جولائی ۲۰۱۰

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جولائی ۲۰۱۰ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

جِن کا سایہ ہونے کی حقیقت

سوال: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا‘‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ جنات کا وجود ہے۔ مزید یہ کہ جنات نے رسول کریمؐ کے ہاتھ پر ایمان بھی قبول کیا اور اسے جنوں میں جاکر پھیلایا۔ کیا الگ مخلوق ہونے کے باوجود جِن انسانوں پر حاوی ہوجاتے ہیں؟ اگر کسی انسان پر جِن آجائے جیساکہ عام لوگوں کا اعتقاد ہے اور اکثر دورے پڑنے والے مریضوں کو عاملوں کے پاس علاج (جِن نکلوانے) کے لیے لے جاتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟جادو کے علاج کے بارے میں تو احادیث سے رہنمائی ملتی ہے۔ کیا نبی کریمؐ نے جِن کا سایہ ہوجانے کا علاج بھی کیا ہے؟ کیا چلّے کاٹ کر انسان جنوں کو اپنا مطیع کرسکتے ہیں؟

جواب: جنات الگ مخلوق ہیں اور انھیں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ایک تعداد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی رکھتی ہے۔ جنات عام طور پر انسانوں سے خوف کھاتے ہیں۔ اس لیے ان کی بستیوں میں نہیں پائے جاتے بلکہ جنگل و بیابان میں بسیرا کرتے ہیں اور شہروں سے کسی قدر دُور علاقوں میں آباد ہوتے ہیں۔جہاں تک ان کے انسان پر حاوی ہونے کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عموماً انسانوں کا معاشرہ اور جِنوں کا معاشرہ الگ الگ ہیں، اور وہ عموماً ایک دوسرے کے کام اور راہ میں حائل نہیں ہوتے، لیکن جزوی طور پر ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی جِن کسی انسان کو کسی وجہ سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے یا کوئی انسان بعض شریر جنات کو شر سے روکنے کا کوئی عمل کرے۔ اس کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارات ملتے ہیں، مثلاً اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ (البقرہ۲: ۲۷۵) ’’وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے روز نہیں اُٹھیں گے مگر ان لوگوں کی طرح جو خبطی ہوجاتے ہیں شیطان کے لپٹ جانے سے‘‘۔ یہاں شیطان سے سرکش جِن مراد ہے اور خبطی ہونے کا سبب شیطان کا اس انسان سے لپٹ جانا، مس کرنا ہے۔

بخاری، مسلم، مسنداحمد وغیرہ کتب احادیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک سرکش جِن نے گذشتہ رات مجھ پر حملہ کیا تاکہ مجھے نماز سے نکال دے۔ اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا۔ میں نے اسے پکڑا اور اسے پکڑ کر زور سے دبوچا اور ارادہ کیا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ تم سب صبح کے وقت اسے دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آئی: ’’اے میرے رب مجھے ایسی حکومت عطا فرما، جو میرے بعد کسی کے لیے مناسب نہ ہو، تب میں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے ذلیل کر کے لوٹا دیا‘‘(الفتح الربانی لترتیب مسنداحمد الشیبانی، ج۲۰، ص ۲۴، باب ماجاء فی خلق الجن)۔ عفریتاً من الجن کے الفاظ مسند احمد میں ہیں۔ بخاری میں اس کے لیے شیطان کا لفظ آیا ہے۔ (بخاری، باب مایجوز من العمل فی الصلاۃ، ج۱، ص۱۶۱، طبع کراچی، حدیث نمبر ۱۲۰۹، طبع دارالسلام)

جنات پر اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو جو تسلط دیا، اس کا ذکر سورئہ نمل اور سورئہ سبا میں تفصیلاً مذکور ہے۔ تختِ بلقیس مجلس کے خاتمے سے پہلے لے آنے کا اعلان جس جِن نے کیا اسے قرآن پاک میں عفریت من الجن کہا گیا ہے۔ لیکن صاحب ِ علم نے کہا: میں آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت لے آتا ہوں چنانچہ تخت آگیا۔ جنات اس وقت تک بیت المقدس کی تعمیر میں لگے رہے جب تک سلیمان علیہ السلام کی لاٹھی کو دیمک نے نہ کھا لیا اور وہ گر نہ گئے۔ اس وقت جنات پر واضح ہوگیا کہ وہ غیب دان نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہمیں غیب کا علم ہوتا تو ہمیں سلیمان علیہ السلام کی موت کا علم ہوجاتا اور ہم ان کی وفات کے بعد تعمیری کاموں کے سبب اس قدر تکلیف نہ اٹھاتے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھے مرتبہ جنات کو تعلیم و تربیت دینے کے لیے ان کے علاقے میں گئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت اٹھایا تاکہ میں آپؐ کے ساتھ جائوں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چلتے گئے یہاں تک کہ فلاں فلاں مقام پر پہنچے تو وہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ مجھے بٹھایا اور اس جگہ کے اردگرد ایک گول خط کھینچا اور فرمایا: اس خط کے اندر رہنا اگر اس خط کے باہر نکلے تو ہلاک ہوجائو گے۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر میں اسی خط کے اندر رہا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے دُور چلے گئے جتنا دُور ایک کنکر پھینکا جائے تو جاکر گرے، یا اس سے کچھ زیادہ دُور۔ پھر میں نے لمبے تڑنگے دبلے پتلے اور ننگے بدن والے لوگ دیکھے لیکن ان کا ستر نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کثیر تعداد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیڑ بن کر جمع ہوگئے جیساکہ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہوں۔ اس پر میں بہت زیادہ خوف زدہ ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قرآن پاک سنا رہے تھے اور وہ آپ پر ہجوم کرتے جاتے تھے۔ میری طرف آتے اور میرے دائرے کے اردگرد گھومتے اور میرے درپے ہونے کا ارادہ کرتے۔ میں ان سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے پیش نظر اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تشریف لائے جیسے کہ بہت تھکے ہوئے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میں اپنے آپ کو بوجھل محسوس کرتا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرمبارک میری گود میں رکھا اور سو گئے۔ (الفتح الربانی، باب خلق الجن، حدیث ابن مسعود، ج ۲۰، ص ۲۶)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مامور کیا۔ ایک رات دیکھتا ہوں کہ ایک شخص غلے سے مٹھیاں بھربھر کر اپنی چادر میں ڈال رہا ہے۔ میں آیا اور اسے پکڑ لیا۔ اس نے کہا کہ میں غریب آدمی ہوںاور عیال دار ہوں، مجھے چھوڑ دے۔ میں نے کہا: نہیں میں تجھے صبح رسولؐ اللہ کے حضور پیش کروں گا۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں آیندہ نہیں آئوں گا، چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح جب میں رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے پوچھا: ابوہریرہ تمھارے قیدی کا کیا بنا؟ میں نے واقعہ بیان کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ پھر آئے گا۔ مجھے رسولؐ اللہ کے فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ وہ پھر آئے گا، چنانچہ میں انتظار میں تھا۔ وہ پھر آگیا اور اسی طرح مٹھیاں بھرنے لگا۔ میں نے اسے پکڑا تو پھر اس نے کہا: میں محتاج ہوں، اہل وعیال زیادہ ہیں، مجھے چھوڑ دو آیندہ نہیں آئوں گا۔ مجھے ترس آیا۔ میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح جب رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے پھر اسی طرح پوچھا کہ آپ کے رات کے قیدی کا کیا ہوا؟ میں نے پھر واقعہ بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اس نے تجھ سے جھوٹا وعدہ کیا ہے، وہ پھر آئے گا، چنانچہ وہ تیسری رات پھر آگیا۔ اب جو میں نے پکڑا تو کہا کہ اب نہیں چھوڑوں گا۔  صبح رسولؐ اللہ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اس نے کہا: آج پھر مجھے چھوڑ دو، میں تمھیں ایسے کلمے بتلاتا ہوں کہ وہ پڑھ لیا کرو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھاری حفاظت ہوگی اور کوئی شیطان تمھارے قریب نہیں آئے گا۔

راوی بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کو اس طرح کی معلومات حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اس لیے ابوہریرہؓ نے اس سے پوچھ لیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے آیت الکرسی پڑھ کر سنائی اور کہا کہ آیت الکرسی پڑھ لو تو کوئی آکر چوری نہ کرسکے گا، چنانچہ ابوہریرہؓ نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو آپؐ نے پھر پوچھا: ابوہریرہؓ! تمھارے رات کے قیدی کا کیا بنا؟ ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میںنے پورا ماجرا سنا دیا تو آپؐ نے فرمایا: وہ ہے تو جھوٹا، لیکن یہ نسخہ جو تمھیں بتلایا ہے اس میں اس نے سچ کہا ہے۔ پھر پوچھا: جانتے ہو یہ کون تھا؟ عرض کیا: یارسولؐ اللہ، نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: وہ شیطان تھا۔

امام بخاری نے اس واقعے پر باب باندھا ہے کہ جب کسی کو وکیل بنایا ہو اور وکیل نے کوئی چیز کسی کو چھوڑ دی اور موکل نے اس کی اجازت دے دی تو ایسا کرنا صحیح ہے (بخاری، کتاب الوکالۃ، باب۱۰، حدیث نمبر ۲۳۱۱، ص ۴۵۵، طبع دارالسلام)۔ حضرت ابوہریرہؓ کی صدقہ الفطر پر ڈیوٹی تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدقۃ الفطر کے غلہ پر وکیل تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم موکل تھے۔ جب رات کو چوری کرنے والے نے چوری کی، تو حضرت ابوہریرہؓ نے اس کی فریاد سن کر تینوں دن اسے جانے دیا۔ اس پر رسولؐ اللہ نے ابوہریرہؓ سے مواخذہ نہ کیا بلکہ اجازت دے دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ وکیل کا فیصلہ موکل کی اجازت پر موقوف ہے۔ موکل اجازت دے دے تو فیصلہ نافذ ہوجاتا ہے۔ جس طرح حضرت ابوہریرہؓ کا فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بعد نافذ ہوگیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کو بھی پتا ہے کہ اسے کس طرح روکا جاسکتا ہے، اور روکنے کا عمل کیا ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان کی یہ بات سچی ہے کہ آیت الکرسی شیطان کے لیے روک ہے۔

حدیث کی تمام کتابوں میں کتاب الاذان کے اندر اذان کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اسے سن کر شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کی ریح نکل جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اذان کی آواز نہ پہنچے۔ لہٰذا آیت الکرسی اوراذان دونوں شیطان کو بھگانے کے عمل ہیں۔

حضرت عثمان بن ابی العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طائف کے علاقے میں عامل بناکر بھیجا۔ میں نے محسوس کیا کہ نماز کے دوران کوئی چیز آکر میرے اور نماز کے درمیان حائل ہوجاتی ہے جس کے سبب مجھے پتا نہیں ہوتا تھا کہ میں کیا پڑھتا ہوں۔ میں نے جب ایسا محسوس کیا تو رسولؐ اللہ کے پاس واپس آگیا۔ آپؐ نے پوچھا: ابن ابی العاص ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، یارسولؐ اللہ۔ آپؐ نے پوچھا: کس وجہ سے واپس آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ نماز میں کوئی چیز رکاوٹ بن کرکھڑی ہوجاتی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ شیطان ہے۔ پھر فرمایا: قریب ہوجائو۔ میں قریب ہوا اور پائوں کی انگلیوں پر دوزانو ہوکر بیٹھ گیا۔ پھر آپؐ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میرے منہ میں اپنا لعاب لگایا اور فرمایا: اے اللہ کے دشمن نکل، آپؐ نے تین مرتبہ ایسا عمل کیا۔ اس کے بعد فرمایا: جائواپنی ڈیوٹی پر۔ حضرت عثمانؓ کہتے ہیں کہ میں واپس چلا آیا، اس کے بعد مجھے کبھی بھی اس طرح کی تکلیف سے واسطہ نہیں پڑا۔ (ابن ماجہ، باب الفزع والارق)

عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ اپنے والد ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا: میرا ایک بھائی تکلیف میں ہے۔ آپؐ نے پوچھا: تیرے بھائی کو کیا تکلیف ہے؟ میں نے کہا: اسے جِن لگ گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اسے میرے پاس لے آئو۔ وہ آگیا تو آپؐ نے اسے اپنے سامنے بٹھایا پھر اس پر فاتحہ، سورئہ بقرہ کی پہلی چار آیات اور دو آیات درمیان سے وَاِلٰھُکُمْ اِلٰـہٌ وَاحِدٌ اور آیت الکرسی اور تین آیات آخر کی اور ایک آیت آل عمران کی پڑھی۔ میرا گمان ہے کہ وہ آیت شہادۃ ہے، شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ…الخ۔ اور ایک آیت اعراف کی اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ، اور ایک آیت مومنون کی وَمَنْ یَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا آخَرَ لَابُرْھَانَ لَہٗ بِہٖ، اور ایک آیت سورئہ جن کی وَاَنَّہٗ تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَا، اور   ۱۰آیات صافات کے شروع سے اور تین آیات سورئہ حشر کے آخر سے اور قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ    اور معوذتین پڑھ کر دم کیا۔ پھر وہ اعرابی اس حالت میں اُٹھا کہ اسے کوئی بھی تکلیف نہ تھی۔   (ابن ماجہ، باب الفزع، والارق)

یہ چندمثالیں ہیں۔ ان سے اتنا پتا چلتا ہے کہ بعض اوقات جِن انسان کو کسی درجہ میں تکلیف دے سکتے ہیں لیکن ایسا شاذونادر ہوتا ہے اور اس کا علاج قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ جیساکہ ابن ماجہ کے مذکورہ دو واقعات سے ہوتا ہے اور ابوہریرہؓ کا واقعہ بھی اس بات کا ثبوت ہے۔ رہی یہ بات کہ چلّہ کشی وغیرہ کا اس میں کچھ دخل ہے۔ کیا اس طرح سے کوئی شخص جنات نکالنے کے قابل ہوجاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص کا قرآن و سنت پر پختہ یقین ہو اور اس کی قوت ارادی اور تعلّق باللہ مضبوط ہو، تو اسے چلاکشی کی ضرورت نہیںہے لیکن اگر قوتِ ارادی کمزور ہو تو پھر اسے مضبوط کرنے کے لیے عبادات میں انہماک پیدا کرکے قوتِ ارادی اور تعلّق باللہ کو مضبوط کیا جائے تاکہ دم کااثر بیمار تک پہنچایا جاسکے۔

علامہ ابن قیم فرماتے ہیں: ’’الرُّقْیَۃُ بَالَّراقِیٌ، دم کی تاثیر دم کرنے والے کی قوت پر موقوف ہے۔ وہی سورئہ فاتحہ صحابہ کرامؓ نے بچھو کے کاٹے ہوئے پر پڑھ کر پھونکی تو وہ بالکل تندرست ہوگیا، ایسا جیسا کسی چیز نے کاٹا نہیں، اور وہی سورئہ فاتحہ دوسرے لوگوں کے پاس بھی ہے اور وہ اسے پڑھ کر پھونکتے ہیں تو کچھ اثر نہیں ہوتا۔ اس کا سبب دم کرنے والے کی روحانی قوت کا فرق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے تو نہ چلّہ کشی کی تھی، نہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہی تھا کہ   سورئہ فاتحہ دم ہے۔ انھوں نے اپنے اجتہاد سے دم کیا اور دم نے اثر دکھلا دیا۔ اس طرح کے دموں کی تاثیر ان اہلِ علم وعمل کی زبانوں میں بھی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے دنیا میں دعوت، تعلیم وتربیت اور اقامت ِدین کی جدوجہد کرتے ہیں۔ جِن ان کے قریب نہیں پھٹکتے، وہ ان سے خوف زدہ رہتے ہیں اور اگر کبھی بھول کر ان کے پاس آجائیں جس طرح حضرت عثمان بن ابی العاص کے پاس آگئے تھے، تو اس کا دفاع اور دم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

یہ اہم بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اکثر لوگ جِنوں کے آسیب کے وہم میں مبتلا ہوتے ہیں، حقیقتاً آسیب نہیں ہوتا اور پیشہ ور عامل ان لوگوں کے وہم کو اور زیادہ کردیتے ہیں، اور اس طرح سے مال و دولت جمع کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ (مولانا عبدالمالک)


اشراق،چاشت اور اوابین : ایک نماز کے تین نام؟

س: احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اشراق، اوابین اور چاشت (صلوٰۃ الضحیٰ) ایک ہی نماز کے تین نام ہیں، البتہ سورج نکلنے کے وقت نماز ادا کرنے اور ۱۰ یا ۱۱بجے دن نماز ادا کرنے پر ثواب مختلف ہے۔ الجھن یہ ہے کہ سعودی عرب میں اوّابین کے نوافل صبح ۱۰ یا ۱۱بجے ادا کیے جاتے ہیں، جب کہ پاکستان میں ان نوافل کو بعد      نمازِ مغرب ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے احادیث کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں۔

صوفی عبدالحمید خان سواتی نے اپنی کتاب: نماز مسنون کلاں میں ایک باب: صلٰوۃ الضحٰی (چاشت کی نماز جو صلٰوۃ الاوابین بھی ہے) کے تحت لکھا ہے کہ: ’’یہ تقریباً ۹ تا۱۰ بجے پڑھی جاتی ہے، اس کی کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ ۱۲ رکعات ہیں۔ صحیح احادیث میں صلٰوۃ الضحٰی کو ہی صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ کہا گیا ہے۔ حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رکھنے والوں کی نماز ہے۔ اس کا وقت وہ ہے جب اُونٹوں کے بچوں کے پائوں ریت میں گرم ہونے لگتے ہیں‘‘ (مسلم، ج۱، ص ۲۵۷، مع نووی، ص ۲۵۰)، (نماز مسنون کلاں ،ص ۵۶۱)

اسی کتاب کے ایک دوسرے مقام پر صوفی عبدالحمید صاحبؒ نمازِاشراق قرار دیتے ہوئے حدیث روایت کرتے ہیں: ’’حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے صبح کی نماز باجماعت پڑھی، پھر وہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہا، یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔ پھر اس نے دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی تو اس کو حج و عمرہ کا پورا پورا ثواب ملے گا‘‘۔ (الترغیب والترہیب، ج۱، ص۱۶۴)، (ایضاً، ص۵۵۹)

آگے چل کر وہ مزید لکھتے ہیں کہ: ’’نمازِ مغرب کے بعد چھے رکعات نوافل کی بھی احادیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مغرب کے بعد چھے رکعات نماز پڑھی اور ان کے درمیان اس نے کوئی بُری بات زبان سے نہیں نکالی تو اس کو بارہ سال کی عبادت کے برابر ثواب ملے گا (ترمذی، ص۸۹، ابن ماجہ، ص ۹۸)۔ بعض لوگ اس نماز کو بھی صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ کہتے ہیں۔

اس سلسلے میں بھی صحابہ کرامؓ سے آثار ملتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: صلاۃ الاوّابین جب مغرب کی نماز پڑھ کر نمازی فارغ ہوں تو اس سے لے کر اس وقت تک ہوتی ہے جب عشاء کا وقت آجائے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ بے شک فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھے ہیں اور یہ بھی صلاۃ الاوّابین ہے (شرح السنۃ، ج۳، ص۴۷۴، کنزالعمال، ج ۸، ص ۳۵، بحوالہ ابن زنجویہ)۔ لغوی اعتبار سے اس کو بھی صلاۃ الاوّابین یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز کہہ سکتے ہیں، لیکن حقیقی صلاۃ الاوّابین، وہ چاشت ہی کی نماز ہے‘‘ (ایضاً، ص ۵۶۶)۔ اس حوالے سے حقیقی صورت حال کیا ہے، واضح فرما دیں۔

ج: صلٰوۃ الاشراق ، صلٰوۃ الضحٰی اور صلٰوۃ الاوّابین کے بارے میں احادیث کی روشنی میں علما کے درمیان علمی اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ ایک ہی نماز کے تین نام ہیں، اور بعض کے نزدیک اشراق اور چاشت ایک ہیں اور اوّابین مغرب کے بعد ہے۔ بعض کے نزدیک جیسے صوفی عبدالحمید صاحبؒ نے نقل کیا ہے جو علامہ سیوطی اور علی متقی کی راے ہے کہ اشراق الگ نماز ہے، اور چاشت اور اوّابین الگ ہیں اور مغرب کے بعد اوّابین لغوی معنی میں اوّابین ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی بھی یہ راے ہے کہ مغرب کے بعد اوّابین لغوی اور عرفی معنی میں اوّابین ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے: صلٰوۃ الاشراق اور صلٰوۃ الضحٰی (چاشت) کے بارے میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ لکھتے ہیں: فقہا اور محدثین کے نزدیک دونوں ایک ہیں، البتہ علامہ سیوطیؒ اور علی متقی (صاحب کنزالعمال) کے نزدیک دونوں الگ الگ ہیں۔ وہ ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جو حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشراق پڑھی جب سورج اتنا بلند تھا جتنا عصر اور مغرب کے درمیان ہوتا ہے، اور ضحی اس وقت پڑھی جب سورج اتنا بلند تھا جتنا ظہر اور غروب کے درمیان ہوتا ہے۔ اس روایت کو انھوں نے حسن قرار دیا ہے (العرف الشذی باب ماجاء فی صلٰوۃ الضحٰی، ص ۲۱۹، طبع مکتبہ رحمانیہ، لاہور)۔ اس روایت کے پیش نظر صلٰوۃ الاشراق اور صلٰوۃ الضحٰی (چاشت)دو قرار پائیں ہیں۔ اس لیے اس کو مدنظر رکھنے والوں پر اعتراض مناسب نہیں۔

مولانا محمد منظورنعمانیؒ نے بھی معارف الحدیث میں جمہور فقہا و محدثین کی طرح   اشراق اور ضحی کو ایک قرار دیا ہے۔ انھوں نے عنوان قائم کیا ہے: ’’چاشت یا اشراق کے نوافل‘‘۔   اس عنوان کے تحت جو روایات نقل کی ہیں ان میں اُم ہانیؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر چاشت کے وقت آٹھ رکعات پڑھیں۔ دوسری روایت حضرت ابوہریرہؓ کی ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی کہ ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھو، اور چاشت کی دو رکعتیں اور سونے سے پہلے وتر پڑھوں۔ (معارف الحدیث، ج ۳ ، ص ۳۵۵)

جناب صوفی عبدالحمید خاں سواتی کا حوالہ آپ نے نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک اشراق اور چاشت الگ الگ نمازیں ہیں، اور چاشت اور اوّابین کو انھوں نے ایک قرار دیا ہے۔    انھوں نے عنوان قائم کیا ہے:’’صلٰوۃ الضحٰی، چاشت کی نماز جو صلٰوۃ الاوّابین بھی ہے‘‘۔ علامہ نوویؒ کے نزدیک اشراق، ضحی اور اوّابین ایک ہیں۔ انھوں نے ریاض الصالحین میں   صلٰوۃ الضحٰی کے دو باب قائم کیے ہیں۔ ایک باب کے الفاظ یہ ہیں: یہ باب صلٰوۃ الضحٰی کی فضیلت اور اس کی کم سے کم، درمیانی اور اکثر رکعتوں اور اس پر پابندی کے بیان میں ہے‘‘۔ دوسرے باب میں اس کے وقت کا بیان ہے کہ وہ سورج کے بلند ہونے سے لے کر زوال تک ہے، اور اس کا اس وقت پڑھنا افضل ہے جب گرمی زیادہ ہوجائے اور سورج اچھی طرح بلند ہوجائے۔ پھر زید بن ارقمؓ کی روایت نقل کی ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے۔ امام ترمذیؒ نے مغرب کے بعد چھے رکعتوں کا تذکرہ کیا ہے، اور حضرت ابوہریرہؓ کی روایت نقل کی ہے کہ ’’جو شخص چھے رکعتیں پڑھے گا اور درمیان میں کوئی بُری بات نہیں کرے گا، تو یہ ۱۲ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوگی۔ امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ جس راوی پر اس روایت کا انحصار ہے وہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم ہے اور اسے انھوں نے منکرالحدیث قرار دیا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے بھی روایت نقل کی ہے کہ جو شخص ۲۰ رکعتیں پڑھے گا، اس کے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ الگ گھر بنا دیں گے لیکن اس پر تنقید نہیں کی۔ لیکن یہ بھی ضعیف ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے: علامہ نووی اور ان کے ہم خیال علما کا مسلک یہی ہے کہ سورج نکلنے کے بعد جب مکروہ وقت نکل جائے تو اس وقت سے لے کر زوال سے پہلے تک ایک نماز ہے جس کے تین نام اور تین اوقات ہیں۔ اس نماز کا افضل وقت وہ ہے جس وقت تپش اچھی خاصی ہوجائے، یعنی ۱۰ بجے سے لے کر ۱۱بجے کے درمیان کا وقت جسے اوّابین کی نماز کہا گیا ہے اور مغرب کے بعد چھے رکعتوں کا بھی ذکر ہے۔ ان میں سے ایک روایت پر تو امام ترمذیؒ نے تنقید کی ہے لیکن دوسری بھی ضعیف ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے فرمایا: اس کے بارے میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے۔ لوگوں کے عرف میں اس کو اوّابین کہا جاتا ہے اور اس کے ضعف کے باوجود اس پر عمل کیا جاتا ہے (العرف الشذی علی الترمذی، ج۱، ص ۲۰۹)۔ اس لیے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بھی قابلِ عمل ہے۔ اس لیے کہ نفسِ عمل تو قطعی دلیل سے ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً نوافل توتین اوقات کے علاوہ ہر وقت پڑھے جاسکتے ہیں لہٰذا جب ان تین اوقات کے علاوہ باقی اوقات میں نوافل کی فضیلت کسی حدیث میں جو ضعیف ہو ذکر ہوگی تو اس کی بنیاد پر اس وقت نوافل کو دوسرے اوقات کے مقابلے میں ترجیح اسی حدیث کی وجہ سے دی جاسکتی ہے۔ مغرب کے بعد کی اوّابین کی یہی اصولی بنیاد ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص اس وقت چھے نوافل ادا کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ نفل صرف طلوع، غروب اور نصف النہار میں منع ہیں۔ باقی اوقات میں ممنوع نہیں ہیں۔ اسی طرح اس بات کی بھی گنجایش ہے کہ اشراق اور ضحی (چاشت) کو الگ الگ قرار دیا جائے، مگر ضحی اور اوّابین کے ایک ہونے پر اتفاق نظر آتا ہے، جیساکہ امام نوویؒ نے ذکر کیا ہے۔ (ع - م)


دو منزلہ مکان کی تعمیر کا جواز

س: مدینہ میں ایک صحابیؓ نے حضوؐر کے ناراض ہونے پراپنا دو منزلہ مکان ڈھا دیا۔ پھر حضوؐر اُن سے راضی ہوگئے۔ حضوراکرمؐ کی ازواجِ مطہراتؓ کے حجروں کی کُل لمبائی شاید نو میٹر تھی۔ ایک صاحب نے درج بالا واقعے کی تشریح یوں کی کہ اُس وقت اسلام کو زندگی اور موت کا مسئلہ درپیش تھا۔ کسی دوسری طرف مال اوروقت صَرف کرنا اسلام کی کمزوری کا باعث بن سکتا تھا۔ اس لیے حضوؐر نے اسے ناپسند فرمایا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ اِن حالات میں ہمارا پختہ دو منزلہ مکانات میں رہنا شرعی نقطۂ نظر سے کیسا ہے؟ کیا یہ تغیر و تبدل احکام بلحاظِ احوال میں آئے گا؟

ج: پختہ یا دو منزلہ مکان کی تعمیر کا تعلق ایک فرد کی ضرورت کے ساتھ ہے اور ضرورت کا  پورا کرنا دین کے مقاصد میں سے ہے۔ دوسری اگر ایک شخص کی ضرورت تو ہو دو کمروں کی اور وہ بنائے ۲۰کمرے تو یہ اسراف ہونے کی بناپر قرآن و سنت کے منافی ہوگا۔ شارعِ اعظم علیہ السلام کو اپنے اصحاب کے بارے میں معلوم تھا کہ عموماً ان کی ضروریات کیا ہیں۔ اس لیے اگر کسی صحابیؓ نے ضرورت سے زیادہ کسی کام کو کرنا چاہا تو آپؐ نے اسے اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے متوجہ کیا جو آپؐ کے فرائض (الدین نصیحۃ) میں شامل تھا۔

دو منزلہ مکان بعض صورتوں میں ایک خاندان کی رہایشی ضرورت ہوگی اور بعض صورتوں میں مالی ضرورت۔ ثانی الذکر شکل میں اگر مکان کی ایک منزل کرایے پر دی ہو اور ایک میں صاحب ِ مکان خود رہتا ہو تو کرایے کی شکل میں آنے والی آمدنی سے وہ اپنا گزارا کرسکتا ہے۔ لیکن اگر دو منزلہ نہیں ایک منزلہ مکان بنانے کا مقصد بھی دنیا کو دکھانا ہو کہ وہ کتنا مال دار ہے تو یہ سراسر ریا و تکبر میں شمار کیا جائے گا جس کی قرآن وسنت شدت سے ممانعت کرتے ہیں۔

جیساکہ آغاز میں عرض کیا گیا کہ اصول زمین کی پیمایش کا نہیں ہے کہ کتنے لمبے اور کتنے چوڑے پلاٹ پر مکان بنانا اسلامی ہے اور اُس سے مختلف پیمایش پر پلاٹ بنانا ناجائز، بلکہ اس کا تعلق ایک خاندان کی ضروریات سے ہے۔ اس بنا پر رقبے کی کوئی قید نہیں لگائی جاسکتی۔ ہر فرد کی ضروریات کے لحاظ سے بغیر اسراف کے مکان بنانا اس کا اسلامی حق ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)