ہر زمانے کے اپنے وسائل اور اپنے مسائل ہوتے ہیں، لیکن بنیادی قدروں میں ردوبدل نہیں ہوتا۔ ہمارے اس عہد میںسوشل میڈیا ایک نیا وسیلۂ ابلاغ وخبر ہے۔ اس وسیلے سے وابستہ جس کلچر نے جنم لیا ہے اسے ہم ’منقول کلچر‘ کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اپنے طور پر کوئی چیز لکھنے یا تشکیل کرنے سے زیادہ، دوسروں کی چیزوں کو نقل کرنے کا کلچر۔
منقول کلچر کا جو رُوپ ہمارے سامنے آیا ہے، اس میں دو خرابیاں حددرجہ ہیں:ایک یہ کہ ہمیں خبر، پوسٹ یا تحریر کے مصنف کا علم نہیں ہوتا کہ جس کی بنیاد پر اس کے جعلی یا غلط ہونے کی صورت میں مواخذہ کیا جاسکے۔ اس کمی کے باعث احتساب یا اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔ دوسرے، تحریر کے خالق کو اس کے حق سے محروم کر دینا بھی بڑی زیادتی کی بات ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر یہ کلچر بہت عام ہو گیا ہے کہ لوگ مصنف کا نام دینے کے بجائے ’منقول‘ لکھ دیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اخلاقی ذمہ داری پوری ہو گئی۔ اکثر ایسی پوسٹس یا پورے پورے مضامین فیس بک اور واٹس اَیپ پر نظر آتے ہیں، جو بہت محنت سے لکھے گئے ہوتے ہیں لیکن مصنف کا نام موجود نہیں ہوتا۔ اگر بھیجنے والے سے پوچھا جائے کہ یہ کس نے بھیجا ہے؟ تو وہ کہتا ہے ہمیں خود کسی نے فارورڈ کیا تھا۔ اچھا لگا تو ہم نے آگے بڑھا دیا۔ سوشل میڈیا پر رائج اس رواج اور چلن کو ہم ’منقول کلچر‘ کا نام دیں گے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ مصنف کے نام کے بجاے ’منقول‘ لکھ دینے سے وہ ’فکری ملکیت‘ (Intellectual property) کی چوری کے اخلاقی جرم سے بری ہو جاتے ہیں۔ حالاںکہ چوری چوری ہوتی ہے چاہے وہ مفاد عامہ کے لیے مخلصانہ نیت سے ہی کیوں نہ ہو۔ ’منقول‘ کا یہ استثنا صرف اس صورت ممکن العمل ہے، جب تحریر کی اشاعت ناگزیر ہو اور مصنف کا نام معلوم ہونے کا کوئی طریقہ نہ ہو۔ مثلاً تحریر ماضی بعید میں لکھی گئی ہو اور کسی وجہ سے سر ورق یا مصنف کا نام پڑھا جانا ممکن نہ ہو۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ پورا پورا مضمون کاپی کر کے بڑے خلوص سے مصنف کے نام کی جگہ ’منقول‘ لکھ کر پوسٹ کو پھیلا دیا جاتا ہے اور چوںکہ پھیلانے والے کا ذوق بہت اچھا یا سنسنی خیز ہوتا ہے تو پیغام (post) عام (viral) ہو جاتا ہے، لیکن مصنف اپنے استحقاق سے محروم ہو جاتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’کوئی فاسق [گناہ گار ] تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘‘ (الحجرات ۴۹:۶)۔اب سوال یہ ہے کہ ’منقول پوسٹ‘ میں تو خبر لانے والے کا نام ہی نہیں معلوم ہوتا۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ اس کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکے۔ جہاں تک کاپی رائٹس کا تعلق ہے، تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں یہ ایک حق ہے کہ کسی قسم کے آرٹ (تحریریں، موسیقی، مجسمہ سازی، نقاشی و صورت گری، آرٹ کی تعریف میں شامل ہیں) کی تخلیق کرنے والا اس کی اشاعت سے متعلق فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے، یعنی اس کے نام سے شائع ہونے کی صورت میں بھی اس کی اجازت لینا ضروری ہے، اِلّا یہ کہ ٹیکسٹ کی تھوڑی بہت مقدار کاپی کی جائے یا مصنف نے خود استعمال کی اجازت دی ہو۔ اس پس منظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی کیا یہ قوانین لاگو ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس معاملے کی بہت سی باریکیاں ہے، جنھیں سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ پھر بھی ہم سوشل میڈیا پر اس کی خلاف ورزی سے متعلق کچھ بنیادی باتوں کو زیر بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مصنف کا نام پوسٹ (پیغام) پر نہ ہونے کے نقصان کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ شہرقصور میں بچی زینب کے قتل کے سلسلے میں ایک معروف اینکرپرسن کے انکشافات سے پہلے ڈارک ویب کے حوالے سے ایک پوسٹ راقمہ کو بغیر نام کے موصول ہوئی۔ تحریر بہت پختہ، مربوط اور دلائل سے بھر پور تھی جس میں مصنف نے مالی پیش قدمی، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر ڈیٹا ٹریفک کی جانچ کے ذریعے تفتیش کی بہت معقول تجاویز پیش کی تھیں، جن پر عمل سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی تھی کہ واقعی اس قتل کا تعلق چائلڈ پورنوگرافی کے انٹرنیشنل مافیا سے ہے یا نہیں۔ قصور میں پہلے بھی اس نوعیت کا ایک گھناؤنا اور رُسوا کن جنجال (اسکینڈل) سامنے آچکا تھا، اس لیے اگر ایسا ہوتا تو یہ کوئی اچنبھا شمار نہ ہوتا۔ انٹرنیٹ کے آغاز سے ہی (بلکہ اس سے پہلے بھی) بہت سے ممالک میں ایسے گروہ پکڑے جاچکے ہیں، جو بچوں کے ساتھ بد فعلی کرکے ان کی ویڈیوز بناکر انھیں مختلف طریقوں سے مارکیٹ کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ لیکن تحریر پر نام نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اس روایت (اسٹوری) کو آگے منتقل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
چند دن بعد ’دلیل‘ نامی آن لائن نیوز آؤٹ لیٹ پرایک صحافی جمیل فاروقی کی اس سے ملتی جلتی تحریر سامنے آئی۔ چونکہ صحافی کا نام موجود تھا اور ’دلیل‘ ایک قابل اعتماد آن لائن اخبار ہے، اس لیے میں نے اسے اپنے فیس بک پیج پر بغیر کسی تبصرے کے پیش کیا۔ کچھ ہی دیر بعد لندن میں مقیم میری ایک کالم نگار دوست کا اعتراض سامنے آیا کہ: اس روایت کردہ مضمون میں جس ہندستانی لڑکی رادھا کی کہانی بیان کی گئی ہے، اس کا ذکر انٹرنیٹ پر کہیں موجود نہیں۔ میں نے گوگل سے تصدیق کی تو ان کی بات صحیح نکلی۔ ایسے کسی کیس کا تذکرہ ہندستانی اخبارات میں موجود نہیں تھا۔ اب چوںکہ آن لائن ’دلیل‘ اور مصنف ذمہ دار تھے، اس لیے میں نے پوسٹ حذف کرنے کے بجاے ’دلیل‘ کو تبصرہ (کمنٹ) بھیج دیا۔ ’دلیل‘ کے ایڈیٹر نے فوراً اس کا جواب دیا کہ: ’یہ صحافی ٹی وی پر اوریا مقبول کے ساتھ پروگرام کرتے ہیں اور مستند صحافی ہیں۔ ان سے پوچھ لیتے ہیں۔ اگرچہ جواب تاحال موصول نہیں ہوا۔ ان شاء اللہ خبر کے غلط یا صحیح ہونے کی صورت میں سچ سامنے آ جائے گا، بلکہ معروف اینکرپرسن ڈاکٹر شاہدمسعود کم از کم عدالت کے سامنے جواب دہ ہوئے اور یوں ثبوت فراہم نہ کرپانے کی صورت میں ڈیڑھ دو ماہ میں سچ سامنے آ گیا۔ اگر یہی پوسٹ ’منقول‘ ہوتی تو ہم کسی کا مواخذہ کرنے کے بجاے صرف ہوا میں تیر تکّے چلاتے رہتے اور بہت سے لوگ اس پر یقین کرتے بلکہ کر رہے تھے۔ ایسی جعلی خبروں سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔ ایک عام آدمی کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے۔ وہ مایوسی میں بہتر فیصلہ کرنے کی اہلیت کھو دیتا ہے۔
اسی دوران مجھے ڈارک ویب کے بارے میں برکت علی برق صاحب کی ایک تحریر واٹس ایپ پر موصول ہوئی۔ تحریر میں ڈارک ویب سے متعلق جتنے تشویشناک قصے سنائے اور دعوے کیے گئے تھے ان میں سے کسی کے ماخذ (source) کا حوالہ موجود نہیں تھا۔ اب اس کا فیصلہ قاری کرسکتے ہیں کہ بھلا ایسی کسی تحریر پر ہمیں کتنا بھروسا کرنا چاہیے؟
برکت علی برق نامی مصنف کی بظاہر معقول، مگر دی گئی معلومات ماخذ کے بغیر تحریر کسی اخبار یا رسالے میں کیوں نہ آئی اور صرف سوشل میڈیا پر کیوں گردش کر رہی ہے؟ اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رہے کہ سوشل میڈیا پر باقاعدہ ایجنڈے کے تحت با معاوضہ کام کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ان لکھاریوں کی مالی مدد کون کرتا ہے، اور مالی معاونت کرنے والوں کے مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔
کچھ لوگ ایمان کی حد تک ان روایات اور تحریروں پر یقین کرلیتے ہیں، جو ان کا پسندیدہ صحافی یا پسندیدہ فیس بک لکھاری سامنے لے کر آئے۔ ایک عام آدمی کو یہ آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے کہ آپ کا پسندیدہ اینکر ہو یا سوشل میڈیا کی کوئی پوسٹ، اگر یہ فرد ماخذ کا حوالہ اپنے مضمون میں نہیں دے رہا تو ایسی خبر بظاہر کتنی ہی کارآمد اور اچھی کیوں نہ ہو، اسے مسترد کر دیں۔ استثنا صرف اس صورت میں ہے جب کوئی معقول وجہ موجود ہو۔
عملی سطح پر صورت حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دانش وروں ،یہاں تک کہ صحافیوں تک سے یہ بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ:’’ اگر خبر پر نام موجود نہ ہو تو ’منقول ‘کہہ کر آگے پھیلادینے میں کیا حرج ہے؟ ہمیں بھی تو کسی نے فارورڈ کی تھی۔ اصل میں میسج بہت اچھا ہے تو سوچا اس کو اپنی حد تک محدود (hold)رکھنے کا کیا فائدہ؟ اس لیے ’منقول‘ لکھ کر آگے پھیلا دیتے ہیں‘‘۔ بظاہر یہ ایک معقول دلیل ہے کہ کسی چیز کا فائدہ زیادہ ہو اور نقصان کم، تو اسے اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن کیا واقعی فائدہ زیادہ ہے؟ یا اس اصول کو چھوڑ دینے کے نتیجے میں ہم جعلی خبروں اور پوسٹوں کی حوصلہ افزائی کرکے معلومات رسانی کے نام پر جھوٹ، انتشار، غیبت اور تہمت لگانے کا کام کر رہے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ، مولانا رومیؒ، یہاں تک کہ صلاح الدین ایوبی ؒ تک سے جو دل چاہتا ہے منسوب کردیا جاتا ہے اور کہلوا لیا جاتا ہے۔ اگر ماخذ کے بارے میں پوچھا جائے تو اچھے خاصے پڑھے لکھ لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ: ’کیا ہوا اگر مولانا رومی کا قول نہیں، قول تو اچھا ہے‘۔ گویا کہ ایسے اقوال مارکیٹ میں لانے والے اپنے آپ کو مولانا رومی سے زیادہ سمجھ دار سمجھتے ہیں۔ کسی عام مرے ہوئے شخص کے منہ سے بھی اپنی مرضی کی بات کہلوانا انتہائی قبیح طرزِ عمل ہے۔ اس لیے ہمیشہ ریفرنس اور ماخذ پر اصرار کریں، اور یہ نہ سمجھیں کہ ’منقول کلچر‘ میں سب جائز ہے۔
کیا کوئی اچھی ’منقول‘ یا نامعلوم پوسٹ نظر آنے سے ہم پر یہ واجب ہو جاتا ہے کہ ہم اسے آگے پیغام در پیغام کریں؟ حالاں کہ اسے آگے پھیلانا اخلاقی اصولوں کے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت بھی ممنوع ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی تیس شقوں میں سے ایک کاپی رائٹس (جملہ حقوق محفوظ)سے متعلق ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں کاپی رائٹس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ یعنی زندہ رہنے کے حق، ملکیتی حق اور انصاف کے حق کے ساتھ کاپی رائٹس کو چارٹر میں شامل کیا گیا ہے۔
ہم میں سے کتنے لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ مال کی طرح تخلیق بھی جایداد میں شمار ہوتی ہے، اور تخلیقی ملکیت کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں ،اور آپ کسی کا ایک جملہ بھی اگر نقل کرتے ہیں تو آپ اخلاقی اور قانونی طور پر اس کا نام، یعنی ریفرنس دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
ہمارا عذر یہ ہوتا ہے کہ ’’کیا ہوا اگر ہم نے پبلک کے فائدے کے لیے آگے شیئر کر دیا تو۔ اسی لیے تو لکھا تھا اس نے، اور ہمیں تو خود فارورڈ کیا تھا کسی نے‘‘۔پہلی بات تو یہ کہ ’عذر گناہ بد تر از گناہ است‘ والی بات ہے۔ چوری چاہے اپنے فائدے کے لیے ہو یا پبلک کے فائدے کے لیے چوری ہی ہوتی ہے۔ اور آپ چاہے چیز کسی کے گھر سے چرائیں یا سڑک پر پڑی ہو اُٹھا لیں اور اسے بغیر تحقیق کیے فلاح کے واسطے بانٹنا شروع کر دیں تو وہ چوری ہی رہے گی۔
علمی دنیا اور صحافت کا ایک مروجہ اصول یہ بھی ہے کہ ایک جملہ بھی پرنٹ یا انٹرنیٹ پر آنے کے بعد بائی ڈیفالٹ کاپی رائٹ ہو جاتا ہے۔ حوالے کے ساتھ بھی ایک دو جملوں سے زیادہ کاپی کرنے سے پہلے مصنف سے اجازت لیں اور حوالہ اور لنک ضرور دیں۔ سوشل میڈیا پر چوںکہ اکثر سائٹس پہ شیئر کی سہولت (آپشن) موجود ہوتا ہے تو اس بٹن کو دبا کر مشینی طور پر شیئر کرنے کی بائی ڈیفالٹ اجازت ہے۔ اگر اسی پوسٹ یا تحریر کو آپ ’کاٹ جوڑ‘ کر کسی وجہ سے اپنی وال، سائٹ یا صفحے پر ڈالنا چاہتے ہیں، مثلاً کسی چھپے ہوے مضمون کے کچھ جملے آپ ٹیکسٹ کی صورت تعارف کے لیے شیئر کرنا چاہتے ہیں، تو یاد رہے یہ جملے تعداد میں اتنے نہیں ہونے چاہییں کے کوئی ان کو پڑھنے کے بعد مضمون پڑھنے کی زحمت ہی نہ کرنا چاہے۔ مضمون کا لنک شامل ہونا چاہیے، تاکہ جو بندہ پورا مضمون پڑھنا چاہے، اسے وہاں وہ پڑھ سکے۔ اگر کسی کتاب کے جملے نقل کیے گئے ہیں تو وہ بھی اتنی تعداد میں نہیں ہونے چاہییں کہ آپ پوری کتاب ہی بیان کر دیں۔ کتاب اور مصنف اور ہو سکے تو پبلشر کا نام بھی دیں، تاکہ اگر کوئی خرید کر کتاب پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے۔
ہمارے ہاں علمی یا ’فکری ملکیت‘ کے حقوق سے عموماً لوگ واقف نہیں ہیں۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض دینی حلقوں میں مصنفین انکسار کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنا نام تحریر کے آخر میں لکھتے ہیں۔ یہ طریقہ اصولی طور پر سراسر غلط ہے۔ کتاب پر مصنف کا نام ہمیشہ سر ورق پر ہوتا ہے، کبھی آخری صفحہ یا پشت پر نہیں ہوتا۔ نام آخر میں لکھنا بھی چوروں کی حوصلہ افزائی کا با عث بنتا ہے۔ بہت لمبی پوسٹ میں ویسے بھی لوگ نیچے جا کر مصنف کا نام پڑھنے کی زحمت کم ہی کرتے ہیں۔
ایک اور تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ: ’’کیا ہو گیا اگر کسی کی تحریر اس کی اجازت اور نام کے بغیر ہم نے پبلک میں شیئر کر دی ہے۔ تحریر کا مقصد تو یہی تھا کہ لوگ اسے پڑھیں اور وہ پورا ہوگیا۔ الله مصنف کو اور شیئر کرنے والے کو جزا دے‘‘۔ یہ سب ہماری عمومی سوچ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ایک ہزار روپے کے جوتے کی قدر و قیمت کا تو احساس ہے۔ اسی لیے ہم اسے مسجد سے چرانے والے کو بُرا سمجھتے ہیں، مگر ہمیں کسی کی گھنٹوں یا ہفتوں یا چند برسوں کی دماغ سوزی اور محنت سے لکھے گئے مضمون کی قدر نہیں۔ بقول شخصے جن قوموں کی نظر میں جوتے کی اہمیت ہو اور دانش وَر یا لکھاری کی محنت کی نہیں، اسے اسی طرح جوتے پڑنے چاہیں جیسے آج ہر طرف سے پڑرہے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں گنتی کے لکھاریوں کو اپنی تحریروں کا معاوضہ ملتا ہے، وہاں مصنف سے اس کی تخلیق کے حقوق اور ملکیتی حق بھی چھین لینا ظلم ہے۔ لیکن ٹھیریں قصور صرف نام حذف کر کے’ منقول‘ لکھنے والے کا نہیں۔ اس کا بھی ہے جو نامعلوم پوسٹ ملنے پر ’منقول‘ لگا کر اپنی ذمہ داری سے بری ہوتا ہے، اور ہر اس فرد کا بھی جو ان نا معلوم اور ’منقول‘ پوسٹوں کو آگے شیئر کرتا ہے۔
اس طرح اچھے پیغام (message) کو چند ناظرین(viewers) کے لیے ہم چوری شدہ پیغام کو (جس میں مصنف کا نام نکال دیا ہوتا ہے)آگے روانہ کرکے، اخلاقی سطح پر ایک غلط حرکت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ایسی ہر پوسٹ کے عام (وائرل) ہونے سے چور کے حوصلے بڑھتے ہیں اور اس اچھی پوسٹ یا مضمون کے اصل مصنف کی حق تلفی ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بے چارے چور صاحب یا صاحبہ کو معلوم بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی غلط کام کرتے ہیں۔ وہ تو اپنی دانست میں نیکی کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔
دل چسپ بات یہ کہ جب میں نے اپنی فیس بک کی ٹائم لائن پر ’منقول کلچر‘ کے خلاف اسٹیکرز (چھوٹے چھوٹے پیغامات)کے ذریعے آگاہی دینا چاہی توایک خاتون کے علاوہ جو کسی غیرملکی یونی ورسٹی میں اُردو پڑھاتی ہیں، کسی نے اس اصول کو قبول نہیں کیا۔ عام طور سے سیکڑوں فالوور رکھنے والے پڑھے لکھے خواتین اور حضرات کا خیال تھا کہ اپنے نام سے، کسی دوسرے کی پوسٹ شیئر کرنا تو اخلاقی لحاظ سے غلط ہے مگر اگر نام نہیں معلوم تو کیا کریں؟ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ ایسی پوسٹ کو شیئر کرنا یا فارورڈ نہ کرنے سے کون سا فرض رہ جاتا ہے کہ چوری کو مباح کر لیا جائے؟
ایک صاحب جو بیرون ملک کسی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے، ان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ: ’’اگر معروف مصنف کا لکھا ہوا مضمون ہے تو نام ضرور دینا چاہیے‘‘۔ گویا غیر معروف مصنف کی پوسٹ یا تحریر استعمال کرنا جائز ہے۔ بعد میں بحث کے بعد وہ تھوڑے بہت قائل ہوئے تو بھی ان کا کہنا تھا:’’ ’منقول‘ لکھ دینا بھی اچھی خاصی احتیاطی تدبیر ہے۔کم از کم لوگ پوسٹ پر اپنا نام تو نہیں لکھ رہے۔ پہلے معاشرے کو اس کا عادی ہونے دیں پھر مزید اصول بتائیں‘‘۔
حد یہ ہے کہ حدیث کی تدوین کرنے والے اوّلین محدثین کا واسطہ دے کر بھی سمجھانے کی کوشش کی، کہ حوالے اور سند کے اصول سے تو دنیا کو روشناس ہی ہمارے بزرگوں نے کیا ہے، اور ہم ہی وہ قوم ہیں جسے نہیں معلوم کے حوالہ کسے کہتے ہیں اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ مگر سوئی وہیں اٹکی رہی کہ اگر نام نہیں معلوم تو آخر کیا کریں۔
یہ بھی سمجھایا کہ جب پوسٹ بنانے والے کا نام نہیں ہوگا تو جھوٹی خبر، غلط روایت، تاریخی واقعہ یا افواہ پر کسی کا بھی محاسبہ نہیں ہو سکے گا، مگر یہ کلچر اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ اس کے مقابلے میں قرآن و سنت کے حوالے بھی ناکام ہیں۔
دنیا میں ہمیشہ علمی، تخلیقی اور تحریری کاموں پر تخلیق کار کا نام تحریر کیا جاتا رہا ہے اور مسلمانوں نے خاص طور پر اس قدر کو رواج دیا۔ اگر یہ نہ کرتے تو آج نہ ہمیں الجامع الصحیح پر امام بخاری کا نام ملتا اور نہ تفسیر ابن کثیر پر ابن کثیر کا اور ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا ممکن نہ ہوتا کہ مستند اورغیر مستند کتب کون سی ہیں۔ اگرآپ بخاری سے کوئی حدیث پڑھیں تو آپ کو روایت کی پوری لڑی نظر آئے گی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے حدیث ہم تک کیسے پہنچی۔ دراصل یہ اصول آج بھی تحقیق کی دنیا میں رائج ہے کہ آپ اپنے تحقیقی مقالے میں ماخذ کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔ یہی اصول صحافت میں بھی رائج ہے اور شفافیت (ٹرانسپیرنسی) کہلاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں، بڑے پیمانے پر لوگ خبر بنانے اور اسے پھیلانے میں شریک ہیں، اوروہ بھی اکثر بے سوچے سمجھے۔ ایک عام شہری کو ہی نہیں، اسکول کے بچے کو بھی ذمہ دارصحافت کے اصولوں کی تربیت دینا آج کی اہم ضرورت ہے کہ غیر ذمہ دار صحافت فرد کے ساتھ ریاست اور معاشرے کو بھی کمزور کرتی ہے۔ اسی لیے دین اسلام نے چودہ سو سال پہلے اس کے اصول متعین کر دیےتھے کہ معاشرہ فکری بے راہ روی اور معلوماتی انتشار کا شکار نہ ہو۔