۱۶برس بیت چکےہیں مگربھارتی ریاست گجرات میں ۲۰۰۲ء کے مسلمان متاثرین کے لیے ’فسادات‘ جیسے کہ ابھی تھمے نہیں ہیں۔کتنی ہی قانونی لڑائیاں لڑی جاچکی ہیں،کتنے ہی برباد شدہ مظلومین انصاف کی تلاش میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھاکر خاموش بیٹھ گئے ہیں۔جنھیں فسادات میں ملوث ہونے پر سزائیں دی گئی تھیں، ان میں سے کتنے ہی اب ’آزاد ‘فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں نروڈا پاٹیا (Naroda Patiya) میں ہولناک قتل عام کی مجرمہ گجرات کی سابق وزیر براے ترقی اطفال و نسواں، ڈاکٹر مایاکوڈنانی کو رہائی ملی ہے۔سیشن کورٹ نے کوڈنانی کو ۹۶مسلمانوں کے قتل عام کے لیے مجرم قرار دیاتھا، مگر گجرات ہائی کورٹ کو کوڈنانی کے ہاتھوں پرکسی مسلمان کے خون کے دھبے نظرہی نہیں آئے۔ رہے وہ بڑے سیاست دان، اعلیٰ پولیس افسراور اُونچے عہدوں پر فائز نوکرشاہی، جو گجرات میں ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء کے مسلم کش فسادات کے منصوبہ ساز اورسازشی تھے،تووہ بھی تمام الزامات سے بچ نکلے ہیں۔
ان بنیادی سوالات کے جواب گجرات سے انڈین پولیس سروس (IPS) کے ایک اعلیٰ سابق افسر آربی سری کمار کی کتاب Gujrat Behind The Curtain (پس پردۂ گجرات) میں بڑی وضاحت کے ساتھ دیے گئے ہیں۔سری کمار کاکہنا ہے کہ مجرموں اورفسادیوں کو بچانے کے لیے قانون سے کھلواڑکیاگیا ، قانون کو توڑا مروڑا گیا اورجن ہاتھوں میں نظم ونسق کی ذمہ داری تھی، سیاسی آقاؤں نے انھی ہاتھوں کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ مجرموں اورفسادیوں کو بچانے کے لیے وہ جیسے بھی چاہیں قانون کی دھجیاں اڑائیں۔
آربی سری کمارفسادات کے ایام میں گجرات میں ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے منصب پر فائز تھے۔وہ محکمہ خفیہ کے سربراہ تھے۔جب انھوں نے یہ دیکھا کہ فسادات دانستہ کرائے جا رہے ہیں،منصوبہ بند ہیں اورساری سرکاری مشینری کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کیا جارہاہے اور اس میں سرکاری افسر اور پولیس افسر سبھی، نریندر مودی کی حکومت کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں، تب انھوں نے آواز اٹھائی۔ اُس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی کو للکارا، اور بلاخوف و خطر فسادیوں کو بے نقاب کرنے کی مہم شروع کی۔ نتیجہ یہ کہ انھیں سرکاری عتاب جھیلنا پڑا،انتقامی تبادلے کے عذاب سے وہ گزرے، مقدمہ ہوا، مگرانھوں نے سچ سے منہ نہیں موڑا اور آج تک وہ ’گجرات۲۰۰۲ء‘ کی لڑائی لڑرہے ہیں۔
سری کمار نے انگریزی کتاب میں Gujrat Behind The Curtain لکھی۔ ہندی کے علاوہ اس کا اُردوترجمہ پس پردۂ گجرات کے نام سے ۱۳؍اپریل ۲۰۱۸ء کو ’فاروس میڈیا‘ نئی دہلی (ترجمہ: سیّد منصورآغا)نے شائع کیا ہے۔ ۲۵۰صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۲۵۰بھارتی روپوں میں دستیاب ہے [برقی پتا:books@pharosmedia.com ]۔ کتاب کی بنیادان دوحقائق پر رکھی گئی ہے جسے سنگھی ٹولہ ابتدا ہی سے جھٹلاتا آرہاہے۔ایک تویہ کہ ’فسادات منصوبہ بند تھے ‘اور دوسرا یہ کہ’فسادیوں اورمجرموں کو بچانے کے لیے سرکاری مشنری کاغیر قانونی اورغیرآئینی استعمال کیاگیاـ‘۔
کتاب ۱۳؍ ابواب پر مشتمل ہے۔دوضمیمے اورایک’پیش لفظ‘ہے، جس میں آربی سری کمار نے کتاب لکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے لکھاہے:’’ نہایت سفاکانہ، اقلیت کش تشددکی دل خراش وارداتوں کے مناظردیکھنے کے بعد میں نے تہیہ کرلیاتھا کہ میں اس تشددکے بارے میں ریاستی حکومت اوراس کے پیروکاربی جے پی کیمپ کی اس گمراہ کن تشہیر کو بے نقاب کروں گا کہ یہ سنگ دلانہ واقعات ہندوؤں کے ’اچانک بھڑک اٹھنے والے جذبات اورغیرمربوط واقعات‘ کانتیجہ تھے۔
’پیش لفظ‘ میں مصنّف سپریم کورٹ کی قائم کردہ ایس آئی ٹی (خصوصی تحقیقاتی ٹیم) اور کانگریس کاذکر کرتے ہیں: ایس آئی ٹی نے گجرات پولیس کی بی ٹیم کی طرح کام کیا اورذکیہ جعفری کی شکایت میں نامزد تمام ۶۲ ملزمان کو اپنی طویل رپورٹ میں پروانۂ بے گناہی عطا کردیا… کانگریس پارٹی اوراس کی سربراہی میں مرکزی حکومت کم سے کم ان امیدوں اورتوقعات کو بالکل بھی پورا نہیں کر سکیں جو فساد زدگان اورحقوقِ انسانی کے کارکنوں کو ان سے تھیں… سماج وادی حکومت نے بھی یوپی پولیس کے ان اہلکاروں سے شہادتیں حاصل کرنے کےلیے کچھ نہیں کیا، جو فروری ۲۰۰۲ء میں گجرات سے آنے والے رام بھگتوں اورکارسیوکوں کے جتھوں کی ایودھیا سے واپسی کے دوران ان کے ساتھ بھیجے گئے تھے اورگودھرا میں ٹرین آتشزدگی کے چشم دیدگواہ تھے‘‘۔
کتاب کے پہلے باب میں آربی سری کمار نے فسادات کی منصوبہ بندی کی تفصیلات پیش کی ہیں کہ: کیسے مشترکہ آبادیوں میں ہندوؤں کے مکانات اوردیگر املاک کی شناخت کے لیے ان پر کسی دیوی دیوتا کی تصویر بنا دی گئی، یامورتی نصب کردی گئی یا’اوم‘اور’سواستیکا‘کا نشان بنادیاگیا،تاکہ ’سنگھ پریوار‘ کے فسادی آسانی سے مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنا سکیں۔
دوسرے باب میں گودھرا ٹرین سانحے اورفسادات کاتفصیلی ذکر کیا ہے کہ: ’’۲۸فروری ۲۰۰۲ء کو وہ محافظ دستے کے ساتھ احمدآباد کی اپنی رہایش گاہ سے گاندھی نگر اپنے دفتر جا رہے تھے، تب مسلح ہجوم مسلم مخالف نعرے لگا رہاتھا اورپولیس غیر فعال اورخاموش تماشائی بنی ہوئی تھی‘‘۔ اس باب کاایک اہم حصہ ڈی جی پی کے چکرورتی سے ملاقات کی تفصیل پر مشتمل ہے: ’’ڈی جی پی مسٹر چکرورتی نے یہ ذکر بھی کیاکہ گودھرا سے واپس لوٹ کر ۲۷فروری کی دیر شام وزیر اعلیٰ (نریندرمودی)نے اپنی رہایش گاہ پر اعلیٰ افسران کی ایک میٹنگ طلب کی، جس میں انھوں نے کہا کہ عام طور سے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران پولیس ہندوؤں اورمسلمانو ں کے خلاف برابر کارروائی کرتی ہے،اب یہ نہیں چلے گا،ہندوؤں کوغصہ نکالنے کاموقع دیا جائے‘‘۔
آربی سری کمار فسادات روکنے،مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے اورمجرموں وفسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق اپنی ان تدابیر وتجاویز کابھی ذکر کرتے ہیں، جن پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ چوتھے باب’گمراہ کن اطلاعات پر حق کی فتح‘میں چیف الیکشن کمشنر کے سامنے سرکاری دباؤمیں آئے بغیر، گجرات کی حقیقی صورتِ حال کی تفصیلات اورا س کے نتیجے میں اپنے خلاف سرکار کی انتقامی کارروائی کابھی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’۲۰۰۲ء کے فسادات میں حکام کے مجرمانہ کردار کی شہادت، جن تین آئی پی ایس افسران راقم، راہل شرمااورسنجیو بھٹ نے کھل کر دی تھی، وہ ابھی تک انتقامی عتاب جھیل رہے ہیں، جب کہ دوانسپکٹروں کے علاوہ کسی کے خلاف فسادات میں مجرمانہ کردار ادا کرنے کے معاملے میں نہ توجرمانہ عائد کیا گیا اورنہ کوئی محکمہ جاتی کارروائی ہوئی‘۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر ڈاکٹرآرکے راگھون کی سربراہی میں بنائی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی)کو وہ ’خصوصی مدافعتی ٹیم‘کہہ کر اس کی کارکردگی اور غیرجانب داری پر سوالیہ نشان اُٹھاتے ہیں: ’’ذکیہ جعفری کی شکایت پر ایس آئی ٹی کلووزر رپورٹ ۲۶دسمبر ۲۰۱۳ءکو منظور کی گئی۔ یہ رپورٹ نہایت ناقص اورکھوکھلی ہے‘‘۔ سری کمار کے مطابق: ’’ذکیہ جعفری کی شکایت میں وزیر اعلیٰ (نریندرمودی) اور۶۲ دیگر ملزمان کو نسل کشی کے جرائم اورفساد زدگان کے لیے انصاف کی راہ روکنے کی غرض سے کریمنل جسٹس سسٹم میں ہیرا پھیری کے الزام اوراپنی انتظامی اورقانونی ذمہ داری ادا نہ کرنے کی بابت جواب دہی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایس آئی ٹی نے دلائل کا جو حصار کھڑا کیا ہے،وہ انتہائی بودا ہے‘‘۔یہاں پر مصنّف نے کلووزررپورٹ کی خامیوں کو بھی فرداً فرداً گنوایا ہے۔
کتاب میں آربی سری کمار نے ایک بہت اہم اور بنیادی سوال اٹھایاہے؟’’۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کے چشم دید گواہ سکھ افسران نے، اور پھر۲۰۰۲ء کے گجرا ت قتل عام کے بعدمسلم افسروں واہل کاروں نے تفتیش کنندگان کے سامنے فساد کی سازش رچانے والے اور اس کا نفاذکرنے اورکرانے والے اعلیٰ سیاسی،انتظامی اورپولیس اہل کاروں کے خلاف سچی اور حقائق پر مبنی گواہی کیوں نہیں دی؟ وہ بتاتے ہیں: ’’چھے مسلم آئی اے ایس اورسات آئی پی ایس افسران دہلی کے سکھ افسران کی طرح اجتماعی کارپردازوں کے بارے میں قطعی خاموش رہے‘‘۔
ایک واقعہ،جو نروڈاپاٹیاقتل عام کاہے، اس کاسری کمار نے بڑا دل گداز ذکر کیاہے۔اسے پڑھ کر یہ سوال اٹھتاہے کہ صرف مایاکوڈنانی ہی کیوں، کیا وہ مسلم افسران بھی مجرم نہیں ہیں، جنھوں نے ’قتل عام‘کو ممکن ہونے دیا؟سری کمار تحریر کرتے ہیں: ۲۸فروری کی شام کے وقت جب میں آفس میں تھا، خورشید احمد(آئی پی ایس بیج نمبر۱۹۹۱)نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ تقریباً ۴۰۰مسلم خاندان جو فسادیوں کی زدپرہیں، سیجاپورکے محفوظ کمانڈہیڈکوارٹر میں پناہ مانگ رہے ہیں۔مسٹر خورشید اس کمانڈہیڈکوارٹر کے کمانڈنٹ تھے جو کہ نروڈاپاٹیا سے متصل ہے، جہاں اس روز شام تک ۹۶مسلمانوںکو قتل کیاگیا۔کمانڈہیڈکوارٹرمحفوظ چار دیواری کے اندرہے اورمحافظ اس کی حفاظت پر تعینات رہتے ہیں۔وہ ان عام باشندوں کو ایس آرپی بٹالین ہیڈکوارٹر میں داخل ہونے کے لیے واضح اجازت چاہتے تھے۔میں نے ان کو فوراًفیکس پر یہ ہدایت بھیج دی تھی کہ جو لوگ حفاظت کی خاطر اندرآناچاہتے ہیں انھیں آنے دیا جائے اوران کو خالی بیرکوں میں جگہ دے دی جائے۔ درحقیقت کمانڈنٹ مسٹرخورشید اوران کے نائب ڈی وائی ایس پی مسٹرقریشی ان مسلمانوں کو، جن کی جانیں یقینی طور سے خطرے میں تھیں کیمپ کے اندرداخل ہونے کی اجازت دینے کے جوکھم سے گھبرائے ہوئے تھے۔میں نے ان کو یقین واطمینان دلایا کہ: ’’میرے تحریری حکم پر عمل کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں آئے گا‘‘۔بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میرے تحریری حکم نامے کے باوجود کمانڈنٹ مسٹر خورشید احمد نے پناہ کے لیے منت سماجت کرتے بے سہارا، مظلوم اور نہتے مسلمانوں کو کیمپ میں داخلے کی اجازت نہیں دی تھی۔اطلاع یہ ہے کہ اس دن شام کو نروڈاپاٹیا میں جن ۹۶مسلمانوں کابہیمانہ قتل ہوا، یہ انھی میں سے تھے، جن کو کیمپ کے اندرپناہ دینے سے منع کردیاگیاتھا۔
بعد میں خورشید احمد سورت کے ڈپٹی کمشنر بنے۔ان کی اہلیہ شمیمہ(آئی اے ایس)ولساڈکی ضلع ڈویلپمنٹ افسراورسریندرنگرکی ضلع کلکٹربنیں۔اورڈپٹی کمانڈنٹ قریشی کو’امتیازی خدمات کے لیے صدرجمہوریہ ہند کا’پولس میڈل‘ملا۔اسی طرح دوسرے آئی پی ایس ،آئی اے سیداے ڈی جی پی بنائے گئے۔انھوں نے نریندر مودی کے لیے خوب کام کیا تھا اور پھر یہ بعد میں بی جے پی میں بھی شامل ہوئے۔ایک اورمسلم افسربعد میں مودی کے دفتر میں مشیر کے عہدے پر متمکن ہوئے۔
سری کمار نے ایسے ہی کئی اعلیٰ افسروں کے نام گنوائے ہیں، جنھیں فسادات کے دوران خون سے رنگے ہاتھوں ملزمان کو بچانے کے لیے ’انعام‘دیاگیا۔مزید ان افسران کے نام بھی گنوائے ہیں، جنھیں سچ بولنے پر سزا دی گئی۔ مصنف اپنے ذاتی مشاہدات اورسرکاری دستاویزات کو بطورثبوت استعمال کرکے ان چہروں کو بے نقاب کرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہوئے ہیں جو ’گجرات ۲۰۰۲ء‘ کے فسادات کے منصوبہ ساز بھی تھے اورسازشی بھی۔ان میں اعلیٰ سرکاری افسران ہیں،پولیس افسران ہیں اورچوٹی کے سیاست دان ہیں۔سری کمار کی یہ دستاویزی کتاب مقننہ اور عاملہ کے شرمناک گٹھ جوڑ کو اُجاگرکرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہے۔