جولائی ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کتاب نما

| جولائی ۲۰۱۰ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

تذکرۂ معاصرین، مالک رام۔ ناشر: الفتح پبلی کیشنز، ۳۹۲-اے، سٹریٹ ۵-اے، لین۵، گلریز ہائوسنگ سکیم-۲، راولپنڈی۔ فون: ۵۱۷۷۴۱۳-۰۳۲۲۔ صفحات: ۱۰۶۰۔ قیمت:۱۵۰۰ روپے۔

مالک رام (۱۹۰۶ئ-۱۹۹۳ئ) اُردو کے معروف محقق، ادیب اور مصنف تھے۔ انھیں ’ماہرغالبیات‘ بھی کہا جاتا ہے مگر وہ خود عمربھر نام و نمود سے بے نیاز رہتے ہوئے، ایک سنجیدہ مزاج قلم کار کی طرح کام کرتے رہے۔ انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی غبارِخاطر، خطباتِ آزاد اور ترجمان القرآن پر بڑی لگن کے ساتھ عالمانہ حواشی لکھے۔ مذکورہ کتابیں،بھارت کے بعد پاکستان میں بھی کئی بار شائع ہوچکی ہیں۔ بسلسلہ ملازمت وہ طویل عرصے تک قاہرہ میں مقیم رہے۔ اس دوران اُنھیں ترکی، اور بیش تر عرب ملکوں کے دورے کرنے کا موقع ملا۔ مالک رام علومِ اسلامیہ سے بھی دل چسپی رکھتے تھے۔ ان کی ایک معروف تصنیف عورت اور اسلامی تعلیم (۱۹۵۱ئ) کے عربی اور انگریزی تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ ان کی دل چسپی کا ایک اور اہم موضوع ’وفیات نگاری‘ تھا۔ تذکرہ ماہ و سال (۱۹۹۱ئ) میں انھوں نے اُردو ادب سے متعلق مرحوم شخصیات کی تواریخ ولادت و وفات یک جا کی تھیں مگر بکثرت غلطیوں کی وجہ سے اسے دنیاے ادب و تحقیق میں اعتبار حاصل نہ ہوسکا۔ اس سلسلے کی ان کی دوسری زیرنظر کتاب چار حصوں پر مشتمل تھی۔ اب پہلی بار ایک نئی ترتیب سے اس کا یک جِلدی اڈیشن شائع کیا گیا ہے۔ اس مفید اور معلومات افزا کتاب میں ۲۱۹ ایسے ادیبوں اور شاعروں کے سوانحی حالات مع نمونۂ کلام ملتے ہیں جو ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۷ء تک کے عرصے میں راہی ملکِ بقا ہوئے۔ ان میں رشید احمد صدیقی، حمید احمد خاں، امتیاز علی تاج، سید وقارعظیم، باقی صدیقی، سجاد ظہیر، عبدالرحمن چغتائی، دیوان سنگھ مفتون، ملک نصراللہ خاں عزیز اور غلام رسول مہر جیسے معروف مشاہیرِ ادب کے ساتھ ہزار لکھنوی، ماچس لکھنوی، لالہ لال چند فلک، صوات ٹونکی، محشر مرزا پوری، طالب رزاقی، شمس منیری، صوفی بانکوٹی، لائق لکھنوی جیسے غیرمعروف اہلِ قلم کا تذکرہ بھی شامل ہے۔

یہ کتاب فقط وفیات نامہ نہیں، اچھے خاصے سوانحی تعارفی مضامین کا مجموعہ ہے۔ مصنف نے یہ مضامین علمی مجلس دہلی (جو انھی کی قائم کردہ تھی) کے سہ ماہی جریدے تحریر میں لکھنا شروع کیے تھے۔ اسی طرح کے تعزیتی مضامین مرحوم ماہرالقادری فاران کراچی میں لکھا کرتے تھے، مگر فاران کے اس نوع کے مضامین اپنے معیار اور درجہ بندی میں شاید مالک رام کے مضامین سے اُوپر جگہ پائیں گے۔ ایک فروگذاشتوں کے باوجود، تاریخ ادب اُردو، خصوصاً سوانحی ادب میں مالک رام کے ان مضامین کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ طالب علم تحقیق کاروں کے لیے خاص طور پر یہ بہت راہ نما اور مفید ہیں۔ ڈاکٹر عقیل نے تذکرۂ معاصرین کو ’’اپنے دور کے حوالے سے ممتاز اہلِ قلم اور اہلِ علم و دانش کے تعارف و مطالعے کا ایک بنیادی اور ناگزیر ماخذ‘‘ قرار دیا ہے۔ (ص ۳۸)

زیرنظر یک جِلدی اڈیشن کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ابتدا میں ’وفیات نویسی کی روایت‘ کے عنوان سے فارسی کے معروف محقق ڈاکٹر عارف نوشاہی اور اُردو کے معروف محقق ڈاکٹر معین الدین عقیل کے تفصیلی مقدمے شامل ہیں (ڈاکٹر نوشاہی ماہرالقادری کے تعزیتی مضامین کی دو حصوں پر مشتمل کتاب یاد رفتگان کا ذکر کرنا بھول گئے)۔ ان مقدموں میں نہ صرف اُردو بلکہ عربی، فارسی اور ترکی وفیات نگاری کی پوری تاریخ آگئی ہے۔ کتاب کا دوسرا امتیازی پہلو، اس کے آخر میں شامل دو ضمیمے ہیں۔ پہلا ضمیمہ ۲۱۹ شخصیات کی سنہ وار تاریخ ہاے وفات پر مشتمل ہے، اور دوسرا ضمیمہ کتب و رسائل کے اشاریے پر مبنی ہے۔ ناشر نے یہ کتاب بصد ذوق و شوق اور نہایت اہتمام سے عمدہ معیار پر شائع کی ہے۔ قیمت زیادہ ہے یا مناسب؟ اس کا انحصار اول: خریدار کی ضرورت اور دوم: اس کی قوتِ خرید پر ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


میرے تجزیات (تحریکِ آزادیِ کشمیر)،عبدالرشید ترابی۔ ناشر: کشمیر انفارمیشن اینڈ ریسرچ سنٹر، چنار چیمبرز، گلی نمبر ۴۸، بی سکس- ون/ون، اسلام آباد۔ فون: ۵۵۱۱۴۱۷-۰۵۱۔ صفحات: ۳۱۷۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

تحریک آزادیِ کشمیر مختلف مراحل سے گزری اور خطرات سے دوچار ہوئی، لیکن اہلِ کشمیر کے پاے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ عالمی قوتوں کے دبائو، بھارتی حکومت کی چالوں اور حکومتِ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں اُتارچڑھائو، بالخصوص دوستی کے نام پر وفود کی آمدورفت، مسئلہ کشمیر کے روایتی موقف سے انحراف کے لیے مختلف حل، کشمیری قیادت کا المیہ اور تحفظات وغیرہ___ جدوجہد آزادیِ کشمیر کے مختلف مراحل اور غوروفکر کے پہلو ہیں۔ عبدالرشید ترابی تحریک آزادیِ کشمیر کے ان مراحل کو اُجاگر کرنے، خطرات کی نشان دہی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے   اہلِ کشمیر کی وکالت کا فریضہ انجام دینے کے لیے وقتاً فوقتاً ملکی اخبارات و رسائل میں مضامین سپردِقلم کرتے رہے۔ زیرنظر کتاب انھی تجزیات پر مشتمل ہے۔

یہ کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں حکمران، پالیسی ساز اور ہر کردار اپناچہرہ دیکھ سکتا ہے۔ ہم سب خوداحتسابی کرتے ہوئے ایسی جامع اور حکیمانہ پالیسی تشکیل دے سکتے ہیں جو جلد منزل کے حصول کا ذریعہ بن سکے۔ (عمران ظہور غازی)


تعارف کتب

  • حکمت الفرقان، مؤلف: ڈاکٹر سید امان اللہ ترمذی۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [قرآن حکیم کے مضامین کا عصری تقاضوں کے تناظر میں انتخاب اور دعوت فکروعمل۔قرآنی تعلیمات کو پانچ عنوانات یعنی توحید، رسالت، آخرت، فہم قرآن اور دعوت و جہاد کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ آخر میں انفرادی اور اجتماعی جائزے کے لیے خوداحتسابی کا چارٹ دیا گیا ہے۔]

 شمشیر و سناں اوّل (عظیم سپہ سالاروں کی عظیم داستان) ، مرتب: خواجہ امتیاز احمد۔ ناشر: ہارون شہید اکیڈمی، پیپلزکالونی، گوجرانوالہ۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔[ ۲۱ نام وَر مسلمان سپہ سالاروں کے تذکرے پر مبنی کتاب جس میں مبالغہ آرائی کے بجاے مستند حوالوں اور معیاری کتب تاریخ کی مدد سے حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ ان سپہ سالاروں میں خالد بن ولیدؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، عقبہ بن نافع فہریؒ، جلال الدین خوارزم شاہ، موسیٰ بن نصیر، یوسف بن تاشفین، حجاج بن یوسف ثقفی، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری وغیرہ کے حالات شامل ہیں۔ اس بے بنیاد الزام کا بھی مدلل جواب دیا گیا ہے کہ ’اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے‘۔]

  • شوق کا اُجالا ، محمد اظہر علی۔ ناشر: اسلامک کلچرل سنٹر ناروے۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۲۰۰ کرائون۔ [اسلامک کلچرل سنٹر ناروے (اوسلو) کی تعمیر کے منصوبے، جدوجہد کے صبرآزما مراحل اور ۲۰۰۹ء میں ایک  دیدہ زیب جدید عمارت، دفاتر، اسلامی سکول، جدید سہولیات پر مبنی لائبریری اور خوب صورت مسجد کی تکمیل کی روداد۔ ۱۹۷۴ء سے ۲۰۰۹ء تک روشنی کے سفر کی داستان۔ کتاب بیرونِ ملک مقیم لوگوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔]