تین سمندری بارودی سرنگوں (نئے آنے والے تین نئے بحری قافلوں) کے مقابلے میں کامیاب ہوجائے۔ اگر کسی کو پاگل پن کا دورہ پڑا ہوا ہے، تو اسے اپنے ان بھیانک خوابوں کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک وسیع تر جنگ بھڑک اُٹھنے کے امکانات پر بھی غور کرلینا چاہیے‘‘۔(یدیعوت احرونوت، ۲۰ جون ۲۰۱۰ئ)
’اسرائیلی نیشنلسٹ کیا چاہتا ہے‘ کے عنوان سے جدعون لیوی ۲۱ جون کے روزنامہ میں لکھتا ہے: ’’اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ دنیا ہم سے غیرمشروط اور غیرمحدود محبت کرے، ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ پوری دنیا کا مذاق اڑائے، عالمی اداروں، اس کے قوانین اور اس کے نظریات کے منہ پر حقارت سے تھوک دے۔ وہ ترکی سے فعال سیاحت کا معاہدہ چاہتا ہے، لیکن ترکی کی کسی بات پر کان بھی نہیں دھرنا چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ غزہ پر سفید فاسفورس کے بم برسا کر دنیا سے کہے کہ یہ تو خوش گوار سفید بارش ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا بھی اس کے ساتھ یہی گنگنانا شروع کردے‘‘۔
’قافلۂ حریت جیت گیا‘ کے عنوان سے الوف بُن نے لکھا ہے: ’’ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان اب اپنی کامیابی کا بڑا سا نشان بلند کرسکتا ہے۔ غزہ جانے والا ترکی کا قافلہ غزہ تو نہیں پہنچ سکا، لیکن اس نے اپنا ہدف حاصل کرلیا ہے۔اس نے حماسستان کے گرد کھڑی کی گئی اسرائیلی حصار کی دیواریں منہدم کردی ہیں… اب اسرائیل میں مزید قافلوں کا انتظار ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حصار میں کچھ کمی کرکے، اسرائیل اپنے حق میں سفارتی کوششوں کا جواز حاصل کرے گا، لیکن اگر یہ خوش فہمی برمحل بھی ہو، تب بھی حکومت نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ نیتن یاہو نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کیے اور بہت بڑا دبائو آجانے کے بغیر وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا‘‘۔ (ھآرٹز، ۲۱جون ۲۰۱۰ئ)
’انھیں تحقیقاتی کمیٹی دے دو‘ کے عنوان سے ٹسیفی بارئیل نے تحریر کیا ہے: ’’جب غزہ پر حصار عائد کیا گیا اس وقت یہ لوگ کہاں تھے۔ اقوام متحدہ کے شان دار حقوق انسانی کے چارٹر پر دستخط کرنے والے یہ سب اُس وقت کہاں تھے، جب یہ حصار لوگوں کا دم گھونٹنے میں کامیاب ہوگیا؟ اسرائیلی بے وقوفیوں کا جائزہ لینے کے لیے بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی کا قیام زائد از ضرورت شغل ہے۔ یہ کام بھی کسی بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی کا نہیں کہ وہ ترک باشندوں کے قتلِ عام کی تحقیق کرے، یہ کام ترکی اور اسرائیل مل کر کرسکتے ہیں۔ بین الاقوامی کمیٹی کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسرائیل یہ تباہ کن پالیسی نافذ کرنے کے لیے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کیسے کامیاب ہوگیا؟ یہ لوگ ۱۵لاکھ انسانوں کا گلا گھونٹنے کے لیے کیسے چل نکلے؟ (ھآرٹز، ۲۰جون ۲۰۱۰ئ)
یہ اور اس طرح کے لاتعداد کالم، مقالے اور اداریے دنیا بھر کی اخبارات میں شائع ہورہے ہیں، لیکن یہاں صرف اسرائیلی اخبارات سے چند اقتباسات دیے گئے ہیں، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ خود اسرائیل کے اندر ماحول کیا اور کیسا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ اخبارات بھی سانحہ گزر جانے کے تین ہفتے بعد کے ہیں۔ اس وقت دنیا میں خود یہودیوں کی ایک بڑی تعداد، اسرائیلی ریاست سے نجات حاصل کر کے اپنے یہودی بھائیوں کو بچانے کے لیے میدان میں آچکی ہے۔ ان یہودی علما، یہودی دانش وروں اور سیاسی رہنمائوں کے بقول اسرائیلی ریاست کا وجود بالآخر پوری یہودی آبادی کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ ان کے بقول ان کی مذہبی کتب میں بھی واضح طور پر لکھا ہے کہ یہودیوں کی حتمی تباہی سے پہلے دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے گا، اسرائیل اس انتباہ کی عملی تصویر ہے۔
دوسرے درجے میں اسرائیل کی مخالفت وہ یہودی کر رہے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست کی پالیسیاں صرف اس کے ہی نہیں، دنیا میں تمام یہودیوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں اضافہ کرتی ہیں۔ یورپ میں ’جے کال‘ (J Call)نامی نوتشکیل یہودی تنظیم نے ’عقل کی پکار‘ کے عنوان سے اپنا بیان جاری کیا ہے۔ بیان میں یورپی یونین کے سیاست دانوں، ارکانِ پارلیمنٹ اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل پر اپنے دبائو میں اضافہ کرتے ہوئے اسے اپنی موجودہ پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کریں۔ دو معروف فرانسیسی دانش ور برنارڈ ہزی لیوی اور ایلن فنکل کرائوٹ اس نئی تنظیم کے روحِ رواں ہیں، اور معروف سیاست دان ڈینیل کون بنڈیٹ اور جرمنی میں سابق اسرائیلی سفیر آفی پریمور ان کے شانہ بشانہ ہیں۔
کئی بار اسرائیلی پارلیمنٹ کا اسپیکر رہنے والا اور ایک بڑے یہودی رِبی کا بیٹا ابرہام پورگ اپنی کتاب ہٹلر کے خلاف کامیابی میں لکھتا ہے: ’’صہیونی خواب کا خاتمہ ہمارے دروازوں کی دہلیز سے آن لگا ہے۔ اب خدشہ حقیقت میں ڈھل رہا ہے کہ ہماری نسل آخری صہیونی نسل ہوگی‘‘۔ پورگ کے بقول: ’’اسرائیل کے موجودہ حالات جرمنی میں ہٹلر کی آمد کے وقت کے حالات سے مشابہ ہوچکے ہیں، امپریلزم اور فتنہ و فساد کا اتحاد ریاست پر مسلط ہے‘‘۔
یہاں پر امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی وہ رپورٹ بھی ذہن میں رکھنا ہوگی، جس میں خدشہ و امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ ۲۰۲۰ء کے بعد دنیا میں اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہ رہے گی۔ یہ بات شہید شیخ احمد یاسین کی روح نہیں، خود سی آئی اے کہہ رہی ہے۔ شیخ شہید تو آج سے کئی برس پہلے فرما چکے کہ اکیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں صہیونی ریاست کی تجہیزو تکفین مکمل ہوجائے گی۔
اس طرح کے درجنوں یا سیکڑوں نہیں ہزاروں تجزیے اور تحریریں دنیا کو ایک نئے دور اور نئے عالمی نقشے کی خبر دے رہی ہیں۔ فی الحال موجودہ دور یقینا امریکی تسلط اور اس کی سرپرستی میں اسرائیلی جبروت کا دور دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل نے اسی غرور کا شکارہوکر ۴۰ کے قریب ممالک اور ان کے سیکڑوں اہم افراد کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ بین الاقوامی پانیوں میں کھڑے بحری جہاز پر حملہ کرتے ہوئے اس کی متکبر سیاسی و عسکری قیادت کو کوئی تردّد یا خدشہ لاحق نہ ہوا۔ ۱۰ترک باشندوں کو اس طور شہید کیا گیا کہ ان میں سے اکثریت کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے اور ان کے سر کے پچھلے حصے میں، قریب سے گولیاں چلائی گئی تھیں۔ جرم کیا تھا؟ صرف یہ کہ یہ ہماری عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوتے موت کے کنارے کھڑے ۱۵ لاکھ فلسطینیوں تک دوا اور غذا پہنچانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل اس زعم کا شکار تھا کہ ساری دنیا خوف زدہ بھیڑوں کی طرح اس کے سامنے ممیانے لگے گی اور آیندہ اس بھیڑیے کی سلطنت میں قدم نہ رکھنے کی قسمیں کھانے لگے گی، لیکن یہاں تو منظر ہی دوسرا ہے۔
ترکی میں ایک احتجاجی مظاہرے کا حال لکھتے ہوئے ایک عرب صحافی نے بیان کیا ہے: مجھے کسی سے اسرائیلی سفارت خانے کا پتا معلوم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ سارے پُرجوش قافلے ادھر ہی جارہے تھے۔ گائون، اسکارف، ہلکی داڑھیوں اور صوفیوں جیسے ڈھیلے ڈھالے لباسوں میں ملبوس لوگ تو تھے ہی، میرے سامنے جو نوجوان نعرے لگوا رہا تھا، اس نے گھٹنوں سے پھٹی ہوئی جینز پتلون، پیٹ تک کھلے بٹنوں والی شرٹ اور کانوں میں بالیاں پہنی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنے بالوں پر سپرے کر کے کسی نوک دار جھاڑی کی طرح انھیں سر پر کھڑا کیا ہوا تھا اور گلے میں بڑے سے لاکٹ پر دوست کا نام لکھا ہوا تھا۔ پورا مجمع اسی کی جانب متوجہ تھا، کیونکہ اس حلیے کے ساتھ وہ پوری قوت سے نعرے لگوا رہا تھا…’’ تکبیر اور پورا مجمع جواب دے رہا تھا: اللہ اکبر۔ اسلام و سیکولرزم، صوفی و مجاہد سب یک آواز تھے: اسرائیل مُردہ باد!‘‘
ترک حکومت نے اس پورے مسئلے کو جس طرح اپنی آیندہ پالیسیوں کا آئینہ دار بنایا ہے، اس نے عالمی سیاست کو ایک نیا رُخ دے دیا ہے۔ ترک وزیرخارجہ کے الفاظ میں یہ واقعہ ترکی کے لیے نائن الیون کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترک صدر اور وزیراعظم پورے عالمِ اسلام کے ہیرو اور اُمیدوں کا مرکز بن گئے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر سے کئی نئے قافلے غزہ جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ تین قافلے تو لبنان ہی سے جا رہے ہیں۔ جولیا، کنواری مریم اور ناجی العلی کے ناموں سے موسوم ان قافلوں میں سے ایک صرف خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ حضرت مریم سے منسوب سفینہ تمام مذاہب کے نمایندوں پر مشتمل ہے اور معروف فلسطینی کارٹونسٹ ناجی العلی شہید کے نام سے تیسرے سفینے میں دیگر افراد کے ساتھ مختلف فن کار بھی شامل ہیں۔ علامہ یوسف قرضاوی کی طرف سے علما کا ایک قافلہ لے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایک قافلہ ۱۵ سے ۱۸ سال کے بچوں کا تیار ہورہا ہے۔ اسلامی ارکانِ پارلیمنٹ کا عالمی اتحاد ایک قافلہ تیار کر رہا ہے، جس میں پاکستان سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی سربراہی میں بھی وفد شریک ہو رہا ہے۔ تین قافلے یورپی ممالک سے آرہے ہیں۔ ایران اور الجزائر سے قافلے تیاریاں کر رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران ’غزہ میں افطار‘ کے عنوان سے کئی نام… غرض ایک طویل فہرست ہے۔ سب کو گذشتہ قافلے میں جان قربان کردینے والوں کا حال معلوم ہے، لیکن جوش و جذبہ مزید توانا و جوان ہوگیا ہے۔
جوان ہی نہیں بوڑھے، مرد ہی نہیں خواتین، مسلمان ہی نہیں مسیحی و یہودی، سب اسرائیل کے مظالم پر سراپا احتجاج ہیں۔ گذشتہ ۵۰ سال سے امریکی وائٹ ہائوس میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے والی ۸۰سالہ باوقار خاتون ہیلن تھامس جس نے جان ایف کینیڈی سمیت ۱۰سابق امریکی صدور کے ساتھ صحافتی فرائض انجام دیے ہیں، اور وائٹ ہائوس ہی کے نہیں دنیا کے صحافیوں کے لیے ایک مثالی کردار رکھتی ہیں، سے رابی لایف نامی یہودی ویب سائٹ کے نمایندے نے آہستگی سے پوچھا: قافلۂ حریت…؟ ہیلن کے جواب نے سب کو ششدر کر دیا: ’’ان سے کہو فلسطین سے نکل جائیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان لوگوں نے فلسطین پر قبضہ جما رکھا ہے۔ فلسطین ان کا گھر نہیں ہے۔ انھیںبولونیا،امریکا، جرمنی اور دوسرے ملکوں میں اپنے گھروں کو لوٹ جانا چاہیے‘‘۔وائٹ ہائوس پر غالب یہودی لابی ہیلن کو اس کی ۵۰سالہ خدمات خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہاں سے نکلوانے میں کامیاب ہوگئی ہے، لیکن اس شائستہ و معمر ۸۰ سالہ خاتون کے وقار و مقام میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اہلِ غزہ کو ایک نہیں کروڑوں توانا آوازیں نصیب ہوگئی ہیں۔
۳۵کلومیٹر لمبی اور سات سے ۱۴ کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی میںگھرے ۱۵ لاکھ عوام کی آزمایشیں ختم ہونے کا وقت یقینا قریب آن لگا ہے۔ غیور ترک بھائیوں کے خون سے سرخ ان کا قومی پرچم اعلان کر رہا ہے: ’’دنیا والو! لوہا مکمل طور پر گرم ہے اور آخری ضرب کا منتظر۔ یقین رکھو ایک قدم اٹھائو گے ربِ کائنات دس قدم تمھاری طرف آئے گا۔ تم چلنا شروع کرو گے اس کی رحمت و نصرت دوڑ کر تمھیں اپنے سایے میں ڈھانپ لے گی‘‘ ع
منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے