انسان کی دنیاوی زندگی کو پانچ اَدوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: نومولودیت (infancy)، بچپنا (childhood)، بلوغت (adolescense)، جوانی (adulthood) اور بڑھاپا (old age)۔ زندگی کے ان تمام مراحل میں انسان اپنے آپ کو مختلف حالات سے لڑتا ہوا پاتا ہے۔ویسے بھی زندگی ایک جہدِ مسلسل کا نام ہے، چاہے وہ دودھ پیتا بچہ ہو یا کوئی نوجوان، ہر کسی کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے آس پاس کے ماحول سے کسی نہ کسی صورت میں نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ نومولود بچہ گھر کا چشم و چراغ ہوتا ہے۔ اُس کے ساتھ والدین اپنی زندگی کی بہت سی اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔ فطری جذبۂ اُلفت و محبت کے سایے میں وہ پروان چڑھتا ہے۔
تاہم، جب زندگی کے آخری مرحلے میں انسان پہنچتا ہے تو وہ عملاً نومولودیت کے عالم میں واپس جا پہنچتا ہے، جس کو ہم بڑھاپے کے نام سے جانتے ہیں۔انسانی زندگی کے سائیکل کا یہ ایسا مرحلہ ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ قرآن پاک میں بھی اسی چیز کا تذکرہ کچھ اس طرح سے کیا گیا؛’’اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمھاری پیدایش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمھیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمھیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا‘‘(الروم۳۰: ۵۴)۔ بڑھاپا ان تمام مراحل میں ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے، جس کو انسان نہ چاہتے ہوئے بھی آنے سے روک نہیں سکتا۔ انسان بہت ساری مشکلات سے دوچار ہوتاہے ۔ جسمانی ، نفسیاتی، سماجی اور مالی ، کسی نہ کسی صورت میں انسان دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ جسمانی سہارے اور مالی ضروریات کا وہ متلاشی ہوتا ہے۔ یہ کمی کسی نہ کسی صورت میں پوری ہونے کی سبیل بھی نکلتی ہے، لیکن نفسیاتی ضروریات کا زندگی کے اِس مرحلے میں شاذ ہی کسی کو احساس ہوتا ہے ۔ یہاں پر ہم کچھ بات سماجی و نفسیاتی ضروریات کے متعلق کریں گے۔
پچھلے سال کی بات ہے کہ ایک یورپی نوجوان جوے (Joe)نے بزرگوں کی سماجی و نفسیاتی ضروریات اور ان سے وابستہ حالات و کوائف کو سمجھنے کے لیے طے کیا کہ وہ پورے ایک ہفتے ایک ایسی جگہ پر گوشہ نشین ہو گا، جہاں اُسے نہ کسی سے بات کرنے کا موقع ملے اور نہ کسی سے ملنے جلنے کا۔ اس تجربے کا مقصد یہ تھا کہ ہم جو بزرگوں سے اتنے دور ہوتے جارہے ہیں کہ اُن سے اب بات کرنے کی بھی فرصت نہیں ہے، یہ دیکھا جائے کہ بزرگ حضرات اپنی زندگی کے یہ آخری ایام کن حالات و کوائف سے دوچار ہوکر گزارتے ہیں۔ اپنے اِس تجربے کے دوران انھوں نے ایک ایسے گھر کا انتخاب کیا جہاں پر کھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے لیے تو سب کچھ موجود ہے ، لیکن صرف انسان اور انسانی روابط نہیں ہیں، جن سے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں بات کر سکتا ہو۔ اس صورتِ حال میں رہتے ہوئے وقفے وقفے سے ایک ویڈیو بھی بناڈا لی، جس میں وہ بہت زیادہ گھبرایا ہوا نظر آتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ دیانت داری سے بتائوں، مجھے یہ تجربہ بہت مشکل لگ رہا ہے‘‘۔
اگلے دن جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو کہتا ہے کہـ’ ’جب میں صبح جاگا تو ہمیشہ اپنی عادت کے مطابق موبائل فون کو چیک کرنا چاہا، جو عام حالات میں نارمل ہوتاہے ، لیکن یہاں پر میرے پاس کوئی فون یا ذرائع ابلاغ مہیا نہیں ہیں، اس سے سخت مایوس ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ اصل معاملہ ہماری زندگیوں کو منضبط کرنے والی ٹکنالوجی کا نہیں ہے ، بلکہ انسانی رشتوں کا ہے۔ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ زندگی کی اصل غرض و غایت انسانوں کا باقی انسانوں کے ساتھ ایک رشتے کا احساس ہوتا ہے‘‘۔ یاد رہے ایک بڑے عالی شان بنگلے میں انسانوں کے بغیر ہر طرح کی آسایش کی چیز اِس نوجوان کو مہیا ہے۔ انھی حالات میں وہ اپنی ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں مزید کہہ رہا ہے کہ’ ’میں باہر کی دنیا میں رہنے والے لوگوں کی آوازیں سن سکتا ہوں ، جو کہ اپنے دن کے کام کا آغاز کرنے کے لیے اپنے اپنے مقامات کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ مجھے یہ چیز بہت کھٹک رہی ہے کہ لوگ باہر کی دنیا میں کام کر رہے ہیں اور میں یہاں اکیلا پڑا ہوں‘‘۔
اگلی رات آتے وقت مذکورہ نوجوان کہتا ہے کہ ’’مجھے لگتا ہے مجھے سونا چاہے ، کیوں کہ میرے لیے دن کا نہ کوئی آغاز ہوتا ہے اورنہ کوئی اختتام، بس بیٹھا رہتا ہوں کچھ بھی کام نہ کرتے ہوئے‘‘۔ اگلے دن صوفے پر بیٹھے مذکورہ نوجوان کہتا ہے کہ’’ بس میں اپنی زندگی کے ایام گن رہا ہوں۔ میں انسان نما مشین(robot) میں تبدیل ہو چکا ہوں۔ اب، جب کہ میں یہاں پر کوئی کام کیے بغیر اور کسی انسانی رابطے کے بغیر اپنی زندگی ایک مشین کی طرح جی رہا ہوں، تو غیر ضروری خیالات کا ہجوم میرے دماغ میں یلغار کرتا ہے جو پھر میرے لیے ایک نہ بیان کرنے والی پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں‘‘۔
ایک ہفتے تنہائی میں گزارنے کے بعد جب جوئے کو باہر کی دنیا میں لے جایا گیا تو اس سے ایک بزرگ نے پوچھا کہ: ’’کیا لگ رہا ہے اب آپ کو ایک ہفتہ کسی انسانی رشتے یا سماجی رابطے کے بغیر زندگی جینے میں ؟‘‘ جس کے جواب میں اس نوجوان نے کہا:’’ میں اپنے آپ کو خوش رکھنے کے لیے بہت زیادہ کوشش کر نے کے بعد بھی خوش نہ رکھ سکا اور میرے اندر ایسی نفسیات پیدا ہوگئی، جس سے مجھے احساس ہو ا کہ مجھ جیسا فرد اکیلا،تن تنہا اور الگ چھوڑ دیا گیا ہے، اور میرا اِس دنیا میں زندہ رہتے ہوئے بھی کوئی وجود نہیں ہے‘‘۔اس کے بعد بزرگ مذکورہ نوجوان سے کہتے ہیں کہ:ـ’’ ڈھائی سال پہلے میری بیوی کا انتقال ہوا، جس کے بعد میرے پاس کوئی بھی، ہمسایہ، رشتہ دار ، دوست، حتیٰ کہ کوئی انسان تک نہیں آیا، جس سے کہ میں باتیں کرتا ، اپنے دکھڑے سناتا، حالاںکہ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ دنیا میں آئے ہوئے ہر ایک انسان کو بڑھاپے کا یہ مرحلہ پار کرتے ہوئے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے‘‘۔
پوری دنیا میں ہمارے بزرگ حضرات مختلف حالات سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ہرکوئی انھیں بوڑھا سمجھ کر ان کی سنی اَن سنی کر رہا ہے۔’ ’اس کے نتیجے میں بے چارے بوڑھے پتا نہیں آخر میں کیا کیا بہانے بھی گھڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی بیماری کا بہانہ بناتے ہیں، نئے نئے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں، اور جو آجائے اُس سے پورا پورا دن مغز کھپائی کرتے رہتے ہیں کہ کہیں مختصر بات کے بعد وہ چلا نہ جائے‘‘۔ سمجھنے والی بات ہے کہ کیا وجہ ہے کہ بزرگ حضرات ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں اور جس کے جواب میںہمارا رویہ اُن کے ساتھ مردم بے زاری کا کیوں ہوتا ہے؟ کوئی بھی مسئلہ بذاتِ خود جنم نہیں لیتا ہے، بلکہ اُسے مختلف پہلو جنم دیتے ہیں۔ یہی حال بزرگوں کے اِس رویے کاہے۔
جیسا کہ اوپر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں انسان بچے کی طرح بن جاتا ہے اور عادات و اطوار بھی بچوں کی طرح ہوجاتے ہیں۔ جس کی صرف ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ بڑھاپے میں انسان کو بالکل بچے کی طر ح دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، لامحالہ ہمیں بھی اُن کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی ضرورت ہے۔بیماری خود بخود کسی انسان کو گلے نہیں لگالیتی۔ پہلے اُس کی آمد کے لیے انتظامات کیے جاتے ہیں، بزرگوں کو معاشرے سے الگ سمجھا جاتا ہے، اُن سے کسی کو بات کرنے کی فرصت نہیں ہوتی، اُن کی ضروریات کی کوئی قدر نہیں کی جاتی، نتیجتاً وہ اُن بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جنھیں ہم جیسے بھاگتے پھرتے جوان اُن کی ’بہانہ سازی‘ قرار دیتے یا سمجھتے ہیں۔ ٹکنالوجی سے منضبط موجودہ دور کے انسان کے پاس اپنی آسایش و آسانی کے لیے تو بہت سے آلات موجود ہیں، لیکن یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ ٹکنالوجی کبھی انسان اور انسانی رشتے کی جگہ نہیں لے سکتی۔ نہ صرف اپنے بزرگ والدین کو بلکہ دنیا کے کسی بھی انسان کو اگر رشتے کے احساس سے محروم رکھا جائے، تو وہ دولت یا سہولیات کی فراہمی کے باوجود ایک نیم مُردہ لاش کی طرح بن کر رہ جائے گا۔ بزرگ حضرات کے لیے انسانی رشتوں کا یہ مرہم بدرجہ اُتم اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اپنے لاڈلے بچے کے لیے انسان اِس امید کے ساتھ کہ یہ بچہ زندگی کے آخری مرحلے میںمیرا سہارا بن جائے گا اپنی راتوں کی نیندیں حرام کر سکتا ہے، تو کیا وجہ ہے والدین کے انھی جیسے احسانات کو بھلا کر ہم اُن کی سماجی و نفسانی ضروریات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے؟
عالمی تنظیم براے صحت (WHO)کے مطابق دنیا بھر میں ۲۰ فی صد سے زیادہ بزرگ لوگ کسی نہ کسی شدید ذہنی پریشانی میںمبتلا ہیں۔ ۶ء۶ فی صد بزرگ صرف اور صرف اس وجہ سے جسمانی طور ناکارہ ہوچکے ہیں، کہ وہ نفسیاتی الجھنوں میں جکڑے گئے ہیں۔نفسیانی بیماریوں میں سب سے زیادہ عام بیماری بھولنے کی ہے ، جسے dementia کی اصطلاح سے جانا جاتا ہے اور جس نے بزرگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق بزرگوں کی طرف سے شکایت کردہ تکالیف کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ہم اُن کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے ہیں۔ نرم گوشہ بالکل ایسا ہی ہے، جیسے ہم بچوں کو اکیلا اور تن تنہا نہیں چھوڑتے ہیں، اور قدم قدم پر انھیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ کوئی ان سے بہت سارا پیار کرتا ہے اور اُن کی ضروریات کا خیال بھی رکھتا ہے۔
اب اگر اپنے بچے کے لیے انسان اتنی ساری مصیبتیں اٹھاتا ہے، تو موجودہ دور کے معاشرے کے اس دور کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنے بزرگ والدین کے بے پناہ احسانات کے باوجود ہم انھیں اپنے لیے بوجھ سمجھ رہے ہیں؟ایک تحقیق کے مطابق بڑھاپے میں بھولنے کی بیماری (dementia) کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ کسی بوڑھے انسان سے اگر دن میں محض اس کے بچے ایک گھنٹے تک اس کے پاس بیٹھ کر دو چار باتیں کرلیں اور سن لیں تو ممکنہ حد تک بھولنے کی بیماری کو روکا جاسکتا ہے۔ گھر کے اندر داخل ہونے کے بعد اگر ان سے بھی سلام دُعا ہوجائے ، ان کو بھی اس بات کا احساس دلایا جائے کہ کوئی اُن کی بھی عزت کرتا ہے، انھیں کوئی اضافی چیز نہیں سمجھتا، انھیں بھی اپنے معاشرے کا نہایت اہم حصہ تصور کرتا اور سمجھتا ہے ، تو نہ کسی بیماری پر زیادہ پیسے خرچ کرنے کی ضرورت پڑے گی، اور نہ گھر کا ماحول دگرگوں ہونے کا خطرہ پیدا ہوگا۔ اتنا ہی نہیں آخرت کے اندر بھی اس عمل کے بدلے جنت کے انعام کے ملنے کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، بھلا اُن سے بڑھ کر اور کون سچا ہوسکتا ہے؟